Safarnama Jordan Egypt

  • November 2019
  • PDF

This document was uploaded by user and they confirmed that they have the permission to share it. If you are author or own the copyright of this book, please report to us by using this DMCA report form. Report DMCA


Overview

Download & View Safarnama Jordan Egypt as PDF for free.

More details

  • Words: 85,610
  • Pages: 136
‫قرآن اور بائبل ک ے‬ ‫دیس میں‬ ‫‪2006-07‬‬ ‫حصہ دوم‬ ‫محمد مبشر نذیر‬

‫یہ کتاب ان مقامات کے سفر نامے پر مشتمل ہے جن کا ذکر قرآن مجید‪ ،‬احادیث اور‬ ‫بائبل میں کیا گیا ہے‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫انتساب‬ ‫میری اہلیہ کے نام جن کا تعاون اور محنت اس‬ ‫سفرنامہ کی تیاری میں شامل ہے۔‬

‫‪2‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ف ہرست‬ ‫ف ہرست‪3.............................................................................................. .........‬‬ ‫دیباچ ہ‪4.................................................................................. ......................‬‬ ‫روانگی برائ ے اردن ‪5................................................................................. .....‬‬ ‫پیٹرا‪9...................................................................................................... ....‬‬ ‫جنگ موت ہ اور ڈی ڈ سی‪15.................................................... ............................‬‬ ‫ٹٹٹ‪41............................................ ......................‬‬ ‫مادب ہ‪ ،‬جبل نیبو اور بپتسم ہ سائ‬ ‫عقب ہ‪65................................................................................. .......................‬‬ ‫مصر کا بحری سفر‪68..................................................................................... .‬‬ ‫جزیر ہ نما سینا‪74........................................................................ ...................‬‬ ‫قا ہر ہ‪106................................................................................................... ...‬‬ ‫اسکندری ہ‪126............................................................................ ....................‬‬ ‫مصر س ے سعودی عرب براست ہ اردن‪130........................................ .....................‬‬

‫‪3‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫دیباچ ہ‬ ‫سفر میرا شوق ہے۔ میں ہمیش ہ س ے سفر کرن ے میں خاصا لطف اندوز ہوتا ہوں ۔ دوران‬ ‫سفر انسان اپنی روزمرہ کی زندگی سے نکل کر فطری زندگی کی طرف لوٹتا ہے۔ شہر‬ ‫کی مصنوعی زندگی کی نسبت ہرے بھرے پہاڑوں‪ ،‬سر سبز و شاداب کھیتوں‪ ،‬لق و دق‬ ‫صحراؤں‪ ،‬شوریدہے دریاؤں‪ ،‬نیلےے ساحلوں‪ ،‬اور پر سکون جھیلوں کی زندگی میرےے لئے‬ ‫بہ ت کشش کی حامل ہے۔ رب کریم کی بنائی ہوئی ی ہ دنیا انسانوں کی بنائی ہوئی دنیا‬ ‫س ے بہ ت مختلف ہے۔ اس میں ایک سکون ہے جو ہ ر صاحب ذوق کو اپنی طرف متوجہ‬ ‫کرتا ہے۔‬ ‫صرف یہی نہیں بلکہ سفر میں انسان دوسرے علقوں کے رہنے والے انسانوں سے بھی‬ ‫ملتا جلتا ہے۔ے ان کےے رسم و رواج‪ ،‬قوانین‪ ،‬رہ ن سہن‪ ،‬لئف اسٹائل اور لین دین کے‬ ‫طریقوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آثار قدیمہ کے مطالعے سے قدیم دور کے انسان کی‬ ‫زندگی کے انہی پہلوؤں سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ اس سب میں سیکھنے کے بہت سے‬ ‫پہلو ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی عملی زندگی میں کام آتے ہیں۔ شاید اسی لئے کہا جاتا‬ ‫ہے کہ سفر وسیلہ ظفر۔‬ ‫زیر نظر سفر نام ہ میر ے ان اسفار کی روداد ہے ‪ ،‬جو سعودی عرب میں دوران قیام‬ ‫میں ن ے دنیائ ے عرب ک ے مختلف حصوں کی طرف کئے۔ مجھے ان جگہوں کو دیکھن ے کا‬ ‫جنون کی حد تک شوق تھ ا جہاں رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ وسلم ن ے اپنی زندگی بسر‬ ‫فرمائی ۔ ان مقامات ک ے علو ہ میں ن ے ی ہ بھ ی کوشش کی ک ہ ان مقامات کو بھ ی دیکھا‬ ‫جائے جن کا ذکر قرآن مجید اور بائبل میں کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد حضور صلی اللہ علیہ‬ ‫وسلم س ے پہل ے ک ے انبیاء کرام علیہ م الصلو ۃ والسلم کی دعوتی زندگی کا مطالع ہ کرنا‬ ‫تھا۔‬ ‫میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ان مقامات سے متعلق قرآنی آیات‪ ،‬احادیث اور بائبل کی‬ ‫آیات ک ے حوال ے بھ ی سات ھ ہ ی فراہ م کر دوں تاک ہ و ہ لوگ جو میری طرح ی ہ شوق رکھتے‬ ‫ہوں‪ ،‬اس س ے استفاد ہ کر سکیں ۔ مزید برآں ان مقامات ک ے سیٹلئٹ نقش ے بھ ی فراہم‬ ‫کرن ے کی کوشش کی گئی ہے تاک ہ بعد میں ان مقامات کی سیاحت کرن ے وال ے آسانی‬ ‫سے انہیں تلش کر سکیں ۔ اس کے لئ ے میں گوگل ارتھ کا شکر گزار ہوں ۔ اس کوشش‬ ‫میں میں کتنا کامیاب ہوا ہوں‪ ،‬اس کا اندازہ آپ کے تاثرات سے ہوگا۔‬ ‫محمد مبشر نذیر‬

‫‪4‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫روانگی برائ ے اردن‬ ‫سعودی عرب میں رسول اللہے صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم کی سیرت طیبہے سےے متعلق‬ ‫سائٹس کا میرا سفر مکمل ہو چکا تھا۔ اب میرا ارادہ تھا کہ سابقہ انبیاء کرام بالخصوص‬ ‫بنی اسرائیل کی جانب مبعوث کیےے جانےے والےے انبیاء کرام علیہم السلم سےے متعلق‬ ‫سائٹس کا سفر کیا جائے۔ اس کے علوہ بحیرہ مردار اور اہرام مصر دیکھنے کی خواہش‬ ‫بھ ی شدید تھی ۔ ان سب عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اردن اور مصر کے سفر‬ ‫کا ارادہ کیا۔‬

‫اردن اور مصر کا راست ہ‬ ‫اس سفر کی تیاری میں نے چھ ماہ قبل ہی شروع کر دی۔ اس معاملے میں دفتر کے ایک‬ ‫کولیگ احمد نادر امام س ے مجھے بہ ت س ے ضروری معلومات حاصل ہوئیں ۔ احمد مصر‬ ‫کےے رہنےے والےے ہیں اور متعدد مرتبہے بذریعہے سڑک جدہے سےے قاہرہے جا چکےے ہیں۔ے انہوں نے‬ ‫مجھےے ایک اور کولیگ محمد فہیم سےے بات کرنےے کےے لئےے کہ ا کیونکہے فہیم گزشتہے سال‬ ‫بذریعہ سڑک قاہرہ گئے تھے‪ ،‬اس لئے ان سے تازہ ترین معلومات ملنے کا امکان تھا ۔ جب‬ ‫میں نےے فہیم سےے بات کی تو وہے بڑےے شرمندہے ہوئے۔ے کہنےے لگے ‪" ،‬واللہ ! مجھےے مصر کے‬ ‫راست ے ک ے بار ے میں کچ ھ معلوم نہیں ۔ پچھل ے سال میں ن ے تو ایک دوست کی گاڑی کے‬ ‫پیچھے اپنی گاڑی لگائی تھی ۔ مجھے نہیں معلوم و ہ کن کن راستوں س ے گزار کر مجھے‬ ‫قاہر ہ ل ے گیا۔ " واضح رہے ک ہ جد ہ س ے قاہر ہ کا فاصل ہ کم و بیش ‪ 1600‬کلومیٹر تھا ۔ اردن‬ ‫کے بارے میں معلومات فلسطینی اردنی دوستوں رامی اور اسماعیل سے حاصل کیں۔‬ ‫میں نے گوگل ارتھ کے ذریعے اردن اور مصر کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ایک ایک سائٹ کے‬ ‫بار ے میں انٹرنیٹ ک ے ذریع ے ضروری معلومات حاصل کیں ۔ سڑکوں ک ے نیٹ ورک اور‬ ‫نقشوں کو سمجھا۔ے مصر اور اردن کےے سفارتخانوں سےے ویزا کےے بارےے میں معلومات‬ ‫حاصل کیں اور سفر کا پکا ارادہ کر لیا۔‬

‫ویزا پراسیسنگ اور کاغذات کی تیاری‬ ‫جب میں ویزا حاصل کرنے مصر کے سفارتخان ے گیا تو کاؤنٹر پر ایک نہایت ہ ی نستعلیق‬ ‫صاحب تشریف فرما تھے۔ پاکستانی پاسپورٹ دیک ھ کر و ہ کچ ھ جھجھک ے لیکن پھ ر میرا‬ ‫سعودی اقام ہ اور کمپنی کا لیٹر دیکھن ے ک ے بعد انہوں ن ے صرف دس منٹ میں ویزا لگا‬ ‫کر پاسپورٹ میر ے حوالے کر دیے۔ اردن کے سفارتخانے میں ایک مظلوم صورت صاحب‬ ‫موجود تھے جن کی کوشش تھی کہ کوئی ویزا حاصل نہ کر پائے۔ مجھے کہنے لگے اگر آپ‬ ‫ٹورسٹ ویزا چاہتے ہیں تو اپنی ایمبیسی سے لکھوا کر لئیے اور اگر ٹرانزٹ ویزا چاہیے تو‬ ‫میں ابھی لگا دیتا ہوں۔ ٹرانزٹ ویزا تین دن کا ہوتا ہے جو اردن کی سیاحت کے لئے کافی‬ ‫تھا اس لئے میں نے اسی پر اکتفا کیا۔‬ ‫اس ک ے بعد اگل مرحل ہ گاڑی ک ے لئ ے ٹرپ ٹکٹ بنوانا تھ ا جس کی حیثیت گاڑی کے‬ ‫پاسپورٹ کی ہوتی ہے۔ اس ک ے لئ ے سعودی عرب میں مختلف ایجنسیاں موجود ہیں۔‬ ‫میں ایک ایجنسی ک ے دفتر گیا جنہوں ن ے ضروری کاغذات ل ے کر پندر ہ منٹ میں ٹرپ‬ ‫ٹکٹ مع انٹرنیشنل ڈرائیونگ لئسنس کے میرے حوالے کر دی۔ اب ہم سفر کے لئے قانونی‬ ‫طور پر بالکل تیار تھے۔‬ ‫‪5‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫حال ۃ عمار‬ ‫جد ہ سےے اردن جان ے ک ے دو راست ے ہیں ۔ ایک تو کوسٹل ہائی و ے کا راستہے ہےے جو بحیرہ‬ ‫احمر ک ے سات ھ سات ھ ینبع‪ ،‬الوجہ ‪ ،‬ضباء‪ ،‬البدع اور حقل س ے ہوتی ہوئی سیدھ ی اردن کے‬ ‫شہ ر عقب ہ تک جاتی ہے۔ دوسری سڑک مدینہ ‪ ،‬خیبر‪ ،‬تیماء اور تبوک سے ہوتی ہوئی اردن‬ ‫ک ے شہ ر معان اور پھ ر دارالحکومت عمان تک جاتی ہے۔ ہمیں چونک ہ خیبر‪ ،‬مدائن صالح‬ ‫اور تبوک کا سفر کرنا تھا‪ ،‬اس لئے ہم نے موخر الذکر کا انتخاب کیا۔‬ ‫تبوک تک کے سفر کے حالت آپ پہلے حصے میں پڑھ چکے ہیں۔ اس لئے اب اس سے‬ ‫آگ ے کی سنیے۔ تبوک میں مسجد رسول س ے نکل کر ہ م اردن جانے والی شاہرا ہ پر آئے۔‬ ‫اردن کا بارڈ ر یہاں سےے ‪ 90‬کلومیٹر ک ے فاصل ے پر تھ ا جو ہ م نےے ‪ 45‬منٹ میں ط ے کیا۔‬ ‫سعودی عرب کا آخری قصبہ "حال ۃ عمار" تھ ا جو بالکل سرحد پر واقع تھا۔ یہاں ساسکو‬ ‫کا ریسٹ ایریا بنا ہوا تھا۔‬ ‫ہم پچھلے دو دن سے حالت سفر میں تھے۔ یہاں میں نے لباس تبدیل کیا اور گاڑی میں‬ ‫پیٹرول کی ٹنکی فل کروائی ۔ اردن میں پیٹرول سعودی عرب کی نسبت چ ھ گنا مہنگا‬ ‫تھا‪ ،‬اس لئےے میں نےے دو کینیں خرید کر اس میں بھ ی پیٹرول بھروا لیا اور گاڑی کی‬ ‫ضروری صفائی بھ ی کروا لی ۔ ساسکو ک ے سری لنکن ملزم ن ے نہایت خوشدلی س ے یہ‬ ‫خدمات انجام دیں۔ اہل سری لنکا کی خوبی یہ ہے کہ یہ لوگ مزاج کے بہت اچھے ہوتے ہیں۔‬ ‫غریب ممالک میں شاید سری لنکن دنیا کی سب سے مہذب قوم ہے۔‬

‫بار ڈر کراسنگ‬ ‫اب بارڈر کراس کرنے کی باری تھی۔ سعودی بارڈر پر تو ہمیں گاڑی سے اترنا ہی نہ پڑا۔‬ ‫کسٹم اور امیگریشن کے لئے کھڑکیاں تھیں۔ گاڑی ان پر روک کر کاغذات پکڑائے اور ان‬ ‫صاحبان نے ضروری کاروائی کے بعد وہیں واپس کر دیے۔‬ ‫مغرب کا وقت تھا ۔ یہاں جدہ سے ایک گھنٹ ے کا فرق پڑ چکا تھ ا اور نماز مغرب شام‬ ‫آٹھے بجےے ادا ہو رہی تھی۔ے آخری کھڑکی پر موجود صاحبان اندر باجماعت نماز میں‬ ‫مصروف تھے۔ میں بھ ی گاڑی س ے اتر کر ان ک ے سات ھ جماعت میں شریک ہ و گیا ۔ نماز‬ ‫س ے فارغ ہ و کر انہوں ن ے جلدی س ے اپنی کاروائی مکمل کی اور "مع السلمۃ " کہہ کر‬ ‫رخصت کیا۔‬

‫پاکستانیت‪ ،‬داڑ ھی اور د ہشت گردی‬ ‫اردن ک ے کسٹم وال ے نہایت ہ ی خوش اخلق نکلے۔ پیٹرول دیک ھ کر کہن ے لگ ے ک ہ اس کی‬ ‫اجازت نہیں ہے لیکن کوئی مسئلہ نہیں آپ لے جائیں۔ گاڑی ایک طرف روک کر ہم تفتیش‬ ‫کے لئے امیگریشن کاؤنٹر پر گئے اور امیگریشن آفیسر کو اپنے پاسپورٹ پیش کیے۔ ایک‬ ‫تو پاکستانی پاسپورٹ اور اوپر سے میری داڑھی!!! ان صاحب کا "تراہ" نکل گیا‪ ،‬سرخ‬ ‫رنگ زرد پڑ گیا اوران کےے ہاتھوں کےے طوطےے اڑ گئے۔ے میرےے ساتھے اہلیہے اور بچی کے‬ ‫پاسپورٹ دیک ھ کر انہیں کچ ھ حوصل ہ ہوا ۔ کہن ے لگے ‪" ،‬آپ ذرا انتظار کیجیے۔ " تھوڑی دیر‬ ‫میں ان کے باس آئے اور مجھے اکیلے میں اندر بل لیا اور اس کے بعد ایک طویل انٹرویو‬ ‫شروع کر دیا۔ میں نے انہیں عربی اور انگریزی میں چھپا اپنا بزنس کارڈ پیش کیا۔ بالخر‬ ‫و ہ مطمئن ہوئ ے اور ہمار ے پاسپورٹوں پر مہریں لگا کر ہمیں جان ے کی اجازت د ے دی۔‬ ‫شاید اس مقام سے اردن میں داخل ہونے وال میں پہل پاکستانی ہوں گا۔‬ ‫‪6‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اسےے ہماری بدقسمتی کہیےے یا ہماری سابقہے اور موجودہے حکومتوں کی غلط حکمت‬ ‫عملی کہ پاکستان کا نام دہشت گردی اور اسمگلنگ سے اس طرح منسلک ہو چکا ہے کہ‬ ‫دنیا بھر میں پاکستانیوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد ہمارے‬ ‫بعض مذہبی گروپوں کا رویہ جن کے نتیجے میں دین اسلم اور داڑھی جیسی فطری چیز‬ ‫کا تعلق دہشت گردی جیسے جرم سے جوڑ دیا گیا ہے۔‬ ‫داڑھی مرد کی فطرت ہے اور قدیم ادوار سے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے مرد‬ ‫بل امتیاز داڑھ ی رکھت ے آئ ے ہیں ۔ ی ہ مردانگی کی علمت ہے اور اس کا برا ہ راست تعلق‬ ‫خالص مردانہ ہارمونز سے ہے۔ اہل مغرب نے جہاں انسانی فطرت کے بعض اور رویوں کو‬ ‫مسخ کیا ہے وہاں داڑھ ی منڈوان ے کا فیشن بھ ی دنیا میں عام کر ک ے انسانی فطرت پر‬ ‫تیشہ چلیا ہے۔ اگرچ ہ ہمارے فیصل آباد وال ے یہ ی تصور مونچھوں کے بارے میں رکھت ے ہیں‬ ‫اور "جدی موچھ نہیں او کچھ نہیں" کا راگ الپتے ہیں۔‬ ‫امیگریشن کے بعد ہم ن ے ‪ Third Party Liability Insurance‬حاصل کی اور کسٹم والوں‬ ‫سے گاڑی کا اندراج کروا کے اردن میں داخل ہوئے۔ اردن اور سعودی عرب کے وقت میں‬ ‫ایک گھنٹے کا فرق ہے لیکن ان کے ہاں گرمیوں میں وقت کو ایک گھنٹا آگے کر لیا جاتا ہے‬ ‫جس کے باعث ان دنوں وہاں پر بھ ی وہ ی وقت تھ ا چنانچ ہ ہمیں گھڑیوں سے چھیڑ چھاڑ‬ ‫کی ضرورت محسوس ن ہ ہوئی ۔ اب اندھیرا چھ ا چکا تھ ا اور ہ م لوگ ایک سنگل رو ڈ پر‬ ‫سفر کر رہے تھے۔ سعودی روڈ کے مقابلے میں اس روڈ کی کوالٹی سے ہی لگ رہا تھا کہ‬ ‫ہم اب نسبتا ً غریب ملک میں آ گئے ہیں۔ یہ احساس آگے جا کر اردن کی "کنگ ہائی وے"‬ ‫دیکھ کر مزید پختہ ہوا۔‬

‫معان اور مینگور ہ‬ ‫سوا گھنٹے میں ہم لوگ معان پہنچ گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ شہر میں گزرتے ہوئے‬ ‫ایسا لگا جیسے ہم مینگورہ کے بازاروں میں سے گزر رہے ہیں۔ ویسا ہی بازار‪ ،‬وہی شکل‬ ‫و صورتیں اور ویس ے ہ ی لوگوں ک ے چہروں ک ے تاثرات ۔ ہ م لوگ دن کو بار ہ بج ے مدائن‬ ‫صالح سے نکلے تھے اور اب رات کے دس بج رہے تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ رات یہیں گزار‬ ‫لی جائے۔‬ ‫ایک صاحب س ے ہوٹل کا پوچھا ۔ و ہ میری شکل دیک ھ کر پوچھنےے لگے ‪' ،‬باکستانی؟'۔‬ ‫میں ن ے اثبات میں سر ہلیا تو بڑ ے تپاک س ے ملے۔ کہن ے لگ ے مجھے پاکستانی بہ ت پسند‬ ‫ہیں ۔ آپ میر ے گھ ر چلیے۔ میں ن ے ان کا شکری ہ ادا کیا ۔ و ہ ہمیں ایک ہوٹل تک چھوڑ گئے‬ ‫لیکن اس کا ماحول کچھے پسند نہے آیا۔ے یہے ویسا ہی ہوٹل تھا جیسا کہے ہمارےے ہاں ٹرک‬ ‫ڈرائیوروں کے لئے ہوٹل ہوتے ہیں۔‬ ‫ً‬ ‫میں نےے ایک دکاندار سےے کسی نسبتا صاف ستھرےے ہوٹل کا پوچھا۔ے وہے بھ ی میری‬ ‫پاکستانیت پر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے‪" ،‬یہاں آپ کو اسی قسم کے ہوٹل ملیں گے۔‬ ‫بہتر ہے آپ پیٹرا کے قریب وادی موسی چلے جائیں جو صرف چالیس کلومیٹر کے فاصلے‬ ‫پر ہے۔" میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ پیٹرا یہاں سے اس قدر نزدیک‬ ‫ہے ورنہ ہماری منزل تو پیٹرا ہی تھا۔‬ ‫اب ہم عمان عقبہ کنگ ہائی وے پر آ گئے جس کے مقابلے میں ہماری جی ٹی روڈ ہزار‬ ‫درج ے بہتر تھی ۔ کافی دور جا کر احساس ہوا ک ہ چالیس کلومیٹر پور ے ہ و گئ ے ہیں اور‬ ‫ابھی تک پیٹرا کا ایگزٹ نہیں آیا۔ روڈ کے کنارے کچھ گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ میں یہاں رک‬ ‫کر پیٹرا کا راستہ معلوم کرنے گیا تو ایک صاحب قالین بچھائے مزے سے محو خواب تھے‬ ‫‪7‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اور ان کی اہلیہ بچوں سمیت پاس ہ ی بیٹھ ی تھیں ۔ میں نے ان س ے راستہ دریافت کیا تو‬ ‫ان کے خاوند اٹھ گئے۔ کہنے لگے‪" ،‬آپ کافی آگے آ گئے ہیں‪ ،‬بہتر ہے اب سیدھے چلے جائیے‪،‬‬ ‫دس کلومیٹر ک ے بعد پیٹرا کا ایک اور راست ہ آئ ے گا۔ " مرت ے کیا ن ہ کرتے ‪ ،‬چل پڑے۔ دس‬ ‫کلومیٹر کے بعد واقعی ایگزٹ آ گیا اور ہم شوبک کے راستے پیٹرا پہنچ گئے۔ دراصل معان‬ ‫سے براہ راست پیٹرا آنے والی سڑک اندر اندر سے آتی ہے اور اس سے فاصلہ ‪ 50‬کلومیٹر‬ ‫کم ہو جاتا ہے لیکن اس پر کوئی بورڈ وغیرہ موجود نہ تھے۔‬ ‫ہم اب اتنا تھ ک چکے تھے کہ جو پہل ہوٹل نظر آیا‪ ،‬اس میں قیام کر لیا ۔ موسم خاصا‬ ‫سرد تھا۔ بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا کیونکہ یہاں نہ تو ائر کنڈیشنر تھ ا اور نہ ہی‬ ‫پنکھ ا جس ک ے نتیج ے میں ساری رات مچھ ر ہماری تواضع کرت ے رہے لیکن تھکاوٹ کے‬ ‫باعث نیند پھر بھی ڈٹ کر آئی۔‬

‫‪8‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫پیٹرا‬ ‫اگلی صبح اٹھ کر ہم لوگ بغیر ناشتہ کئے پیٹرا کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہمارا ارادہ تھا‬ ‫کہ دھوپ تیز ہونے سے قبل ہی پیٹرا کو دیکھ لیا جائے۔ ناشتہ تو بعد میں بھی ہو سکتا ہے۔‬ ‫راست ے ک ے لئ ے ہلک ے پھلک ے بسکٹ اور کول ڈ ڈرنکس لئ ے اور پیٹرا سائٹ کی طرف چل‬ ‫پڑے۔ے پیٹرا کا ٹکٹ خاصا مہنگا یعنی ‪ 21‬اردنی دینار (تقریبا ً ‪ 1700‬پاکستانی روپے ) فی‬ ‫کس تھا ۔ مغربی سیاح بھ ی جوق در جوق پیٹرا سائٹ کی طرف آ رہے تھے۔ سالنہ کئی‬ ‫لکھ افراد پیٹرا کی سیاحت کے لئے آتے ہیں ۔ ‪ 2007‬میں دنیا کے سات نئے عجائب کی جو‬ ‫فہرست تیار ہوئی ہے اس میں پیٹرا بھی شامل ہے۔‬ ‫پیٹرا دراصل نبطی قوم کا دارالحکومت تھا۔ قوم ثمود سے شروع ہونے وال چٹانوں کو‬ ‫تراشنےے کا آرٹ نبطیوں کےے دور میں کافی ترقی کر گیا۔ے سید ابوالعلی مودودی کی‬ ‫تحقیق کے مطابق یہ فن ایلورا میں اپنے کمال کو پہنچا۔ مدائن صالح اور پیٹرا کی تراشی‬ ‫ہوئی چٹانوں میں واضح فرق نظر آتا ہے جو کسی بھ ی فن کی ابتدائی اور ترقی یافتہ‬ ‫شکلوں کو ظاہر کرتا ہے۔‬ ‫ً‬ ‫سید ابوالعلی مودودی صاحب انہ ی راستوں پر مجھے سےے تقریبا پچاس برس قبل‬ ‫گزرےے تھے۔ے وہے ایک عالم دین‪ ،‬صحافی‪ ،‬مفکر اور سیاستدان ہونےے کےے علوہے تاریخی‬ ‫مقامات ک ے سیاح بھ ی تھے۔ انہوں نے اسی نقطہ نظر س ے ی ہ سیاحت کی تھ ی جس سے‬ ‫اب میں یہ سفر کر رہا تھا۔ مجھے ان کی افکار سے اگرچہ کسی حد تک اختلف ہے لیکن‬ ‫اپنا بزرگ ہون ے ک ے نات ے میں ان کا حد درج ہ احترام کرتا ہوں ۔ انسان کسی س ے کتنا ہی‬ ‫اختلف کیوں نہ کرے‪ ،‬اسے ادب و احترام اور دوسروں کی اچھی چیزیں قبول کرنے میں‬ ‫کسی تعصب کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔‬ ‫ہ م لوگ گیٹ س ے اندر داخل ہوئے۔ اب ہ م نیچ ے اتر رہے تھے۔ راست ے کو دونوں جانب‬ ‫پہاڑیوں کو کھود کر غاریں بنائی گئی تھیں جو مدائن صالح ک ے مقابل ے میں زیاد ہ ترقی‬ ‫یافتہے نہیں لگتی تھیں۔ے اب ہمارا گزر مدافن البراج (‪ ) Tower Tombs‬سےے ہ و رہ ا تھا۔ے یہ‬ ‫نبطیوں کے مقبرے تھے جن کے اوپر چٹانوں کو تراش کر ستون بنائے گئے تھے۔‬

‫السیق (‪)Siq‬‬ ‫کچھ دور جا کر پیٹرا کا پہاڑی راستہ (‪ )Canyon‬شروع ہو گیا۔ اس مقام پر نبطیوں نے ایک‬ ‫ڈیم بنایا تھا جس کے آثار اب نظر نہ آ رہے تھے۔‬ ‫اب ہمارے دونوں جانب پتھریلے پہاڑوں کے اونچ ے اونچ ے سلسل ے تھے اور درمیان میں‬ ‫محض آٹھ دس فٹ چوڑا راستہ تھ ا جس پر ہ م چل رہے تھے۔ یہ راستہ السیق ( ‪ )Siq‬کہلتا‬ ‫ہے۔ اتنے تنگ درے میں دھوپ بھی صحیح طور پر نہ پہنچ پا رہی تھی جس کے باعث ٹھنڈک‬ ‫کا احساس ہو رہا تھا۔ بہت سے لوگ گھوڑا گاڑیوں پر بھی جا رہے تھے جبکہ اکثریت پیدل‬ ‫ہی جا رہی تھی۔ یہ راست ہ ‪ 1200‬میٹر لمبا تھ ا اور اسے کے گرد پہاڑی چٹانیں سو میٹر تک‬ ‫بلند تھیں۔‬

‫واٹر چینل‬ ‫سیق پر سفر کرت ے ہوئ ے اچانک میری نظر پہاڑی چٹانوں کی جڑ میں موجود پانی کی‬ ‫نالی (‪ )Water Channel‬پر پڑی۔ پانی کی یہ نالی بھی چٹانوں کو تراش کر بنائی گئی تھی‬ ‫‪9‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جو نبطیوں کی انجینئرنگ کا شاہکار تھی ۔ اوپر موجود ڈیم میں بارش کا پانی اکٹھ ا کیا‬ ‫جاتا اور ان نالیوں ک ے ذریع ے نیچ ے پیٹرا شہ ر تک پہنچایا جاتا ۔ ی ہ چینل دو طرح ک ے تھے۔‬ ‫جنوبی چینل پہاڑ میں کھدی ہوئی نالی تھی جس پر کہیں کہیں پتھر کی سلیب ڈال کر بند‬ ‫کیا گیا تھا تاکہ پانی حرارت سے بخارات بن کر اڑ نہ جائے۔ قیاس یہ ہے کہ نبطیوں کے دور‬ ‫میں یہ پوری نالی ہی کورڈ ہوتی ہو گی۔ شمالی چینل میں باقاعدہ پائپ ڈال کر اس میں‬ ‫سے پانی گزارا گیا تھا۔ کہیں کہیں پانی کے یہ پائپ اب بھی محفوظ تھے۔‬ ‫چٹانوں کی بلندی پر متعدد مقامات پر طرح طرح ک ے نبطی آرٹ ک ے نمون ے موجود‬ ‫تھے۔ یہ سب چٹانوں میں کھدے ہوئے تھے۔ شاید نبطیوں ن ے کچھ ایس ے آلت ایجاد کر لئے‬ ‫تھے جن کی مدد سے وہ چٹانوں کو آسانی سے کھود ڈالتے تھے۔ سیق چٹانوں کے درمیان‬ ‫ایسا تنگ راستہ تھا جیسا کہ بعض ایڈونچر فلموں میں دکھائے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ تھا‬ ‫کہے ان فلموں میں ایسےے راستےے پانی کےے اندر ہوتےے ہیں جبکہے یہاں خشکی تھی۔ے بعض‬ ‫مقامات پر چٹانیں ایک دوسر ے کے اتن ے قریب تھیں کہ ی ہ ایک دوسر ے کو تقریبا ً مس کر‬ ‫رہی تھیں۔ بعض جگہ جہاں راستہ کچھ کھل تھا‪ ،‬وہاں دھوپ چٹانوں کے اوپر والے حصے پر‬ ‫پڑ کر نہایت ہی دلکش منظر پیش کر رہی تھی۔ بیچ میں ایک آدھ درخت بھ ی اگا ہوا تھا‬ ‫جو یقینا ً اردنی حکومت کا کارنامہ تھا۔‬

‫بلندی پر ک ھودی ہوئی غاریں‬ ‫بعض مقامات پر چٹانوں کی بلندی پر نبطیوں کی کھودی ہوئی غاریں بھی موجود تھیں۔‬ ‫اتنی بلندی پر غاریں کھودن ے کی یہ ی وج ہ میری سمجھے میں آئی ک ہ شدید بارشوں کے‬ ‫دوران سیق میں سیلب آ جاتا ہوگا اور بلندی پر موجود ان ک ے گھ ر محفوظ رہت ے ہوں‬ ‫گے۔ نیچ ے س ے اوپر جان ے ک ے لئ ے و ہ لوگ رسی یا لکڑی کی سیڑھ ی استعمال کرت ے ہوں‬ ‫گے۔‬ ‫ہمار ے سات ھ سات ھ مغربی سیاحوں کا ایک گروپ بھ ی چل آ رہ ا تھ ا جن ک ے سات ھ ایک‬ ‫عرب گائیڈ بھی تھا جو انگریزی اور فرنچ میں بڑی اچھی تقریر کرتا آ رہا تھا۔ پہلے تو میں‬ ‫نے ارادہ کیا کہ اس گائیڈ کی تقریر سے فائدہ اٹھایا جائے لیکن چونکہ ہم نے اسے کوئی رقم‬ ‫نہ دی تھی‪ ،‬اس لئے مجھے یہ فائدہ اٹھانا اچھا محسوس نہ ہوا۔ یہی معلومات میں انٹرنیٹ‬ ‫سے بھی حاصل کر سکتا تھا۔‬

‫نبطیوں کا خزان ہ (‪)Treasury‬‬ ‫سامنے سے کچھ مغربی سیاح آ رہے تھے۔ میں نے ان سے آگے کے متعلق دریافت کیا۔ لہجے‬ ‫سے یہ لوگ امریکی لگتے تھے۔ بڑی خوش اخلقی سے ملے۔ کہنے لگے کہ دو سو میٹر کے‬ ‫فاصلے پر "نبطیوں کا خزانہ (‪ " )Treasury‬ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جیسے ہی ہم‬ ‫وہاں پہنچے ‪ ،‬ایک نہایت ہ ی دلکش منظر ہمار ے سامن ے تھا ۔ نبطی آرٹ کا شاہکار‪ ،‬خزانے‬ ‫کی عمارت ہمارے سامن ے تھی ۔ پہاڑ کو ڈیڑھ سو فٹ کی بلندی تک اس خوبصورتی سے‬ ‫تراشا گیا تھ ا ستونوں پر مشتمل ایک نہایت ہ ی عالیشان گیٹ معرض وجود میں آ چکا‬ ‫تھا۔‬ ‫اس گیٹ کے دو حصے تھے۔ پہلی منزل تک یہ چھ ستونوں پر مشتمل تھا جس کے بعد‬ ‫ویسا ہی تکون نما ڈیزائن بنا ہوا تھا جیسا کہ زیارت میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کا ہے۔‬ ‫اس ک ے اندر بھ ی مختلف مجسم ے کنداں تھے۔ دوسری منزل پر پھ ر چ ھ ستون تھے جن‬ ‫کےے درمیان طرح طرح کےے مجسمےے کھدےے ہوئےے تھے۔ے کنارےے والےے ستونوں کےے اوپر دو‬ ‫‪10‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مثلثیں بنائی گئی تھیں اور درمیان وال ے دو ستونوں ک ے اوپر ایک بہ ت بڑ ے شاہ ی تاج کا‬ ‫ماڈل بنایا گیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ تمام ستون اور آرٹ کے نمونے 'بنائے' نہیں بلکہ‬ ‫'تراشے ' گئ ے تھے۔ے پہاڑی چٹان کو اس خوبصورتی سےے تراشا گیا تھ ا کہے یہے پورا شاہکار‬ ‫معرض وجود میں آیا تھا۔ ہم لوگ نبطیوں کے اس شاہکار کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔‬ ‫خزانے کی عمارت کے نیچے ایک تہہ خانہ بھی بنا ہوا تھا جو کہ بند تھا۔ اس عمارت کے‬ ‫بار ے میں غالب گمان ی ہ ہے ک ہ ی ہ نبطیوں ک ے اسٹیٹ بنک کی عمارت تھی ۔ شاہ ی خزانہ‬ ‫اس عمارت میں جمع کیا جاتا ۔ اب ہ م اندر کی طرف چلے۔ اندر ایک بڑا ہال تھ ا جو کہ‬ ‫مدائن صالح کی اندرونی عمارات سےے مشابہے تھا۔ے یہاں اندر جانا ممنوع تھا۔ے میں نے‬ ‫دروازے پر ہی کھڑے ہو کر اندر کی تصاویر لیں۔ بہت سے مقامات پر ترشی ہوئی چٹانوں‬ ‫کے مختلف شیڈ نمایاں ہو رہے تھے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کو یاد دل رہے تھے۔‬ ‫دروازے کے گارڈ بہت ہی خوش اخلق تھے۔ میں نے ایک گارڈ سے پیٹرا کے متعلق کچھ‬ ‫معلومات حاصل کیں۔ مغربی سیاح ان کے ساتھ کھڑے ہو ہو کر تصاویر بنوا رہے تھے۔ ایک‬ ‫آنٹی نے ایک گارڈ کو زبردستی اپنے ساتھ چمٹا کر تصویر بنوائی۔ وہ صاحب بہت کھسیانے‬ ‫ہوئے۔ سب لوگوں نے اس منظر کو خوب انجوائے کیا ۔ کوئی جوان عورت ایسا کرتی تو‬ ‫شاید و ہ صاحب کچ ھ خوش بھ ی ہوتے ‪ ،‬لیکن اب ان ک ے حص ے میں سوائ ے کھسیاہ ٹ کے‬ ‫کچھ نہ آیا۔‬

