Tareekh

  • Uploaded by: ISLAMIC LIBRARY
  • 0
  • 0
  • May 2020
  • PDF

This document was uploaded by user and they confirmed that they have the permission to share it. If you are author or own the copyright of this book, please report to us by using this DMCA report form. Report DMCA


Overview

Download & View Tareekh as PDF for free.

More details

  • Words: 7,226
  • Pages: 10
‫تاریخ ا ہل حدیث پرسرسری نظر‬ ‫ڈاکٹر محمد ب ہاءالدین ‪ ،‬لندن‬ ‫جماعت کی ی ہ دیرین ہ آرزو ر ہی ہی ک ہ جماعت ا ہل حدیث کی درخشند ہ‬ ‫وعظیم تاریخ مربوط ومنظم طورپر منظر عام پر آئی مگرافسوس ک ہ‬ ‫ی ہ کام منظم طور پر انجام ن ہ پاسکا‪ ،‬اگرچ ہ انفرادی طورپر ب ہت سی‬ ‫وقیع وگراں قدر کتابیں اورمقالت منص ہ¿ ش ہود پر آئ ے۔ مقام شکر ہے‬ ‫ک ہ ی ہ کام شروع ہوگیا ہے اور جماعت کی تاریخ مرتب ہور ہی ہے جو‬ ‫دس جلدوں میں مکمل ہوگی ۔مرکزی جمعیت ا ہل حدیث ہند اس کا‬ ‫مقدم ہ اور پ ہلی جلد جلد ہی شائع کرن ے کی سعادت حاصل کرر ہی‬ ‫ہے۔مورخ جماعت علم ہ ڈاکٹر ب ہاءالدین حفظ ہ الل ہ ک ے ی ہ تم ہیدی کلمات‬ ‫ہیں جو مقدم ہ کتاب میں شائع ہوں گ ے ی ہاں پر افاد ہ عام ہ کی غرض‬ ‫س ے شائع کئ ے جار ہے ہیں ۔الل ہ رب العزت والجلل ڈاکٹر صاحب اوران‬ ‫ک ے معاونین خصوصا ً محترم مولنا شیرخاں جمیل احمد عمری حفظ ہم‬ ‫الل ہ کی عمر ایمان‪ ،‬صحت اورعافیت ک ے سات ھ دراز فرمائ ے اوردنیا‬ ‫وآخرت میں اجرجزیل عطا کر ے اورمزید علمی ودینی اور ہرطرح کی‬ ‫ترقیات س ے شاد کام فرمائ ے ۔ان ہ مجیب کریم جواد ۔‬ ‫(اصغر علی امام م ہدی سلفی)‬ ‫بسم اللہ الر حمن الر حیم ۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکر یم‬ ‫جنا ب محمد اسما عیل دہلوی کی ایضا ح الحق کے بعض مضا مین کی تر دید‬ ‫میں احنا ف نے تنوےر الحق کے نام سے اےک کتا ب لکھ کر ‪۱۲۸۰‬ھ میں شا ئع کروا‬ ‫ئی تو جناب محمد حسین بٹالوی نے جو اس وقت دہلی میں میا ںنذ یر حسین محد‬ ‫ث سے حد یث پڑ ھ رہے تھے (میا ں صاحب کی طرف سے جنا ب محمد حسین کو‬ ‫عطا کی ہو ئی سند پر ‪۱۲۸۲‬ھ در ج ہے اور یہ بھی لکھا ہوا ہے ان لہ زیادة صحبة‬ ‫معی ومز ید اختصاص بی علی غیرہ من الطلبة کہ ا نہیں دیگر طلبہ سے یہ خصو‬ ‫صیت مز ید ہے کہ یہ میری صحبت کولزم کئے ہوئے ہیں)نے تنویر الحق کے رد میں‬ ‫ایک کتا ب معیار الحق کے نام سے مر تب کر کے اپنے استاد گرامی کی خد مت‬ ‫میں پیش کی ۔ اس خد مت کا ذکر جنا ب بٹا لوی نے سبیل الر شاد مصنفہ جنا ب‬ ‫رشید احمد گنگو ہی اور ا لرشاد الی سبیل الر شاد مصنفہ جنا ب محمد شاہجہا ن‬ ‫پوری پر ریویو لکھتے ہو ئے اپنے اشاعة السنہ میں بایں الفا ظ کیا ہے ۔ معیار الحق‬ ‫کو خا کسار نے جمع و مر تب کیا اور حضرت شیخنا و شیخ الکل سید نذ یر حسین‬ ‫صاحب دہلوی نے مےری درخواست پر اس میں اصل ح و کمی بیشی کر کے اپنے‬ ‫نام نا می کی طرف اس کو منسو ب کر کے اس کو عزت ‪ ،‬افتخار و اعتبار‬ ‫بخشا ۔ (ما ہنا مہ اشاعة السنة ۔ جلد ‪ ) ۲۰‬۔ جنا ب ثنا ءاللہ امر تسری نے بھی‬ ‫اسی کے لگ بھگ یہ بات لکھی ہے سب سے پہلے جو کتا ب مسا ئل اختل فیہ میں‬ ‫نکلی ہے وہ معیار الحق مصنفہ حضرت میا ں صاحب ہے۔ اس کی تصنیف میں مو ل‬ ‫نا محمد حسین مر حو م کا ر کن بلکہ پورے محرر تھے ۔‬ ‫ہفت روزہ اہل حد یث امر تسر ‪ ۱۹‬۔ اگست ‪۱۹۲۱‬ء) چو نکہ معیار الحق میں دیگر )‬ ‫مو ضوعا ت کے علوہ اہل حد یث کی قدا مت و تاریخ پر بھی محققا نہ بحث ہو ئی‬ ‫ہے ‪ ،‬اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ جنا ب بٹا لوی نے اپنے استاد گرامی کے زیر نگرا نی‬ ‫‪ ،‬ہندوستا ن میں عمل بالحد یث کی تا ریخ کے مو ضوع پر لکھنے کا آغاز ‪۱۸۶۰‬ءکے‬

