اللہ کی رسی سے مقصود و مراد.docx

  • Uploaded by: Samina Nasir
  • 0
  • 0
  • April 2020
  • PDF

This document was uploaded by user and they confirmed that they have the permission to share it. If you are author or own the copyright of this book, please report to us by using this DMCA report form. Report DMCA


Overview

Download & View اللہ کی رسی سے مقصود و مراد.docx as PDF for free.

More details

  • Words: 12,559
  • Pages: 21
‫ہللا کی رسی سے مقصود و مراد؟ ‪ :‬سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ مضبوطی سے تھام لو‬ ‫ہللا کی رسی کو ۔ یعنی اس کے دین‪ ،‬اور اس کی شریعت کو‪ ،‬جو کہ عبارت ہے ہللا کی‬ ‫کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے‪ ،‬جس کے بارے میں آنحضرت (صلی ہللا علیہ‬ ‫وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو ایسی عظیم الشان چیزیں چھوڑ کر جا‬ ‫رہا ہوں کہ تم نے جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھا‪ ،‬تم کبھی گمراہ نہیں ہوؤ گے‬ ‫۔ ایک ہللا کی کتاب اور ایک میری سنت۔ سو ان دونوں کو اپنی ڈاڑھوں سے اور مضبوطی‬ ‫کے ساتھ پکڑ لو ۔ اسی طرح جن حضرات نے حبل ہللا سے ہللا کا عہد مراد لیا ہے‪ ،‬جیسا‬ ‫ّٰللا َو َح ْب ٍل ِ ِّمنَ النااس }تو وہ‬ ‫کہ آل عمران کی آیت نمبر ‪ 211‬میں ارشاد فرمایا گیا{ا اَِّل ِب َح ْب ٍل ِ ِّمنَ ہ‬ ‫بھی اسی میں داخل ہے۔ یعنی ہللا کے دین اور اس کی شریعت کے عموم میں ۔ کیونکہ آل‬ ‫عمران کی اس آیت شریفہ میں بھی ہللا کے عہد سے مراد اس کا دین‪ ،‬اور اس کی شریعت‬ ‫تعالی ‪ -‬کے دین و شریعت اور اس کی کتاب سے تمسک کو‬ ‫ہی ہے۔ اور ہللا پاک‪ -‬سبحانہ و‬ ‫ٰ‬ ‫" حبل ہللا " یعنی ہللا کی رسی سے تمسک و اعتصام کے ساتھ تعبیر فرمانے میں یہ بالغت‬ ‫ہے کہ جس طرح مضبوط رسی کو مضبوطی سے پکڑنے واَّل ہالکت کے گڑھے میں‬ ‫گرنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اسی طرح ہللا پاک کی اس رسی کو مضبوطی سے پکڑنے‬ ‫واَّل ہالکت و تباہی کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت‬ ‫میں بھی۔ پھر ہللا پاک کی یہ رسی اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے ٹوٹنے کا کوئی خطرہ‬ ‫ہی نہیں ۔ یہ چھوٹ تو سکتی ہے ‪ -‬والعیاذ باہلل ‪ -‬مگر ٹوٹ نہیں سکتی‪ ،‬جیسا کہ دوسرے‬ ‫ک ْ‬ ‫ا‬ ‫بالطا ُ‬ ‫بالعُ ْر َوۃ‬ ‫مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا {فَ َم ْن یا ْکفُ ْر‬ ‫غ ْوت َویُؤْ ِم ْن ہ‬ ‫س َ‬ ‫باّٰلل فَقَد اِ ْست َ ْم َ‬ ‫ام لَ َہا ٰ‬ ‫}اَّلیۃ (البقرۃ‪ - )256 :‬وباہلل التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید‬ ‫ْال ُوثْ ٰقی ََّل ا ْن ِف َ‬ ‫ص َ‬ ‫‬‫‪212‬تفرق و انتشار سے ممانعت ‪ :‬سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپس میں مختلف ٹکڑیوں میں‬ ‫نہیں بٹ جانا کہ ہللا کی رسی کو چھوڑ کر الگ الگ گروپ بنا لو ۔ کہ اگر تم لوگوں نے‬ ‫اس طرح کیا تو تم ہالکتوں کے گڑھوں میں گرتے اور اپنی تباہی کا سامان کرتے جاؤگے‪،‬‬ ‫اور خدا وند قدوس سے دور ہو کر ہمیشہ کیلئے مبتالئے عذاب ہو جاؤ گے ‪ -‬والعیاذ باہلل ‪-‬‬ ‫جبکہ ہللا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے والے اس طرح کی ہر ہالکت سے محفوظ‬ ‫رہیں گے‪ ،‬اور سیدھے خداوند قدوس کے جواررحمت میں پہنچ کر ابدی سعادت و‬ ‫سرخروئی اور حقیقی کامیابی و کامرانی سے بہرہ ور و سرفراز ہوں گے۔ سو بچنے کی‬ ‫اّٰلل الت ا ْو ِفی ُْق ‪-‬‬ ‫ایک ہی راہ ہے کہ سب کے سب ہللا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ‪َ -‬وبِ ہ‬ ‫اور مختلف گروہوں اور ٹکڑیوں میں مت بٹ جاؤ ‪ -‬والعیاذ باہلل جل وعال‪-‬‬ ‫‪213‬تالیف قلوب کے انعام کی تذکیر و یاددہانی ‪ :‬سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ یاد کرو ہللا‬ ‫تعالی کے اس احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا جبکہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن‬ ‫ٰ‬ ‫تھے تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے دلوں کو ۔ سو اس قادر مطلق مالک مہربان نے تالیف‬ ‫قلوب کی اس عظیم الشان نعمت سے تم کو نوازا۔ اس دین و ایمان کی برکت سے‪ ،‬اور اس‬ ‫کی رحمتوں بھری اور انقالب آفریں مقدس تعلیمات کے ذریعے۔ سو اپنے خالق و مالک کے‬ ‫اس عظیم الشان احسان کو یاد کرکے تم ہمیشہ اس کا شکر ادا کرو‪ ،‬اور دل و جان سے اس‬ ‫کے حضور جھکے رہو‪ ،‬کہ اس خالق و مالک کا تم لوگوں پر حق بھی ہے اور اس میں‬

‫خود تمہارا ہی بھال بھی ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی ‪-‬‬ ‫وباہلل التوفیق ‪ -‬بہر کیف تالیف قلوب کی یہ نعمت ایک عظیم الشان نعمت تھی جس سے اہل‬ ‫اسالم کو اس دور میں نوازا گیا تھا۔ سو نور اسالم سے پہلے عرب کا ہر قبیلہ دوسرے‬ ‫قبیلے کا دشمن تھا۔ ان میں باہم خونریز جنگیں برپا رہتی تھیں ۔ ان کی دیویاں دیوتا الگ اور‬ ‫عظمی کے بعد‬ ‫ان کے اغراض و مفادات باہم متصادم تھے۔ لیکن نزول قرآن کی اس نعمت‬ ‫ٰ‬ ‫ّٰللاِ} کی اس بےمثال لڑی میں اس عمدگی سے پرو دیا گیا کہ جو ایک‬ ‫ان کو{ ِب َح ْب ٍل ِمنَ ہ‬ ‫دوسرے کے جانی دشمن تھے وہ آپس میں جگری دوست اور ایک دوسرے کے سچے خیر‬ ‫خواہ اور حقیقی غمخوار بن گئے ‪ -‬والحمد ہلل رب العالمین ‪ -‬اللہم الف بین قلوب المومنین‬ ‫وانصرہم علی اعدائک اعداء الدین‪-‬‬ ‫تعالی کے‬ ‫‪214‬ہدایت کی نعمت بےمثال کی تذکیر و یاددہانی ‪ :‬سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫اس احسان کو بھی یاد کرو کہ جب تم لوگ دوزخ کے کنارے پر تھے تو ہللا نے تم کو اس‬ ‫سے بچا لیا ‪ :‬یعنی حق سے محرومی اور اپنے کفر و باطل کی بناء پر تم لوگ بالکل دوزخ‬ ‫کے کنارہ پر کھڑے تھے‪ ،‬اور اس طرح کہ صرف مرنے کی دیر تھی‪ ،‬جونہی جان نکلی‬ ‫سیدھے دوزخ کے ہولناک گڑھے میں جا گرے ‪ -‬والعیاذ باہلل ‪ -‬توایسے میں حضرت حق ‪-‬‬ ‫جل مجدہ ‪ -‬کا تم لوگوں پر یہ کس قدر بڑا کرم و احسان ہوا کہ اس نے محض اپنی رحمت‬ ‫و عنایت سے‪ ،‬اس دین حق کے ذریعے اور اس نبی ٔ برحق کو مبعوث فرماکر تم کو اس‬ ‫ہولناک عذاب اور برے انجام سے بچالیا ۔ سو اس عظیم الشان نعمت خداوندی سے منہ‬ ‫موڑنا‪ ،‬اور اس کا انکار کرنا کس قدر ناشکری‪ ،‬کفران نعمت اور ظلم عظیم ہے ‪ -‬والعیاذ‬ ‫عالَ‪-‬‬ ‫باہلل العظیم ‪ -‬اور ناشکری و کفران نعمت کا عذاب بہت سخت ہے ‪َ -‬و ْال ِعیَاذُ ہ‬ ‫باّٰلل َج ال َو َ‬ ‫تعالی ناشکری اور کفران نعمت سے ہمیشہ محفوظ رکھے ‪ -‬آمین۔ سو حق و ہدایت کی‬ ‫ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫نعمت سب سے بڑی نعمت ہے ‪ -‬والحمد ہلل‪-‬‬ ‫‪215‬دوزخ سے نجات کا ذریعہ دین حنیف سے سرفرازی ‪ :‬سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ‬ ‫دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے تو خدائے رحمان و رحیم نے تم لوگوں کو بچا لیا دوزخ‬ ‫کے اس ہولناک گڑھے سے اپنے اس دین حق کے ذریعے جس سے اس نے تم کو سرفراز‬ ‫فرمایا ۔ اور نبیوں کے امام و پیشوا‪ ،‬اپنے اس آخری رسول کو تمہارے اندر مبعوث فرما‬ ‫کر‪ ،‬جس نے تمہیں کفر و شرک کی ان سب آَّلئشوں سے پاک و صاف کر دیا‪ ،‬جو دوزخ‬ ‫کی اس ہولناک آگ کی طرف کھینچنے والی ہیں ۔ سو اس سے تم اندازہ کر لو کہ یہ دین‬ ‫حق اس کی کتنی بڑی نعمت ہے جس سے اس واہب مطلق نے تم کو محض اپنے فضل و‬ ‫کرم سے نوازا ہے۔ اور اس نبی ٔرحمت کا وجود مسعود کس قدر بڑا انعام ہے جس سے اس‬ ‫خالق و مالک نے تم کو سرفراز فرمایا ہے۔ سو دل و جان سے اس کی ان نعمتوں کی قدر‬ ‫پہچان کر کے تم اس کا شکر بجا َّلؤ‪ ،‬تاکہ تمہارا دنیا و آخرت میں بھال ہو‪ ،‬جو کہ صلہ و‬ ‫تعالی ‪ -‬سو دوزخ سے بچاؤ کا ذریعہ دین حنیف کی‬ ‫ثمرہ ہے شکر خداوندی کا ‪ -‬سبحانہ و‬ ‫ٰ‬ ‫پیروی ہے اور بس۔ اس کے سوا باقی راہیں ٹیڑھی اور دوزخ کی طرف جانے والی ہیں ‪-‬‬ ‫والعیاذ باہلل العظیم‪-‬‬ ‫‪216‬دین حق دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ ‪ :‬سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہللا اسی‬ ‫طرح کھول کر بیان کرتا ہی تمہارے لیے اپنی آیتیں تاکہ تم لوگ راہ راست سے سرفراز ہو‬

