Toheed And Shirk...answer 10 Questio

  • Uploaded by: Hafiz M. Hammad Nomani
  • 0
  • 0
  • June 2020
  • PDF

This document was uploaded by user and they confirmed that they have the permission to share it. If you are author or own the copyright of this book, please report to us by using this DMCA report form. Report DMCA


Overview

Download & View Toheed And Shirk...answer 10 Questio as PDF for free.

More details

  • Words: 9,654
  • Pages: 18
‫الحمد ﷲ رب العلمين و الصلواة و السالم علی سيد المرسلين‬ ‫اما بعد فاعوذ با من الشيطن الرجيم ط بسم ﷲ الرحمن الرحيم ط‬ ‫نوٹ‪ :‬کمپوزنگ کی غلطی کی نشاندﮨی ضرور کرﯾﮟ۔ تاکہ تصحيح کی جا سکﮯ۔‬

‫مشکل کشا کون‬ ‫دس سوالوں کا جواب‬ ‫بعض لوگ ﯾہ کﮩہ دﯾتﮯ ﮨيﮟ کہ ﷲ تعالیٰ کﮯ عالوه کسی اور کو مشکل کشا نﮩيﮟ‬ ‫کﮩنا چاﮨئﮯ مخلوق ميﮟ کسی کﮯ لئﮯ اﯾسا نام درست نﮩيﮟ جو ﷲ تعالیٰ کﮯ لئﮯ‬ ‫ﮨو‪ ،‬کيونکہ اس سﮯ شرک کا شبہ پﮍتا ﮨﮯ۔‬ ‫عرض ﮨﮯ کہ ”مشکل کشا“ اﯾسا نام نﮩيﮟ کہ جس کا استعمال قرآن و حدﯾث ميﮟ ﷲ‬ ‫تعالیٰ ﮨی کﮯ لئﮯ مخصوص قرار دﯾا ﮨو اور دوسروں کﮯ لئﮯ اﯾسا نام استعمال کرنا‬ ‫شرک ﮨو‪ ،‬نﮩيﮟ اﯾسی کوئی بات نﮩيﮟ ﮨﮯ بلکہ ﯾہ لفظ خالق و مخلوق دونوں پر بوال جا‬ ‫سکتا ﮨﮯ البتہ خالق کﮯ لئﮯ استعمال کرنﮯ ميﮟ اس کﮯ جو معنی ﮨوتﮯ ﮨيﮟ مخلوق‬ ‫کﮯ لئﮯ وه معنی مراد نﮩيﮟ ﮨوتﮯ جس طرح رؤف‪ ،‬رحيم‪ ،‬کرﯾم‪ ،‬سميع‪ ،‬بصير‪ ،‬مولیٰ‬ ‫وغيره متعدد الفاظ قرآن و حدﯾث ميﮟ خالق و مخلوق دونو ں کﮯ لئﮯ استعمال ﮨوتﮯ‬ ‫ﮨيﮟ مگر ﮨر جگہ معنی الگ الگ ﮨيﮟ۔‬ ‫معروف عالم دﯾن موالنا حافظ عبدالقادر روپﮍی سﮯ کسی صاحب نﮯ سوال کيا کہ‬ ‫قرآن ميﮟ لفظ ”خلق“ کی نسبت ﷲ تعالیٰ کی طرف بھی ﮨﮯ اور حضرت عيسیٰ عليہ‬ ‫السالم کی طرف بھی‪ ،‬اس کی وضاحت فرمائيﮟ۔‬ ‫تو اس سوال کﮯ جواب ميﮟ حافظ ثناءﷲ صاحب مدنی نﮯ ”لفظ خلق کی اضافت‬ ‫عابدو معبود دونونکی طرف سﮯ‪ ،‬دونوں ميﮟ کيا فرق ﮨﮯ“ کﮯ عنوان سﮯ اﯾک مضمون‬ ‫لکھا‪ ،‬جس کا صرف اﯾک اقتباس درج ذﯾل ﮨﮯ‪:‬‬ ‫”صفات الﮩيہٰ ميﮟ سﮯ بعض اﯾسی بھی ﮨيﮟ جو بندوں اور خالق کﮯ درميان مشترک‬ ‫نظر آتی ﮨيﮟ‪ ،‬مثال ً علم‪ ،‬سمع‪ ،‬بصر‪ ،‬روﯾت‪ ،‬ﯾدا وغيره وغيره ليکن اشتراک صرف ظاﮨری‬ ‫اور لفظی ﮨﮯ ورنہ بندے کی طرف ان کی اضافت اس کﮯ مناسب حال عجز کﮯ اعتبار‬ ‫سﮯ ﮨﮯ اور خالق کائنات کی طرف ان کی نسبت اس کﮯ کمال کﮯ اعتبار سﮯ ﮨﮯ‪،‬‬ ‫قرآن کرﯾم ميﮟ ”ليس کمثلہ شيی و ھو السميع البصير“ اس جيسی کوئی چيز نﮩيﮟ‬ ‫اوروه دﯾکھتا سنتا ﮨﮯ )اور( انسان کﮯ بارے ميﮟ ﮨﮯ ” جعلنہ سميعاً بصيرا“ تو ﮨم نﮯ‬ ‫اس کو سنتا دﯾکھتا بناﯾا۔“ )ﮨفت روزه تنظيم اﮨل حدﯾث ‪ ،‬الﮨور ‪ ،‬شماره نمبر‪ ،15‬جوالئی‬ ‫‪1988‬ءص ‪(5‬‬ ‫قرآن کرﯾم ميﮟ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ﮨﮯ‪:‬‬ ‫لقد جاءکم رسول من انفسکم عزﯾز عليہ ما عنتم حرﯾص عليکم بالمومنين رؤف رحيم‬ ‫)سورة توبہ آﯾت ‪(128‬‬ ‫انہ لقول رسول کرﯾم )سورة الحاقة آﯾت ‪(40‬‬ ‫قرآن پاک نﮯ حضور نبی کرﯾم صلی ﷲ عليہ وسلم کوعزﯾز‪ ،‬رؤف‪ ،‬رحيم‪ ،‬کرﯾم کﮩا‪ ،‬ﯾہ‬ ‫بھی ﷲ تعالیٰ کﮯ نام ﮨيﮟ‪ ،‬اگر ان ناموں کﮯ اشتراک سﮯ شرک نﮩيﮟ تو مشکل‬ ‫کشا کﮯ نام سﮯ شرک کيسﮯ ﮨو گا۔‬ ‫قرآن مجيدميﮟ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ﮨﮯ‪:‬‬ ‫قال ابراﮨيم ربی الذی ﯾحی و ﯾميت قال انا احی و اميت )سورة البقره آﯾت ‪( 258‬‬

‫”جب کہ ابراﮨيم عليہ السالم نﮯ نمرود سﮯ کﮩا کہ ميرا رب وه ﮨﮯ جو زنده کرتا ﮨﮯ اور‬ ‫مارتا ﮨﮯ تو نمرود بوال ميﮟ بھی زنده کرتا ﮨوں اور مارتا ﮨوں۔“‬ ‫قرآن مجيد ميﮟ دوسری جگہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ﮨﮯ‪:‬‬ ‫انی اخلق لکم من الطين کھينة الطير فانفخ فيہ فيکون طيرا باذن ﷲ و ابری االکمہ و‬ ‫االبرص واحی الموتی باذن ﷲ ) سورة آل عمران ‪ ،‬آﯾت ‪(49‬‬ ‫”ميﮟ تمﮩارے لئﮯ بناتا ﮨوں مﭩی سﮯ پرندوں کی سی صورت پھر اس ميﮟ پھونک مارتا‬ ‫ﮨوں تو وه ﷲ کﮯ حکم سﮯ پرنده ﮨو جاتی ﮨﮯ اور مادر زاد اندھﮯ کوڑھی کو تندرست‬ ‫کردﯾتا ﮨوں اور ﷲ کﮯ حکم سﮯ مردوں کو زنده کر دﯾتا ﮨوں۔“‬ ‫موت و حيات دﯾنا ﷲ تعالیٰ کا کام ﮨﮯ‪ ،‬نمرود نﮯ موت و حيات دﯾنﮯ کی نسبت اپنی‬ ‫طرف کی تو ﯾہ شرک ﮨﮯ ليکن حضرت عيسیٰ عليہ السالم نﮯ مردوں کو زنده کرنﮯ‬ ‫کی نسبت عطائﮯ الﮩیٰ سﮯ اپنی طرف کی جو عين اﯾمان ﮨﮯ اگر کوئی مومن حضور‬ ‫نبی کرﯾم صلی ﷲ عليہ وسلم کو باذن ﷲ مشکل کشا مانﮯ تو شرک کيسﮯ ﮨو گا۔‬ ‫ﷲ تعالیٰ نﮯ قرآن مجيد ميﮟ فرماﯾا‪:‬‬ ‫وﯾضع عنھم اصرھم واالغلل التی کانت عليھم )پ‪9‬۔ سورة االعراف۔ آﯾت ‪(157‬‬ ‫”اور ان کا بوجھ اتارتﮯ ﮨيﮟ اور ) دور کرتﮯ ﮨيﮟ ان سﮯ ( گلﮯ کﮯ طوق جوان پر تھﮯ۔“‬ ‫ﯾعنی آپ بندوں پر سﮯ ان کﮯ بھاری بوجھوں کو سخت تکليفوں کﮯ پھندوں سﮯ‬ ‫اتارتﮯ ﮨيﮟ۔‬ ‫دوسری جگہ ارشاد پاک ﮨﮯ‪:‬‬ ‫کتب انزلنہ اليک لتخرج الناس من الظلمت الی النور۔ )پ ‪13‬۔ سورة ابراھيم۔ آﯾت ‪(1‬‬ ‫”)ﯾہ( کتاب ﮨﮯ ﮨم نﮯ اسﮯ آپ کی طرف نازل فرماﯾا کہ آپ لوگوں کو تارﯾکيوں سﮯ‬ ‫اجالﮯ ميﮟ الئيﮟ۔‬ ‫اﯾمان سﮯ کﮩيﮟ کہ انسانوں کو ظلمت اور گمراﮨيوں سﮯ نکال کر راه ﮨداﯾت کی طرف‬ ‫النا‪ ،‬ﯾہ انسانوں کی مشکل کشائی نﮩيﮟ تو اور کيا ﮨﮯ۔ ان آﯾات ميﮟ انسانوں کو‬ ‫مشکل سﮯ نکالنﮯ کی نسبت حضور نبی کرﯾم صلی ﷲ عليہ و سلم کی طرف کی‬ ‫گئی ﮨﮯ۔‬

‫کيا ﷲ کﮯ سوا کوئی اور مشکل حل کرنﮯ پر قادر ﮨﮯ۔‬ ‫آپ کا سوال اﯾک ﮨی ﮨﮯ ليکن اس کی شکليﮟ دس بنائی ﮨيﮟ۔ اور اس کا جواب بھی‬ ‫اﯾک ﮨی ﮨﮯ ليکن آپ کی ترتيب سﮯ اس کﮯ جواب حاضر خدمت ﮨيﮟ۔‬

‫س‪ :1‬اگر ﷲ کﮯ سوا کوئی اور ﮨستی مشکل حل کر سکتی‬ ‫ﮨﮯ تو بتائﮯ کہ سائل اور مشکل کشا کﮯ درميان ﮨزاروں ميل‬ ‫کی دوری پر وه زندگی ﯾا زندگی کﮯ بعد قبر ميﮟ آواز سن‬ ‫سکتا ﮨﮯ؟‬

‫جواب‪:‬‬ ‫ﮨر مشکل ميﮟ مشکل کشا کو پکارا ﮨی نﮩيﮟ جاتا بلکہ قانون قدرت کا اتباع ضروری ﮨﮯ‬ ‫مثال ً زﯾد کو بھوک ﯾا پياس ﯾا بيماری کی مشکل کا سامنا ﮨﮯ تو ﷲ تعالیٰ نﮯ ان‬ ‫مشکالت کا حل روﭨی ‪ ،‬پانی دوائی کﮯ سپرد فرماﯾا ﮨوا ﮨﮯ۔ زﯾد کو چاﮨئﮯ کہ بسم ﷲ‬ ‫شرﯾف پﮍھ کر ان چيزوں کو حسب قانون قدرت و شرﯾعت استعمال کرے بمشيتہ تعالیٰ‬ ‫مشکل دور ﮨو جائﮯ گی اور اگر بجائﮯ استعمال کرنﮯ کﮯ ”ﯾا روﭨی ﯾا پانی ﯾا‬