‫عشرے کے نصف اول میں کر دیا تھا ۔ جناب غلم رسول قلعہ میہا ں سنگھ ضلع گو‬ ‫جرا نوا لہ ( پنجا ب ) نے جنا ب عبد اللہ غزنوی کی تقلید سے عمل بالحد یث کی‬ ‫طرف سفر اور اس سفر میں پیش آ نے وا لی مشکلت کی داستا ن‪ ،‬اور جنا ب‬ ‫غزنوی کے تحصیل علم ‪ ،‬دعوت و ارشاد کی سر گر میو ں کی حکا یت مر تب فر‬ ‫ما ئی جو تا ریخ اہل حد یث کے ایک با ب کی حیثیت اختیار کر گئی۔ جنا ب غلم‬ ‫رسو ل ‪ ۱۲۹۱‬ھ (‪۱۸۷۲‬۔‪۱۸۷۳‬ء ) میں فوت ہو ئے اور یہ کتاب ان کی وفات سے قبل‬ ‫مرتب ہو چکی تھی ۔ اسی کے گردو پیش جنا ب سید صدیق حسن نے تا ریخ اہل‬ ‫حد یث کے مو ضوع پر مختلف عنوانات سے وسیع پیما نے پر لکھا ۔ اور ان کی‬ ‫کتب مثل موا ئد العوا ئد ‪ ،‬ہدا یة السائل ‪ ،‬ترجمان وہا بیہ وغیرہ ‪۱۸۷۰‬ءاور ‪۱۸۸۰‬‬ ‫ءکے عشرو ں میں سا منے آ ئیں ۔ انہی عشرو ں میں عمل بالحد یث کی کیفیت و‬ ‫تا ریخ سے متعلق عنوا نات پر جنا ب ابو سعید محمد حسین بٹالوی بھی اپنے‬ ‫اشاعة السنہ میں لکھتے رہے۔ ان کی تحریر یں اہل حدیث ہند کی تاریخ کے اہم ما‬ ‫خذ کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں ۔ جنا ب شبلی نعما نی نے سیرة النعمان لکھ‬ ‫کر ‪۱۸۹۱‬ءمیں شا ئع کرا ئی تو اس کے جواب میں جنا ب عبد العزیز ر حیم آ بادی‬ ‫نے حسن البیا ن فیما فی سیرة النعما ن تصنیف فرمائی ۔ اس کتا ب میں آ پ نے‬ ‫تا ریخ اہل حد یث کے کئی گو شے نما یا ں کئے۔ شاید انیسویں صدی ہی میں جناب‬ ‫عبد الر حیم کی الدرالمنثور فی تراجم اہل الصادقفو ر سا منے آ ئی جس نے‬ ‫صادق پوری خا ندا ن کی قر با نیو ں کو تا ریخ میں محفو ظ کر دیا‬ ‫ادھر عدا لتو ں میں احنا ف اور عا ملین با لحد یث کے در میا ن مقد مات چلتے‬ ‫رہتے تھے ۔ عمل بالحد یث کی تا ریخ میں ان مقد ما ت کی اہمیت کا اندازہ جنا ب‬ ‫سید محمد علی مونگیری نا ظم ندوة العلماءلکھنﺅ کے در ج ذیل خط سے ہو سکتا‬ ‫ہے جو انہو ں نے ‪ ۱۱‬رمضان ‪۱۳۱۳‬ھ کو جناب احمد ر ضا خا ن بریلوی کے نام لکھا‬ ‫تھا۔ © ذرا غور فر مائےے ! ہماری سختی اور تشدد نے ہمارے فر قے اہل سنت اور‬ ‫بالخصوص احنا ف کو کیسا سخت صد مہ پہو نچا یا ہے ۔ ہندوستا ن میں تقر یبا´‬ ‫تمام اہلسنت حنفی تھے‪ ،‬غیرمقلد کا شا ید نشا ن بھی نہ ہو۔ ابتداءمیں ایک دو‬ ‫شخصو ں کی رائے نے غلطی کی ۔ انہوں نے بعض مسا ئل میں اختل ف کیا ‪ ،‬ہمارے‬ ‫بعض حضرات نے بنظر حما یت حق انہیں مخا طب بنایا اور انہیں رو کا ۔ اگر چہ ان‬ ‫کی نیت خیر تھی ۔ اور اس کا ثوا ب وہ پا ئیں گے ۔ مگر اتنی مد ت کے تجر بہ نے یہ‬ ‫معلو م کرادےا کہ یہ حما یت خلف مصلحت ہو ئی اب اخرا ج عن المسا جد کا‬ ‫فتوی مشتہر ہوا ۔ جب سے ہمارے گروہ کو ذلت کا سا منا ہوا ۔ غیر مسلم حا کمو‬ ‫ں کے روبرو ہم مجرموں کی طر ح پکڑ ے ہو ئے جا تے ہیں ۔ ہمارے دین و ایما ن‬ ‫کی کتا بیں ان کے پیرو ں پر ر کھی ہو تی ہیں ۔ہم اور ہمارے علماءکھڑ ے ہو کر‬ ‫دیکھتے ہیں ۔ اور ہمارے مخا لفین کو ڈگر یا ں ملتی ہیں ۔ افسوس صد افسوس ۔‬ ‫ہمیں اپنے پاک مذ ہب کی اس ذلت پر ذرا نظر نہیں ہو تی ۔ مو ل نا خدا کے لئے‬ ‫غور کیجئے ‪ ،‬اور ہمارے دشمنا ن دین کو ہم پر اور ہمارے پا ک مذ ہب پر ہنسنے کا‬ ‫موقع نہ دیجئے ۔‬ ‫تاریخ ندوة العلماءحصہ اول ص ‪۱۷۲‬۔‪۱۷۳‬۔ ندوة العلماءکا فقہی مسلک ص ‪۸۲‬۔‪) ۸۳‬‬ ‫۔ بحوا لہ مراسلت سنت و ندوہ ص ‪ ۱۶‬بحوا لہ سیر ت مو ل نا محمد علی مونگیری‬ ‫( ص ‪۱۷۲‬‬ ‫ایسے مقد ما ت کے کچھ فیصلو ں کوجنا ب محمد حسین بٹا لوی نے اشاعة السنہ‬ ‫جلد ‪ ۸‬میں ‪ ،‬اور جنا ب احمد حسن شو کت نے شحنہ ہند میرٹھ کے ضمیمہ ‪ ۱۶‬مئی‬

