ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 1کی روشنی میں)
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی فالحی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں) ڈاکٹر ثمینہ ناصر
فالحی ریاست کی ضرورت و اہمیت: ریاست کا ادارہ کسی بھی انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے کیونکہ کسی معاشرت کی بقا کے لئے اس کی اجتماعی اقدار کا تحفّظ،امن و سالمتی اور اس کا نظم و ضبط ایک نا گزیر ضرورت ہے۔دین ِ اسالم ایک جامع ضابطہ ٔ حیات ہونے کے اعتبار سے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے وہاں بطور ِ خاص انسانی معاشرے کی ت اجتماعی تنظیم سے متعلق فالحی ریاست کا عملی وجودریاس ِ مدینہ کی صورت میں پیش کرتا ہے۔یہ دنیا کی پہلی فالحی ریاست تھی جس میں ریاست کے تمام شعبوں کو انسان کی فالح کے ساتھ مربوط کر دیا گیا۔چاہے اس کا تعلق معاش و معاشرت سے ہویا علم و تحقیق سےہو،امن و امان و معاہدات ِ اندرونی ہوں یا بیرونی ۔ریاست ِ مدینہ نے زندگی کے ہر شعبے کو کمال بخشا۔انسانیت کی فالح و بہبود کے لئے وہ کیا اقدامات کئے گئے جس کی بنا پر ریاست ِ مدینہ پہلی اسالمی فالحی ریاست کہالئی اور تمام ریاستوں سے ممتاز اور مہمیز ہوئی ۔ انسانیت کی فالح و بہبود کے لیے اسالم کی صورت میں بہترین صلی تعالی نے خاتم االنبیاء حضور نبی اکرم ضابطہ حیات ہللا ٰ ٰ ہللا علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اپنی کامل اور اکمل ترین شکل میں عطا فرمایا۔ حضور نبی اکرم ﷺنے جس لگن اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض نبوت کی بجا آوری فرمائی اور انسانیت کو پستی سے نکال کر جس رفعت تک پہنچایا ،تاریخ ِعالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرم ﷺکے مثالی طرز حکمرانی نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو ____________________
۔
معلّمہ لیکچرار،بیکن ہاؤس اسکول سسٹم،سیٹالئیٹ ٹاؤن ،راولپنڈی
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 2کی روشنی میں) دنیا کی بہترین اسالمی فالحی ریاست ’’مدینہ‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مثالی ریاست مدینہ کی جھلک ہمہ وقت ہمارے سامنے ہو تاکہ پیش آمدہ مشکل مسائل کو اُسو ٔہ حسنہ کی روشنی میں حل کر سکیں۔ زیر نظر مقالے کا بنیادی مقصد نبی اکرم ﷺکے اُن اقدامات پر روشنی ڈالنے کی عصر حاضرپاکستان کو ایک بہترین اسالمی کوشش کی ہے جو ِ فالحی ریاست کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس پر مزید بحث سے قبل ریاست کے مفہوم اور اصطالحی تصور پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
ریاست: لغوی اعتبار سے ’ریاست‘ عربی زبان کا لفظ ہے،یہ اردو اور فارسی میں بھی انہیں معنوں میں مستعمل ہے۔عربی میں ’’ریاست کا مادہ ’’رائس‘‘ ہے اور اسی سے الرئیس ہے۔اور رائیس یا رائس کا اطالق بلند مرتبہ یا ّاول المقام شخص پہ ہوتا ()1 ہے۔ انگریزی زبان میں ریاست کے لئے لفظ stateاستعمال ہوتا ہے۔سٹیٹ یونانی زبان کے لفظ ( )Statusسے ماخوذ ہے۔( )2اس سے پہلے ’’اسٹیٹ‘‘کا مفہوم ادا کرنے کے لئے دوسرے الفاظ کا سہارا لیا جاتا تھا۔چنانچہ یونانیوں کے ہاں بالعموم پولس()Polisکا لفظ مستعمل رہا جس کے معنی)(Cityکے ہیں۔یہ اس امر کی عالمت ہے کہ ان کا تصور ِ ریاست شہر پر مبنی اور محدود تھا۔رومیوں نے ریاست کے مفہوم کو لفظ سیوٹاس()Civitasکے استعمال کے ذریعے قدرے وسعت دی ہے ۔رومیوں کے ہاں ایک دوسرا لفظ ری پبلیکا()Republica بھی ملتا ہے جو ریاست کے مفہوم پر داللت کرتا ہے۔اس سے نہ ____________________
ابن ِ منظور افریقین،جمال الدین محمد بن مکرم ،لسان العرب ،دار الصادر 1۔ بیروت،لبنان،۱۹۵۶،ص۹۲:۔۹۱ Joseph,Shipley T.Dictionary of word 2۔ Origion,Philosophical Lib,New York,1945,P:334
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 3کی روشنی میں) صرف شہریت بلکہ( )Republicیعنی ایک قوم اور اس کے ()3 مفادات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
ریاست کی اصطالحی تعریف: ماہرین ِ سیاسیات نے ریاست کی تعریف میں معاشرتی اور نقطہ نظر کا لحاظ رکھا ہے کیونکہ ریاست ایک سیاسی سیاسی ٔ ادارہ بھی ہے اور معاشرتی بھی۔انسائیکوپیڈیا آف سوشل سائنس کے مطابق: ’’ریاست انسانوں کا ایک گروہ یا تنظیم ہے جو مشترکہ مقاصد کے لئے مل جل کر کام کرے‘‘()4نظام امارت میں ایک امیر ہے ،دوسرا مامور ہے اور تیسرا امر ہے اور جدید تصور ریاست کی روشنی میں امیر حکومت ہے ،مامور آبادی ہے اور تیسرا امر الہی ہے یعنی اقتدار اعلی ہے۔ پس ان تین چیزوں کے ملنے سے جو نظام وجود میں آتا ہے ،اسے نظام امارت یا نظام ریاست کہتے ہیں۔ اور ریاست کے اسالمی ہونے کا معنی یہ ہے کہ امیر ،مامورین میں امر الہی کو جاری وساری کرنے کے لیے خالفت یعنی نیابت کا کردار ادا کرے۔