‫دوائی“ کﮩہ کر ان مشکل کشاؤں کو پکارتا ﮨﮯ تو مجنوں سمجھا جائﮯ گا بلکہ اگر ان‬ ‫کی موجودگی ميﮟ انﮩيﮟ استعمال نہ کرے اور صرف مشکل کشائﮯ حقيقی جل‬ ‫مجده کو ”ﯾا ﷲ ‪ ،‬ﯾا رب“ کﮩہ کر پکارنا شروع کر دے اور بھوکا پياسا مر جائﮯ تو حرام‬ ‫کی موت مرے گا۔ کيونکہ قانون قدرت سﮯ منہ موڑنا جرم و گنا ﮨﮯ۔ اگرچہ ”ﯾا ﷲ“ کﮩنا‬ ‫عبادت ﮨﮯ اور اگر دوائی استعمال کرنﮯ کﮯ باوجود بيمار کو آرام نہ ملﮯ اور وه ”ﯾا‬ ‫ارحم الراحمين“ کر مشکل کشائﮯ حقيقی کو اور ”ﯾا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و سلم‬ ‫کﮩہ کر مشکل کشائﮯ عطائی کو پکارے تو ﯾہ طرﯾقہ عالج درست ﮨﮯ اور اس سﮯ‬ ‫صاحب نسبت اور خوش عقيده تندرست ﮨو جاتا ﮨﮯ۔‬ ‫حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنﮩما نﮯ ”ﯾامحمد“ کﮩا تھا اور ﯾکدم تندرست‬ ‫ﮨو گئﮯ تھﮯ۔ )طبقات ابن سعد‪ ،‬جلد ‪ ،4‬ص ‪ ،154‬االدب المفرد‪ ،‬از مام بخاری اردو‬ ‫ترجمہ‪ ،‬مطبوعہ نفس اکيﮉمی کراچی ‪1983‬ء۔ ص ‪ 284‬۔ تحفتہ الذاکرﯾن۔ از مام الوﮨابيہ‬ ‫محمد بن علی شوکانی ۔ عربی۔ مطلبوعہ بيروت ۔ ص‪(260‬‬ ‫حضور اقدس صلی ﷲ عليہ و سلم کو ﷲ تعالیٰ نﮯ اﯾسی قوت سماعت مرحمت‬ ‫فرمائی ﮨوئی ﮨﮯ کہ ﮨزاروں نﮩيﮟ الکھوں کروڑوں ميلوں کی دوری سﮯ بھی آپ صلی‬ ‫ﷲ عليہ و سلم آواز سن سکتﮯ ﮨيﮟ۔‬ ‫مادی ذرائع اور قوت سﮯ تو عام انسان بھی پاکستان ميﮟ بيﭩھا ﮨزاروں ميل دور امرﯾکہ‬ ‫ميﮟ بات کرنﮯ والﮯ کی آواز سن ليتا ﮨﮯ اور جس کو ﷲ تعالیٰ کی طرف سﮯ عطا‬ ‫کرده روحانی قوت حاصل ﮨو اس کی قوت سماعت کا کيا اندازه ﮨﮯ‪ ،‬کيونکہ روحانيت‬ ‫کی طاقت مادﯾت سﮯ زﯾاده ﮨﮯ۔ حضور نبی کرﯾم صلی ﷲ عليہ و سلم نﮯ جنت ميﮟ‬ ‫اپنﮯ صحابی ”نعيم نحام“ )جو کہ زمين پر تھﮯ( کﮯ کھانسنﮯ کی آواز سن لی تھی‬ ‫اسی بنا پر انﮩيﮟ ”نحام“ ﯾعنی کھانسنﮯ واال کﮩا جاتا ﮨﮯ۔ )طبقات ابن سعد‪ ،‬ج ‪4‬۔ ص‬ ‫‪(138‬‬ ‫ﷲ تعالیٰ نﮯ اﯾک فرشتہ کو ساری مخلوق کی آواز سننﮯ کی قوت عطاءفرما رکھی‬ ‫ﮨﮯ۔ )جالءاالفﮩام‪ ،‬مطبوعہ مصر۔ ص‪(52‬‬ ‫حضور نبی کرﯾم صلی ﷲ عليہ و سلم کی حدﯾث ميﮟ ﮨﮯ۔ آپ صلی ﷲ عليہ و سلم‬ ‫نﮯ فرماﯾا ” ليس من عبدی ﯾصلی علی االبلغنی صوتہ حيث کان قلنا و بعد و فاتک۔‬ ‫قال‪ :‬و بعد وفاتی۔“ کوئی بنده )کسی جگہ سﮯ( مجھ پر درود نﮩيﮟ پﮍھتا مگر اس کی‬ ‫آواز مجھ تک پﮩنچ جاتی ﮨﮯ وه جﮩاں بھی ﮨو ‪) ،‬صحابہ نﮯ( عرض کيا‪ ،‬حضور آپ کی‬ ‫وفات کﮯ بعد بھی ۔ فرماﯾا ۔ ﮨاں ميری وفات کﮯ بعد بھی۔ )جالءاالفﮩام‪ ،‬از امام الوﮨابيہ‬ ‫ابن قيم الجوزﯾہ‪ ،‬مطبوعہ قاﮨره مصر ۔ ص ‪(63‬‬ ‫ﮨزاروں ميل کی دوری سﮯ ﮨزاروں الکھوں امتی ﮨر وقت درود شرﯾف پﮍھ رﮨﮯ ﮨيﮟ اور‬ ‫حضور صلی ﷲ عليہ و سلم ان کا درود سن رﮨﮯ ﮨيﮟ۔‬ ‫باذن الﮩی عزوجل ﷲ عزوجل کﮯ نيک بندے )انبياءکرام اولياءعظام( مشکل کشائی‬ ‫فرما سکتﮯ ﮨيﮟ اور ﮨزاروں کيا الکھوں ميل کی مسافت سﮯ زندگی ميﮟ بھی اور بعد‬ ‫الوصال بھی اپنﮯ فرﯾادوں کی نہ صرف آواز سن سکتﮯ ﮨيﮟ بلکہ امداد و استعانت‬ ‫بھی کر سکتﮯ ﮨيﮟ۔ جيسا کہ آپ نﮯ بھی دور دراز سﮯ سننﮯ کﮯ بارے ميﮟ آﯾات و‬ ‫احادﯾث پﮍھی ﮨوں گی۔ ﮨم ﯾﮩاں دوباره مختصراً ان کی طرف اشاره کر دﯾتﮯ ﮨيﮟ۔‬ ‫حضرت سليمان عليہ السالم کی امت کا اﯾک ولی آصف بن برخيا جب دور دراز کی‬ ‫مسافت سﮯ حضرت بلقيس عليہ السالم کا تخت ال سکتا ﮨﮯ تو دور سﮯ سننا ﯾا‬ ‫دﯾکھنا تو ادنیٰ سی بات ﮨﮯ۔ جب اتنا بﮍا تصرف حاصل ﮨﮯ تو سننا دﯾکھنا تو بدرجہ‬ ‫اولیٰ ثابت ﮨﮯ۔‬ ‫نبی پاک نﮯ اﯾک فرﯾادی کی تين دن کی مسافت کی دور دراز سﮯ فراد سنتﮯ‬ ‫ﮨوئﮯ ” لبيک لبيک نصرف نصرت“ فرما کر اش کی مشکل کشائی فرمائی )طبرانی‬ ‫صغير کبير ‪ ،‬مواﮨب لدنيہ‪ ،‬زرقانی شر‪ ،‬مدارج النبوة۔ مختصر سيرة الرسول(‬

‫صحيح بخاری کتاب الجﮩاد و السير۔ کتاب المغازی باب غزوه موتہ کی حدﯾث کﮯ مطابق‬ ‫نبی کرﯾم صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ دور دراز کی مسافت پر موجود ميدان جﮩاد‬ ‫ميﮟ لﮍانﮯ والوں دﯾکھا۔‬ ‫صحيح بخاری و مسلم کی حدﯾث کﮯ مطابق نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ‬ ‫اپنﮯ چچا ابو طالب کو آگ کی گﮩرائی ميﮟ پاﯾا تو اسﮯ )ابو طالب کو( آگ کﮯ اوپر‬ ‫والﮯ طبقﮯ ميﮟ لﮯ آﯾا۔ ) صحيح مسلم ج ا حدﯾث ‪ (419‬پس نبی پاک مشکل کشا‬ ‫صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کا دور دراز کی مسافت سﮯ دﯾکھنا سننا احادﯾث مبارکہ‬ ‫سﮯ ثابتت ﮨوا۔‬ ‫مسلم کتاب الجنتہ ‪ ٢‬حدﯾث کﮯ مطابق حضور صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم اور صحابہ‬ ‫کرام نﮯ ستر سال پﮩلﮯ جﮩنم )جو کہ ﮨزاروں سال کی مسافت پر ﮨﮯ اس( ميﮟ‬ ‫گرائی جانﮯ والی چﭩان کی آواز سنی۔‬ ‫اسی طرح حصن حصين وغيرھما کی حدﯾث ” اعينو نی ﯾا عباد ﷲ اعيوانی“ اے ﷲ‬ ‫کﮯ بندو ميری مدد کرو ۔ اس سﮯ دور دراز سﮯ سننا دﯾکھنا اور امداد و استعانت کرنا‬ ‫بھی ثابت ﮨوا۔‬ ‫مشکوة شرﯾف باب الکرامات دالئل النبوة۔ امام بيﮩقی‪ ،‬دالئل النبوة۔ امام ابی نعيم‪،‬‬ ‫البدائيہ و الﮩناﯾہ کی رواﯾت کﮯ مطابق حضرت عمر فاروق اضی ﷲ عنہ کی آواز حضرت‬ ‫سﮩارﯾہ نﮯ مقام نﮩاوند ميﮟ سن لی۔ اور حضرت عمر فاروق نﮯ مقام نﮩاند کی مکمل‬ ‫صورت حال بھی مالحظہ فرمالی تھی۔‬ ‫بخاری شرﯾف باب التواضع اور مشکوة کی رواﯾت کہ ” جب اسﮯ اپنا محبوب بنا ليتا ﮨوں‬ ‫تو اس کﮯ کان‪ ،‬آنکھ‪ ،‬ﮨاتھ‪ ،‬پاؤں بن جاتا ﮨوں جن سﮯ وه سنتا ‪ ،‬دﯾکھتا‪ ،‬پکﮍتا اور چلتا‬ ‫ﮨﮯ )صحيح بخاری( معلوم ﮨوا کہ فرائض کی پابندی اور نوافل کی کثرت سﮯ بنده مقام‬ ‫محبوبيت پر فائز ﮨو جاتا ﮨﮯ اور ﷲ تعالیٰ کﮯ انوار سﮯ منور ﮨو جاتا ﮨﮯ اور وﮨی انوار‬ ‫اس کﮯ حوال اور اعضاءو آالت بن جاتﮯ ﮨيﮟ اور جب حقيقت حال ﯾہ ﮨوئی تو المحالہ‬ ‫اس کا دﯾکھنا سننا اور چلنا پﮩنچنا اور پکﮍنا ‪ ،‬بولنا اور سوچنا المحالہ عام لوگوں سﮯ‬ ‫مختلف ﮨو گا اور چونکہ ﯾہ انوار مقام محبوبيت کا ثمره اور نتيجہ ﮨوتﮯ ﮨيﮟ اور بنده‬ ‫محبوب وفات و وصال کﮯ بعد بھی محبوب ﮨوتا ﮨﮯ تو وفات وصال کﮯ بعد بھی اس کﮯ‬ ‫علوم و ادراکات اور شعور و احساسات اور قدرتيﮟ اور طاقتيﮟ عام اﮨل اسالم سﮯ زائد‬ ‫اور فائق اور قوی تر اور موثر ترﯾن ﮨوں گی۔‬ ‫امام فخر الدﯾن رازی رحمتہ ﷲ فرماتﮯ ﮨيﮟ کہ ” اور اسی طرح جب کوئی بنده نيکيوں‬ ‫پر ﮨميشگی اختيار کر ليتا ﮨﮯ تو اس مقام تک پﮩنچ جاتا ﮨﮯ جس کﮯ متعلق ﷲ تعالی‬ ‫نﮯ ” کنت لہ سمعا و بصرا“ فرماﯾا ﮨﮯ جب ﷲ کﮯ جالل کا نور اس کی سمع ﮨو جاتا‬ ‫ﮨﮯ تو وه دور و نزدﯾک کی آوازوں کو سن سکتا ﮨﮯ اور جب ﯾﮩی نور جالل اس کا ﮨاتھ ﮨو‬ ‫جائﮯ تو ﯾہ بنده مشکل اور آسان دور و قرﯾب چيزوں ميﮟ تصرف کرنﮯ پر قادر ﮨو جاتا‬ ‫ﮨﮯ ) تفسير کبير‪ ،‬امام فخر الدﯾن رازی رحمتہ ﷲ عليہ(‬ ‫اور قرآن پاک کی آﯾت مبارکہ سﮯ ولی ﷲ ) آصف بن برخيا( کا دور سﮯ نہ صرف‬ ‫دﯾکھنا بلکہ تصرف و اختيار بھی ثابت ﮨﮯ لﮩذا اولياءﷲ کا بھی بطور کرام دور دراز کی‬ ‫مسافت سﮯ دﯾکھنا سننا اور تصرف کرنا ثابت ﮨوا۔‬

‫سوال نمبر‪ :2‬اگر ﯾہ ثابت ﮨو جائﮯ کہ وه اتنﮯ فاصلوں پر آواز‬ ‫سن سکتا ﮨﮯ تو پھر سوال ﯾہ ﮨوتا ﮨﮯ کہ آﯾا وه دنيا کی ﮨر‬ ‫زبان سﮯ واقف ﮨﮯ ﯾا نﮩيﮟ ۔ مثال ً انگرﯾزی‪ ،‬پشتو‪ ،‬فارسی‬ ‫وغيره۔‬