‫‪۱۸۹۷‬ءمیں شا ئع کیا ۔‬ ‫اس کے بعد جناب رشید احمد گنگو ہی کی سبیل الرشا د کے بعض مضا مین کی‬ ‫تردید میں ‪۱۳۱۹‬ھ ( یعنی بیسویںصدی کے پہلے سال ) جنا ب ابو یحی محمد شاہ‬ ‫جہان پوری نے ا لرشاد الی سبیل الر شاد میں اہل حد یث کی قدا مت و تار یخ پر‬ ‫اپنے انداز میں قلم اٹھا یا ۔ ‪۱۹۰۳‬ءمیں جنا ب ثناءاللہ امر تسری نے اہل حد یث کے‬ ‫نام سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا جس نے مسلسل ‪ ۴۳‬سا ل تک عمل با لحد یث‬ ‫کی ترویج میں اہم خد مات سر انجام دے کر خود اپنا نام بھی تا ریخ اہل حد یث کے‬ ‫ایک با ب کی شکل میں رقم کروا لیا۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں جنا ب‬ ‫ثنا ءاللہ کا ایک رسا لہ اہل حد یث کا مذہب کے عنوا ن سے شائع ہوا ۔ جس میں‬ ‫مسا ئل و عبادا ت کے علوہ آ پ نے اہل حد یث کے قدیم فر قہ ہو نے کے مو ضوع‬ ‫پر بھی قلم اٹھا یا ۔ میں نے زیر نظر کتا ب میں اس رسالے سے کئی اقتباسا ت‬ ‫نقل کئے ہیں ۔ اسی عشرے میں تاریخ اہل حد یث سے متعلق جنا ب ثنا ءاللہ امر‬ ‫تسری کی شا ئع کردہ فتوحات اہل حدیث منظر عام پر آ ئی ( جو ان کی اپنی‬ ‫تصنیف نہیں ہے ‪ ،‬بلکہ انہو ں نے بعض عدا لتی فیصلو ں کا انگریزی سے اردو میں‬ ‫تر جمہ کروا کر کتا بی صورت میں شا ئع کیا تھا ) ‪۱۹۰۶‬ءمیں ہندوستا ن کے اہل‬ ‫حد یث حضرا ت کو منظم کر نے کی تحریک اٹھی اور جنا ب ثنا ءاللہ کا اخبار اہل‬ ‫حد یث اور آ رہ بہار کا مد رسہ احمد یہ ان سر گرمیو ں کا مرکز بنے جنا ب ثنا ءاللہ‬ ‫نے ‪ ۵‬۔ اکتو بر ‪۱۹۰۶‬ءکے اہل حدیث امر تسر میں ایک مضمو ن لکھا جس میں تجو‬ ‫یز پیش فر ما ئی کہ اہل حدیث حضرات کو منظم ہو نا چا ہےے اور ان کی ایک مر‬ ‫کزی تنظیم قا ئم کی جا نی چا ہےے اور اس تجویز پر غور و غو ض کے لئے انہوں‬ ‫نے اس وقت کے ہندوستان کے معروف علماءاہل حدیث کو مخا طب کر کے دعوت‬ ‫دی کہ وہ دسمبر ‪۱۹۰۶‬ءمیں منعقد ہو نے والے مذا کرہ علمیہ آ رہ میں تشریف ل کر‬ ‫اپنی آراءسے آ گاہ فر ما ئیں ‪ ،‬اور اگر اس تجویز کو مناسب خیال کریں تو آ رہ‬ ‫میں بیٹھ کر تنظیم کا قیام عمل میں ل یا جا ئے ۔ جنا ب ثنا ءاللہ امر تسری نے جن‬ ‫علماءکو مخا طب کر کے قیام کا نفرنس کی تجویز پیش کی تھی ان کے نام انہی‬ ‫کی دی ہو ئی تر تیب سے یوں ہیں ۔‬ ‫ابو سعید محمد حسین بٹا لوی‪ ،‬ابو عبید احمد اللہ امر تسری ‪ ،‬محمد حسن‬ ‫لودھانوی ‪ ،‬الہی بخش ہوشیار پوری ‪ ،‬حافظ عبد المنان وزیر آ بادی ‪ ،‬محمد ابرا‬ ‫ہیم سیا لکو ٹی‪ ،‬سید عبد السلم دہلوی‪ ،‬محمد بشیر سہسوانی ‪ ،‬عبد المجید‬ ‫دہلوی‪ ،‬محمدحسین کو ئلہ فروش ‪ ،‬عبدالعزیز ر حیم آبادی ‪ ،‬حافظ عبداللہ آروی‪،‬‬ ‫شاہ محمد عین الحق ساکن چھپرہ‪ ،‬عبد الجبار عمر پوری‪ ،‬عبد الجبار غز نوی‪،‬‬ ‫عبدالعزیزسا کن قلعہ میہاںسنگھ‪،‬عبدالحکیم پٹنوی‪ ،‬محمدادریس آروی‪ ،‬عبدالتواب‬ ‫غزنوی رحمہم اللہ( اہل حدیث امر تسر ‪ ۸‬دسمبر ‪۱۹۳۳‬ءص ‪ )۳‬ان مدعوئین میں‬ ‫سے جو حضرات دسمبر ‪۱۹۰۶‬ءکے مذا کرہ علمیہ آ رہ میں شریک ہوئے انہو ںنے با‬ ‫ہمی مشورہ کے بعد دسمبر ‪۱۹۰۶‬ءکے آ خری د نو ں میں آ ل انڈیا اہل حد یث کا‬ ‫نفر نس قا ئم کی۔ جس کے صدر جنا ب حافظ عبد اللہ آ روی غازی پوری اور‬ ‫ناظم اعلی جنا ب ابو الوفاءثناءاللہ امر تسری منتخب ہو ئے۔ اس کا نفر نس کے‬ ‫اجلس امر تسر منعقدہ ‪۱۹۱۳‬ءمیں مو جود علماءنے خوا ہش ظا ہر کی کہ جنا ب‬ ‫محمد ابرا ہیم میرسیا لکو ٹی‪ ،‬تا ریخ اہل حد یث پرایک کتا ب لکھیں۔ جنا ب محمد‬ ‫ابرا ہیم اس وقت کے نا مورمصنفین میں شا مل تھے ۔ مرزا غلم احمد کی تر دید‬ ‫میں ان کی شہادة القرآن جیسی ل جوا ب کتا ب منظر عا م پر آ چکی تھی۔ وہ‬ ‫بڑے مقرر‪ ،‬منا ظر‪ ،‬مدرس‪ ،‬محد ث اور مفسر تھے ۔ انہو ںنے کا نفر نس سے‬

‫متعلق اکا بر علماءاہل حد یث کے کہنے پر اس کا م کیلئے خود کو تیار کیا اور دو‬ ‫تین برس کی محنت سے ‪۱۹۱۶‬ءکے گردو پیش ایک کتا ب مر تب فرمائی۔ لیکن‬ ‫اس کی اشاعت بعض و جوہ کی بنا پر کم و بیش ‪ ۳۷‬سا ل تک معر ض التوا ءمیں‬ ‫پڑی رہی ۔ (میرا خیال ہے کہ ‪۱۹۱۵‬ءکے گر دو پیش جنا ب میر کی حو صلہ افزا ئی‬ ‫ہو تی تو شائد وہ اس موضوع پر مز ید لکھتے اور اس کی مز ید جلد یں سا منے‬ ‫آتیں۔ اورکم از کم ‪۱۹۵۳‬ءتک کی تا ریخ اہل حد یث مدو ن و مر تب ہو جا تی) ۔‬ ‫اس عر صہ میں حکیم مظفر حسین بہاری کی الحیا ت بعد المما ة‪ ،‬جنا ب سید‬ ‫عبد البا قی سہسوا نی کی حیا ة العلمائ۔ جنا ب مسعود عالم ندوی کی ہندوستا‬ ‫ن کی پہلی اسل می تحریک‪ ،‬جناب ابو یحی امام خا ن نو شہروی کی ( نامکمل )‬ ‫ترا جم علماءحدیث ہند ‪ ،‬ہندوستا ن میں جماعت اہل حد یث کی علمی خد ما ت (‬ ‫جو در اصل مسلم ایجوکیشنل کا نفر نس کے مارچ ‪۱۹۳۷‬ءکے اجلس میں پڑ ھا جا‬ ‫نے وا ل ایک مقا لہ ہے) ‪ ،‬جناب سید عبد العزیز صمدانی اور سید عبدالرﺅ ف دہلوی‬ ‫کے مر تب کر دہ مکا تیب نذیر یہ ( طبع دہلی ‪۱۹۴۰‬ئ) جناب محمد جو نا گڈھی کی‬ ‫تا ریخ اہل حد یث شا ئع ہو ئیں ۔ جنا ب عبدالرزاق ملیح آ بادی کے قلم سے مو لنا‬ ‫آزاد کی کہا نی آ زاد کی زبا نی‪ ،‬نکلی ۔ جو تا ریخ اہل حد یث کے اہم ما خذو ں‬ ‫میں شمار ہو ئی ۔جناب میر کی تا لیف ‪۱۹۵۳‬ءمیں پہلی بار لہورسے ‪ ۴۴۸‬صفحا ت‬ ‫پر شائع ہو ئی جب کہ ہندوستان تقسیم ہو چکا تھا اورآ ل انڈیا اہل حد یث کانفرنس‬ ‫کہیں ہے کہ نہیں ہے کی کیفیت سے دو چار تھی ۔ بعد ازاں اہل حد یث کے ر جا ل‬ ‫اور تا ریخ پرمختصر و مطول بہت سی کتا بیں منظرعام پر آ ئیں جن میں جناب‬ ‫غلم رسو ل مہر کی سید احمد شہید(طبع اول ‪۱۹۵۴‬ئ)‪ ،‬سرگذشت مجا ہدین اور‬ ‫جماعت مجاہد ین (طبع اول ‪۱۹۵۵‬ء)‪ ،‬جنا ب عبد المجید سو ہدروی کی سیرة‬ ‫ثنائی ۔ جنا ب امام خا ن کی نقو ش ابو الو فائ‪ ،‬جناب عبد اللہ بٹ کی شا ہ‬ ‫اسماعیل شہید‪ ،‬جنا ب محمد علی قصوری کی مشا ہدا ت کابل و یاغستا ن‪ ،‬جنا‬ ‫ب نذیر احمد ر حما نی کی اہل حدیث اور سیاست ‪ ،‬جنا ب خا لد سیف کی تذ کرہ‬ ‫شہید ۔ جنا ب محمد ابرا ہیم کمیرپوری کی فسا نہ قادیان‪ ،‬جنا ب ابو بکر غز نوی‬ ‫کی داﺅد غز نوی ( جو در اصل جنا ب محمد اسحاق بھٹی کے جمع کردہ مضامین کا‬ ‫مجمو عہ ہے )‪ ،‬قا ضی عبد اللہ خا ن پوری کا تذ کرہ علماءخان پور ‪ ،‬جنا ب ثنا ءاللہ‬ ‫عمری کی نذرا نہ اشک اور تذ کرہ واجدی۔ جنا ب محمد یوسف سجاد کی تذکرہ‬ ‫علما ئے اہل حدیث پا کستا ن‪ ،‬جنا ب عا بد حسن ر حما نی اور عز یز الر حمن‬ ‫سلفی کی جماعت اہل حد یث کی تدریسی خد ما ت‪ ،‬جنا ب محمد مستقیم‬ ‫سلفی کی جماعت اہل حد یث کی تصنیفی خد ما ت ‪ ،‬جنا ب محمد اسلم سیف‬ ‫فیروز پوری کی تحریک اہل حد یث تا ریخ کے آ ئینے میں اور پا ک و ہندمیں اہل حد‬ ‫یث کی علمی دینی اور سیاسی خدمات کا ایک جا ئزہ‪ ،‬سوا نح مولنا محمد ابراہیم‬ ‫میر سیا لکوٹی۔ جنا ب مقتدی اثری مﺅی کی تذکرة المنا ظرین (دوحصے ) ‪ ،‬جنا‬ ‫ب مجیب الر حمن بنگا لی کی مو ل نا محمد جو نا گڈ ھی حیات وخدمات‪ ،‬جنا ب‬ ‫عبد العظیم انصاری کی تذ کرہ علما ئے بھو جیا ں ‪ ،‬جناب محمد مبار ک کی سوانح‬ ‫سید نذ یر حسین محد ث دہلوی‪ ،‬جنا ب فضل الرحمان کی مو ل نا ثناءاللہ‬ ‫امرتسری ‪ ،‬جنا ب محمد عزیر شمس کی حیات المحدث شمس الحق و اعما لہ‬ ‫( اور اس کا اردو اڈیشن ۔ مول نا شمس الحق عظیم آ بادی ۔ حیات و خد ما‬ ‫ت ) ‪ ،‬جنا ب ارشاد الحق اثری کی پا ک و ہند میں علما ئے اہل حد یث کی خد‬ ‫مات حدیث‪ ،‬جناب تنز یل حسینی کی اصحا ب علم و فضل ۔ جنا ب محمد ابرا ہیم‬ ‫خلیل فیروز پوری کی الفیو ض المحمدیہ بتذ کار سل لة لکو یہ ۔ ڈا کٹر قیام الدین‬