‫سکو اور اس طرح تم دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکو ۔ سو دین حق‬ ‫سے سرفرازی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور‬ ‫اس طرح تم ہالکت و گمراہی کے گڑھوں سے بچ کر رہو ۔ سو یہ دین حق دارین کی‬ ‫سعادت و سرخروئی سے ہمکنار و سرفراز کرنے واَّل دین ہے۔ اور اس دین کا اتارا اور‬ ‫بھیجا جانا سراسر تمہاری ہی بہتری اور بھالئی کے لئے ہے‪ ،‬اور اس دین حق سے‬ ‫سرفرازی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی ہے اور اس سے محرومی ہر خیر‬ ‫سے محرومی ہے ‪ -‬والعیاذ باہلل العظیم ‪ -‬کیونکہ منزل تک رسائی کے لئے راہ راست سے‬ ‫سرفرازی اولین تقاضا اور بنیادی ضرورت ہے۔ اور راہ راست سے سرفرازی دین حق کے‬ ‫بغیر ممکن نہیں ۔ پس دین حق کو صدق دل سے اپنانے ہی سے سعادت دارین حاصل ہو‬ ‫سکتی ہے ‪ -‬وباہلل التوفیق ‪ -‬ہللا ہمیشہ راہ حق پر ثابت و مستقیم رکھے – آمین۔ (تفسیر مدنی‬ ‫کبیر‪ ،‬مفسرموَّلنا اسحٰ ق مدنی صاحب‪ ،‬آزاد کشمیر)‬ ‫)‪(3‬اور مضبوط پکڑو رسی ہللا کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو ف ‪ ٦‬اور یاد کرو احسان‬‫ہللا کا اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر الفت دی تمہارے دلوں میں اب ہوگئے‬ ‫اس کے فضل سے بھائی ف ‪ ۷‬اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو‬ ‫اس سے نجات دی ف ‪ ۸‬اسی طرح کھولتا ہے ہللا تم پر آیتیں تاکہ تم راہ پاؤ ف ‪(۹‬ترجمہ‬ ‫عثمانی‪ ،‬مترجم موَّلنا محمود الحسن‪1356 ،‬ھجری ‪1938-‬عیسوی)‬ ‫ف ‪ ٦‬یعنی سب مل کر قرآن کو مضبوط تھامے رہو جو خدا کی مضبوط رسی ہے۔ یہ رسی‬ ‫ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے۔ اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے‬ ‫رہو گے‪ ،‬کوئی شیطان شر انگیزی میں کامیاب نہ ہو سکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح‬ ‫مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل اختالل ہو جائے گی۔ قرآن کریم‬ ‫سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ‬ ‫ت تازہ حاصل کرتی ہے لیکن تمسک بالقرآن کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراء‬ ‫قوم حیا ِ‬ ‫و اہواء کا تختہ مشق بنا لیا جائے‪ ،‬بلکہ قرآن کریم کا مطلب وہی معتبر ہوگا جو احادیث‬ ‫صحیحہ اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خالف نہ ہو ۔ف ‪ ۷‬یعنی صدیوں کی‬ ‫عداوتیں اور کینے نکال کر خدا نے نبی کریم (صلی ہللا علیہ وسلم) کی برکت سے تم کو‬ ‫بھائی بھائی بنا دیا۔ جس سے تمہارا دین اور دنیا دونوں درست ہوئے اور ایسی ساکھ قائم‬ ‫ہوگئی ہے جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوتے ہیں ۔ یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی‬ ‫بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آسکتی تھی۔‬ ‫ف ‪ ۸‬یعنی کفر و عصیان کی بدولت دوزخ کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے کہ موت آئی‬ ‫اور اس میں گرے۔ خدا نے تمہارا ہاتھ پکڑ کر اس سے بچا لیا اور نبی کریم (صلی ہللا علیہ‬ ‫تعالی کے ان عظیم‬ ‫وسلم) کے ذریعہ سے ایمان و ایقان کی روشنی سینوں میں ڈالی۔ حق‬ ‫ٰ‬ ‫الشان دینی و دنیاوی احسانات کو یاد رکھو گے تو کبھی گمراہی کی طرف واپس نہ جاؤ‬ ‫گے۔‬ ‫ف ‪ ۹‬یعنی یہ باتیں اس قدر کھول کھول کر سنانے سے مقصود یہ ہے کہ ہمیشہ ٹھیک‬ ‫راستہ پر چلتے رہو ۔ ایسی مہلک و خطرناک غلطی کا پھر اعادہ نہ کرو اور کسی شیطان‬ ‫کے اغوا سے استقامت کی راہ نہ چھوڑو ۔ (تفسیر عثمانی‪ ،‬مفسر موَّلنا شبیر احمد عثمانی‬

‫صاحب)‬ ‫)‪(4‬اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا‬‫اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے‬ ‫تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ‬ ‫کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح‬ ‫خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (ترجمہ ابن کثیر‪ ،‬مترجم فتح‬ ‫محمد جالندھری)‬ ‫)‪(5‬اور ہللا کی رسی مضبوط تھام لو (ف ‪ )۱۸٦‬سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا‬‫(فرقوں میں نہ بٹ جانا) (ف ‪ )۱۸۷‬اور ہللا کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا‬ ‫اس نے تمہارے دلوں میں مالپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے (ف‬ ‫‪ )۱۸۸‬اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے (ف ‪ )۱۸۹‬تو اس نے تمہیں اس سے‬ ‫بچادیا (ف ‪ )۱۹۰‬ہللا تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاؤ (ترجمہ‬ ‫کنزاَّلیمان‪ ،‬مترجم موَّلنا احمد رضا خان بریلوی‪1364 ،‬ھجری‪1945-‬عیسوی)‬ ‫(ف ‪َ '' )186‬ح ْب ِل ہللا ِ'' کی تفسیر میں مفسرین کے چند قول ہیں بعض کہتے ہیں اس سے‬ ‫قرآن مراد ہے ُمس ِلم کی حدیث شریف میں وارد ہوا کہ قرآن پاک حبل ہللا ہے جس نے اس‬ ‫کا اتباع کیا وہ ہدایت پر ہے جس نے اس کو چھوڑا وہ گمراہی پر حضرت ابن مسعود‬ ‫(رض) نے فرمایا کہ حبل ہللا سے جماعت مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو َّلزم کرلو‬ ‫کہ وہ حبل ہللا ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔‬ ‫نصاری متفرق ہوگئے اس آیت میں ان افعال و حرکات کی‬ ‫ٰ‬ ‫(ف ‪ )187‬جیسے کہ یہود و‬ ‫ممانعت کی گئی جو مسلمانوں کے درمیان تفرق کا سبب ہوں طریقہ مسلمین مذہب اہل سنت‬ ‫ہے اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق اور ممنوع ہے۔‬ ‫(ف ‪ )188‬اور اسالم کی بدولت عداوت دور ہو کر آپس میں دینی محبت پیدا ہوئی ح ٰتی کہ‬ ‫ا َ ۡوس اور خ َْز َر ۡج کی وہ مشہور لڑائی جو ایک سو بیس سال سے جاری تھی اور اس کے‬ ‫سبب رات دن قتل و غارت کی گرم بازاری رہتی تھی سید عالم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلِّم کے‬ ‫تعالی نے مٹادی اور جنگ کی آگ ٹھنڈی کردی اور جنگ جو قبیلوں میں الفت و‬ ‫ذریعہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫محبت کے جذبات پیدا کردیئے۔‬ ‫(ف ‪ )189‬یعنی حالت کفر میں کہ اگر اسی حال پر مرجاتے تو دوزخ میں پہنچتے۔‬ ‫(ف ‪ )190‬دولت ایمان عطا کرکے۔ (تفسیرخزائن العرفان‪ ،‬مفسر عالمہ نعیم الدین مرادآبادی‬ ‫)‪(6‬اور سب مل کر ہللا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔ اور ہللا‬‫کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے پھر ہللا نے تمہارے‬ ‫دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کے فضل (و کرم) سے (آپس میں) بھائی (بھائی) بن‬ ‫گئے‪( ،‬تمہارا حال تو یہ تھا کہ) تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے لیکن ہللا نے‬ ‫تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح ہللا اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت‬ ‫پا جاؤ۔ (ترجمہ الکتاب‪ ،‬مترجم ڈاکٹر محمد عثمان صاحب‪1425 ،‬ھجری‪2005-‬عیسوی)‬ ‫[‪] ۳۹‬ہللا کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے۔ رسول اکرم (صلی ہللا علیہ وسلم) نے قرآن‬ ‫مجید کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ''ھو حبل ہللا المتین'' (یہ ہللا کی مضبوط رسی ہے) ۔‬

‫قرآن کو ہللا کی رسی اس لئے فرمایا کہ یہی چیز ہے جو بندوں کو خدا سے جوڑتی ہے۔‬ ‫جس نے اس کو تھام لیا گویا اس نے خدا کا سہارا تھام لیا۔ (تفسیر الکتاب‪ ،‬مفسر ڈاکٹر محمد‬ ‫عثمان صاحب)‬ ‫)‪(7‬اور ہللا کی [‪ ]۹۳‬رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور ہللا کی اس‬‫نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم [‪ ]۹٤‬ایک دوسرے کے دشمن‬ ‫تھے۔ پھر ہللا نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن‬ ‫گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ ہللا نے تمہیں اس سے بچا‬ ‫تعالی اسی انداز سے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ راست کو پاسکو (ترجمہ‬ ‫لیا۔ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تیسیرالقرآن‪ ،‬مترجم موَّلنا عبدالرحمٰ ن گیالنی صاحب‪1416 ،‬ھجری‪1996-‬عیسوی)‬ ‫[‪ ]۹۳‬ہللا کی رسی سے مراد ہللا کا دین یا کتاب و سنت کے احکام ہیں اور ہللا کی رسی اس‬ ‫لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا ہللا سے تعلق قائم رکھتا ہے اور‬ ‫دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط بناتا ہے اور کتاب و سنت کے احکام‬ ‫پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں‬ ‫اختالف‪ ،‬انتشار یا عداوت پیدا ہو ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی تمام تر توجہ دینی‬ ‫تعلیمات پر مرکوز رکھیں اور فروعی مسائل میں الجھ کر امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرکے‬ ‫فرقہ بندیوں سے پرہیز کریں ۔‬ ‫[‪ ]۹٤‬یعنی جس وقت پورے عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور لوٹ مار اور قتل و غارت‬ ‫کا بازار گرم تھا۔ کوئی حکومت یا عدالت سرے سے موجود ہی نہ تھی جس کی طرف‬ ‫رجوع کیا جاسکتا۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو مقتول کا قبیلہ اس وقت تک‬ ‫چین سے نہ بیٹھتا تھا جب تک اس کا انتقام نہ لے لیتا‪ ،‬قبائلی حمیت‪ ،‬جسے قرآن نے حمیۃ‬ ‫جاہلیہ کا نام دیا ہے۔ اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ کوئی فریق یہ سوچنے کی زحمت‬ ‫گوارا ہی نہ کرتا تھا کہ قصور کس کا ہے؟ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ چونکہ ہمارے قبیلہ‬ ‫کے آدمی کو فالں قبیلہ کے آدمی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے اس سے انتقام لینا‬ ‫ضروری ہے۔ پھر اس انتقام میں انصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ‬ ‫نکلتا تھا کہ جہاں کہیں کوئی جنگ چھڑی تو پھر وہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ مکہ میں‬ ‫بنی بکر اور بنی تغلب کی لڑائی شروع ہوئی جس میں نصف صدی لگ گئی۔ خاندان کے‬ ‫خاندان تباہ ہوگئے‪ ،‬کشتوں کے پشتے لگ گئے مگر لڑائی ختم ہونے میں نہ آئی تھی۔ تقریبا ً‬ ‫ایسی ہی صورت حال مدینہ میں اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث کی تھی۔ عرب بھر‬ ‫کا ہوشمند طبقہ اس صورت حال سے سخت پریشان تھا۔ مگر اس صورت حال سے نجات‬ ‫کی انہیں کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ پھر یہ صورت حال مکہ اور مدینہ تک ہی محدود‬ ‫نہ تھی بلکہ پورے عرب میں ایک جیسی آگ لگی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ پوری عرب‬ ‫تعالی نے ان لوگوں کو دولت اسالم سے‬ ‫قوم نیست و نابود ہوجائے کہ اس حال میں ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫سرفراز فرمایا۔ جس سے پرانی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوگئیں ۔ عداوت کے بجائے‬ ‫مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت و الفت پیدا ہوگئی اور وہ بالکل بھائیوں‬ ‫تعالی نے لوگوں کو لڑائی کی آگ کے گڑھے میں گرنے‬ ‫کی طرح بن گئے۔ اس طرح ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫سے اور مرنے کے بعد جہنم کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ اسی نعمت الفت و‬