‫جواب‪:‬‬ ‫قرآن مجيد شاﮨد ﮨﮯ کہ سيدنا آدم عليہ السالم کو تمام زبانوں کا علم عطا فرماﯾا گيا‬ ‫تھا۔ ) سورة البقره‪ ،‬آﯾت ‪ (31‬اور حضور اقدس صلی ﷲ عليہ و سلم کو ﮨر قسم کی‬ ‫بولنﮯ والی سب قوموں کا نبی بناﯾا گيا ﮨﮯ ) سورة االعراف۔ آﯾت ‪ 158‬۔ سورة السبا آ‬ ‫ﯾت ‪ ( 28‬اور ﯾہ قانون قدرت ﮨﮯ کہ نبی کو اس کی امت کی سب بولياں سکھائی‬ ‫جاتی ﮨيﮟ ) سورة ابراﮨيم آﯾت ‪ (4‬بلکہ حضور اقدس صلی ﷲ عليہ و سلم کی نبوت‬ ‫کﮯ وسيع تر احاطہ ميﮟ حيوانات و بﮩائم اور تمام عالمين ارضی و سماوی داخل ﮨيﮟ‬ ‫) سورة الفرقان آﯾت ‪(1‬‬ ‫ﷲ عزو جل نﮯ آدم عليہ السالم کو تمام زبانيﮟ سيکھائی۔ ” وعلماءادم‬ ‫االسماءکلھا“ کﮯ تحت تفسير خازن ميﮟ ﮨﮯ کہ ” و قيل علماه و اللغات کلھا“ اور ان کو‬ ‫تمام زبانيﮟ سکھا دﯾﮟ‪ ،‬امام فخر الدﯾن رازی کی تفسير ميﮟ بھی ﮨﮯ کہ ﯾﮩاں مرا د‬ ‫سارے نام ﮨيﮟ جو مختلف زبانوں ميﮟ ﮨوں جن کو اوالد آدم آج تک بول رﮨی ﮨﮯ عربی‬ ‫فارسی روسی ۔ )تفسير کبير( تو جب حضرت آدم عليہ السالم کﮯ لئﮯ مختلف زبانيﮟ‬ ‫جاننا ثابت ﮨﮯ تو امام االنبياءسردار االنبياءکيلئﮯ بدرجہ اولیٰ ثابت ﮨﮯ ﯾﮩی وجہ ﮨﮯ کہ‬ ‫آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نہ صرف انسانوں کی بولياں جانتﮯ ﮨيﮟ بلکہ چرندوں‪،‬‬ ‫پرندوں اور جانوروں کی زبانيﮟ بھی جانتﮯ تھﮯ جيسا کہ احادﯾث سﮯ اونﭧ کی فرﯾاد‬ ‫کو سمجھنا‪ ،‬ﮨرنی کی فراد کو سمجھنا‪ ،‬چﮍﯾا کی فرﯾاد سننا وغيرھما ثابت ﮨﮯ۔‬ ‫دوسری بات رﮨی بعد الوصال کی تو جب اﯾک عام انسان جس نﮯ پوری زندگی عربی‬ ‫کا لفظ بھی نﮩيﮟ پﮍھا ﮨوتا جب قبر ميﮟ جاتا ﮨﮯ تو منکر نکير کﮯ سوالوں کﮯ جوابات‬ ‫عربی ميﮟ دﯾتا ﮨﮯ۔ تو ﮨم سائل سﮯ پوچھتﮯ ﮨيﮟ کہ ﯾہ عربی زبان اس کو بذات خود‬ ‫حاصل ﮨو گی کہ باذن الﮩی۔ اگر بذات خود بغير اذن الﮩی تو خالص کفر اور اگر بطور اذن‬ ‫الﮩی تو جو خداعزوجل کفارو عامی کو منکر و نکير کﮯ سواالت کﮯ جوابات دﯾنﮯ‬ ‫کيلئﮯ عربی زبان سمجھا سکتا ﮨﮯ کيا وه اﯾک نبی ﯾا ولی کو انگرﯾزی‪ ،‬پشتو ﯾا‬ ‫فارسی ميﮟ کی جانﮯ والی فرﯾاد نﮩيﮟ سمجھا سکتا۔ جبکہ ﮨم اﮨل سنت کا عقيده‬ ‫ﮨی ﯾہ ﮨﮯ کہ انبياءو الياءباذن الﮩی بطور معجزه و کرامت سنتﮯ ﮨيﮟ۔ اسی طرح جب‬ ‫کوئی مسلمان ﷲ عزو جل کا محبوب بن جاتا ﮨﮯ تو ﷲ عزو جل کی آنکھوں‪ ،‬کانوں‪،‬‬ ‫ﮨاتھوں اور پاؤں کا نور بن جاتا ﮨﮯ ﯾعنی اتنی طاقتيﮟ اور صالحيتيﮟ عطا فرما دﯾتا ﮨﮯ کہ‬ ‫وه عام انسانوں کﮯ اعضا ءجسمانی کی طرح کام نﮩيﮟ کرتﮯ بلکہ ﷲ کی عطا کرده‬ ‫قوتوں اور طاقتوں اور صالحيتوں سﮯ کام کرتﮯ ﮨيﮟ لﮩذا وه دور دراز سﮯ جس طرح‬ ‫دﯾکھ سن سکتﮯ ﮨيﮟ اسی طرح مختلف زبانيﮟ بھی اسی نور فراست )طاقتوں اور‬ ‫قوتوں( سﮯ بطور کرامت سمجھ ليتﮯ ﮨيﮟ۔ اب سائل ﯾا تو ﷲ عزو جل کﮯ اس عطا‬ ‫کرده نور کو کمزور و الچار سمجھ بيﭩھا ﮨﮯ ﯾا پھر ان احادﯾث کو سمجھ نﮩيﮟ پاﯾا۔‬ ‫حدﯾث شرﯾف ميﮟ آتا ﮨﮯ کہ جب دنيا ميﮟ کوئی بيوی اپنﮯ شوﮨر سﮯ لﮍائی کرتی ﮨﮯ‬ ‫تو جنت ميﮟ موجود اس کی ﮨونﮯ والی بيوی) حور( اس پکار کومالمت کرتی ﮨﮯ۔‬ ‫)مفﮩوم حدﯾث( سائل کﮩيﮟ ﯾہ نہ سمجھ بيﭩھﮯ کہ لﮍائی صرف ﮨاتھ پائی ﯾا مار کﭩائی‬ ‫ﮨی کا نام ﮨﮯ بلکہ اپنﮯ شوﮨر کو برے الفاظ کﮩنا‪ ،‬بد تميزی بھی لﮍائی ﮨی ﮨﮯ۔ لﮩذا‬ ‫اگر کوئی دنياوی عورت فارسی‪ ،‬پشتو‪ ،‬ﮨندی اردو‪ ،‬انگرﯾزی ميﮟ اپنﮯ شوﮨر کو برا بھال‬ ‫کﮩﮯ گی تو جنت ميﮟ موجود اس مرد کی ﮨونﮯ والی بيوی )حور( اس دﯾناوی عورت‬ ‫کی زبان کو سمجھ کر اسﮯ مالمت کرتی ﮨﮯ۔‬ ‫اسی طرح کاتب و کاتبين )حساب کتاب( کﮯ فرشتوں بھی ﮨماری تمام زبانوں سﮯ‬ ‫واقف ﮨوتﮯ ﮨيﮟ اسی لئﮯ انگرﯾزی‪ ،‬اردو‪ ،‬فارسی‪ ،‬پشتو ميﮟ جو ﮨم اچھی بات کرتﮯ‬ ‫ﮨيﮟ تو وه ﮨمارے اچھﮯ اعمال نامہ ميﮟ بطور نيکی لکھی جاتی ﮨﮯ اور اگر انﮩيﮟ زبانوں‬ ‫ميﮟ ﮨم معاذ ﷲ عزو جل گالياں‪ ،‬جھوٹ بوليﮟ ﯾا غيبتيﮟ کرﯾﮟ تو وه ﮨمارے برے اعمال‬

‫نامﮯ ميﮟ تحرﯾر کی جاتی ﮨيﮟ۔‬ ‫آخری بات ﯾہ ﮨﮯ کہ جب ان کا سننا دﯾکھنا ﮨﮯ ﮨی بطور معجزاه کرامت تو پھر ﯾہ‬ ‫اعتراض ﮨی باطل ﮨﮯ کيونکہ معجزه و کرامت کﮩتﮯ ﮨی اسﮯ ﮨيﮟ جو کسی عام بشر‬ ‫سﮯ صدور نہ ﮨو سکﮯ۔ لﮩذا اگر ان کو وه زبان بالفرض معلوم نﮩيﮟ بھی تو بطور معجزه‬ ‫و کرامت اس فرﯾاد کو سن و سمجھ ليتﮯ ﮨيﮟ اور مشکل کشائی و حاجت روائی‬ ‫فرماتﮯ ﮨيﮟ۔ لﮩذا ﯾہ کوئی ناممکن بات نﮩيﮟ اور پھر جب حوروں اور فرشتوں کا مختلف‬ ‫زبانوں کا جاننا ثابت ﮨوا تو انبياءکرام اور اولياءعظام کيلئﮯ بطور معجزه و کرامت تسليم‬ ‫کرنﮯ سﮯ کون سی دليل شرعی مانع ﮨﮯ۔‬ ‫سوال نمبر‪ :3‬اگر ﯾہ بات بھی ثابت کر دی جائﮯ کہ وه ﮨستی ﮨر زبان سﮯ واقف ﮨﮯ تو‬ ‫پھر سوال پيدا ﮨو گا کہ اگر اﯾک لمحہ ميﮟ سينکﮍوں ﯾا ﮨزاروں لوگ اپنی مشکل اس‬ ‫کﮯ سامنﮯ پيش کرﯾﮟ تو کيا وه ان سب کی مشکالت اسی لمحہ اور سمجھ لﮯ گا‬ ‫ﯾا اس کﮯ لئﮯ قطار بنانﮯ کی ضرورت پيش آئﮯ گی۔‬ ‫سنی جواب‪ :‬ﷲ عزو جل کﮯ انبياءکرام اور اولياءعظام کی قوتوں‪ ،‬طاقتوں ‪ ،‬صالحيتوں‬ ‫کو اپنﮯ آپ پرقياس کرنا بﮩت بﮍی بد نصيبی ﮨﮯ اور پھر معجزات و کرامت اﯾسﮯ فعل‬ ‫ﮨوتﮯ ﮨيﮟ جو عام انسان کرنﮯ سﮯ عاجز ﮨوں جيسا کہ چاند کﮯ دو ﭨکﮍے کرنا‪ ،‬سورج‬ ‫کو واپس پلﭩنا‪ ،‬مردے زنده کرنا‪ ،‬اندھوں کو بينا کرنا‪ ،‬بلقيس عليہ السالم کا تخت آنکھ‬ ‫جھپکنﮯ سﮯ قبل لﮯ آنا وغيرھما۔ ان کی قوت قدسيہ کا ﯾہ عالم ﮨﮯ کہ ان منگتوں کو‬ ‫قطار بنانﮯ کی ضرورت پيش نﮩيﮟ آتی۔ لﮩذا سائل ﮨميﮟ ﯾہ بتائﮯ کہ کيا وه معجزات و‬ ‫کرامات کﮯ منکر ﮨيﮟ۔ کيا بطور معجزه و کرامت ميﮟ اﯾسا ﮨونا ناممکن و محال ﮨﮯ۔ اگر‬ ‫ناممکن ﮨﮯ تو جواب قرآن و حدﯾث سﮯ پيش کرے۔ ليکن ﯾقينا ﷲ عزوجل کی عطا‬ ‫کرده طاقتوں سﮯ اس کﮯ بندے اﯾک ﮨی وقت ميﮟ ﮨزاروں آوازﯾﮟ سن سکتﮯ ﮨيﮟ۔‬ ‫کيا سائل نﮯ حدﯾث شفاعت نﮩيﮟ پﮍھيﮟ ﯾا سنيﮟ کہ بروز قيامت تمام امتيﮟ )اول تا‬ ‫آخر( انبياءکرام کی بارگاﮨوں سﮯ ﮨوتيﮟ ﮨوئی نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کی‬ ‫خدمت ميﮟ حاضر ﮨوں گی۔ اور آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم قطار ميﮟ کھﮍے کئﮯ‬ ‫بغير سب کی فرﯾاد کو بيک وقت سن کر سب کی مشکل کشائی فرمائيﮟ گﮯ۔‬ ‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ فرماﯾا کہ جب بھی کوئی مجھ پر )درود ( و‬ ‫سالم بھيجتا ﮨﮯ تو ﷲ تعالیٰ ميری روح )توجہ( کو ميری طرف لوﭨا دﯾتا ﮨﮯ ﯾﮩاں تک کہ‬ ‫ميﮟ اس کﮯ سالم کا جواب دﯾتا ﮨوں۔ ) ابو داؤد شرﯾف ج ا ص ‪ ،286‬مسند احمد بن‬ ‫حنبل( لﮩذا حضور صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کا بذات خود الکھوں کروڑوں سالم پﮍھنﮯ‬ ‫والوں کی آوازوں کو سننا ثابت ﮨﮯ۔ حاالنکہ نہ قطار کی ضرورت نہ کھﮍے ﮨونﮯ کی۔ ﯾہ‬ ‫تو شان مصطفوی صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم ﮨﮯ۔ آئيﮯ سائل صاحبان نبی پاک صلی‬ ‫ﷲ عليہ و آلہ وسلم کﮯ خادموں کی شان مالحظہ کيجئﮯ۔‬ ‫نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کی قبر پر کھﮍے خادم فرشتﮯ کی قوت سماعت‬ ‫کﮯ بارے ميﮟ غير مقلدﯾن اﮨلحدﯾث امام ابن قيم نﮯ ”جال االفﮩام“ امام سيوطی نﮯ‬ ‫جامع صغير ص ‪ 93‬اور الحاوی اللفتاوی جلد نمبر‪ 2‬غير مقلدﯾن کﮯ عالمہ محمد ناصر‬ ‫الدﯾن البانی نﮯ ” سلسلہ االحادﯾث الصحيحة ‪ “1530‬ميﮟ اور دﯾو بندی عالم موالنا‬ ‫ذکرﯾا نﮯ تبليغی نصاب‪ ،‬باب فضائل درود حدﯾث لکھی کہ ” رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و‬ ‫آلہ وسلم نﮯ فرماﯾا ! ﷲ تعالیٰ کی مخلوق ميﮟ اﯾک اﯾسا فرشتہ ﮨﮯ جسﮯ اس نﮯ‬ ‫کل مخلوقات کی آوازﯾﮟ سننﮯ کی طاقت عطاءفرمائی ﮨﮯ۔ وه فرشتہ ميری وفات کﮯ‬ ‫بعد ميری قبر پر قيامت تک کھﮍا ﮨو گا پس ميرا جو بھی امتی مجھ پر درود پﮍھﮯ گا وه‬ ‫فرشتہ اس امتی اور اس کﮯ باپ کا نام )فالں بن فالں( لﮯ کر عرض کرے گا اے محمد‬ ‫صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم پر فالں بن فالں نﮯ درود‬ ‫بھيجا ﮨﮯ۔“‬ ‫اس سﮯ معلوم ﮨوا کہ وه فرشتہ تمام لوگوں کو اور ان کﮯ باپوں کو بھی جانتا ﮨﮯ۔‬