‫احمد کی ہندوستان میں وہا بی تحریک ( انگریزی ) ( اردو تر جمہ محمد مسلم‬ ‫عظیم آ بادی ) جنا ب عبد الر حمن محد ث مبار ک پوری پر ہندوستا ن اور پا کستا‬ ‫ن میں لکھے جانے وا لے پی ایچ ڈی کے مقا ل ت ۔ جنا ب محمد اسحاق بھٹی کی قا‬ ‫فلہ حد یث ۔ کاروا ن سلف ۔ نقوش عظمت رفتہ ‪ ،‬بز م ارجمندا ں‪ ،‬قاضی محمد‬ ‫سلیمان منصور پوری ۔ میا ںعبد العزیز مالوا ڈہ ۔ صو فی عبد اللہ ‪ ،‬خدا م حد یث ‪،‬‬ ‫خدا م قرآن ۔ میا ں فضل حق اور ان کی خد ما ت ‪ ،‬قصوری خا ندا ن ‪ ،‬و غیرہ ‪،‬‬ ‫بدر الز مان محمدشفیع نیپالی کی شیخ عبد اللہ غز نوی اورتذ کرہ علماءاہل حدیث‬ ‫میوا ت۔ جنا ب عبد الغفورراشد کی اہل حد یث منز ل بمنز ل‪،‬اور تذ کرة ا ل برار‪،‬‬ ‫جناب عبد الر شید عراقی کی تذ کرة النبلئ‪ ،‬تذ کرہ محد ث رو پڑی‪ ،‬غز نوی خا‬ ‫ندا ن‪ ،‬علماءاہل حدیث کی خد ما ت ۔ ہفت روزہ اہل حدیث لہور کا خد ما ت اہل‬ ‫حد یث نمبر ‪ ،‬ہفت روزہ العتصا م کا عطاءاللہ حنیف بھو جیانی نمبر ‪ ،‬پا کو ڑ کا‬ ‫نفر نس کا یاد گاری مجلہ مرتبہ اصغر علی امام مہدی سلفی وخالد حنیف صدیقی‪،‬‬ ‫ابو حماد عبدالغفار سلفی بلرا م پوری کا اہل حدیث کا تعارف اوراصغرعلی امام‬ ‫مہدی سلفی کے زیراہتمام شائع شدہ ”مدار س اہل حدیث ہند ایک تاریخی‬ ‫دستاویز“ وغیرہ شا مل ہیں ۔ اس کے علوہ بعض اہل حد یث اکا بر پر ایسی کتا‬ ‫بیں بھی سا منے آ ئی ہیں جو غیراہل حد یث مصنفین نے لکھی ہیں ۔ مثل´ جنا ب‬ ‫عبد الکر یم شو رش نے ابو الکلم پر ایک کتا ب لکھی ‪ ،‬اسی طر ح ما لک را م نے‬ ‫بھی ابو الکلم پر کتا ب لکھی ۔ نواب و حید الزمان کی سوا نح‪ ،‬حیات و حید الز‬ ‫مان کے نام سے محمد عبد الحلیم چشتی نے لکھی ۔ جنا ب سید عبد الحی لکھنوی‬ ‫نے نز ھة الخوا طر میں بہت سے علماءکے ترا جم لکھے ۔ ان کے صاحبزا دے جنا ب‬ ‫ابو الحسن علی ند وی نے اپنی کتا بو ں میں کئی اہل حد یث اکا بر کی حیات و‬ ‫خد ما ت بیا ن کیں ۔ محترمہ ر ضیہ حا مد نے نوا ب صدیق حسن پر مقا لہ تیار کر‬ ‫کے پی یچ ڈی کی ڈگری حا صل کی ۔ محمد سور تی پر ایم اے عر بی پنجا ب یو‬ ‫نیورسٹی ل ہور کی طالبہ فر زا نہ لطیف نے مقا لہ لکھا ۔ جنا ب سید محمد میا ںنے‬ ‫علمائے ہند کا شا ندار ما ضی میں صادقپوری خا ندا ن پرلکھا ہے ‪ ،‬اور جناب سید‬ ‫ابو الحسن علی نے تا ریخ دعوت و عز یمت میں بعض اہل حد یث اکا بر کا تذ کرہ‬ ‫کیا ہے ۔ ان سے بہت پہلے جنا ب سید علی حسن نے اپنے وا لد جنا ب سیدصدےق‬ ‫حسن کی سوا نح عمری مآثر صدےقی مر تب کی ۔ اور ما ضی قریب میں جنا ب‬ ‫عبد الرشید ارشد صا حب نے بیس بڑے مسلما ن کے نام سے ایک ضخیم کتا ب مر‬ ‫تب کی جس میں ابو الکلم آ زاد کی سوا نح حیا ت بھی درج کئے ہیں ۔ یہ مساعی‬ ‫یو ں تو بہت گراں قدر ہیں لیکن اہل حد یث کے نقطہ نظر سے منفی انداز کی ہیں‬ ‫کہ ان میں اہل حدیث کے اکا بر کو اغوا کر لیا گیا ہے ۔ مثل´ صادق پوری خا ندا ن‬ ‫کو حنفی کے طور پر پیش کیا گیا ۔ جنا ب سید صدیق حسن کو حنفی مقلد بنا دیا‬ ‫گیا ۔ جنا ب ابو الکلم آ زاد کا غیر مقلد اور اہل حد یث ہو نا نظرو ں سے او جھل‬ ‫کر نے کی کو شش کی گئی ہے ۔ غر ض تاریخ و ر جا ل اہل حد یث پر کا فی لٹر‬ ‫یچر منظر عام پر آ چکا ہے اور اس میں کو ئی شک نہیں کہ در ج با ل تا لیفات و‬ ‫تصنیفا ت میں بعض نہا یت وقیع اور قا بل قدر علمی اور تحقیقی مواد پر مشتمل‬ ‫ہیں لیکن تا حا ل جماعت اہل حد یث پا ک و ہند کے علمی حلقوں میںیہ احساس مو‬ ‫جود ہے کہ تا ریخ اہل حد یث کی ترتیب و تد وین کی خدمت جماعت اہل حد یث پر‬ ‫بصور ت قرض مو جود ہے۔ جیسا کہ جا معہ سلفیہ بنا رس کے ادارة البحو ث ا لسل‬ ‫میہ کی سا ل نہ رپورٹ ( جول ئی ‪۲۰۰۶‬ء) کے صفحہ ‪ ۵‬پر کہا گیا ہے کہ بر صغیر‬ ‫میں جماعت اہل حد یث کی تا ریخ کی تر تیب ایک اہم اور ضروری علمی منصو بہ‬