‫تعالی نے سورۃ انفال میں فرمایا تو رسول ہللا (صلی ہللا علیہ وسلم) کو‬ ‫محبت کا تذکرہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫مخاطب کرکے فرمایا کہ‪:‬‬ ‫اگر آپ دنیا بھر کی دولت خرچ کرکے ان میں ایسی محبت و الفت پیدا کرنا چاہتے تو نہ‬ ‫کرسکتے تھے۔ یہ ہللا ہی ہے جس نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی (‪ )۸:٦۳‬اور یہ‬ ‫ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جو صرف اسالم اور ہللا کی مہربانی سے انہیں نصیب ہوئی‬ ‫اور جسے ہر شخص بچشم خود دیکھ رہا تھا۔ (تفسیر تیسیرالقرآن‪ ،‬مفسر موَّلنا عبدالرحمٰ ن‬ ‫گیالنی صاحب)‬ ‫تعالی کے سلسلہ کو اس طور پر کہ (باہم سب) متفق (بھی‬ ‫)‪(8‬اور مضبوط پکڑے رہو ہللا‬‫ٰ‬ ‫تعالی کا انعام ہے اس کو یاد کروجب‬ ‫) رہو اور (باہم) نااتفاقی مت کرو ۔ اور تم پر جو ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی) نے تمھارے قلوب میں الفت ڈال دی سو تم اس (خدا‬ ‫کہ تم دشمن تھے پس اس (ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی) کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے ۔ اور تم لوگ دوزخ کے گڑھے کے‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی) نے تمھاری جان بچائی اسی طرح ہللا‬ ‫کنارے پر تھے (ف ‪ )۲‬سو اس سے اس (خدا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی تم لوگوں کو اپنے احکام بیان کرکے بتالتے رہتے ہیں تاکہ تم لوگ راہ پر رہو ۔‬ ‫ٰ‬ ‫(‪( )103‬ترجمہ بیان القرآن‪ ،‬مترجم موَّلنا اشرف علی تھانوی صاحب‪1352 ،‬ھجری‪-‬‬ ‫‪1934‬عیسوی)‬ ‫ف ‪۲‬۔ یعنی بوجہ کافر ہونے کے دوزخ سے اتنے قریب تھے کہ بس دوزخ میں جانے کے‬ ‫لیے صرف مرنے کی دیر تھی۔ (تفسیر بیان القرآن‪ ،‬مفسر موَّلنا اشرف علی تھانوی‬ ‫صاحب)‬ ‫)‪(9‬اور مضبوط پکڑو رسی ہللا کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو اور یاد کرو احساناہلل کا‬‫اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر الفت دی تمہارے دلوں میں اب ہوگئے اس‬ ‫کے فضل سے بھائی‪ ،‬اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو اس سے‬ ‫نجات دی اسی طرح کھولتا ہے ہللا تم پر آیتیں تاکہ تم راہ پاؤ۔ ترجمہ معارف القرآن‪ ،‬مترجم‬ ‫مفتی محمد شفیع صاحب‪1389 ،‬ھجری‪1969-‬عیسوی)‬ ‫مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا دوسرا اصول باہمی اتفاق‪:‬‬ ‫دوسری آیت واعتصموا بحبل ہللا جمیعا۔ میں اس کو نہایت بلیغ اور حکیمانہ انداز سے بیان‬ ‫فرمایا ہے کہ سب سے پہلے وہ اصول اور گر بتالیا جو انسانوں کو باہمی مربوط اور متفق‬ ‫کرنے کا نسخہ اکسیر ہے ‪ ،‬اس کے بعد آپس میں متفق ہونے کا حکم دیا‪ ،‬اس کے بعد آپس‬ ‫کے افتراق و انتشار سے منع فرمایا۔‬ ‫تشریح اس کی یہ ہے کہ اتفاق و اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود و مطلوب ہونے‬ ‫پر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے کے ہوں‪ ،‬کسی مذہب و مشرب‬ ‫سے تعلق رکھتے ہوں سب کا اتفاق ہے اس میں دو رائیں ہونے کا امکان ہی نہیں‪ ،‬دنیا میں‬ ‫شاید کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ نکلے جو لڑائی جھگڑے کو بذاتہ مفید اور بہتر جانتا‬ ‫ہوں‪ ،‬اس لئے دنیا کی ہر جماعت ‪ ،‬ہر پارٹی لوگوں کو متفق کرنے کی ہی دعوت دیتی ہیں‪،‬‬ ‫لیکن دنیا کے حاَّلت کا تجربہ بتالتا ہے کہ اتفاق کے مفید اور ضروری ہونے پر سب کے‬ ‫اتفاق کے باوجود ہو یہ رہا ہے کہ انسانیت فرقوں‪ ،‬گروہوں‪ ،‬پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے ‪،‬‬ ‫پھر ہر فرقہ کے اندر فرقے اور پارٹی کے اندر پارٹیوں کا َّلمحدود سلسلہ ایسا ہے کہ‬

‫صحیح معنی میں دو آدمیوں کا اتحاد و اتفاق بھی ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے ‪ ،‬وقتی‬ ‫اغراض کے تحت چند آدمی کسی بات پر اتفاق کرتے ہیں ‪ ،‬اغراض پوری ہوجائیں‪ ،‬یا ان‬ ‫میں ناکامی ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہوجائے بلکہ افتراق اور عداوتوں کی‬ ‫نوبت آتی ہے ۔‬ ‫غور کیا جائے تو اس کا سبب یہ معلوم ہوگا کہ ہر گروہ و ہر فرقہ اور ہر شخص لوگوں کو‬ ‫اپنے خود ساختہ پروگرام پر متحد و متفق کرنا چاہتا ہے ‪ ،‬اور جبکہ دوسرے لوگ خود اپنا‬ ‫بنایا ہوا کوئی نظام و پروگرام رکھتے ہوں تو وہ ان سے متفق ہونے کی بجائے ان کو اپنے‬ ‫پروگرام پر متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں‪ ،‬اس لئے َّلزمی طور پر ہر دعوت اتحاد کا‬ ‫نتیجہ ایک ہی جماعتوں اور افراد کا افتراق و انتشار نکلتا ہے ‪ ،‬اور اختالفات کی دلدل میں‬ ‫پھنسی ہوئی انسانیت کے ہاتھ اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا‬ ‫کی‬ ‫اس لئے قرآن حکیم نے صرف اتحاد و اتفاق اور تنظیم و اجتماع کا وعظ ہی نہیں فرمایا‬ ‫بلکہ اس کے حاصل کرنے اور باقی رکھنے کا ایک ایسا منصفانہ و عادَّلنہ اصول بھی‬ ‫بتالدیا جس کے ماننے سے کسی گروہ کو اختالف نہیں ہونا چاہیے‪ ،‬وہ یہ ہے کہ کسی‬ ‫انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ‬ ‫کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سب اس پر متفق ہوجائیں گے عقل و انصاف کے خالف اور‬ ‫خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ‪ ،‬البتہ رب العالمین کا دیا ہوا نظام و پروگرام ضرور ایسی‬ ‫چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہیے‪ ،‬کوئی عقلمند انسان اس سے اصوَّل‬ ‫انکار نہیں کرسکتا‪ ،‬اب اگر اختالف کی کوئی راہ باقی رہتی ہے تو وہ صرف اس بات کے‬ ‫پہچاننے میں ہوسکتی ہے کہ احکم الحاکمین رب العالمین کا بھیجا ہوا نظام کیا اور کون سا‬ ‫تعالی کا بھیجا ہواواجب التعمیل‬ ‫ہے ‪ ،‬یہودی نظام تورات کو‪ ،‬نصاری نظام انجیل کو ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫بتالتے ہیں‪ ،‬یہاں تک کہ مشرکین کی مختلف جماعتیں بھی اپنی اپنی مذہبی رسوم کو ہللا‬ ‫تعالی ہی کی طرف منسوب کرتی ہیں ۔ لیکن اول تو اگر انسان اپنے جماعتی تعصب اور‬ ‫ٰ‬ ‫آبائی تقلید سے ذرا بلند ہوکر اپنی عقل خداداد سے کام لے تو یہ حقیقت بےنقاب ہوکر اس‬ ‫تعالی کا آخری پیام قرآن‬ ‫کے سامنے آجاتی ہے کہ خاتم اَّلنبیاء (صلی ہللا علیہ وسلم) جو ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کے نزدیک مقبول نہیں‪،‬‬ ‫کی صورت میں َّلئے ہیں‪ ،‬آج اس کے سوا کوئی نظام ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫اس سے بھی قطع نظر کیجئے تو اس وقت مخاطب مسلمان ہیں جن کا اس پر ایمان ہے کہ‬ ‫تعالی کی طرف سے بھیجا ہوا‬ ‫آج قرآن کریم ہی ایک ایسا نظام حیات ہے جو بال شبہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ‪ ،‬اس لئے قیامت تک‬ ‫ہے‪ ،‬اور چونکہ خود حق‬ ‫ٰ‬ ‫اس میں کسی قسم کی تحریف و تغییر کا بھی امکان نہیں ‪ ،‬اس لئے سردست میں غیر مسلم‬ ‫جماعتوں کی بحث کو چھوڑ کر قرآن پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں ہی سے کہتا ہوں کہ‬ ‫ان کے لئے تو صرف یہی َّلئحہ عمل ہے‪ ،‬اگر مسلمانوں کی مختلف پارٹیاں قرآن کریم کے‬ ‫نظام پر متفق ہوجائیں تو ہزاروں گروہی اور نسلی وطنی اختالفات ایک لحظہ میں ختم‬ ‫ہوسکتے ہین‪ ،‬جو انسانی کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں ۔ اب اگر مسلمانوں میں کوئی باہمی‬ ‫اختالف رہے گا تو وہ صرف فہم قرآن اور تعبیر قرآن میں رہ سکتا ہے اور اگر ایسا‬ ‫اختالف حدود کے اندر ہے بھی تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کی اجتماعی زندگی کے‬

‫لئے مضر بلکہ ایسا اختالف رائے عقالء کے درمیان رہنا فطری امر ہے ‪ ،‬سو اس پر قابو‬ ‫پانا اور حدود کے اندر رکھنا کچھ دشوار نہیں‪ ،‬بخالف اس کے کہ قرآنی نظام سے آزاد‬ ‫ہوکر ہماری پارٹیاں لڑتی رہیں تو اس وقت خالف و جدال کا کوئی عالج نہیں رہتا‪ ،‬اور‬ ‫اسی اختالف و انتشار کو قرآن کریم نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے ‪ ،‬اور آج اسی قرآنی‬ ‫اصول کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہماری پوری ملت انتشار و افتراق میں پھنس کر‬ ‫برباد ہورہی ہے ‪ ،‬قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس افتراق کو مٹانے کا نسخہ اکسیر اس‬ ‫طرح بتالیا ہے‪:‬‬ ‫واعتصموا بحبل ہللا جمیعا۔ "یعنی ہللا کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو"‬ ‫ہللا کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے ‪ ،‬عبدہللا بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ حضور‬ ‫(صلی ہللا علیہ وسلم) نے فرمایا‪ :‬کتاب ہللا ھو حبل ہللا الممدود من السماء الی اَّلرض ۔ یعنی‬ ‫تعالی کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ۔ (ابن کثیر) زید‬ ‫کتاب ہللا ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫بن ارقم کی روایت میں حبل ہللا ہوا القرآن کے الفاظ آئے ہیں ۔ (ابن کثیر) محاورہ عربی میں‬ ‫حبل سے مراد عہد بھی ہوتا ہے اور مطلقا ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے‬ ‫‪ ،‬قرآن کو یا دین کو رسی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف‬ ‫تعالی سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان َّلنے والوں کو‬ ‫اہل ایمان کا تعلق ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫باہم مال کر ایک جماعت بناتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کے اس ایک جملہ میں حکیمانہ‬ ‫تعالی کے بھیجے ہوئے نظام‬ ‫اصول بتالئے گئے ‪ ،‬ایک یہ کہ ہر انسان پر َّلزم ہے کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عامل ہو ‪ ،‬دوسری یہ کہ سب مسلمان ملکر اس پر عمل‬ ‫کریں‪ ،‬جس کا نتیجہ َّلزمی یہ ہے کہ مسلمان سب باہم متفق و متحد اور منظم ہوجائیں‪،‬‬ ‫جیسے کوئی جماعت ایک رسی کو پکڑے ہوئے ہو تو پوری جماعت ایک جسم وحد بن‬ ‫جاتی ہے ‪ ،‬قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان‬ ‫فرمایا ہے ‪ :‬ان الذین امنوا وعملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا (‪ )۹٦ :۱۹‬۔ "یعنی جو‬ ‫تعالی ان کے آپس میں دوستی و محبت پیدا‬ ‫لوگ ایمان َّلئیں اور نیک عمل کریں ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫فرمادیتے ہیں"۔‬ ‫پھر اس میں ایک لطیف تمثیل بھی ہے کہ مسلمان جب ہللا کی کتاب سے اعتصام کر رہے‬ ‫ہوں تو اس کی مثال اس حالت جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط‬ ‫ریس کو پکڑ لیں‪ ،‬اور ہالکت سے محفوظ رہیں‪ ،‬لہذا اشارہ فرمایا کہ اگر سب ملکر اس کو‬ ‫پوری قوت سے پکڑے رہو گے ‪ ،‬کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا‪ ،‬اور‬ ‫انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر‬ ‫ہوجائے گی‪ ،‬قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع‬ ‫ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے ‪ ،‬اور اس سے ہٹ کر ان کی‬ ‫قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہو ہی جائے گی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی‬ ‫کوئی خیر نہیں ۔‬ ‫پوری مسلم قوم کا اتفاق صرف اسالم ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے نسبی اور وطنی وحدت‬ ‫سے یہ کام نہیں ہوسکتا‪ :‬یہاں سب سے پہلے یہ جاننا َّلزمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لئے‬ ‫ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو‪ ،‬پھر مرکز وحدت کے بارے میں اقوام‬