‫نبطیوں کا قدیم بازار‬ ‫خزانے کی عمارت ک ے باہ ر نبطیوں کا قدیم بازار لگایا گیا تھا ۔ یہ مقامی لوگ تھے جنہیں‬ ‫نبطیوں ک ے لباس پہنا کر کھڑا کیا گیا تھا ۔ ہ ر طرف اونٹ بیٹھے تھے اور مختلف چیزوں‬ ‫کی دکانیں لگی ہوئی تھیں۔ زیادہ تر دکانیں زمین پر تھیں۔ مرد اور خواتین نبطی لباسوں‬ ‫میں سامان بیچ رہے تھے۔ ایک طرف چائ ے کا ہوٹل بھ ی تھ ا جہاں قدیم ہوٹلوں ک ے انداز‬ ‫میں آگ جلئی گئی تھی۔ے یہاں پہنچ کر ہ م خود کو دو ہزار برس قبل کےے زمانےے میں‬ ‫محسوس کر رہے تھے۔ بعض لوگ ان ک ے فوجیوں کا لباس پہنے ‪ ،‬سر پر خود رکھے اور‬ ‫نیزے اور ڈھالیں اٹھائے کھڑے تھے۔ مغربی سیاح ان کے ساتھ بھی کھڑے ہو کر تصاویر بنوا‬ ‫رہے تھے۔‬

‫ممر الواج ھات (‪)Street of Facades‬‬ ‫خزانے کی عمارت کے سامنے ایک اور عمارت تھی جس پر عام انداز میں آرٹ کا مظاہرہ‬ ‫کیا گیا تھا۔ آگے چلے تو ایک کھلی وادی ہمارے سامنے تھی۔ اس وادی میں پہاڑ پر اوپر تلے‬ ‫بے شمار مکانات کھدے ہوئے تھے۔ یہ نبطیوں کا کوئی محلہ لگ رہا تھا۔ اس جگہ کو "ممر‬ ‫الواجھات (‪ ")Street of Facades‬کا نام دیا گیا تھا۔اس جگہے ایک دو منزلہے عمارت کھدی‬ ‫ہوئی تھی ۔ اس کی اوپر والی منزل ک ے بار ے میں لکھ ا تھ ا ک ہ ی ہ جگ ہ مزدوروں ک ے آلت‬ ‫اسٹور کرنے کے کام آتی تھی بعد میں یہاں چور ڈاکوؤں نے ڈیرا بنا لیا۔‬ ‫کھلی وادی میں کچھ دکانیں بھی بنی ہوئی تھیں جن پر نبطیوں کے دور کی اشیا کی‬ ‫نمائش کی گئی تھی۔ے یہاں دکانیں عرب بدوؤں کی ملکیت تھیں جو عربی کےے علوہ‬ ‫انگریزی اور فرنچ سےے بھ ی اچھ ی طرح واقف تھے۔ے میں نےے ایک دکان کےے مالک سے‬ ‫اشیاء کی تصاویر بنانےے کی اجازت چاہی۔ے و ہ کہنےے لگے ‪" ،‬آپ بہ ت ڈیسنٹ آدمی معلوم‬ ‫ہوتے ہیں ورنہ اس کی کوئی اجازت نہیں لیتا۔" اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اشیاء کے بارے‬ ‫میں بریف کرنا شروع کیا ۔ ی ہ تمام اشیاء اردن اور چین میں بنی ہوئی تھیں اور نبطی‬ ‫‪11‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫تہذیب کی نمائش کے لئے یہاں رکھی گئی تھیں۔ مجھے یہ صاحب بہت دیانتدار معلوم ہوئے‬ ‫ورن ہ عموما ً ایس ے مقامات پر لوگ ان چیزوں کو اوریجنل کہہ کر سیاحوں کو ب ے وقوف‬ ‫بناتے ہیں۔‬ ‫ان اشیاء میں نبطیوں کے دور کے اوزار‪ ،‬مجسمے‪ ،‬برتن اور زیورات شامل تھے۔ دکان‬ ‫ک ے مالک کی فرمائش پر میں ان کی دکان کا نام بھ ی لک ھ رہ ا ہوں – ‪The Flints Tones‬‬ ‫‪Bedoiun Accessories & More‬۔ انہوں نے جب مجھ سے اتنا تعاون کیا تو میرا بھی اخلقی‬ ‫فرض بنتا ہے کہ میں ان کی فرمائش پوری کروں۔‬

‫پیٹرا کا اسٹی ڈیم یا ت ھیٹر‬ ‫ممر الواجھات کے قریب ہی پیٹرا کا اسٹیڈیم بھی تھا۔ یہ رومی طرز کا نصف دائرے کی‬ ‫شکل کا اسٹیڈیم ہے جو رومن تھیٹر کہلتا ہے۔ یہاں ان ک ے کھیل کود اور تفریح ک ے دیگر‬ ‫پروگرام ہوت ے ہوں گے۔ اسٹیڈیم کی سیڑھیاں بھ ی چٹانوں کو تراش کر بنائی گئی تھیں۔‬ ‫اس کے بعد شاہ ی محل تھا ۔ جس کے وسیع درواز ے پر ستون بنائ ے گئ ے ہیں اور مختلف‬ ‫دیوی دیوتاؤں کے بت تراشے گئے ہیں۔‬

‫نبطیوں کی تاریخ‬ ‫آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہے کہ نبطیوں کی کچھ تاریخ بیان کر دی جائے تاکہ قارئین کے ذہن‬ ‫میں کوئی اشکال وارد نہ ہو۔ نبطی ایک تعلیم یافتہ قوم تھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان‬ ‫کا اپنا لکھا ہوا کوئی تحریری ریکارڈ اثری تحقیقات کے نتیجے میں سامنے نہیں آیا۔ ان کی‬ ‫تاریخ کے بارے میں زیادہ تر ریکارڈ ان کی معاصر اقوام سے ہی ملتا ہے۔ نبطیوں کے بارے‬ ‫میں ایک ویب سائٹ ‪ www.nabataea.net‬بھ ی انٹرنیٹ پر موجود ہے جس پر ان کے بارے‬ ‫میں اب تک میسر تمام معلومات دستیاب ہیں۔‬ ‫قدیم یہودی مورخ جوزیفس ک ے مطابق‪ ،‬نبطی سیدنا اسماعیل علی ہ الصلو ۃ والسلم‬ ‫کی اولد میں سے تھے۔ یہ لوگ شمالی عرب میں آباد ہوئے۔ اس دور میں دوسری قومیں‬ ‫اپنی فوج ک ے بل پر سلطنتیں قائم کیا کرتی تھیں ۔ نبطیوں ن ے اس ک ے بالکل برعکس‬ ‫تجارتی بنیادوں پر اپنی سلطنت قائم کی۔ انہوں نے تجارت کو اتنا فروغ دیا کہ ایک وسیع‬ ‫و عریض سلطنت کی بنیاد رکھی جو موجودہ دور کے اردن سے لے کر سعودی عرب کے‬ ‫مشرقی اور عراق کے جنوبی حصے سے ہوتی ہوئی حضر موت اور یمن تک پھیلی ہوئی‬ ‫تھی۔‬ ‫سیدنا یوسف علیہے الصلو ۃ والسلم کو جو قافل ہ اپنےے سات ھ مصر ل ے گیا تھا‪ ،‬اس کے‬ ‫بارےے میں بھ ی یہ ی مشہور ہےے کہے وہے نبطیوں کا ایک قافلہے تھا۔ے بائبل نےے بھ ی اسےے بنی‬ ‫اسماعیل کا قافلہ قرار دیا ہے۔ نبطیوں کا عروج اس زمانے میں ہوا جب اسکندر اعظم (‬ ‫‪ ) Alexander the Great‬یونانی سلطنت کی بنیاد رک ھ رہ ا تھا ۔ نبطیوں کی سب س ے بڑی‬ ‫طاقت علم تھی ۔ ان ک ے ایڈونچر پسندوں ن ے بہ ت س ے بّری اور بحری راستوں کا کھوج‬ ‫لگا کر انہیں تجارت میں استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔‬ ‫اس دور میں جب معروف تجارتی راستوں پر ایسے قبائل قابض تھے جو لوٹ مار کیا‬ ‫کرتےے تھے ‪ ،‬نبطیوں نےے نئےے محفوظ راستےے دریافت کیے۔ے انہوں نےے کوئی ایسی ٹیکنیک‬ ‫دریافت کی جس کے مدد سے وہ پانی کا ذخیرہ اسٹور کر کے اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے۔‬ ‫اس صلحیت نے انہیں راستے میں موجود پانی کے ذخائر سے بے نیاز کر دیا جن پر لوٹ‬ ‫مار کرنے والے قبائل کا قبضہ تھا۔‬ ‫‪12‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اس دور میں بنی اسرائیل زوال پذیر ہو چکے تھے اور ان کی دو بڑی سلطنتیں یہودا‬ ‫اور اسرائیل نبوکد نضر کے حملوں کے باعث تباہ ہ و چکی تھیں ۔ موجود ہ اردن کے علقے‬ ‫پر ادومیوں (‪ )Edomites‬کا قبض ہ ہو چکا تھ ا جو کہ سیدنا یعقوب علیہ الصلو ۃ والسلم کے‬ ‫بھائی عیسو علیہے الرحمۃے کی اولد تھے۔ے عیسو کی شادی سیدنا اسماعیل علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم کی بیٹی س ے ہوئی تھی ۔ غالبا ً اسی رشت ے ک ے باعث نبطیوں ک ے ادومیوں سے‬ ‫اچھے تعلقات تھے اور انہوں نے ادومیوں کے دارالحکومت "بُشیرہ" جو کہ اردن کے موجودہ‬ ‫قصبے "طفیلہ" کے جنوب میں واقع تھا‪ ،‬کو بنیاد بنا کر پیٹرا کی بنیاد رکھی۔‬ ‫نبطیوں ن ے اپن ے دور میں ارد گرد کی رومی اور مصری سلطنتوں س ے اچھے تعلقات‬ ‫رکھے۔ے یہے لوگ چونکہے عرب کےے صحرائی راستوں سےے واقف نہے تھےے اس لئےے انہوں نے‬ ‫نبطیوں کو تجارت کی آزادی دیےے رکھی ۔ نبطیوں ک ے بار ے میں ایک اچھ ی بات ی ہ بھی‬ ‫ملتی ہے کہ ان میں کسی قدر جمہوری نظام بھی موجود تھا۔ ان کی دعوتوں میں بادشاہ‬ ‫اپنا کھانا خود اٹھ ا کر لتا اور اپنی باری پر دوسروں کی خدمت بھ ی کیا کرتا ۔ پیٹرا کے‬ ‫علوہ یہ لوگ مدائن صالح اور دیگر مقامات پر بھی آباد رہے۔‬ ‫شروع میں تو یہے لوگ سیدنا اسماعیل علیہے الصلوۃے والسلم کی اولد ہونےے کےے باتے‬ ‫سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلم کے مذہب یعنی دین توحید پر ہی کاربند رہے لیکن وقت‬ ‫کے ساتھ ساتھ‪ ،‬دوسری قوموں کے زیر اثر‪ ،‬ان میں بھی شرک کا غلبہ ہوا۔ پیٹرا سے ملنے‬ ‫والے مجسموں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی بت پرستی میں مبتل ہو گئے تھے۔‬ ‫پانچویں صدی قبل مسیح س ے ل ے کر تیسری صدی عیسوی تک تقریبا ً آٹ ھ سو سال‬ ‫تک نبطیوں کی حکومت اس علقےے پر قائم رہی۔ے دوسری طرف سیدنا عیسیٰے علیہ‬ ‫الصلو ۃ والسلم ک ے پیروکار اپنی دعوت کو پھیلن ے میں مشغول رہے۔ چوتھ ی صدی کے‬ ‫اوائل میں رومی بادشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کر کے اسے سرکاری مذہب قرار‬ ‫دیا ۔ اس ک ے بعد اہ ل کلیسا دنیا سےے شرک اور مشرکین کو مٹان ے کا عزم ل ے کر نکل‬ ‫کھڑے ہوئے۔ اسی مہم کے دوران انہوں نے پیٹرا پر بھی حملہ کیا اور نبطیوں کی اینٹ سے‬ ‫اینٹ بجا دی۔‬ ‫اس کے بعد سے لے کر آج تک نبطی بکھری ہوئی حالت میں بعض عرب ممالک میں‬ ‫موجود ہیں۔ جب مسلم افواج نے اردن‪ ،‬مصر اور فلسطین فتح کیے تو ان کی اکثریت نے‬ ‫بھ ی اسلم قبول کر لیا اور اب یہ اردن کے عرب بدوؤں کی شکل میں دنیا میں موجود‬ ‫ہیں۔‬ ‫نبطیوں کے عروج و زوال س ے ہمیں یہ ی سبق ملتا ہے کہ اس دنیا میں کسی چیز کو‬ ‫دوام حاصل نہیں۔ کوئی قوت اپنے وقت کی جتنی بڑی قوت بھی ہو‪ ،‬وقت کے ساتھ ساتھ‬ ‫اس ے زوال آ ہ ی جاتا ہے۔ یہ ی حال انسانی زندگی کا ہے۔ اپنی جوانی اور قوت ک ے دور‬ ‫میں انسان نجانے خود کو کیا سمجھتا ہے‪ ،‬لیکن اسے اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ ایک‬ ‫دن اسے بھی زوال آئے گا اور اس کے بعد اسے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ دنیا کے‬ ‫یہ عروج و زوال دونوں ہی انسان کے لئے امتحان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر شخص اور ہر‬ ‫قوم کو اس کے کیے کا پھل مل کر رہے گا۔‬

‫چانپیں اور مٹ ھائی‬ ‫میری چھوٹی بیٹی ماری ہ بھ ی ہمار ے ہمرا ہ تھی ۔ کہیں پر وہ پیدل اور کہیں ہ م پر سوار ہو‬ ‫کر چل رہی تھی۔ اسے مزید اٹھا کر چلنے سے ہماری ہمت اب جواب دے رہی تھی لہذا ہم‬ ‫نے یہاں سے واپسی کا ارادہ کیا۔ واپسی پر ہم ایک گھوڑا گاڑی میں سوار ہو گئے جس نے‬ ‫‪13‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ہمیں پیٹرا کے گیٹ پر ل اتارا۔ گھوڑا گاڑی کے کوچوان ایک خوبصورت اردنی نوجوان تھے‬ ‫جو شکل صورت اور لباس سے اچھا خاصا تعلیم یافتہ اور مہذب لگ رہا تھے۔ جب انہیں یہ‬ ‫معلوم ہوا ک ہ ہ م پاکستانی ہیں تو و ہ بہ ت خوش ہوئے۔ کہن ے لگے ‪" ،‬پچھل ے سال میں بھی‬ ‫پاکستان میں شمالی علق ہ جات دیکھن ے گیا تھ ا جو مجھے بہت پسند آئے۔" گیٹ سے باہر‬ ‫نکل کر ہم لوگ ایک ریستوران میں جا گھسے کیونکہ اب بھوک بہت شدید لگ رہی تھی۔‬ ‫اس ریستوران میں ہمیں اپنے ٹور کا سب سے اچھا کھانا نصیب ہوا۔ روسٹ کی ہوئی‬ ‫بھیڑ کی چانپوں کے ساتھ لبنانی روٹی نے بہت لطف دیا۔ دراصل یہ ایک لبنانی ریسٹورنٹ‬ ‫تھا ۔ عرب ممالک میں صرف لبنان ہ ی ک ے کھان ے مزیدار ہوت ے ہیں ۔ ان ک ے کک دنیا کے‬ ‫بہترین کک مانے جاتے ہیں۔ ایک بار میں نے البیک کھانے کے دوران یہی بات پنجاب سے آئے‬ ‫ہوئ ے اپن ے ایک بزرگ کو بتائی تو و ہ فرمان ے لگے ‪" ،‬آہ ! انہاں ن ے نائی چنگ ے ہوند ے ہون گے‬ ‫(ہاں! ان ک ے نائی اچھے ہوت ے ہوں گے۔)" ان ک ے نزدیک فائیو اسٹار ہوٹلوں ک ے کک بھی‬ ‫سب کے سب نائی ہی ہوتے ہیں۔‬ ‫کھانے کے ساتھ سویٹ ڈش کا انتظام اللہ تعالیٰ نے ایسے کیا کہ ایک صاحب مٹھائی کا‬ ‫ڈبہ لئے ہوئے ہمارے پاس آئے اور نہایت ہی شستہ انگریزی میں فرمانے لگے‪" ،‬آج میرے بیٹے‬ ‫کا ہائر اسکینڈری اسکول کا رزلٹ آیا ہے اور و ہ کامیاب ہ و گیا ہے ‪ ،‬اس خوشی میں یہ‬ ‫مٹھائی قبول فرمائیے۔" میں نے جب ایک پیس لیا تو کہنے لگے‪" ،‬آپ سب کم از کم ایک‬ ‫ایک پیس تو ضرور لیجیے۔ " مجھے اپن ے پاکستان ک ے و ہ اٹھائی گیر یاد آ گئ ے جو مٹھائی‬ ‫کھل کر لوٹ لیت ے ہیں لیکن ی ہ صاحب نہایت ہ ی نستعلیق اور مہذب لگ رہے تھے۔ ہ م نے‬ ‫مٹھائی ل ے کر رکھ لی ۔ ان صاحب ن ے ہوٹل میں موجود تمام افراد کو مٹھائی پیش کی‪،‬‬ ‫اس کے بعد باہر چلے گئے اور گاڑیوں والوں کو روک روک کر مٹھائی کھلنے لگے۔‬ ‫کھانا کھانےے کےے بعد ہم نےے ان کی مٹھائی چکھی‪ ،‬بہت مزیدار تھی۔ے مجھےے عرب‬ ‫مٹھائیاں ویسے ہی بہت پسند ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے سعودی عرب‪ ،‬اردن اور‬ ‫کویت میں مختلف دکانوں سےے مٹھائی لےے کر کھائی ہےے لیکن جو مزہے لہور کی عرب‬ ‫مٹھائیوں کی واحد دکان "عریبین ڈیلئٹس" کی مٹھائی میں ہے وہ کہیں نہ پایا۔ جمع خاطر‬ ‫رکھیے‪ ،‬یہ بات میں ان سے کوئی کمیشن لئے بغیر لکھ رہا ہوں۔‬ ‫کھانے کے بعد ہم پیٹرا سے روانہ ہوئے۔ لوگ پیٹرا کو دیکھنے کے لئے تین تین دن لگاتے‬ ‫ہیں لیکن ہمارے پاس کل تین دن کا ہی ویزا تھا جس میں سے ڈیڑھ دن گزر چکا تھا۔‬

‫‪14‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جنگ موت ہ اور ڈی ڈ سی‬ ‫اب ہماری اگلی منزل "شوبک" تھی جہاں سے ہم رات کوگزرے تھے۔ شوبک نسبتا ً بلندی‬ ‫پر واقع ایک پرفضا مقام تھا اور یہاں کی پہاڑیاں بھی خاصی سرسبز تھیں۔ یہ علقہ کسی‬ ‫حد تک نتھیا گلی سے مشابہ تھا۔ اس وقت سبز گھاس کی رنگت زرد ہو چکی تھی مگر‬ ‫چنار کے درختوں کا سبز رنگ زرد بیک گراؤنڈ میں اچھا لگ رہا تھا۔‬ ‫بیس منٹ میں ہم شوبک جا پہنچے۔ شوبک شہر میں ہم نے اردنی لڑکوں سے قلعے کا‬ ‫راستہے پوچھا۔ے یہے لڑکےے اچھ ی خاصی انگریزی بول رہےے تھے۔ے جب انہیں معلوم ہوا کہے ہم‬ ‫پاکستانی ہیں تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے‪" ،‬ویلکم ٹو جارڈن"۔ پورے اردن میں ہمیں‬ ‫یہ تجربہ ہوا کہ اردنی لوگ نہایت ہی گرمجوش ہوتے ہیں اور پاکستانیوں سے خاص محبت‬ ‫کرتے ہیں۔ جس شخص کو بھی یہ علم ہوا کہ ہم پاکستانی ہیں‪ ،‬بہت تپاک سے پیش آیا۔‬

‫شوبک کا قلع ہ‬ ‫شوبک کا قلعہ‪ ،‬صلیبی جنگوں کے فاتح عیسائیوں نے ‪1115‬ء کے لگ بھگ تعمیر کیا تھا اور‬ ‫اسے مونٹریال کا نام دیا تھا ۔ یہ قلعہ اسی دور کی یادگار تھی ۔ اپنی تعمیر کے صرف ‪75‬‬ ‫سال بعد اسے صلح الدین ایوبی نے فتح کر لیا۔ قلعہے ایک پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔ے ہ م جس‬ ‫طرف سے آئے تھے‪ ،‬اس جانب سے قلعے تک پہنچنے کے لئے نیچے اترنا ضروری تھا کیونکہ‬ ‫ہ م جس پہاڑی پر موجود تھےے وہے قلعےے والی پہاڑی کی نسبت بلند تھی۔ے قلعےے کےے اب‬ ‫کھنڈرات ہی باقی تھے۔ قلعے کی بعض دیواروں پر صلح الدین ایوبی کے دور میں قرآنی‬ ‫آیات بھی کندہ کی گئی تھیں۔‬

‫خطاطی یا مجسم ہ سازی؟‬ ‫دنیا کی قدیم اقوام نےے اپنی آرٹسٹک صلحیتوں کےے اظہار کےے لئےے مجسمہے سازی اور‬ ‫تصویر سازی کو ذریع ہ بنایا ۔ ان کے اہ ل دانش جب بھ ی کسی تصور یا فکری کاوش کو‬ ‫بیان کرنا چاہتے تو وہ اس کے اظہار کے لئے مجسمہ تراشتے یا پھر تصویر بناتے۔ اسی سے‬ ‫مذہبی راہنماؤں ن ے فائد ہ اٹھایا اور اپن ے باطل معبودوں ک ے مجسم ے بھ ی بنانا شروع کر‬ ‫دی ے جس ک ے نتیج ے میں مجسم ہ سازی اور تصویر سازی ک ے فن کا بڑا حص ہ شرک کو‬ ‫پھیلنے میں صرف ہونے لگا۔‬ ‫جب دین اسلم ن ے توحید کی دعوت دی تو شرک کو مٹان ے کی خاطر پرستش کی‬ ‫غرض سےے بنائےے ہوئےے مجسمےے اور تصویریں بھی ممنوع قرار دیں۔ے مسلمانوں کی‬ ‫مجسمہ بیزاری کا نتیجہ یہ نکل کہ ان کے ہاں صدیوں میں بڑا مجسمہ ساز یا مصور پیدا نہ‬ ‫ہو سکا۔ے پچھلےے چودہے سو سالہے تاریخ کی تاریخ میں ان فنون کےے تمام بڑےے نام غیر‬ ‫مسلموں ک ے ہاں ہ ی ملیں گے۔ اس روی ے ن ے مسلمانوں کی تمام آرٹسٹک صلحیتوں کا‬ ‫رخ خطاطی اور تحریر کے فن کی طرف کر دیا ۔ مسلم کاتبین نے فن خطاطی کو اس‬ ‫کے عروج پر پہنچا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چودہ سو سال میں دنیا کے تمام بڑے خطاط‬ ‫سب کے سب مسلمان ہی تھے۔‬ ‫اس فن میں ان کی مہارت کا انداز ہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے ک ہ اب س ے کئی سو‬ ‫برس قبل مسلم کاتبین صرف اپنے ہاتھ سے وہ سب کچھ کر سکتے تھے جو آج ہم کمپیوٹر‬ ‫پر انتہائی ترقی یافتہ سافٹ وئیر جیسے ورڈ‪ ،‬پاور پوائنٹ اور کورل ڈرا کی مدد سے کرنے‬ ‫‪15‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کے قابل ہوئے ہیں۔ ان تحریروں اور ان کی فارمیٹنگ کے شہ پارے مخطوطوں کی کسی‬ ‫بھ ی قدیم لئبریری میں دیکھےے جا سکتےے ہیں۔ے انہ ی مسلمانوں نےے ریاضی میں عربی‬ ‫ہندسے ایجاد کیے جنہیں پوری دنیا نے قبول کر لیا۔ ظاہر ہے بڑی رقموں کو لکھنے میں یہ‬ ‫ہندسےے نہایت ہ ی ممد و معاون ہیں۔ے رومن انداز میں اٹھاسی کےے عدد کو ‪LXXXVIII‬‬ ‫لکھنے کی بجائے ‪ 88‬لکھنا کتنا آسان لگتا ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد مسلم کاتبین کا یہ‬ ‫فن اب کمپیوٹر میں منتقل ہو رہا ہے۔‬

‫صلیبی جنگیں‬ ‫زیادہ اچھا ہے اگر اس مقام پر صلیبی جنگوں کی تاریخ بھی مختصرا ً بیان کر دی جائے۔‬ ‫‪ 640‬ء ک ے آس پاس سیدنا ابوعبید ہ اور خالد بن ولید رضی الل ہ عنہما کی قیادت میں‬ ‫مسلم افواج نے اردن اور شام ک ے علق ے فتح کر لئ ے تھے۔ سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ کے‬ ‫دور ہ ی میں یروشلم بھ ی بغیر کسی جنگ کےے اسلمی حکومت کا حصہے بنا۔ے بعد میں‬ ‫سیدنا امیر معاویہے رضی اللہے عنہے کی گورنری اور پھر بادشاہت کےدور میں یہے علقہ‬ ‫سلطنت اسلمیہ کا سب سے طاقتور صوبہ بن گیا۔‬ ‫یورپ کے عیسائیوں نے مسلمانوں کی ان فتوحات اپنے مذہب پر حملہ سمجھا مگر وہ‬ ‫حمل ہ کی جرأ ت ن ہ کر سکے۔ چار سو سال بعد جب بغداد کی عباسی سلطنت کمزور‬ ‫پڑی تو عیسائیوں نے یلغار کر دی۔ ان کی افواج زیادہ منظم تو نہ تھیں لیکن مسلمانوں‬ ‫کی کمزوری کے باعث یروشلم ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ کم و بیش نوے برس اہل یورپ‬ ‫کی حکومت موجود ہ فلسطین‪ ،‬لبنان اور اردن ک ے علقوں پر قائم رہی ۔ اس یلغار کے‬ ‫خلف شام کے حکمران عماد الدین زنگی نے بند باندھا۔ ان کی وفات کے بعد حکومت ان‬ ‫ک ے بیٹ ے نور الدین زنگی ک ے پاس آئی اور نور الدین ک ے بعد حکومت صلح الدین ایوبی‬ ‫کے حصے میں آئی جن کے دور میں مسلمانوں کو یروشلم دوبارہ واپس مل۔‬

‫صلح الدین ایوبی‬ ‫صلح الدین ایوبی مسلم جرنیلوں اور فاتحین میں امتیازی حیثیت ک ے حامل ہیں ۔ اگر‬ ‫مسلم تاریخ کے دفاعی جرنیلوں کی فہرست بنائی جائے تو ان کا نام سر فہرست ہو گا۔‬ ‫اپنی حربی مہارت اور انتظامی صلحیتوں کا ان کا شمار سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ‬ ‫عنہ کے بعد ماہر ترین جرنیلوں میں کیا جا سکتا ہے۔‬ ‫ایوبی ‪ 1138‬ء میں عراق کے شہ ر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد موجودہ لبنان کے‬ ‫شہر بعلبک کے گورنر تھے۔ انہوں نے دمشق میں تعلیم حاصل کی۔ انہیں شام کے سلطان‬ ‫نور الدین زنگی ن ے اپن ے ساتھ ی شیر کو ہ کے ساتھ مصر کی فتح ک ے لئ ے بھیجا ۔ اس دور‬ ‫میں نور الدین اور مصر کے فاطمی حکمرانوں کے درمیان جنگیں جاری تھیں۔ مصر کی‬ ‫فتح کے کچھ عرصہ بعد صلح الدین ایوبی کو یہاں کا گورنر مقرر کیا گیا۔ نور الدین زنگی‬ ‫کی وفات کے بعد ایوبی شام اور مصر کے حکمران بن گئے۔‬ ‫دسویں صدی کے اواخر میں یورپ کے صلیبی حکمرانوں کے ایک اتحاد نے مسلم دنیا‬ ‫پر حمل ہ کر ک ے موجود ہ ترکی‪ ،‬لبنان‪ ،‬اردن اور فلسطین ک ے علقوں پر اپنی حکومتیں‬ ‫قائم کر لی تھیں۔ یہ جنگیں بالعموم مذہبی جذبے سے لڑی گئیں۔ یہ افواج آپس میں بھی‬ ‫پوری طرح متحد ن ہ تھیں ورن ہ پور ے عالم اسلم کو ان کی وج ہ س ے شدید مشکلت کا‬ ‫سامنا کرنا پڑتا۔ ان کے ہاں آپس میں بھی سیاسی اور مذہبی اختلفات پوری شدت سے‬ ‫موجود تھے۔‬ ‫‪16‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ایوبی ک ے بادشا ہ بنن ے ک ے بعد ان کا مقابل ہ اس علق ے ک ے صلیبی حکمرانوں س ے ہوا۔‬ ‫‪ 1177‬ء میں ایوبی کو صلیبی حکمرانوں ک ے ایک اتحاد ک ے خلف ہزیمت اٹھانا پڑی ۔ اس‬ ‫کے بعد انہوں نے اپنی افواج کو از سر نو منظم کیا اور صلیبی مملکتوں پر یلغار کر دی۔‬ ‫‪1179‬ء س ے ‪1191‬ء تک مختلف جنگوں میں ایوبی نے موجودہ اردن اور فلسطین کا بیشتر‬ ‫حصہ فتح کر لیا۔ ‪1185‬ء میں ایوبی نے کرک کا قلعہ فتح کر کے رینالڈ دی شاٹلن کو موت‬ ‫ک ے گھاٹ اتارا۔ے ‪ 1187‬ء میں ایوبی ن ے تین حکمرانوں کی متحد ہ فوج کو شکست د ے کر‬ ‫صلیبی افواج کے دارالحکومت یروشلم کو فتح کر لیا ۔ ان جنگوں ک ے نتیج ے میں صلیبی‬ ‫حکومت صرف موجودہ اسرائیل اور لبنان کے چند علقوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔‬ ‫ان فتوحات کے بعد اہل یورپ نے ایک بار پھر یلغار کر دی جس کی قیادت انگلینڈ کے‬ ‫بادشاہ رچرڈ اول کر رہے تھے جو کہ رچرڈ شیر دل (‪ )Richard the Lion Heart‬کہلتے تھے۔‬ ‫‪1191‬ء میں ایوبی اور رچرڈ کی افواج کا مقابلہ ہوا۔ رچرڈ کی بہادری کے باعث ایوبی ان‬ ‫کی بہ ت عزت کیا کرت ے تھے۔ جب ایوبی کو معلوم ہوا کہ رچر ڈ کا ذاتی گھوڑا جنگ میں‬ ‫زخمی ہ و گیا ہے تو انہوں ن ے دو بہترین گھوڑ ے اور کچ ھ تحائف رچر ڈ کو روان ہ کئے۔ رچرڈ‬ ‫کے زخمی ہونے پر ایوبی نے اپنے ذاتی معالج کو رچرڈ کے علج کے لئے بھیجا۔‬ ‫‪1192‬ء میں رچرڈ اور ایوبی میں رملہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ ہوا جس کے مطابق‬ ‫یروشلم پر مسلم افواج کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا اور مسلمانوں نے عیسائی زائرین کے‬ ‫لئ ے یروشلم کھول دیا ۔ اس ک ے کچ ھ عرصےے بعد رچر ڈ واپس انگلینڈے چل ے گئے۔ دوسری‬ ‫طرف ‪ 1193‬ء میں ایوبی ن ے بھ ی دمشق میں وفات پائی ۔ ان کی وفات ک ے بعد ان کے‬ ‫ذاتی خزانے کا جائزہ لیا گیا تو اس میں اتنی رقم بھی نہ تھی جس سے ان کے کفن دفن‬ ‫کا انتظام کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایوبی اپنی ذاتی آمدنی کا بڑا حصہ غربا پر‬ ‫خرچ کیا کرتے تھے۔‬ ‫باوجود اس کےے کہے ایوبی یورپی حکمرانوں کےے خلف مصروف جنگ رہےے تھے ‪ ،‬اہل‬ ‫یورپ ک ے ہاں ان کا بہ ت احترام کیا جاتا ہے اور ان کی عظمت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔‬ ‫رچرڈ نے ایوبی کا مسلم دنیا کا سب سے عظیم حکمران تسلیم کیا ۔ فرنچ مصنف رینی‬ ‫گراؤزے لکھتے ہیں‪:‬‬ ‫یہے بھ ی بالکل درست ہےے کہے ان کی شرافت‪ ،‬زہ د و تقوی‪ ،‬انتہ ا پسندی سےے اجتناب‪ ،‬آزادی سے‬ ‫محبت اور اخلق‪ ،‬جو کہ ہمارے قدیم مورخین کا طرہ امتیاز تھا‪ ،‬کے نتیج ے میں انہیں فرینک شام‬ ‫کے علقے میں بھی اتنی ہی مقبولیت حاصل ہوئی جو انہیں اسلمی دنیا میں حاصل تھی۔ (‪Grousse,‬‬ ‫‪).Renee (1970). The Epic of the Crusades. Orion Press‬‬

‫اس مقبولیت کی بڑی وج ہ ی ہ تھ ی ک ہ ایوبی ن ے مختلف عیسائی فرقوں س ے تعلق رکھنے‬ ‫وال ے افراد کو یروشلم میں و ہ مذہبی آزادی عطا کی جو ان ک ے ہ م مذہ ب لیکن مخالف‬ ‫فرقے کے حکمران انہیں دینے کو تیار نہ تھے۔ ایوبی کی فتوحات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو‬ ‫ان کی فتوحات کی دو بڑی وجوہات تھیں‪ :‬مضبوط انٹیلی جنس اور مضبوط بحری‬ ‫قوت۔ ایوبی نے ایسا انٹیلی جنس کا نظام تشکیل دیا جس کی جڑیں دشمن کے علقوں‬ ‫تک پھیلی ہوئی تھیں۔ے اس نظام میں مخالف فرقوں کےے عیسائی بھ ی ایوبی کو اہم‬ ‫معلومات بروقت فراہم کر دیتے جو ان کی فتح میں ممد و معاون بنتیں۔‬ ‫ایوبی کی فتوحات کی ایک بڑی وجہ ان کے اہل مغرب پر ٹیکنالوجی میں برتری تھی۔‬ ‫ان کے دور میں ماہرین فن نے ایسی ہانڈیاں ایجاد کیں جن میں آتش گیر مادہ بھرا ہوتا۔‬ ‫دشمن ک ے بحری جہازوں پر ان ہانڈیوں کو چھوٹی منجنیقوں ک ے ذریع ے پھینکا جاتا اور‬ ‫اس کے پیچھے جلتے ہوئے تیر چھوڑ دیے جاتے۔ ٹیکنالوجی کی اس برتری کے باعث ایوبی‬ ‫نے تقریبا ً تمام بحری معرکوں میں کامیابی حاصل کی۔‬ ‫‪17‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ایوبی عجز و انکسار کا پیکر تھے۔ ایک بار انہوں نے اپنے کسی چاپلوس کو یہ کہتے سنا‬ ‫ک ہ ہمارا سلطان خالد بن ولید س ے بھ ی بڑا جرنیل ہے۔ انہوں ن ے اس شخص کی سخت‬ ‫گوشمالی کی اور کہا‪" ،‬مجھے سلطان بنن ے س ے زیاد ہ عزیز ہے ک ہ میں سیدنا خالد رضی‬ ‫الل ہ عن ہ کی فوج کا ایک عام سپاہ ی ہوتا۔ " ایوبی اپنی فوج میں رات کو گشت کیا کرتے‬ ‫اور فوج کی صورت حال کا براہ راست مشاہدہ کرتے۔‬ ‫ایک بار انہوں نے اپنے ایک کمانڈر کو اپنے کسی ماتحت کو اس بات پر ڈانتے سنا کہ وہ‬ ‫اپنا فارغ وقت کتابوں کے مطالعے میں صرف کرتا تھا۔ ایوبی نے اسی ماتحت کو کمانڈر‬ ‫کی جگہ دی اور اس کمانڈر کو علم حاصل کرنے کے کورس پر بھیج دیا۔‬ ‫ایک مرتب ہ برد ہ فروشوں ن ے ایک عیسائی عورت ک ے بچ ے کو اغوا کر ک ے غلم بنا کر‬ ‫بیچ دیا ۔ اس عورت ن ے اپنی فریاد ایوبی کے سامن ے پیش کی ۔ ایوبی ن ے اپنی ذاتی جیب‬ ‫سے اس بچے کو اس کے مالکان سے خرید کر عورت کے حوالے کیا اور متعلقہ افراد کو‬ ‫سزا دی۔‬ ‫ایوبی دو مرتبہ حسن بن صباح کے حشیشین کا شکار ہوتے ہوتے بچے۔ یہ ایک خود کش‬ ‫قاتل گرو ہ تھ ا جو معاوض ے پر اہ م ترین شخصیات کو قتل کرن ے کا فریض ہ انجام دیتا تھا۔‬ ‫ان کے شکاروں میں سلجوقی سلطین اور وزیر اعظم نظام الملک طوسی بھی شامل‬ ‫تھے۔ ایوبی نے اس قاتل گروہ کی سرکوبی کی بہت کوشش کی لیکن ان کا مکمل خاتمہ‬ ‫نہ کر سکے۔ ایوبی کی وفات کے بعد انہیں دمشق کی بنو امیہ کے مسجد کے باغ میں دفن‬ ‫کیا گیا۔‬