‫ہے ۔ اسے جماعت پر قر ض سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ افسوس ہے کہ اس وقت‬ ‫جماعتی تاریخ کی بجا ئے افراد کی تاریخ کو مدو ن کر نے کا ر جحا ن پیدا ہو رہا ہے‬ ‫۔ جامعہ سلفیہ (بنارس ) نے اللہ تعا لی کی مدد سے جماعتی مدارس اور علما ئے‬ ‫جماعت کی تصا نیف کے موضوع پر نقش اول کے طور پر کچھ کام کیا ہے ۔ لیکن‬ ‫اسے وسعت کے ساتھ مکمل کر نے کی ضرورت ہے ۔ یقین ہے کہ اللہ تعا لی کی‬ ‫توفیق سے اس کے ایسے بند ے ضرور اٹھ کھڑ ے ہو ں گے جو اس عظیم جماعتی‬ ‫خدمت کے لئے خود کو تیار کریں گے ۔( منقول از رپورٹ مذکور ) کئی سا ل ہو ئے‬ ‫جنا ب ثنا ءاللہ سیا لکو ٹی نے مجھے تا ریخ اہل حد یث کے موضوع پر کام کر نے کو‬ ‫کہا ۔ اس کے بعد جنا ب محمد عزیز شمس نے ذی قعدہ ‪۱۴۲۱‬ھ (‪۲۰۰۰‬ئ) میں مکہ‬ ‫معظمہ سے ایک مکتوب کے ذریعہ اس فقیر کو اہل حد یث کی تا ریخ مرتب کر نے‬ ‫کی تر غیب دل ئی ۔ بنا بریں میں نے اہل علم کے دروازو ں پر فقیرا نہ صدا ئیں لگا‬ ‫کر اس موضو ع پر ضروری لٹریچر جمع کر نا شروع کر دیا ۔ یہ مہم (جو تا حا ل‬ ‫جاری ہے ) بڑی صبر آ زما اور مہنگی ثا بت ہو رہی ہے جس کی تفصیل میں جا نا‬ ‫مناسب نہیں ہے ۔ اس کام کے دورا ن جو احبا ب میری علمی اور اخل قی مدد فر‬ ‫ما رہے ہیں ان کا شکر یہ مجھ پر وا جب ہے ۔ ان میں جنا ب ثنا ءاللہ سیا لکو ٹی لند‬ ‫ن ‪ ،‬جنا ب ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری بنارس ۔ جنا ب اصغر علی امام مہدی سلفی‬ ‫دہلی ‪ ،‬جناب ڈا کٹر عبد الو ہا ب انصاری کاسگنج ۔ جنا ب محمد ابرا ہیم خلیل‬ ‫فیروز پوری حجرہ شاہ مقیم ‪ ،‬جنا ب شیر خا ن جمیل احمد عمری برمنگھم ‪ ،‬جنا‬ ‫ب محمد اشر ف جا وید فیصل آ باد ‪ ،‬جنا ب ڈا کٹر عبد الرﺅف ظفر بہاولپور شا‬ ‫مل ہیں۔ جناب اشرف جا وید اور جنا ب ابرا ہیم خلیل نے پا کستا ن سے اہل حد‬ ‫یث کا بڑا نا یاب قسم کا لٹریچر تلش کر کے مجھے ممنو ن احسا ن کیا ہے اور‬ ‫ہندوستان سے ڈا کٹر عبدالوہا ب انصاری ‪ ،‬لٹریچر سے متعلق میرے مطا لبو ں کو‬ ‫پورا کر نے میں ‪ ۸‬سا ل سے مصرو ف ہیں ۔ بر طا نیہ میں جنا ب شیر خا ن جمیل‬ ‫احمدعمری نے اپنے اور اپنے دادا مرحوم جنا ب سا ہو کار شیر خا ن احمد حسین‬ ‫کے کتب خانہ ادھو نی سے کم یا ب قسم کا ضروری لٹر یچر اس فقیر کے کشکو ل‬ ‫میں ڈا ل ہے ۔ اللہ تعا لی مذکورہ بال احبا ب کو جزا ئے خیر عطا فرما ئے ۔ آ مین‬ ‫کئی جلدو ں پرمشتمل اس مجوزہ کتا ب میں لزو م تقلید اور اجتنا ب از تقلید کے‬ ‫سلسلے میں ہو نے وا لے تحریری اور تقریری مبا حثو ں کا احا طہ کر نے کی‬ ‫کوشش کی جا ئے گی ۔ اور انشا ءاللہ اہل حد یث کے دیگر ما بہ ا ل متیاز مسا ئل‬ ‫پر منا ظرا ت و مبا حثا ت کی تا ریخ بھی پیش کی جا ئے گی اور اس سلسلے‬ ‫میں ما ہنا مہ اشاعة السنہ ‪ ،‬ہفت روزہ اہل حد یث امرتسر ‪ ،‬نقو ش ابو الوفا ‪،‬‬ ‫سیرة ثنا ئی ‪ ،‬رو ئداد منا ظرہ مرشد آ باد ‪ ،‬مکا تیب نذ یر یہ ‪ ،‬مبا حثہ فرید کو ٹ‬ ‫اور حا فظ عبد القادر رو پڑی کے سوا نحی تذکرے ‪ ،‬جنا ب مقتدی اثری مﺅی کی‬ ‫تذکرة المناظرین و غیرہ سے مدد لیجا ئے گی ۔ انشا ءاللہ اہل حدیث کی تا ریخ کے‬ ‫ایک دور میں سر کاری عدا لتیں ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی تھیں جہاں غیر جا‬ ‫نبدار لو گو ں کے سامنے فر یقین کے نما ئندے مہذ ب انداز میں اپنا موقف پیش کر‬ ‫تے ‪ ،‬مکمل معلو مات ججو ں کے سا منے بڑی احتیاط اور قا بلیت کے ساتھ رکھی‬ ‫جا تیں ۔ اہل حد یث کے اکا بر‪ ،‬اہل حد یث کی طرف سے تیاری کرتے اور کر وا تے‪،‬‬ ‫بے پناہ اخرا جا ت ہو تے ‪ ،‬اس کے لئے چند ے بھی اکٹھے کئے جا تے۔ (اس سلسلے کا‬ ‫ایک خط جو جنا ب میا ں صا حب نے جنا ب محمد سعید بنارسی کو لکھا تھا ‪،‬‬ ‫کتاب کے متفر قا ت کے حصے میں نقل کیا جا رہا ہے ) اور غیر جا نبدار جج صا حبا‬ ‫ن فیصلے صادر کرتے تھے ۔ ان فیصلو ں کے اس جماعت کی تا ریخ پر دیر پا اثرا‬