اسالم میں ریاست کا تصور: اسالمی نظام ریاست میں جغرافیے کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اسالمی نظام ریاست آبادی ،حکومت اور اقتدار اعلی سے مل کر ت پاک ہے اور حکم اعلی ہللا اقتدار وجود میں آتا ہے۔ تعالی کی ذا ِ ِ ٰ ٰ ت اقدس کو ہی حاصل ہے۔ أ َ ََل لَهُ ق کائنات کی ذا ِ کا اختیار خال ِ ْ َ ()5 ق َواْل ْم ُر کائنات کی ہر چیز اسی نے بنائی ہے اور حکم ا ْل َخ ْل ُ تعالی کی حاکمیت اور قانون دینے کا اختیار بھی اسی کو ہے۔ہللا ٰ کا یہ اصول اور انسان کی خالفت اور جانشینی کا تصور اسالم ____________________
3۔ Bluntchli,Johann Kaspar,The Theory of the state,London,2000,P:52 Enecyelopeadia of Social Sciences, New York,Vol.14,P:328 4۔ 5۔
سورۃ االعراف۷:۵۴
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 4کی روشنی میں) کے دستوری اور انتظامی قانون کی بنیاد ہے اور اسالمی ریاست کا بنیادی اصول ہے۔ قرآن مجید نے اسالمی ریاست کا جو مقصد متعین کیاگیا ہے تعالی ہے: اس کے واضح خدو خال بیان کئے ہیں ۔ارشا ِد باری ٰ الَّذ َ ص َالةَ َوآت َ ُوا ض أَقَا ُموا ال َّ ِین إِ ْن َم َّكنَّا ُه ْم فِي ْاْل َ ْر ِ َّ وف َونَ َه ْوا ع َِن ا ْل ُم ْنك َِر َو ِ َّّلِلِ الزكَاةَ َوأ َ َم ُروا بِا ْل َم ْع ُر ِ ور ِ()6 عَاقِبَةُ ْاْل ُ ُم ِ ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں زکوۃ اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گےٰ ، دیں گے ،معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار ہللا کے حکم میں ہے۔ اس آیت مبارکہ کے مطابق اسالمی ریاست کا مقصد اقامت ِ دین ہے ۔کتاب و سنت کے مطابق انصاف و مساوات قائم کرنا صلی ہللا علیہ ،نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکناہےاور آپ ٰ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ اور اس کے رہنے والوں نے اپنے صلی ہللا فرائض کو سرانجام دیا۔ ریاست مدینہ کے قیام سے آپ ٰ الہی کا حصول اور عوامی علیہ وآلہ وسلم کا مقصود رضائے ٰ بہبود تھا۔ ریاست کے اصول قرآن نے پیش کئےاور اس کی عملی وضاحت و تشریح اسالم کی پہلی اسالمی فالحی ریاست ’’ریاست ِ مدینہ ‘‘ہے۔ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے تاریخِ انسانیت کی 23سالہ قلیل ترین مدت میں جو عظیم الشان انقالب برپا کیا وہ اپنی نوعیت ،کیفیت ،جدوجہد اور نتائج کے اعتبار سے اتنا حیران تاریخ عالم میں کہیں موجود نہیں کن ہے کہ اس کی نظیر ِ ہے۔دنیا میں جو بھی حکمران آیا چاہے وہ فرعون تھا یا شداد، اس نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی رعایا کو اپنا غالم بنایا ____________________
6۔
سورۃ الحج41 :22
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 5کی روشنی میں) اور اس پر جبر کیا ۔ماسوائے اشوکا، 7جس نے اپنی پہلی زندگی سے تائب ہو کر انسانیت کے لئے کام کیا لیکن انسانیت کو جو کمال حاصل ہوا وہ نبی آخر الزماں کے کردار ،اخالق اور تہذیب ِ انسانیت سےہوا۔ صرف 23برسوں کی مختصر مدت میں انسان نے وہ انقالب دیکھا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ عین الحق بغدادی اپنے مضمون ریاست مدینہ ،اسالمی فالحی ریاست کا عظیم مظہر میں لکھتے ہیں: یہ سب کچھ پْرامن طور پر بالخون خرابے کے ہوا اور 27غزوات اور 54سرایا میں صرف چند سو انسان دوطرفہ کام آئے تو انسانی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ اس ساری انقالبی جدوجہد کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان بے ساختہ یہ بات کہنے پرمجبور ہوجاتا ہے کہ اگر تاریخ انسانی میں کوئی حقیقی انقالب برپا ہوا ہے تو فقط یہی انقالب ہے باقی جو کچھ ہے وہ ساری کش مکش اقتدار اور خون خرابی کی داستان ہے۔()8 ت اقدس وجوب ِ رحمت ِ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذا ِ ٰ کائنات ہے۔آپﷺ نے اپنے اسو ٔہ حسنہ اور اسلوب ِ حکمرانی سے وہ نقوش ثبت کئے ہیں جن کی اطباع سے آج بھی پر امن اور فالحی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس مثالی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر ____________________
اشوک سلطنت موریہ کا تیسرا شہنشاہ گزرا۔ ا 272ق۔ م میں گدّی پر بیٹھا۔ اشوک نے اپنے ایک بھائی کو چھوڑ کر 99بھائیوں کو قتل کر دیا۔ تین سال جنگ میں ہزاروں الکھوں کا خون ہوتا ہوا دیکھ کبھی کسی سے لڑائی نہ کی۔ 8۔
ریاست مدینہ ،اسالمی فالحی ریاست کا عظیم مظہرمورخہ 01 :دسمبر 2015ء،عین الحق بغدادی(تحریک منہاج القرآن)