‫طریق زراعی اور طریق صحراوی‬ ‫قلعہ دیکھنے کے بعد اب ہم شوبک سے آگے نکلے۔ اردن اور مصر میں شہروں کے درمیان‬ ‫دوہری سڑکوں کا جال بچھ ا ہوا ہے۔ے کچھے سڑکیں زرعی میدانوں سےے گزرتی ہیں اور‬ ‫"طریق زراعی" کہلتی ہیں جبکہ دوسری قسم کی سڑکیں صحراؤں سے گزرتی ہیں اور‬ ‫"طریق صحراوی" کہلتی ہیں۔ صحرائی سڑکیں عموما ً تیز ٹریفک کے لئے ہوتی ہیں۔‬ ‫میرا ارادہ زرعی روڈ سے جانے کا تھا۔ تھوڑی دور جا کر شوبک کی چھاؤنی آئی۔ ایک‬ ‫فوجی نے ہمیں روکا۔ میں سمجھا کہ شاید یہ کاغذات وغیرہ چیک کرنا چاہتے ہیں لیکن ان‬ ‫صاحب کو لفٹ درکار تھی ۔ ہماری پچھلی سیٹ پر سامان بکھرا ہوا تھا ۔ میں ن ے جلدی‬ ‫سے اسے سمیٹ کر انہیں یہاں بٹھا دیا۔‬ ‫اردن کے دیہ ی علقوں میں لفٹ دین ے اور لینے کا عام رواج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ‬ ‫یہاں ابھ ی تک ہمار ے پاکستان کی طرح اسٹریٹ کرائمز عام نہیں ہوئے۔ے لفٹ دینا ایک‬ ‫نہایت ہ ی اچھ ا عمل ہے۔ اس ک ے نتیج ے میں لفٹ دین ے وال ے کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا‬ ‫لیکن لین ے وال ے کا بہ ت بڑا مسئل ہ حل ہ و جاتا ہے۔ ہمار ے یہاں جرائم پیش ہ لوگوں ن ے لوٹ‬ ‫مار کرنےے کےے ساتھے ساتھے عام لوگوں کو اس سہولت سےے بھ ی محروم کیا ہےے جس کا‬ ‫جواب انہیں اپنے دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دینا پڑے گا۔‬ ‫ان فوجی صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں صحرائی روڈ سے کرک جاؤں۔ اس سے‬ ‫ایک گھنٹ ے کا سفر کم ہ و جائ ے گا ۔ پچیس کلومیٹر ک ے بعد "حسنیہ " کا قصب ہ آیا ۔ یہاں وہ‬ ‫صاحب اتر گئے اور ہمیں اپنے گھر چلنے کی بھرپور دعوت دی ۔ ہم شکریہ ادا کر کے آگے‬ ‫چل پڑے۔‬

‫‪18‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مستنصر حسین تارڑ اور مولنا وحید الدین خان‬ ‫پچاس ساٹ ھ کلومیٹر ک ے بعد کرک کا ایگزٹ آیا ۔ ہ م لوگ اب صحرائی رو ڈ س ے دوبارہ‬ ‫زرعی روڈ پر آ گئے۔ تھوڑی دور جا کر آبادی آئی۔ یہاں ایک دکان پر رک کر ہم نے کافی‬ ‫اور کولڈ ڈرنکس لئے۔ جب کافی پی تو عجیب سا ذائقہ تھا۔ میری اہلیہ نے چکھ کر بتایا کہ‬ ‫ی ہ بکری ک ے دود ھ کی کافی ہے۔ مجھے سفر نام ہ نگاری ک ے اپن ے استاد مستنصر حسین‬ ‫تارڑ یاد آ گئے جنہیں اندلس کے سفر کے دوران ایک ہوٹل میں بکری کی کافی ملی تھی‬ ‫اور انہوں نے اس پر بہت برا مانا تھا کیونکہ گجرات کا جٹ تارڑ کبھی اپنے دشمن کو بھی‬ ‫بکری کا دودھ پیش نہیں کرتا۔ میں تعلق بھی اگرچہ گجرات کے قریب ہی جہلم کے علقے‬ ‫س ے تھ ا لیکن میر ے لئ ے بکری کا دود ھ بھ ی الل ہ تعالی ٰ کی نعمت تھی‪ ،‬چنانچ ہ کافی پی‬ ‫لی۔‬ ‫سفر نام ہ لکھن ے ک ے فن میں میر ے دو روحانی استاد ہیں ۔ ایک مستنصر حسین تارڑ‬ ‫اور دوسرےے مولنا وحید الدین خان۔ے ان دونوں حضرات سےے میری کبھ ی ملقات نہیں‬ ‫ہوئی لیکن ان ک ے سفر ناموں سےے میں نےے بہ ت کچ ھ سیکھ ا ہے۔ے تارڑ صاحب ک ے سفر‬ ‫ناموں س ے میں ن ے قدرتی مناظر کو بیان کرن ے ( ‪ ) Naturegraphy‬اور مختلف کلچرز کے‬ ‫متنوع پہلوؤں کو دیک ھ کر شگفتگی س ے بیان کرن ے کا فن سیکھ ا ہے۔ مولنا وحید الدین‬ ‫خان صاحب ک ے سفر ناموں س ے میں ن ے تذکیر اور نصیحت کا پہلو لیا ہے۔ جس طرح‬ ‫چھوٹے چھوٹے واقعات سے مولنا عبرت اور سبق اخذ کرتے ہیں‪ ،‬وہ ان کا طرہ امتیاز ہے۔‬ ‫ی ہ الگ بات ہے ک ہ مولنا نہایت ہ ی سنجید ہ شخصیت ک ے مالک ہیں اور مزاح کو دوسرے‬ ‫درجے کی چیز سمجھتے ہیں۔ اس معاملے میں میرا طرز عمل ان سے مختلف ہے۔‬

‫جنگ موت ہ کا مقام یا مقام جعفر‬ ‫میں نےے وہاں موجود دکاندار سےے جنگ موتہے کےے مقام کےے متعلق پوچھا۔ے پہلےے تو وہے نہ‬ ‫سمجھے ‪ ،‬لیکن جب میں ن ے سیدنا زید بن حارثہ ‪ ،‬جعفر اور عبداللہے بن رواحہے رضی اللہ‬ ‫عنہم کا ذکر کیا تو وہ سمجھ گئے۔ کہنے لگے‪" ،‬اچھا اچھا! آپ "مقام جعفر" کے بارے میں‬ ‫پوچھ رہے ہیں۔ کہاں سے آئے ہیں؟" میں نے انہیں بتایا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ وہ بڑے‬ ‫خوش ہوئے اور انہوں نے مجھے اس مقام کا راستہ بتا دیا۔‬ ‫دکان ک ے سامن ے کوئی کالج تھ ا جس کی مسجد میں نماز ظہ ر ادا کرن ے ک ے بعد ہم‬ ‫لوگ آگے بڑھے۔ جنگ موتہ کا مقام یہاں سے محض دس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ تھوڑی‬ ‫دیر میں ہ م وہاں پہنچ گئے۔ یہاں قریب ہ ی ایک نہایت خوبصورت نیل ے گنبد والی مسجد‬ ‫بنی ہوئی تھی۔‬ ‫جنگ موتہ ایک وسیع میدان میں ہوئی تھی۔ اب اگرچہ اس مقام پر آبادی ہو چکی تھی‬ ‫لیکن اس میدان کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔ میدان میں شہداء موتہ کی قبریں تھیں۔ ایسا‬ ‫معلوم ہوتا تھا کہ کبھی ان قبروں پر بھی مزارات بنے ہوں گے۔ قریب ہی ایک چبوترے پر‬ ‫ایک تختی لگی ہوئی تھ ی جس میں شہداء موت ہ ک ے نام لکھے گئ ے تھے۔ میدان ک ے بالکل‬ ‫سامنے "جامعہ موتہ" یعنی موتہ یونیورسٹی کا گیٹ تھا جو کہ اردن کی بڑی یونیورسٹیوں‬ ‫میں شمار ہوتی ہے۔ ہ م ن ے شہداء موت ہ کی قبور پر جا کر رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰلہ‬ ‫وسلم کی تعلیم کرد ہ زیارت قبور کی دعا پڑھی ۔ اس مقام اور گرد و نواح کی تصاویر‬ ‫بنائیں اور وہاں سے واپس چلے آئے۔‬ ‫‪19‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جنگ موت ہ‬ ‫جنگ موت ہ اسلمی تاریخ میں ایک ایسی جنگ ہے جس کا فیصل ہ ن ہ ہ و سکا ۔ رسول اللہ‬ ‫صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم نےے اہل عرب پر اتمام حجت کےے بعد‪ ،‬دوسرےے ممالک کے‬ ‫بادشاہوں پر اتمام حجت ک ے لئ ے اپن ے قاصدوں ک ے ذریع ے خطوط ان ممالک کو بھیجے‬ ‫تھے۔ اس وقت موجود ہ اردن کے علق ے پر غسانی بادشاہوں کی حکومت تھ ی جو قیصر‬ ‫روم کے ماتحت تھے۔ اہ ل کتاب ہون ے کے باوجود اس بادشا ہ نے سرکشی کا ثبوت دیا اور‬ ‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قاصد کو شہید کر دیا۔ اس کی سزا دینے کے لئے‬ ‫حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم ن ے تین ہزار کا ایک لشکر غسان ک ے بادشا ہ کی طرف‬ ‫بھیجا تھا۔‬ ‫جب قیصر روم کو اس لشکر کی اطلع ملی تو وہے ایک لکھے کی فوج لےے کر اپنے‬ ‫حلیفوں کی مدد ک ے لئ ے مقابل ے پر آ گیا ۔ بعض روایات ک ے مطابق قیصر ک ے لشکر کی‬ ‫تعداد دو لکھ تھی۔ ایک یا دو لکھ کے اس لشکر کے مقابلے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم‬ ‫کی تعداد صرف تین ہزار تھی جس کی قیادت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کر رہے‬ ‫تھے۔ دونوں لشکروں کا مقابل ہ موت ہ ک ے میدان میں ہوا ۔ سیدنا زید رضی الل ہ عن ہ مقابلہ‬ ‫کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق سیدنا علی‬ ‫رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی۔ آپ بھی کچھ دیر‬ ‫میں شہید ہو گئے۔ اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کمانڈ ر بنے۔ آپ بھی‬ ‫دلیرانہ طریقے سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم‬ ‫کی ہدایت کے مطابق عام مسلمانوں کی رائے کے مطابق سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ‬ ‫عنہ کو کمانڈر مقرر کیا گیا۔‬ ‫سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو ایمان لئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ اپنی اعلی درجے‬ ‫کی حربی مہارت کےے باعث حالت کفر میں آپ جنگ احد میں مسلمانوں کو شدید‬ ‫نقصان پہنچا چک ے تھے۔ آپ ن ے نئی حکمت عملی ترتیب دی ۔ شام ہ و رہ ی تھی ۔ آپ یہ‬ ‫محسوس کر چکے تھے کہ طاقت کے اس عظیم فرق کے باعث یہ جنگ جیتنا ناممکن ہے۔‬ ‫آپ نے افواج کو پیچھے ہٹا کر انہیں نئے سرے سے منظم کیا۔ کچھ سپاہیوں کو پیچھے بھیج‬ ‫کر انہیں دوبارہے نعرےے لگاتےے ہوئےے آنےے کو کہا۔ے اس سےے قیصر کی افواج یہے سمجھیں کہ‬ ‫مسلمانوں کو نئی کمک میسر آ گئی ہے۔ و ہ بھ ی پیچھے ہ ٹ گئے۔ اس جنگ میں سیدنا‬ ‫خالد کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔‬ ‫سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو نہایت مہارت سے بچایا اور میدان جنگ چھوڑ‬ ‫دیا ۔ آپ کی اس حکمت عملی س ے ہمیں بھ ی ی ہ سبق ملتا ہے ک ہ اگر طاقت ک ے تناسب‬ ‫میں فرق بہ ت زیادہے ہ و تو اپنی طاقت کو محفوظ کر لینا ہ ی سب سےے اچھ ی حکمت‬ ‫عملی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے بھی یہ شرط‬ ‫رکھی تھی کہ جنگ کے دوران ان کی طاقت کا تناسب دشمن کی طاقت کے مقابلے میں‬ ‫کم از کم نصف ضرور ہونا چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ٰ ہے ‪" ،‬اگر تم میں س ے سو آدمی‬ ‫صابر ہیں تو وہ دو سو پر اور اگر ہزار آدمی صابر ہیں تو وہ دو ہزار پر اللہ کے حکم سے‬ ‫غالب آّئیں گے۔" (النفال ‪)8:66‬‬ ‫ہمار ے ان لیڈروں کو بھ ی اس س ے سبق سیکھنا چاہی ے جو طاقت کی پروا ہ ن ہ کرتے‬ ‫ہوئ ے اپن ے پیروکاروں کو جنگ پر اکسات ے رہت ے ہیں اور بغیر سوچ ے سمجھے ایک اور ایک‬ ‫لکھ کے تناسب پر بھی میدان جنگ میں کود جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بہت‬ ‫‪20‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫س ے اپنی اولد کو میدان جنگ س ے دور رکھت ے ہیں اور دوسروں کی اولدوں کو میدان‬ ‫جنگ میں جھونکتے رہتے ہیں۔‬ ‫اس جنگ میں اگرچہ مسلمانوں کو فتح نہ ہو سکی لیکن اردگرد کے علقے کے لوگوں‬ ‫نے جب یہ دیکھا کہ وقت کی سپر پاور کی ایک یا دو لکھ کی فوج‪ ،‬تین ہزار مسلمانوں کا‬ ‫کچ ھ نہیں بگاڑ سکی تو ان ک ے دل س ے قیصر کا رعب جاتا رہا ۔ اس ک ے ڈیڑ ھ برس بعد‬ ‫جب رسول اللہے صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم نےے تبوک پر یلغار کی تو کوئی بھ ی آپ کے‬ ‫مقابلے پر نہ آیا اور اس علقے کے تمام حکمرانوں نے جزیہ قبول کر کے اسلمی حکومت‬ ‫کے تحت رہنے کو اختیار کر لیا۔‬ ‫اس موقع پر ی ہ بھ ی اچھ ا ہے ک ہ میں ان جلیل القدر صحاب ہ کرام رضی الل ہ عنہ م کا‬ ‫تعارف کرواتا چلوں جنہوں ن ے اس جنگ میں کارہائ ے نمایاں سرانجام دیے۔ ہمار ے لوگ‬ ‫خلفاء راشدین اور مشہور صحابہ کے کارناموں سے تو واقف ہوتے ہیں لیکن ان نسبتا ً غیر‬ ‫معروف صحابہ سے زیادہ واقف نہیں۔‬

‫سیدنا زید بن حارث ہ رضی الل ہ عن ہ‬ ‫سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔‬ ‫آپ کو بچپن میں اغوا کر ک ے غلم بنا لیا گیا تھا ۔ کئی ہاتھوں س ے بکت ے ہوئ ے آپ حضور‬ ‫صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ اس دوران آپ کے والد کو بھی آپ کی‬ ‫خبر پہنچ گئی ۔ انہوں ن ے حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم کو من ہ مانگی رقم کی آفر کر‬ ‫دی۔ آپ نے فرمایا‪" ،‬اگر زید تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں کوئی رقم نہ لوں گا۔" زید نے‬ ‫اپنے والدین کی بجائے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ اس‬ ‫سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا برتاؤ اپنے ملزموں کے ساتھ بھ ی کیسا ہوتا ہوگا ۔ اس موقع‬ ‫پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بول بیٹا بنا لیا۔‬ ‫جب حضور صلی الل ہ علیہ واٰلہ وسلم نے نبوت کا اعلن فرمایا تو سیدنا ابوبکر‪ ،‬علی‬ ‫اور خدیجہ رضی الل ہ عنہم کے بعد آپ چوتھے شخص تھے جو ایمان لئے۔ طائف کے سفر‬ ‫میں زید حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب وہاں کے اوباشوں نے آپ پر‬ ‫سنگ باری کی تو زید نے یہ پتھر اپنے جسم پر روکے۔‬ ‫حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آپ کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن زینب رضی اللہ‬ ‫عنہ ا س ے کر دی تھی ۔ ان میں نبا ہ ن ہ ہ و سکا اور طلق ہ و گئی ۔ دور جاہلیت کی ی ہ رسم‬ ‫تھ ی کہے منہے بولےے بیٹوں کا معاملہے سگی اولد کی طرح کیا جاتا اور ان کی طلق یافتہ‬ ‫بیویوں س ے نکاح حرام سمجھ ا جاتا ۔ اس رسم کے بہت سے سنگین معاشرتی نتائج نکل‬ ‫رہے تھے۔ الل ہ تعالی ٰ نےے حضور صلی اللہے علی ہ واٰلہے وسلم کو حکم دیا ک ہ آپ زینب سے‬ ‫شادی کر لیں تاکہ اس رسم کا خاتمہ ہو۔ اسی تناظر میں سیدنا زید رضی اللہ عنہ کا ذکر‬ ‫سورۃ احزاب میں آیا ہے۔ جنگ موتہ میں سیدنا زید رضی اللہ عنہ مسلم افواج کے کمانڈر‬ ‫تھے۔ آپ نے بہادی سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔‬

‫سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی الل ہ عن ہ‬ ‫سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حضور کے کزن تھے۔ آپ اور آپ کی اہلیہ اسماء‬ ‫بنت عمیس رضی اللہ عنہا سابقون الولون میں شامل ہیں۔ جب کفار کے مظالم حد سے‬ ‫بڑ ھ گئ ے تو ان میاں بیوی ن ے حبش ہ کی طرف ہجرت کی جس کی تفصیلت میں پہلے‬ ‫حص ے میں بیان کر چکا ہوں ۔ کفار ن ے نجاشی س ے ان مہاجرین کی واپسی کی بات کی‬ ‫‪21‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جسے سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے ناکام بنا دیا۔ آّپ کی حیثیت حبشہ کی مسلم کمیونٹی‬ ‫کے سربراہ کی سی تھی۔‬ ‫فتح خیبر کےے فورا ً بعد سات ہجری میں آپ حبشہے سےے مدینہے آ گئے۔ے اس موقع پر‬ ‫حضور نبی اکرم صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم بہ ت خوش ہوئے۔ے آپ نےے فرمایا‪" ،‬مجھےے یہ‬ ‫سمجھ نہیں آ رہی کہ مجھے فتح خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے واپس آنے کی۔" آپ‬ ‫ن ے اس موقع پر سیدنا جعفر رضی الل ہ عن ہ اور آپ ک ے ساتھیوں کو دو ہجرتوں ک ے اجر‬ ‫کی خوشخبری دی ۔ جنگ موت ہ میں حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم ن ے سیدنا جعفر کو‬ ‫سیدنا زید کا نائب بنایا تھا۔‬ ‫جب حضرت زید رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اسلمی فوج کا جھنڈ ا گرنے سے قبل ہی‬ ‫سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے تھام لیا۔ دشمن نے آپ کے دونوں بازو یکے بعد دیگرے شہید‬ ‫کر دی ے لیکن انہوں نے جھنڈ ا ن ہ چھوڑا اور لشکر کی کمان کرت ے رہے۔ بالخر آپ شہید ہو‬ ‫گئے۔ اس جنگ کی تفصیلت اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو‬ ‫بذریع ہ وحی بتا دی تھیں اور آپ نے اس پورے واقع ے کو اہل مدین ہ کو سنایا ۔ اس کے بعد‬ ‫آپ سیدنا جعفر رضی الل ہ عن ہ ک ے گھ ر تشریف ل ے گئے۔ ان ک ے بچوں کو پیار کیا اور یہ‬ ‫اندو ہ ناک خبر آپ ک ے اہ ل و عیال کو سنائی ۔ ان ک ے خاندان کی بعض عورتیں زور زور‬ ‫سے رو رہی تھیں جس پر حضور نے انہیں سختی سے منع فرمایا۔‬ ‫اس جنگ میں سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو نوے کے قریب زخم آئے۔ حضور صلی اللہ‬ ‫علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا‪" ،‬کئے ہوئے بازوؤں کے بدلے جعفر کو جنت میں دو پر عطا ہوئے‬ ‫ہیں۔" اسی سبب سے آپ کا لقب جعفر طیار مشہور ہوا۔ آپ کی شہادت کے کچھ عرصہ‬ ‫بعد‪ ،‬آپ کے اہل و عیال کی کفالت کی غرض سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی‬ ‫بیوہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے شادی کر لی۔ آپ کے بچوں میں سیدنا عبداللہ‬ ‫بن جعفر رضی اللہ عنہ نے تاریخ میں شہرت پائی۔ آپ اپنی سخاوت کے لئے مشہور تھے۔‬ ‫جب آپ فوت ہوئے تو اہل مدینہ کے غرباء میں کہرام مچ گیا۔‬

‫سیدنا عبدالل ہ بن رواح ہ رضی الل ہ عن ہ‬ ‫جنگ موتہ کے تیسر ے قائد سیدنا عبدالل ہ بن رواحہ رضی الل ہ عنہ تھے۔ آپ انصار میں سے‬ ‫تھے۔ آپ کی قائدانہ صلحیتوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ‬ ‫واٰلہے وسلم نےے متعدد مرتبہے اپنی عدم موجودگی میں آپ کو اہ ل مدینہے کا حاکم مقرر‬ ‫فرمایا ۔ آپ دور جاہلیت میں اہ ل عرب کے چوٹی کے شعراء میں شمار ہوت ے تھے۔ اسلم‬ ‫قبول کرنے کے بعد آپ کی شاعری دین اسلم کے لئے وقف ہو گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ‬ ‫واٰلہ وسلم کو آپ کے شعر بہت پسند تھے اور آپ کئی مرتبہ ان اشعار کو پڑھا کرتے تھے۔‬ ‫سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ دعوت دین میں بہت سرگرم تھے۔ انصار کے بہت سے لوگ‬ ‫آپ کی دعوتی سرگرمیوں ک ے نتیج ے میں ایمان لئ ے جن میں سیدنا ابو دردا رضی اللہ‬ ‫عنہ جیسے جلیل القدر لوگ بھی شامل ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے‬ ‫عبداللہ کے دعوتی اجتماعات کو ایسے اجتماعات قرار دیا جن پر فرشتے بھی فخر کرتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫جنگ موتہ کے لئے روانہ ہونے سے قبل عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ‬ ‫وسلم سے عرض کیا‪" ،‬یا رسول اللہ! عین ممکن ہے کہ میں آپ سے دوبارہ نہ مل سکوں۔‬ ‫مجھے نصیحت فرمائیے۔ " آپ ن ے فرمایا‪" ،‬عبداللہ ! تم ایسی سرزمین پر جا رہے ہ و جہاں‬ ‫اللہ تعالیٰ کو سجد ہ کرن ے وال ے کم ہ ی ہیں ۔ جس قدر سجد ے ممکن ہو سکیں‪ ،‬کرنا ۔ اللہ‬ ‫‪22‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کو کثرت سے یاد رکھنا‪ ،‬کیونک ہ وہ ی مدد کرنے وال ہے اور تمہیں ہمیشہ اس کی مدد کی‬ ‫ضرورت ہ و گی ۔ اگر تم ی ہ محسوس کرو ک ہ تمہار ے اعمال اچھے نہیں‪ ،‬تو ان خیالت کی‬ ‫وجہ سے شیطان کی جانب سے دین اور عبادت سے دور کرنے کی کوششوں کو کامیاب‬ ‫نہ ہونے دینا۔ اگر تمہیں اپنے دس گناہ یاد ہوں تو عبادت کر کے (اور توبہ کی مدد سے) انہیں‬ ‫نو کرن ے کی کوشش کرنا ۔ اپن ے اعمال کو مزید برا کرن ے کی بجائ ے اس موقع کو اپنی‬ ‫اصلح کے لئے استعمال کرنا۔"‬ ‫رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم کی اس حدیث کو مدنظر رکھ ا جائ ے تو انسان‬ ‫اس مایوسی س ے بچ سکتا ہے جو گناہوں ک ے نتیج ے میں شیطان پیدا کرن ے کی کوشش‬ ‫کرتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے ک ہ اب میں گنا ہ تو کر ہ ی چکا‪ ،‬میں بہ ت برا تو ہ و ہ ی چکا‪،‬‬ ‫کیوں ن ہ مزید گنا ہ کروں ۔ حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم ن ے اسی کیفیت س ے نکل کر‬ ‫توبہ اور عبادت کرنے کی تلقین سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو فرمائی۔‬ ‫آپ ایک مرتب ہ ب ے ہوش ہ و کر پڑ ے جس پر آپ کی بہ ن رو رو کر بین کرن ے لگیں اور‬ ‫آپ ک ے فضائل بیان کرن ے لگیں ۔ جب آپ کو ہوش آیا تو آپ ن ے انہیں فرمایا‪" ،‬مج ھ سے‬ ‫پوچھا جا رہا تھا کہ کیا تم ایسے ہی ہو؟"‬ ‫جنگ موت ہ میں آپ سیدنا زید اور جعفر رضی الل ہ عنہما ک ے بعد ب ے جگری س ے لڑ ے اور‬ ‫جام شہادت نوش فرمایا۔ اس موقع پر آپ کی نصیحت کے مطابق آپ کی بہن نے کوئی‬ ‫بین نہ کیا۔‬

‫سیدنا خالد بن ولید رضی الل ہ عن ہ‬ ‫جنگ موتہ کے چوتھے قائد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں جن کی شخصیت کسی‬ ‫تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ ‪592‬ء میں پیدا ہوئے۔ آپ قریش کے مشہور اسلم دشمن لیڈر‬ ‫ولید بن مغیر ہ ک ے بیٹ ے تھے۔ اسلم دشمنی آپ کو ورث ے میں ملی تھ ی لیکن اپنی سعید‬ ‫فطرت کے باعث اسلم کے پیغام پر غور کرتے رہے اور بالخر آپ نے جنگ موتہ سے کچھ‬ ‫عرصہ قبل اسلم قبول کر لیا۔ اپنی جنگی حکمت عملی کے باعث جنگ موتہ میں آپ نے‬ ‫اسلمی لشکر کو تباہی سے بچا لیا۔‬ ‫آپ کی جنگی مہارت کا انداز ہ اس س ے لگایا جا سکتا ہے ک ہ اگر مسلمانوں کی چودہ‬ ‫سو سالہے تاریخ میں کامیاب مسلم جرنیلوں کی ایک فہرست بنائی جائےے تو بل کسی‬ ‫تعصب اور جانب داری کے ‪ ،‬آپ کا نام پہل ے نمبر پر ہ و گا ۔ تاریخ عالم میں آپ کا موازنہ‬ ‫سکندر‪ ،‬چنگیز خان‪ ،‬تیمور اور نپولین س ے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان فاتحین اور سیدنا‬ ‫خالد رضی اللہ عنہ میں فرق یہ ہے کہ ان فاتحین کی جنگیں للچ یا قوم پرستی کے جذبے‬ ‫کے تحت لڑی گئی تھیں جبکہ سیدنا خالد کی تمام جنگیں صرف اور صرف اللہ کی رضا‬ ‫کے لئ ے لڑی گئی تھیں ۔ ی ہ فاتحین اپن ے ظلم و ستم کے لئے مشہور ہیں لیکن سیدنا خالد‬ ‫سے کوئی ظلم منسوب نہیں۔‬ ‫جنگ موتہے کےے بعد حضور نبی کریم صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم نےے خالد کو اللہے کی‬ ‫تلواروں میں سےے ایک تلوار قرار دیا ۔ اللہے تعالی ٰ نےے اپنےے آخری رسول کو جھٹلنےے کی‬ ‫پاداش میں دنیا ک ے متمدن حص ے ک ے حکمرانوں کو مغلوبی کی جو سزا دی تھی‪ ،‬اس‬ ‫ک ے بڑ ے حص ے پر عمل درآمد سیدنا خالد ک ے ہاتھوں س ے ہوا ۔ اسی ک ے باعث آپ کو اللہ‬ ‫کی تلوار کہا گیا ہے۔‬ ‫جنگ موتہ کے چند ماہ بعد مکہ فتح ہوا جس میں سیدنا خالد کا کردار کلیدی تھا۔ تبوک‬ ‫کی لشکر کشی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آپ کو دومۃ الجندل کی فتح‬ ‫‪23‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کے لئے بھیجا جہاں کے حکمران نے لڑے بغیر صلح کر لی۔ ‪630‬ء کا پورا عشرہ سیدنا خالد‬ ‫رضی اللہ عنہ کی فتوحات کا عشرہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وفات کے‬ ‫بعد سیدنا ابوبکر رضی الل ہ عن ہ ک ے دور میں تمام اہ م معرکوں میں آپ قائد کی حیثیت‬ ‫شریک رہے۔ مسیلمہ کذاب اور منکرین زکوۃ کے خلف جنگ کے سالر آپ ہی تھے۔‬ ‫مرتدین کی سرکوبی کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کچھ عرصے کے لئے آپ کو‬ ‫فتح ایران کے لئے بھیجا۔ کئی معرکوں میں آپ نے کامیابی حاصل کی لیکن اس کے بعد‬ ‫شام میں آپ کی ضرورت زیادہ محسوس ہونے پر آپ کو شام کے محاذ پر بھیج دیا گیا۔‬ ‫موجود ہ اردن اس دور میں شام ہ ی کا حص ہ سمجھ ا جاتا تھا ۔ اس پور ے علق ے کی فتح‬ ‫سیدنا خالد کے ہاتھوں ہی ہوئی۔‬ ‫مسلمانوں میں ی ہ تاثر عام ہ و چکا تھ ا ک ہ خالد بن ولید کی شرکت ہ ی کامیابی کی‬ ‫ضمانت ہے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو سپہ سالری سے ہٹا دیا۔ اس واقع‬ ‫کو بعض متعصب مورخین نے کچھ اور رنگ دیا لیکن سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے سیدنا‬ ‫عمر رضی اللہ عنہ سے تعلقات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد بھی ہر‬ ‫معرک ے ک ے عملی قائد خالد ہ ی تھے۔ اپنی وفات ک ے وقت آپ ن ے اپنی وصیت میں اپنی‬ ‫جائیداد کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں تقسیم کیے جانے کی وصیت کی۔‬ ‫شام کی فتح میں فیصلہ کن کردار جنگ یرموک کو حاصل ہے۔ یہ معرکہ موجودہ اردن‬ ‫کے شمالی حصے میں ہوا۔ یہ علقہ گولن کی پہاڑیوں کے قریب ہے۔ مسلم فوج تھکن سے‬ ‫چور تھ ی اور اسےے آرام کی ضرورت تھی ۔ اس موقع پر سیدنا خالد رضی اللہے عنہے نے‬ ‫صرف ساٹھ جانثاروں کے ساتھ پورا دن رومی فوج کے ساٹھ ہزار لشکر کو الجھائے رکھا‬ ‫اور پوری مسلم فوج آرام کرتی رہی۔ پانچ دن کی جنگ کے بعد جنگ مسلم فوج نے جیت‬ ‫لی ۔ اسلمی فوج ک ے سپریم کمانڈ ر سیدنا ابوعبیدہے رضی الل ہ عن ہ نےے اس فتح کا سارا‬ ‫کریڈ ٹ خالد کو دیا ۔ اس جنگ کی تفصیلت کو وکی پیڈیا ک ے مقال ہ نگاروں ن ے نقشو ں‬ ‫کی مدد س ے نہایت ہ ی خوبی س ے بیان کیا ہے۔ اگر آپ ان تفصیلت س ے س ے دلچسپی‬ ‫رکھتے ہیں تو اس لنک پر کلک کیجیے۔‬ ‫‪http://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Yarmouk‬‬ ‫اس ک ے بعد دمشق فتح کرنا زیاد ہ مشکل ثابت ن ہ ہوا ۔ سیدنا خالد رضی الل ہ عن ہ نے‬ ‫اسی کے قریب جنگوں میں حصہ لیا اور کسی میں بھی ناکام نہ ہوئے۔ وقت کی دو سپر‬ ‫پاورز ایران اور روم کی فتح میں آپ کا کردار کلیدی رہا ۔ آپ ن ے شام کی فتح ک ے بعد‬ ‫‪642‬ء میں حمص ہی میں وفات پائی۔ آپ کو آخری دم تک یہ دکھ تھا کہ میدان جنگ میں‬ ‫شہادت کی بجائے آپ کی موت بستر پر واقع ہو رہی ہے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔‬

‫کرک کا قلع ہ اور رینال ڈ دی شاٹلن‬ ‫ان عظیم صحاب ہ کرام رضی اللہ عنہ م کی شان میں یہ چند حقیر س ے کلمات پیش کرنے‬ ‫کے بعد اب ہم واپس اپنے سفر پر آتے ہیں۔ جنگ موتہ کے مقام سے رخصت ہونے کے بعد‬ ‫ہم واپس کرک روڈ پر آئے اور کرک شہر کی طرف ہو لئے۔ کرک شہر چند پہاڑیوں پر آباد‬ ‫ہے۔ دور سے پہاڑی کی چوٹی پر واقع کرک کا قلعہ نظر آ رہا تھا۔‬ ‫شوبک ک ے قلع ے کی طرح ی ہ قلع ہ بھ ی صلیبی فاتحین کا تعمیر کرد ہ ہے جو بعد میں‬ ‫صلح الدین ایوبی کے ہاتھوں فتح ہوا ۔ کرک کا قلعہ موٹی موٹی دیواروں پر مشتمل ہے۔‬ ‫قلعہ قدیم دور کے کرک شہر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ شہر کے لوگ خطرے کے وقت قلعے‬ ‫میں پناہ لیتے۔ قلع ے کے دو درجے ہیں ۔ اوپر وال حصہ صلیبی حکمرانوں کا تعمیر کردہ ہے‬ ‫‪24‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جبکہ نچل حصہ بعد میں مملوک سلطین کے دور کا تعمیر کیا ہوا ہے۔ آپ کو ترتیب کچھ‬ ‫الٹ لگ رہ ی ہ و گی لیکن ی ہ معامل ہ ایسا ہ ی ہے۔ چونک ہ قلع ہ پہاڑی پر واقع ہے ‪ ،‬اس لئے‬ ‫ایسا کرنا ممکن تھا۔‬ ‫ی ہ قلعہے ‪ 1142‬ء میں تعمیر کیا گیا اور اپن ے وقت میں ناقابل تسخیر سمجھ ا جاتا رہا۔‬ ‫سلطان نور الدین زنگی نے اسے فتح کرنے کی کافی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ کرک‬ ‫کےے قلعےے پر صلیبی جنگوں کا مشہور ہیرو رینالڈے دی شاٹلن قابض تھا۔ے یہے یروشلم کے‬ ‫صلیبی بادشا ہ بالڈون چہارم کا نائٹ (‪ ) Knight‬تھا ۔ ی ہ شخص نہایت ہ ی ظالم اور دغا باز‬ ‫تھا۔‬ ‫اس شخص ن ے متعدد مرتب ہ صلح الدین ایوبی س ے معاہد ے کی ے لیکن ہ ر بار انہیں توڑ‬ ‫دیا۔ اس نے قزاقوں اور ڈاکوؤں کا ایک گروہ بنایا اور تجارتی قافلوں پر حملے کرنے لگا۔‬ ‫دمشق س ے قاہر ہ جان ے والی شاہرا ہ جو کرک ک ے قریب س ے ہ ی گزرتی تھی‪ ،‬رینال ڈ کے‬ ‫حملوں سے محفوظ ن ہ رہی۔ جب صلح الدین ایوبی نے اس کی شکایت بالڈون س ے کی‬ ‫تو بالڈون ن ے جواب دیا‪" ،‬میں خود اس شخص س ے بہ ت تنگ ہوں‪ ،‬ی ہ میر ے اختیار میں‬ ‫نہیں۔" رینالڈ نے بحری قزاقوں کا ایک گروہ بنایا جس کے ذریعے اس نے سمندر میں بھی‬ ‫لوٹ مار شروع کی۔ وہ اس گروہ کے ذریعے مکہ اور مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا‬ ‫تھا۔ اس گروہ کو ایوبی کے بھائی عادل نے شکست دے کر گرفتار کیا۔‬ ‫صلح الدین نے ‪1187‬ء میں کرک کا قلعہ فتح کیا۔ رینالڈ کو اس کی بدعہدیوں کے باعث‬ ‫ایوبی ن ے اپن ے ہات ھ س ے قتل کیا ۔ بعض مسیحی مورخین رینال ڈ کو اپن ے شہید ک ے طور پر‬ ‫پیش کرتے ہیں لیکن ان کے انصاف پسند مورخین اسے ایک ظالم ڈاکو ہی سمجھتے ہیں۔‬

‫پ ہاڑ س ے ڈی ڈ سی کا نظار ہ‬ ‫یہاں رک کر میں ن ے چند لوگوں س ے "بحر میت" یعنی ڈی ڈ سی کا راست ہ دریافت کیا اور‬ ‫اب ہم ڈیڈ سی طرف ہو لئے۔ سڑک اب پہاڑوں پر گھومتی ہوئی اوپر جا رہی تھی۔ میرے‬ ‫لئے پہاڑی سڑک پر گاڑی چلنا ایک بہترین تفریح کی حیثیت رکھتا ہے۔ تھوڑی سی پہاڑی‬ ‫ڈرائیونگ نے مجھے ذہنی طور پر فریش کر دیا۔ چند ہی منٹ میں ہم چوٹی پر جا پہنچے۔‬ ‫چوٹی سے پہاڑ کی دوسری طرف نظر پڑی تو ڈیڈ سی ہمارے سامنے تھا۔‬ ‫سامن ے فلسطین ک ے پہاڑ نظر آ رہے تھے۔ ماحول پر کچھ دھند سی چھائی ہوئی تھی۔‬ ‫پھر بھی سبز و سیاہ پہاڑوں کے درمیان ڈیڈ سی کا نیلگوں پانی اچھا لگ رہ ا تھا۔ میں نے‬ ‫یہاں گاڑی روک کر فطرت کے اس نظارے کی کچھ تصاویر بنائیں۔ پہاڑ کی اس چوٹی پر‬ ‫ہم سطح سمندر سے لگ بھگ تین ہزار فٹ کی بلندی پر تھے۔ یہاں سے ڈیڈ سی پر پہنچنے‬ ‫کے لئے ہمیں پہاڑ کی جڑ تک پہنچنا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے لئے ہمیں تین ہزار‬ ‫نہیں بلکہ چار ہزار فٹ کی گہرائی میں اترنا تھا۔‬