‫عالم کی راہیں مختلف ہیں‪ ،‬کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا‪ ،‬جیسے‬ ‫قبائل عرب کی وحدت تھی کہ قریش ایک قوم اور بنو تمیم دوسری قوم سمجھی جاتی تھی ‪،‬‬ ‫اور کہیں رنگ کا امتیاز اس وحدت کا مرکز بن رہا تھا‪ ،‬کہ کالے لوگ ایک قوم اور گورے‬ ‫دوسری قوم سمجھتے جاتے ‪ ،‬کہیں وطنی اور لسانی وحدت کو مرکز اتحاد بنایا ہوا تھا کہ‬ ‫ہندی ایک قوم اور عربی دوسری قوم‪ ،‬کہیں آبائی رسوم و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا‬ ‫تھا‪ ،‬کہ جو ان رسوم کے پابند ہیں وہ ایک قوم اور جو ان کے پابند نہیں وہ دوسری قوم‪،‬‬ ‫جیسے ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج وغیرہ۔ قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز‬ ‫تعالی کے بھیجے ہوئے نظام محکم کو قرار دیا‪ ،‬اور‬ ‫وحدت حبل ہللا قرآن کریم کو یعنی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫دو ٹوک فیصلہ کردیا کہ مومن ایک قوم ہے جو حبل ہللا سے وابستہ ہے ‪ ،‬اور کافر دوسری‬ ‫قوم جو اس حبل متین سے وابستہ نہیں ‪ ،‬خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (‪ )۳ :٦٤‬کا یہی‬ ‫مطلب ہے ‪ ،‬جغرافیائی وحدتیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو مرکز وحدت بنایا جائے ‪،‬‬ ‫کیونکہ وہ وحدتیں عموما غیر اختیاری امور ہین‪ ،‬جن کو کوئی انسان اپنے سعی و عمل‬ ‫سے حاصل نہیں کرسکتا‪ ،‬جو کاَّل ہے وہ گورا نہیں ہوسکتا‪ ،‬جو قریشی ہے وہ تمیمی نہیں‬ ‫بن سکتا‪ ،‬جو ہندی ہے وہ عربی نہیں بن سکتا‪ ،‬اس لئے ایسی وحدتیں بہت ہی محدود دائرہ‬ ‫میں ہوسکتی ہیں‪ ،‬ان کا دائرہ کبھی اور کہیں پوری انسانیت کو اپنی وسعت میں لے کر‬ ‫پوری دنیا کو ایک وحدت پر جمع کرنے کا دعوی کر ہی نہیں سکتا‪ ،‬اس لئے قرآن کریم‬ ‫تعالی کے بھیجے ہوئے نظام حیات کو بنایا‬ ‫نے مرکز وحدت حبل ہللا یعنی قرآن اور ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫جس کا اختیار کرنا اختیاری امر ہے ‪ ،‬کوئی مشرق کا رہنے واَّل ہو یا مغرب کا‪ ،‬گورا ہو یا‬ ‫کاَّل‪ ،‬عربی زبان بولتا ہو یا ہندی و انگریزی ‪ ،‬کسی قبیلہ کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس‬ ‫معقول اور صحیح مرکز وحدت کو اختیار کرسکتا ہے ‪ ،‬اور دنیا بھر کے پورے انسان اس‬ ‫مرکز وحدت پر جمع ہوکر بھائی بھائی بن سکتے ہیں‪ ،‬اور اگر وہ آبائی رسم و رواج سے‬ ‫ذرا بلند ہوکر غور کریں تو ان کو اس کے سوا کوئی معقول اور صحیح راہ ہی نہ ملے گی‬ ‫تعالی کے بھیجے ہوئے نظام کو پہچانیں‪ ،‬اور اس کا اتباع کر کے حبل ہللا کو‬ ‫‪ ،‬کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫مضبوطی سے تھام لیں‪ ،‬جس کا نتیجہ ایک طرف یہ ہوگا کہ پوری انسانیت ایک مضبوط و‬ ‫تعالی کے‬ ‫مستحکم وحدت سے مربوط ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس وحدت کا ہر فرد ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫بھیجے ہوئے نظام کے مطابق اپنے اعمال و اخالق کی اصالح کر کے اپنی دنیوی اور دینی‬ ‫زندگی کو درست کرلے گا‪ ،‬یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جس کو لے کر ایک مسلمان ساری‬ ‫دنیا کی اقوام کو للکار سکتا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے‪ ،‬اس طرح آؤ ‪ ،‬اور مسلمان اس‬ ‫پر جتنا بھی فخر کریں بجا ہے ‪ ،‬لیکن افسوس ہے کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو‬ ‫اسالمی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسالم کے‬ ‫دعویداروں میں کامیاب ہوگئی ‪ ،‬اب امت اسالمیہ کی وحدت عربی‪ ،‬مصری‪ ،‬ہندی‪ ،‬سندھی‬ ‫میں بٹ کر پارہ پارہ ہوگئی‪ ،‬قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت اور ہر جگہ ان سب کو بآواز‬ ‫بلند یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ جاہالنہ امتیازات درحقیقت امتیازات ہیں اور نہ ان کی بنیاد‬ ‫پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت ہے ‪ ،‬اس لئے اعتصام بحبل ہللا کی وحدت‬ ‫اختیار کریں‪ ،‬جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور فائق اور سربلند بنایا اور‬ ‫اگر پھر ان کی قسمت میں کوئ خیر مقدر ہے تو وہ اسی راستہ سے مل سکتی ہے۔‬

‫تعالی کے بھیجے‬ ‫الغرض اس آیت میں مسلمانوں کو دو ہدایتیں دی گئی ہیں‪ ،‬اول یہ کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ہوئے نظام حیات کے پابند ہوجائیں‪ ،‬دوسرے یہ کہ سب ملکر مضبوطی کے ساتھ اس نظام‬ ‫کو تھام لیں‪ ،‬تاکہ ملت اسالمی کا شیرازہ خود بخود منظم ہوجائے‪ ،‬جیسا کہ اسالم کے قرون‬ ‫اولی میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔‬ ‫مسلمانوں میں اتفاق کے ایجابی پہلو کی وضاحت کے بعد فرمایا وَّل تفرقوا باہم نااتفاقی نہ‬ ‫کرو‪ ،‬قرآن حکیم کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ وہ جہاں ایجابی پہلو واضح کرتا ہے وہیں سلبی‬ ‫پہلو سے مخالف چیزوں سے منع فرماتا ہے ‪ ،‬چنانچہ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا‪:‬‬ ‫وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ وَّل تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔ (‪ )۱۵٤ :٦‬اس آیت‬ ‫میں بھی صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تلقین ہے‪ ،‬اور اپنی خواہشات کے زیر اثر‬ ‫خودساختہ راستوں پر چلنے کی ممانعت نااتفاقی کسی قوم کی ہالکت کا سب سے پہال اور‬ ‫آخری سبب ہے ‪ ،‬اسی لئے قرآن حکیم نے بار بار مختلف اسالیب میں اس کی ممانعت‬ ‫فرمائی ہے۔‬ ‫ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء۔ (‪" )۱٦ :٦‬یعنی جن لوگوں نے اپنے‬ ‫دین میں تفرقے ڈالے اور مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے آپ کا ان سے کوئی تعلق اور‬ ‫کوئی واسطہ نہیں"۔ عالوہ ازیں انبیاء علیہم السالم کی امتوں کے واقعات کو نقل فرمایا کہ‬ ‫کس طرح وہ امتیں باہمی اختالف و شقاق کے باعث مقصد حیات سے منحرف ہوکر دنیا و‬ ‫آخرت کی رسوائیوں میں مبتال ہوچکی ہیں ۔‬ ‫تعالی نے تمہارے لئے تین‬ ‫حضور اکرم (صلی ہللا علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫چیزوں کو پسند فرمایا ہے ‪ ،‬اور تین چیزوں کو ناپسند‪ ،‬پسندیدہ چیزیں یہ ہیں‪:‬‬ ‫تعالی کے لئے کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔‬ ‫اول یہ کہ تم عبادت ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو‪ ،‬اور نااتفاقی سے بچو ۔ سوم یہ کہ‬ ‫دوم یہ کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫اپنے حکام اور اولوا اَّلمر کے حق میں خیر خواہی کا جذبہ رکھو ۔‬ ‫تعالی ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں ۔ (‪ )۱‬بےضرورت قیل و قال‬ ‫اور وہ تین چیزیں جن سے ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫اور بحث و مباحثہ (‪ )۲‬بال ضرورت کسی سے سوال کرنا (‪ )۳‬اضاعت مال ۔ (ابن کثیر عن‬ ‫ابی ھریرہ) اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا ہر اختالف مذموم ہے ‪ ،‬یا کوئی اختالف غیر‬ ‫مذموم بھی ہے ‪ ،‬جواب یہ ہے کہ ہر اختالف مذموم نہیں ہے ‪ ،‬بلکہ مذموم وہ اختالف ہے‬ ‫کہ جس میں اپنی اہواء اور خواہشات کی بناء پر قرآن سے دور رہ کر سوچا جائے‪ ،‬لیکن‬ ‫اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم (صلی ہللا علیہ وسلم) کی تشریح و تفصیل‬ ‫کو قبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صالحیتوں کی بناء پر فروع میں‬ ‫اختالف کیا جائے تو یہ اختالف فطری ہے ‪ ،‬اور اسالم اس سے منع نہیں کرتا‪ ،‬صحابہ و‬ ‫تابعین اور ائمہ فقہاء کا اختالف اسی قسم کا اختالف تھا ‪ ،‬اور اسی اختالف کو رحمت قرار‬ ‫دیا گیا‪ ،‬ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختالف کو‬ ‫جنگ و جدل اور سب و شتم کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے‪ ،‬باہمی اتحاد کے ان‬ ‫دونوں پہلوؤں کو واضح کرنے کے بعد اس حالت کی طرف اشارہ کیا گیا جس میں اسالم‬ ‫سے پہلے اہل عرب مبتال تھے ‪ ،‬قبائل کی باہمی عداوتیں ‪ ،‬بات بات پر ان کی لڑائیاں اور‬ ‫شب و روز کے کشت وخون کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجاتی‪،‬‬