‫اﯾک ﮨی وقت ميﮟ الکھوں کروڑوں درود شرﯾف پﮍھنﮯ والوں کو دﯾکھ اور سن بھی رﮨا‬ ‫ﮨوتا ﮨﮯ۔‬ ‫اور نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم بھی اسی لمحہ اس کﮯ پيش کرده تمام درود‬ ‫و سالم کو قبول کرتﮯ ﮨوئﮯ سن رﮨﮯ ﮨوتﮯ ﮨيﮟ۔ ﯾہ نﮩيﮟ کہ حضور صلی ﷲ عليہ و آلہ‬ ‫وسلم اﯾک ترتيب سﮯ سنتﮯ ﮨيﮟ بلکہ فوراً سن کر فرماتﮯ ﮨيﮟ ” وعليہ السالم و‬ ‫رحمة ﷲ و برکاتہ“ لﮩذا جس طرح اس فرشتہ کا اﯾک ﮨی وقت ميﮟ الکھوں کروڑوں کا‬ ‫سننا ثابت اسی طرح نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کا اﯾک ﮨی وقت ميﮟ الکھوں‬ ‫کروڑوں کا قبول کرنا ثابت ﮨﮯ۔ الحمد ﷲ عزو جل‬ ‫‪ 2‬جسم سﮯ روح نکالنﮯ واال فرشتہ حضرت عزائيل عليہ السالم ﮨيﮟ۔ رسل ﷲ صلی‬‫ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ فرﯾاد کہ پوری دنيا اس کﮯ سامنﮯ طشت کی مانند ﮨﮯ وه‬ ‫جﮩاں سﮯ چاﮨﮯ اروح کو پکﮍ ليتا ﮨﮯ۔ )شرح الصدور۔ البدائيہ و النھاﯾہ جلد ‪ ،1‬تفسير‬ ‫روح المعانی( تو معلوم ﮨوا کہ خادم کﮯ اندر اتنی قدرت و طاقت ﮨﮯ کہ بيک وقت‬ ‫الکھوں کروڑوں کی ارواح قبض کر سکتا ﮨﮯ قطار ميﮟ ذی روح کو کھﮍا نﮩيﮟ کرواتا۔‬ ‫‪ 3‬قبر ميﮟ حساب کتاب کﮯ فرشتﮯ جمﮩور کﮯ مذﮨب کﮯ مطابق منکر اور نکير صرف‬‫دو فرشتﮯ ﮨيﮟ جو اﯾک ﮨی وقت ميﮟ الکھوں کروڑوں سﮯ سوال کر رﮨﮯ ﮨوتﮯ ﮨيﮟ۔ نہ‬ ‫قطار لگاتﮯ ﮨيﮟ نہ باری باری ﮨر اﯾک کﮯ پاس جاتﮯ ﮨيﮟ۔‬ ‫لﮩذا جب فرشتوں جو نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کﮯ امتی و خادم ﮨيﮟ ان کﮯ‬ ‫لئﮯ ﯾہ طاقتيﮟ و قوتيﮟ خود سائل بھی ماننﮯ بغير نﮩيﮟ ره سکتﮯ تو پھر نبی پاک‬ ‫صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم اور آپ کﮯ امتيوں )اولياءکرام( کيلئﮯ کيسﮯ ناممکن و‬ ‫محال ﮨيﮟ۔ لﮩذا بطور معجزه و کرامت بيک وقت الکھوں کی آوازﯾﮟ سننا عقال ً و شرعاً‬ ‫جائز وممکن ﮨﮯ۔ ﮨاں اگر سائل کﮯ پاس کوئی شرعی ممانعت ﮨﮯ تو پيش کرے۔‬ ‫اب ﮨم سائل سﮯ پوچھتﮯ ﮨيﮟ کہ ۔‬ ‫کيا عزائيل عليہ السالم روح قبض کرنﮯ والوں کو قطار ميﮟ کھﮍا کرتﮯ ﮨيﮟ۔‬ ‫کيا بيک وقت ﮨزاروں کروڑوں کی ارواح قبض کرليتﮯ ﮨيﮟ کہ نﮩيﮟ‬ ‫کيا قبر نبوی صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم ميﮟ مقرر خادم فرشتہ اﯾک ﮨی لمحہ ﮨزاروں‬ ‫کروڑوں کی آوازﯾﮟ سن ليتا ﮨﮯ کہ نﮩيﮟ۔‬ ‫کيا ﯾہ خادم فرشتہ کسی خاص ترتيب سﮯ ﯾعنی اول دوم سوئم کی ترتيب سﮯ‬ ‫سنتا ﮨﮯ۔‬ ‫کيا منکر و نکير دو فرشتﮯ قبروں ميﮟ قطار لگوا کر سواالت کرتﮯ ﮨيﮟ۔‬ ‫سائل جوابات قرآن و حدﯾث کی روشنی ميﮟ پيش کرے۔‬

‫سوال نمبر‪ :4‬کيا اسی ﮨستی کو کبھی نيند بھی آتی ﮨﮯ ﯾا‬ ‫وه ﮨميشہ جاگتا رﮨتا ﮨﮯ اگر کبھی نيند آتی ﮨﮯ تو پھر ﮨمارے‬ ‫پاس اﯾک لسﭧ ﮨونی چاﮨئﮯ کہ اب اس کو نيند آتی ﮨﮯ اور‬ ‫کب وه جاگ رﮨا ﮨوتا ﮨﮯ تاکہ اس کﮯ مطابق ﮨم اپنی مشکل‬ ‫پيش کرﯾﮟ ﯾا وه نيند ميﮟ بھی سنتا ﮨﮯ۔‬ ‫جواب‪:‬‬ ‫سائل ان دس کﮯ دس سوالوں ميﮟ معجزات و کرامات کا دبﮯ لفظوں انکار کر رﮨا ﮨﮯ ﯾا‬ ‫پھر معجزه و کرامت سﮯ ناواقف ﮨﮯ۔ اگر اﯾسی بات نہ ﮨوتی تو وه ﮨر گز ﮨر گز اﯾسﮯ‬ ‫اعتراض نہ کرتا۔ بﮩرحال جب دور دراز سﮯ دﯾکھنا سننا ممکن ﮨﮯ تو سوتﮯ ﮨوئﮯ ﯾا نيند‬

‫کی حالت ميﮟ بھی بطورکرامت آوازﯾﮟ سننا ممکن ﮨﮯ۔ کيونکہ ﯾہ افعال باذن الﮩی‬ ‫ﮨوتﮯ ﮨيﮟ اور جب ﷲ عزوجل کا اذن ﮨو جائﮯ تو پھر نيند ميﮟ تو کيا مردے بھی سننﮯ‬ ‫اور جواب دﯾنﮯ لگتﮯ ﮨيﮟ بلکہ مردے تو کيا چرند پرند بھی انسانی کالم کو سمجھ کر‬ ‫دوڑے آتﮯ ﮨيﮟ جيسا کہ قرآن پاک ميﮟ کہ حضرت خليل عليہ السالم نﮯ بارگاه رب‬ ‫جليل ميﮟ عرض کيا کہ موال مجھﮯ دکھا دے کہ تو مردے کس طرح زنده فرمائﮯ گا تو‬ ‫حکم ﮨوا کہ چار پرندوں کو ذبح کرکﮯ ان کﮯ گوشت چاروں پﮩاڑوں پر رکھو ” ثم ادعھن‬ ‫ﯾا تينک سعيا“ پھر انﮩيﮟ پکارو دوڑتﮯ ﮨوئﮯ آئيﮟ گﮯ۔ ) مفﮩوم القرآن( لﮩذا جب اذن مل‬ ‫جائﮯ تو پھر نيند تو نيند بعد موت کﮯ بھی سننا ممکن ﮨﮯ۔‬ ‫ﷲ تعالیٰ کﮯ مقبول بندوں کی نيند دوسروں کی بيدارﯾوں سﮯ ﮨزار درجہ بﮩتر ﮨﮯ‬ ‫اسی لئﮯ حضرت انبياءعليﮩم الصلواة و السالم پر نيند ميﮟ بھی وحی اترا کرتی ﮨﮯ ﯾہ‬ ‫جو ﮨر سال ‪ 12,11,10‬ذی الحجہ کو الکھوں قربانياں دی جاتی ﮨيﮟ ﯾہ اسی وحی کا‬ ‫نتيجہ ﮨﮯ جو حضرت ابراﮨيم علی نبينا و عليہ الصلواة و السالم پر نيند کی حالت ميﮟ‬ ‫اتری تھی اور ﯾہ جو ﮨر مسجد ميﮟ ﮨر روز پانچ اذانيﮟ دی جاتی ﮨيﮟ ان کا حکم بھی‬ ‫نيند ﮨی ميﮟ مال تھا۔ )مشکوة ص ‪(64‬‬ ‫نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم حالت نيند ميﮟ بھی دﯾکھتﮯ سنتﮯ ﮨيﮟ جيسا کہ‬ ‫صحيح بخاری شرﯾف ميﮟ ﮨﮯ کہ ” تنام عينی وال ﯾنام قلبی“ ﯾعنی ميری آنکھ سوتی‬ ‫ﮨﮯ ميرا دل نﮩيﮟ سوتا )جلد ‪ (1‬مجدد الف ثانی فرماتﮯ ﮨيﮟ کہ اس ميﮟ )حضور صلی‬ ‫ﷲ عليہ و آلہ وسلم کی( اپنﮯ اور اپنی امت کﮯ حاالت سﮯ )ﮨميشہ( با خبر رﮨنﮯ‬ ‫کی خبر ﮨﮯ۔ لﮩذا حضورصلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کﮯ حق ميﮟ نيند ناقص وضو نﮩيﮟ‬ ‫)مشکوة( کيونکہ نبی امت کا نگران ﮨوتا ﮨﮯ اور غفلت اس منصب کی شان کﮯ الئق‬ ‫نﮩيﮟ۔ )مکتوبات شرﯾف دفتر اول( آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم آرام فرما رﮨﮯ تھﮯ‬ ‫حضرت بالل جاگ رﮨﮯ تھﮯ ان کﮯ پاس شيطان آﯾا اس نﮯ انﮩيﮟ بچوں کی مانند‬ ‫تھپکياں دے کر سال دﯾا ﯾہ سارا منظر آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ نيند کی حالت‬ ‫ميﮟ دﯾکھا اور تھپکيوں کی آواز سنی پھر آﭨھ کر سب کچھ بيان فرما دﯾا۔ )مشکوه‬ ‫شرﯾف ص ‪(60‬‬ ‫اﯾک دوسرا واقعہ ﮨﮯ کہ آپ صلی ﷲ عليہ و سلم کاشانہ رحمت ميﮟ آرام فرما رﮨﮯ‬ ‫تھﮯ حضرت ابوﮨرﯾره زکوة کی حفاظت پر مامور تھﮯ تين شب لگاتار چور آتا رﮨا ﮨر بار‬ ‫پکﮍا جاتا رﮨا پھر کچھ جھوٹ کچھ سچ بول کر چھوٹ جاتا رﮨا آنحضرت صلی ﷲ عليہ و‬ ‫سلم اس کی سب حرکتوں کو دﯾکھتﮯ رﮨﮯ اور اس کی سب باتوں کو سنتﮯ رﮨﮯ‬ ‫جتنا اس نﮯ جھوٹ بوال تھا وه بھی اور جتنا سچ کﮩا تھا وه بھی آپ نﮯ ابوﮨرﯾره کو بتا‬ ‫دﯾا پھر فرماﯾا وه چور شيطان تھا )مشکوة ص‪(175‬‬ ‫دوسری بات ﯾہ ﮨﮯ کہ نيند و موت تو جسم پر طاری ﮨوتی ﮨﮯ روحانيت و نورانيت پر‬ ‫نﮩيﮟ اور حدﯾث بيان ﮨو چکی ﮨﮯ کہ ﷲ کا نور ان اولياءکرام کﮯ ﮨاتھ‪ ،‬پاؤں‪ ،‬کان وغيره‬ ‫بن جاتا ﮨﮯ اور وه ﷲ کﮯ نور سﮯ دﯾکھتﮯ سنتﮯ ﮨيﮟ۔ لﮩذا ﯾا تو سائل ﯾہ ثابت کرے‬ ‫کہ اس عطا کرده نور )روحانی قوتيﮟ و طاقتيﮟ( پر بھی نيند طاری ﮨو جاتی ﮨﮯ اور وﮨی‬ ‫تمام لوازمات جو جسم بشری پر طاری ﮨوتﮯ ﮨيﮟ اس پر بھی طاری ﮨوتﮯ ﮨيﮟ۔ اس‬ ‫صورت ميﮟ تو ﷲ عزو جل کﮯ نور کو کمزور و الچار ماننا الزم آئﮯ گا جو ﯾقينا سائل کو‬ ‫بھی منظور نہ ﮨو گا۔ تو دوسری صورت ميﮟ ﯾہ تسليم کرنا پﮍے گا کہ اس نور پر نيند و‬ ‫موت سﮯ کچھ فرق نﮩيﮟ پﮍتا۔ لﮩذا حالت نيند و موت ميﮟ بطور معجزه و کرامت سننا‬ ‫ممکن ﮨﮯ۔‬ ‫آخری بات ﯾہ ﮨﮯ کہ بعد الوصال تو نيند کا تصور ﮨﮯ ﮨی نﮩيﮟ تو سائل کو چاﮨئﮯ کہ‬ ‫وفات شده انبياءو اولياءکرام کی بارگاه ميﮟ استغاثہ پيش کيا کرے۔ چاﮨﮯ رات کو کرے‬ ‫ﯾا دن کو‪ ،‬صبح کرے ﯾا شام کو‪ ،‬بعد الوصال نيند نﮩيﮟ۔ اور پھر بعد الوصال تو عام روح‬ ‫کی طاقت اس قدر زﯾاده ﮨو جاتی ﮨﮯ کہ قبر کﮯ اندر سﮯ باﮨر والوں کو دﯾکھ ليتی ﮨﮯ‬