‫ت ہو ئے ہیں ۔ جیسا کہ جنا ب ثنا ءاللہ لکھتے ہیں جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں‬ ‫میر ٹھ کو امتیازی مقام حاصل ہے کہ میرٹھ سے مقدمہ آ مین بالجہر چلتے چلتے الہ آ‬ ‫باد ہا ئی کو رٹ پہنچا جہاں سید محمود ابن سر سید احمد ان دنوں جج تھے ۔ آ پ‬ ‫نے اس نزاع کا فیصلہ جس خوش اسلو بی اور علمی معلومات سے کیا وہ آ پ ہی‬ ‫کا حصہ ہے ‪ ،‬پر زور دل ئل حدیثیہ اور فقہیہ سے ثابت کیاکہ آ مین بالجہر کہنے وا ل ہر‬ ‫مسجد میں نماز پڑھ سکتا ہے ۔یہ فعل ان افعال میں سے ہے جن کے لئے مسجد بنا‬ ‫ئی جا تی ہے ۔ چا ہے اس میں حنفیہ کا اختلف ہے ۔ لیکن یہ اختلف اس حد تک نہیں‬ ‫ہے کہ آ مین با لجہر کہنے وا ل مسجد سے نکا ل جائے۔ فیصلہ بہت طو یل ہے ۔ اس‬ ‫فیصلے کا اثر دوسرے صو بوں پر بھی پہنچا ۔ کلکتہ‪ ،‬مدراس‪ ،‬پنجاب و غیرہ صو بوں‬ ‫کے علوہ پریوی کو نسل لندن میں بھی اسی کے مطا بق فیصلہ ہوا ۔‬ ‫اہل حدیث ‪ ۱۲‬اپریل ‪۱۹۴۰‬ء ص ‪۶‬۔‪ )۷‬اس لئے عدا لتی مقد ما ت کا ذکر بھی )‬ ‫اس کتا ب میں کیا جا ئے گا جس کے لئے جنا ب محمد حسین بٹالوی کے اشاعة‬ ‫السنة ‪ ،‬جنا ب ثنا ءاللہ امر تسری کے ہفت روزہ اہل حدیث ‪ ،‬اور ان کی شا ئع کی‬ ‫ہو ئی فتوحات اہل حد یث ‪ ،‬نیز مسلم اہل حد یث گزٹ دہلی ‪ ،‬انڈین لءکورٹس کے‬ ‫نظا ئر ‪ ،‬اور شحنہ ہند میر ٹھ و غیرہ سے مدد لی جا ئے گی ۔ اس کتا ب میں اہل‬ ‫حد یث اکا برین کے مکا تیب کو بھی جگہ دی جا ئے گی جو انہوں نے مختلف اوقات‬ ‫میں مختلف علمی عنوا نات پر تحریر کئے۔ یو ں اس میں میا ں صاحب ‪ ،‬جنا ب‬ ‫محمد حسین ‪ ،‬جنا ب عبد اللہ غز نوی ‪ ،‬جناب محمد اسما عیل گو جرا نوا لہ ‪ ،‬جنا‬ ‫ب عبید اللہ ر حما نی و غیر ھم کے مکا تیب شا مل ہو ں گے ۔ اس کتا ب میں‬ ‫انشا ءاللہ اہل حد یث کی ان خد ما ت کا ذکر ہو گا جو انہو ں نے تقلید کے جمود کو‬ ‫تو ڑ نے میں انجا م دیں ‪ ،‬ان خد مات کا احا طہ بھی کیا جا ئے گا جو فتنہ انکار‬ ‫حدیث کے سد با ب میں انجا م دی گئیں ۔ بر صغیر میں عیسا ئی مشنر یو ں سے‬ ‫تحریری اور تقریری مقا بلوں کی حکا یت بھی بیا ن ہو گی ۔ اور قا دیا نیت کے رد‬ ‫و ابطا ل میں اہل حدیث حضرات نے جو خد مات انجا م دی ہیں ان کا ذکر بھی‬ ‫اختصار سے ہو گا ۔ انشا ءاللہ ۔ اور برطانیہ میں اہل حد یث کی تنظیم ‪ ،‬نشو و نما‬ ‫اور خد مات بیا ن ہو ں گی اور ترا جم علماءکے با ب میں برطانیہ میں عمل بالحد‬ ‫یث کی ترویج کر نے وا لے علماءکی خد ما ت کا بیا ن بھی ہو گا۔ کتا ب کے مقدمہ‬ ‫میں جو مستقلت شائع ہوگی‪ ،‬میں نے حد یث اور اہل حد یث کے بارے میں کچھ‬ ‫گذارشات پیش کی ہیں ۔ مسلک اہل حد یث کے خدو خا ل وا ضح کر نے کے بعد‬ ‫اس کی قدا مت کا ذکر کیاہے ‪ ،‬اور تاریخ اسلم میں اس مسلک کے تسلسل کی‬ ‫تفصیل ت بیان کی ہیں۔ اہل حد یث کو وہا بیت کے عنوا ن سے تعبےر کر نے کی تا‬ ‫ریخ اور غلطی کا بیا ن ہے اور حاملین مسلک کے چند نما یا ں اور ما بہ ا ل متیاز‬ ‫عقا ئد و اعمال کا بیا ن ہے ۔ اس سلسلے کے متعلقہ عنوا نا ت کو اہل حد یث اکا‬ ‫برین کی زبا نی بیا ن کیا ہے کیو نکہ علم و عمل سے تہی دست اس فقیر کی یہ‬ ‫حیثیت قطعا´ نہیں کہ اس کی تحریر کو اہل حد یث کا مسلک قرار دیا جا سکے ۔‬ ‫جن اکا برین کی تحریر و ں سے مسا ئل و عقا ئد کے بیان میں اس عا جز نے مدد‬ ‫لی ہے ان میں شاہ محمد فا خر زا ئر ‪ ،‬شاہ ولی اللہ ‪ ،‬شاہ محمد اسماعیل ‪ ،‬جناب‬ ‫ول یت علی صادق پوری ‪ ،‬جنا ب سید محمد نذ یر حسین ‪ ،‬جنا ب سید صدیق‬ ‫حسن قنوجی ‪،‬جنا ب محمد حسین بٹا لوی ‪ ،‬جنا ب ابو یحی محمد شاہجہان‬ ‫پوری ‪ ،‬جنا ب ثنا ءاللہ امر تسری ‪ ،‬و غیرہ شا مل ہیں ‪ ،‬اس کے علوہ آ خر کتاب‬ ‫میں متفر قا ت کی صورت میں بعض اہم امور پر بحث ہے ‪ ،‬اور بعض علماءکے‬ ‫مختصر تراجم ہیں جن کا ذکر کسی نہ کسی صورت میں اس جلد میں آ یا ہے ۔‬