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 6کی روشنی میں) صلی ہللا علیہ وآلہ مختلف تھا۔ منتظم ریاست کی حیثیت سے آپ ٰ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم وسلم کے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ ٰ کی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔ آپ ﷺ نے پہلی اسالمی فالحی ریاست کو میثاق ِ مدینہ ،مواخات ِ مدینہ اور زکواۃ و صدقات کی صورت میں بہترین معاشی نظام دیا۔ مکہ جو آپ ﷺ کا شہر تھا ۔آپﷺ کو مکہ سے شدید انس تھا ۔نبی اکرم ﷺ جہاں مکہ والوں کی مذہبی اور انفرادی اصالح کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھے لیکن وہ حق کی طرف مائی نہیں ہو ۔کفار مکہ نے آپﷺ اور اآپ ﷺ کے ساتھیوں پر رہے تھے ِ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔دعوت ِ حق کے جواب میں تلواروں کی جھنکاریں سنائی دیں۔ ۔آپ ؐ نے مکہ میں ماحول کی سازگاری نہ پاکر ہللا کے حکم سےمدینہ کی طرف ہجرت کا قدم اٹھایا تو اس کے پس منظر میں اسی اجتماعی سماجی نظام تعارف اور نفاذ تھا جس کی خاطر آپ ؐ مبعوث فرمائے گئے تھے ۔ ہزاروں قربانیوں ‘ الکھوں تکالیف ‘ کئی جنگوں ‘ متعدد شہادتوں ‘ التعداد زخموں اور ہجرت جیسے تکلیف دہ مرحلے کے بعد خدا کی زمین پر ’’ریاست ِ مدینہ ‘‘ کی شکل میں اجتماعی سماجی نظام وجود میں آیا ۔پیغمبر اکرم ؐ کے دست ِ مبارک سے ایک ایسی الہی ریاست کی عملی شکل سامنے آئی جس میں عدل ہی عدل تھا۔ انصاف کا دور دورہ تھا۔ دین کی حاکمیت تھی ۔ نبی آخر الزماں تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے۔آپ ﷺ نے کفار کے مظالم سہے لیکن جب خود فاتح بن کر مکہ آئے تو ارشاد فرمایا: ()9 علَ ْی ُك ُم ا ْلیَ ْو َم یب َ ََل تَثْ ِر َ
____________________
9۔ سنن النسائی الكبرى،أحمد بن شعیب أبو عبد الرحمن النسائی ،دار الكتب العلمیة – بیروت،الطبعة األولى ،1991 ،ص3826/6:
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 7کی روشنی میں) اعلی ظرفی سے متاثر ہو کر ادرگرد کے قبائل نے آپ ﷺ کی ٰ بھی اسالم کے دائرے میں داخل ہونے میں عافیت و فالح سمجھی اور اسالم تیزی سے پھیلنے لگا۔ اسد ہللا خان شہیدی ’’ عہد ِ نبوی کا شہری نظام ‘‘میں لکھتے ہیں : عہد ِ نبوی کا شہری نظام مدینہ منور کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسالمی ریاست بن گئی ،جس کے حدو ِد حکمرانی شمال میں عراق وشام کی سرحدوں سے لے کر جنوب بحر قلزم سے لے میں یمن وحضر موت تک ،اور مغرب میں ِ ت ایران تک وسیع ہو گئیں کر مشرق میں خلیج فارس و سلطن ِ اور علمی طور سے پورے جزیزہ نمائے عرب پر اسالم کی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے پیش حکمرانی قائم ہو گئی۔()10آپ ٰ نظر ایک اہم مقصد ’’مثالی اسالمی فالحی معاشرے‘‘ کا قیام تھا صلی ہللا علیہ ت نافذہ کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ اور اس کے لیے قو ِ ٰ وآلہ وسلم اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ 11 س ْل َ یرا ( ) ْق َواجْ عَ ْل ِلي ِم ْن لَ ُد ْنكَ ُ طانًا نَ ِص ً ِصد ٍ ترجمہ :اے ہللا اقتدار کے ذریعے اسالم کی مدد فرما۔ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی اور ریاست آپ ٰ مدینہ کی شکل میں پہلی اسالمی فالحی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ ریاست ِ مدینہ اور آپ ﷺ کے اقدامات: ت مدینہ: ۱۔مواخا ِ مدینہ آمد کے بعدکے سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری کا تھا کیونکہ وہ دین کی خاطر اپنا گھربار اور ساز و سامان ،سب کچھ چھوڑ آئے تھے۔ آپﷺ نے اس سلسلے میں ____________________
10۔ اسد ہللا خان شہیدی ’’ عہد ِ نبوی کا شہری نظام ‘‘دارلعلوم،مارچ ،۲۰۱۱ص۶: 11۔ سورہ االسراء17:۸۰
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 8کی روشنی میں) ایک نہایت اہم قدم اٹھاتے ہوئے انصار و مہاجرین کو اسالم کے رشتہ اخوت میں منسلک کردیا۔ ایک مہاجر کو دوسرے انصار ٔ کا بھائی بنا دیا گیا۔ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں سے فیاضی اور ایثار کا جو ثبوت دیا ،وہ اسالمی و عالمی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپﷺ کے ساتھ آنے والے مہاجر مسلمانوں میں اور انصار میں ہم آہنگی ،یکجہتی اور استحکام کا یہ اہم مسئلہ آپ نے اپنی جس سیاسی حکمت عملی سے طے کیا اور مسلم معاشرے کی بنیاد اس مواخات کے اصول پر مضبوط کردی جو انصار و مہاجرین کے مابین طے کی گئی تھی۔ یہ آپﷺ کی حکمت کی سب سے اہم مثال ہے جس سے مسلم معاشرے میں استحکام ہوا اور اسے جارحیت کے خالف مجتمع ہوکر لڑنے میں مدد دی۔ بحیثیت حکمران آپﷺ کی فکر بے مثال ت نظری اور تھی جسے آپ نے ایک نئی فکر کی طرح اس دق ِ دور اندیشی کے بعد قائم کیا کہ ارباب دانش کو آپﷺ کی اس اصابت فکر کے سامنے سرجھکائے بنا چارہ نہ رہا۔ مدینہ میں قائم ہونے والے اس جدید مستقر کو آپ نے ایسی وحدت میں منسلک کردیا جو آج تک عرب کے وہم و خیال میں بھی نہ نبی پاک علیہ السالم نے کسی پر بوجھ بننے کے آسکتی تھی۔ ِ بجائے موقع موقع پر محنت کرکے کمانے کھانے کی ترغیب دی تالش معاش میں لگنے ہے اور اپنے اور اپنے اہ ِل خانہ کے لیے ِ والوں کو بار بار مختلف الفاظ میں اجر کی بشارتیں دی ہیں۔ میثاق مدینہ پہال تحریری دستور: نبی کریم ﷺ کی سیاسی پالیسی کی دوسری اہم مثال میثاق مدینہ ہے۔ مواخات میں آپﷺ نے اہالیان مدینہ کو مستحکم کیا؛ اور اب اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کےلیے مسلم اور غیر مسلم کوایک خاص نکتے پر جمع کرنا تھا کیونکہ یہ اس وقت کی شدید ضرورت تھی کہ اہل مدینہ ،خواہ مسلم ہوں یا یہود، متفق ہوں اور ان کے باہمی اختالفات کو ہوانہ ملے؛ اور بیرون مدینہ کے لوگ بھی مدینہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کریں۔ ان