‫حتا کہ تينوں سوالونکﮯ جوابات کﮯ بعد جنت و جﮩنم تک زمين پر رﮨتﮯ ﮨوئﮯ قبر کﮯ‬ ‫اندر سﮯ دﯾکھ ليتی ﮨﮯ جيسا کہ حدﯾث ميﮟ ﮨﮯ کہ اگر مرده تينوں سوالوں کﮯ جواب‬ ‫صحيح دﯾتا ﮨﮯ تو اس کو جﮩنم دﯾکھائی جاتی ﮨﮯ اور کﮩا جاتا ﮨﮯ کہ ﯾﮩی تيرا مقام‬ ‫ﮨﮯ اور جو تينوں سواالت کﮯ جوابات نﮩيﮟ دے پاتا اس کو پﮩلﮯ جنت دﯾکھائی جاتی‬ ‫ﮨﮯ اور پھر جﮩنم۔ اور پھر ﮨميشہ کيلئﮯ جﮩنم کا دروازه اس پر کھول دﯾا جاتا ﮨﮯ۔‬ ‫) کماقال ۔ صحاح ستہ(‬ ‫پس بعد الوصال قرب و بعيد کا فرق عام انسان کﮯ لئﮯ ختم ﮨو جاتا ﮨﮯ تو حضرت‬ ‫انبياءکرام و اولياءکرام تو ان سﮯ افضل و اعلیٰ ﮨيﮟ۔ لﮩذاجب ادنیٰ کيلئﮯ ﯾہ ثابت ﮨﮯ تو‬ ‫اعلیٰ کﮯ لئﮯ بدرجہ اولیٰ ﯾہ اس سﮯ بھی افضل و اولیٰ ثابت ۔ الحمد ﷲ عزو جل۔‬

‫سوال‪ :5‬اﯾک شخص بولنﮯ سﮯ قاصر ﮨﮯ وه اﯾسی مشکل‬ ‫ميﮟ مبتال ﮨﮯ کہ گال بند ﮨو چکا ﮨﮯ اگر وه دل ﮨی دل ميﮟ‬ ‫اپنی مشکل پيش کرے تو کيا وه اس کی فراد بھی سن لﮯ‬ ‫گا؟‬ ‫جواب‪:‬‬ ‫بنده خدا جب ﷲ عزو جل انﮩيﮟ ) انبياءو اولياءکو( بطور معجزه و کرامت دور سﮯ دﯾکھا‬ ‫و سنا سکتا ﮨﮯ تو کيا وه خدا اس بات پر قادر نﮩيﮟ کہ دل کی فرﯾاد بھی سنا دے؟‬ ‫وما ارسلنک االرحمة للعالمين‬ ‫نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کو تمام عالمين کﮯ لئﮯ رحمت بنا کر بھيجا گيا‬ ‫خواه انسان ﮨوں‪ ،‬فرشتﮯ ﮨوں‪ ،‬جنات‪ ،‬حيوان ﮨوں بلکہ تمام مخلوقات کيلئﮯ آپ صلی‬ ‫ﷲ عليہ و آلہ وسلم رحمت ﮨيﮟ اور رحمت اسی صورت ميﮟ ﮨو سکتﮯ ﮨيﮟ جب با زبان‬ ‫و بﮯ زبان‪ ،‬جنات‪ ،‬انسان و حيوان سب کی زبانيﮟ اور حاالت و کيفيات سﮯ واقف ﮨوں۔‬ ‫دلوں کﮯ حاالت و خياالت اس کی نظروں کﮯ سامنﮯ ﮨوں اور فرﯾاد خواه مخفی و‬ ‫پوشيده ﮨی ﮨوں ان کو سنتا و جانتا ﮨو۔ ورنہ وه کسی صورت ميﮟ رحمت نﮩيﮟ بن‬ ‫سکتا۔‬ ‫لﮩذا نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کيلئﮯ دور سﮯ سننا دﯾکھنا‪ ،‬دلوں کﮯ حاالت‬ ‫سﮯ واقف ﮨونا ضروری ﮨﮯ ورنہ رحمت اللعمالمين کيسﮯ ﮨو سکتﮯ ﮨيﮟ؟ دﯾکھئﮯ‬ ‫جانور چرند پربند نبی رحمت کی بارگاه ميﮟ فرﯾاد لﮯ کر حاضر ﮨوئﮯ اور ان پر رحم کيا‬ ‫گيا‪ ،‬صحابہ کرام اپنی فرﯾاد و حاجات لﮯ کر نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کی‬ ‫بارگاه ميﮟ جاتﮯ تو نبی رحمت فرﯾاد رسی و حاجت روئی فرماتﮯ۔ اور اس رحمت پر‬ ‫قرﯾب و نزدﯾک ﯾا کسی زمانﮯ کﮯ بعد مقيد بھی نﮩيﮟ اسی لئﮯ نبی رحمت صلی‬ ‫ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ اپنﮯ چچا ابو طالب کو ﮨزاروں سال کی مسافت و دوری پر‬ ‫جﮩنم کی گﮩری آگ سﮯ کم آگ ميﮟ منتقل کيا۔ ) بخاری و مسلم( لﮩذا رحم کرنﮯ‬ ‫والﮯ کيلئﮯ علم‪ ،‬اختيارات‪ ،‬تصرفات ‪ ،‬قرﯾب و دور سﮯ دﯾکھنا‪ ،‬دلی خواﮨشات اور‬ ‫فرﯾادوں پر مطلع ﮨونا ضروری ﮨﮯ۔ اور سائل بھی تسليم کرتا ﮨﮯ کہ نبی پاک صلی ﷲ‬ ‫عليہ و آلہ وسلم صرف رحمت نﮩيﮟ رحمت اللعالمين ﮨيﮟ۔‬ ‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ فرماﯾا‪:‬‬ ‫ھل ترون قبلتی ھھنا وﷲ ما ﯾخفی علی رکوعکم و ال خشو عکم و انی الرا کم و‬ ‫راءظﮩری۔‬ ‫”تم ﯾہ سمجھتﮯ ﮨو کہ ميرا رخ اس طرف ﮨﮯ ﷲ کی قسم نہ تمﮩارا رکوع مجھ پر‬

‫مخفی ﮨﮯ اور نہ تمﮩارا خشوغ )جو دل کی کيفيت ﮨﮯ اور سينہ کا راز ﮨﮯ( مجھ سﮯ‬ ‫پوشيده ﮨﮯ اور بﮯ شک ميﮟ تمﮩيﮟ اپنی پيﭩھ پيچھﮯ بھی دﯾکھتا ﮨوں ) صحيح بخاری‬ ‫جلد ‪ 1‬ص‪ (102‬وفی رواﯾة مسلم عنہ۔ فانی اراکم امامی و من خلفی۔ پس بﮯ شک‬ ‫ميﮟ تمﮩيﮟ آگﮯ بھی دﯾکھتا ﮨوں اور پيچھﮯ بھی )وﯾسﮯ ﮨی( دﯾکھتا ﮨوں )صحيح‬ ‫مسلم‪ ،‬خصائص الکبری( اﯾک رواﯾت ميﮟ ﮨﮯ کہ ” فوﷲ انی الرا کم من بعدی“ ﯾعنی‬ ‫ﷲ کی قسم ميﮟ تمﮩيﮟ اپنﮯ بعد دﯾکھتا ﮨوں۔ )صحيح بخاری ‪ 1/102‬مشکوة باب‬ ‫الرکوع حدﯾث ‪ (1‬امام عينی فرماتﮯ ﮨيﮟ کہ امام داؤدی نﮯ ”بعدی“ کی تفسير ميﮟ‬ ‫فرماﯾا ” ﯾعنی من بعدی وفاتی“ ﯾعنی بعد از وفات بھی ميﮟ تمﮩيﮟ دﯾکھتا رﮨوں گا۔‬ ‫)عمدة القاری ‪ 5/281‬ونووی ‪ (1/180‬اور ﮨم پﮩلﮯ طبرانی شرﯾف وغيره کی حدﯾث بيان‬ ‫کر چکﮯ کہ حضور صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم تمام دنيا کو قيامت تک ﮨونﮯ والﮯ سب‬ ‫حاالت کو اپنﮯ ﮨاتھ کی ﮨتھيلی کی طرح دﯾکھ رﮨﮯ ﮨيﮟ“ پس جب معلوم کہ نبی پاک‬ ‫صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم اب بھی دل کی کيفيات )خشوع ﮨو دل ﮨی ميﮟ کوئی رنج و‬ ‫غم ﯾا خواﮨش( سب پر مطلع ﮨيﮟ۔‬ ‫حدﯾث سارﯾہ سﮯ بھی ﯾہ بات واضح ﮨوتی ﮨﮯ حضرت سارﯾہ رضی ﷲ عنہ نﮯ حضرت‬ ‫عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کو آواز نﮩيﮟ دی ليکن عمر فاروق رضی ﷲ عنہ ان حاالت پر‬ ‫مطلع ﮨو گئﮯ۔ لﮩذا معلوم ﮨوا کہ الزمی کہ آواز دی ﯾا فرﯾاد کی جائﮯ تب ﮨی مشکل‬ ‫کشائی و حاجت روائی کی جائﮯ تب ﮨی انبياءکرام و اولياءعظام کو معلوم ﮨوا ﮨﮯ کہ‬ ‫بلکہ بغير فرﯾاد و آواز کﮯ بھی فرﯾاد رسی و مشکل کشائی ﮨو جاتی ﮨﮯ۔‬ ‫عمربن سالم خزاعمی رضی ﷲ عنہ چاليس افراد کو ساتھ لﮯ کر نبی اکرم صلی ﷲ‬ ‫عليہ و آلہ وسلم سﮯ امداد حاصل کرنﮯ کيلئﮯ مدﯾنہ طيبہ کی جانب روانہ ﮨوئﮯ تو‬ ‫راستہ ميﮟ قرﯾش اور بنو بکر نﮯ مل کر ان پر حملہ کر دﯾا اور اس وقت ان صحابہ کرام‬ ‫عليﮩم الرضوان نﮯ تين دن کی مسافت بعيده کﮯ باوجود فرﯾاد کی اور آپ صلی ﷲ‬ ‫عليہ و آلہ وسلم نﮯ اس کی فراد اور استغاثہ پر لبيک لبيک نصرت نصرت فرماﯾا۔ ﯾعنی‬ ‫ميﮟ تمﮩاری امداد و نصرت کيلئﮯ حاضر ﮨوں اور تجھﮯ نصرت و امداد ﮨو گئی۔‬ ‫چنانچہ امام طبرانی معجم الصغير ميﮟ راوی ميﮟ کہ ام المومنين حضرت ميمونہ رضی‬ ‫ﷲ عنﮩا فرماتی ﮨيﮟ ‪:‬‬ ‫انھا قالت باب عندی رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم ليلة فقام ليتو ضاللصلوة‬ ‫فسمة صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم ﯾقوم فی متوضاه لبيک لبيک لبيک ثالثا نصرت نصرت‬ ‫نصرت ثالثا فلما خرج قلت ﯾا رسول ﷲ سمعتک تقول فی متبوضاک لبيک لبيک لبيک‬ ‫ثالثا نصرت نصرت نصرت ثالثا کانک تکم انسانا فھل کان معک احد فقال صلی ﷲ عليہ و‬ ‫آلہ وسلم ھذا را جزبنی کعب ﯾستصر خنی و ﯾزعم ان قرﯾشا اعانت عليھم بنی بر‬ ‫)الیٰ( )مواھب لدنيہ مع زرقانی جلد ‪ 2‬ص ‪(290‬‬ ‫وه فرماتی ﮨيﮟ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ ميرے پاس رات گزاری پس‬ ‫اﭨھﮯ تاکہ نماز کﮯ لئﮯ وضو کرﯾﮟ تو ميﮟ نﮯ آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کو وضو‬ ‫والی جگہ ميﮟ تين مرتبہ نصرت )تمﮩاری مدد کی گئی( فرماتﮯ سنا۔ جب آپ صلی ﷲ‬ ‫عليہ و آلہ وسلم باﮨر تشرﯾف الئﮯ ميﮟ )حضرت ميمونہ رضی ﷲ عنﮩا( نﮯ عرض کيا ﯾا‬ ‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم آپ نﮯ وضو والی جگہ تين مرتبہ لبيک ) ميﮟ مدد‬ ‫کيلئﮯ حاضر ﮨوں( اور تين مرتبہ نصرت)تمﮩاری مدد کی گئی( فرماتﮯ سنا جيسﮯ آپ‬ ‫کسی سﮯ گفتگو فرما رﮨﮯ ﮨيﮟ۔ کيا وضو خانﮯ ميﮟ کوئی آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ‬ ‫وسلم کﮯ ساتھ کوئی تھا )تو( آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ فرماﯾا ﯾہ بنو کعب‬ ‫کارجز خواں ﮨﮯ جو مجھﮯ امداد و استعانت کيلئﮯ ) دور سﮯ( پکار رﮨا تھا اور اس کا‬ ‫کﮩنا ﮨﮯ کہ قرﯾش نﮯ ان کﮯ خالف بنو بکر کی امداد کی ﮨﮯ۔ )تا(‬ ‫قالت ميمونہ رضی ﷲ عنھا فاقمنا ثالثا ثم صلیٰ بالناس صبح اليوم الثالث مسمعت‬ ‫الراجز ﯾنشده ﯾا رب انی ناشد محمدا حلف ابينا ربيعہ االتلوا )الی( و جعلوا لی فی‬