‫روئ ے زمین پر سب س ے زیاد ہ نشیبی علق ہ‬ ‫ڈی ڈ سی اور اس ک ے اطراف کا علقہ ‪ ،‬پانی اور برف س ے باہ ر روئ ے زمین کا سب سے‬ ‫نشیبی علق ہ ہے۔ سطح سمندر س ے اس کی بلندی ‪ 1100-‬فٹ ہے۔ اسی منفی گیار ہ سو‬ ‫کا مطلب یہے ہےے ک ہ یہے علقہے سطح سمندر سےے گیارہے سو فٹ کی گہرائی میں واقع ہے۔‬ ‫زمین پر اس س ے نیچا مقام تو پھ ر سمندر کی تہہ ہ ی ہ و سکتی ہے۔ ماہرین ارضیات (‬ ‫‪ )Geologists‬کا خیال ہے کہ تیس لکھ سال قبل یہ مقام بحیرہ احمر کا حصہ تھا۔ بیس لکھ‬ ‫سال قبل ی ہ علق ہ اونچا ہونا شروع ہوا جس ک ے باعث ڈی ڈ سی‪ ،‬ری ڈ سی س ے کٹ کر رہ‬ ‫‪25‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫گیا۔ ڈی ڈ سی میں تمام تر پانی دریائ ے اردن ک ے ذریع ے آتا ہے۔ اس ک ے علو ہ چند چھوٹے‬ ‫موٹے چشمے پہاڑوں سے آ کر اس میں گرتے ہیں۔‬ ‫اب ہم نیچے اترنے لگے۔ سڑک کے کنارے متعدد بورڈ لگے تھے‪ ،‬جن میں گاڑی کو بھاری‬ ‫گیئر میں رکھن ے کی تلقین کی گئی تھی۔ مسلسل اترائی کے وقت گاڑی کو بھاری گیئر‬ ‫میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بریکوں استعمال کم سے کم کیا جائے۔ اگر اترائی پر بریکوں‬ ‫کو بہ ت زیاد ہ استعمال کیا جائ ے تو اس ک ے نتیج ے میں ی ہ جام ہ و کام کرنا چھوڑ سکتی‬ ‫ہیں‪ ،‬جس کا نتیج ہ اس ک ے سوا کچ ھ نہیں نکلتا ک ہ یا تو پہاڑ س ے ٹکرا کر گاڑی کو روکا‬ ‫جائے یا پھر اسے کسی کھائی میں گرنے دیا جائے۔ یہ دونوں صورتیں ہمارے لئے قابل قبول‬ ‫نہ تھیں‪ ،‬چنانچہ میں نے گاڑی کو ‪ L‬گیئر میں ڈال اور پاؤں کو ایکسیلیریٹر سے ہٹا لیا۔ اب‬ ‫گاڑی کشش ثقل کے تحت نیچے جا رہی تھی اور بھاری گیئر اسے سنبھالے ہوئے تھے۔ اب‬ ‫میر ے دونوں پاؤں آزاد تھے۔ صرف چند موڑوں پر مجھے بریک کا استعمال کرنا پڑا ورنہ‬ ‫ہم لوگ آسانی سے اس فری فال کو انجوائے کر رہے تھے۔‬ ‫جیسے ہی ہم نیچے پہنچے‪ ،‬ایک چیک پوسٹ نے ہمارا استقبال کیا۔ اب ہم عقبہ سے ڈیڈ‬ ‫سی آن ے والی سڑک پر تھے۔ چیک پوسٹ پر تعینات اردنی فوجی ن ے ہ م س ے پاسپورٹ‬ ‫مانگے۔ پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر وہ چونکا اور بول‪" ،‬آپ پاکستانی ہیں؟" میں نے اثبات‬ ‫میں سر ہلیا تو مسکرا کر بول‪”Welcome to Jordan“ ،‬۔ پورے اردن میں یہی معمول رہا۔‬ ‫ہم جب بھی کسی چیک پوسٹ پر رکتے‪ ،‬فوجی ہمارےے پاسپورٹ دیکھے کر چونکتے‪،‬‬ ‫پاکستانی ہونا کنفرم کرت ے اور ویلکم تو جارڈ ن یا مرحبا بالردن ک ے الفاظ ضرور کہتے۔‬ ‫اس سے ہم اس خوش فہمی میں مبتل ہو گئے کہ اہل اردن پاکستان سے بہت محبت کرتے‬ ‫ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ خوش فہمی درست تھی۔‬

‫نمک کی ج ھیلیں‬ ‫ہم جس مقام پر پہاڑوں سے نازل ہوئے تھے‪ ،‬وہ ڈیڈ سی اور اس کے جنوب میں واقع نمک‬ ‫کی جھیلوں ک ے بالکل درمیان واقع تھا ۔ ڈی ڈ سی ک ے جنوب میں نمک کی جھیلیں واقع‬ ‫ہیں۔ یہ مصنوعی جھیلیں ہیں جن میں ڈیڈ سی سے نہر نکال کر پانی لیا گیا ہے۔ اس پانی‬ ‫کو خشک کر کے اعلی درجے کا نمک اور دوسرے کیمیکل حاصل کئے جاتے ہیں۔ ڈیڈ سی‬ ‫کےے بیچوں بیچ اردن اور اسرائیل کی سرحد ہے۔ے یہے سرحد نمک کی جھیلوں سےے بھی‬ ‫اسی طرح گزرتی ہے۔ سرحد کے دونوں جانب یہ جھیلیں واقع ہیں۔‬

‫بئر سبع (‪ )Beersheba‬اور الخلیل (‪)Hebron‬‬ ‫ہمار ے بالکل سامن ے فلسطین کا علق ہ جن میں بئر سبع (‪ ) Beersheba‬کا شہ ر واقع تھا۔‬ ‫اس شہ ر ک ے شمال میں تھوڑ ے فاصل ے پر حبرون (‪ ) Hebron‬کا شہ ر واقع ہے جو عربی‬ ‫میں الخلیل کہتا ہے۔ میں گوگل ارت ھ پر اس سار ے علق ے کو تفصیل س ے دیک ھ چکا تھا‪،‬‬ ‫اس لئے ان مقامات کی درست لوکیشن سے واقف تھا۔ تل ابیب یونیورسٹی کے محققین‬ ‫کی تحقیق کے مطابق یہ علقہ چھ ہزار سال سے آباد ہے۔‬ ‫ان دونوں شہروں کو انبیاء کرام کی تاریخ میں خاص الخاص اہمیت حاصل ہے۔ اس‬ ‫کی وجہ یہ ہے کہ ان شہروں کو الل ہ کے خلیل‪ ،‬سیدنا ابراہیم علی ہ الصلو ۃ والسلم ن ے اپنی‬ ‫دعوت توحید کا مرکز بنایا تھا ۔ آپ ن ے بئر سبع ک ے علق ے میں قربان گا ہ تعمیر فرمائی‬ ‫تھ ی اور مصر س ے واپسی پر آپ ن ے حبرون میں زمین خرید کر یہاں قیام فرمایا تھا۔‬ ‫حبرون کو عربی میں سیدنا ابراہیم علی ہ الصلو ۃ والسالم کی مناسب س ے ہ ی "الخلیل"‬ ‫‪26‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کہ ا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک مسجد بھ ی ہے جو عربی میں "الحرم البراہیمی" ک ے نام سے‬ ‫مشہور ہے۔ یہیں پر وہ مشہور غار ہے جسے باپ کی غار ( ‪ )Cave of Patriarchs‬کہا جاتا ہے۔‬ ‫بائبل کے مطابق سیدنا ابراہیم علیہ السلم نے اپنی زوجہ سارہ رضی اللہ عنہا کو یہاں دفن‬ ‫کیا تھا۔ اس کے بعد سیدنا ابراہیم‪ ،‬اسحاق‪ ،‬یعقوب علیہم الصلوۃ والسلم بھی یہیں دفن‬ ‫ہوئے۔ سیدنا اسحاق و یعقوب کی بیویاں ربق ہ اور راحل رضی الل ہ عنہما بھ ی یہیں دفن‬ ‫ہیں۔‬ ‫یہ مقامات اردن کا حصہ تھے لیکن ‪1967‬ء کی جنگ کے نتیجے میں یہ اسرائیل کے قبضے‬ ‫میں چلے گئے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ان مقامات پر نہیں جا سکا۔ اس کی وجہ صرف‬ ‫اور صرف ی ہ ہے ک ہ ی ہ مقامات اب اسرائیل میں واقع ہیں اور پاکستانی‪ ،‬سعودی‪ ،‬اردنی‬ ‫اور اسرائیلی قوانین کے مطابق اسرائیل میں میرا داخلہ ممنوع تھا۔‬

‫سیدنا ابرا ہیم علی ہ الصلو ۃ والسلم‬ ‫سیدنا ابراہیم علیہے الصلوۃے والسلم کی حیات طیبہے اللہے تعالیٰے کےے لئےے تسلیم و رضا کا‬ ‫اعلی ترین نمونہ ہے۔ آپ دجلہ و فرات کے درمیان واقع عراق کے شہر "اُر" کے رہنے والے‬ ‫تھے۔ آپ کو خداوند واحد کی توحید کا علم بلند کرنے کی پاداش میں نمرود نے آگ میں‬ ‫ڈال دیا تھا ۔ اس ک ے بعد نمرود پر الل ہ تعالیٰ کا قہ ر و غضب نازل ہوا اور الل ہ کے رسول‬ ‫کے مقابلے پر کھڑے ہونے کے جرم میں اسے ہلک کر دیا گیا۔‬ ‫الل ہ تعالی ٰ ک ے حکم ک ے مطابق سیدنا ابراہیم علی ہ الصلو ۃ والسلم عراق س ے ہجرت‬ ‫فرما کر پہل ے موجود ہ شام میں واقع شہ ر حاران تشریف ل ے گئ ے اور اس ک ے بعد ارض‬ ‫فلسطین میں تشریف لئے۔ آپ ن ے بیت ایل (یروشلم)‪ ،‬حبرون اور بئر سبع کے علقوں‬ ‫میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے مراکز قائم کیے جنہیں بائبل میں قربان گاہ کہا گیا ہے۔ اس‬ ‫کے بعد آپ مصر تشریف لے گئے جہاں کے بادشاہ نے آپ کے دینی دعوت سے متاثر ہو کر‬ ‫آپ کی خدمت میں مال و اسباب اور جانور پیش کیے۔ مصر س ے واپسی پر آپ دوبارہ‬ ‫فلسطین کے علقے میں پہنچے۔ ان تمام سفروں میں سیدنا لوط علیہ الصلوۃ والسلم آپ‬ ‫کے ہمراہ تھے۔‬ ‫اسی دور میں الل ہ تعالی کے حکم س ے تمام مردوں کا ختن ہ کیا گیا ۔ اگرچ ہ اہ ل مغرب‬ ‫ن ے اس سنت ابراہیمی اور فطری عمل کو کافی عرص ہ ترک کی ے رکھ ا لیکن اب جدید‬ ‫تحقیقات ک ے نتیج ے میں ی ہ لوگ بھ ی دوبار ہ ختن ہ کو اپنا رہے ہیں ۔ جدید تحقیقات س ے یہ‬ ‫ثابت ہوا ہے کہ ختنہ ایڈز سے بچاؤ کی نہایت ہی موثر تدبیر ہے۔‬

‫اولد ابرا ہیم اور الل ہ تعالی کی جزا و سزا کا قانون‬ ‫یہاں آپ نے دریائے اردن اور ڈیڈ سی کے مشرق میں سیدنا لوط علیہ الصلوۃ والسلم کو‬ ‫آباد ہون ے کا حکم دیا اور خود ڈی ڈ سی ک ے مغرب میں حبرون ک ے مقام پر رہائش اختیار‬ ‫کی جہاں آپ ن ے الل ہ تعالی ٰ ک ے لئ ے قربان گا ہ قائم فرمائی ۔ اس موقع پر الل ہ تعالی ٰ نے‬ ‫حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلم سے فرمایا‪:‬‬ ‫"جس جگ ہ تم ٹھہرے ہوئے ہو‪ ،‬وہاں سے اپنی نگاہ اٹھا کر شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کی‬ ‫طرف نظر دوڑاؤ۔ یہ سارا ملک جو تم دیکھ رہے ہو‪ ،‬اسے میں تمہیں اور تمہاری نسل کو ہمیشہ کے‬ ‫لئ ے دوں گا ۔ میں تمہاری نسل کو خاک ک ے ذروں ک ے مانند بناؤں گا ۔ اگر کوئی شخص خاک کے‬ ‫ذروں کو گن سکے تو وہ تمہاری نسل کو بھ ی گن سک ے گا۔ جاؤ اور اس ملک ک ے طول و عرض‬ ‫میں (الل ہ ک ے دین کی دعوت پھیلن ے ک ے لئے ) گھومو کیونک ہ میں اس ے تمہیں د ے رہ ا ہوں۔ " (کتاب‬ ‫پیدائش ‪)17-13:15‬‬ ‫‪27‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫بائبل کی ان آیات سے بنی اسرائیل نے ایک غلط معنی اخذ کیا۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ‬ ‫ملک ہمیں اولد ابراہیم ہونے کے ناطے عطا کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان‬ ‫کی غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا‪:‬‬ ‫یاد کرو جب اللہ نے ابراہیم کو چند باتوں سے آزمایا اور وہ ان میں پورا اترے‪ ،‬تو اس نے کہا‪" ،‬میں‬ ‫تمہیں انسانوں کا امام بنان ے وال ہوں۔ " ابراہیم ن ے عرض کیا‪" ،‬اور کیا میری اولد س ے بھ ی یہی‬ ‫وعدہ ہے؟" فرمایا‪" ،‬میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔" (البقرۃ ‪)2:124‬‬

‫الل ہ تعالی ٰ کا دنیا میں عروج دین ے کا وعد ہ صرف اولد ابراہیم ک ے صرف ان لوگوں سے‬ ‫تھ ا جنہوں ن ے ابراہیم کی پیروی میں الل ہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی ۔ بائبل کے مصنفین‬ ‫نے اللہ تعالیٰ کے ان رسولوں کی زندگیوں کے بعض پہلوؤں پر روشنی تو ڈالی ہے لیکن‬ ‫ان کی سیرت کے اہم ترین حصے یعنی ان کی دعوتی سرگرمیوں اور طریق ہائے کار پر‬ ‫زیادہ معلومات فراہم نہیں کیں۔‬ ‫الل ہ تعالیٰ ایک ہے۔ اس ن ے انسان کو پیدا کیا ۔ اس زندگی ک ے بعد ایک اور زندگی ہے‬ ‫جس میں اللہ تعالیٰ انسان سے اس کی دنیاوی زندگی کے اعمال کا حساب لے گا۔ نیک‬ ‫اعمال والوں کے لئے جنت ہے اور بروں کے لئے جہنم ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کے دین کے بنیادی‬ ‫مقدمات جنہیں ایمان باللہ اور ایمان بالخرت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس بات کی یاد دہانی‬ ‫ک ے لئ ے الل ہ تعالی ٰ ن ے اپن ے نبی بھیج ے جو دلئل اور براہین کی مدد س ے اس بات کو یاد‬ ‫دلتے رہے۔‬ ‫عام انبیاء کرام کے علوہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور غیر معمولی انتظام کیا اور وہ یہ تھا کہ‬ ‫انہی انبیاء میں سے کچھ کو منصب رسالت پر فائز کیا۔ یہ رسول زمین پر اللہ کی حجت‬ ‫بن کر آئے اور وہ قیامت جو پوری نسل انسانیت کے لئے ایک خاص وقت پر لگے گی‪ ،‬ان‬ ‫کی قوموں ک ے لئ ے دنیاوی زندگی میں لگا دی گئی ۔ اگر کسی قوم ن ے اپن ے رسول کی‬ ‫پیروی کی تو اس ے دنیا میں سرفراز کر دیا گیا ۔ اس کی مثال سیدنا یونس علی ہ الصلوۃ‬ ‫والسلم کی قوم ہے۔ے دوسری طرف اگر کسی قوم نےے رسول کےے سامنےے سرکشی‬ ‫دکھائی تو اس ے دنیا میں سزا د ے دی گئی ۔ ی ہ آسمانی عدالت اور قیامت صغری ٰ سیدنا‬ ‫نوح‪ ،‬ھود‪ ،‬صالح‪ ،‬شعیب‪ ،‬لوط اور ابراہیم علی ہ الصلو ۃ والسلم کی اقوام ک ے لئ ے لگی‬ ‫تھ ی اور ان کی اقوام کو اس دنیا ہ ی میں سزا دے کر تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ‬ ‫کے اس انتظام کو قرآن مجید میں دینونت سے تعبیر کیا گیا ہے۔‬ ‫سیدنا ابراہیم علی ہ الصلو ۃ والسلم کے زمان ے تک شخصی دینونت کا دور ہوا کرتا تھا۔‬ ‫اللہ کا ایک رسول اپنی قوم کے سامنے آتا۔ رسول کو ماننے کی صورت میں قوم کو دنیا‬ ‫ہی میں کامیاب و کامران کر دیا جاتا اور نہ ماننے کی صورت میں دنیا ہی میں عذاب آتا۔‬ ‫سیدنا ابراہیم علیہے الصلوۃے والسلم سےے اللہے تعالیٰے نےے اجتماعی دینونت کا دور شروع‬ ‫فرمایا۔‬ ‫اب اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کا انتخاب کر لیا۔ یہ قوم سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلم‬ ‫کی اولد تھی ۔ اس قوم کو الل ہ تعالی ٰ ن ے اس دنیا میں آخرت کی جزا و سزا کا جیتا‬ ‫جاگتا نمونہ بنا دیا۔ جب جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی‪ ،‬انہیں دنیا ہ ی میں اس‬ ‫کا اجر سرفرازی کی صورت میں مل گیا۔ے اور جیسےے ہی انہوں نےے اللہے تعالیٰے کی‬ ‫نافرمانی کی‪ ،‬انہیں دنیا ہ ی میں ذلت‪ ،‬نامرادی‪ ،‬مغلوبی اور آپس ک ے قتل و غارت کی‬ ‫صورت میں سزا دی گئی۔‬ ‫یہ معاملہ اللہ تعالیٰ نے دو ادوار میں کیا۔ پہلے دور میں اولد ابراہیم کی ایک شاخ بنی‬ ‫اسرائیل کو منتخب کیا گیا اور بائبل میں کی ے گئ ے اس وعد ے ک ے مطابق انہیں دریائے‬ ‫‪28‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫فرات سے لے کر دریائے نیل تک کے علقے پر حکومت دی گئی۔ اس علقے میں اس دور‬ ‫کی تمام اقوام قینی‪ ،‬قنیزی‪ ،‬قدمونی‪ ،‬حتی‪ ،‬فرزی‪ ،‬رفائیم‪ ،‬اموری‪ ،‬کنعانی‪ ،‬جرجاسی‬ ‫اور یبوسی بنی اسرائیل کے ماتحت کر دیے گئے (کتاب پیدائش ‪)15:21‬۔ بنی اسرائیل کے‬ ‫سات ھ جزا و سزا کا ی ہ معامل ہ چلتا رہا ۔ ان کی سرکشی ک ے نتیج ے میں ان پر پہل ے نبوکد‬ ‫نضر اور پھ ر ٹائٹس جیس ے فاتحین کی شکل میں عذاب آیا ۔ جب ان کی سرکشی اس‬ ‫حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلم‬ ‫کا انکار کیا تو پھر قیامت تک کے لئے ذلت اور عیسی علیہ الصلوۃ والسلم کے پیروکاروں‬ ‫کے ماتحت رہنے کا عذاب ان پر مسلط کر دیا گیا۔‬ ‫سیدنا ابراہیم علیہے الصلوۃے والسلم کےے بڑےے بیٹےے اسماعیل علیہے الصلوۃے والسلم کی‬ ‫اولد کو عرب کا ملک دیا گیا۔ے ان کی دینونت کا دور محمد رسول اللہے علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم سے شروع ہوا ۔ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی تو چند سال میں‬ ‫بلوچستان سے لے کر سپین تک کا علقہ ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیا گیا۔ جب انہوں نے‬ ‫اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو پھر ان پر اللہ کے عذاب کا پہل کوڑا آپس کی جنگوں کی‬ ‫صورت میں برسا اور پھ ر تاتاریوں‪ ،‬صلیبیوں اور بالخر ان کےے اپنےے بھائیوں یعنی بنی‬ ‫اسرائیل ک ے یہودیوں ک ے ہاتھوں انہیں سزا دی گئی ۔ مستقبل میں معلوم نہیں ک ہ اولد‬ ‫ابراہیم کی ان دونوں شاخوں یعنی بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کو ان کی نیکیوں پر‬ ‫کیا اجر مل ے گا اور ان ک ے اجتماعی گناہوں کی کیا سزا انہیں اسی دنیا میں دی جائے‬ ‫گی۔‬ ‫اولد ابراہیم کی اس تاریخ کا مقصد دوسری تمام اقوام کے لئے آخرت کی جزا و سزا‬ ‫کا ایک نمونہ بنا دینا تھا تاکہ پوری نسل انسانیت اولد ابراہیم سے سبق حاصل کرے کہ جو‬ ‫کچھے ان کےے ساتھے اجتماعی حیثیت میں اس دنیا میں ہوا‪ ،‬وہ ی کچھے ہ م سب کےے ساتھ‬ ‫انفرادی حیثیت میں آخرت میں عنقریب ہونے ہی وال ہے۔‬

‫ڈی ڈ سی رو ڈ‬ ‫فلسطینی علق ے کو دیکھت ے ہوئ ے اور اولد ابراہیم کی تاریخ کا عبرت آموز تذکر ہ کرتے‬ ‫ہوئے ہم شمال کی جانب روانہ ہوئے۔ اب ہم ڈیڈ سی روڈ پر سفر کر رہے تھے۔ یہ سڑک ڈیڈ‬ ‫سی کے مشرقی کنارے پر بنائی گئی ہے۔ ایسی ہ ی ایک سڑک اس کے مغربی کنارے پر‬ ‫اسرائیل میں موجود ہے۔ سعودی عرب سے فل کروائی گئی پیٹرول کی ٹنکی اب نصف‬ ‫سے بھ ی کم رہ گئی تھ ی چنانچہ ہ م نے گاڑی روک کر سعودی عرب کے پیٹرول کی کین‬ ‫کو ٹنکی میں انڈیلنا شروع کیا۔ "کپی" کے بغیر یہ کافی مشکل کام ثابت ہوا لیکن بہرحال‬ ‫ہو گیا۔‬

‫قوم لوط کا علق ہ‬ ‫کچھ دور آگے چلے تو ہمارے دائیں جانب عجیب و غریب کٹے پھٹے پہاڑ شروع ہو گئے۔ ایسا‬ ‫معلوم ہو رہا تھا کہ اس علقے میں کوئی ایٹم بم پھٹا ہو گا جس کے باعث ان پہاڑوں کی‬ ‫یہ حالت ہوئی ہو گی۔ میرے ذہن میں قرآن مجید اور بائبل کی یہ آیات گونجنے لگیں‪:‬‬ ‫"پھ ر جب ہمار ے فیصل ے کا وقت آ پہنچا تو ہ م ن ے اس بستی کو الٹ پلٹ کر دیا اور ان پر پکی‬ ‫مٹی ک ے پتھ ر برسائ ے جس میں س ے ہ ر پتھ ر تیر ے رب ک ے ہاں س ے (اپن ے ہدف ک ے لئے ) نشان زدہ‬ ‫تھا۔" (ہود ‪)11:82‬‬ ‫"دوسرے دن صبح سویرے ابرہام اٹھے اور اس مقام کو پلٹ ے جہاں و ہ خداوند ک ے حضور (نماز کے‬ ‫‪29‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫لئے ) کھڑ ے ہوتے تھے۔ انہوں ن ے نیچے سدوم اور عمور ہ اس میدان کے سارے علقے پر نظردوڑائی‬ ‫اور دیکھا کہ اس سرزمین سے کسی بھٹی کے دھویں جیسا گہرا دھواں اٹھ رہا تھا۔" (کتاب پیدائش‬ ‫‪)28-19:27‬‬

‫جی ہاں‪ ،‬جہاں سے ہم گزر رہےتھے‪ ،‬یہ علقہ سدوم اور عمورہ کا علقہ تھا۔ جب لوط علیہ‬ ‫الصلوۃے والسلم یہاں آباد ہوئےے تو بائبل کےے بیان کےے مطابق‪ ،‬یہے دور دور تک سرسبز و‬ ‫شاداب علق ہ تھا ۔ اہل سدوم نہایت ہ ی بدکار قوم تھی ۔ ی ہ لوگ دوسری اخلقی خرابیوں‬ ‫کے علوہ ہم جنس پرستی کے مرض میں بھی مبتل تھے۔ بعض احمق لوگ اس فعل بد کو‬ ‫لواطت کہتے ہیں۔ سیدنا لوط علیہ الصلوۃ والسلم وہ پاکباز ہستی ہیں جنہوں نے اس فعل‬ ‫بد کے خلف آواز اٹھائی۔ اس فعل کو آپ سے موسوم کرنا یقینا ً آپ کی شان میں بہت‬ ‫بڑی گستاخی ہے۔‬ ‫اللہ کے رسول کو جھٹلنے اور اپنی برائی پر اصرار اور سرکشی کے باعث قوم لوط‬ ‫پر اللہ کا عذاب آیا۔ قرآن مجید کے مطابق ان پر مٹی کے دہکتے پتھروں کی بارش کر کے‬ ‫انہیں ہلک کر دیا گیا ۔ بائبل ک ے مطابق اس میں گندھ ک کی آمیزش بھ ی تھی ۔ امریکی‬ ‫محقق رون وائٹ نےے اس علقےے کی مٹی کےے بارےے میں جو تحقیقات کی ہیں‪ ،‬ان کے‬ ‫مطابق اس علق ے میں گندھ ک کثرت س ے پائی جاتی ہے۔ اس علق ے میں عام زمین کے‬ ‫اوپر ایک اور زمینی تہہے (‪ ) Geological Layer‬پائی جاتی ہےے جو رون کی تحقیقات کے‬ ‫مطابق عذاب وال ے مٹی اور پتھروں کی تہہ ہے۔ ان کی تحقیقات کو دیکھن ے ک ے لی ے اس‬ ‫لنک کو کلک کیجیے۔‬ ‫‪http://wyattmuseum.com/cities-of-the-plain.htm‬‬ ‫قرآن مجید ن ے جہاں جہاں اس قوم کا ذکر کیا وہاں ان کی اس بدفعلی کا ذکر بھی‬ ‫کیا ہے۔ اس مقام پر قرآن مجید کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑی کہ یہ بھی کوئی برائی‬ ‫ہے۔ قرآن نے اس کا ذکر ایک طے شدہ ( ‪ )Established‬برائی کے طور پر کیا ہے۔ اس سے یہ‬ ‫معلوم ہوتا ہے کہ پوری تاریخ انسانیت میں ہم جنس پرستی کو ایک برائی کی حیثیت ہی‬ ‫حاصل رہی ہے۔ اس سے استثنا صرف سدوم اور قدیم یونان کے لوگوں کو حاصل ہے یا‬ ‫پھر آج کے اہل مغرب میں سے ہم جنس پرستوں (‪ )Gays & Lesbians‬کا ایک اقلیتی گروہ‬ ‫ہے جو اس فعل کی حمایت میں سرگرم ہوا ہے۔ ان گروہوں س ے ہٹ کر باقی اہل مغرب‬ ‫بھی اس فعل کو گناہ ہی سمجھتے ہیں۔‬ ‫اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نیکی اور بدی‬ ‫کا جو شعور ودیعت کیا ہے ‪ ،‬انسانوں کی قلیل تعداد اس فطرت کو کبھ ی کبھ ی مسخ‬ ‫بھی کر لیا کرتی ہے جیسا کہ انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی آسمانی ہدایت کو بھی کہیں کہیں‬ ‫مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس موقع پر اچھ ا ہےے اگر میں سید مودودی صاحب کا‬ ‫ایک اقتباس نقل کرتا چلوں کیونک ہ فطرت ک ے اس بیان ک ے لئ ے میں ان س ے بہتر الفاظ‬ ‫نہیں پا رہا۔‪:‬‬ ‫یہ بات بالکل صریح حقیقت ہے کہ مباشرت ہم جنسی قطعی طور پر وضع فطرت کے خلف ہے۔‬ ‫اللہ تعالی نے تمام ذی حیات انواع میں نر و مادہ کا فرق محض تناسل اور بقائے نوع کے لئے رکھا‬ ‫ہے اور نوع انسانی کے لئے اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک‬ ‫خاندان وجود میں لئیں اور اس سے تمدن کی بنیاد پڑے۔ اسی مقصد کے لئے مرد اور عورت کی‬ ‫دو الگ صنفیں بنائی گئی ہیں‪ ،‬ان میں ایک دوسرے کے لئے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے‪ ،‬ان کی‬ ‫جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرےے ک ے جواب میں مقاصد زوجیت کےے لئ ے عین‬ ‫مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشا‬ ‫کو پورا کرن ے ک ے لئ ے بیک وقت داعی و محرک بھ ی ہے اور اس خدمت کا صل ہ بھی۔ے مگر جو‬

‫‪30‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫شخص اپنےے ہ م جنس سےے شہوانی لذت حاصل کرتا ہےے وہے ایک ہ ی وقت میں متعدد جرائم کا‬ ‫مرتکب ہوتا ہے‪:‬‬ ‫اول ً و ہ اپنی اور اپن ے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب س ے جنگ کرتا ہے اور اس‬ ‫میں خلل عظیم برپا کر دیتا ہے جس س ے دونوں ک ے جسم‪ ،‬نفس اور اخلق پر نہایت بر ے اثرات‬ ‫مرتب ہوتے ہیں۔‬ ‫ثانیا ً وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکاب کرتا ہے‪ ،‬کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع‬ ‫اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور ذمہ داریوں اور حقوق کے‬ ‫سات ھ وابستہ کیا تھ ا و ہ اس ے کسی خدمت کی بجا آوری اور کسی فرض اور حق کی ادائگی اور‬ ‫کسی ذمہ داری کے التزام کے بغیر چرا لیتا ہے۔‬ ‫ثالثا ً وہے انسانی اجتماع کےے ساتھے کھلی بددیانتی کرتا ہےے کہے جماعت کےے قائم کیےے ہوئےے تمدنی‬ ‫اداروں سے فائدہ تو اٹھا لیتا ہے مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمہ‬ ‫داریوں کا بوجھے اٹھانےے کی بجائےے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کےے ساتھے ایسےے طریقہے پر‬ ‫استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدن و اخلق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں بلک ہ ایجابا ً مضرت‬ ‫رساں ہے۔ وہ اپن ے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت ک ے لی ے نااہ ل بناتا ہے ‪ ،‬اپن ے سات ھ کم از کم‬ ‫ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتل کرتا ہے ‪ ،‬اور کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی‬ ‫بے راہ روی اور اخلقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ (تفہیم القرآن ج ‪ ، 2‬ص ‪)52‬‬

‫آج کے ہم جنس پرست اپنے غلیظ کاموں کے جواز میں جو پروپیگنڈا کر رہے ہیں‪ ،‬اس کی‬ ‫بنیاد میں و ہ بائیو کیمسٹری ک ے کچ ھ تصورات کو توڑ مروڑ کر پیش کرت ے ہیں ۔ ان کے‬ ‫مطابق ہ م جنس پرست انسان ک ے جسم و دماغ میں کچ ھ کیمیکلز ایس ے ہوت ے ہیں جن‬ ‫کے باعث اس کا فطری میلن صنف مخالف کی بجائے اپنی ہی صنف کی طرف ہو جاتا‬ ‫ہے۔ یہ میلن ان کے ڈ ی این اے میں ہی ودیعت کیا ہوا ہوتا ہے۔ چونکہ یہ چیز ان کے اختیار‬ ‫میں نہیں‪ ،‬اس لیے معاشرے کو ہم جنس پرستوں کو قبول کر لینا چاہیے۔‬ ‫ان کے اس مغالطے کا کم از کم اردو لٹریچر میں مجھے جواب نہیں مل اس لیے اس‬ ‫پر کچھ جملے لکھنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اگر ہم جنس پرستوں کے کیمیکلز میں‬ ‫کچھے مسئلہے ہےے بھی‪ ،‬تو معاشرےے کو ان کےے مضر اخلقی اثرات سےے بچانےے کےے لیےے یہ‬ ‫ضروری ہے ک ہ ان کا علج کیا جائے۔ میڈیکل سائنس اب اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ‬ ‫ادویات کی مدد سے اس مسئلےکو دور کیا جا سکتا ہے۔ رہا مسئلہ جینز اور ڈی این اے کا‬ ‫تو یہے ابھ ی تک محض ایک مفروضہے ہےے جسےے کوئی بھ ی ثابت نہیں کر سکا۔ے ہ م جنس‬ ‫پرستوں کے مسائل پر کی گئی تحقیقات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کم عمری ہی‬ ‫میں بری صحبتوں کا شکار ہو کر یہ عادات اپنا لیتے ہیں جو عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی‬ ‫چلی جاتی ہیں۔ کسی اچھے ماہر نفسیات بالخصوص ہپناٹسٹ یا پھر اچھے سائیکاٹرسٹ‬ ‫کی مدد سے ان عادات سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔‬ ‫ہ م لوگ اس مقام س ے جلدی جلدی گزر ے کیونک ہ ی ہ عذاب کی جگ ہ تھی ۔ کچ ھ آگ ے جا‬ ‫کر میں ن ے گاڑی روکی اور ہ م ڈی ڈ سی کو دیکھن ے لگے۔ ی ہ جھیل سیدنا لوط علی ہ الصلوۃ‬ ‫والسلم کی نسبت سے بحر لوط بھی کہلتی ہے۔ ڈیڈ سی کافی گہرائی میں تھا اور جہاں‬ ‫جہاں اس کا نیلگوں پانی چٹانوں سے ٹکرا رہا تھا وہاں نمک کی واضح تہہ بھی جمی ہوئی‬ ‫تھی۔ سطح سمندر سے ہزار فٹ گہرائی میں ہونے کے باعث یہاں کافی گرمی تھی۔‬ ‫ساتھ ہی پہاڑ پر ایک انسان نما چٹان نکلی ہوئی تھی۔ اس کے بارے میں بعض لوگوں‬ ‫نےی ہ مشہور کر دیا ہے ک ہ ی ہ لوط علی ہ الصلو ۃ والسلم کی بیوی تھی‪ ،‬جو اپنی قوم سے‬ ‫بہت محبت کرتی تھی جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے اسے بھی عذاب کا شکار کر دیا تھا۔‬ ‫آپ کی بیوی ک ے پیچھے ر ہ جان ے اور عذاب کا شکار ہون ے کا ذکر قرآن میں موجود ہے‬ ‫لیکن اس چٹان کےے بارےے میں روایت کچھے درست معلوم نہیں ہوتی۔ے اس سےے یہے بھی‬ ‫‪31‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام سے رشتہ داری انسان کی نجات کی ضمانت نہیں ہے بلکہ ان‬ ‫کی سچے دل سے پیروی ہی انسان کو نجات دلئے گی۔ اللہ کے رسولوں کا سچا پیروکار‬ ‫جنت میں ان کے ساتھ ہو گا جب کہ ان کا نافرمان رشتے دار جہنم میں ان سے کہیں دور‬ ‫ہو گا۔‬