‫اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسالم تھی۔‬ ‫چنانچہ فرمایا گیا۔ واذکروا نعمۃ ہللا علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ‬ ‫اخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا۔ "یعنی ہللا کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ‬ ‫جب تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی‪ ،‬سو تم اس کے انعام سے‬ ‫آپس میں بھائی بھائی بن گئے‪ ،‬اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے‪ ،‬سو اس نے‬ ‫تعالی نے اسالم اور‬ ‫تمہیں اس سے بچا لیا"یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫نبی کریم (صلی ہللا علیہ وسلم) کی برکت سے بھائی بھائی بنادیا‪ ،‬جس سے تمہارے دین و‬ ‫دنیا درست ہوگئے اور ایسی دوستی قائم ہوگئی جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب‬ ‫ہوئے‪ ،‬اور یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر‬ ‫کے بھی میسر نہ آسکتی تھی۔‬ ‫واقعہ شان نزول میں شریر لوگوں نے جو اوس و خزرج کے قبیلوں کو پچھلی جنگ یاد دَّل‬ ‫کر فساد برپاکرنا چاہا تھا آیت مذکور میں اس کا مکمل عالج ہوگیا‪ ،‬نتائج اور بذریعہ اسالم‬ ‫ان سے رہائی کا بیان فرمادیا۔‬ ‫تعالی کی اطاعت پر موقوف ہے‪:‬‬ ‫مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا‪ ،‬وہ یہ کہ دلوں کا مالک‬ ‫درحقیقت ہللا جل شانہ ہے ‪ ،‬دلوں کے اندر محبت یا نفرت پیدا کرنا اسی کا کام ہے ‪ ،‬کسی‬ ‫جماعت کے قلوب میں باہمی محبت اور موددت پیدا کرنا خالص انعام خداوندی ہے ‪ ،‬اور یہ‬ ‫تعالی کا انعام صرف اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہی سے حاصل‬ ‫بھی ظاہر ہے کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ہوسکتا ہے ‪ ،‬معصیت و نافرمانی کے ساتھ یہ انعام نہیں مل سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا‬ ‫تعالی کی‬ ‫کہ اگر مسلمان مستحکم و اتحاد چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ فقط یہ ہے کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا شعار بنا لیں‪ ،‬اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے آیت کے آخر‬ ‫تعالی تم‬ ‫میں ارشاد فرمایا ہے کہ کذلک یبین ہللا لکم ایتہ لعلکم تھتدون "یعنی اسی طرح ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫لوگوں کے لئے حقائق واضح کر کے بیان فرماتے ہیں تاکہ تم لوگ صحیح راہ پر رہو ۔‬ ‫(تفسیر معارف القرآن‪ ،‬مفسر مفتی محمد شفیع صاحب)‬ ‫)‪(10‬اور یاد رکھو کہ سب مل کر ہللا کی رسِّی مضبوط پکڑ لو اور گروہ گروہ نہ[‪ ]1‬ہو‬‫جاو‪ ،‬ہللا نے تمہیں جو نعمت عطا فرمائی ہے اس کی یاد سے غافل نہ ہو‪( ،‬ایک وقت وہ‬ ‫ٔ‬ ‫تھا) جب تمہارا حال یہ تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے لیکن اس کے‬ ‫خاص فضل و کرم سے تم سب بھائی بھائی بن گئے‪ ،‬تمہارا حال تو یہ تھا کہ آگ سے بھری‬ ‫ہوئی خندق ہے اور اس کے کنارے کھڑے ہو لیکن ہللا نے تمہیں اس حالت سے نکال لیا‪،‬‬ ‫ہللا اسی طرح اپنی کارفرمائیوں کی نشانیاں واضح کر دیتا ہے تاکہ تم راہ پالو‪( 103/‬ترجمہ‬ ‫عبدالکریم اثری صاحب‪ ،‬مترجم عبدالکریم اثری صاحب‪1414 ،‬ھجری‪1994-‬عیسوی)‬ ‫)‪(11‬اور سب مل کر ہللا کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو اور ہللا کا احسان اپنے‬‫اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس‬ ‫کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو‬ ‫اس سے نجات دی اس طرح تم پر ہللا اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ‪( -‬ترجمہ‬ ‫احمد علی‪ ،‬مترجم موَّلنا احمد علی صاحب)‬

‫‪(12)- 103-3‬اور سب مل کر ہللا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو‬ ‫جاؤ اور اپنے اوپر ہللا کی نعمت یاد کرو‪ ،‬جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے‬ ‫درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک‬ ‫گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح ہللا تمھارے لیے‬ ‫اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے‪ ،‬تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ (ترجمہ حافظ عبدالسالم بھٹوی‪ ،‬مترجم‬ ‫حافظ عبدالسالم بھٹوی‪1427 ،‬ھجری‪2007-‬عیسوی)‬ ‫َص ُم ْوا بِ َح ْب ِل ہ ِ‬ ‫ّٰللا َج ِم ْیعًا۔۔ ‪ :‬مومنوں کو اہل کتاب کی اطاعت سے دور رہنے کی نصیحت‬ ‫َوا ْعت ِ‬ ‫فرما کر اب یہاں سے چند اصولی باتوں کا حکم دیا جا رہا ہے‪ ،‬جن کی پابندی سے انسان‬ ‫تعالی سے ڈرنا جیسے ڈرنے کا حق‬ ‫ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے‪ ،‬یعنی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬سب مل کر ہللا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور جدا جدا نہ ہونا اور ہللا کی‬ ‫نعمت‪ ،‬یعنی دلوں میں الفت ڈالنے کو یاد رکھنا۔‬ ‫ہللا کی رسی سے مراد قرآن ہے‪ ،‬درحقیقت یہ ایک استعارہ ہے کہ اگر کچھ لوگ پہاڑ کی‬ ‫بلندی سے کسی گہری کھائی میں گر پڑیں تو انھیں نکالنے کے لیے اوپر سے رسی پھینکی‬ ‫جاتی ہے۔ اب جو لوگ مل کر اس رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں وہ اس رسی کے ساتھ‬ ‫تعالی نے‬ ‫اوپر نکل آئیں گے اور دوسرے گڑھے ہی میں رہ جائیں گے۔ اسی طرح ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫گمراہی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے آسمان سے قرآن اتارا ہے‪ ،‬جس کے ساتھ وحی‬ ‫ٰالہی‪ ،‬یعنی سنت رسول بھی اتاری ہے۔ مسلمان موجودہ فرقہ بندیوں سے بھی اسی صورت‬ ‫میں نجات پا سکتے ہیں کہ قرآن مجید کو َّلئحہ عمل قرار دیں اور ذاتی خیاَّلت و آراء کو‬ ‫ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور مشائخ و‬ ‫فتاوی کو قرآن و سنت کا درجہ دے کر گروہ بندی اختیار نہ کریں۔‬ ‫ائمہ کے اقوال و‬ ‫ٰ‬ ‫اِ ْذ ُك ْنت ُ ْم ا َ ْع َد ۗا ًء۔۔ ‪ :‬اسالم سے پہلے اوس اور خزرج ہی نہیں بلکہ تمام عرب کفر و شرک اور‬ ‫باہمی عداوتوں میں مبتال تھے۔ اسی کو یہاں آگ کے گڑھے کے کنارے پر ہونے سے‬ ‫تعالی نے تمھیں آگ میں گرنے سے‬ ‫تعبیر کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اسالم کے ذریعے ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫بچا لیا اور عداوت کے بجائے اخوت پیدا کر دی۔ اگر اس عداوت کا اندازہ کرنا ہو تو سورۂ‬ ‫انفال (‪ )٦۳ ،٦۲‬کا مطالعہ کریں۔ (تفسیر القرآن الکریم‪ ،‬مفسرحافظ عبدالسالم بھٹوی)‬ ‫)‪(13‬اور ہللا کی رسِّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور‬‫ہللا کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت‬ ‫پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو‬ ‫اس نے تمہیں نکال لیا اور ہللا اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن‬ ‫جاؤ‪( -‬ترجمہ جوادی‪ ،‬مترجم ذیشان حیدر جوادی صاحب)‬ ‫)‪۱۰۳(14‬۔ اور مضبوط پکڑو رسی ہللا کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو ۔ اور یاد کرو‬‫احسان ہللا کا اپنے اوپر‪ ،‬جب تھے تم آپس میں دشمن۔ پھر الفت دی تمہارے دلوں میں‪ ،‬اب‬ ‫ہو گئے اس کے فضل سے بھائی۔ اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے‪ ،‬پھر تم‬ ‫کو اس سے خالص کیا (بچا لیا) ۔ اسی طرح کھولتا ہے ہللا تم پر نشانیاں اپنی‪ ،‬شاید تم راہ‬ ‫پاؤ۔(ترجمہ شاہ عبدالقادر‪ ،‬مترجم شاہ عبدالقادرصاحب)‬ ‫‪(15)-‬اور سب مل کر ہللا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ‬

‫کرو اور ہللا کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے کہ تم آپس میں دشمن تھے‬ ‫اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت (فضل و کرم) سے بھائی‬ ‫بھائی ہوگئے۔ اور تم آگ کے بھرے ہوئے گڑھے (دوزخ) کے کنارے پر کھڑے تھے جو‬ ‫اس نے تمہیں اس سے بچا لیا اس طرح ہللا تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ تم‬ ‫ہدایت پا جاؤ۔ (ترجمہ محمد حسین نجفی‪ ،‬مترجم محمد حسین نجفی صاحب‪1378 ،‬ھجری‪-‬‬ ‫‪1978‬عیسوی)‬ ‫تعالی کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ پیدا نہ کرو۔ اور‬ ‫)‪(16‬ہللا‬‫ٰ‬ ‫تعالی کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس‬ ‫تم اپنے اوپر ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے‬ ‫حاَّلنکہ تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔‬ ‫تعالی تمہارے لیے اپنے احکامات بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ (ترجمہ فہم‬ ‫اس طرح ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫القرآن‪ ،‬مترجم میاں محمد جمیل صاحب)‬ ‫)‪(17‬اور تم سب مل کر ہللا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو‪ ،‬اور آپس میں متفرق نہ ہو‪،‬‬ ‫اور یاد کرو ہللا کی نعمت کو جو تمہارے اوپر ہے جبکہ تم دشمن تھے‪ ،‬سو ہللا نے تمہارے‬ ‫دلوں میں الفت پیدا فرما دی لہٰ ذا تم اس کی نعمت کی وجہ سے بھائی بھائی ہو گئے ‪ ،‬اور تم‬ ‫دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے سو ہللا نے تم کو اس سے بچا دیا۔ ہللا ایسے ہی بیان‬ ‫فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیات تاکہ تم ہدایت پر رہو۔ (ترجمہ درمنثور‪ ،‬مترجم جالل الدین‬ ‫سیوطی‪908 ،‬ھجری‪1507-‬عیسوی)‬ ‫(‪) ۱‬سعید بن منصور ابن ابی شیبہ ابن جریر ابن المنذر طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ‬ ‫حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’ اعتصموا بحبل ہللا ۔ میں حبل‬ ‫ہللا سے مراد قرآن مجید ہے۔‬ ‫(‪) ۲‬فریابی‪ ،‬عبد بن حمید‪ ،‬ابن الضریس‪ ،‬ابن جریر‪ ،‬ابن اَّلنباری نے مصاحف میں طبرانی‬ ‫ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب اَّلیمان میں حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے‬ ‫کہ بالشبہ یہ راستہ حاضر کیا ہوا ہے شیاطین حاضر ہوئے اور آواز دیتے ہیں کہ اے ہللا‬ ‫کے بندے! آجاؤ یہ وہی راستہ ہے (یعنی اس کو دھوکہ دیتا ہے ) تا کہ ان کو ہللا کے‬ ‫راستے سے روکے سو تم مضبوط پکڑو ہللا کی رسی کو اور بالشبہ ہللا کی رسی قرآن ہے۔‬ ‫(‪) ۳‬ابن ابی شیبہ نے ابن جریر نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول‬ ‫ہللا (صلی ہللا ص) نے فرمایا ہللا کی کتاب وہی ہللا کی رسی ہے جو پھیلی ہوئی ہے آسمان‬ ‫سے زمین تک۔‬ ‫(‪ )٤‬ابن ابی شیبہ نے ابو شریح خزاعی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا (صلی ہللا‬ ‫تعالی کے ہاتھ میں ہے اور‬ ‫ص) نے فرمایا بالشبہ یہ قرآن رسی ہے اس کا ایک کنارہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھوں میں ہے اس کو مضبوطی سے پکڑ لو بالشبہ تم اس کے بعد‬ ‫کبھی گمراہ نہ ہوگے‬ ‫(‪) ۵‬ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے زید بن ارقم (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو رسول‬ ‫ہللا (صلی ہللا ص) نے خطبہ دیا اور فرمایا میں تمہارے اندر ہللا کی کتاب چھوڑنے واَّل‬ ‫ہوں وہی ہللا کی رسی ہے جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہوگا اور جو‬