‫کداءرصدا و زعموان لست ادعواحدا فانصر ھداک ﷲ نصرا ابدا و اداع عبادﷲ ﯾوتوا مدد‬ ‫افيھم رسول ﷲ قد تحردا ان خسفا وجھہ تربدا۔‬ ‫”حضرت ميمونہ رضی ﷲ عنﮩا فرماتی ﮨيﮟ کہ ﮨم تين ﭨھﮩرے اور تيسرے دن آپ نﮯ‬ ‫لوگونکو صبح کی نما ز پﮍھائی تو ميﮟ نﮯ رجزخوان کو آپ کﮯ سامنﮯ ﯾہ اشعار پﮍھتﮯ‬ ‫سنا۔ اے ميرے رب ميﮟ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کو بالنﮯ واال ﮨوں جبکہ‬ ‫ﮨمارے باپ اور آپ کﮯ باپ کﮯ درميان اور ﮨمارے درميان عﮩد قدﯾم سﮯ باﮨمی دوستی‬ ‫اور امداد و اعانث کا معاﮨده چال آ رﮨا ﮨﮯ۔ )تا( اور بنو بکر نﮯ ميرے کداء)مکہ مکرمہ کی‬ ‫قرﯾبی پﮩاڑ( ميﮟ نگران اور پﮩرے دار مقرر کر رکھﮯ تھﮯ اور انﮩوں نﮯ ﯾہ باطل خيال کيا‬ ‫کہ ميﮟ کسی کو نﮩيﮟ پکاروں گا۔پس مدد فرمائيﮯ دائمی اور نہ ختم ﮨونﮯ والی مدد‬ ‫ﷲ تعالیٰ آپ کو ﮨداﯾت پر ثابت قدم رکھﮯ اور ﷲ تعالیٰ کﮯ بندوں کو بھی بالئيﮯ کہ‬ ‫وه معاون و مدد گار بن کر آئيﮟ ) اور صرف سرﯾہ کو روانہ نہ کرنا بلکہ ( ﷲ کﮯ رسول‬ ‫خود اس لشکر ميﮟ ﮨوں درآنحاليکہ وه ﮨم پر ظلم کرنﮯ والوں پر غضبناک ﮨوں۔ اگر ان کو‬ ‫اپنی ذات اور حليفوں کﮯ بارے ميﮟ مشقت کا سامنا کرنا پﮍے تو غيض و غضب کا‬ ‫مظاﮨره کرتﮯ ﮨيﮟ ) وکذانقلہ عالمہ ابن حجر عسقالنی فی االصابہ جلد ‪ 2‬ص ‪، 535‬‬ ‫طبرانی صغير ‪ ،201‬طبرانی کبير‪ ،‬مواھب لدنيہ ج ا۔ زرقانی شرح مواﮨب‪ ،‬مدارج النبوة ج‬ ‫‪ 2‬مختصر سيرة الرسول عبدﷲ بن محمد بن عبدالوﮨاب نجدی(‬ ‫اس رواﯾت سﮯ صحابی رسول صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کا تين دن کی مسافت بلکہ‬ ‫مکہ مکرمہ کﮯ قرب و جواب سﮯ نبی مشکل کشاءسﮯ استغاثہ کرنا اور امداد و‬ ‫اعانت کيلئﮯ پکارنا اورآپ کا سننا اور جواب دﯾنا اور نصرت و امداد اور غلبہ و کاميابی‬ ‫کی بشارت دﯾنا ثابت ﮨو گيا۔‬ ‫اس حدﯾث سﮯ معلوم ﮨوا کہ حضرت عمرو بن سالم خزاعی رضی ﷲ عنہ نﮯ صرف‬ ‫دل ميﮟ خيال کيا تھا اور آپ کو معلوم بھی ﮨو گيا اور آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ‬ ‫لبيک لبيک اور نصرت فرمانا شروع کر دﯾا تو اس سﮯ مدعا اولوﯾت کﮯ طور پر ثابت ﮨو‬ ‫جائﮯ گا کہ فرﯾادی ابھی فرﯾاد کرتاﮨی نﮩيﮟ صرف دل ميﮟ خيال کرتا ﮨﮯ اور اراده کرتا‬ ‫ﮨﮯ مگر اس رحمت مجسم صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کو فوراً پتہ بھی چل جاتا ﮨﮯ اور‬ ‫اغاثہ و فرﯾاد رسی پر آماده اور کمر بستہ بھی ﮨو جاتﮯ ﮨيﮟ ﯾا صرف اپنﮯ ساتھيوں‬ ‫سﮯ اس بارے ميﮟ صالح و مشوره کرتا ﮨﮯ اور پروگرام بناتا ﮨﮯ مگر ادھر سﮯ اجابت‬ ‫پﮩلﮯ ﮨی پائی جاتی ﮨﮯ۔‬

‫سوال ‪ :6‬انسان کی پيدائش سﮯ ليکر موت تک چھوﭨی بﮍی‬ ‫تمام مشکالت کا سامنا ﮨوتا ﮨﮯ اگر وه تمام مشکالت ﷲ‬ ‫تعالیٰ حل کر سکتا ﮨﮯ تو پھر غير کی طرف رجوع کی کيا‬ ‫ضرورت ﮨﮯ؟ اور اگر غير ﷲ ان تمام مشکالت کو حل کرنﮯ پر‬ ‫قادر ﮨﮯ تو پھر ﷲ کی کيا حاجب۔‬ ‫جواب‪:‬‬ ‫ﯾہ اعتراض تو اﯾسا ﮨﮯ جس سﮯ خود ﷲ تبارک و تعالیٰ ‪ ،‬انبياءکرام‪ ،‬اولياءعظام بلکہ‬ ‫خود اسکی اپنی ذات پر بھی اعتراض وارد ﮨوتا ﮨﮯ۔ معاذ ﷲ عزوجل۔‬ ‫قرآن پاک ميﮟ ﮨﮯ کہ ” جبکہ تم اپنﮯ رب تعالیٰ سﮯ مدد طلب کرتﮯ تھﮯ پس اس نﮯ‬ ‫تمﮩاری فرﯾاد رسی فرمائی کہ ميﮟ تمﮩاری مدد کرنﮯ واال ﮨوں اﯾک ﮨزار فرشتہ کﮯ‬ ‫ساتھ جو لگ تار آنﮯ والﮯ ﮨيﮟ۔ )انفال آﯾت ‪(9‬‬

‫اﯾک اور جگہ ارشاد پاک ﮨﮯ‪:‬‬ ‫کيا تمﮩيﮟ کفاﯾت نﮩيﮟ کرے گا ﯾہ امر کہ پروردگار تمﮩاری امداد کرے تين ﮨزار مالئکہ‬ ‫کﮯ ذرﯾعﮯ )آل عمران ‪(125‬‬ ‫معلوم ﮨوا کہ ﷲ بھی مدد کر سکتا ﮨﮯ ليکن اس نﮯ فرشتوں کو ذرﯾعہ بناﯾا ﮨﮯ ليکن‬ ‫نہ تو نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم اورنہ کسی صحابی نﮯ کﮩا کہ ” اے ﷲ‬ ‫تبارک و تعالیٰ خود مدد و مشکل کشائی فرما سکتا ﮨﮯ تو فرشتونکی کيا حاجت۔ اور‬ ‫اگر فرشتﮯ مدد کر سکتﮯ تھﮯ تو پھر ﷲ کی کيا حاجت۔ بلکہ فرشتوں کی مدد ﷲ‬ ‫عزوجل ﮨی کی مدد ﮨﮯ۔ اسی طرح ﷲ عزوجل تخت بلقيس کو فوراً ال سکتا تھا ليکن‬ ‫حضرت سليمان عليہ السالم نﮯ اپنﮯ امتيوں کو النﮯ کا حکم دﯾا ۔ سائل کﮯ مطابق‬ ‫تو حضرت سليمان عليہ السالم پر بھی اعتراض وارد ﮨوتا ﮨﮯ کہ جب ﯾہ کام ﷲ کر‬ ‫سکتا تھا جومافوق االسباب بھی ﮨﮯ تو انﮩوں نﮯ ولی ﷲ سﮯ کرنﮯ کا کيوں کﮩا اور‬ ‫سائل ﮨميﮟ بتائيﮯ گا کہ حضرت سليمان جب اس ولی سﮯ ﯾہ کام کروا رﮨﮯ تھﮯ تو‬ ‫ﷲ عزو جل کی ذات سﮯ بﮯ نياز ﮨو گئﮯ تھﮯ۔ ﮨر گز نﮩيﮟ بلکہ فرماﯾا ” ﯾہ ﷲ کﮯ‬ ‫فضل سﮯ ﮨﮯ“ ﯾعنی اولياءﷲ کی ان طاقتوں کو ﷲ عزو جل کی عطاءو فضل قرار دﯾا۔‬ ‫ﷲ عزو جل مردے زنده کرسکتا ﮨﮯ۔ اندھوں کو بينا کر سکتا ﮨﮯ ليکن ﯾہ سب کچھ اس‬ ‫نﮯ حضرت موسیٰ عليہ السالم کﮯ ﮨاتھوں صادر فرماﯾا۔ تو کيا سائل ﯾہ کﮩﮯ گاکہ ان‬ ‫کاموں ميﮟ ﷲ عزو جل کی طرف رجوع کرنﮯ کی کيا ضرورت ﮨﮯ۔ اور جب ﷲ عزوجل‬ ‫ﯾہ سب کر سکتا تھا تو پھر حضرت عيسیٰ عليہ السالم کی طرف رجوع کرنﮯ کی کيا‬ ‫ضرورت ﮨﮯ۔ اور حضرت عيسیٰ عليہ السالم کی طرف رجوع کرنا باطل ﯾا کفرو شرک‬ ‫ﭨھﮩرا۔ معاذ ﷲ۔‬ ‫اسی طرح صحابہ کرام ﮨزاروں مشکالت و مصائب ميﮟ نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ‬ ‫وسلم کی بارگاه ميﮟ حاضر ﮨوتﮯ ليکن کسی نﮯ ﯾہ نﮩيﮟ کﮩا کہ ﯾہ سب کچھ ﷲ‬ ‫عزوجل کرسکتا ﮨﮯ تو نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کی طرف رجوع کرنﮯ کی‬ ‫کيا ضرورت۔‬ ‫ﮨم سائل سﮯ پوچھتﮯ ﮨيﮟ کہ ﷲ عزوجل نﮯ بغير عورت کﮯ انسان اول حضرت آدم‬ ‫عليہ السالم کو دپيدا کيا کہ نﮩيﮟ اور بغير باپ کﮯ حضرت عيسیٰ عليہ السالم کو پيدا‬ ‫فرماﯾا کہ نﮩيﮟ تو پھر جب ﷲ عزوجل اس پر قادر ﮨﮯ تو کيا ضرورت ﮨﮯ مرد و عورت ﷲ‬ ‫عزوجل کو چھوڑ)بقول سائل کﮯ( اﯾک دوسرے سﮯ رجوع کرتﮯ ﮨيﮟ اس اميد پر کہ ان‬ ‫کﮯ رجوع کرنﮯ ﮨی سﮯ اوالد پيدا ﮨو گی جبکہ ﷲ عزوجل نطفہ کﮯ بغير بھی اوالد‬ ‫عطا فرمانﮯ پر قادر ﮨﮯ۔‬ ‫سائل کی پيدائش سﮯ پﮩلﮯ اس کی والده نﮯ اس کﮯ والد کی طرف رجوع کيا جو‬ ‫غير ﷲ ﮨﮯ‪ ،‬پھر سائل نﮯ شکم مادر ميﮟ پرورش پانﮯ کﮯ لئﮯ خون حيض کی طرف‬ ‫رجوع کيا جو غير ﷲ ﮨﮯ‪ ،‬پھر سائل کی پيدائش کﮯ وقت اس کی والده نﮯ ليﮉی‬ ‫ڈاکﭩر کی طرف رجوع کيا جو غير ﷲ ﮨﮯ‪ ،‬پھر سائل نﮯ دو سال تک شير مادر کی‬ ‫طرف رجوع کيا جو غير ﷲ ﮨﮯ‪ ،‬پھر آج تک سائل نﮯ کھانﮯ پينﮯ‪ ،‬رﮨنﮯ سﮩنﮯ‪،‬‬ ‫پﮍھنﮯ‪ ،‬اوڑھنﮯ کﮯ سلسلہ ميﮟ‪ ،‬عالج معالجہ‪ ،‬وغيره الکھوں مرتبہ غير ﷲ کی طرف‬ ‫رجوع کيا پھر سائل جب مر جائﮯ گا تو غسال اور گورگن کی طرف‪ ،‬کفن پﮩنانﮯ ‪،‬‬ ‫الشہ اﭨھانﮯ ‪ ،‬دفنانﮯ والوں کی طرف رجوع کرے گا تو غير ﷲ ﮨيﮟ۔‬ ‫سائل ﮨميﮟ صرف اتنا بتائﮯ کہ قرآن مجيد ميﮟ واضح ارشاد موجود ﮨﮯ کہ بيماری اور‬ ‫شفا صرف ﷲ کی ﮨی طرف سﮯ ﮨﮯ۔ تو کيا آج تک اس نﮯ اس ارشاد ربانی پر عمل‬ ‫کيا ﮨﮯ۔ مثال ً کسی مرﯾض کو ﮨارٹ اﭨيک ﮨوگيا ﮨو تو اسﮯ فوراً ڈاکﭩر کﮯ پاس لﮯ کر‬ ‫کيوں دوڑتﮯ ﮨيﮟ جبکہ ﯾہ واضح ﮨﮯ کہ اگر ﷲ نﮯ اس کی زندگی ابھی لکھی ﮨﮯ تو‬ ‫کوئی اسﮯ مار نﮩيﮟ سکتا اور اگر اس کﮯ مقدر ميﮟ موت ﮨﮯ تو ڈاکﭩر بھی اسﮯ بچا‬ ‫نﮩيﮟ سکتﮯ۔ پھر ڈاکﭩر کی طرف رجوع کﮯ کيا معنی۔‬