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 9کی روشنی میں) حضور اکرمﷺ ہی اغراض و مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ِ نے ہجرت کے چند ہی ماہ بعد ایک دستاویز مرتب فرمائی ،جس حکمران وقت کا کے مطابق یہودیوں سے سمجھوتا کرلیا۔ یہ ِ ایک فرمان تھا ،ساتھ ہی تمام لوگوں کا اقرار نامہ بھی تھا ،جس پر ان لوگوں کے دستخط تھے۔ اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے۔ ڈاکٹر حمید ہللا نے اسے پہال تحریری دستور قرار دیا ہے۔ یہی وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے حضرت محمد مصطفیﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی ،اموال کے تحفظ کی ب جرم پر گرفت اور مواخذے نے دباؤ ضمانت مل گئی۔ ارتکا ِ ڈاال اور یہ بستی ،اس میں رہنے والوں کےلیے امن کا گہوارہ بن گئی۔ حضور اکرمﷺ یہ معاہدہ اسالمی ریاست کی بنیاد تھا ،یہاں سے ِ کی زندگی نے نیا رخ اختیار کیا۔ اب تک آپﷺ کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کےلیے تھے موثر طریقے سے کی جہاں سے دعو ِ ت اسالم کی اشاعت و تبلیغ ٔ جاسکے۔ گویاآپﷺ کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں؛ لیکن منتظم ریاست کے طور پر سامنے آئے – اور مدینہ اب آپﷺ ِ میں باقاعدہ اسالمی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ مدینہ آمد پر آپ ﷺ نے میثاق ِمدینہ کا اہتمام کیا ،اس مقصد کے لیے آپ صلى ہللا علیه وسلم نے مہاجرین ،انصار ،یہود ، عیسائی اور دیگر قبائل کو جمع کیا ،آپ صلى ہللا علیه وسلم نے کچھ گفتگو فرمائی ،اس کے بعد آپ صلى ہللا علیه وسلم نے اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی ،ڈاکٹر حمید ہللا نے اسے پہال تحریری دستور قرار دیا ہے ،وہ لکھتے ہیں: ”مدینہ میں ابھی ِنراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا ،عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 10 روشنی میں) تھے۔حضور صلى ہللا علیه وسلم مدینہ آتے ہیں ،جہاں اس وقت اور متعدد فور ی ضرورتیں تھیں: - ۱اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین ۔ مہاجرین مکہ کے قیام اور گزربسر کا انتظام ۔ -۲ ِ - ۳شہر کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ ۔ - ۴شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام ۔ قریش مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی و مالی ِ -۵ نقصانات کا بدلہ ۔()12 ان ہی اغراض کے مدنظر حضور صلى ہللا علیه وسلم نے ہجرت کر کے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی ،جسے اسی دستاویز میں کتاب و صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ،جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں ،اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا۔()13 یہ دستور پہلی اسالمی فالحی مملکت کےقیام کی طرف پہال قدم تھا ۔کسی بھی فالحی مملکت کے لئے اس کے مکین اور ان کی فالح و حفاظت ،تعلیم و تربیت اور بنیادی ضروریات کی فراہمی اولین ترجیح ہوتی ہے۔اس میثاق کی اہم دفعات یہ تھیں: - ۱آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا؛ تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جا سکے۔ - ۲مذہب اور معاش کی آزادی ہو گی ۔ - ۳فتنہ وفساد کو قوت سے ختم کیا جائے گا ۔ - ۴بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا ۔ حضور اکرم صلى ہللا علیه وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی -۵ ِ جنگ کے لیے نہیں نکلے گا ۔ ____________________ 12 ۔ڈاکٹر حمید ہللا،محمد رسول ہللا 13۔ ڈاکٹر حمید ہللا کی بہترین تحریریں :مرتب قاسم محمود،ص ۲۵۳:
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 11 روشنی میں) - ۶میثاق کے احکام کے بارے میں اختالف پیدا ہو تو ہللا کے رسول صلى ہللا علیه وسلم سے رجوع کیا جائے گا۔ اس معاہدے میں مسلمانوں ،یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے ،الگ الگ دفعات مرقوم ہیں ،یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا ،یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلى ہللا علیه وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے؛ بلکہ آپ صلى ہللا علیه وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی ،جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ ۹۰۰کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی ،اس وقت دس الکھ مربع میل کی مملکت تھی جب ہللا کے رسول صلى ہللا علیه وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا ()14 سیاسیہ المدینہ میں شرف الدین ،ص ۲۵۰:میں لکھتے ہیں: حضور ﷺ نے بھی مدینہ منورہ میں اسالمی ریاست کی بنیاد رکھتے وقت مدینہ کے یہودیوں سے باہمی stateعہد و پیماں کیا تھا ۔