‫وادی محجب‬ ‫کچھ آگے چلے تو ہم وادی محجب میں جا نکلے۔ یہاں پہاڑوں سے آنے والی ایک ندی‪ ،‬آبشار‬ ‫کی صورت میں نیچ ے گر رہ ی تھی ۔ اس مقام پر ڈی ڈ سی رو ڈ س ے کچ ھ دور ہ ٹ گیا تھا۔‬ ‫سڑک پہاڑوں ک ے سات ھ سات ھ تھ ی اور سڑک اور ڈی ڈ سی ک ے درمیان ایک نہایت ہ ی سر‬ ‫سبز و شاداب وادی تھی جس میں گھنا سبزہ موجود تھا۔ یہ سبزہ‪ ،‬محجب کے چشمے ہی‬ ‫سے اگایا گیا تھا۔ اس پر ایک گیٹ بھی لگا ہوا تھا جس کے باعث ہم اندر نہ جا سکے۔‬ ‫راست ے میں دو تین چیک پوسٹیں آئیں جہاں "باسبورت؟۔۔۔باکستانی؟؟۔۔۔۔ ویلکم ٹو‬ ‫جارڈن!!!" کے مراحل سے گزرتے ہوئے ہم ڈیڈ سی کے آخر تک پہنچ گئے۔ سڑک پر جا بجا‬ ‫فوجی گاڑیاں کھڑی تھیں جن میں مسلح جوان بیٹھے ہوئ ے تھے۔ ہ ر گاڑی پر ایک مشین‬ ‫گن بھ ی نصب تھی ۔ دلچسپ بات ی ہ ہے ک ہ ان تمام گنوں کا رخ اسرائیل کی بجائ ے اپنے‬ ‫ہی ملک اردن کی جانب تھا۔‬ ‫ڈیڈ سی کی لمبائی پچاس پچپن کلومیٹر کے قریب تھی۔ ڈیڈ سی کے شمالی کنارے کے‬ ‫تقریبا ً وسط میں دریائ ے اردن بل کھاتا ہوا ڈی ڈ سی میں گرتا نظر آ رہ ا تھا ۔ اردن کی یہ‬ ‫خوبی مجھے بہ ت پسند آئی ک ہ تمام تاریخی مقامات ک ے لی ے تھوڑ ے تھوڑ ے وقف ے پر بورڈ‬ ‫اور تیر کے نشانات موجود تھے جس کے باعث کسی سے راستہ پوچھنا نہیں پڑ رہا تھا۔‬ ‫بپتسم ہ کی سائٹ یہاں س ے محض دس کلومیٹر ک ے فاصل ے پر تھ ی جو سیدنا عیسیٰ‬ ‫علی ہ الصلو ۃ والسلم ک ے بپتسم ہ ک ے لی ے مشہور ہے۔ ابھ ی سورج غروب ہون ے میں کافی‬ ‫وقت تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر ہم سورج غروب ہونے تک بپتسمہ سائٹ اور جبل نیبو دیکھ‬ ‫لیں تو ہمارا ایک دن بچ جائے گا اور ہم رات تک عقبہ پہنچ سکتے ہیں۔ اس خیال کے تحت‬ ‫ہم بپتسمہ سائٹ جا پہنچے لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ سائٹ پانچ بجے بند ہو جاتی ہے۔‬ ‫اب ہم وہیں رات گزارنے پر مجبور تھے۔‬

‫وادی اردن اور دریائ ے اردن‬ ‫ڈیڈے سی کےے شمال اور جنوب کا علقہے وادی اردن کہلتا ہے۔ے یہے وادی دریائےے اردن کے‬ ‫مشرقی اور مغربی کناروں پر واقع ہے اور نہایت ہ ی سر سبز و شاداب ہے۔ ہم واپس آ‬ ‫رہے تھے کہ ایک ہوٹل کے بورڈ پر نظر پڑی جس پر عربی میں لکھا تھا‪" ،‬دریائے اردن کی‬ ‫تازہ مچھلی دستیاب ہے۔" میرے ذہن میں تونسہ بیراج پر ملنے والی دریائے سندھ کی تازہ‬ ‫مچھلی کی یاد تازہ ہو گئی اور میں نے گاڑی اس طرف موڑ لی۔ تھوڑی دور جا کر ہوٹل‬ ‫کے آثار نظر آئ ے مگر ی ہ بند تھا ۔ ہوٹل کے چوکیدار ن ے معذرت کرتے ہوئ ے بتایا کہ ہوٹل بند‬ ‫ہے۔ میں نے کہا‪" ،‬پھر سڑک پر لگے اس بورڈ کو اتاریے۔"‬ ‫میں نے ان صاحب سے پوچھا‪" ،‬کیا یہاں کوئی ایسا مقام ہے جہاں سے ہم جا کر دریائے‬ ‫اردن کو دیک ھ سکیں۔ " معلوم ہوا ک ہ ی ہ پورا علق ہ اردن کی فوج ک ے کنٹرول میں ہے اور‬ ‫پور ے دریا پر سوائ ے بپتسم ہ سائٹ ک ے کوئی ایسا مقام نہیں جہاں س ے دریا کو دیکھ ا جا‬ ‫سکے۔‬ ‫دریائے اردن شمال میں شام‪ ،‬لبنان اور ترکی کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ شمالی علقے‬ ‫‪32‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫میں یہ تقریبا ً ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہوا شام اور اسرائیل کی سرحد کا کام‬ ‫دیتا ہوا‪ ،‬گولن پہاڑیوں ک ے نزدیک بحیر ہ طبری ہ یا گلیل کی جھیل میں جا گرتا ہے۔ ی ہ ایک‬ ‫نہایت ہ ی خوبصورت جھیل ہے۔ے یہے جھیل سیدنا عیسی علیہے الصلوۃے والسلم کی دعوتی‬ ‫سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے۔ اسی جھیل کے کنارے وہ پہاڑی ہے‪ ،‬جہاں آپ کا دیا ہوا وعظ‪،‬‬ ‫بہ ت مشہور ہوا۔ے جھیل کےے کناروں پر آباد شہ ر سیدنا مسیح علیہے الصلوۃے والسلم کی‬ ‫منادی سےے گونجتےے رہے۔ے آپ کےے بعض حواری اسی جھیل کےے مچھیرےے تھے۔ے اسی کے‬ ‫جنوب مغرب میں آپ کا آبائی شہر ناصرہ بھی ہے۔‬ ‫ً‬ ‫گلیل کی جھیل سے نکل کر دریائے اردن تقریبا سو کلومیٹر کا مزید فاصلہ طے کر کے‬ ‫ڈیڈ سی میں آ گرتا ہے۔ درمیان میں یہ دریا اردن اور اسرائیل کی سرحد کا کام دیتا ہے۔‬ ‫اس کے مشرقی کنارے پر اردن اور مغربی کنارے پر فلسطین کا علقہ ہے۔ گزشتہ سالوں‬ ‫میں دریائےے اردن کا مغربی کنارہے عالمی میڈیا میں بہت مشہور ہوا ہے۔ے یہے کنارہے اب‬ ‫فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول ہے۔‬ ‫دریائے اردن اور اس کے معاون دریائے یرموک پر اسرائیل اور شام نے ڈیم تعمیر کیے‬ ‫ہیں جن ک ے باعث دریا بہ ت حد تک سوک ھ گیا اور اس کا ایکو سسٹم بری طرح تبا ہ ہوا‬ ‫ہے۔ے کہ ا جاتا ہےے کہے کسی زمانےے میں یہے دریا ایک کلومیٹر چوڑا تھ ا لیکن اب اس کی‬ ‫چوڑائی صرف تین میٹر رہ گئی ہے۔ دریا سے پہنچنے والے پانی کی کمی کے باعث ڈیڈ سی‬ ‫بھی مسلسل سکڑتا جا رہا ہے۔‬ ‫ہم اب وادی اردن سے واپس ہوئے۔ راستے میں بہت سے خانہ بدوش بیٹھے تھے جو اپنے‬ ‫انداز و اطوار اور رہن سہن سے بالکل ہمارے خانہ بدوشوں کی طرح لگ رہے تھے البتہ ان‬ ‫کی رنگت سرخ و سپید تھی۔ے میرا اندازہے ہےے کہے یہے بےے چارےے فلسطینی مہاجر ہوں گے۔‬ ‫بھیڑوں کا ایک بہت بڑا ریوڑ بھی ہمارے راستے میں آیا۔ اب ہم واپس ڈیڈ سی پہنچے۔ میں‬ ‫ن ے سوچا ک ہ رات یہیں گزار لی جائے۔ یہاں موو این ڈ پک‪ ،‬میریٹ اور چند اور فائیو اسٹار‬ ‫ہوٹل موجود تھے۔ جب ایک نسبتا ً پرانے ہوٹل سے کرایہ پوچھا تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے‬ ‫اڑ گئے۔ یہاں ایک رات کا کرایہ چار سو اردنی دینار (بتیس ہزار پاکستانی روپے) تھا۔ جگہ‬ ‫بھی کوئی بہت خوبصورت نہ تھی۔ میرے نزدیک اتنی رقم خرچ کرنا اسراف تھا‪ ،‬چنانچہ ہم‬ ‫نے ارادہ کیا رات یہاں کی بجائے عمان شہر کے کسی ہوٹل میں گزاری جائے۔‬

‫ڈی ڈ سی پارک‬ ‫اب ہ م قریب ہ ی واقع ڈی ڈ سی پارک میں جا بیٹھے جو کہ ڈی ڈ سی ک ے کنار ے بنایا گیا تھا۔‬ ‫لوگ یہاں ڈیڈ سی پر تیرنے کا شوق پورا کر رہے تھے۔ اس جھیل میں نمک کی کثرت کے‬ ‫باعث پانی بہت بھاری ہے اور اس میں کوئی چیز ڈوب نہیں سکتی۔ مشہور ہے کہ ڈیڈ سی‬ ‫کی سطح پر لیٹ کر آپ اخبار بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ یہاں پانی کافی گندا ہو رہا تھ ا جس‬ ‫ک ے باعث میں ن ے اس تجرب ے کا اراد ہ کینسل کر دیا البت ہ بچوں کو دکھان ے ک ے لی ے نسبتاً‬ ‫صاف مقام س ے ایک بوتل میں ڈی ڈ سی کا پانی بھ ر لیا ۔ اس پانی کا ٹچ بھ ی عجیب و‬ ‫غریب تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہاتھ پانی کی بجائے گاڑھے شوربے میں لتھڑے ہوئے‬ ‫ہیں۔ شوربے جیسی چپچپاہٹ بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے ذرا سا پانی کو چکھا تو‬ ‫ابکائی کرتے کرتے بچا۔ ایسا ذائقہ دنیا کے کسی سمندر کے پانی میں نہیں ہو گا۔‬ ‫سامن ے فلسطین کی پہاڑیوں میں سورج غروب ہ و رہ ا تھا ۔ ایسا اداس کر دین ے وال‬ ‫غروب آفتاب کا منظر میں نےپہل ے کبھ ی نہیں دیکھا ۔ ماحول کبھ ی خوش یا اداس نہیں‬ ‫ہوتا ۔ ی ہ انسان کے اندر کی خوشی یا اداسی ہوتی ہے جس کے باعث وہ اپنے ارد گرد کے‬ ‫‪33‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ماحول کو بھ ی اداس دیکھتا ہے۔ے عین ممکن ہےے کہے وہاں موجود اور لوگوں کو غروب‬ ‫آفتاب کا یہ منظر نہایت ہی دل خوش کن لگ رہا ہو۔ میری اداسی کی وجہ یہ تھی کہ میں‬ ‫فلسطین کی جدید تاریخ کےے متعلق سوچ رہ ا تھا۔ے اس خطےے کےے مظلوم اور بدنصیب‬ ‫باشندے غیروں کی چیرہ دستیوں اور اپنوں کی حماقتوں کا شکار رہے ہیں۔‬ ‫مناسب ہ و گا اگر اس مقام پر کچھے تجزیہے مسئلہے فلسطین کا بھ ی ہ و جائے۔ے میری‬ ‫کوشش ہوگی کہ مکمل غیر جانب داری اور بغیر کسی تعصب کے یہ تجزیہ کیا جائے۔ اس‬ ‫تجزیے میں اپنی رائے دینے سے احتراز کرتے ہوئے صرف حقائق اور ان کے نتائج بیان کرنے‬ ‫پر اکتفا کروں گا۔ے ان حقائق کو آپ تفصیل سےے وکی پیڈیا پر دیکھے سکتےے ہیں۔ے اس‬ ‫کوشش میں میں کتنا کامیاب ہوا ہوں‪ ،‬اس کا فیصلہ آپ لوگ ہی کر سکتے ہیں۔‬

‫مسئل ہ فلسطین‬ ‫اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلنے اور ان کے مقابلے میں سرکشی دکھانے کے جرم میں‬ ‫‪70‬ء میں بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا عذاب رومیوں کی صورت میں نازل ہوا۔ رومیوں‬ ‫نےے کثیر تعداد میں بنی اسرائیل کو غلم بنا کر انہیں دنیا ک ے مختلف حصوں میں جل‬ ‫وطن کر دیا ۔ یروشلم کی اینٹ س ے اینٹ بجا دی گئی ۔ دنیا کے اکثر ممالک میں ان کے‬ ‫سات ھ نہایت ہ ی برا سلوک کیا گیا اور ان پر ظلم و ستم روا رکھ ا گیا ۔ اس س ے استثنا‬ ‫مسلم یا پھر شمالی یورپ کےے چند ممالک کو حاصل رہا ہے۔ے اس وقت سےے لےے کر‬ ‫موجود ہ دور تک بنی اسرائیل کی ی ہ شدید خواہ ش رہ ی ہے ک ہ ان کا بھ ی اپنا کوئی وطن‬ ‫ہو۔‬ ‫‪1200‬ء سے کثیر تعداد میں اسرائیلی انفرادی طور پر ارض مقدس یعنی فلسطین کا‬ ‫رخ کرت ے رہے اور ان میں بعض خاندان یہاں سیٹل بھ ی ہوئے۔ اس کی بڑی وج ہ ی ہ بھی‬ ‫رہ ی ہےے کہے ان کےے اپنےے ممالک میں انہیں مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق بھی‬ ‫حاصل نہ رہے تھے جبکہ مسلم حکومتوں نے اپنی رواداری ان پر ظلم و ستم روا نہ رکھا۔‬ ‫ہاں اگر کبھ ی یہود کی طرف س ے کوئی بغاوت سا سازش کی گئی تو اسے سختی سے‬ ‫کچل ضرور گیا۔‬ ‫جن جن ممالک میں یہود رہت ے تھے ‪ ،‬انہوں ن ے بڑی محنت س ے ان معاشروں میں اپنا‬ ‫مقام بنایا اور آہستہ آہستہ یہ لوگ ان معاشروں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آ گئے۔‬ ‫انیسویں صدی کے ربع آخر تک یورپ میں رہنے والے یہود اس بات پر متفق ہو چکے تھے‬ ‫کہ ہمیں اپنا وطن ضرور حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے ‪1882‬ء میں صیہونیت‬ ‫(‪ ) Zionism‬کی تحریک قائم کر لی جو جلد ہ ی مختلف ممالک میں پھیل ے ہوئ ے یہودیوں‬ ‫میں مقبول ہوتی چلی گئی۔‬ ‫بیسویں صدی ک ے اوائل تک صیہونیت کی تحریک پوری دنیا میں پھیل چکی تھ ی اور‬ ‫ورلڈے زیونیسٹ آرگنائزیشن (‪ ) WZO‬کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ے اس تنظیم کی بنیاد‬ ‫رکھنے میں صیہونیت کی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل کا کردار نمایاں تھا۔ ہرزل ہنگری‬ ‫سے تعلق رکھنے والے صحافی تھے۔ انفرادی طور پر یہودی فلسطین کے علقوں میں جا‬ ‫کر زمینیں خرید کر آباد ہونے لگے۔‬ ‫صیہونی تنظیم ن ے ی ہ کوشش کی ک ہ ترکی ک ے سلطان عبدالحمید س ے فلسطین میں‬ ‫وسیع پیمان ے پر یہودیوں کی آباد کاری کی اجازت حاصل کر لیں لیکن اس میں ناکامی‬ ‫کے بعد انہوں ن ے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ۔ صیہونی تحریک نے اپن ے وطن کے لئے‬ ‫متبادل تجاویز پر غور بھ ی کیا جس میں یوگنڈ ا اور ارجنٹینا بھ ی شامل ہیں لیکن ارض‬ ‫‪34‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مقدس یعنی فلسطین کے علوہ کسی علقے پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔‬ ‫‪ 1914‬ء میں پہلی جنگ عظیم چھ ڑ گئی جس میں دنیا کی چار سپر پاورز‪ ،‬برطانیہ‪،‬‬ ‫فرانس‪ ،‬روس (اتحادی قوتیں) اور جرمنی مد مقابل تھیں۔ے یہود نےے اس جنگ میں‬ ‫اتحادیوں کا ساتھ دیا ۔ اس جنگ میں ترکی نے غیر ضروری طور پر جرمنی کا ساتھ دیا۔‬ ‫ترکی کی سلطنت عثمانیہ اس دور میں اس قدر کمزور ہ و چکی تھ ی کہ "یورپ کا مرد‬ ‫بیمار" کہلتی تھی ۔ ترکی فلسطین اور عرب علقوں پر ‪ 1517‬ء س ے قابض تھا ۔ ان چار‬ ‫سو سالوں میں ترکوں نے عربوں کی معاشرت کو نہ سمجھتے ہوئے ان سے اچھا سلوک‬ ‫ن ہ کیا تھ ا جس ک ے باعث عرب‪ ،‬ترکوں ک ے خلف ہ ر طاقت کا خیر مقدم کرن ے کو تیار‬ ‫تھے۔‬ ‫مک ہ ک ے گورنر شریف حسین اور برطانی ہ میں ایک معاہد ہ ط ے پا گیا ۔ اس معاہد ے کے‬ ‫تحت‪ ،‬شریف حسین نے سلطان کے خلف بغاوت کر دی اور برطانیہ نے ان کا ساتھ دیا۔‬ ‫جب ترکی کو شکست ہوئی اور برطانوی افواج یروشلم پہنچیں تو یہاں کےے عرب‬ ‫باشندوں نےے برطانوی جنرل ایلن بی کا بطور نجات دہندہے ک ے والہانہے استقبال کیا ۔ اس‬ ‫دوران برطانیہ کے سابق وزیر اعظم اور وزارت خارجہ کے موجود ہ عہد ے دار‪ ،‬لر ڈ بالفور‬ ‫نے ایک خفیہ خط میں فلسطین کو یہود کا وطن بنانے کی منظوری دے چکے تھے۔ یہ اعلن‬ ‫بعد میں منظر عام پر آیا۔ اس کا متن کچھ یوں ہے‪:‬‬ ‫‪Foreign Office,‬‬ ‫‪November 2nd, 1917.‬‬ ‫‪Dear Lord Rothschild,‬‬ ‫‪I have much pleasure in conveying to you, on behalf of His Majesty's Government, the following declaration of‬‬ ‫‪sympathy with Jewish Zionist aspirations which has been submitted to, and approved by, the Cabinet:‬‬ ‫‪"His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish‬‬ ‫‪people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object, it being clearly understood‬‬ ‫‪that nothing shall be done which may prejudice the civil and religious rights of existing non-Jewish‬‬ ‫‪communities in Palestine, or the rights and political status enjoyed by Jews in any other country".‬‬ ‫‪I should be grateful if you would bring this declaration to the knowledge of the Zionist Federation.‬‬ ‫‪Yours sincerely‬‬ ‫) ‪Arthur James Balfour (Source: http://en.wikipedia.org/wiki/Balfour_Declaration%2C_1917‬‬

‫موجود ہ اردن اور اسرائیل ک ے پور ے علق ے کو ‪ Emirate of Transjordan‬کا خطاب دیا‬ ‫گیا اور اس پر شریف حسین کےے بیٹےے شاہے عبداللہے کی حکومت قائم ہ و گئی۔ے عالمی‬ ‫طاقتوں کی منظوری سےے اس علقےے کو برطانوی مینڈیٹ دےے دیا گیا۔ے اس طرح یہاں‬ ‫اصل حکومت سلطنت برطانی ہ کی تھی۔ے ‪ 1917‬ء س ے ل ے کر ‪ 1947‬ء ک ے تیس سالوں میں‬ ‫کثیر تعداد میں یہودیوں کو یہاں ل کر بسایا گیا۔ اس دوران بہت سے عرب مسلمانوں نے‬ ‫اپنی زمینیں یہودیوں کے ہاتھ منہ مانگے داموں فروخت کر دیں۔‬ ‫یہودی چند ہی سالوں میں فلسطین کی معیشت پر چھا گئے۔ جب انہوں نے ملزمتوں‬ ‫کے معاملے عربوں سے امتیازی سلوک شروع کیا تو عربوں کو احساس ہوا کہ کچھ غلط‬ ‫ہ و رہ ا ہے۔ے ‪ 1936‬ء سےے ‪ 1939‬ء ک ے عرص ے میں عربوں ن ے احتجاج شروع کیا جو برطانوی‬ ‫حکومت نے ناکام بنا دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ فلسطین سے نکل گیا۔ اس‬ ‫موقع پر معاملہے اقوام متحدہے کےے سپرد ہوا۔ے دنیا کی دو بڑی طاقتیں امریکہے اور روس‬ ‫‪35‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اسرائیل ک ے حق میں تھیں چنانچ ہ فلسطینی علق ے کو عربوں اور یہودیوں ک ے درمیان‬ ‫تقسیم کرن ے کا فیصل ہ ہوا ۔ اس علق ے میں یہودیوں کی آبادی اب بھ ی عربوں س ے کہیں‬ ‫کم تھ ی لیکن کل فلسطینی علقےے کا ‪ % 55‬یہودیوں کو اور ‪ % 45‬عربوں کو دینےے کا‬ ‫اعلن کیا گیا۔ عربوں نے اس تقسیم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‬ ‫‪ 14‬مئی ‪ 1948‬ء کو اسرائیل ک ے قیام کا اعلن ہوا ۔ اس موقع پر مصر‪ ،‬اردن‪ ،‬شام‪،‬‬ ‫لبنان‪ ،‬سعودی عرب اور عراق ن ے اعلن جنگ کر دیا اور اسرائیل پر حمل ہ کر دیا ۔ اس‬ ‫جنگ کےے نتیجےے میں اسرائیل کی سرحدوں کی کافی توسیع ہ و گئی اور فلسطین کا‬ ‫‪ % 77‬حصہے اس کےے کنٹرول میں آ گیا۔ے اسرائیل نےے تمام عرب ممالک سےے سیز فائر‬ ‫معاہدات کیے اور اس کے باشندے اپنے ملک کی تعمیر میں لگ گئے۔‬ ‫اس جنگ کے نتیجے میں لکھوں فلسطینی اردن‪ ،‬لبنان اور دوسرے عرب ممالک میں‬ ‫مہاجر بن کر رہ گئے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں دنیا بھر سے کثیر تعداد میں یہودی‬ ‫اسرائیل آ کر آباد ہون ے لگ ے جس ک ے نتیج ے میں اسرائیل کی عرب آبادی میں کمی اور‬ ‫یہودی آبادی میں اضافہ ہوا۔‬ ‫‪1956‬ء میں مصر نےے شرم الشیخ کےے پاس خلیج عقبہے کےے راستےے کو بند کر کے‬ ‫اسرائیلی بحری جہازوں کا راستہ روک دیا۔ اسی دوران مصر نے نہر سویز کو قومیا لیا۔‬ ‫برطانیہ اور فرانس کی مدد سے اسرائیل نے مصر پر حملہ کر کے پورے جزیرہ نما سینا پر‬ ‫قبض ہ کر لیا جس ک ے نتیج ے میں اسرائیل ک ے علق ے میں تین گنا اضاف ہ ہ و گیا ۔ بعد میں‬ ‫یہاں اقوام متحد ہ کی فورس متعین ہ و گئی ۔ اس وقت مصر کے صدر جمال عبد الناصر‬ ‫تھے جو پرجوش تقریروں‪ ،‬دھمکیوں اور جذباتی نعر ے بازی میں ہمار ے بھٹو صاحب سے‬ ‫دو ہاتھ آگے تھے۔‬ ‫‪ 1967‬ء میں ناصر ن ے اسرائیل کو بحیر ہ روم میں غرق کرن ے ک ے اراد ے س ے حمل ے کا‬ ‫اراد ہ کیا لیکن اس س ے پہل ے ہ ی اسرائیل ن ے مصر‪ ،‬اردن اور شام پر بیک وقت حمل ہ کر‬ ‫دیا جس کے نتیجے میں جزیرہ نما سینا‪ ،‬غزہ کی پٹی اور گولن کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے‬ ‫قبضہ کر لیا۔‬ ‫اپن ے علقوں کو واگزار کروان ے ک ے لئ ے ناصر ک ے جانشین انور سادات نےے ‪ 1973‬ء میں‬ ‫شام کی مدد سےے اسرائیل پر حملہے کیا۔ے شروع میں دونوں محاذوں پر انہیں کامیابی‬ ‫حاصل ہوئی لیکن امریکی امداد کے نتیجے میں اسرائیل نے مزید علقوں پر قبضہ کر لیا۔‬ ‫‪1978‬ء میں سادات نے کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل سے صلح کر کے اسے تسلیم کر لیا جس‬ ‫کے بدلے اسرائیل نے جزیرہ نما سینا مصر کو واپس کر دیا۔ غزہ کی پٹی کا علقہ بدستور‬ ‫اسرائیل کے پاس ہی رہا جس کے بارے میں یہ طے پایا کہ یہ فلسطینی ریاست کو دے دیا‬ ‫جائ ے گا۔ے ‪ 1994‬ء میں اردن اور اسرائیل ک ے درمیان بھ ی امن سمجھوت ہ ط ے پا گیا ۔ شام‬ ‫(سوریا) کے ساتھ اسرائیل کا تنازع ہ تاحال چل رہ ا ہے لیکن اس دوران کوئی جنگ وقوع‬ ‫پذیر نہیں ہوئی ۔ لبنان پر اسرائیل نےے ‪ 2006‬ء میں حمل ہ کیا لیکن حزب الل ہ کی مزاحمت‬ ‫کے باعث پسپائی اختیار کی۔‬ ‫ان تمام تنازعات نے فلسطینیوں کو تنہا کر دیا۔ انہوں نے مختلف تنظیموں کی صورت‬ ‫میں اسرائیل کےے خلف گوریل جنگ جاری رکھی۔ے ‪ 1974‬ء میں فلسطینی تنظیموں کا‬ ‫اتحاد "منظمہے التحریر الفلسطینی ہ (‪ ")Palestine Libaration Organization‬یا ‪ PLO‬معرض‬ ‫وجود میں آیا۔ اس تنظیم نے تیرہ چودہ سال مسلح جدوجہد جاری رکھی۔ اردن اور لبنان‬ ‫میں مقامی افواج سے ان کے تصادم کے نتیجے میں ان ممالک نے ‪ PLO‬کی حمایت چھوڑ‬ ‫دی ۔ بالخر ‪ 1993‬ء میں ان ک ے لیڈ ر یاسر عرفات ن ے مسلح جدوجہ د ترک کر ک ے پر امن‬ ‫‪36‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جدوجہد کا اعلن کیا۔‬ ‫‪1987‬ء میں پہل انتفادہ شروع ہوا جس میں فلسطینیوں نے اسرائیلی ٹینکوں پر چھوٹے‬ ‫چھوٹ ے پتھ ر مار کر پر امن احتجاج کرنا شروع کیا۔ے ‪ 1993‬ء میں یاسر عرفات ن ے اوسلو‬ ‫امن معاہدے کے تحت امن کے عمل کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔ اس دوران اسرائیل‬ ‫میں اعتدال پسند اسحاق رابن کی حکومت تھ ی جنہیں بعد میں انتہ ا پسند یہودیوں نے‬ ‫ہلک کر دیا ۔ اس پیچید ہ معاہد ے کے تحت دریائ ے اردن کے مغربی کنارے اور غز ہ کی پٹی‬ ‫پر اقتدار تدریجی طور پر فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کیا جانا تھا۔‬ ‫‪ PLO‬کوئی دینی تحریک نہ تھی۔ یہ خالصتا ً سیکولر قوم پرستی کی تحریک تھی۔ اس‬ ‫ک ے رد عمل میں حماس معرض وجود میں آئی جو اپنا تعلق اسلم س ے جوڑتی ہے اور‬ ‫ایک اسلمی ریاست بنانےے کی خواہاں ہے۔ے حماس نےے مسلح جدوجہ د جاری رکھی۔ے یہ‬ ‫عوامی مقبولیت اختیار کرتی گئی اور ‪2006‬ء کے الیکشن میں حماس اکثریتی پارٹی کے‬ ‫طور پر سامنے آئی۔ جیسے ہی حماس کو ادھورے اقتدار میں حصہ مل‪ ،‬فلسطینیوں میں‬ ‫پھوٹ پڑ گئی اور اب تک حماس اور الفتح ک ے کارکن ایک دوسر ے ک ے خلف مصروف‬ ‫جنگ ہیں۔ے ‪ 2007‬ء میں سعودی حکومت کی کوششوں س ے ان میں خان ہ کعب ہ میں صلح‬ ‫کروائی گئی ہے لیکن اس صلح کی آئے دن خلف ورزی ہوتی رہتی ہے۔‬ ‫اب اہل فلسطین کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو کچھ مل گیا ہے‪ ،‬اسے صبر‬ ‫و شکر سے قبول کریں۔ قومی اتحاد کو فروغ دیں اور عسکریت کے راستے کو ترک کر‬ ‫کےے اپنےے ملک کو سیاسی‪ ،‬اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سےے مضبوط کرنےے کی جدوجہد‬ ‫کریں ۔ دوسرا راست ہ ی ہ ہے ک ہ اسرائیل ک ے خاتم ے ک ے لئ ے اپنی ختم ن ہ ہون ے والی جدوجہد‬ ‫جاری رکھیں۔ے چونکہے اس وقت تمام عالمی طاقتیں بشمول امریکہ ‪ ،‬یورپی یونین اور‬ ‫روس واضح طور پر اسرائیل کی حمایتی ہیں اس لئے اس جدوجہد کی کامیابی کا اگلے‬ ‫پچاس سو برس تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔‬ ‫ی ہ تو تھ ا مسئل ہ فلسطین کا سیاسی پہلو ۔ اس مسئل ے کا مذہبی پہلو یروشلم کا شہر‬ ‫ہے۔ے یہے شہر یہودیوں‪ ،‬عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کےے نزدیک مقدس سرزمین ہے۔‬ ‫تینوں مذاہب کے مقدس مقامات اس شہر میں واقع ہیں اس لئے ہر ایک کی خواہش ہے‬ ‫اس شہر کو ان کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔ مسجد اقصیٰ کے انتظامی امور فی الوقت‬ ‫اردن کےے ایک ادارےے کےے سپرد ہیں جبکہے دیوار گریہے اور دیگر مقامات اسرائیل کےے زیر‬ ‫انتظام ہیں۔‬

‫گوریل جنگ ک ے معاشر ے پر اثرات‬ ‫ان سب مسائل کے علوہ مسئلہ فلسطین کا ایک معاشرتی پہلو بھی ہے۔ جنگ خواہ کسی‬ ‫قسم کی بھی ہو‪ ،‬معاشرے پر نہایت ہی بھیانک اثرات مرتب کرتی ہے۔‬ ‫جنگ ک ے جو اثرات ہمیں افغان معاشر ے پر نظر آت ے ہیں بعین ہ وہ ی اثرات فلسطینی‬ ‫معاشرےے پر بھ ی دیکھےے جا سکت ے ہیں ۔ کثیر تعداد میں فلسطینی مہاجرین کی صورت‬ ‫میں عرب ممالک میں موجود ہیں ۔ ان میں س ے جو لوگ کچ ھ پڑ ھ لک ھ گئ ے و ہ تو اچھی‬ ‫ملزمتیں کر رہے ہیں لیکن جو ایسا نہ کر سکے‪ ،‬وہ کم آمدنی والے کاموں پر مجبور ہیں۔‬ ‫جو لوگ فلسطینی اتھارٹی یا اسرائیل کےے علقوں میں رہتےے ہیں‪ ،‬ان کی معاشی‬ ‫حالت‪ ،‬مسلسل جنگ میں رہن ے ک ے باعث کافی خراب ہے۔ ان لوگوں کو یہود کی جانب‬ ‫س ے امتیازی سلوک کا سامنا بھ ی کرنا پڑتا ہے۔ طویل عرص ے تک ایس ے حالت میں رہنے‬ ‫ک ے باعث انسان کی نفسیات پر نہایت ہ ی بر ے اثرات مرتب ہوت ے ہیں ۔ ان کی نوجوان‬ ‫‪37‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫نسل منفی طرز فکر کا شکار ہو جاتی ہے۔‬ ‫گوریل جنگ کو برقرار رکھن ے ک ے لئ ے گوریل تنظیموں کو مجرم تنظیموں س ے روابط‬ ‫بڑھان ے پڑت ے ہیں ۔ اس س ے یہ تنظیمیں جرائم ک ے فروغ کا ذریع ہ بنتی ہیں ۔ فن ڈ اکٹھ ا کرنے‬ ‫کے لئے منشیات اور اسلحہ کی فروخت کے نتیجے میں معاشرے میں منشیات اور اسلحہ‬ ‫کا استعمال عام ہوتا ہے جس ک ے باعث خاندان ک ے خاندان تباہے ہ و جات ے ہیں ۔ مزاحمت‬ ‫کرنے والے گوریلے دشمن پر حملہ کرنے کے بعد عام لوگوں میں آ کر چھپ جاتے ہیں جس‬ ‫کے باعث ی ہ عام لوگ حکومت کی سکیورٹی فورسز کے ظلم و تشدد کا شکار ہ و جاتے‬ ‫اس مسئل ے کا سب س ے نازک پہلو خواتین کی عفت و عصمت کا معامل ہ ہے۔‬ ‫ہیں۔‬ ‫سکیورٹی فورسز ک ے اہ ل کار تشدد ک ے دوران ان کی عفت و عصمت س ے بھ ی کھیلتے‬ ‫ہیں جو کہ ان کی نفسیاتی موت کے مترادف ہوتا ہے۔‬ ‫مسلسل جنگ اور دہشت ک ے عالم میں معیشت کمزور پڑتی جاتی ہے۔ سرمای ہ کار‬ ‫ہمیش ہ ایسی جگہ سرمای ہ کاری کرتا ہے جہاں اس کا کم از کم اصل سرمای ہ محفوظ ہو۔‬ ‫اس وقت دنیا میں ایسا کون سا سرمای ہ کار ہ و گا جو افغانستان‪ ،‬عراق اور فلسطین‬ ‫میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہو۔ سرمایے کے نکلنے سے امیر لوگوں کو تو کوئی فرق‬ ‫نہیں پڑتا لیکن متوسط اور غریب طبقے کے کاروبار ماند پڑتے ہیں اور نوکریاں ختم ہونے‬ ‫لگتی ہیں ۔ اس کی وج ہ ی ہ ہے ک ہ دنیا کی ہ ر معیشت میں متوسط اور غریب طبق ے کے‬ ‫کاروبار اور ملزمتوں کا انحصار امیر لوگوں کے سرمائے پر ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایسے‬ ‫لوگ ترقی کر جات ے ہیں جو اسلحہ ‪ ،‬منشیات اور جنگی خدمات کی صنعتوں س ے وابستہ‬ ‫ہوں۔‬ ‫انسان کی بھوک ایسی ظالم ش ے ہے ک ہ و ہ اس کا سات ھ نہیں چھوڑتی بلک ہ اس کی‬ ‫شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہی بھوک نوجوان لڑکوں کو چور‪ ،‬ڈاکو اور دہشت گرد میں‬ ‫تبدیل کر دیتی ہے اور نوجوان لڑکیوں کو طوائف بنن ے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ی ہ نوجوان‬ ‫لڑک ے اور لڑکیاں جب اپن ے ارد گرد اسلحہ فروشوں‪ ،‬منشیات فروشوں‪ ،‬قاتلوں‪ ،‬ڈاکوؤں‬ ‫اور طوائفوں کو دیکھتےے ہیں جو عیاشی کی زندگی بسر کر رہےے ہوتےے ہیں تو ان کی‬ ‫نفسیات بگڑ جاتی ہے اور یہ بھی انہی لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔‬ ‫ایس ے ماحول میں انٹیلی جنس کلچر بھ ی تیزی س ے فروغ پاتا ہے۔ معمولی رقم کے‬ ‫لئ ے بیٹا باپ ک ے خلف‪ ،‬بیوی شوہ ر ک ے خلف اور بھائی بھائی ک ے خلف مخبری ک ے لئے‬ ‫تیار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مقتدر طبقات اور وار لرڈز اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے‬ ‫ایک مستقل دہشت (‪ )Terror‬کی فضا برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ عوام کو‬ ‫جذباتی نعروں ک ے ذریع ے ب ے وقوف بنایا جاتا ہے اور لشوں کی سیاست کی جاتی ہے۔‬ ‫ایسے میں ان لوگوں کو مذہبی طبق ے س ے بھ ی حمایتی مل جات ے ہیں جو اس صورتحال‬ ‫کر برقرار رکھنے کے لئے مذہب کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔‬ ‫فلسطین‪ ،‬کشمیر‪ ،‬افغانستان‪ ،‬چیچنیا اور ایس ے تمام علقوں کی پچاس سال ہ تاریخ‬ ‫گواہ ہے کہ ایسے حالت میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ اگر ہم پوری انسانی تاریخ‬ ‫میں دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہو گا کہ کوئی قوم صرف اور‬ ‫صرف پر امن ماحول‪ ،‬مثبت طرز فکر اور تعلیم ک ے حصول کے ذریع ے ترقی کر سکتی‬ ‫ہے۔ قوموں کی ترقی کا کوئی شارٹ کٹ راست ہ دنیا میں سر ے س ے پایا ہ ی نہیں جاتا۔‬ ‫ترقی کے لئے دنیا کی تمام اقوام کو اسی طویل اور کٹھن راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔ دور‬ ‫کیوں جائیے ‪ ،‬جاپان اور چین کا افغانستان اور فلسطین س ے موازن ہ کر لیجیے ‪ ،‬دود ھ کا‬ ‫دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‬ ‫‪38‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫بیسویں صدی ک ے نصف اول میں دنیا بھ ر کی قوموں ن ے برطانوی اور فرانسیسی‬ ‫استعمار س ے آزادی کی جدوجہ د کی ۔ ان میں س ے صرف اور صرف و ہ اقوام آزادی کے‬ ‫بعد ترقی کی منازل ط ے کر سکی ہیں جنہوں ن ے اپن ے ہاں آزادی اظہار‪ ،‬پر امن ماحول‪،‬‬ ‫مثبت طرز فکر اور تعلیم کو فروغ دیا ہے۔ باقی اقوام آزادی حاصل کرن ے ک ے بعد بھی‬ ‫انہی حالت میں محصور ہیں جن میں وہ آزادی سے قبل تھیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ‬ ‫"ایک اعلی تعلیم یافت ہ نوجوان‪ ،‬امت مسلم ہ ک ے لئ ے ایک خود کش بمبار س ے کہیں زیادہ‬ ‫مفید ہے۔"‬