‫آپ کو تو شائد اتنا بھی معلوم نﮩيﮟ کہ ﷲ تعالیٰ ﮨر چيز کا خالق ﮨﮯ‪ ،‬اسباب کا بھی‪،‬‬ ‫مسبباب کا بھی‪ ،‬اس لئﮯ اس کی طرف ﮨر اﯾک کو ﮨر وقت احتياج رﮨتی ﮨﮯ اور اس نﮯ‬ ‫اپنی حکمت سﮯ اﯾک مخلوق کو دوسری کا محتاج بنا کر پيدا فرماﯾا ﮨﮯ۔ اس لئﮯ غير‬ ‫کی طرف رجوع کی بھی ضرورت رﮨتی ﮨﮯ جو در حقيقت اُسی کی طرف رجوع ﮨﮯ‬ ‫کيونکہ اسی نﮯ ﯾہ سلسلہ اسی طرح جاری فرماﯾا۔ )جل جاللہ(‬ ‫ليکن اصل مسئلہ ﯾہ ﮨﮯ کہ سائل ﯾہ سمجھتا ﮨﮯ کہ ﷲ عزوجل اور انبياءو اولياءکی‬ ‫امداد و استعانت اﯾک دوسرے کی ضدو مخالف ﮨيﮟ معاذﷲ۔ ليکن ﷲ عزوجل فرماتا ﮨﮯ‬ ‫کہ ” انما وليکم ﷲ و رسولہ و الذﯾن امنوا“ بيشک ﷲ تعالیٰ‪ ،‬رسول اور اولياء تمﮩارے‬ ‫مدد گار ﮨيﮟ۔ )المائده ‪ (55‬معلوم ﮨوا کہ ﷲ عزوجل کی کارسازی باال صالت ﮨﮯ اور‬ ‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم اور اولياءکا مددگار ﮨونا بالنيابت ﮨﮯ۔ آﯾت مبارکہ‬ ‫ميﮟ ترتيب اس پر شاﮨد ﮨﮯ لﮩذا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم اور اولياءﷲ کی‬ ‫مشکل کشائی‪ ،‬کار سازی غير خدا کی کارسازی نﮩيﮟ بلکہ ﷲ ﮨی کی کارسازی و‬ ‫مشکل کشائی ﮨﮯ۔ پس جس طرح نبی کی اطاعت ﷲ کی اطاعت‪ ،‬نبی کا دﯾنا ﷲ‬ ‫کا دﯾنا‪ ،‬نبی کا مارنا ﷲ کا مارنا‪ ،‬نبی کا ﮨاتھ ﷲ عزو جل کا ﮨاتھ ﮨﮯ تو اسی طرح نبی‬ ‫پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم اور اولياءکرام کی امداد و استعانث بھی ﷲ عزو جل‬ ‫ﮨی امداد و استعانت ﮨﮯ۔‬

‫سوال نمبر‪ :7‬اگر غير ﷲ مشکل کشاءتمام مشکالت حل‬ ‫کرنﮯ پر قادر نﮩيﮟ تو ﮨو سکتا ﮨﮯ کہ کچھ مشکالت حل کرنﮯ‬ ‫کا بيﮍا خدا نﮯ اﭨھاﯾا ﮨو اور کچھ مشکالت حل کرنﮯ کﮯ‬ ‫اختيارات کسی غير کو دے رکھﮯ ﮨوں اﯾسی صورت ميﮟ تو‬ ‫ﮨمارے پاس فﮩرست ﮨونی چاﮨئﮯ کہ کون سی مشکالت خدا‬ ‫حل کرنﮯ پر قادر ﮨﮯ اور کون سی مشکالت غير ﷲ حل کرنﮯ‬ ‫پر قادر ﮨﮯ تاکہ اس کﮯ مطابق سائل اپنی مشکل پيش کر‬ ‫سکﮯ۔‬ ‫جواب‪:‬‬ ‫اول تو اس کا جواب سوال نمبر‪ 6‬کﮯ تحت آﯾت مبارکہ ”انما وليکم ﷲ و رسولہ و الذﯾن‬ ‫آمنوا“ کﮯ تحت ﮨو چکا۔ جس سﮯ ﯾہ ثابت ﮨو گيا کہ انبياءو اولياءکرام کی مشکل‬ ‫کشائی اصل ميﮟ ﷲ تبارک و تعالیٰ ﮨی کی مشکل کشائی ﮨﮯ نہ کہ عليحده‬ ‫عليحده۔ سائل کا سوال تو تب قابل قبول ﮨوتا جب ان دونوں ميﮟ مخالفت پائی جاتی۔‬ ‫ﮨم سائل سﮯ پوچھتﮯ ﮨيﮟ کہ‪:‬‬ ‫کيا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کی اطاعت ﷲ کی اطاعت نﮩيﮟ ﮨﮯ۔‬ ‫کيا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کا غنی کرنا ﷲ کا غنی کرنا نﮩيﮟ ﮨﮯ۔‬ ‫کيا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کا دﯾنا ﷲ کا دﯾنا نﮩيﮟ ﮨﮯ۔‬ ‫کيا فرشتوں کی امداد ﷲ کی امداد مشکل کشائی نﮩيﮟ ﮨﮯ۔‬ ‫ﮨر مشکل کو حقيقت ميﮟ ﷲ تعالیٰ ﮨی حل فرماتا ﮨﮯ۔ اس نﮯ اپنی حکمت بالغہ کی‬ ‫بنا پر مخلوقات کی حل مشکالت کﮯ لئﮯ صرف ذرﯾعہ اور وسيلہ بناﯾا ﮨوا ﮨﮯ۔ بھوک‬ ‫پياس بيماری کی مشکالت کو ﷲ تعالیٰ ﮨی حل فرماتا ﮨﮯ مگر اس نﮯ روﭨی پانی‬ ‫دوائی کو اس کﮯ حل کا ذرﯾعہ بناﯾا ﮨواﮨﮯ‪ ،‬سائل بھی قبض دور کرنﮯ والی دوائی کو‬

‫قبض کشا )دوسرے لفظوں ميﮟ مشکل کشا( ﮨی کﮩتا ﮨﮯ۔ ﯾونﮩی کفر و شرک‪ ،‬جﮩل و‬ ‫ی ﮨی دور فرماتا ﮨﮯ مگر اس نﮯ انبياءو مرسلين و‬ ‫ضالل کی مشکالت کو ﷲ تعال ٰ‬ ‫اولياءو کاملين ‪ ،‬علماءربانين )عليﮩم السالم و رضی ﷲ عنﮩم( کو ان مشکالت کﮯ حل‬ ‫کا وسيلہ ارشاد فرماﯾا ﮨوا ﮨﮯ‪ ،‬اسی طرح عذاب دنيا ﮨو ﯾا عذاب آخرت‪ ،‬عذاب نار ﮨو ﯾا‬ ‫عذاب زمﮩرﯾر سب کو خدا تعالیٰ ﮨی دور فرماتا ﮨﮯ مگر اس نﮯ ان عذابوں اور مشکلوں‬ ‫سﮯ چھﭩکارا پانﮯ کﮯ لئﮯ مقبولين کی شفاعت کو وسيلہ قرار دﯾا ﮨوا ﮨﮯ۔‬ ‫تمام مشکالت و مصائب ميﮟ بہ ذرﯾعہ واسطہ )وسيلہ( ﮨيﮟ حقيقی متصرف ومدبر‬ ‫مالک حقيقی ﮨی ﮨﮯ۔ اور دنيا ميﮟ کوئی بھی بﮍا چھوﭨا کام نﮩيﮟ جس ميﮟ ﷲ عزو‬ ‫جل نﮯ ذرﯾعہ و وسيلہ نہ بناﯾا ﮨو بھوک ميﮟ روﭨی‪ ،‬پياس ميﮟ پانی‪ ،‬بارش کﮯ لئﮯ‬ ‫فرشتﮯ‪ ،‬ﮨوا کيلئﮯ فرشتﮯ‪ ،‬موت کيلئﮯ فرشتﮯ‪ ،‬ﮨداﯾت کيلئﮯ انبياء اولياءکرام‪ ،‬اوالد‬ ‫کيلئﮯ ماں باپ‪ ،‬بيماری کيلئﮯ ادوﯾات‪ ،‬عذاب و حساب کيلئﮯ فرشتﮯ‪ ،‬امداد و‬ ‫استعمداد کيلئﮯ فرشتﮯ‪ ،‬روشنی کيلئﮯ سورج چاند ستارے‪ ،‬حتی کہ بروز قيامت‬ ‫بھی مشکالت سﮯ چھﭩکارا پانﮯ کيلئﮯ مقبولين کی شفاعت کا وسيلہ الزمی ﮨوگا۔‬ ‫معلوم ﮨوا کہ کوئی مشکل اﯾسی نﮩيﮟ جسﮯ ﷲ عزوجل حل نہ فرما سکتا ﮨو ليکن‬ ‫کوئی کام بھی اﯾسا نﮩيﮟ جسﮯ بغير وسيلہ کﮯ حل کرتا ﮨو۔‬ ‫ليکن سائل باﮨوش و حواس سنﮯ کہ خواه اسباب ظاﮨر ﮨوں ﯾا باطنی ﮨوں ﯾا روحانی‪،‬‬ ‫دوائيﮟ ﮨوں ﯾا غذائيﮟ حکيم ‪ ،‬ڈاکﭩر ﮨوں ﯾا حکام و امراءاور انبياءو رسل ﮨوں ﯾا اولياءو‬ ‫اصفياءﯾہ سب حقيقی موثر اور حقيقی مدبر و متصرف نﮩيﮟ۔ حقيقی موثر و متصرف‬ ‫صرف ﷲ تعالیٰ ﮨﮯ اور باقی سب کﮯ امر اور اذن سﮯ ﮨی تاثير کرتﮯ ﮨيﮟ لﮩذا‬ ‫معمولی سﮯ معمولی دنيوی چيز کی طلب ميﮟ بھی اگر نظر ﷲ کی عطا اور منع‬ ‫سﮯ ﮨﭧ جائﮯ اور صرف بندے پر نظر رﮨﮯ تو ﯾہ شرک ﮨﮯ اور بﮍی سﮯ بﮍی نعمت کی‬ ‫عطا ميﮟ اگر نظر ﷲ تعالیٰ کی ذات پر رﮨﮯ اور غير کو صرف عطاءباری ميﮟ واسطہ‬ ‫سمجھ ليا جائﮯ تو ﯾہ کفرو شرک نﮩيﮟ ﮨﮯ۔ جيسا کہ حضرت عيسیٰ عليہ السالم کا‬ ‫مردے زنده کرنا‪ ،‬اندھوں کو بينا کرنا خود سائل بھی تسليم کرتا ﮨﮯ تو کيا ان کا زنده‬ ‫کرنا ﷲ عزوجل ﮨی کا زنده کرنا نﮩيﮟ۔ اور کيابغير اذن الﮩیٰ اﯾسا کرتﮯ تھﮯ۔ اور ان کی‬ ‫اور ﷲ عزوجل کی سائل کﮯ نزدﯾک عليحده عليحده فﮩرست ﮨﮯ۔ ﮨر گز نﮩيﮟ۔ کيا‬ ‫سائل بھوک ميﮟ روﭨی کی طرف‪ ،‬خطرے ميﮟ پوليس کی طرف‪ ،‬بيماری ميﮟ حکيم‬ ‫کی طرف رجوع نﮩيﮟ کرتا تو کيا ان کاموں کو ﷲ عزوجل کی قدرت )ﯾا فﮩرست( سﮯ‬ ‫خارج تسليم کرتا ﮨﮯ۔ کيا ﯾہ سب باوجود ظاﮨری اسباب کہ باذن الﮩی موثر ﮨيﮟ اور ان‬ ‫سب کی طرف رجوع کرنا ﷲ ﮨی کی طرف رجوع کرنا ﮨﮯ کيونکہ اسی نﮯ ان کو موثر‬ ‫بناﯾا ﯾا )سائل کﮯ نزدﯾک( بذات خود حقيقی طور پر ﯾہ موثر ﮨيﮟ۔ شق دوم تو خالص‬ ‫شرک اور شق اول کا انکار سائل ﮨر گز نﮩيﮟ کر سکتا۔‬ ‫سومعلوم ﮨوا کہ کوئی مشکل اﯾسی نﮩيﮟ جسﮯ ﷲ تعالیٰ حل نہ فرماتا ﮨو اور کوئی‬ ‫نبی ولی اﯾسﮯ نﮩيﮟ جنﮩيﮟ حل مشکالت کا ذرﯾعہ نہ بناﯾا گيا ﮨو۔‬

‫الزامی سوال‬ ‫سائل ﮨميﮟ اﯾسی فﮩرست مﮩيا کرے جس ميﮟ ﷲ عزوجل‬ ‫بغير ذرﯾعہ‬ ‫)ڈائرﯾکﭧ( مخلوقات کو نوازتا ﯾا عطا کرتا ﮨو۔‬

‫اور اگر ﷲ عزوجل کی قدرت ﯾہ ﮨﮯ کہ وه کسی نہ کسی ذرﯾعﮯ سﮯ ﮨی عطا فرماتا‬ ‫ﮨﮯ تو کيا اس جودو کرم ﯾا عطا کو ﷲ کی قدرت )فﮩرست( ميﮟ شامل کرﯾﮟ گﮯ ﯾا‬ ‫اس ذرﯾعہ )مخلوق( کی فﮩرست ميﮟ۔‬ ‫اگر سائل کﮯ نزدﯾک مخلوقات )جو ذرﯾعہ و وسيلہ ﮨيﮟ ان کا( عطا کرنا ﯾا کچھ دﯾنا ﷲ‬ ‫عزوجل ﮨی کا دﯾنا اورﷲ ﮨی کی فﮩرست ميﮟ داخل ﮨﮯ تو پھر انبياءو اولياءکرام )جو‬ ‫ذرﯾعہ و وسيلہ ﮨيﮟ ان کا( عطا کرنا خدا کی فﮩرست سﮯ خارج ﮨو کر عليحده فﮩرست‬ ‫کيوں ﮨو گی۔‬ ‫وجہ فرق بيان کرنا سائل کﮯ ذمہ ﮨﮯ۔‬ ‫سائل کﮯ نزدﯾک بچوں کی پرورش و حفاظت ماں باپ کی فﮩرست‪ ،‬خطره ميﮟ‬ ‫حفاظت و امداد پوليس و حکماءکی فﮩرست‪ ،‬عالج ميﮟ تندرستی ادوﯾات کی فﮩرست‬ ‫ميﮟ شامل ﮨيﮟ۔ کيا مخلوقات کﮯ صدور کی وجہ سﮯ ﯾہ تمام کام مخلوقات کی‬ ‫فﮩرست ميﮟ داخل ﮨيﮟ خدا کی۔‬ ‫پس جب ﯾﮩاں سائل عليحده عليحده فﮩرست کی حجت بازی نﮩيﮟ کرتا اور ﯾقينا ﯾہ‬ ‫تسليم کرتا ﮨﮯ کہ بﮯ شمار کاموں ميﮟ ﯾہ تمام مخلوقات محض ذرﯾعہ وسيلہ ﮨيﮟ تو‬ ‫پھر انبياءو اولياءکﮯ معاملﮯ ميﮟ ان تمام باتوں سﮯ آنکھيﮟ بند کرکﮯ اﯾسا فضول‬ ‫اعتراض کرنا صرف انبياءو اولياءکرام کﮯ فضائل و کماالت کا انکار کرنﮯ کﮯ سوا کچھ‬ ‫نﮩيﮟ۔‬