جمہوری ملکوں میں مروج تحریری یا غیر تحریری دستور العمل بھی در اصل افراد اور ریاست کے درمیان ایک معاہدے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی ہللا عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی ہللا عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی ۔ اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں: - ۱امن و امان کاقیام ۔ - ۲تعلیم و تربیت کی سہولتیں ۔ - ۳روزگار ،سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی ۔ ____________________
14۔ محمد رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم :ڈاکٹر حمید ہللا
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 12 روشنی میں) بقول محمد حسین ہیکل اس تحریری معاہدہ کی رو سے حضرت صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو محمد مصطفی ٰ سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی اور اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکاب جرم پر گرفت اور مواخذے نے دبائو ڈاال اور معاہدین کی یہ بستی اپنے ()15 رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارہ بن گئی۔ قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اوالد ہیں اور زمین پر ہللا کا کنبہ ہیں ،انسان فطر تاًمل جل کر رہنا چاہتا ہے اور دنیا کے تمام وسائل ہمارے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ،اس لیے صاف اورسیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم ہللا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ،فرائض اور حقوق کی ایک بڑی تفصیل ہمارے سامنے ہے ،معلم کتاب و حکمت صلى ہللا علیه وسلم ان کی تشریح اور ان کی تفصیل فرما چکے ہیں ۔ ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیالب امڈ پڑا تھا اور آخر کار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ۔ ان نوواردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلى ہللا علیه وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا تھا ،اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم نے نوآبادی (کالونائزیشن ) اور شہری (ٹاون پالننگ ) میں عظیم انقالب برپا کر دیا تھا ، منصوبہ بندی ٔ نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کا م کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا ،پھر مختلف نسلوں ،طبقوں ،عالقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آ کر جمع ہو رہے تھے ، ____________________
15۔
محمد حسین ہیکل
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 13 روشنی میں) ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے ،نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخالقی “ بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہو تو مکانات اور تعمیرات کا سلسلہ پھیل کر عہ ِد رسالت مآب صلى ہللا علیه وسلم ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ ،بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایا جائے ،عوالی میں رہنے والے بنوسلمہ نے جب مدینہ آ کر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نامنظور کر دیا اور انھیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی ،ریاست کی نوآبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ ہللا کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے ،بے سروسامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظا م بھی سرکار ی طور پر کیا جا تا ،بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یامکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا گویا مہاجرین کے لیے روٹی ،کپڑا اور مکان کی ()16 فراہمی اسالمی حکومت کی ذمہ داری تھی ۔ یثرب کا ’’مدینہ‘‘ بننا‘ آپس میں لڑتے رہنے والے قبائل میں پرامن رہنے کے لئے معاہدات کا ہونا‘ پھر یہودیوں سے جو طاقتور جاگیردار طبقہ تھے سے میثاق مدینہ کا ہونا۔ یہ سب کچھ‘ صرف سماجی و عمرانی معاہدات سے مکمل ہوا تھا جنگ و جدل سے نہیں۔ یوں ریاست مدینہ محض مسلمان افراد و قبائل پر مبنی نہ تھی بلکہ دوسرے ادیان پر مبنی ریاست بھی تھی۔ یہودیوں سمیت غیر مسلمان قبائل کو وہی عادالنہ سماجی نظام‘ ____________________
16۔ طبقات ابن سعد