‫شخص اس کو چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا۔‬ ‫دو چیزیں ذریعہ ہدایت ہیں‬ ‫(‪ )٦‬احمد نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا (صلی ہللا ص) نے‬ ‫فرمایا میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑنے واَّل ہوں ایک ہللا کی کتاب جو پھیلی ہوئی ہے‬ ‫آسمان اور زمین کے درمیان اور میرا کنبہ میرے گھر والے ہیں اور بالشبہ یہ دونوں ہرگز‬ ‫جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔‬ ‫(‪) ۷‬طبرانی نے زید بن ارقم (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا (صلی ہللا ص) نے‬ ‫فرمایا میں تمہارے لیے آگے بڑھنے واَّل ہوں۔ اور تم میرے پاس حوض کوثر پر آؤ گے۔‬ ‫پس تم دیکھو کہ کس طرح تم میرے خلیفہ بنو گے ثقلین میں کہا گیا ثقلین کیا ہے یا رسول‬ ‫تعالی‬ ‫ہللا‪ ،‬آپ نے فرمایا بڑی چیز ہللا کی کتاب ہے جو ایک رسی ہے جس کا ایک سرا ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ سو تم اس کو مضبوطی‬ ‫سے پکڑو ہرگز نہ پھسلو گے اور نہ گمراہ ہوگے اور چھوٹی چیز میرا کنبہ ہے اور یہ‬ ‫دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر آئیں گی ان دونوں کے‬ ‫بارے میں میں نے اپنے رب سے سوال کیا سو تم ان دونوں سے آگے نہ بڑھو ورنہ ہالک‬ ‫ہوجاؤ گے اور تم ان دونوں کو نہ سکھاؤ کیونکہ وہ تم دونوں سے زیادہ جانتے ہیں۔‬ ‫(‪) ۸‬ابن سعد احمد طبرانی نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا‬ ‫(صلی ہللا ص) نے فرمایا اے لوگو میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑنے واَّل ہوں کہ‬ ‫اگر اس کو (مضبوطی سے) پکڑو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک دوسرے‬ ‫سے بڑی ہے ایک ہللا کی کتاب ہے جو پھیلی ہوئی ہے آسمان اور زمین کے درمیان اور‬ ‫دوسرا میرا کنبہ وہ میرے گھر والے ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ‬ ‫میرے پاس حوض پر آئیں گے۔‬ ‫(‪) ۹‬سعید بن منصور عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر طبرانی نے شعبی کے طریق سے‬ ‫حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل ہللا ‘‘ میں ہللا کی‬ ‫رسی سے مراد جماعت ہے۔‬ ‫(‪) ۱۰‬ابن جریر ابن ابی حاتم نے شعبی کے طریق سے ثابت بن فطنۃ المزنی رحمۃ ہللا علیہ‬ ‫سے روایت کیا کہ میں نے ابن مسعود (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا سے لوگو تم پر‬ ‫اطاعت اور جماعت َّلزم ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ہللا کی رسی ہے جن کے بارے میں حکم دیا‬ ‫گیا ہے۔‬ ‫(‪) ۱۱‬ابن ابی حاتم نے سماک بن ولید حنفی رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا کہ میں حضرت‬ ‫ابن عباس رضی ہللا عنہما سے مال اور عرض کیا آپ سالطین کے بارے میں کیا فرماتے‬ ‫ہیں وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ ہم کو گالیاں دیتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں ہمارے‬ ‫صدقات کے بارے میں۔ کیا ہم ان کو نہ روکیں؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں۔ ان کی اطاعت‬ ‫کرو جماعت کو َّلزم پکڑو۔ کیونکہ پہلی امتیں ہالک ہوئیں (آپس میں) جدا ہونے کی وجہ‬ ‫تعالی کا قول نہیں سنا لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل ہللا جمیعا وَّل تفرقوا ‘‘ ۔‬ ‫سے کیا تو نے ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫(‪) ۱۲‬ابن ماجہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا‬ ‫(صلی ہللا ص) نے فرمایا بنو اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ اور میری امت عنقریب‬

‫بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ایک فرقہ کے عالوہ سب آگ میں ہوں گے صحابہ نے‬ ‫عرض کیا یا رسول ہللا ! وہ ایک کونسا فرقہ ہے آپ فرمایا وہ جماعت ہے ۔ پھر فرمایا لفظ‬ ‫آیت ’’واعتصموا بحبل ہللا جمیعا وَّل تفرقوا ‘‘ ۔‬ ‫(‪) ۱۳‬ابن ماجہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا‬ ‫(صلی ہللا ص) نے فرمایا بنو اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت عنقریب‬ ‫بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ایک فرقہ کے عالوہ سب آگ میں ہوں گے صحابہ رضی ہللا‬ ‫عنہم نے عرض کیا وہ ایک کونسا فرقہ ہے آپ نے فرمایا وہ جماعت ہے پھر اس آیت کی‬ ‫تالوت کی لفظ آیت "واعتصموا بحبل ہللا جمیعا وَّل تفرقوا "۔‬ ‫(‪ )۱٤‬ابن ماجہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا‬ ‫(صلی ہللا ص) نے فرمایا بنو اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت عنقریب‬ ‫بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ایک فرقہ کے عالوہ سب آگ میں ہوں گے صحابہ نے‬ ‫عرض کیا یا رسول ہللا! وہ ایک فرقہ کونسا ہوگا آپ نے فرمایا وہ جماعت ہے پھر یہ آیت‬ ‫تالوت فرمائی لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل ہللا جمیعا وَّل تفرقوا ‘‘ ۔‬ ‫(‪) ۱۵‬مسلم اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا (صلی‬ ‫تعالی تمہارے لیے تین اعمال سے راضی ہوتے ہیں اور‬ ‫ہللا ص) نے فرمایا بالشبہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تمہارے لیے تین اعمال سے ناراض ہوتے ہیں تم سے راضی ہوتے ہیں اس بات سے کہ تم‬ ‫اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور یہ کہ تم مضبوطی سے‬ ‫پکڑو ہللا کی رسی کو سب کے سب اور متفرق نہ ہوجاؤ اور تم خیر خواہی کرو اس شخص‬ ‫تعالی نے تمہارے کام کا والی بنایا اور تمہارے لیے ناراض ہوتے ہیں بک‬ ‫کی جس کو ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫بک کرنے سے یعنی کثرت سے سوال کرنے سے اور مال کے ضائع کرنے سے۔‬ ‫(‪ )۱٦‬احمد ابوداؤد نے معاویہ بن سفیان (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا (صلی ہللا‬ ‫ص) نے فرمایا کہ کتاب والے اپنے دین میں متفرق ہوگئے بہتر فرقوں میں اور یہ امت‬ ‫عنقریب متفرق ہوجائے گی تہتر فرقوں پر یعنی اپنی خواہشات پر چلنے والے ایک کے‬ ‫عالوہ سب دوزخ میں جائیں گے اور وہ جماعت ہے (یعنی اہلسنت والجماعت کی) ۔‬ ‫مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہو‬ ‫(‪) ۱۷‬حاکم نے اس کو صحیح کہا حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روایت کیا ہے کہ‬ ‫رسول ہللا (صلی ہللا ص) نے فرمایا جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی نکل گیا تو‬ ‫تحقیق اس نے اپنی گردن سے اسالم کے پھندے کو نکال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے‬ ‫(یعنی دوبارہ کلمہ پڑھ کر اسالم میں داخل ہو) اور جو شخص مر گیا اور اس پر جماعت کا‬ ‫امام والی نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‬ ‫(‪) ۱۸‬ابن جریر ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت‬ ‫تعالی کے لیے اخالص کے ساتھ (ہللا کی رسی کو‬ ‫’’واعتصموا بحبل ہللا ‘‘ یعنی ایک ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫مضبوطی سے پکڑو) ’’ وَّل تفرقوا ‘‘ یعنی حدود سے تجاوز نہ کرو اور اخالص کے ساتھ‬ ‫(آپس میں) بھائی بھائی بن جاؤ۔‬ ‫(‪) ۱۹‬ابن ابی حاتم نے حسن رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’واعتصموا‬ ‫بحبل ہللا ‘‘ سے مراد ہے اس کی اطاعت کے ساتھ (ہللا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو) ۔‬

‫(‪) ۲۰‬قتادہ رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل ہللا ‘‘ سے مراد‬ ‫ہے ہللا کے عہد اور اس کے حکم کو َّلزم پکڑو۔‬ ‫(‪) ۲۱‬ابن جریر نے ابن زید رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’واعتصموا‬ ‫بحبل ہللا ‘‘ سے مراد ہے اسالم کو َّلزم پکڑو‬ ‫(‪) ۲۲‬ابن جریر ابن ابی حاتم نے ربیع رحمۃ ہللا علیہ سے لفظ آیت ’’واذکروا نعمت ہللا‬ ‫علیکم اذ کنتم اعداء ‘‘ کے بارے میں روایت کیا۔ کہ بعض تمہارا بعض کو قتل کر دیتا تھا‬ ‫تعالی اسالم کو لے‬ ‫اور تمہارا طاقت واَّل تمہارے کمزور کو کھا جاتا تھا یہاں تک کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫آئے اور اس کے ذریعہ تمہارے درمیان محبت ڈال دی اور تم سب کو آپس میں جمع کر دیا‬ ‫اور تم کو بھائی بھائی بنا دیا۔‬ ‫(‪) ۲۳‬ابن جریر وابن ابی حاتم نے عکرمہ رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی‬ ‫ہللا ص) نے انصار کی ایک جماعت سے مالقات فرمائی وہ لوگ ایمان َّلئے اور تصدیق‬ ‫کی تو آپ نے ان کے ساتھ جانے کا ارادہ فرمایا انصار نے عرض کیا یا رسول ہللا! ہماری‬ ‫قوم کے درمیان باہم لڑائی کا سلسلہ جاری ہے اور ہم خوف کرتے ہیں اگر آپ سی حال پر‬ ‫تشریف لے آئے تو آپ وہ کام نہ کر سکیں گے جس کا آپ ارادہ رکھتے ہیں پھر یہ لوگ‬ ‫اگلے سال وفد لے کر آئے تو انہوں نے کہا ہم رسول ہللا (صلی ہللا ص) کو لے جائیں گے‬ ‫تعالی اس لڑائی میں صلح فرما دیں اور وہ لوگ یہ جان چکے تھے کہ صلح‬ ‫شاید کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫نہیں ہوگی کیونکہ بعاث (یعنی لڑائی ) کا دن تھا پھر آئندہ سال ستر آدمیوں نے آپ سے‬ ‫مالقات کی اور ایمان لے آئے ان میں آپ نے بارہ آدمیوں کو ان کا چودھری یا سردار بنایا‬ ‫(اس طرح ان کی آپس میں لڑائی ختم ہوگئی) اور اسی وجہ سے یہ فرمایا لفظ آیت ’’واذکروا‬ ‫نعمت ہللا علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم ‘‘ اور ابن جریر کے یہ الفاظ ہیں جب‬ ‫حضرت عائشہ (رض) کا معاملہ تھا تو دو قبیلوں نے مشورہ کیا ان کے بعض نے بعض‬ ‫تعالی نے یہ‬ ‫سے کہا کہ تم سے حرہ پر وعدہ ہے تو وہ لوگ اس کی طرف نکلے (مگر ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫آگ بجھا دی) اور یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت "واذکروا نعمت ہللا علیکم اذ کنتم اعداء فالف‬ ‫بین قلوبکم"‬ ‫(‪ )۲٤‬ابن ابی حاتم نے ابن جریج رحمۃ ہللا علیہ سے لفظ آیت ’’ اذ کنتم اعداء ‘‘ کے بارے‬ ‫میں روایت کیا ہے کہ جو نزاع ہوا تھا اوس اور خزرج کے درمیان تھا حضرت عائشہ‬ ‫(رض) کی معاملہ میں (اس سے وہی مراد ہے) ۔‬ ‫(‪) ۲۵‬ابن المنذر نے ابن اسحق رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا ہے کہ اوس اور خزرج کے‬ ‫تعالی نے اس کو‬ ‫درمیان ایک سو بیس سال جنگ رہی یہاں تک کہ اسالم قائم ہوا اور ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫بجھا دیا اور ان کے درمیان محبت ڈال دی۔‬ ‫مسلمانوں کا آپس میں اتفاق نعمت خداوندی ہے‬ ‫(‪ )۲٦‬ابن المنذر نے مقاتل بن حبان رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات‬ ‫پہنچی ہے کہ یہ آیت انصار کے دو قبیلوں کے دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ایک‬ ‫ان میں سے خزرج میں سے تھا اور دوسرا اوس میں سے تھا دونوں نے آپس میں طویل‬ ‫زمانہ تک جاہلیت میں لڑائی لڑی نبی (صلی ہللا ص) (جب) مدینہ منورہ میں تشریف َّلئے‬ ‫تو ان کے درمیان صلح کرادی یہ گفتگو ان کے درمیان ایک مجلس میں جاری ہوگئی (جس‬