‫عمان ش ہر‬ ‫غروب آفتاب کے بعد ہم لوگ وہاں سے نکل آئے۔ اب ہماری منزل عمان تھ ی جہاں ہمیں‬ ‫رات بسر کرنا تھی۔ عمان ڈیڈ سی سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ہمارا سفر اب‬ ‫مسلسل بلندی کا سفر تھا ۔ راست ے میں ایک جگ ہ مسجد آئی ۔ وہاں رک کر مغرب کی‬ ‫نماز کی ادائیگی کے بعد ہم آگے روانہ ہوئے۔‬ ‫ہ م عمان میں داخل ہوئ ے تو اہ ل اردن ن ے آسمان پر 'شرلیاں' یعنی ہوائیاں چھوڑ کر‬ ‫ہمارا شاندار استقبال کیا۔ پورا آسمان آتش بازی کے باعث رنگا رنگ ہو رہا تھا۔ خیر یہ تو‬ ‫ہماری خوش فہمی تھ ی ورن ہ ی ہ ان کا کوئی خاص تہوار لگ رہ ا تھا ۔ بعد میں پوچھن ے پر‬ ‫معلوم ہوا کہے آج طلباء کےے رزلٹ کا دن تھا۔ے مجھےے دوپہ ر میں محبت اور جوش سے‬ ‫کھلئی گئی مٹھائی یاد آئی جو ان صاحب ن ے اپن ے بیٹ ے ک ے پاس ہون ے کی خوشی میں‬ ‫کھلئی تھی۔ے ہمارےے ہاں تو لوگ صرف اپنےے جاننےے والوں اور پڑوسیوں ہ ی کو مٹھائی‬ ‫کھلتے ہیں جبکہ وہ صاحب ہر آنے جانے والے کو مٹھائی کھل رہے تھے۔‬ ‫اہل اردن رزلٹ کے دن کو باقاعدہ تہوار کی صورت میں مناتے ہیں۔ میرے دفتر کے ایک‬ ‫کولیگ اسماعیل عمان ک ے رہن ے وال ے تھے اور ان دنوں چھٹیوں پر آئے ہوئ ے تھے۔ میں نے‬ ‫ان ک ے موبائل پر رابط ہ کرن ے کی کوشش کی لیکن رابط ہ ن ہ ہ و سکا ۔ بعد میں ان سے‬ ‫معلوم ہوا کہ اس دن رزلٹ کے تہوار کے باعث موبائل کمپنیوں کے نیٹ ورک جام تھے۔‬ ‫عمان ایک صاف ستھرا پہاڑی شہ ر ثابت ہوا ۔ میں کسی ایس ے علق ے کی تلش میں‬ ‫تھ ا جہاں ہوٹلوں کی کثرت ہو۔ے ایک ٹیکسی ڈرائیور سےے معلوم کیا تو وہے صاحب بولے‪،‬‬ ‫'میرےے پیچھےے آئیے۔ ' مختلف سڑکوں سےے گزرتےے ہوئےے و ہ ہمیں عمان ک ے اندرون شہ ر (‬ ‫‪ )Downtown‬میں لے آئے۔ یہ علقہ لہور کے لنڈا بازار یا کراچی کے لئٹ ہاؤس سے مشابہ‬ ‫تھا لیکن ان کی نسبت بہت صاف ستھرا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سیاحوں کی کثرت‬ ‫کے باعث کسی ہوٹل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب وہ صاحب اپنا ریٹ بڑھانے کے لئے ہمیں‬ ‫اندرون شہ ر کی گلیوں میں بلوج ہ گھمان ے لگے۔ پہل ے تو میرا جی چاہ ا ک ہ خاموشی سے‬ ‫پیچھےے رہے کر کہیں اور گاڑی موڑ لوں لیکن اسی وقت انہوں نےے ایک ہوٹل کےے سامنے‬ ‫ٹیکسی روک دی۔‬ ‫یہ صاحب عمانی تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔‬ ‫میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگے‪" ،‬مجھے معلوم ہے کہ یہ پاکستانی لباس ہے‬ ‫لیکن یہاں بھی بہت مقبول ہے۔" ہوٹل پرانا مگر صاف ستھرا تھا۔ ٹیکسی والے صاحب کی‬ ‫کوشش تھ ی کہ اگلی صبح ہم اپنی گاڑی یہیں چھوڑ کر ان کی ٹیکسی پر ڈیڈ سی چلیں‬ ‫مگر جب میں ن ے انہیں بتایا ک ہ ہ م پہل ے ہ ی ڈی ڈ سی دیک ھ آئ ے ہیں اور اگل ے دن ہمارا عقبہ‬ ‫جانے کا پروگرام ہے تو وہ کافی مایوس ہوئے۔ ہوٹل والوں سے اپنا کمیشن اور مجھ سے‬ ‫پانچ دینار وصول کر کے وہ رخصت ہوگئے۔‬ ‫‪39‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ہم لوگ کھانا کھانے کے لئے ریسٹورنٹ میں آئے لیکن یہاں کاؤنٹر پر سجی شراب کی‬ ‫بوتلوں کو دیکھ کر ہم نے یہاں بیٹھنا مناسب نہ سمجھا اور کھانا کمرے ہی میں منگوا لیا۔‬ ‫میں نے ان کے کک سے پوچھا‪" ،‬آپ کے پاس کوئی انڈین یا پاکستانی ڈش ہے۔" کہنے لگے‪،‬‬ ‫"کری مل جائ ے گی۔ " بھیڑ ک ے گوشت کی کری آئی تو معلوم ہوا ک ہ ی ہ ہماری ہانڈ ی کی‬ ‫نہایت ہ ی ابتدائی شکل ہے۔ شدید بھوک لگی تھی‪ ،‬اس لئے یہ کھانا خاصا لذیذ محسوس‬ ‫ہوا۔‬ ‫اگل دن چونک ہ اردن میں ہمارا آخری دن تھ ا اس لئ ے ہ م لوگوں ن ے جلد ہ ی نیند کی‬ ‫آغوش میں پناہ لی تاکہ اگلے اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔‬

‫‪40‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مادب ہ‪ ،‬جبل نیبو اور بپتسم ہ سائٹ‬ ‫صبح اٹھ کر ہم نے چیک آؤٹ کیا۔ روزانہ کانٹی نینٹل ناشتہ کرنے کے باعث ہم اب اس سے‬ ‫تنگ آ چکے تھے اور دل یہ چاہ رہا تھا کہ کہیں سے پائے‪ ،‬نان چنے یا حلوہ پوری کا ناشتہ مل‬ ‫جائے۔ے عمان میں چھوٹی سی پاکستانی کمیونٹی رہتی ہےے لیکن ان کا علقہے اور ہوٹل‬ ‫ڈھونڈن ے کا وقت ہمار ے پاس ن ہ تھا ۔ صبح کا وقت تھ ا اور لوگ اپن ے دفاتر اور دکانوں کی‬ ‫جانب جا رہے تھے۔ اندرون شہر کی دکانیں بھی صبح آٹھ بجے ہی کھل رہی تھیں۔‬ ‫اردن کے بارے میں سنا تھا کہ یہاں بے حیائی بہت زیادہ ہے لیکن ایسا کچھ محسوس نہ‬ ‫ہوا ۔ سوائ ے مغربی سیاحوں ک ے تمام اردنی مرد و خواتین نہایت ہ ی معقول لباس زیب‬ ‫تن کئے ہوئے تھے۔ ان کی خواتین کی غالب اکثریت کا لباس باپردہ تھا البتہ چہرے کے نقاب‬ ‫کا ان کے ہاں کوئی رواج نہ تھا۔ اگر مغربی سیاحوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو اردنی‬ ‫معاشرہ ہمارے پاکستانی معاشرے کی نسبت نہایت ہی مہذب اور باپردہ معاشرہ معلوم ہو‬ ‫رہا تھا۔‬ ‫ہوٹل کے کاؤنٹر سے میں مادبہ جانے وال راستہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔ ہم لوگ اب‬ ‫عمان س ے عقب ہ جان ے والی ہائی و ے پر آ گئ ے جو "کنگ ہائی وے " کہلتی ہے۔ عمان کے‬ ‫قریب ہ ی سیدنا ابوعبیدہ ‪ ،‬معاذ بن جبل‪ ،‬شرحبیل بن حسنہ ‪ ،‬عمیر بن ابی وقاص اور‬ ‫ضرار بن ازور رضی الل ہ عنہ م کی قبریں تھیں جن پر ہ م وقت کی کمی ک ے باعث جا نہ‬ ‫سکے تھے۔ زیادہ اچھا ہو گا کہ ہم آگے بڑھنے سے قبل اپنے ان بزرگوں کی سیرت سے کچھ‬ ‫واقفیت حاصل کرتے چلیں۔‬

‫سیدنا ابوعبید ہ رضی الل ہ عن ہ‬ ‫سیدنا ابوعبید ہ رضی الل ہ عن ہ نہایت ہ ی جلیل القدر صحابی ہیں ۔ آپ اسلم لن ے س ے قبل‬ ‫بھ ی اہ ل قریش میں نہایت ہ ی معزز اور شریف سمجھے جات ے تھے۔ آپ ان لوگوں میں‬ ‫سے ہیں جو دور جاہلیت میں بھی اپنی شرم و حیا‪ ،‬شرافت‪ ،‬بہادری اور اعلیٰ اخلق کے‬ ‫باعث مشہور تھے۔ آپ کا شمار سابقون الولون میں ہوتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ‬ ‫کی تبلیغ کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی دعوت ایمانی کو ابتدائی‬ ‫دنوں ہی میں قبول کیا۔ کفار مکہ کے ظلم کے باعث حبشہ ہجرت کی اور پھر دوبارہ مدینہ‬ ‫منور ہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ حضور نبی کریم صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم ن ے آپ کو‬ ‫"امین المت" یعنی امت کے سب سے زیادہ دیانتدار شخص کا خطاب دیا۔‬ ‫جنگ بدر میں آپ کا باپ جراح‪ ،‬جو کہ اسلم کا بڑا دشمن تھا‪ ،‬کفار کی جانب سے لڑ‬ ‫رہ ا تھ ا اور اس ن ے آپ پر حمل ہ کر دیا ۔ آپ مسلسل اپن ے باپ ک ے حملوں س ے بچت ے رہے‬ ‫لیکن بالخر اس کا مقابل ہ کر ک ے اس ے قتل کیا ۔ اس ک ے بعد حضور صلی الل ہ علی ہ واٰلہ‬ ‫وسلم کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے۔‬ ‫آپ نہایت ہ ی اعلیٰ پائے کے منظم و مدبر تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو‬ ‫شام کی افواج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا۔ آپ نے شروع میں اردن کا کچھ علقہ فتح کیا۔‬ ‫جب سیدنا خالد بن ولید رضی الل ہ عن ہ شام پہنچ ے تو آپ ن ے بخوشی ان ک ے لئ ے کمانڈر‬ ‫انچیف کا عہدہ چھوڑ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دوبارہ خالد کی جگہ اسلمی‬ ‫افواج کا کمانڈ ر انچیف بنایا لیکن آپ ن ے تمام جنگوں میں سیدنا خالد رضی الل ہ عن ہ کی‬ ‫حربی مہارت کا بھرپور استعمال کیا اور تمام جنگی اقدامات انہی کے مشورے سے کئے۔‬ ‫‪41‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ آپ کی صلحیتوں س ے اس قدر متاثر تھے کہ انہیں اپن ے بعد‬ ‫خلیفہے مقرر کرنا چاہتےے تھے۔ے شام کا بڑا حصہے آپ ہ ی کےے ہاتھوں فتح ہوا۔ے اسی دوران‬ ‫مسلم افواج کے علقے میں طاعون پھیل گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بے پناہ اصرار‬ ‫ک ے باوجود آپ ن ے اپنی افواج کو اس مصیبت میں چھوڑ کر آنا پسند ن ہ کیا اور بالخر‬ ‫طاعون کے مرض ہی میں وفات پائی۔ وادی اردن میں آپ کے مزار کے ساتھ مسجد اور‬ ‫لئبریری بھی بنی ہوئی ہے۔‬

‫سیدنا معاذ بن جبل رضی الل ہ عن ہ‬ ‫سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ انصار کے سابقون الولون میں شامل ہیں۔ رسول اللہ‬ ‫صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم آپ کو آپ کی غیر معمولی ذہانت ک ے باعث بہ ت پسند کرتے‬ ‫تھے۔ آپ ن ے معاذ کو "حلل و حرام کا سب س ے بڑا عالم " قرار دیا ۔ احادیث کی کتب‬ ‫میں آّپ کی روایت کردہ احادیث حکمت اور تدبر کا عالی شان ذخیرہ ہیں۔ آپ کے ساتھ‬ ‫حضور کی گفتگو اعلی پائےے کےے علمی اور فکری مسائل پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔‬ ‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آپ کی ذہانت اور معاملہ فہمی کے باعث آپ کو‬ ‫یمن کا گورنر مقرر کیا۔ے اس موقع پر آپ‪ ،‬معاذ کےے ساتھے ساتھے چلتےے گئےے اور آپ کو‬ ‫حکومت کے طریق ہائے کار سمجھاتے گئے۔‬ ‫سیدنا معاذ رضی اللہے عنہ‪ ،‬ابوبکر و عمر رضی اللہے عنہما کےے ادوار میں شام کے‬ ‫معرکوں میں شریک رہے اور فوج کے بڑے حصے کی قیادت کرتے رہے۔ طاعون کے مرض‬ ‫میں سیدنا ابوعبید ہ رضی الل ہ عن ہ کی وفات ک ے بعد آپ کو کمانڈ ر انچیف مقرر کیا گیا‬ ‫لیکن چند ہی دن بعد آپ نے بھی اسی مرض میں وفات پائی۔‬

‫سیدنا شرحبیل بن حسن ہ رضی الل ہ عن ہ‬ ‫سیدنا شرحبیل بن حسن ہ رضی الل ہ عن ہ بھ ی قدیم صحاب ہ میں س ے ہیں ۔ آپ ہجرت حبشہ‬ ‫میں شریک ہوئے۔ آپ نے اپنے مضبوط ایمان‪ ،‬شجاعت‪ ،‬ذہانت اور انتظامی صلحیتوں کے‬ ‫لحاظ سے شہرت پائی ۔ سیدنا خالد اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما آپ پر بہت اعتماد کرتے‬ ‫تھے اور فوج کے اہم حصوں کی قیادت آپ کو سونپی جاتی تھی۔ اردن اور شام کی فتح‬ ‫میں آپ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو شام کو گورنر بھی مقرر‬ ‫کیا ۔ آپ نے بھی اسی طاعون کے مرض میں وفات پائی جس میں ابوعبیدہ اور معاذ بن‬ ‫جبل جیسی نادر روزگار شخصیات سے اسلمی فوج محروم ہوئی۔‬

‫سیدنا عمیر بن ابی وقاص رضی الل ہ عن ہ‬ ‫سیدنا عمیر بن ابی وقاص‪ ،‬مشہور صحابی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کے بھائی‬ ‫ہیں ۔ حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم آپ س ے بہ ت محبت کرت ے تھے۔ شام کی فتوحات‬ ‫میں آپ کو فوج اور مدینہ کے مرکز کے درمیان رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی جو آپ‬ ‫نے بطریق احسن نبھائی۔ آپ کو بعد میں سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا نائب مقرر کیا‬ ‫گیا۔ آپ کی وفات بھی طاعون کے اسی مرض میں ہوئی۔‬

‫سیدنا ضرار بن ازور رضی الل ہ عن ہ‬ ‫سیدنا ضرار بن ازور رضی الل ہ عن ہ آخری دور ک ے ایمان لن ے والوں میں س ے ہیں ۔ آپ‬ ‫سیدنا خالد ک ے نائب اول تھے۔ جنگی مہارت اور شجاعت میں آپ کا موازن ہ سیدنا خالد‬ ‫‪42‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جیس ے عبقری س ے کیا جا سکتا ہے۔ اسی وج ہ س ے سیدنا خالد رضی الل ہ عن ہ اپن ے جنگی‬ ‫منصوبوں میں ضرار کی جنگی مہارت سےے بہ ت فائدہے اٹھاتے۔ے بہادری کا یہے عالم تھ ا کہ‬ ‫میدان جنگ میں انفرادی مقابلوں ک ے لئ ے نکلتے ‪ ،‬پہلےے اپنا خود اتارتے ‪ ،‬پھ ر زر ہ اور پھر‬ ‫قمیص بھ ی اتار دیتے۔ رومی افواج آپ س ے بہ ت خوفزد ہ تھیں اور ان ک ے بڑ ے بڑ ے بہادر‬ ‫آپ کا مقابلہ کرنے سے کتراتے تھے۔‬ ‫ضرار کی ہمشیر ہ خول ہ رضی الل ہ عنہ ا بھ ی شجاعت میں اپن ے بھائی س ے کم ن ہ تھیں۔‬ ‫ایک مرتبہ ضرار رضی اللہ عنہ رومی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے جس پر خولہ نے اس‬ ‫فوجی دست ے پر حمل ہ کر ک ے ان ک ے چھک ے چھڑا دی ے جو ضرار کو لے کر جا رہ ا تھا ۔ اپنے‬ ‫بھائی کو آزاد کروا کر آپ دوبارہ اپنے لشکر میں پلٹ آئیں۔ ضرار رضی اللہ عنہ کی وفات‬ ‫بھی اسی طاعون میں ہوئی۔‬ ‫ان نابغ ہ روزگار ہستیوں کی شہادت ک ے بعد اسلمی فوج کی قیادت سیدنا عمرو بن‬ ‫عاص رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی جن کا نقطہ نظر طاعون کے معاملے میں مختلف تھا۔‬ ‫سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے پوری فوج کو اس طاعون زدہ علقے سے نکال لیا۔ بعد میں‬ ‫آپ نے مصر فتح کیا۔ آپ کی سیرت کو میں‪ ،‬انشاء اللہ مصر کے باب میں بیان کروں گا۔‬

‫ب ھوک کا مسئل ہ‬ ‫ہ م لوگ اب عمان س ے نکل رہے تھے اور بھوک بھ ی شدید لگ رہ ی تھ ی جس ک ے باعث‬ ‫میری اہلی ہ مجھ س ے کچھ ناراض لگتی تھیں ۔ میں راست ے ہ ی میں جد ہ س ے لئے ہوئ ے بھنے‬ ‫ہوئ ے چن ے کھ ا کر کچ ھ گزارا کر چکا تھا ۔ دوسری طرف میری گاڑی بھ ی اپنی آواز سے‬ ‫کچھ ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی۔ میں کسی ریسٹ ایریا کی تلش میں تھا جہاں ان‬ ‫دونوں کی ناراضگی کو دور کرنے کا کچھ اہتمام کیا جا سکے۔ تھوڑی دور جا کر ہمیں ایک‬ ‫بہت بڑا ریسٹ ایریا نظر آیا جس پر میکڈونلڈ کا گول ‪ M‬نظر آ رہا تھا۔ بریک لگاتے لگاتے‬ ‫ہم کچھ آگے نکل گئے لیکن ریسٹ ایریا کے باہر نکلنے والے راستے سے ہمیں اندر جانے کا‬ ‫موقع مل گیا۔‬ ‫سب سے پہلے ہم میکڈونلڈ گئے اور بڑے سائز کے میک عریبیا کا آرڈر دیا۔ میکڈونلڈ‪ ،‬کے‬ ‫ایف سی‪ ،‬ہارڈیز اور پزا ہٹ کی سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں ان کا ذائقہ اور‬ ‫ریٹ ایک جیس ے ہوت ے ہیں ۔ سنا ہے ک ہ جنوب مشرقی ایشیا ک ے ممالک میں جہاں حلل‬ ‫خوراک مشکل س ے دستیاب ہوئی ہے ‪ ،‬وہاں ی ہ ریسٹورنٹ حلل گوشت کا انتظام کرتے‬ ‫ہیں جس کے باعث تمام مسلمان گاہک انہی کی طرف جاتے ہیں۔ کاروبار اپنے کسٹمر کو‬ ‫سمجھ کر اسے مطمئن کرنے کا نام ہے‪ ،‬جو ایسا کر لے گا وہ کاروبار میں کامیاب ہو گا۔‬ ‫اسی طرح دعوت دین میں جو اپنے مخاطب کو سمجھ کر اسے اپنے رویے اور دلئل کے‬ ‫ذریع ے مطمئن کر د ے گا‪ ،‬اس کی دعوت کامیاب ہ و گی ۔ مارکیٹنگ ک ے اصول دین کی‬ ‫دعوت کے معاملے میں بھی اتنے ہی کارآمد ہیں جتنا کاروبار کے معاملے۔‬

‫تبلیغی جماعت کا مبلغ‬ ‫اہلیہ اور ماریہ کو میک عریبیا دل کر میں گاڑی کو سروس اسٹیشن پر لے گیا اور اس کا‬ ‫انجن آئل تبدیل کروایا ۔ سروس اسٹیشن ک ے مالک کا رویہے بہ ت دوستانہے تھا ۔ یہے صاحب‬ ‫اٹھار ہ بیس برس ک ے نوجوان اردنی تھے۔ سرخ و سپید رنگت پر براؤن داڑھ ی بہ ت جچ‬ ‫رہی تھی۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں پاکستانی ہوں‪ ،‬تو ان کا پہل سوال یہ تھا‪" ،‬کیا آپ‬ ‫کبھ ی تبلیغی جماعت کے اجتماع میں رائیون ڈ گئ ے ہیں؟" ی ہ جانت ے ہوئ ے بھ ی کہ میں عمان‬ ‫‪43‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫س ے واپس جا رہ ا ہوں‪ ،‬انہوں ن ے مجھے اپن ے ہفت ہ وار اجتماع کی بھرپور دعوت دی اور‬ ‫اجتماع گا ہ کا پورا نقش ہ بنا کر دیا ۔ ایسا کرن ے کی وج ہ تبلیغی بھائیوں کا ی ہ نظری ہ ہے کہ‬ ‫"ہمیں ہر حال میں اور ہر شخص کو دعوت دینا چاہیے‪ ،‬اگر وہ ہماری دعوت قبول نہ بھی‬ ‫کرے‪ ،‬تب بھی اللہ تعالیٰ اس دعوت کے نتیجے میں کہیں اور کسی کو ہدایت دے گا۔"‬ ‫تبلیغی جماعت عالم اسلم کی سب سےے بڑی تبلیغی و اصلحی تحریک ہے۔ے چودہ‬ ‫صدیوں س ے مسلمانوں ک ے ہاں معاشر ے کی اصلح کے لئ ے کی جان ے والی کاوشوں کی‬ ‫ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ اس عمل کو تجدید و احیائے دین کا نام دیا گیا ہے۔ تجدید و‬ ‫اصلح کی ی ہ روایت ہمار ے ہاں اتنی مضبوط ہے ک ہ دنیا کی کوئی قوم اس معامل ے میں‬ ‫مسلمانوں کی ہمسری نہیں کر سکتی۔‬ ‫بیسویں صدی کے نصف اول میں برصغیر کے مسلمانوں میں تجدید و احیائے دین کے‬ ‫دو ماڈ ل سامن ے آئے۔ ان میں پہل نقط ہ نظر ی ہ تھ ا ک ہ معاشر ے کی اصلح اوپر س ے کی‬ ‫جائے۔ے اسےے ہم ‪ Top-Down Approach‬کا نام دےے سکتےے ہیں۔ے اس نقطہے نظر کےے مطابق‬ ‫حکمت عملی یہ وضع کی گئی کہ خدائی فوجداروں کی ایک جماعت بنائی جائے جو دین‬ ‫پر پوری طرح عمل کرن ے والی ہو ۔ ی ہ جماعت جیس ے بھ ی ممکن ہو‪ ،‬اقتدار حاصل کرے‬ ‫اور حکومتی طاقت کے زور پر معاشرے کی اصلح کا کام کرے۔‬ ‫اس تحریک کو برصغیر میں مولنا ابوالکلم آزاد‪ ،‬علمہے اقبال اور سید ابوالعلی‬ ‫مودودی جیسے عبقری میسر آ گئے۔ مولنا آزاد اور علمہ اقبال کی کوششیں تو زیادہ تر‬ ‫نظریاتی محاذ پر مرکوز رہیں لیکن مودودی صاحب ن ے نظریاتی میدان ک ے سات ھ ساتھ‬ ‫عملی میدان میں اتر کر باقاعدہے ایک جماعت بھی بنا ڈالی۔ے معاشرےے کی اصلح کا‬ ‫پروگرام لے کر قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلمی سیاست کے میدان میں اتر آئی۔‬ ‫اسی نقطہے نظر کےے تحت مختلف مسلکوں سےے تعلق رکھنےے والوں نےے بھی اپنی‬ ‫جماعتیں بنائیں۔ ساٹھ ستر سال کی اس جدوجہد میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو بہت‬ ‫زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان کی کوششوں کی نتیجے میں‬ ‫پاکستان کا اسلمی تشخص قائم ہو سکا ہے مگر عملی زندگی میں اس کے اثرات بہت‬ ‫زیادہے نمایاں نہیں ہیں۔ے اسی طرز پر تمام مسلم ممالک میں مذہبی سیاسی جماعتیں‬ ‫وجود میں آئیں۔ ٹاپ ڈاؤن ماڈ ل اختیار کرن ے والی بعض جماعتوں ن ے مسلح جدوجہ د کا‬ ‫راست ہ بھ ی اختیار کیا جس کی انتہائی صورت اب القاعد ہ اور طالبان کی صورت میں‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫بحیثیت مجموعی ٹاپ ڈاؤن ماڈ ل کو پچھل ے ستر برس میں ایران اور افغانستان کے‬ ‫علوہے کہیں بڑی کامیابی حاصل نہیں ہ و سکی ہے۔ے پچھلےے چند سالوں میں ترکی میں‬ ‫اسلم پسند جماعت "جسٹس این ڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی" کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ میرے‬ ‫خیال میں تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کو ترکی کی جماعت کے طریق کار کا مطالعہ‬ ‫کر کے ان سے سیکھنا چاہیے۔‬ ‫تجدید و احیائ ے دین کا دوسرا ماڈ ل ‪ Bottom Up Approach‬تھ ی جس ے تبلیغی جماعت‬ ‫نے اختیار کیا۔ جماعت کے بانی مولنا الیاس‪ ،‬سید مودودی کی طرح بہت بڑے مفکر تو نہ‬ ‫تھے لیکن اعلی پائ ے ک ے منتظم اور عملی میدان ک ے آدمی تھے۔ تھوڑ ے ہ ی عرص ے میں‬ ‫تبلیغی جماعت ہندوستان کی حدود سےے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ے تبلیغی‬ ‫جماعت کی شاخیں مسلم ممالک ک ے علو ہ غیر مسلم ممالک میں بھ ی قائم ہیں ۔ رائے‬ ‫ونڈ میں ہونے وال تبلیغی اجتماع دنیا میں حج کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع‬ ‫سمجھا جاتا ہے۔‬ ‫‪44‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫تبلیغی جماعت کی دعوت نےے ہ ر شعبےے سےے تعلق رکھن ے وال ے افراد کو اپنی طرف‬ ‫متوجہے کیا ہے۔ے مزدور پیشہے دیہاتیوں سےے ل ے کر فوج اور انٹیلی جنس ک ے جرنیل‪ ،‬ملٹی‬ ‫نیشنل کمپنیوں کےے سینئر ایگزیکٹوز اور بڑی بڑی یونیورسٹی کےے پروفیسر تبلیغی‬ ‫جماعت میں شامل ہیں ۔ ان کی دعوتی جدوجہ د ک ے نتیج ے میں مختلف شعبوں ک ے بڑے‬ ‫نام بھ ی تبلیغی جماعت کی طرف متوج ہ ہوئے۔ اس میں و ہ شعب ے بھ ی شامل ہیں جو‬ ‫دینی طبقے کے نزدیک اینٹی اسلمک ہیں۔ پاکستان میں اس کی حالیہے مثال لیجنڈے کرکٹر‬ ‫سعید انور‪ ،‬انضمام الحق اور محمد یوسف ہیں۔ شوبز کی دنیا سے جنید جمشید جیسے‬ ‫بڑے گلوکار اور متعدد ٹی وی اور فلم آرٹسٹ بھی تبلیغی جماعت سے متعلق ہوئے۔‬ ‫اس باٹم اپ ماڈ ل کو تبلیغی جماعت ک ے علو ہ دنیا بھ ر میں بہ ت سی جماعتوں اور‬ ‫افراد نے اختیار کیا۔ اس ماڈل کا نظریہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کی اصلح کرنا چاہیے‬ ‫اور لوگوں کا تعلق الل ہ تعالی ٰ اور اس ک ے دین س ے قائم کرنا چاہیے۔ جب معاشر ے کی‬ ‫اکثریت دین پر کاربند ہ و گی تو اس ک ے نتیج ے میں حکومت بھ ی اسلمی ہ و جائ ے گی۔‬ ‫مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں ب ے شمار افراد اور جماعتیں اس طریق ے سے‬ ‫اپنے معاشرے کی اصلح کا کام کر رہے ہیں۔ ان افراد میں قدیم طرز کے علماء کے ساتھ‬ ‫ساتھ بہت سے جدید تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں۔‬

‫ہماری دعوت کامیاب کیوں ن ہیں ہے؟‬ ‫ہماری دینی جماعتوں اور دین دار افراد کی ان تمام فتوحات کےے باوجود معاشرےے پر‬ ‫ہماری اصلحی کاوشوں کےے بڑےے اثرات نمایاں نظر نہیں آتےے اور مسلم ممالک کے‬ ‫معاشر ے دین س ے دور ہوت ے جا رہے ہیں ۔ میری ناقص رائ ے ک ے مطابق اس معامل ے میں‬ ‫ہماری تمام دینی اور اصلحی تحریکوں کےے طریق کار میں چند سقم پائےے جاتےے ہیں‬ ‫جنہیں دور کیے بغیر ہم معاشرے کی اصلح نہیں کر سکتے۔‬ ‫تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلم کی دعوت میں ایک بنیادی عنصر یہ رہا ہے کہ وہ‬ ‫اپن ے معاشرےے کو اچھ ی طرح سمجھت ے تھے اور اسی کی زبان میں اللہے کی توحید کی‬ ‫دعوت پیش کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس بات کا بار بار ذکر کیا ہے کہ ہم نے ہر قوم‬ ‫میں انہی میں سے رسول بھیجا جو انہی کی زبان میں دعوت پیش کیا کرتا تھا۔‬ ‫ہماری تمام دینی تحریکوں کی جدوجہد‪ ،‬دعوت دین کے اس بنیادی عنصر سے محروم‬ ‫ہے۔ ہمارا پورا دینی طبق ہ ن ہ تو آج ک ے جدید معاشروں کی نفسیات اور عمرانی ترکیب‬ ‫س ے واقف ہے اور ن ہ ہ ی و ہ ان کی زبان بولتا اور سمجھتا ہے۔ اگر چ ہ بظاہ ر ی ہ خواتین و‬ ‫حضرات اردو یا اپنی مادری زبان ہ ی بول رہےے ہوتےے ہیں لیکن ان کےے الفاظ‪ ،‬تراکیب‪،‬‬ ‫اسالیب اور گفتگو کا انداز سامعین کے لئے اتنا ہ ی اجنبی ہوتا ہے جتنا کہ کوئی اور زبان‬ ‫ہو سکتی ہے۔‬ ‫اگر ہم اپنے دینی طبقے کے لباس‪ ،‬رہن سہن‪ ،‬لئف اسٹائل‪ ،‬گفتگو کے انداز‪ ،‬کھانے پینے‬ ‫کے آداب‪ ،‬نشست و برخاست کے طریقے‪ ،‬غرض کسی چیز کا بھی جائزہ لیں تو اس میں‬ ‫یہ اپنے مخاطب معاشروں سے بالکل مختلف جگہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایک صاحب علم کے‬ ‫الفاظ میں ہمار ے داعین کا زور اس بات پر ہوتا ہے ک ہ "دنیا کو کیا ہونا چاہیے؟" و ہ اس‬ ‫بات کو قطعی نظر انداز کر جاتے ہیں کہ "دنیا اس وقت ہے کیا؟" یہ جانے بغیر کہ آپ اس‬ ‫وقت کہاں کھڑ ے ہیں‪ ،‬آپ ی ہ ط ے کر ہ ی نہیں سکت ے ک ہ آپ کو کس طرح اپنی منزل پر‬ ‫پہنچنا ہے۔ے یہے چیز اتنی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہےے کہے اس کےے باعث ہمارے‬ ‫معاشروں کی اکثریت دین دار افراد کی بات سننے کے لئے بھی تیار نظر نہیں آتی۔‬ ‫‪45‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫میرےے رائےے میں مبلغین کی تربیت کےے دوران انہیں نفسیات (‪ )Psychology‬اور‬ ‫عمرانیات (‪ ) Sociology‬ک ے مبادیات کی تعلیم دینا اشد ضروری ہے۔ پوری دنیا میں تمام‬ ‫مسلم کمیونیٹیز کو چھوڑ کر صرف امریکی مسلمانوں نےے اس بات کی اہمیت کو‬ ‫محسوس کیا ہے اور انہوں نے اسلمی سوشل سائنسز کے چند ادارے قائم کیے ہیں۔ جس‬ ‫احباب اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں‪ ،‬وہ تفصیلی بحث کے لئے حیدر آباد دکن سے‬ ‫تعلق رکھنے والے امریکی دانشور مقتدر خان کے ان آرٹیکلز سے استفادہ کر سکتے ہیں۔‬ ‫‪http://www.ijtihad.org/IslamicSocialSciences.htm‬‬ ‫‪http://www.theglobalist.com/StoryId.aspx?StoryId=3255‬‬ ‫ہمارےے دین دار افراد اور تحریکوں ک ے ہاں سب س ے بڑا مسئل ہ یہے ہے ک ہ سوائ ے چند‬ ‫لوگوں کے ‪ ،‬ان کی دعوتی جدوجہ د کا محور و مرکز قرآن مجید نہیں رہا ۔ بہروپیوں کو‬ ‫نظر انداز کر کے اگر ہ م اپن ے کاز س ے انتہائی مخلص لوگوں کا بھ ی جائز ہ لیں تو ان کے‬ ‫ہاں بھی دعوت دین کا مقصد اپنے مسلک یا گروہ کی دعوت‪ ،‬فقہی مسائل کی تبلیغ‪ ،‬من‬ ‫گھڑت روایات میں بیان کئ ے گئےے فضائل ک ے ذریع ے چند مخصوص عبادات و رسوم پر‬ ‫عمل درآمد یا پھر بہت ہوا تو سوچے سمجھے بغیر قرآن مجید کو حفظ کرنے کی کوشش‬ ‫ان کی جدوجہد کا مقصد ہوتی ہے۔‬ ‫ہماری اکثریت کے ہاں اخلقیات‪ ،‬جو دین کا اہم ترین جزو ہیں‪ ،‬سرے سے زیر بحث ہی‬ ‫نہیں آتے اور اگر آتے بھی ہیں تو ان پر وہ زور نہیں دیا جاتا جو دوسرے معاملت میں روا‬ ‫رکھ ا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک دنیا میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جان ے کی صرف اور صرف‬ ‫ایک ہی وجہ ہے کہ مسلمان علم اور اخلقیات میں دوسری اقوام سے پیچھے ہیں۔ جب تک‬ ‫ہم علم اور اخلق میں دوسروں سے پیچھے رہیں گے‪ ،‬ہم دنیا کی گاڑی میں بیک سیٹ پر‬ ‫ہ ی سفر کرت ے رہیں گے۔ اگر ہ م ڈرائیونگ سیٹ پر آنا چاہت ے ہیں تو ہمیں علم اور اخلق‬ ‫میں اپنا معیار دوسروں کی نسبت بلند کرنا ہو گا۔‬ ‫قرآن نے پرزور طریقے سے بتایا ہے کہ "ولقد یسرنا القرآن لذکر فھل من مدکر" یعنی‬ ‫"ب ے شک ہ م ن ے اس قرآن کو نصیحت حاصل کرن ے ک ے لئ ے آسان بنا دیا ہے تو ہے کوئی‬ ‫نصیحت حاصل کرنے وال۔" فقہی مسائل کے استنباط کے لئے قرآن و سنت کو سمجھنے‬ ‫ک ے لی ے بہ ت س ے علوم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن محض نصیحت حاصل کرن ے ک ے لیے‬ ‫کسی مخصوص علم یا سالوں کی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کوئی شخص محض‬ ‫ترجم ہ پڑ ھ کر یا تلوت مع ترجم ہ سن کر بھ ی نصیحت حاصل کر سکتا ہے۔ قرآن مجید‬ ‫میں احکام س ے متعلق آیات پور ے قرآن کا دس فیصد بھ ی نہیں جبک ہ نصیحت اور تذکیر‬ ‫قرآن کی نوے فیصد سے زائد آیات کا موضوع ہے۔‬