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 14 روشنی میں) معاشی و سیاسی و تہذیبی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو تھے لہذا ریاست مدینہ میں تمام تر توجہ ’’عمرانی معاہدوں‘‘ پر مبنی سماج و معاشرہ کی تاسیس و تشکیل و ارتقاء پر مبذول تھی۔ ۲۔تعلیم و تربیت ،علمی و تعلیمی قدم: نبی اکرمﷺ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کےلیے سیکریٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو ّاولیت دی گئی۔ ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصار مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور خاصا ِ مالدارطبقہ بھی موجود تھا۔ نبی اکرم ﷺکی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے فوری بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ مسجد جہاں ایک طرف مسلمانوں کے لئے جائے عبادت ٹھہری وہاں ریاست کے سیکرٹریٹ کے طور پر بھی اقدامات کا مرکز قرار پائی۔ آپ ﷺتمام وفود اور سفیروں سے یہیں مالقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدین حکومت کو ہدایات مسجد نبوی سے دی جاتیں۔ سیاسی و دیگر معامالت میں صحابہ کرام رضی ہللا عنہم سے یہیں مشورہ کرتے۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجد نبوی میں ہوتا۔ اس وقت مسجد مسلمانوں کا معاشرتی مرکز تھی۔ نماز پڑھانے واال اما م اسالمی فوج کا سپہ ساالر ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔ مال غنیمت مسجد نبوی میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریم ﷺاسے مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کو مفت ابتدائی اور ضروری تعلیم فراہم کرے۔آپﷺ نے ہجرت سے قبل حضر مصعب بن عمیر ؓ کو معلم بناکرمدینہ منورہ بھیجا جس کے
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 15 روشنی میں) نتیجے میں مدینہ کو دارالہجرہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔مسجد نبوی میں طالبان علم کے لیے صفہ کا چبوترا بنایاگیا۔ حضرت العاص اور حضرت عبادہ بن صامت ؓ کو عبدہللا بن سعیدبن ؓ کتابت سکھانے پر مامور کیا گیا۔ مختلف صحابہ کرام ؓ کو مختلف زبانیں سکھانے کی ذمہ داری دی گئی۔ مساجد میں درس و تدریس کا انتظام کیا گیا۔حضرت عبادہ بن صامت ؓ اس تدریسی نظام کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ گویا وہ پہلی اسالمی ریاست کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ جنگ بدر کے بعض مشرک قیدیوں سے بطور فدیہ مدینہ منورہ کے دس دس بچوں کو لکھنے پڑھنے کی تعلیم دلوائی گئی۔ عصر حاضر کا جائزہ لیا جائے توموجودہ مغربی فکر وفلسفہ اور مادی نظاموں نے اسالمی تربیت و بصیرت کو بری ٹکراواوران طرح متاثر کیا ہےریاست ِ مدینہ میں تہذیبوں کے ٔ کے اثرات کو کم کرنے کے لئےاسالمی تعلیم وتربیت کے عملی اقدامات کئے گئے۔ جس کی وجہ سےمسلم اَقدار و روایات کا مضبوط نظام قائم ہوا ۔ مسلم نوجوان اسالف کا حقیقی سرمایہ تھا۔آپ ﷺکی تربیت و بصیرت نےمختصر عرصہ میں عرب کے کفر وشرک کی تاریکیوں میں پڑے ہوئے معاشرے میں ب عظیم برپا کر دیا۔جس کی وجہ تعلیم و تربیت کا جامع انقال ِ نظام تھا۔آپﷺ نے تبلیغ کے آغاز ہی میں اصحاب ِ صفہ کی اخالقی و روحانی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا۔ظاہری اعمال کی اصالح کے ساتھ ساتھ باطنی اعمال کی اصالح بھی کی۔آپ ﷺ نےریاست ِ مدینہ میں جہاں ریاستی و سفارتی امور پر توجہ دی وہاں نومسلم نوجوان کی تعلیم کے ساتھ کردار سازی اور اخالقی تربیت کا نظام بھی وضع کیا۔ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے ارشادات عالیہ موثر اسلوب میں اخالق حسنہ کو اپنانے میں بڑے دل نشیں اور ٔ کی تلقین کی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ِ پاک ہے:
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 16 روشنی میں) ))أ َ ْك َم َل ا ْل ُم ْؤ ِمنِ َ سنُ ُه ْم ُخلُقًاَ ،وإِنَّ َما بُ ِعثْتُ ین إِی َمانًا أَحْ َ ()17 ق(( ِْلُت َ ِم َم َ صا ِل َح ْاْل َ ْخ َال ِ ترجمہ:کامل مومن وہ ہے جس کے اخالق اچھے ہیں۔میری بعثت کا مقصد صالح اخالق کی تکمیل ہے. عصبیت جاہلیہ کا خاتمہ: نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی ریاست میں ہر قسم کے رنگ ونسل، زبان ،جنس اور قومیت کے جاہلی تعصب کو ختم فرمایا۔ ایمان اور محبت پر مبنی مواخات کا رشتہ قائم فرمایا۔نیز عصبیت جاہلیہ کو بھڑکانے کی سازشوں کا سدباب کیا۔ جان و مال اور ناموس رسالت کی حفاظت:نبی کریم ﷺ نے لوگوں کی جان ،مال و آبرو کی حرمت بیان فرمائی اور ان کی حفاظت کے لیے ریاستی سطح پر حدود و تعزیرات پر مبنی سزاؤں کا نظام نافذ فرمایا۔ انصاف کی فراہمی: ریاست مدینہ میں انصاف اور عدل کا بول باال تھا اور مدینہ میں بسنے واال کوئی بھی شہری کسی دوسرے کی حق تلفی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی ریاست میں بڑے چھوٹے کے لیے قانون یکساں تھا۔ چنانچہ جب بنو مخزوم کی ایک نامی گرامی عورت نے چوری کی اورنبی کریمﷺ کے محبوب صحابی اسامہ ابن زید ؓ اس کی سفارش لے کر آئے تو نبی کریمﷺ نے اس سفارش کو قبول نہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا اور آپﷺ نے اس موقع پر سابقہ اقوام پر آنے والے عذابوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتالئی کہ جب ان میں ____________________