‫پر) انہوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا اور برا بھال کہا یہاں تک کہ ان کے بعض نے‬ ‫بعض لوگوں پر نیزا مارنا شروع کر دیا۔‬ ‫(‪) ۲۷‬ابن المنذر نے قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’واذکروا نعمت ہللا علیکم‬ ‫اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا ‘‘ سے مراد ہے کہ جب تم ایک‬ ‫دوسرے کو ذبح کر کے تمہارے طاقت ور لوگ تمہارے کمزوروں کو کھا جاتے تھے یہاں‬ ‫تک کہ اسالم آیات تو اس کے ذریعہ تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور اس کے ذریعہ‬ ‫تمہارے درمیان محبت ڈال دی لیکن ہللا کی قسم! وہ ذات کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں‬ ‫کہ بالشبہ یہ محبت البتہ رحمت ہے اور بالشبہ (آپس میں) جدائی عذاب ہے ہم کو (یہ بات)‬ ‫ذکر کی گئی کہ نبی (صلی ہللا ص) فرمایا کرتے تھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے‬ ‫میں محمد (صلی ہللا ص) کی جان ہے کہ دو آدمی آپس میں اسالم کی محبت نہیں کرتے تو‬ ‫ان کے درمیان پہال گناہ جدائی ڈال دیتا ہے جسے ان میں سے ایک نے کیا اگرچہ دونوں کا‬ ‫ارادہ نہ کرنے کا ہوتا ہے۔‬ ‫(‪) ۲۸‬ابن ابی حاتم نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا (صلی ہللا ص) نے‬ ‫فرمایا اے انصار کی جماعت تم مجھ پر کیوں احسان رکھتے ہو کیا میں تمہارے پاس اس‬ ‫تعالی نے میرے ذریعہ سے ہدایت دی اور‬ ‫وقت نہیں آیا جب تم گمراہ تھے پھر تم کو ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی نے‬ ‫میں تمہارے پاس اس حال میں آیا کہ تم (ایک دوسرے کے ) دشمن تھے پھر ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫میرے ذریعہ سے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی تو صحابہ نے عرض کیا ہاں رسول ہللا‬ ‫(صلی ہللا ص) ایسا ہی ہے۔‬ ‫(‪) ۲۹‬ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی رحمۃ ہللا علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’وکنتم‬ ‫علی شفا حفرۃ من النار ‘‘ سے مراد ہے کہ تم آگ کے کنارے پر تھے جو تم میں سے مرتا‬ ‫تعالی نے محمد (صلی ہللا ص) کو بھیجا جنہوں نے تم کو اس (آگ‬ ‫آگ میں جاتا مگر ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫کے) گڑھے سے نکال دیا۔‬ ‫(‪) ۳۰‬عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے‬ ‫یہ آیت ’’وکنتم علی شفا حفرہ من النار فانقذکم منھا ‘‘ پڑھی پھر فرمایا کہ تم کو بچایا اس‬ ‫سے اب میں امید کرتا ہوں وہ ہم کو دوبارہ اس میں نہیں ڈالے گا۔‬ ‫(‪) ۳۱‬الطستی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ان سے نافع بن ازرق نے‬ ‫تعالی کے اس قول لفظ آیت ’’وکنتم علی شفا حفرہ من النار فانقذکم منھا‬ ‫پوچھا کہ مجھے ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی نے تم کو محمد (صلی ہللا ص) کے‬ ‫‘‘ کے بارے میں بتائیے انہوں نے فرمایا کہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ذریعہ سے بچایا تو انہوں نے عرض کیا اس معنی کو عرب کے لوگ جانتے ہیں فرمایا ہاں‬ ‫کیا تو نے عباس بن مراداس کو نہیں سنا کہ وہ کہتے ہیں‬ ‫یکب علی شفا اَّلذقان کبا کما زلق التحتم عن جفاف‬ ‫ترجمہ‪ :‬اوندھا گرتا ہے ٹھوڑی کے کنارے پر اوندھا گرنا جیسے کیلے کے چھلکے سے‬ ‫اس کا ٹوٹا ہوا گودا پھسل کر نیچے گرتا ہے۔ (تفسیر درمنثور‪ ،‬مفسر جالل الدین سیوطی‪،‬‬ ‫‪908‬ھجری‪1507-‬عیسوی)‬ ‫)‪(18‬ہللا کی رسِّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو اور ذرا یاد‬‫کرو ہللا کا جو انعام تم پر ہوا جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو ہللا نے تمہارے دلوں‬

‫کے اندر اُلفت پیدا کر دی پس تم ہللا کے فضل و کرم سے بھائی بھائی بن‘ گئے اور تم تو‬ ‫آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے (بس اس میں گرنے ہی والے تھے ) تو ہللا‬ ‫نے تمہیں اس سے بچا لیا اسی طرح ہللا تمہارے لیے اپنی آیات واضح کررہا ہے تاکہ تم راہ‬ ‫پاؤ (اور صحیح راہ پر قائم رہو)‪( -‬ترجمہ بیان القرآن‪ ،‬مترجم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب‪،‬‬ ‫‪1428‬ھجری‪2008-‬عیسوی)‬ ‫َص ُم ْوا ِب َح ْب ِل ہ ِ‬ ‫ّٰللا َج ِم ْیعًا اوَّلَ تَفَ ارقُ ْواص) ۔‬ ‫آیت ‪َ ( ۱۰۳‬وا ْعت ِ‬ ‫َص ْم ہ ِ‬ ‫ِی‬ ‫(و َم ْن یا ْعت ِ‬ ‫یاد رہے کہ اس سے پہلے آیت ‪ ۱۰۱‬ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے‪َ :‬‬ ‫باّٰلل فَقَ ْد ہُد َ‬ ‫تعالی سے چمٹ جائے (ہللا کی حفاظت میں آ جائے)‬ ‫ص َراطٍ ُّم ْست َ ِقی ٍْم ) اور جو کوئی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ا ِٰلی ِ‬ ‫صراط مستقیم کی طرف۔ سورۃ الحج کی آخری آیت میں بھی یہ لفظ‬ ‫اس کو تو ہدایت ہو گئی‬ ‫ِ‬ ‫باّٰللِ) اور ہللا سے چمٹ جاؤ! اب ہللا کی حفاظت میں کیسے آیا جائے؟‬ ‫َص ُم ْوا ہ‬ ‫(وا ْعت ِ‬ ‫آیا ہے ‪َ :‬‬ ‫ّٰللاِ) کہ ہللا کی رسی سے‬ ‫َص ُم ْوا بِ َح ْب ِل ہ‬ ‫(وا ْعت ِ‬ ‫ہللا سے کیسے چمٹیں؟ اس کے لیے فرمایا‪َ :‬‬ ‫چمٹ جاؤ‘ ہللا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ۔ اور یہ ہللا کی رسِّی کونسی ہے؟ متعدد‬ ‫تقوی پیدا ہو‘ اور دوسری‬ ‫احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآنہے۔ ایک طرف انسان میں‬ ‫ٰ‬ ‫طرف اس میں علم آنا چاہیے‘ قرآن کا فہم پیدا ہونا چاہیے‘ قرآن کے نظریات کو سمجھنا‬ ‫چاہیے‘ قرآن کی حکمت کو سمجھنا چاہیے۔ انسانوں میں اجتماعیت جانوروں کے گلوں کی‬ ‫طرح نہیں ہو سکتی کہ بھیڑبکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے اور ایک چرواہا ایک لکڑی لے‬ ‫کر سب کو ہانک رہا ہے۔ انسانوں کو جمع کرنا ہے تو ان کے ذہن ایک جیسے بنانے ہوں‬ ‫حیوان عاقل ہیں‘ باشعور لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ایک‬ ‫گے ‘ ان کی سوچ ایک بنانی ہو گی۔ یہ‬ ‫ِ‬ ‫ہو‘ نظریات ایک ہوں‘ مقاصد ایک ہوں‘ ہم آہنگی ہو‘ نقطۂ‘ نظر ایک ہو تبھی تو یہ جمع‬ ‫ہوں گے۔ اس کے لیے وہ چیز چاہیے جو ان میں یک رنگئ خیال‘ یک رنگئ نظر ‘ یک‬ ‫جہتی اور مقاصد کی ہم آہنگی پیدا کر دے‘ اور وہ قرآن ہے‘ جو حبل ہللا ہے۔‬ ‫حضرت علی (رض) سے مروی طویل حدیث میں قرآن حکیم کے بارے میں رسول ہللا‬ ‫((وھ َُو َح ْب ُل ہ ِ‬ ‫ّٰللا ْال َمتِی ُْن)) (‪ )۱‬حضرت عبدہللا‬ ‫(صلی ہللا علیہ وسلم) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں‪َ :‬‬ ‫َاب ہ ِ‬ ‫ّٰللا‬ ‫بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ آنحضور (صلی ہللا علیہ وسلم) نے فرمایا‪ِ (( :‬کت ُ‬ ‫ض)) (‪ )۲‬ہللا کی کتاب (کو تھامے رکھنا)‘ یہی وہ مضبوط‬ ‫‘ َح ْب ٌل َم ْمد ُْو ٌد ِمنَ ال ا‬ ‫س َم ِ‬ ‫اء اِلَی ْاَّلَ ْر ِ‬ ‫رسِّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا‪( :‬ا َ ْب ِش ُر ْوا‬ ‫ّٰللا َو َ‬ ‫سبَبٌ ‘ َ‬ ‫ط ْرفُ ٗہ بِیَ ِد ہ ِ‬ ‫ط ْرفُ ٗہ بِا َ ْی ِد ْی ُک ْم) (‪ )۳‬خوش ہو جاؤ‘ خوشیاں‬ ‫ا َ ْب ِش ُر ْوا ۔۔ فَا اِن ٰھذَا ْالقُ ْرآنَ َ‬ ‫ایک سرا تمہارے‬ ‫مناؤ۔۔ یہ قرآن ایک واسطہ ہے‘ جس کا ایک سرا ہللا کے ہاتھ میں ہے اور ِ‬ ‫ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ تقرب الی ہللا کا ذریعہ بھی قرآن ہے ‘ اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑ‬ ‫کر رکھنے کا ذریعہ بھی قرآن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعوت و تحریک کا منبع و‬ ‫مبنی و مدار قرآن ہے۔ اس کا عنوان ہی دعوت رجوع الی القرآنہے۔ میں نے‬ ‫سرچشمہ اور‬ ‫ٰ‬ ‫اپنی پوری زندگی الحمد ہلل اسی کام میں کھپائی ہے اور اسی کے ذریعہ سے انجمن ہائے‬ ‫خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان اکیڈمیز میں ایک سالہ رجوع الی القرآن‬ ‫کورسبرسہا برس سے جاری ہے ۔ اس کورس میں جدید تعلیم یافتہ لوگ داخلہ لیتے ہیں‘ جو‬ ‫ایم اے؍ایم ایس سی ہوتے ہیں‘ بعض پی ایچ ڈی کرچکے ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر اور انجینئر بھی‬ ‫آتے ہیں۔ وہ ایک سال لگا کر عربی سیکھتے ہیں تاکہ قرآن کو سمجھ سکیں۔ ظاہر ہے جب‬