‫( دراصل ان ریمارکس کو حواشی کی صورت میں ہو نا چا ہیے تھا ۔ لیکن کئی نو‬ ‫ٹ اتنے طو یل ہیں کہ انہیں متن کے ساتھ نقل کر نے کی صورت میں عبارت بہت بو‬ ‫جھل ہو جا تی اور قا ری کے لئے عبارت کا ر بط برقرار رکھنا مشکل ہو جا تا ۔ بنا‬ ‫بریں انہیں کتا ب کے آ خر میں نقل کر دیا گیا ہے) اللہ کی تو فیق شا مل حا ل‬ ‫رہی تو آ ئندہ جلدو ں میں بر صغیر پا ک و ہند بنگلہ دیش ‪ ،‬نیپا ل میں اس مسلک‬ ‫کے ورود ‪ ،‬اور شاہ و لی اللہ محد ث تک عمل بالحد یث کی تا ریخ ‪ ،‬اور مختلف‬ ‫ادوار میں اس کی نشو و نما کا ذکر ہو گا اور اس سلسلے میں جن اکا بر نے‬ ‫تدریسی ‪ ،‬تقریری اور تصنیفی کا م کیا ‪ ،‬ان کی خد مات کا ذکر ہو گا ۔ اس کے‬ ‫بعد شاہ اسماعیل دہلوی ‪ ،‬خاندا ن سعا دت صادق پور ‪ ،‬جنا ب سید نذ یر حسین‬ ‫محد ث و غیر ھم کی خد ما ت کا ذکر ہوگا اور امید ہے کہ جنا ب میا ںصا حب کی‬ ‫معیار الحق کو بھی شا مل اشاعت کیا جا ئے گا۔ اللہ نے تو فیق عطا فر ما ئی تو‬ ‫جنا ب سید صدیق حسن کی خد ما ت کا ذکر ہو گا ‪ ،‬پھر میا ں صا حب کے مشہور‬ ‫تل مذہ کی خد ما ت کا احاطہ کر نے کی کوشش کی جا ئے گی اور اہل حدیث کے‬ ‫مسلک و تاریخ سے متعلق ان کی بعض اہم تحریروں کو نذر قا رئین کیا جائے گا ۔‬ ‫تو فیق خداو ندی کا ابر کر م برستا رہا تو اسی انداز میں زما نہ حا ل تک تا ریخ‬ ‫اہلحدیث کو مکمل کر نے کی کو شش کی جا ئے گی ۔ انشا ء اللہ‬ ‫اس موقع پر میں ایک ضروری با ت قا رئین کے گوش گذار کر نا مناسب سمجھتا‬ ‫ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ہماری یہ کتا ب جماعت اہل حد یث کے مستقبل کے عزا ئم کا بیا ن‬ ‫نہیں ہے بلکہ اقرءکتا بک کے مصداق ماضی کی سر گذ شت ہے ۔ عزائم ہمیشہ بلند‬ ‫اور سہا نے ہو تے ہیں جبکہ ما ضی کی حکایت‪ ،‬بلندی اور پستی کی رو ئداد ہو تی‬ ‫ہے۔ روداد سفر میں ایسی جگہوں سے گذر بھی ہو تا ہے جو قابل ذکر نہیں ہو تیں‬ ‫اور نخلستانو ں‪ ،‬گلستا نو ں‪ ،‬مر غزارو ں کی معطر فضا ﺅ ں سے گذر بھی ہو تا‬ ‫ہے ۔ جماعت اہل حد یث کی تا ریخ بھی او نچ نیچ سے عبارت ہے اس کے افراد سے‬ ‫ایسی خد ما ت بھی انجام پذ یر ہو ئیں جن پر اپنوں کے علوہ بے گا نے بھی فخر کر‬ ‫سکتے ہیں ‪ ،‬اور ایسے کام بھی سر زد ہو ئے جن کا تذکرہ خوش آ ئند نہیں ہے ان‬ ‫لوگوں نے جو فیصلے کئے وہ کبھی درست نکلے اور کبھی نا درست ۔ لیکن جیسا کہ‬ ‫جنا ب سید انورشاہ کشمیری دیو بندی سے ایک مناظرہ میں ایک اہل حدیث عالم‬ ‫نے پو چھا کیا آ پ امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں ؟ فر ما یا نہیں۔میں خود مجتہد ہو ں‬ ‫اور اپنی تحقیق پر عمل کرتا ہو ں۔ اس عا لم نے کہا کہ آ پ تو ہر مسئلہ میں فقہ‬ ‫حنفی ہی کی تا ئید کررہے ہیں پھر مجتہد کیسے ؟ سید انور شاہ نے فر ما یا یہ حسن‬ ‫اتفاق ہے کہ میرا ہر اجتہاد ابو حنیفہ کے اجتہاد کے مطا بق پڑ تا ہے ( بیس بڑے‬ ‫مسلمان ص ‪ ) ۳۸۳‬۔ اس اقتباس سے میرا مقصد یہ وا ضح کر نا ہے کہ جب بر‬ ‫صغیر کے مقلدین بھی مجتہد ہوتے تھے تو غیر مقلدین کے لئے اجتہاد کیو نکر شجر‬ ‫ممنوعہ ہو سکتا تھا ۔ اس لئے انہو ں نے بھی ضرورت کے مطا بق اجتہادا ت کئے ۔‬ ‫اور یہ تو سبھی اہل علم جا نتے ہیں کہ اجتہاد کبھی درست ہو جاتا ہے اور کبھی نا‬ ‫درست ۔ مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے اپنی دانست میں درست ہی کرتا ہے ۔ بعد میں آ‬ ‫نے وا ل وقت اور حا لت بتا تے ہیں کہ اس کا اجتہاد واقعتا´ درست تھا کہ نہیں ؟‬ ‫جیسا کہ ما ضی بعید کے ایک امام نے حکو مت کی ملز مت نہیں کی۔ دوسرے نے‬ ‫کر لی تھی ۔ وہ دو نوں مجتہد تھے ۔ اورظا ہر ہے کہ سر کاری ملز مت کے بارے‬ ‫میں ان میں سے ایک ہی بزرگ کا اجتہاد درست تھا ۔ لیکن جس بز ر گ کا اجتہاد‬ ‫درست نہیں تھا ‪ ،‬کیا اسے مجتہد نہیں کہا جا ئے گا ؟ یا کیا اس کا اجتہاد درست نہ ہو‬ ‫نے کی وجہ سے اسے مطعو ن کیا جا ئے گا ؟ پھر امام شافعی کے جو اجتہادات‬