‫دوغری دوغری‬ ‫اردن میں ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ ہ م جہاں بھ ی کسی س ے راستہ پوچھت ے تو وہ جواب‬ ‫میں کہتا‪" ،‬دوغری دوغری" ۔ میں ن ے اپنی طرف س ے اس کا مطلب ی ہ فرض کر لیا کہ‬ ‫سیدھے چلے جاؤ۔ چند مرتبہ سیدھے جانے پر جب واقعی وہ مقام مل گیا تو یہ کنفرم ہوا کہ‬ ‫دوغری دوغری کا یہی مطلب یہی ہے کہ سیدھے چلے جاؤ۔ سعودی عرب میں اس مقصد‬ ‫کے لئے "علی الطول" یا "رح سیدھا" کی اصطلح استعمال ہوتی ہے۔‬

‫مادب ہ ش ہر‬ ‫میک عریبیا کھان ے اور آئل چینج ک ے بعد میر ے دونوں مسائل حل ہ و گئ ے یعنی اہلی ہ اور‬ ‫‪46‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫گاڑی دونوں کی ناراضگی دور ہو گئی۔ اب ہم کنگ ہائی وے پر روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور جا‬ ‫کر ہی 'مادبہ' کا ایگزٹ آ گیا اور ہم شہر کی جانب چل پڑے۔‬ ‫مادبہ شہر پہنچے تو لہور کے دہلی دروازے جیسا ماحول پایا۔ ویسی ہی دکانیں‪ ،‬ویسی‬ ‫ہ ی ریڑھیاں‪ ،‬الیکشن ک ے ویس ے ہ ی پوسٹر اور لوگوں ک ے چہروں پر ویس ے ہ ی تاثرات۔‬ ‫خود س ے مختلف پا کر لوگ ہمیں مڑ مڑ کر دیک ھ رہے تھے۔ مادب ہ ایک قدیم شہ ر ہے جو‬ ‫رومی دور کی بہت سی یادیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ہم نے ایک دو افراد سے موزائک‬ ‫چرچ کا پوچھ ا اور گلیوں میں واقع چرچ تک پہنچ گئے۔ ی ہ پورا محلہ ‪ ،‬عرب عیسائیوں کا‬ ‫علقہ تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس علقے کے لوگوں نے مغربی تہذیب کو پوری طرح‬ ‫اپنا لیا ہو ۔ چرچ کے قریب ہ ی بہ ت سی دکانیں بھ ی تھیں جن میں ایک شراب کی دکان‬ ‫بھی تھی۔‬ ‫عیسائیوں کےے پادری حضرات سےے مجھےے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں‪ ،‬اس کے‬ ‫مطابق شراب ان کے مذہب میں بھی حرام ہے اور وہ بھی اسے برائی ہی سمجھتے ہیں۔‬ ‫اس ک ے باوجود ان ک ے ہاں مذہبی مقامات اور مذہبی تہواروں پر بھ ی شراب کھل ے عام‬ ‫پی جاتی ہے۔ اہل مغرب کی ایک اور عجیب عادت یہ بھی ہے کہ وہ پوری دنیا میں سگریٹ‬ ‫نوشی کےے خلف بھرپور مہم چل رہےے ہیں اور اب سگریٹ کی ایڈورٹائزنگ اور پبلک‬ ‫مقامات پر سگریٹ نوشی کرن ے پر اکثر ممالک میں پابندی لگ چکی ہے لیکن شراب‪،‬‬ ‫جس کے نقصانات سگریٹ سے کہیں زیادہ ہیں‪ ،‬نہ صرف یہ کہ کھلے عام پی جاتی ہے بلکہ‬ ‫اس کی ایڈورٹائزنگ بھی ان کے میڈیا پر عام ہے۔‬ ‫چرچ کا گیٹ بند تھا ۔ ایک صاحب سےے میں نےے چرچ ک ے گیٹ کا پوچھ ا تو و ہ مجھے‬ ‫نجانے کیا سمجھے‪ ،‬حیرت سے میری شکل دیکھ کر کہنے لگے‪" ،‬چرچ جا رہے ہیں تو آپ نے‬ ‫داڑھ ی کیوں رکھ ی ہوئی ہے؟" گیٹ ک ے سامن ے ایک دکان تھی ۔ اس میں ایک اسی نوے‬ ‫سالہ بزرگ اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں دونوں نے وقت‬ ‫گزارنے کا اچھا طریقہ ڈھونڈا تھا۔ میں نے ان بزرگ سے چرچ کے بارے میں پوچھا تو انہوں‬ ‫نےے بتایا کہے موزائک آرٹ کےے تمام نمونےے اب آرکیالوجیکل پارک اور مادبہے میوزیم میں‬ ‫منتقل کر دی ے گئ ے ہیں ۔ انہوں ن ے ہمیں میوزیم کا راست ہ بھ ی سمجھ ا دیا جو سات ھ والی‬ ‫گلی ہی میں تھا۔‬

‫بازنطینی رومیوں کا موزائک آرٹ‬ ‫مادب ہ میوزیم پہنچ ے تو وہاں چند عرب خواتین بیٹھ ی تھیں ۔ ان س ے تین دینار کا ٹکٹ لیا‬ ‫اور میوزیم دیکھنےے نکل کھڑےے ہوئے۔ے ان خاتون نےے یہے بھ ی بتایا کہے اسی ٹکٹ میں آپ‬ ‫آرکیالوجیکل پارک بھ ی دیک ھ سکت ے ہیں ۔ مسلمانوں کی آمد س ے پہل ے اردن اور شام پر‬ ‫اہل روم کی حکومت تھی۔ ان لوگوں نے مادبہ کے علقے میں موزائک آرٹ کو بہت فروغ‬ ‫دیا۔ اس آرٹ میں پتھر کے باریک باریک ٹکڑوں کی مدد سے فرش یا دیواروں پر تصاویر‬ ‫اور نقش ے بنائی جاتیں ۔ یہے فرش ہمارےے موزائک یا چپس ک ے فرشوں س ے مختلف ہوتے‬ ‫تھے۔‬ ‫میوزیم میں موجود تصاویر میں پھولوں‪ ،‬گھوڑوں‪ ،‬پودوں‪ ،‬پرندوں اور مچھلیوں کی‬ ‫تصاویر شامل تھیں جو ک ہ چھوٹ ے چھوٹ ے پتھروں کی مدد س ے بنائی گئی تھیں ۔ ی ہ آرٹ‬ ‫نہایت ہی متاثر کن تھا۔ ارض مقدس کے ایک موزائک نقشے کی تصاویر میں نے انٹر نیٹ‬ ‫پر دیکھ ی تھیں لیکن وہ یہاں نظر ن ہ آیا ۔ شاید و ہ آرکیالوجیکل پارک میں ہ و گا ۔ یہاں بہت‬ ‫س ے ستونوں ک ے ٹکڑےے بھ ی پڑ ے تھے۔ اندر شو کیسوں میں قدیم دور ک ے برتن‪ ،‬زیور‪،‬‬ ‫‪47‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ہتھیار اور سک ے وغیر ہ رکھے ہوئ ے تھے۔ قدیم دور ک ے عرب بدوؤں ک ے کچ ھ مجسم ے بھی‬ ‫یہاں موجود تھے جنہیں اس دور کا لباس پہنا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ یہ مجسمے دیکھنے میں‬ ‫جیتے جاگتے انسان لگتے تھے۔‬ ‫یہاں آرکیالوجیکل پارک کا ایک بروشر بھی نظر آیا۔ وقت کی کمی کے باعث ہم یہاں‬ ‫جا نہے سکے۔ے اس پوسٹر میں یہے بتایا گیا تھ ا کہے چھٹی اور ساتویں صدی میں اردن کے‬ ‫علقے میں بہت سے گرجا تعمیر کیے گئے تھے۔ جب یہ علقے مسلمانوں کے زیر اقتدار آئے‬ ‫تو ان گرجوں کو پوری آب و تاب سے برقرار رکھا گیا۔ مسلمانوں کے اقتدار میں ہمیشہ‬ ‫غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت‬ ‫کی گئی ہے۔ مذہبی رواداری کی یہ روایت ایسی ہے کہ جس پر تعصب کے اس دور میں‬ ‫بھ ی عمل ہ و رہ ا ہے چنانچ ہ پاکستان جیس ے ملک میں مسجدیں محفوظ ہوں یا ن ہ ہوں‪،‬‬ ‫لیکن چرچ اور مندر پوری طرح محفوظ ہیں۔ اکا دکا واقعات کو استثنا قرار دیا جا سکتا‬ ‫ہے لیکن بحیثیت مجموعی ہم نے ہمیشہ غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ مذہبی‬ ‫رواداری کی اس روایت کو ہمیں پوری طرح برقرار رکھنا چاہیے۔‬

‫اصحاب ک ہف کی غار‬ ‫اس پوسٹر میں اصحاب کہف کی غار کی تصویر بھ ی دی گئی تھی ۔ اہل اردن کا دعوی‬ ‫ہے ک ہ اصحاب کہ ف کی غار عمان ک ے قریب واقع ہے۔ یہ ی دعوی ترکی ک ے شہ ر افسس‬ ‫ک ے بار ے میں بھ ی کیا جاتا ہے۔ مولنا ابوالکلم آزاد کی تحقیقات ک ے مطابق ی ہ غار پیٹرا‬ ‫میں واقع ہے جبکہ مودودی صاحب کی رائے میں یہ غار افسس میں ہے۔ اصل حقیقت تو‬ ‫اللہ تعالی کے علم میں ہے۔‬ ‫اصحاب کہف سیدنا عیسی علیہے الصلوۃے والسلم کی امت کےے چند صاحب ایمان‬ ‫نوجوان تھے جن ک ے دور میں مشرک حکومت ن ے مذہبی جبر اور تشدد کا راست ہ اختیار‬ ‫کیا اور اہ ل ایمان کو سزائیں دینا شروع کیں ۔ ان نوجوانوں ن ے اپنا ایمان بچان ے ک ے لیے‬ ‫شہر چھوڑ کر ایک غار میں پناہ لے لی۔ ان کا کتا ان کے ساتھ تھا۔ توحید کے ان پروانوں‬ ‫کی یہ ادا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئی اور اس نے انہیں گہری نیند سل دیا ۔ ‪ 300‬سال تک‬ ‫ی ہ لوگ سوت ے رہے اور ان کی خوراک اور انہیں الٹ پلٹ کرن ے کا انتظام الل ہ تعالی ٰ کی‬ ‫طرف س ے ہوتا رہا ۔ جب و ہ اٹھے تو ی ہ سمجھے ک ہ شاید ہ م ایک آد ھ دن یہاں سوئ ے ہیں۔‬ ‫انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو شہر خوراک لنے کے لیے بھیجا۔‬ ‫رومی بادشاہ کے عیسائیت قبول کرنے کے نتیجے میں پورا معاشرہ عیسائیت قبول کر‬ ‫چکا تھا ۔ ی ہ صاحب شہ ر پہنچ ے تو ان ک ے تین سو سال پران ے سکوں‪ ،‬لباس اور انداز و‬ ‫اطوار کےے باعث لوگوں نےے انہیں گھیر لیا۔ے یہے لوگ جب انہیں لےے کر غار میں پہنچےے تو‬ ‫معلوم ہوا کہ یہاں تین سو سال پہلے کے باشندے موجود ہیں۔ سریانی روایات سے یہ بات‬ ‫پت ہ چلتی ہے ک ہ اس دور میں ان ک ے ہاں آخرت ک ے عقید ے پر بحث چھڑی ہوئی تھ ی اور‬ ‫منکرین آخرت کا فتنہے پھیل ہوا تھا ۔ اس روشن دلیل سےے ان لوگوں کو اللہے کی حجت‬ ‫پوری ہو گئی ۔ اصحاب کہف کا وہیں انتقال ہو گیا۔ لوگوں نے ان کے مقام پر ایک عبادت‬ ‫گاہ بنا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس بات پر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے نیک‬ ‫لوگوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنانے کے باعث ان لوگوں پر لعنت فرمائی تھی۔‬ ‫سورہ کہف میں یہ واقع ہ بیان کرن ے کے بعد اللہ تعالی ٰ ن ے اہل کتاب کے ہاں ایک معرکۃ‬ ‫الرا بحث کی طرف اشارہے کیا ہےے جو اصحاب کہ ف کی تعداد کےے بارےے میں تھی۔ے اللہ‬ ‫تعالی ٰ ن ے ایس ے فضول موضوعات پر بحث کرن ے س ے منع کیا ہے اور ی ہ تلقین کی ہے کہ‬ ‫‪48‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫انسان کو اصل بات پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔‬ ‫ً‬ ‫میوزیم میں ایک بڑے پتھر پر درود شریف کھود کر لکھا گیا تھا۔ ایک جانب غالبا مسلم‬ ‫دور کی ایک میز بھ ی تھ ی جس پر نہایت ہ ی نفاست س ے کام کیا گیا تھا ۔ پتھ ر کے بعض‬ ‫گلدان بھ ی نظر آئ ے جن پر مسلمانوں ن ے کام کیا ہوا تھا ۔ رومی دور کی تحریریں بھی‬ ‫بعض پتھروں پر نظر آئیں۔‬

‫اردنیوں کی پاکستانیوں س ے محبت‬ ‫میوزیم سے باہر نکل کر ہم مین روڈ پر آئے۔ میرے پاس اردنی دینار اب بالکل ختم ہو گئے‬ ‫تھے۔ ہمیں ابھی اردن میں کم از کم دس بارہ گھنٹے اور گزارنا تھے۔ شہر میں منی چینجر‬ ‫کی کوئی دکان نظر ن ہ آ رہ ی تھی ۔ رو ڈ پر "اردن اسلمی بینک" کی بڑی سی عمارت‬ ‫نظر آئی۔ میں نے سوچا کہ یہاں کوشش کی جائے۔ بینک میں داخل ہوا تو ایسا لگا جیسے‬ ‫میں غلطی سےے کسی مچھلی منڈ ی میں آ گھسا ہوں۔ے یہاں صرف مچھلیاں نہیں تھیں‬ ‫باقی سب کچ ھ تھا ۔ بینک کا کیشئیر مچھلی فروشوں کی طرح آوازیں لگا رہ ا تھ ا اور‬ ‫لوگ بے ہنگم طریقے سے دھکم پیل کر رہے تھے۔‬ ‫میں ن ے ایک صاحب س ے اپنا مسئل ہ بیان کیا‪ ،‬انہوں ن ے دوسر ے کی طرف اشار ہ کیا۔‬ ‫دوسر ے س ے پوچھ ا تو انہوں ن ے تیسر ے کی جانب اشار ہ کیا ۔ میں ن ے اب تیسر ے صاحب‬ ‫سے‪ ،‬جو کاؤنٹر سے ہٹ کر پچھلی میز پر بیٹھے تھے‪ ،‬اپنا مسئلہ بیان کیا تو وہ گہری سوچ‬ ‫میں ڈوب گئے۔ کچ ھ دیر میر ے مسئل ے پر اور پھ ر اتنی ہ ی دیر میری شکل ک ے بار ے میں‬ ‫غور و فکر فرمانے کے بعد پوچھنے لگے‪" ،‬باکستانی؟؟" میں نے اثبات میں سر ہلیا۔ بس‬ ‫پھ ر کیا تھا‪ ،‬سیٹ س ے اٹھے ‪ ،‬لپک کر میری طرف بڑھے ‪ ،‬گرمجوشی س ے ہات ھ ملیا‪ ،‬مجھ‬ ‫سے دو سو ریال کا نوٹ لیا اور چشم زدن میں ساڑھے سینتیس اردنی دینار ل کر مجھے‬ ‫تھما دیے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور سلم دعا کر کے بینک سے باہر آ گیا۔‬ ‫گاڑی میں مسلسل بیٹھے رہنے کے باعث میری اہلیہ کے پاؤں متورم ہو رہے تھے اور وہ‬ ‫کھلی جوتی کی تلش میں تھیں ۔ بازار میں پہنچ کر و ہ اپنی جوتی لین ے ایک دکان میں‬ ‫داخل ہوئیں اور میں باہر کھڑے ایک ریڑھ ی وال ے س ے پھل خریدن ے لگا ۔ یہاں بڑے سائز کا‬ ‫انگور بافراط موجود تھا۔ یہ انگور ہمارے چھوٹے اور بڑے انگور کے درمیان کی کوئی چیز‬ ‫تھا ۔ چکھن ے پر نہایت ہ ی لذیذ معلوم ہوا ۔ میں ن ے عربی میں ان صاحب سےے انگور کے‬ ‫کریٹ کی قیمت پوچھی تو وہ اٹھ کر رقص کرنے لگے اور ناچ ناچ کر اردو میں جواب دیا‪،‬‬ ‫'ایک دینار' ۔ میں حیران ہ و گیا اور ان س ے اردو جانن ے کی وج ہ پوچھی ۔ انہوں ن ے دوبارہ‬ ‫رقص شروع کر دیا اور کہن ے لگے ‪" ،‬میر ے والد اردنی ہیں اور والد ہ حیدر آباد (انڈیا) کی‬ ‫ہیں۔ " اپنی زبان جانن ے وال ے س ے ملقات ہون ے پر جو خوشی محسوس ہوئی‪ ،‬میں اسے‬ ‫بیان نہیں کر سکتا۔ میں نے کریٹ خریدا‪ ،‬ان صاحب سے مصافحہ کیا اور آگے چل پڑا۔‬

‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم اور جبل نیبو‬ ‫اب ہماری اگلی منزل جبل نیبو تھی۔ے مادبہے سےے نو کلومیٹر کےے فاصلےے پر واقع یہے پہاڑ‬ ‫تاریخی اعتبار س ے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس پہاڑ کی وج ہ اہمیت ی ہ ہے ک ہ بائبل کے‬ ‫بیان ک ے مطابق سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کی وفات اس پہاڑ پر ہوئی تھی ۔ یہ‬ ‫علقہے اس دور میں موآبی قوم کا علقہے تھ ا جسےے بنی اسرائیل نےے سیدنا موسیٰے علیہ‬ ‫الصلوۃ والسلم کی قیادت میں فتح کیا تھا۔‬ ‫پھ ر موسی ٰ موآب ک ے میدانوں س ے کو ہ نبو ک ے اوپر پسگ ہ کی چوٹی پر‪ ،‬جو یریحو ک ے مقابل ہے‪،‬‬ ‫‪49‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫چڑھ گئے۔ وہاں خداوند نے انہیں جلعاد سے دان تک کا سارا ملک‪ ،‬نفتالی کا سارا ملک‪ ،‬افرائیم اور‬ ‫منسی کا علقہ ‪ ،‬اور مغربی سمندر (بحیر ہ روم) تک یہوداہ کا ملک‪ ،‬اور کھجوروں ک ے شہ ر یریحو‬ ‫کی وادی س ے ضغر تک کا سارا علق ہ دکھایا (یعنی موجود ہ فلسطین‪ ،‬شام اور اسرائیل کا پورا‬ ‫علقہے دکھ ا دیا)۔ے پھ ر خداوند ن ے ان س ے کہا‪" :‬ی ہ و ہ ملک ہے جس کا وعدہے میں ن ے قسم کھ ا کر‬ ‫ابرہام‪ ،‬اضحاق اور یعقوب س ے کیا تھ ا اور کہ ا تھ ا ک ہ میں اس ے تمہاری نسل کو دوں گا ۔ میں نے‬ ‫اس ملک کو تمہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع تو دے دیا لیکن تم (دریائے اردن اور ڈیڈ سی‬ ‫کے) اس پار جا کر اس میں داخل نہ ہو پاؤ گے۔"‬ ‫اور خداوند کے کہنے کے مطابق خداوند کے خادم موسیٰ نے وہاں موآب میں وفات پائی۔ اور اس‬ ‫ن ے اس ے ملک موآب میں بیت فعور ک ے مقابل کی وادی میں دفن کیا لیکن آج ک ے دن تک کوئی‬ ‫نہیں جانتا ہے کہ ان کی قبر کہاں ہے۔ موسیٰ اپنی وفات کے وقت ‪ 120‬برس کے تھے پھر بھی نہ تو‬ ‫ان کی آنکھیں کمزور ہوئیں اور نہ ہی ان کی طبعی قوت کم ہوئی۔ (کتاب استثنا ‪)8-34:1‬‬

‫قراآن مجید کےے مطابق ارض مقدس کا یہے وعدہے اس بات سےے مشروط تھا کہے بنی‬ ‫اسرائیل الل ہ تعالی ٰ ک ے احکام کی پیروی کریں گے۔ چونک ہ ان کا انتخاب الل ہ تعالیٰے نے‬ ‫قیامت کی جزا و سزا کا ایک نمونہے دنیا میں دکھانےے کےے لئےے کیا تھا‪ ،‬اس لئےے ان کی‬ ‫نیکیوں کا بدل ہ بحیثیت قوم انہیں اسی دنیا میں سرفرازی کی شکل میں دیا گیا اور ان‬ ‫کی برائیوں کا بدلہ انہیں اس دنیا میں ہی قومی حیثیت سے دیا گیا۔ ان کی غلط فہمی کہ‬ ‫انہوں نے اس وعدے کا استحقاق اپنے اعمال کی بجائے یہ سمجھ ا کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ‬ ‫الصلو ۃ والسلم کی اولد ہیں ۔ اسی غلط فہمی ک ے باعث و ہ آج دنیا ک ے لئ ے خطر ہ بنے‬ ‫ہوئے ہیں۔ یہی وعدہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں اولد ابراہیم‬ ‫کی دوسری شاخ بنی اسماعیل کے ساتھ کیا گیا ۔ جب انہیں ان کی بداعمالیوں کی سزا‬ ‫ملی تو و ہ بھ ی یہ ی سمجھے ک ہ ی ہ وعد ہ ہ م س ے اپن ے اعمال کی بجائ ے محمد رسول اللہ‬ ‫صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی امت کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بھی آج دنیا‬ ‫کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔‬ ‫پہاڑ سے پہلے ایک مسجد آئی جس کا نام عربی اور انگریزی میں مسجد صلح الدین‬ ‫لکھا ہوا تھا۔ے یہیں ظہر کی نماز ادا کرنےے کےے بعد ہم آگےے روانہے ہوئے۔ے اردن میں بھی‬ ‫سعودی عرب کی طرح مساجد میں خواتین کا ہال الگ ہوتا ہے۔ تھوڑا آگے چلے تو "عیون‬ ‫موسی" کا مقام آیا۔ یہاں سے ایک روڈ نیچے وادی میں جا رہی تھی۔ ہم بھی ان چشموں‬ ‫تک پہنچےے لیکن یہے اب خشک ہ و چکےے تھے۔ے بنی اسرائیل نےے سیدنا موسیٰے علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم کےے ساتھے اسی وادی میں قیام کیا تھا۔ے اپنی وفات سےے پہلےے آپ جبل نیبو پر‬ ‫چڑھے اور وہیں وفات پائی۔ آپ کی قبر نامعلوم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم‬ ‫نے فرمایا تھا‪" ،‬اگر میں وہاں ہوتا تو تہمیں موسیٰ کی قبر دکھاتا۔"‬ ‫تھوڑا سا آگے چلے تو ہم جبل نیبو پر تھے۔ سڑک پہاڑ کی بلندی تک جا رہی تھی۔ عین‬ ‫چوٹی پر قدیم دور کا ایک گرجا بنا ہوا تھا جو غالبا ً بادشاہ جسٹنین نے سیدنا موسیٰ علیہ‬ ‫الصلوۃ والسلم کی یاد میں بنایا تھا۔ مغربی سیاح یہاں بھی دھڑا دھڑ بسوں سے اتر رہے‬ ‫تھے۔ ہ م لوگ کچ ھ دیر یہاں الل ہ تعالی ٰ کا ذکر کرت ے رہے اور اس ک ے بندوں موسی اور‬ ‫محمد علیہ م الصلوۃے والسلم پر درود و سلم کےے نذرانےے پیش کرنےے کےے بعد آگےے روانہ‬ ‫ہوئے۔‬ ‫دل تو چاہے رہا ہےے کہے یہاں سیدنا موسیٰے علیہے الصلوۃے والسلم کی سیرت اور بنی‬ ‫اسرائیل کی مختصر تاریخ بیان کر دی جائ ے لیکن اس ے میں کو ہ طور پہنچن ے تک موخر‬ ‫کرتا ہوں۔‬

‫‪50‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫بپتسم ہ سائٹ‬ ‫جبل نیبو س ے آگ ے بڑھے تو اترائی ن ے ہمارا خیر مقدم کیا ۔ اب ہ م دوبار ہ گہرائی میں جا‬ ‫رہے تھے اور ی ہ گہرائی سطح سمندر س ے بھ ی نیچ ے ہمیں ل ے جاتی ۔ سامن ے دریائ ے اردن‬ ‫کےے اس پار ارض مقدس نظر آ رہ ی تھ ی جو جبل نیبو پر سیدنا موسیٰے علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم کو دکھائی گئی تھی ۔ تھوڑی دیر میں ہ م بپتس ہ سائٹ جا پہنچے۔ گیٹ پر بپتسمہ‬ ‫سائٹ کے منتظم نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا‬ ‫کہ گاڑی یہیں پارک کر کے آپ ٹکٹ لے لیجیے۔ سائٹ کی بس آئے گی اور تمام سیاحوں‬ ‫کو لے کر مقدس مقامات تک جائے گی۔ تعارف پر ان کا نام ایمن معلوم ہوا۔‬ ‫مجھے ایمن صاحب کی شکل کچھ جانی پہچانی لگی اور میں نے ان سے اس کا اظہار‬ ‫بھی کیا۔ وہ کہنے لگے‪ ،‬مجھے آپ بھی جانے پہچانے لگ رہے ہیں۔ میں نے کہا‪" ،‬آپ کبھی جدہ‬ ‫آئے ہیں۔" کہنے لگے‪" ،‬نہیں! میں تو اردن سے باہر کبھی نہیں نکل۔" ہم لوگ انتظار گاہ میں‬ ‫آ کر بیٹھ گئے۔‬ ‫میرا ذہن ابھی تک ایمن صاحب کی شکل میں ہی الجھا ہوا تھا۔ اس مشکل کو میری‬ ‫اہلی ہ ن ے سلجھایا ۔ کہن ے لگیں‪" ،‬ایس ے نقش و نگار ک ے لوگ لہوریوں میں بہ ت پائ ے جاتے‬ ‫ہیں۔" میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا اور اندرون بھاٹی و لوہاری‪ ،‬مصری شاہ‪ ،‬وسن پورہ‬ ‫اور شاد باغ کےے رہنےے والےے بہت سےے گوگے‪ ،‬مھن ّے‪ ،‬گامے‪ ،‬بل ّے‪ ،‬بھولےے اور بگےے میری‬ ‫آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ غیر لہوریوں کی معلومات کی لئے عرض ہے کہ اہل لہور میں یہ‬ ‫نام بطور عرف استعمال ہوتےے ہیں ۔ ان لوگوں کو اپنی عرفیت اتنی عزیز ہوتی ہےے کہ‬ ‫نکاح نامے سے لے کر الیکشن کے بینرز تک اور اسکول کے فارم سے لے کر قبر کے کتبے‬ ‫تک ہر جگہ اپنے نام کے ساتھ عرفیت ضرور لکھتے ہیں۔‬ ‫رہا مسئلہ یہ کہ ایمن صاحب کو میری شکل دیکھی دیکھی لگی تھی تو یہ کوئی خاص‬ ‫بات نہیں ۔ الل ہ تعالی ٰ ن ے مج ھ س ے ملتی جلتی شکلوں ک ے لکھوں یا کم از کم ہزاروں‬ ‫افراد دنیا میں پیدا کئے ہیں۔ اپنے دو چار ہم شکلوں کو میں خود بھی جانتا ہوں۔ میں اگر‬ ‫زندگی میں پہلی مرتبہ بھی دنیا کے کسی گوشے میں چل جاؤں تو "آپ کو کہیں دیکھا ہے"‬ ‫یا "آپ فلں صاحب یا ان کے بھائی تو نہیں؟" کے جملے ہر جگہ سننے کو ملتے ہیں۔ مجھے‬ ‫تو یہ خطرہ بھی لحق ہے کہ کہیں کسی اور کے دھوکے میں کوئی مجھے قتل نہ کر جائے۔‬ ‫اس بحث سے ثابت یہ ہوا کہ ایمن صاحب سے میری ملقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔‬ ‫ٹکٹ خریدنے کے بعد ہم لوگ گھنے درختوں کی چھاؤں میں بنچوں پر بیٹھ گئے۔ ہمارے‬ ‫علو ہ اور بھ ی بہت س ے لوگ وہاں موجود تھی ۔ ٹھیک دس منٹ بعد بس آ گئی اور ہمیں‬ ‫لد کر اصل سائٹ کی طرف چل پڑی۔ یہ پورا علقہ اردن اور اسرائیل کا سرحدی علقہ‬ ‫تھا ۔ تھوڑی دور جا کر ایک چیک پوسٹ آئی اور ایک فوجی ن ے بس ڈرائیور س ے اجازت‬ ‫نامہے وصول کرنےے ک ے بعد گیٹ کھول دیا ۔ اب ہ م اردن اور اسرائیل ک ے درمیان نیوٹرل‬ ‫زون میں داخل ہ و چک ے تھے۔ ایسا محسوس ہ و رہ ا تھ ا ک ہ ہ م کسی خشک دریا میں اتر‬ ‫چک ے ہیں ۔ ایمن صاحب بتان ے لگ ے ک ہ کسی زمان ے میں دریائ ے اردن اس پور ے علق ے پر‬ ‫مشتمل تھ ا لیکن بعد میں شام اور اسرائیل میں ڈیم بنن ے کے باعث ی ہ خشک ہ و گیا اور‬ ‫اب صرف دس فٹ کی ایک ندی پر مشتمل ہے۔‬ ‫تھوڑی دور جا کر اصل سائٹ آ گئی ۔ بس س ے اترت ے ہ ی وہاں واقع چرچ ک ے منتظم‬ ‫پادری صاحب نےے گرمجوشی سےے ہمارا استقبال کیا۔ے پورا علقہے نہایت ہ ی سرسبز تھا‬ ‫لیکن شاداب ن ہ تھا ۔ ہمار ے ارد گرد پانی کے جنگلت تھے جو اسی قسم ک ے لگ رہے تھے‬ ‫‪51‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جیسا ک ہ ہاکس ب ے ک ے علق ے میں سمندری جنگلت ہیں ۔ انہ ی جنگلت ک ے درمیان کچا‬ ‫راستہ تھا جس پر چل کر ہمیں بپتسمہ سائٹ پر جانا تھا۔ ہمارے علوہ باقی تمام لوگ ایک‬ ‫ہی فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور پادری صاحب کے گرد گھیرا ڈال کر چل رہے تھے۔ ان‬ ‫کے ساتھ ایک ڈیڑھ دو سالہ بچی بھی تھی۔‬ ‫تھوڑی دور جا کر ایمن صاحب میرے قریب آ گئے۔ کہنے لگے‪" ،‬یہ لوگ دراصل بچی کو‬ ‫بپتسم ہ دین ے ک ے لئ ے آئ ے ہیں اور سیدھے چرچ جائیں گے۔ آپ میر ے سات ھ آئیے۔ " میں نے‬ ‫کہا‪ "،‬میں بپتسم ہ کا عمل بھ ی دیکھنا چاہتا ہوں۔ " کہن ے لگے ‪" ،‬ہمارا وقت محدود ہوتا ہے۔‬ ‫اس صورت میں اصل مقامات ر ہ جائیں گے۔ " اب ہ م ان لوگوں س ے علیحد ہ ہ و کر ایک‬ ‫اور پگڈنڈی پر ہو لئے۔ تھوڑی دور جا کر بپتسمہ سائٹ آ گئی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سیدنا‬ ‫یحیی (‪ )John the Baptist‬علیہ الصلوۃ والسلم نے سیدنا عیسیٰ (‪ )Jesus Christ‬علیہ الصلوۃ‬ ‫والسلم کو بپتسمہ دیا تھا۔‬ ‫اس مقام پر پانچویں یا چھٹی صدی کا لکڑی کا بنا ہوا ایک متروک گرجا بھی موجود‬ ‫تھا جو سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلم کی یاد میں بنایا گیا تھا۔ اس تاریخی گرجا میں‬ ‫بھ ی موزائک ک ے فرش پر کئی تصاویر اور نقش ے بنائ ے گئ ے تھے۔ بپتسم ہ کا اصل مقام‬ ‫گہرائی میں تھا۔ ایک طرف اس سائٹ کا نقشہ بھی بنا ہوا تھا جسے کے مطابق اس دور‬ ‫میں دریائ ے اردن س ے پانی کی ایک شاخ (‪ ) Stream‬اس مقام پر آتی تھی ۔ ی ہ شاخ یحیی‬ ‫ک ے چشم ے (‪ ) John the Baptist Spring‬ک ے نام س ے مشہور تھی ۔ اسی جگ ہ سیدنا عیسیٰ‬ ‫علیہ الصلوۃ والسلم کو بپتسمہ دیا گیا تھا۔‬ ‫میں ن ے ایمن صاحب س ے کہا‪" ،‬میں ن ے سنا ہے ک ہ سیدنا عیسی ٰ علی ہ الصلو ۃ والسلم‬ ‫کے بپتسمہ کی ایک سائٹ گلیل کی جھیل کے پاس بھ ی ہے۔" کہنے لگے‪" ،‬مختلف روایات‬ ‫موجود ہیں ۔ اس سائٹ ک ے اصل مقام ہون ے ک ے تین ثبوت پیش کی ے جات ے ہیں ۔ ایک تو‬ ‫بائبل ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بپتسمہ سے پہلے سیدنا عیسی نے دریا پار کیا تھا۔‬ ‫دوسرے ان گرجوں سے ملنے والے قدیم نقشے ہیں اور تیسرے اس مقام کی زیارت کرنے‬ ‫والے افراد ہیں جو صدیوں سے تواتر کے ساتھ یہاں آ رہے ہیں۔" اس کی تفصیلت میں نے‬ ‫بعد میں اس مقام کی ویب سائٹ ‪ www.baptismsite.com‬پر دیکھیں ۔ انہوں ن ے ی ہ بھی‬ ‫بتایا ک ہ ‪ 2000‬ء میں پوپ جان پال دوئم بھ ی یہاں تشریف لئے اور انہوں نے اس مقام کو‬ ‫مسیح علیہ الصلوۃ والسلم کے بپتسمہ کا اصل مقام قرار دیا۔‬