‫قرآن مجید کے ساتھ آپ کی وابستگی ہوگی تو پھر آپ دین کے اس رخ پر آگے چلیں گے۔‬ ‫تو یہ دوسرا نکتہ ہوا کہ ہللا کی رسی کو مل جل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں‬ ‫نہ پڑو۔‬ ‫(وا ْذ ُک ُر ْوا ِن ْع َمتَ ہ ِ‬ ‫صبَحْ ت ُ ْم ِبنِ ْع َم ِت ٖہ ا ِْخ َوانًاج)‬ ‫ف بَیْنَ قُلُ ْو ِب ُک ْم) (فَا َ ْ‬ ‫ّٰللا َ‬ ‫علَ ْی ُک ْم اِ ْذ ُک ْنت ُ ْم ا َ ْع َدآ ًء) (فَاَلا َ‬ ‫َ‬ ‫یہاں ِّاولین مخاطب انصار ہیں۔ ان کے جو دو قبیلے تھے اوس اور خزرج وہ آپس میں‬ ‫لڑتے آ رہے تھے۔ سو برس سے خاندانی دشمنیاں چلی آ رہی تھیں اور قتل کے بعد قتل کا‬ ‫سلسلہ جاری تھا۔ لیکن جب ایمان آ گیا ‘ اسالم آ گیا‘ ہللا کی کتاب آ گئی‘ محمد رسول ہللا‬ ‫(صلی ہللا علیہ وسلم) آ گئے تو اب وہ شیر و شکر ہو گئے‘ ان کے جھگڑے ختم ہو گئے۔‬ ‫اسی طرح پورے عرب کے اندر غارت گری ہوتی تھی ‘ لیکن اب ہللا نے اسے داراَّلمن بنا‬ ‫دیا۔‬ ‫ّٰللاُ لَ ُک ْم ٰا ٰیتِ ٖہ لَعَلا ُک ْم ت َ ْہتَد ُْونَ )‬ ‫ع ٰلی َ‬ ‫ک یُبَیِ ُِّن ہ‬ ‫ار) (فَا َ ْنقَذَ ُک ْم ِ ِّم ْن َہاط) (ک َٰذ ِل َ‬ ‫(و ُک ْنت ُ ْم َ‬ ‫شفَا ُح ْف َرۃٍ ِ ِّمنَ النا ِ‬ ‫َ‬ ‫اُمت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی َّلئحہ عمل کے یہ دونکتے بیان ہو گئے۔ سب سے پہلے‬ ‫تقوی اور فرمانبرداری جیسے اوصاف سے متصف کرنا ۔۔‬ ‫افراد کے کردار کی تعمیر‘ انہیں‬ ‫ٰ‬ ‫اور پھر ان کو ایک جمعیت‘ تنظیم یا جماعت کی صورت میں منظم کرنا‘ اور اس تنظیم کا‬ ‫معنوی محور قرآن مجید ہونا چاہیے‘ جو حبل ہللا ہے۔ بقول عالمہ اقبال ‪ :‬عاعتصامش کن کہ‬ ‫حبل ہللا اوست! اس کو مضبوطی سے تھامو کہ یہ حبل ہللا ہے! اس جماعت سازی کا فطری‬ ‫طریقہ بھی ہم اسی سورت کی آیت ‪ ۵۲‬کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں کہ کوئی ہللا کا بندہ‬ ‫ّٰللاِ) کی آواز لگائے کہ میں تواس راستے پر چل‬ ‫ی اِلَی ہ‬ ‫ار ْ‬ ‫داعی بن کر کھڑا ہو اور ( َم ْن ا َ ْن َ‬ ‫ص ِ‬ ‫رہا ہوں‘ اب کون ہے جو میرے ساتھ اس راستے پر آتا ہے اور ہللا کی راہ میں میرا مددگار‬ ‫بنتا ہے؟ ایسی جمعیت جب وجود میں آئے گی تو وہ کیا کرے گی؟ اس ضمن میں یہ تیسری‬ ‫آیت اہم ترین ہے‪( :‬تفسیر بیان القرآن‪ ،‬ڈاکٹر اسرار احمد صاحب)‬ ‫)‪(19‬اور مضبوطی سے پکڑ لو ہللا کی رسی ‪ 110‬سب مل کر اور جدا جدا نہ ہونا ‪111‬‬‫تعالی کی وہ نعمت ( جو اس نے ) تم پر فرمائی جب کہ تم تھے (آپس میں)‬ ‫اور یادرکھو ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫دُشمن پس اس نے الفت پیداد کردی تمہارے دلوں میں تو بن گئے تم اس کے احسان سے‬ ‫بھائی بھائی ‪ 112‬اور تم (کھڑے) تھے دوزخ کے گھڑے کے کنارے پر اس نے بچا لیا‬ ‫عالی تمہارے لیے اپنی آیتیں تاکہ تم‬ ‫تمھیں اس (میں گرنے) سے یونہی بیان کرتا ہے ہللا ت ٰ‬ ‫ہدایت پر ثابت رہو۔ (ترجمہ ضیاءالقرآن‪ ،‬مترجم پیر کرم شاہ صاحب اَّلزہری‪،‬‬ ‫‪1415‬ھجری‪1995-‬عیسوی)‬ ‫‪110‬ف حبل کا لغوی معنی ہے السبب الذی یوصل بہ الی البغیۃ (القرطبی ) یعنی وہ چیز‬ ‫جو مقصد تک پہنچنے کا سبب ہو ۔ لیکن اس کا استعمال مختلف معنوں میں ہوتا ہے۔ وہ پٹھہ‬ ‫جو گردن کو کندھوں سے مالتا ہے اسے بھی حبل کہتے ہیں۔ والحبل الرسن والحبل العہد ۔‬ ‫حبل کا معنی رسی بھی ہے اور عہد بھی۔ حضرات سیدنا علی (رض) و ابن مسعود (رض)‬ ‫الصلوۃ والتسلیم سے روایت‬ ‫وعلی آلہ‬ ‫وابو سعید الخدری (رض) نے رسول کریم علیہ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫فرمائی ہے حبل ہللا القران ۔ ہللا کی رسی سے مراد قرآن ہے۔ اسالف سے حبل ہللا کی تفسیر‬ ‫میں جو متعدد اقوال منقول ہیں ان میں تضاد نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے موید اور موافق‬ ‫ہیں۔‬

‫‪111‬ف زندگی کی اس رزم گاہ میں جہاں شکست وریخت ‪ ،‬تعمیر وتخریب اور فنا وبقا کا‬ ‫ایک نہ ختم ہونے واَّل چکر چل رہا ہے کوئی قوم عزت وقار سے زندہ وسالمت نہیں رہ‬ ‫سکتی جب تک اس کے افراد میں اتفاق واتحاد نہ ہو۔ اور کوئی اتحاد پائندہ وپائیدار نہیں ہو‬ ‫سکتا جب تک محکم اور حقیقی بنیادوں پر اس کی عمارت نہ تعمیر کی گئی ہو۔ امت مسلمہ‬ ‫جو کہ دولت رشد وہدایت کی امین اور رحمت خداوندی کی قاسم بنا کر بھیجی گئی ہے۔‬ ‫جسے ہر باطل سے ٹکرانا ہے اور ٹکرا کر اسے پاش پاش کرنا ہے۔ جسے قلب ونظر کے‬ ‫سارے صنم کدے مسمار کرنے ہیں۔ جسے ہر دل کو بیت ہللا اور ہر نگاہ کو اس کا شناسا‬ ‫بنانا ہے۔ اس قوم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے لئے نہ سہی اپنے بلند اور پاکیزہ مقاصد‬ ‫کے لئے زندہ رہے اور عزت ووقار سے زندہ رہے تا کہ اس کی آواز سنی جائے اور مانی‬ ‫جائے۔ اور یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے افراد میں اتحاد واتفاق ہو۔ اور وہ اتحاد‬ ‫واتفاق سطحی نہ ہو جسے کوئی تندو تیز لہر بہا کر لے جا سکے بلکہ حقیقی اور پائیدار‬ ‫تعالی نے مسلمانوں کو متحد ہونے کا بھی حکم دیا اور‬ ‫ہو۔ اس لئے اس آیت کریمہ میں ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ان کے لئے وہ مستحکم بنیاد مقرر فرمائی جس سے محکم تر کوئی اور بنیاد نہیں ہو سکتی۔‬ ‫وہ قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم پر عمل کرنے کے لئے اس کا صحیح سمجھنا ضروری ہے۔‬ ‫اور اس کی صحیح سمجھ اس ذات اقدس واطہر کے بیان اور تفسیر کے بغیر ناممکن ہے‬ ‫جسے قرآن نازل کرنے والے خدا نے بھیجا ہی قرآن کو صحیح صحیح سمجھانے کے لئے‬ ‫تھا۔ عالمہ قرطبی نے فرمایا اور خوب فرمایا ۔ امرنا ہللا تعالی باَّلجتماع علی اَّلعتصام‬ ‫بالکتاب والسنۃ اعتقادا وعمال وذلک سبب اتفاق الکلمۃ وانتظام الشتات الذی یتم بہ مصالح‬ ‫تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اعتقادا اور عمال کتاب وسنت کی‬ ‫الدنیا والدین ۔ یعنی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫رسی مضبوطی سے پکڑ لیں۔ ہمارے اتحاد کا صرف یہی سبب ہے اور صرف اسی طرح‬ ‫اتفاق واتحاد کی نعمت میسر آ سکتی ہے۔ جس سے ہمارے دین ودنیا کے حاَّلت سنور‬ ‫سکتے ہیں۔‬ ‫‪112‬ف رحمت عالم (صلی ہللا علیہ وسلم) کی تشریف آوری سے قبل عرب کے جزیرہ نما‬ ‫کی کیا حالت تھی۔ وہ آپس میں انس ومحبت اور شفقت ورحمت کرنے والے انسانوں کا ملک‬ ‫نہیں تھا بلکہ ایک کوہ آتش فشاں تھا جس سے ہر لحظہ اور ہر لمحہ بغض وعناد کی آگ‬ ‫برستی رہتی تھی اور دور دور تک آبادیاں جل کر خاکستر ہو جایا کرتی تھیں۔ ہر قبیلہ‬ ‫دوسرے قبیلہ سے برسر پیکار تھا۔ ہر عالقہ دوسرے عالقہ سے جنگ آزما تھا۔ جذبات‬ ‫اتنے مشتعل اور بےقابو تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر خون کی ندیاں بہہ جایا کرتی تھیں۔‬ ‫ایک بار اگر جنگ کی آگ سلگ پڑتی تھی تو صدیوں تک اس کے شعلے بھڑکتے رہتے‬ ‫تھے۔ اوس وخزرج میں لڑائی کا سلسلہ ایک سو بیس سال تک جاری رہا۔ کسی کی جان ‪،‬‬ ‫کسی کا مال محفوظ نہ تھا۔ یہاں تک کہ اسالم کا بادل آیا اور رحمت خداوندی بن کر برسا۔‬ ‫حضور (صلی ہللا علیہ وسلم) سراپا نور وسرور کا ظہور ہوا تو عرب کے اجڑے دیار میں‬ ‫بہار آگئی۔ عداوت کی جگہ محبت نے ‪ ،‬وحشت کی جگہ انس نے‪ ،‬انتقام کی جگہ عفو نے‪،‬‬ ‫خودغرضی کی جگہ اخالص وایثار نے اور غرور وتکبر کی جگہ تواضع وانکسار نے لے‬ ‫لی۔ یہ وہ انقالب تھا جس نے عرب کی کایا پلٹ دی۔ جس کی برکت سے عرب کے صحرا‬ ‫وتعالی اپنے اسی احسا ن عظیم کی یاد‬ ‫نشینوں نے تاریخ عالم کا رخ موڑ دیا۔ ہللا تبارک‬ ‫ٰ‬

‫تازہ کر ا رہا ہے کہ کس طرح اس نے اپنے محبوب کریم (صلی ہللا علیہ وسلم) کی برکت‬ ‫اور فیض نگاہ سے تمہارے ٹوٹے ہوئے دل جوڑ دئیے اور تمہیں بھائی بھائی بنا دیا۔ اور‬ ‫ذلت ورسوائی کی پستیوں سے نکال کر ترقی وعزت کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ تم دوزخ‬ ‫کے کنارے پر کھڑے تھے۔ بس آنکھ بند کرنے کی دیر تھی اور تم اس گڑھے میں گر‬ ‫پڑتے۔ لیکن رحمت ٰالہی نے تمہاری دستگیری کی اور تمہیں آتش جہنم میں گرنے سے بچا‬ ‫لیا۔ ان احسانات کو یاد کرو اور یاد رکھو۔ اور اسالم کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے‬ ‫رہو۔ اور اپنی صفوں میں انتشار کو جگہ نہ دو۔ اس آیت کے اولین مخاطب صحابہ کرام‬ ‫رضوا ن ہللا علیہم اجمعین کرام ہیں۔ اور ان کے متعلق ہی خدائے بصیر و خبیر فرما رہا‬ ‫ہے کہ میں نے ان کے دل جوڑ دئیے۔ انہیں بھائی بھائی بنا دیا۔ ان کو دوزخ سے نکال لیا۔‬ ‫اب جو لوگ ان نفسوس قدسیہ پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کو دائرہ اسالم‬ ‫سے خارج سمجھتے ہیں وہ خود ہی ذرا انصاف کریں اور بتائیں کہ وہ کون لوگ تھے جن‬ ‫کو حضور (صلی ہللا علیہ وسلم) نے شیرو شکر کیا تھا ۔ وہ کون تھے جن کو دوزخ کے‬ ‫کنارے سے ہٹا کر جنت میں پہنچایا تھا۔ حقیقت میں صحابہ کرام پر اعتراض کرنا ان پر‬ ‫اعتراض نہیں بلکہ قرآن پر‪ ،‬اسالم پر اور پیغمبر اسالم پر براہ راست اعتراض ہے۔ اور جن‬ ‫کے ذہن فتنہ زانے ان شکوک کو جنم دیا تھا ان کے پیش نظر صحابہ کو مطعون کرنا نہیں‬ ‫تھا بلکہ چابک دستی سے اسالم اور پیغمبر اسالم کی عظمت کو داغدار کرنا تھا کہ یہ ہیں‬ ‫تمہارے اس نبی کے اولین شاگرد جس کی قصیدہ خوانی سے تم رات دن آسمان سر پر‬ ‫اٹھائے رکھتے ہو۔ ان اعتراضات کرنے والوں پر تو ہمیں حیرت نہیں‪ ،‬افسوس ہمیں ان‬ ‫مسلمانوں پر ہے جو دشمن کے اس دام فریب میں پھنس جاتے ہیں اور ان مقدس ہستیوں‬ ‫کے متعلق بےباکی کی جرات کرتے ہیں جن کے دفتر حیات کی ہر سطر آفتا ومہتاب سے‬ ‫تابندہ تر ہے ف‬ ‫عاشقان او ز خوباں خوب تر خوش ترو زیبا ترو محبوب تر (اقبال )۔ (تفسیر ضیاءالقرآن‪،‬‬ ‫مفسر پیر کرم شاہ صاحب اَّلزہری)‬

Related Documents

?.docx
May 2020 65
'.docx
April 2020 64
+.docx
April 2020 67
________.docx
April 2020 65
Docx
October 2019 42

More Documents from ""

April 2020 2
April 2020 1
Index9.pdf
December 2019 5
Tumakninah.docx
June 2020 25
E1501425.full.pdf
November 2019 34