‫درست ثا بت نہیں ہو ئے‪،‬کیا وہ ان کی بنا پر مطعون ہوں گے؟ امام ما لک کی جو‬ ‫اجتہادات درست نہ نکلے ‪ ،‬کیا وہ ان کی و جہ سے مطعون ہو ں گے؟ نہیں۔ ہر گز‬ ‫نہیں۔ جنا ب سید صدیق حسن اور جنا ب محمد حسین بٹا لوی اور ان کے مثل‬ ‫دیگر اہل حدیث علماءبھی مجتہد تھے ۔ انہو ں نے جن معا مل ت میں اجتہادا ت کئے‬ ‫وہ درست نتیجہ پر پہنچنے کی صورت میں دو اجرو ں کے مستحق ہو گئے اور جن‬ ‫معا مل ت میں ان سے خطا ہوگئی ‪ ،‬ان میں ایک اجر کے مستحق ہو گئے ۔ میں نے‬ ‫اپنی تحریر میں جو حوا لہ جا ت بقید صفحا ت دئیے ہیں وہ انہی کتا بوں سے دئےے‬ ‫ہیں جن تک میری رسائی ہو سکی ہے ۔ لیکن اقتباسات میں جو حوا لہ جا ت‬ ‫موجود ہیں وہ ان کتا بو ںسے ہیں جو اصل مصنفین کے سا منے تھیں ( اور میرے سا‬ ‫منے نہیں ہیں ) اور نقل در نقل میں صفحا ت کے نمبرا ت کا خلط ملط ہو جا نا‬ ‫عین ممکن ہے ۔ ایسی صورت میں مجھے معذور سمجھ کر معاف کر دیا جا ئے۔‬ ‫میںنے اس کتا ب میں ( سوا ئے اقتبا سات اور حوا لہ جا ت کے) بڑے القابات مثل‬ ‫عل مہ ‪ ،‬شیخ ا لسلم ‪ ،‬حکیم ا ل مت‪ ،‬حجة السلم ‪ ،‬و غیرہ کا استعما ل نہیں کیا‬ ‫کیونکہ ہمارے اسل ف کی روا یت یہی ہے کہ وہ اپنے اکا بر کے اسماءگرا می کے ساتھ‬ ‫بڑے بڑے القا بات استعما ل نہیں کیا کرتے تھے جیسا کہ جنا ب ثنا ءاللہ امرتسری‬ ‫لکھتے ہیں مو طا امام محمد کے ہر صفحے پر یوں لکھا ہے ھذا مذ ھب ابی حنیفة ۔‬ ‫بطور مثال مﺅطا امام محمد سے مند رجہ ذیل مقا مات دیکھئے باب اذا التقی الختا‬ ‫نان مطبوعہ لکھنﺅ ص ‪ ۷۸‬۔ باب الرجل ینام ۔ مطبوعہ لکھنﺅ ص ‪ ۷۸‬۔ باب‬ ‫المرا¿ة تری ص ‪ ۷۹‬۔ باب الستحاضہ ص ‪ ۷۹‬۔ اسی طر ح سارا موطا امام محمد‬ ‫بھرا پڑا ہے۔ جس میں اسی طر ح صرف ابو حنیفہ لکھا ہو تا ہے ۔ اس کے بعد‬ ‫حنفی مذ ہب کی معتبر درسی کتاب ہدایہ دیکھئے جو ساری اسی طرح بھری پڑی‬ ‫ہے ۔ چند مثا لیں مل حظہ کریں اذا قرءا ل مام من المصحف فسدت صلوتہ عند ابی‬ ‫حنیفہ ۔ و ل بی حنیفہ ان حمل المصحف و النظر فیہ ۔ الوتر واجب عند ابی حنیفہ ۔‬ ‫اسی طر ح دوسرے اماموں کو بھی صر ف نام سے لکھا جا تا ہے مثل´ یسکت من‬ ‫خلفہ عند ابی حنیفہ و محمد و قال ابو یوسف ۔ یقنت فی الثا لثة قبل الر کوع و‬ ‫قال الشافعی ۔ ل یقنت فی صلوة غیر ھا خلفا للشا فعی ۔ اسی طر ح تمام کتب‬ ‫فقہ بھری پڑ ی ہیں ( اہل حدیث امر تسر ‪ ۲۸‬جون ‪۱۹۲۹‬ءص ‪۱‬۔‪ )۳‬اور جنا ب‬ ‫مفتی محمد شفیع دیو بندی فر ماتے ہیں ۔ مو لوی محمود حسن جب دار العلوم‬ ‫کے صدر مدرس ہو ئے تو انہیں صرف بڑے مولوی صا حب کہا جا تا تھا ۔ تعظیمی‬ ‫القاب کے تکلفات بعد میں پیدا ہوئے ہیں ۔ ( ما ہنا مہ الر شیددا ر العلوم دیو بند‬ ‫نمبر ص ‪ ) ۱۴۶‬بنا بریں میں نے بڑے بڑے القا با ت سے اجتنا ب کیا ہے تا ہم میں قا‬ ‫رئین سے در خواست کر تا ہو ں کہ جب وہ کسی بز ر گ کا اسم گرا می دیکھیں تو‬ ‫اپنی مر ضی اور ذوق کے مطابق خود ہی ان کے نام کے ساتھ عل مہ ‪ ،‬یا حکیم ا ل‬ ‫مت ‪ ،‬یا شیخ ا لسلم‪ ،‬یا حجة السلم وغیرہ کا لقب استعما ل فر ما لیں ۔ جہاں‬ ‫تک میرا تعلق ہے ‪ ،‬میں نے معروف آ ئمہ سلف کو امام کے لقب سے اور دیگر تما م‬ ‫علماءکو بنظر احترا م جنا ب کے لقب سے یاد کیا ہے۔ جنا ب اصغر علی امام‬ ‫مہدی اپنے تبلیغی ‪ ،‬تحریکی ‪ ،‬تنظیمی اسفار کے باعث جہا ںگشت بن چکے ہیں ۔‬ ‫چند ماہ قبل وہ بر طانیہ تشریف ل ئے تو جنا ب شیر خا ن جمیل احمد کی مدد سے‬ ‫کے عقب میں چھپے ہو ئے اس فقیر بے نوا(‪)Hadrian's Wall‬انہو ں نے ہیڈرینز وا ل‬ ‫کو ڈھو نڈ ھ نکا ل۔ جمعیت اہل حد یث ہند جیسی بڑی تنظیم کے نا ظم اعلی کا‬ ‫ہزارو ں میل سفر کر کے مےرے غریب خا نے پر پہنچ جا نا ‪ ،‬پیا دے کے گھر سا لر‬ ‫کی تشریف آ وری سے کسی طر ح کم نہ تھا ۔ میں اپنی خو بی قسمت پر ناز کر‬

‫کے افسا نوی ما حو ل میں لے (‪)Lake District‬ہی رہا تھا کہ مجھے لیک ڈسٹرکٹ‬ ‫جا کر انہوں نے یہ بتا نا شروع کر دیا کہ آ ل انڈ یا اہل حد یث کا نفر نس کو قا ئم ہو‬ ‫ئے ایک سو سا ل ہورہا ہے ‪ ،‬لیکن ابھی تک تا ریخ اہل حد یث مر تب نہیں ہو سکی ۔‬ ‫اس لئے آ پ اپنے دیگر کا م مو¿خر کر کے جماعت کا یہ قر ض چکا دیجئے اور‬ ‫جمعیت اہلحد یث ہند کو اس کے حقو ق دے کر ہمیں اس کی اشاعت کا شرف دے‬ ‫دےجئے ۔ جہاں گشت و جہاں دار کا ےہ فر مان اےسا نہ تھا کہ اس کی تعمےل مےں‬ ‫کو تا ہی کی جاسکتی ۔ لےکن خرا بی صحت آڑے آ تی تھی ۔نےز جب جمعےت اہل‬ ‫حد ےث بر طا نےہ کے امےر جناب ثنا ءاللہ سےا لکو ٹی نے مےرے عوا ر ض جسما‬ ‫نی کی حکا ےت طو ل نی کو تفسےر ابن کثےر قرار دے کر چٹکےو ں مےں ا ڑا دےا‬ ‫‪ ،‬تو مےرادا من بہانوں سے با لکل خا لی ہو گےا اور اللہ کی مہربانی سے تا رےخ اہل‬ ‫حد ےث کا مقدمہ اور پہلی جلد مکمل ہوگئی ۔ اللہ جزا ئے خےر دے ہماری جماعت‬ ‫کے روح روا ں جناب شےر خا ن جمےل احمد کو جنہو ں نے بعد مکانی کے با وجود‬ ‫تا رےخی مواد کی ترتےب و تہذ ےب اور پروف ر ےڈ نگ مےں مےری اس قدر مد د‬ ‫فر ما ئی ہے کہ ےہ کہنا اب بالکل بجا معلوم ہو رہا ہے کہ کتا ب ہذا کی تر تےب و‬ ‫تنظےم مےں قا ر ئےن اگر کوئی خوبی ڈھو نڈھ نکا لےں تو اسے بل تکلف مےرے‬ ‫محترم دوست کی طرف منسو ب کردےں ۔ خا مےو ں کا مےں خود ذمہ دار ہو ں‬ ‫اور جماعت اور ذا ت باری تعا لی سے معافی کا خواستگار۔ قا رئےن سے گذار ش‬ ‫ہے کہ جلد ہذا کے مشمو ل ت کا تنقےدی جا ئزہ لے کر مجھے غلطےو ں کی اطلع‬ ‫دےں تا کہ بعد مےں آ نے وا لی کسی جلد مےں اصل ح کی جا سکے۔‬ ‫و الصلوة و ا لسلم علی سےد نا محمد وعلی آ لہ و اصحا بہ و اہل بےتہ اجمعےن‬ ‫محمد بہاءالدےن‬ ‫دسمبر ‪۲۰۰۶‬ء۔ ‪ ۹‬ذی الحجہ ‪۱۴۲۷‬ھ ٭٭٭ ‪۲۹‬‬

Related Documents

Tareekh
May 2020 11
Tareekh Masoodi
April 2020 3
Tareekh Tabari
April 2020 8

More Documents from "Syed-Rizwan Rizvi"