‫سوال نمبر‪ :8‬کيا خدا کﮯ سوا جو ﮨستی مشکل سﮯ نکال‬ ‫سکتی ﮨﮯ وه مشکل ميﮟ ڈال بھی سکتی ﮨﮯ ﯾا اس کی‬ ‫ڈﯾوﭨی صرف حل کرنﮯ پر ﮨﮯ؟ اگر وه مشکل حل کر سکتی‬ ‫ﮨﮯ تو پھر ڈالنﮯ واال کون ﮨﮯ۔‬ ‫جواب‪:‬‬ ‫پﮩلی بات تو ﯾہ ﮨﮯ ﮨم اﮨل سنت ﮨر شﮯ ميﮟ صرف اور صرف ﷲ تعالیٰ کو موثر حقيقی‬ ‫مانتﮯ ﮨيﮟ نہ آنکھ کو دﯾکھنﮯ ميﮟ موثر۔ نہ کان کو سننﮯ ميﮟ موثر نہ پانی پياس‬ ‫بجھانﮯ ميﮟ موثر نہ روﭨی بھوک مﭩانﮯ ميﮟ موثر نہ آگ جالنﮯ ميﮟ موثر بلکہ ان تمام‬ ‫امور ميﮟ موثر حقيقی صرف ﷲ تعالیٰ ﮨﮯ۔ تمام کاموں کا حقيقی متصرف و مدبر صرف‬ ‫اور صرف ﷲ عزوجل ﮨﮯ اگر اس کا اذن ﮨو گا تو نفع ‪ ،‬کاميابی ﯾا مشکل کشائی ﮨو گی‬ ‫اور اگر اس کا اذن نﮩيﮟ ﮨو گا تو ﮨر گز ﮨر گز کوئی کچھ نﮩيﮟ کرسکتا۔ پس جس طرح‬ ‫انبياءو اولياءکﮯ ذرﯾعہ مشکل کشائی ممکن ﮨﮯ اسی طرح ان کﮯ ذرﯾعہ مصائب و‬ ‫مشکالت ميﮟ مبتال کرنا بھی ممکن ﮨﮯ۔‬ ‫دﯾکھئﮯ حضرت موسیٰ عليہ السالم کا عصاءسانپ بن کر جادو گروں کيلئﮯ مصيبت بن‬ ‫گيا اور وﮨی عصاءمومنين کيلئﮯ ان جادوگروں سﮯ نجات )مشکل کشائی( کا ذرﯾعہ‬ ‫بھی بن گيا ۔‬ ‫اسی طرح ميدان بدر ميﮟ اور غزوه حنين ميﮟ کفار کی طرف مﭩھی بھر مﭩی پھينک کر‬ ‫نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نﮯ انﮩيﮟ سخت مشکل ميﮟ مبتال کرکﮯ پسپائی‬ ‫پر مجبور کر دﯾا اور ان کو شکست سﮯ دو چار کر کﮯ اﮨل اسالم کو فتح اور کاميابی‬ ‫اورغلبہ و کامرانی سﮯ بﮩره ور فرماﯾا۔‬ ‫حضرت عمر فاروق نﮯ حضرت سارﯾہ کو آواز دﯾکر جﮩاں مشکل کشائی فرمائی وﮨيﮟ‬ ‫اﮨل کفار کيلئﮯ ان کی ﯾہ آواز )امداد( شکست و مصيبت کا ذرﯾعہ بھی بنی۔ ليکن ﯾہ‬

‫ذرﯾعﮯ و سبب بنﮯ حقيقت ميﮟ تو مشکالت ميﮟ ڈالنا اور نکالنا ﷲ عزوجل ﮨی کا کام‬ ‫علی ذالک(‬ ‫ﮨﮯ۔ )فالحمد‬

‫سوال ‪ :9‬باآلخر نتيجہ ﯾہ نکلﮯ گا کہ خدا تعالیٰ مشکالت ميﮟ‬ ‫ڈالنﮯ واال ﮨﮯ اور غير ﷲ مشکل حل کرنﮯ واال۔ بالفرض اﯾک‬ ‫ﮨستی مشکل ڈالنﮯ پر مصر ﮨﮯ اور دوسری حل کرنﮯ پر تو‬ ‫دونوں ميﮟ سﮯ کون سی ﮨستی اپنا فيصلہ واپس لﮯ گی۔‬ ‫جواب‪:‬‬ ‫ﯾہ تقسيم سائل کا اپنا اختراع ﮨﮯ اس کا نہ کوئی مسلمان قائل ﮨﮯ اور نہ کارخانہ‬ ‫قدرت ميﮟ اس کی کوئی گنجائش۔ دوسرا ﮨم انبياءو اولياءکرام کﮯ باذن الﮩی اختيارات‬ ‫و تصرفات کﮯ قائل ﮨيﮟ اور جب ان کو طاقتيﮟ و قوتيﮟ ﮨيﮟ ﮨی ﷲ عزوجل کی طاقتيﮟ و‬ ‫قوتيﮟ تو پھر مخالفت کيسی۔ اور کوئی نبی ﯾا ولی ﷲ عزو جل کﮯ مقابلﮯ پر کوئی‬ ‫ادنیٰ سا فعل بھی انجام نﮩيﮟ دﯾتا۔ لﮩذا سائل کا ﯾہ سوال ﮨی باطل ﮨﮯ۔ پﮩلﮯ تو‬ ‫سائل کﮯ ذمہ ﯾہ بات ﮨﮯ کہ وه اﯾسا ثبوت قرآن وحدﯾث سﮯ پيش کرے جس ميﮟ ﷲ‬ ‫عزو جل نﮯ مشکل ميﮟ کسی کو ڈاال ﮨو اور اس کﮯ مقابلﮯ ميﮟ انبياءو اولياءنﮯ‬ ‫مخالفت کی ﮨو ﯾا ﷲ نﮯ مشکل کشائی فرمائی ﮨو اور انبياءو اولياءنﮯ ﷲ کﮯ مقابلﮯ‬ ‫ميﮟ مصيبت ميﮟ مبتال کر دﯾا ﮨوں۔‬ ‫جس طرح آج کل منکر حدﯾث ﯾہ کﮩتﮯ ﮨيﮟ کہ حدﯾث قابل قبول نﮩيﮟ اس لئﮯ کہ ﯾہ‬ ‫قرآن کﮯ مخالف ﮨﮯ بالکل اسی طرح سائل بھی شاﯾد ﯾہ سمجھ بيﭩھا ﮨﮯ کہ ﷲ عزو‬ ‫جل اور انبياءو اولياءکی والﯾت )امداد و استعانت( مخالفت و متضاد ﮨﮯ۔‬

‫اور حيرت ﮨﮯ ان لوگوں پر جواس جاﮨل سوال پر خوش بھی‬ ‫ﮨيﮟ۔‬ ‫سوال نمبر‪ :10‬کسی بھی برگزﯾده ﯾا گنﮩگار ﮨستی کا جنازه‬ ‫پﮍھنا ﮨو تو اس کی بخشش کيلئﮯ ﷲ کو آواز دی جائﮯ گی ﯾا‬ ‫مشکل کشاءکو۔‬ ‫جواب‪:‬‬

‫اس سوال پر تو سائل نﮯ حد ﮨی کر دی کيونکہ استمداد و استعانت اور بخشش کﮯ‬ ‫معاملﮯ الگ الگ ﮨيﮟ۔ سائل ﮨميﮟ ﯾہ تو بتائﮯ کہ مشکل کشائی کﮯ مسئلہ کو‬ ‫بخشش کﮯ مسئلﮯ سﮯ کيا واسطہ۔ مشکل کشائی ‪ ،‬فرﯾاد رسی‪ ،‬حاجت روائی‬ ‫ﷲ عزوجل کی اﯾسی صفت ﮨﮯ جس ميﮟ نيابت جاری ﮨﮯ ۔ﷲ تعالیٰ باالصالت‬ ‫مشکل کشاءفرﯾاد رس اور حاجت روا ﮨﮯ اور انبياءاور اولياءﷲ بالتبع ﮨيﮟ۔ ليکن شان‬ ‫غفاری تو خاصہ خداوندی ﮨﮯ جس ميﮟ نيابت نﮩيﮟ ﷲ تعالیٰ فرماتا ﮨﮯ۔ ” من ﯾغفر‬ ‫الذنوب اال ﷲ“ کون ﮨﮯ گناه بخشنﮯ واال سوائﮯ ﷲ کﮯ۔ لﮩذا جس کام ميﮟ نيابت‬ ‫نﮩيﮟ اس ميﮟ مسلمان اصل ﮨی کو پکارے گا اور جﮩاں نيابت ثابت ﮨﮯ ان ميﮟ نائب کی‬ ‫طرف رجوع کيا جا سکتا ﮨﮯ۔‬ ‫دوسری بات ﯾہ ﮨﮯ کہ بخشش والی ذات تو صرف ﷲ عزوجل ﮨی ﮨﮯ ليکن انبياءو‬

‫اولياءکرام کﮯ وسيلﮯ سﮯ ﷲ تبارک و تعالیٰ خصوصی نظر کرم فرماتا ﮨﮯ۔ جيسا کہ‬ ‫جنازه ميﮟ ﮨی دعا کﮯ بعد نبی پاک صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کی ذات بابرکات پر‬ ‫صلوة و سالم کا وسيلہ پيش کئﮯ بغير نماز جنازه قبول نﮩيﮟ۔ اور سائل کو اتنا بھی‬ ‫معلوم نﮩيﮟ کہ خود نماز جنازه بھی تو غير ﷲ ﮨی کﮯ ذرﯾعﮯ بخشش کی دعا ذرﯾعہ‬ ‫نجات کا سبب ﮨﮯ۔ پس جنازے ميﮟ بھی بخشش و مغضرت کی دعاءو التجا بارگاه‬ ‫خداوندی ميﮟ ﮨی ﮨوتی ﮨﮯ ليکن غير ﷲ )ﯾعنی مسلمانوں( کﮯ ذرﯾعﮯ ﮨی۔‬ ‫نماز جنازه پﮍھنﮯ والﮯ ﯾقين کرليﮟ کہ مشکل کشا عطائی پيارے مصطفی صلی ﷲ‬ ‫عليہ و سلم کا نام لئﮯ بغير اور صلوٰة و سالم کا وسيلہ پيش کئﮯ بغير نہ نماز جنازه‬ ‫قبول ﮨوتی ﮨﮯ اور نہ کوئی مشکل آسان ﮨوتی ﮨﮯ اسی لئﮯ قرآن مجيد نﮯ منافقوں‬ ‫کی نماز جنازه پﮍھنﮯ سﮯ روکا ﮨﮯ۔ )سورة توبہ(‬ ‫) والعياذ با تعالی(‬

‫محترم بھائی آخر ميﮟ اسی ﭨاپک سﮯ متعلق کچھ جواب‬ ‫مجھﮯ بھی درکار ﮨيﮟ۔ اميد ﮨﮯ قرآن و سنت کی روشنی ميﮟ‬ ‫ضرور جواب عناﯾت فرمائيﮟ گﮯ۔‬ ‫معراج مصطفی صلی ﷲ عليہ و سلم پر تمام مکاتب فکر کا اﯾمان ﮨﮯ۔ آپ سﮯ معلوم‬ ‫کرنا ﮨﮯ کہ‬

‫‪1‬معراج کی رات حضور صلی ﷲ عليہ و سلم نﮯ انبياءکو نماز پﮍھائی )کچھ لوگوں‬‫کا عقيده ﮨﮯ کہ نبی ولی مر کر مﭩی ﮨو چکﮯ ﮨيﮟ( تو پھر نبی پاک صلی ﷲ عليہ‬ ‫و سلم نﮯ نماز کيسﮯ پﮍھائی۔‬ ‫‪2‬کون کون سی آﯾات قرآن مجيد کی تالوت فرمائيﮟ۔‬‫‪3‬انبياءعليھم السالم نﮯ حضور صلی ﷲ عليہ و سلم کﮯ پيچھﮯ کھﮍے ﮨو کر نماز‬‫ميﮟ کيا پﮍھا۔‬ ‫‪4‬معراج کی رات جو ﷲ تعالی نﮯ پچاس نمازﯾﮟ فرض کيﮟ۔پچاس ميﮟ سﮯ پانچ‬‫کروانﮯ ميﮟ جو حائل ﮨوتﮯ ﮨيﮟ ان کا نام حضرت موسیٰ عليہ السالم ﮨﮯ۔ چھﭩﮯ‬ ‫آسمان پر ان کی روح تھی ﯾا کہ خود موسیٰ عليہ السالم بمعہ جسم موجود تھﮯ۔‬

‫شکرﯾہ‬ ‫آپ کا بھائی‬ ‫جاوﯾد بھﭩی‬

Related Documents


More Documents from ""

Qurbani Kay Masail
June 2020 6
Rubrik Hubungan Etnik.docx
November 2019 20
Frame Reduction Doc 1.docx
November 2019 20
November 2019 22