أبو محمد عبد ہللا بن وھب بن مسلم ،الجامع فی الحدیث البن وھب ،باب العزلتہ . 17 ،حدیث ،۴۸۳:دار ابن الجوزی ،الریاض ،الطبعة: األولى 1416ھ،ص584/۱:
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 17 روشنی میں) کوئی بڑا جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اس کوسزا دی جاتی۔ ریاست ِ مدینہ نے استعماری تفریق کا خاتمہ کرتے ہوئے وہ عظیم الشان معاشی و تعلیمی نظام دیا جس پر انسانیت کو ناز ہے ۔میرٹ و احتساب کی شفافیت نے عدل و انصاف کا بول باال کیا۔ الغرض ریاست ِ مدینہ کے عملی اقدامات انسان کی فالح و بہبود کے لئے تھے۔جس کا ہر قدم مآپ ﷺ کی اعلی بصیرت کا بیّن ثبوت ہے۔فالحی معاشرے کی ڈورعدل و انصاف،یکساں نظام ِ تعلیم تربیت اور تزکیہ ٔ نفس میں ہے ۔ سیرت ِ طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فالحی ریاست میں تعلیمی منصوبہ بندی اور دفاعی حکمت ِ عملی ،داخلی و خارجی معاہدات ،حکمت و معاملہ فہمی ،قوت ِ فیصلہ اور نیک و صالحی وعمال کی تقریری کو یقینی بنایا گیا۔انھی اقدامات کی تنفیذ کر کے پاکستان کو بھی مثالی فالحی مملکت بنایا جا سکتا ہے۔فالحی ریاست میں درج ذیل عوام کی ذمہ داریاں اور ان کی ادائیگی ناگزیرہے: ۱۔ٹیکس کی ادائیگی ۲۔ریاست کے قدرتی ذرائع کی حفاظت ۳۔قوانین کی پابندی ۴۔زبان،مال اور عمل سے ملک کا دفاع کرنا ۵۔امن و آتشی کا پیغام اور قومی اتحاد اور سب سے اہم نوجوانوں کی تربیت اس انداز سے کی مصطفی جائے کہ انھیں احساس ہو کہ :کامیابی و فالح سیرت ِ ٰ ﷺ میں ہے۔قرآن و سنت ہی فالح کا ذریعہ ہے۔ دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھولو گے تو ()18 پاو گے۔ راہ ِ راست ٔ ____________________
اقبال ،محمد،کلیات ِ اقبال فارسی ،الہور،شیخ غالم علی اینڈ سنز ،فروری 18۔ ،۱۹۷۳ص۱۹:
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 18 روشنی میں) دین کی کنجی قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں ،تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہےجس پر پہلی اسالمی ت مدینہ میں سب سے زیادہ زور دیا گیا۔جدید دور میں ریاس ِ ریاست ِ پاکستان کو فالحی ریاست بننے کے لئے علم کے نام پر دین سے دوری پھیالئی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تربیت کے بغیر علم کی حیثیت خام مال سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک اسے تربیت کی بھٹی سے نہ گزار لیا جائے اس وقت تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا جاسکتا۔ الحاكم نے’’ المستدرك‘‘ میں مسلم نوجوان کی حالت زار کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’المیہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا نوجوان توحید کے حسن ،سنت نبوی کے رنگ ،قرآن کے انقالب سے محروم ہے۔ نوجوانوں کی فکر پر جمود، سوچ پر قنوطیت وجود پر عیش وعشرت ،نگہ پرستی کا راج ہے۔صفہ سے دیا جانے واال درس انقالب ،بدر و ُحنین کی فضاؤں سے ملنے واال پیغام ،سب کچھ بھول گیا اور علم کے نام پر عشق مجازی کے افسانے اس کی منزل کو دور کرگئے۔سائنس کی وہ ترقی جس کی بنیاد جابر بن حیان ،ابو یعقوب الکندی ،اور ابن الہیثم جیسے مسلم سائنسدانوں نے رکھی تھی ،امت مسلمہ کی پہنچ سے دور ہماری حالت زار پر ماتم کررہی ()19 ہے۔‘‘ عصر حاضر محمد سعود عالم قاسمی اپنی کتاب ِ میں اسوہ ٔ رسول ﷺ کی معنویت میں رقمطراز ہیں: موجودہ دور میں اپنے آپ کو ایک مسلم نوجوان کی حیثیت سے منوانے کے لئے مسلم نوجوان کو ____________________
. http://www.islahulmuslimeen.org/urdu/attahir/55/03.ht 19
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 19 روشنی میں) جس آنکھ کی ضرورت ہے وہ جہاں بین بھی ہو اور پاکیزہ بھی ،جہاں بینی تو علم سے آتی ہے اور پاکیزگی اخالق سے اور یہ دونوں نعمتیں سیرت رسول ﷺمیں بدرجہ ٔ اتم موجود ہیں،اس کی ()20 اتباع کی ضرورت ہے۔ سنت ِ رسول ﷺ پر دل و جاں سے عمل ہی دین و دنیا میں فالح و کامرانی کی نوید ہے۔آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی اخالق کی تکمیل تھا ۔پیغمبر ﷺ کے خلق ِعظیم کی راہ میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ۔ خالصہ ٔ کالم: ت مدینہ میں تشکیل پاتے سماج اور معاشرے کو چار ریاس ِ اصولوں میں محدود کیا ہے۔پہال داخلی اور خارجی امور میں تمام فیصلے آزادانہ اور خود مختارانہ طورپر ہوں۔ دوسراعدل و انصاف بالتفریق دین و مذہب و رنگ و نسل ’’مساوات‘‘ کی بنیاد پر ہو یعنی انسانیت کو عدل و انصاف میسر ہو کسی خاص گروہ یا دین و مذہب کو نہیں۔تیسرا امن و امان میں داخلی سیکورٹی اور خارجی سیکورٹی عسکری انداز میں میسر ہو اور نافذ بھی ہو‘چوتھامعاشی خوشحالی کا نظام متعارف کروایا۔ یہی چار بنیادی اصول جو عمالً محض صرف اسالمی‘ دینی‘ مذہبی نہیں بلکہ اس سے مستزاد انسانی عظمت کو اور انسانی ارتقا ً کو بھی محیط ہیں ۔ریاست مدینہ کا وجود‘ سماج و معاشرہ مدینہ کی تشکیل و تنفیذ اور فالحی ریاست کا تصور انہی اصولوں پر اساسی طورپر مشتمل ہے۔ نظام ریاست مدینہ بنیادی طورپر ’’اخالقی‘‘ اصولوں اور ان کی سخت ترین تربیت پر مشتمل ہے نہ کہ سزاؤں کے سفاکانہ تصور کی بنیاد پر۔ عفو و جناب رحمت درگذر بھی ایک اہم پہلو ہے ریاست مدینہ کا۔ ؐ محسن انسانیت کی اخالقی زندگی اور تربیت کا یہ اللعالمین اور ؐ ____________________
،ڈاکٹر،پروفیسر،عصر حاضر میں اسوہ ٔ رسول ﷺ محمد سعود عالم قاسمی 20۔ ِ کی معنویت ،مکتبہ جمال ،الہور،۲۰۰۸،ص۴۷:
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 20 روشنی میں) الزمی عنصر ہے کیونکہ ان اخالقی ضوابط سے انحراف ناقابل معافی ہے ورنہ نظام ریاست ختم ہو سکتا ہے۔ ریاست مدینہ جنگی کاوشوں کا ثمر ہر گز نہیں بلکہ ’’مکالمے‘‘ پر مبنی عمرانی معاہدوں سے جنم لیتی دوسرے ادیان و مذاہب کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کو فروغ دیتی ریاست ہے۔ وہ قبائل جو یثرب سے مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ میں آتے رہے ان سے مکالمہ جاری رہا۔ انہی سے ہجرت سے پہلے عمرانی و تہذیبی و سماجی و سیاسی ’’معاہدہ‘‘ جو ہوا اسی کی بنیاد پر پرامن نبوی طورپر‘ بلکہ انصاران مدینہ کی خواہش پر ’’ہجرت‘‘ ؐ ہوئی۔ ہجرت کے بعد یثرب میں جو بھی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی۔ یثرب کا ’’مدینہ‘‘ بننا‘ آپس میں لڑتے رہنے والے قبائل میں پرامن رہنے کے لئے معاہدات کا ہونا‘ پھر یہودیوں سے جو طاقتور جاگیردار طبقہ تھے سے میثاق مدینہ کا ہونا۔ یہ سب کچھ‘ صرف سماجی و عمرانی معاہدات سے مکمل ہوا تھا جنگ و جدل سے نہیں۔ یوں ریاست مدینہ محض مسلمان افراد و قبائل پر مبنی نہ تھی بلکہ دوسرے ادیان پر مبنی ریاست بھی تھی۔ یہودیوں سمیت غیر مسلمان قبائل کو وہی عادالنہ سماجی نظام‘ معاشی و سیاسی و تہذیبی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو تھے لہذا ریاست مدینہ میں تمام تر توجہ ’’عمرانی معاہدوں‘‘ پر مبنی سماج و معاشرہ کی تاسیس و تشکیل و ارتقاء پر مبذول تھی۔ معاشی نظام میں ’’خود انحصاری‘‘ کا اہم پہلو معاشی ارتقاء کا نام ہے۔ کسی دوسری قوم سے یا ریاست سے ’’قرض‘‘ لیکر معاشی حاالت درست نہیں کئے گئے تھے بلکہ خود رزق کمانے کی ترغیب دی گئی اور جو کچھ بھی میسر تھا اسی میں زندگی گزارنے کی نصیحت و درس دیا گیا تھا اگر قرضوں پر مبنی معیشت کو اپنایا جائے گا تو وہ ریاست و سماج اپنے پاؤں پر کبھی بھی نہیں کھڑا ہو سکے گا۔ سفارشات: اسالمی فالحی ریاست کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔اس تحقیقی کام کے دائرے کو سامنے رکھتے ہوئےیہ حقیقت
کی ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 21 روشنی میں) مترشح ہوتی ہے کہ قرآن کی آفاقی تعلیمات اور سیرت النبی ﷺ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ جن کی روشنی میں درج ذیل اقدامات کئے جائیں: ۱۔عوام کی فالح و بہبود کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ ۲۔اسالمی فکر کو عام کرنے کے لئے صفا کی طرز کایکساں تعلیمی نصاب وضع کیا جائے۔ ۳۔سیرت ﷺ کا مطالعہ یونیورسٹی کی سطح پر الزمی قرار دیا جائے۔ ۴۔عالمی سطح پہ کئے جانے والے معاہدات میں دور اندیشی و ق مدینہ کے طرز کے معاہدات کئے بصیرت کو اپنایا جائے۔میثا ِ جائیں۔ ۵۔احتساب کا کڑا نظام وضح کیا جائے۔ ۶۔اہل قیادت کا شورائی نظام اپنایا جائے۔ ۷۔نوجوانوں کی جسمانی ،علمی و فکری تربیت کو پالیسیوں کا اہم جزو بنایا جائے۔ عالی نوجوان نسل کواپنے اخالق آخر میں دعاہے کہ ہللا ت ٰ کی اصالح کی فکر کے ساتھ دوسروں کے اخالق کی درستگی کی بھی فکرکرنے کی اور آپ ﷺ کے اسو ٔہ حسنہ کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطافرمائےاور وہ درپیش مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو جائے۔ قوی الحمد ہلل! پاکستانی سیاست میں ریاست مدینہ کا تذکرہ اہل ت ٰ اور صالحین کے لئے باعث اطمینان ہے۔ آج ماشاء ہللا ’’ریاست مدینہ‘‘ بار بار زیر بحث آ رہی ہے۔ اہل علم اور اہل قلم بھی تحریر اور گفتار سے ریاست مدینہ کے حوالے سے قوم کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔ریاست مدینہ کے خدوخال کا جائزہ لے عصر حاضر میں بھی راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اے کر ِ ہللا ! ہمیں بھی وہ دن جلد دکھا کہ جس دن ہمارا وطن عزیز پاکستان بھی اسالمی فالحی مملکت بنے۔ آمین یارب العالمین! ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم
ریاست ِ مدینہ اور اسالمی مملکت کا تصور (تعلیمات نبویﷺ 1کی روشنی میں)