‫پوپ جان پال دوئم اور مذا ہب ک ے مابین مثبت مکالم ہ‬ ‫پوپ جان پال کیتھولک عیسائیوں کی محبوب ترین شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت کا‬ ‫مسلمان بھی بہت احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے عیسائیت اور دیگر مذاہب کے درمیان ایک‬ ‫مثبت مکالمہ شروع کرنے کی اعلی روایت قائم کی۔ اسلم اور دیگر مذاہب کے ساتھ ان‬ ‫کا رویہ احترام اور مثبت گفت و شنید پرمبنی رہا۔ کاش ہمارے ہاں بھی ایسی شخصیات‬ ‫پیدا ہوں جو دوسرےے مذاہ ب کےے ساتھے منفی انداز کی مناظرےے بازی کی بجائےے "مثبت‬ ‫مکالمے " کو فروغ دیں ۔ اپن ے دین کی تبلیغ دوسروں ک ے مذہ ب کی توہین س ے نہیں بلکہ‬ ‫ہمیشہ صرف اور صرف مثبت انداز میں مکالمہ کرنے سے ہو سکتی ہے۔‬ ‫اسلم کی پوری تاریخ اس بات کی گواہے ہےے ک ہ غیر مسلموں نےے اسی صورت میں‬ ‫اسلم قبول کیا ہے جب ان کے سامنے اسلم ایک مثبت ماحول میں سامنے آیا ہے۔ سری‬ ‫لنکا اور بھارت کےے جنوبی علقوں کےے علوہے انڈونیشیا اور ملئشیا اس کی مثال ہیں۔‬ ‫پچھل ے دو سو سال س ے ہمار ے ہاں جو ذہنیت پیدا ہوئی ہے ‪ ،‬اس ک ے تحت ہ م ن ے دنیا کے‬ ‫‪52‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫سامنے اسلم کو دہشت گردی‪ ،‬نفرت‪،‬اور دوسروں کی اہانت کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔‬ ‫اس امیج کو ہماری بےے وقوفیوں اور اسلم دشمنوں کےے پراپیگنڈےے کےے تحت غیر‬ ‫مسلموں کے سامنے پوری شدت سے پیش کیا گیا ہے۔ اسلم کو غیر مسلموں کے سامنے‬ ‫ان ک ے مخالفین ک ے مذہ ب کےے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ے اس امیج ک ے تحت کون ایسا‬ ‫شخص ہ و گا جو مثبت طریقےے س ے اسلم کو سمجھنےے کی کوشش کر ے گا ۔ ی ہ تو اللہ‬ ‫تعالی ٰ کی جانب س ے معجز ہ ہے ک ہ دیار مغرب میں ب ے شمار لوگ پھ ر بھ ی اسلم قبول‬ ‫کر رہے ہیں اور غیر مسلموں ک ے پیش کرد ہ اعداد و شمار ک ے مطابق امریک ہ اور یورپ‬ ‫میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے وال مذہب اسلم ہے۔‬ ‫ہمارا ایمان ہے ک ہ تمام انبیاء کرام علیہ م الصلو ۃ والسلم‪ ،‬الل ہ تعالی ٰ کی جانب سے‬ ‫صرف اور صرف ایک ہی دین لے کر آئے۔ اس دین میں عقائد اور اخلقیات کے لحاظ سے‬ ‫کوئی فرق ن ہ تھ ا البت ہ وقتی حالت کی مناسبت س ے شرعی احکام میں تھوڑا بہ ت تغیر‬ ‫واقع ہوتا رہا ہے۔ آج بھی اگر ہم اپنی شریعت کا عیسائیوں اور یہودیوں کی شریعت سے‬ ‫موازنہ کریں تو ان میں مشترک احکام کی تعداد‪ ،‬اختلفات کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔‬ ‫ایسا ضرور ہوا ہے کہ بعض غیر مخلص لوگوں نے (بشمول مسلمان کہلنے والوں کے)‬ ‫الل ہ تعالی ٰ کی دی ہوئی ہدایت کو اپنی خواہشات‪ ،‬تعصبات اور مفادات ک ے تحت مسخ‬ ‫کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت اتنی واضح ہے کہ اگر کوئی‬ ‫خلوص نیت س ے کوشش کر ے تو حق تک آسانی س ے پہنچ سکتا ہے۔ قرآن مجید نے ہمیں‬ ‫اہ ل کتاب س ے گفتگو کرنےے کا جو طریق ہ بتایا ہے ‪ ،‬اس ک ے مطابق ہماری گفتگو ان کے‬ ‫ساتھ متفق علیہ چیزوں سے شروع ہونی چاہیے۔ اسی چیز کو میں "مثبت مکالمہ" کا نام‬ ‫دیتا ہوں۔ے ہمارےے ہاں علماء کہلنےے والےے بعض لوگوں نےے اللہے تعالیٰے کےے اس حکم کے‬ ‫برعکس "مناظرہ" کا طریقہ اختیار کیا جو کہ شروع ہی اختلف سے ہوتا ہے اور اس میں‬ ‫دوسرے کے نقطہ نظر کی توہین کی جاتی ہے جس سے نفرتوں میں اضافے کے سوا کچھ‬ ‫حاصل نہیں ہوتا۔‬ ‫یہودی‪ ،‬عیسائی اور مسلمان کے درمیان مشترک شخصیت سیدنا ابراہیم علی ہ الصلوۃ‬ ‫والسلم کی شخصیت ہے۔ے دین ابراہیمی کی روایت میں مشترک عقائد‪ ،‬اخلقیات اور‬ ‫شرعی احکام کی تعداد اختلفات س ے کہیں زیاد ہ ہے۔ انہ ی مشترک عقائد‪ ،‬اخلقیات اور‬ ‫شرعی احکام کو بنیاد بنا کر مثبت مکالمہ شروع کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں ان‬ ‫تینوں مذاہ ب ک ے ماننےے والوں میں ہ م آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ے اس کےے علوہے یہی‬ ‫مکالم ہ ہندو مت‪ ،‬بد ھ مذہ ب اور دیگر تمام مذاہ ب ک ے سات ھ شروع کیا جا سکتا ہے جن‬ ‫میں اسلم ک ے سات ھ مشترک عقائد‪ ،‬اخلقیات اور شرعی احکام کی بڑی تعداد موجود‬ ‫ہے۔‬ ‫اس مکالمے کو شروع کرنے کے لئے سب سے اہم کام مثبت ذہن رکھنے والے ایسے اہل‬ ‫علم کی تیاری ہےے جو اپنےے دین کےے ساتھے ساتھے دوسرےے ادیان کو بھی کھلےے دل سے‬ ‫سمجھنے کے لئے تیار ہوں۔ اپنے ہاں ایسے اہل علم کی تیاری کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسرے‬ ‫مذاہ ب ک ے مانن ے والوں س ے بھ ی اپیل کرنی چاہی ے ک ہ و ہ بھ ی اپن ے ہاں ایس ے مثبت ذہن‬ ‫رکھنےے والےے اہ ل علم تیار کریں تاکہے ڈائیلگ کےے اس عمل کو آگےے بڑھایا جا سکے۔ے اہل‬ ‫کلیسا اس معاملے میں پہلے ہی کافی کام کر چکے ہیں۔‬

‫آرت ھو ڈوکس چرچ‬ ‫بپستمہ سائٹ س ے گزر کر ہم لوگ آگے بڑھے۔ تھوڑی دور جا کر ایک نو تعمیر شدہ چرچ‬ ‫‪53‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ہمارے سامنے تھا جس کا مسجد اقصی کی طرز کا سنہرا گنبد دھوپ میں چمک رہا تھا۔‬ ‫میرےے استفسار پر ایمن صاحب نےے بتایا کہے یہے آرتھوڈوکس فرقےے کا چرچ ہے۔ے پوپ نے‬ ‫کیتھولک فرق ے ک ے چرچ کی منظوری بھ ی د ے دی تھ ی جس کا ڈیزائن آرکیٹکٹ تیار کر‬ ‫رہے ہیں۔ پروٹسٹنٹ فرقے کے چرچ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔‬ ‫اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرقوں اور مسالک کی بنیاد پر مساجد صرف ہمارے ہاں‬ ‫ہی نہیں بنتیں بلکہ دیگر مذاہب کے ہاں بھی یہ تصور موجود ہے۔ ویسے ہمارے ہاں بھی فرقہ‬ ‫واران ہ بنیادوں پر مساجد میں ن ے صرف برصغیر ہ ی میں دیکھیں ۔ عالم عرب میں اس‬ ‫بات کو کوئی تصور نہیں ہے۔ے امریکہے اور یورپ میں چونکہے مسلمانوں کی بڑی تعداد‬ ‫برصغیر ہ ی س ے گئی ہے اس لئ ے اپن ے فرق ہ واران ہ تصورات بھ ی ی ہ لوگ وہاں ل ے گئ ے اور‬ ‫انہی بنیادوں پر وہاں مساجد کی تعمیر کی۔‬ ‫قرآن مجید کا نقط ہ نظر اس بار ے میں بالکل مختلف ہے۔ قرآن ک ے مطابق ایک خدا‬ ‫کی عبادت ک ے لئ ے بنائی جان ے والی عمارتوں کو صرف خدا ہ ی ک ے لئ ے وقف ہونا چاہیے‬ ‫اور ہر شخص کو اس میں عبادت کرنے کے لئے مکمل آزادی دی جانی چاہیے۔ قرآن مجید‬ ‫نے ایسے مقامات پر عبادت کرنے سے روکنے کی شدید مذمت کی ہے۔ "ومن اظلم ممن‬ ‫منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ و سعی فی خرابھا۔ اس شخص سے بڑھ کر اور کون‬ ‫ظالم ہو گا جو اللہ کی مساجد میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے‬ ‫درپے ہو۔" (البقرہ ‪)2:114‬‬ ‫یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسجد نبوی میں نجران سے آنے‬ ‫والےے عیسائی وفد کےے ارکان کو اپنےے طریقےے پر نماز پڑھنےے کی اجازت دی تھی۔ے جب‬ ‫یروشلم فتح ہوا تو نماز کے وقت سیدنا عمر رضی الل ہ عنہ نماز کے لئے جگ ہ تلش کرنے‬ ‫لگے۔ عیسائی پادریوں نے آپ کو گرجا میں نماز ادا کرنے کا مشورہ دیا۔ سیدنا عمر رضی‬ ‫اللہ عنہ نے فرمایا‪" ،‬میں نماز پڑھ تو لوں لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں مستقبل میں کوئی‬ ‫مسلمان اس بنیاد پر اس گرج ے پر قبض ہ ن ہ کر ل ے ک ہ یہاں ہمار ے خلیف ہ ن ے نماز ادا کی‬ ‫تھی۔" اسی وجہ سے آپ نے گرجا کی سیڑھیوں کے پاس نماز ادا کی۔ اس سے دور اول‬ ‫کے مسلمانوں کی رواداری اور مذہبی آزادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‬ ‫یہاں موجود چرچ کی عمارت نہایت ہ ی خوبصورت تھی ۔ اس چرچ کا افتتاح ‪2004‬ء‬ ‫میں کیا گیا ۔ بڑ ے پادری صاحب ک ے نائب ہمیں ل ے کر چرچ میں داخل ہوئے۔ بڑ ے پادری‬ ‫صاحب بھی باریش تھے لیکن ان کے نائب ایک مشت داڑھ ی کے باعث اچھے خاصے امام‬ ‫مسجد لگ رہے تھے۔ میں نے ان س ے جوت ے اتارنے کے بارے میں پوچھ ا تو کہنے لگے ‪" ،‬اس‬ ‫کی ضرورت نہیں"۔‬

‫انبیاء کرام کی تصاویر‬ ‫یہ ایک چھوٹا سا چرچ تھا۔ ہال کا فرش لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ ایک جانب ایک ڈائس رکھا ہوا‬ ‫تھ ا جہاں پادری صاحب خطب ہ دیت ے تھے۔ چرچ کی دیواروں پر بہ ت سی تصاویر پینٹ کی‬ ‫گئی تھیں جن میں سےے زیادہے تر سیدنا عیسی ٰ علیہے الصلو ۃ والسلم کی تھیں ۔ آپ کی‬ ‫حیات طیب ہ ک ے مختلف ادوار کو ان تصاویر میں دکھایا گیا تھا ۔ ایک تصویر آپ ک ے بچپن‬ ‫کی تھ ی جس میں آپ اپنی والد ہ سید ہ مریم رضی الل ہ عنہ ا ک ے سات ھ تھے۔ ایک تصویر‬ ‫لڑکپن کی تھی۔ ایک اور تصویر میں آپ کو بپتسمہ لیتے دکھایا گیا تھا۔ آپ کی جوانی کی‬ ‫تصاویر بھی یہاں موجود تھیں۔ ایک تصویر سیدنا یحیی علیہ الصلوۃ والسلم کی تھی۔ ایک‬ ‫تصویر میں آپ کے صحابہ یا حواری دکھائے گئے تھے۔ ان کے علوہ مختلف ادوار کے راہبوں‬ ‫‪54‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کی تصاویر بھی یہاں موجود تھیں۔‬ ‫ً‬ ‫یہاں ایک کتبہ بھی تھا جس پر عربی اور کسی یورپی زبان غالبا اطالوی میں لکھا ہوا‬ ‫تھا‪" ،‬دریائے اردن کے قریب بپتسمہ سائٹ پر واقع گرجا سے برآمد ہونے والے ان نوادرات‬ ‫کا تعلق اولیاء اللہے سےے ہے۔ " ان نوادرات میں کسی راہ ب کی ہڈیاں اور کھوپڑی بھی‬ ‫شامل تھی۔ میری اہلیہ کو انسانی کھوپڑی دیکھنے کا بہت شوق تھا اس لئے میں نے انہیں‬ ‫یہے کھوپڑی خاص طور پر دکھائی۔ے انہوں نےے کافی حوصلےے سےے اس کھوپڑی کو دیکھا۔‬ ‫چرچ کی مرکزی دیوار میں ایک محراب بنی ہوئی تھ ی جس پر صلیب کا نشان بنا ہوا‬ ‫تھا۔ اس کے اوپر دو تصاویر تھیں جن میں سے ایک حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلم‬ ‫کی تھی۔ اس میں ان کےدو پر واضح طور پر دکھائے گئے تھے۔‬ ‫قدیم دور سےے اللہے کےے نیک بندوں کی تصاویر اور مجسمےے بنانےے کا رجحان مختلف‬ ‫اقوام میں موجود رہا ہے۔ بالعموم یہ تصاویر اور مجسمے ان کی وفات کے بعد ان کی یاد‬ ‫قائم رکھنےے کےے لئےے بنائےے گئے۔ے کئی نسلوں کےے بعد یہے تصاویر انتہائی تقدس اختیار کر‬ ‫جاتیں اور بسا اوقات ان نیک بندوں کی تعلیمات ک ے بالکل برعکس انہ ی کی پرستش‬ ‫شروع کر دی جاتی۔ے رسول اللہے صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم نےے اسی وجہے سےے مقدس‬ ‫تصاویر بنان ے س ے منع فرمایا ۔ اسی حکم ک ے باعث مسلمانوں ک ے ہاں مذہبی شخصیات‬ ‫کی تصاویر کا رجحان زور ن ہ پکڑ سکا ۔ احادیث میں اگر چ ہ حضور صلی اللہے علیہے واٰلہ‬ ‫وسلم کا حلیہ تفصیل سے بیان ہوا ہے لیکن اس کی بنیاد پر کسی نے آپ کی تصویر بنانے‬ ‫کی جرأت نہیں کی ہے۔‬ ‫بعد ک ے ادوار میں جب مسلمان حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم ک ے احکام س ے دور‬ ‫ہٹ گئے تو تصاویر پرستی کی جگہ قبر پرستی نے لے لی۔ نیک بندوں کے عالیشان مقبرے‬ ‫بنائ ے گئے ‪ ،‬ان س ے منتیں مانی گئیں‪ ،‬ان پر چڑھاو ے چڑھائ ے گئے ‪ ،‬ان مقامات پر سالنہ‬ ‫میلے منعقد کئے گئے اور یہ سلسلہ پھیلتا چل گیا۔ دور جدید میں بہت سے افراد اپنے اساتذہ‬ ‫یا پیر صاحبان کی تصاویر گھروں میں آویزاں کرت ے ہیں ۔ تقدس ک ے انتہائی جذبات کے‬ ‫سات ھ صبح اٹ ھ کر سب س ے پہل ے ان کی زیارت کرت ے ہیں اور انہیں چوم کر آنکھوں سے‬ ‫لگاتے ہیں۔‬

‫دریائ ے اردن‬ ‫اب ہ م چرچ س ے نکل کر دریائ ے اردن کی طرف آ گئے۔ دریا ک ے دونوں جانب گھنا سبزہ‬ ‫تھا جس کے باعث اس کا پانی سبز رنگ کا ہو رہا تھا۔ اس مقام پر دریا کی چوڑائی دس‬ ‫فٹ کے قریب تھی۔ گھنے سبزے کے درمیان دریا کا منظر کافی خوبصورت محسوس ہو‬ ‫رہ ا تھا ۔ عیسائیوں ک ے نزدیک اس دریا ک ے پانی کا ایک ایک قطر ہ مقدس ہے۔ ان کے ہاں‬ ‫دریائے اردن کو وہی حیثیت حاصل ہے جو ہندوؤں کے ہاں دریائے گنگا کو ہے۔‬ ‫ایمن بتانے لگے کہ فلسطینی شہر 'یریحو (‪ ')Jeriho‬یہاں سے سات کلومیٹر کے فاصلے‬ ‫پر ہے۔ یریحو دنیا کا سب سے قدیم مسلسل آباد شہر ہے۔ بائبل میں بارہا اس کا ذکر آیا‬ ‫ہے۔ ماہرین آثار قدیم ہ کا انداز ہ ہے ک ہ ی ہ شہر ‪ 9000‬سال س ے آباد ہے۔ سیدنا موسی علیہ‬ ‫الصلوۃے والسلم کی وفات کےے بعد بنی اسرائیل نےے سیدنا یشوع بن نون علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم کی قیادت میں اسی مقام ک ے پاس س ے دریائ ے اردن پار کر ک ے سب س ے پہلے‬ ‫یریحو کو فتح کیا تھا۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھی دریا کے دوسری‬ ‫جانب فلسطینی علقے میں رہنے والے عیسائی بھی اس مقام کی زیارت کے لئے آتے ہیں‬ ‫لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔‬ ‫‪55‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫پوچھنے پر معلوم ہوا کہ 'یروشلم' اس مقام سے صرف ‪ 26‬کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔‬ ‫میرےے دل میں ایک انتہائی درجےے کی حسرت پیدا ہوئی۔ے مسجد اقصیٰے سےے اس قدر‬ ‫قریب ہو کر پلٹ جانا ایک ایسی محرومی تھی جسے ہم نے بڑی مشکل برداشت کیا ورنہ‬ ‫میرا دل ی ہ چا ہ رہ ا تھ ا ک ہ لنگ جمپ کا مظاہر ہ کرت ے ہوئ ے دریا پار کر ک ے فلسطین میں‬ ‫داخل ہو جاؤں اور وہاں سے کسی طرح یروشلم پہنچ جاؤں لیکن ظاہر ہے ایسا ممکن نہ‬ ‫تھا ۔ میر ے پاسپورٹ پر لکھے ہوئ ے الفاظ “‪ ” Not valid for Israel‬ہ ی مجھے روکن ے کے لئے‬ ‫کافی تھے۔ے انسان کو اچھی امید رکھنی چاہیے۔ے امید ہےے کہے اگلےے چند سالوں میں‬ ‫فلسطینی اتھارٹی اس قابل ہ و جائےے گی کہے اپنا ویزا جاری کرنےے لگ جائے۔ے اس وقت‬ ‫شاید ہمارے لئے ممکن ہو کہ ہم مسجد اقصیٰ کی زیارت کر سکیں۔‬

‫بپتسم ہ کی رسم‬ ‫دریا کے کنارے ہی بچی کے بپتسمہ کی رسم جاری تھی۔ پادری صاحب عربی میں دعائیں‬ ‫پڑھنے میں مشغول تھے۔ ان کا انداز بالکل ایسا تھا جیسا کہ پنڈت حضرات اشلوک پڑھتے‬ ‫ہیں یا ہمارے مولوی صاحبان گھروں میں 'ختم' کے موقع پر دعائیں پڑھتے ہیں۔‬ ‫'خداوند' کےے لئےے پادری صاحب لفظ 'اللہ' استعمال کر رہےے تھے۔ے لفظ 'اللہ' عربی‬ ‫الفاظ 'ال' اور 'الہ ' س ے مل کر بنا ہے۔ اس کا عربی میں وہ ی مفہوم ہے جو کہ اردو کے‬ ‫لفظ 'خدا' اور انگریزی کے لفظ 'گاڈ ' کا ہے۔ مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے‬ ‫دعاؤں میں "ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃے و فی الخرہے حسنۃے و قنا عذاب النار" یعنی "اے‬ ‫ہمار ے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلئی عطا فرما د ے اور ہمیں آگ ک ے عذاب سے‬ ‫بچا" پڑھی۔ اس کے علوہ بھی اور کئی قرآنی دعائیں انہوں نے اس موقع پر پڑھیں۔‬ ‫مج ھ س ے رہ ا ن ہ گیا ۔ میں ن ے ایمن صاحب س ے اس ک ے بار ے میں پوچھا ۔ و ہ کہن ے لگے‪،‬‬ ‫"اردن میں مذہبی امور کا ایک ادار ہ ہے جس میں مسلم اور عیسائی علماء اکٹھے کام‬ ‫کرت ے ہیں ۔ اس طرح انہیں ایک دوسر ے ک ے مذہ ب ک ے بار ے میں علم ہوتا رہتا ہے۔ " میرے‬ ‫خیال میں ہمارےے ہاں بھ ی اگر اس طرح کےے مشترک ادارےے بنائےے جائیں تو مذاہ ب کے‬ ‫درمیان مثبت مکالمے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔‬ ‫دعاؤں ک ے بعد پادری صاحب ن ے حاضرین س ے اپن ے مخصوص عقائد کا اقرار کروایا۔‬ ‫قریب ہی بپتسمہ کا بڑا سا ٹب رکھا تھا جس میں دریائے اردن کا پانی تھا۔ اس پانی کو‬ ‫بچی پر ڈال گیا تو وہ رونے لگی۔ مسیحی عقیدے کے مطابق اب یہ بچی دین مسیحی میں‬ ‫داخل ہوئی تھی ۔ مجھے رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم کی و ہ حدیث یاد آئی جس‬ ‫میں آپ نےے فرمایا تھا‪" ،‬ہ ر بچہے دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے ‪ ،‬پھ ر اس کےے والدین اسے‬ ‫یہودی‪ ،‬نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔" اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسان کا‬ ‫ابتدائی ماحول اس کے افکار اور نظریات پر حاوی ہوتا ہے۔‬ ‫میں ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا۔ والدین‪ ،‬ارد گرد کے ماحول اور مذہبی راہنماؤں‬ ‫ن ے میر ے ذہ ن میں ی ہ اتارن ے کی کوشش کی ک ہ جس مذہب‪ ،‬فرق ے اور مسلک کو میرے‬ ‫ذہن میں اتارا جا رہا ہے بس دنیا میں وہی حق ہے۔ بڑا ہونے پر میرے ذہن میں یہ خیال آیا‬ ‫کہ دنیا کے تمام مذاہب اور نقطہ ہائے نظر کے ماننے والے اسی طرح اپنے بچوں کی تربیت‬ ‫کرت ے ہیں ۔ اگر حق کا معیار یہ ی ہے تو و ہ تمام ک ے تمام حق پر ہوئ ے جو ک ہ کسی طرح‬ ‫بھی ممکن نہیں۔ اسی فکر کے تحت میں نے مختلف مذاہب اور نقطہ ہائے نظر کا مطالعہ‬ ‫کیا ۔ اس مطالع ے ک ے دوران انصاف پسندی بنیادی اہمیت کی حامل تھ ی کہ تمام مذاہب‬ ‫اور نقطہ ہائے نظر کو یکساں اہمیت (‪ )Weightage‬دی جائے۔‬ ‫‪56‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اس مطالعے کے نتیجے میں مجھے یہی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے پیغمبروں کے ذریعے‬ ‫پہنچایا گیا دین ہی حق ہے جس کا آخری ورژن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم‬ ‫ک ے ذریع ے دنیا کو دیا گیا ۔ میرا ذاتی تجرب ہ ہے ک ہ انسان اگر ذہ ن کھل رکھے اور حق کو‬ ‫قبول کرنے میں کسی تعصب کا شکار نہ ہو تو وہ باآسانی حق کو پا سکتا ہے۔ اس کے لئے‬ ‫شرط صرف اور صرف یہ ی ہے ک ہ انسان اپنا ذہ ن کھل رکھے اور انتہ ا پسندی کی بجائے‬ ‫اعتدال پسندی کو اپنا شعار بنائے۔‬

‫انت ہا پسندی اور اعتدال پسندی کا فرق‬ ‫میڈیا کےے منفی کردار کےے باعث ہمارےے ہاں دوسری قوموں کےے بارےے میں بڑا ہ ی غلط‬ ‫تصور پایا جاتا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں یہ اتارا جاتا ہے کہ دوسری قوموں کے تمام افراد انتہا‬ ‫پسندوں پر مشتمل ہیں جو ہمیں مار کر اپنا غلم بنا لینا چاہت ے ہیں ۔ بعین ہ یہ ی معامل ہ ان‬ ‫قوموں کا میڈیا ہمار ے معامل ے میں کرتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ تمام کے تمام مسلمان‬ ‫انتہا پسند ہیں جو پوری دنیا کو اپنا غلم بنا لینا چاہتے ہیں۔‬ ‫دقت نظر سےے دیکھا جائےے تو دونوں جانب کےے میڈیا کی پیش کی ہوئی یہے تصویر‬ ‫درست نہیں ہے۔ جس طرح ہ ر مسلمان انتہ ا پسند نہیں ہے بلک ہ ان کی اکثریت اعتدال‬ ‫پسندوں پر مشتمل ہے ‪ ،‬اسی طرح دوسری اقوام ک ے ہاں بھ ی اکثریت اعتدال پسندوں‬ ‫پر مشتمل ہ ی ہے۔ انتہ ا پسند اگرچ ہ اقلیت میں ہوت ے ہیں لیکن بہ ت زیاد ہ منظم ہوت ے ہیں‬ ‫اور میڈیا پر ان کی گرفت بہ ت مضبوط ہوتی ہے۔ یہ ی وجہ ہے کہ ان کی آواز زیادہ شدت‬ ‫کے ساتھ گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اس میں اعتدال پسندوں کی آواز دب کر‬ ‫رہ جاتی ہے۔‬ ‫انتہ ا پسندی اور اعتدال پسندی کا تعلق کسی ایک مذہ ب ک ے سات ھ نہیں ۔ ی ہ انسانی‬ ‫رویوں کا نام ہے جنہیں باقاعدہ تربیت کے ذریعے کسی بھی مذہب کے ماننے والے فرد کی‬ ‫شخصیت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ انتہا پسند کو شروع ہی سے یہ تربیت دی جاتی ہے کہ‬ ‫اس ے دوسروں کو مارنا ہے خوا ہ اس ک ے لئ ے اس ے خود کو ختم کیوں ن ہ کرنا پڑے۔ اسے‬ ‫دوسروں کو غلم بنانا ہے خواہ اس کے لئے اس کی اپنی زندگی‪ ،‬اپنے لیڈروں کی غلمی‬ ‫میں ہ ی بسر کیوں نہ ہو۔ اسے دوسروں کو بے عزت کرنا ہے خواہ اس کے لئے اسے اپنی‬ ‫عزت ہی داؤ پر کیوں نہ لگانی پڑے۔ اسے دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے خواہ اس کے لئے‬ ‫اس ے اپنی بیوی‪ ،‬اولد‪ ،‬کاروبار یا زندگی کا نقصان ہ ی کیوں ن ہ برداشت کرنا پڑے۔ انتہا‬ ‫پسند کی پوری زندگی ‪ Do or die‬کی عملی تعبیر ہوتی ہے۔‬ ‫اس کے برعکس اعتدال پسند کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے لئے دوسرے کو‬ ‫زند ہ رہن ے کا حق دیا جائے۔ اپنی آزادی ک ے لئ ے ہمیں دوسروں کی آزادی کا احترام کرنا‬ ‫چاہیے۔ خود کو نقصان سے بچانے کے لئے ہمیں دوسروں کو نقصان سے بچانا چاہیے۔ اپنی‬ ‫عزت کروانے کے لئے دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ اعتدال پسند کی پوری زندگی 'جیو‬ ‫اور جین ے دو' ک ے فلسف ے کی عملی تعبیر ہوتی ہے۔ ان دونوں نقط ہ ہائ ے نظر میں سے‬ ‫کون سا انسانیت کےے لئےے مفید ہے‪ ،‬یہے جاننےے کےے لئےے بہت بڑا عالم یا مفکر ہونےے کی‬ ‫ضرورت نہیں۔ دنیا کے تمام الہامی مذاہب اعتدال پسندی کی تعلیم دیتے ہیں۔‬ ‫اس فیملی کے تمام لوگ نہایت عقیدت سے دعاؤں اور مناجات میں مشغول تھے۔ ان‬ ‫کے مرد تو معقول لباس پہنے ہوئے تھے لیکن خواتین کے لباس مناسب نہ تھے۔ حیا انسان‬ ‫کی فطرت کا حصہ ہے جس میں اس کا لباس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ حیا ہی ہے جو‬ ‫انسان کو بدکاری سے بچاتی ہے۔ بے حیائی انسان کو بدکاری کی طرف لے جاتی ہے۔ اہل‬ ‫‪57‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مغرب نے اس معاملے میں انسانی فطرت کو بری طرح مسخ کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے‬ ‫کہ مقدس ترین مذہبی مقام پر مقدس ترین رسومات کی ادائیگی کے دوران بھی یہ لوگ‬ ‫باحیا لباس پہنن ے کو ضروری نہیں سمج ھ رہے تھے۔ حیرت کی بات ی ہ ہے ک ہ ان ک ے مذہبی‬ ‫راہنما بھی اس پر ان سے کچھ تعرض نہ کر رہے تھے۔‬

‫سیدنا یحیی علی ہ الصلو ۃ والسلم (‪)John the Baptist‬‬ ‫مسیحی روایات کے مطابق دریائے اردن پر بپتسمہ دینے کی رسم سیدنا یحیی علیہ الصلوۃ‬ ‫والسلم سے شروع ہوئی۔ آپ نے یروشلم اور اس کے ارد گرد کے علقے میں اللہ کے دین‬ ‫کی دعوت دیا کرت ے تھے۔ آپ کی دعوت دراصل بنی اسرائیل کو ان کی طرف مبعوث‬ ‫کئ ے جان ے وال ے آخری رسول سیدنا عیسی ٰ علی ہ الصلو ۃ والسلم کی آمد ک ے لئ ے تیار کر‬ ‫دین ے کی دعوت تھی۔آپ ن ے اپنی دعوت کا مرکز بیت عنیا ہ (‪ ) Bethany‬کو بنایا ۔ ی ہ وہی‬ ‫مقام تھا جہاں اس وقت ہم موجود تھے۔ یہ جگہ وادی خرار میں واقع ہے۔‬ ‫سیدنا یحیی علیہ الصلوۃ والسلم نہایت ہی سادہ زندگی بسر کرتے۔ آپ اونٹ کے بالوں‬ ‫کا لباس پہنتے‪ ،‬چمڑے کی ایک بیلٹ کمر سے باندھے رکھتے اور ٹڈیوں اور جنگلی شہد کو‬ ‫بطور خوراک استعمال کرتے۔ قرآن مجید نے آپ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے‪:‬‬ ‫ییحیی خذ الکتاب بقوۃ۔ و اٰتینہ الحکم صبیا۔ و حنانا من لدنا و زکوۃ‪ ،‬و کان تقیا۔ و برا بوالدیہ و لم‬ ‫یکن جبارا عصیا۔ و سلم علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا۔ (مریم ‪)15-19:12‬‬ ‫ا ے یحیی! کتاب الہ ی کو مضبوطی س ے تھام لو ۔ ہ م ن ے انہیں بچپن ہ ی سے سمج ھ بوج ھ اور قوت‬ ‫فیصل ہ س ے نوازا تھا ۔ اور اپنی طرف س ے نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی ۔ و ہ بڑ ے پرھیز گار اور‬ ‫والدین کے حق شناس تھے۔ وہ نہ تو جبر کرنے والے اور نہ ہی نافرمان۔ سلم ہو ان پر اس دن جب‬ ‫وہ پیدا ہوئے‪ ،‬جب فوت ہوئے اور جب زندہ اٹھائے جائیں گے۔‬

‫ارد گرد کے علقوں سے بے شمار لوگ سیدنا یحیی علیہ الصلوۃ والسلم کے پاس آئے اور‬ ‫آ کر یہاں بپتسم ہ لیا ۔ یہ بپتسم ہ دراصل ایک غسل تھ ا جس کے دوران یہ لوگ اپن ے گناہوں‬ ‫سے توبہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے۔ پاکیزگی کے احساس کے ساتھ یہ اپنے‬ ‫گھروں کو جات ے اور نیکی کی زندگی بسر کرتے۔ انجیلوں س ے معلوم ہوتا ہے ک ہ آپ کی‬ ‫دعوت اعلیٰے ترین اخلقیات کی دعوت تھی۔ے اس علقےے کےے گورنر ہیرودوس نےے اپنی‬ ‫محبوبہے جو کہے اس کی سوتیلی بیٹی تھی‪ ،‬کی فرمائش پر سیدنا یحیی علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم کو شہید کروا دیا تھا۔‬

‫سیدنا عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کا بپتسم ہ‬ ‫انجیل یوحنا کے مطابق اسی مقام پر سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلم کی ملقات‬ ‫سیدنا یحیی علی ہ الصلو ۃ والسلم س ے ہوئی ۔ آپ ن ے بھ ی بپتسم ہ لین ے کی فرمائش کی۔‬ ‫سیدنا یحیی ن ے اس س ے منع فرمایا کیونک ہ آپ ن ے کبھ ی کوئی گنا ہ ن ہ کیا تھ ا لیکن سیدنا‬ ‫مسیح ک ے اصرار پر انہیں بپتسم ہ دیا ۔ اسی موقع پر جبرائیل علی ہ الصلو ۃ والسلم نازل‬ ‫ہوئے اور آپ پر وحی کا آغاز ہوا۔‬ ‫انجیل متی سےے معلوم ہوتا ہےے کہے ابلیس نےے سیدنا عیسی علیہے الصلوۃے والسلم کو‬ ‫ورغلنے کی کوشش کی اور آپ کو کہ ا کہ آپ اگر خدا کے پیارے ہیں تو پہاڑ س ے کود کر‬ ‫دکھائیے۔ آپ ن ے فرمایا کہے خدا کو آزمانا نہیں چاہیے۔ے اس نےے آپ کو دنیا کی سلطنتیں‬ ‫دکھائیں اور کہ ا ک ہ اگر آپ مجھے سجد ہ کردیں تو میں آپ کو ی ہ سب کچ ھ د ے دوں گا‬ ‫لیکن آپ نے فرمایا کہ خدا کا حکم یہی ہے کہ صرف اسی کو سجدہ کیا جائے۔‬ ‫سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلم چونکہ بنی اسرائیل کے لئے اللہ کی آخری برہان تھے‬ ‫‪58‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اس لی ے آپ کا وجود ہ ی سراپا معجز ہ تھا ۔ آپ کی پیدائش بغیر باپ ک ے بیت لحم میں‬ ‫ہوئی تھی جو کہ یروشلم کے جنوب میں واقع ہے۔ قرآن مجید اور اناجیل کے مطابق یہود‬ ‫نے آپ کی والدہ پر الزام عائد کیا تھا جس کی صفائی آپ نے شیر خوارگی کے عالم میں‬ ‫ماں کی گود میں دی تھی۔‬ ‫بادشا ہ آپ ک ے قتل کا درپ ے تھ ا جس ک ے شر س ے محفوظ رکھن ے ک ے لئ ے سید ہ مریم‬ ‫رضی الل ہ عنہ ا آپ کو مصر ل ے گئیں ۔ جب بادشا ہ مر گیا تو انہوں ن ے واپس آ کر ناصرہ‬ ‫میں رہائش رکھ ی جو ک ہ گلیل کی جھیل ک ے قریب واقع ہے۔ ی ہ وہ ی جھیل ہے جہاں سے‬ ‫دریائےے اردن اپنا دوسرا سفر شروع کرتا ہے۔ے سیدنا یحیی علیہے الصلوۃے والسلم کی‬ ‫گرفتاری کی خبر سن کر عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم واپس گلیل ک ے علق ے کی طرف‬ ‫چلے گئے۔‬ ‫آپ ن ے کفر نحوم (‪ ) Capernahum‬نامی شہ ر میں رہائش رکھ ی جو ک ہ گلیل ک ے کنارے‬ ‫پر واقع ہے۔ے آپ کی دعوت کےے نتیجےے میں جھیل کےے چار مچھیرےے پطرس‪ ،‬اندریاس‪،‬‬ ‫یعقوب اور یوحنا رضی اللہ عنہم آپ پر ایمان لئے اور آپ کے سابقون الولون میں شمار‬ ‫ہوئے۔ آپ ن ے اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جھیل ک ے چاروں طرف ک ے شہروں میں پھیل‬ ‫دیا۔ آپ عبادت گاہوں میں جا کر تبلیغ کرتے اور اللہ کے حکم سے مریضوں کو شفا دیتے۔‬ ‫قرآن مجید ک ے بیان ک ے مطابق آپ کی دعا س ے کئی مرد ے زند ہ ہوئے ‪ ،‬مریض شفا یاب‬ ‫ہوئے‪ ،‬پیدائشی اندھوں کو آنکھیں ملیں اور کوڑھی تندرست ہوئے۔‬ ‫سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلم کو جو معجزات عطا ہوئے تھے ان میں یہ بھی تھا کہ‬ ‫آپ اللہ کے حکم سے پرندوں کی مورتیں بنا کر ان میں پھونک مارتے تو وہ زندہ ہو کر اڑ‬ ‫جاتے۔ اللہ تعالی کے بتانے پر آپ لوگوں کو یہ بتاتے کہ وہ کیا کھ ا کر آئے ہیں اور گھر میں‬ ‫کیا چھوڑ آئے ہیں۔‬ ‫بائبل س ے ی ہ معلوم ہوتا ہے ک ہ بنی اسرائیل اس زمان ے میں ظواہ ر پرستی ک ے مرض‬ ‫میں مبتل ہو چکے تھے۔ ان کےہاں شرعی احکام کی تو پوری باریک بینی سے پیروی کی‬ ‫جاتی لیکن دین کے بڑے بڑے اخلقی احکام کو نظر انداز کر دیا جاتا ۔ سیدنا عیسی علیہ‬ ‫الصلوۃ والسلم نے اسے اس بات سے تعبیر کیا کہ مچھر تو چھانے جائیں لیکن اونٹ نگلے‬ ‫جائیں ۔ تنکوں پر توج ہ دی جائ ے لیکن شہتیر نظر انداز کر دی ے جائیں ۔ آپ ن ے اپنی پوری‬ ‫قوت اخلقیات کی دعوت پر مرکوز کی اور بنی اسرائیل کو اعلی اخلقیات کی دعوت‬ ‫دی۔‬

‫پ ہاڑی کا وعظ‬ ‫گلیل کی جھیل کے کنارے واقع ایک پہاڑی پر دیا جانے وال وعظ بہت مشہور ہوا اور بائبل‬ ‫ک ے مصنفین ن ے اس ے بائبل کا حص ہ بنا دیا ۔ قرآن مجید ن ے اس اخلقی تعلیم کو حکمت‬ ‫سےے تعبیر کیا ہے۔ے اگر اس وعظ میں دی گئی تعلیمات کا موازنہے قرآن کی اخلقی‬ ‫تعلیمات کے ساتھ کیا جائے تو ان میں کوئی اختلف نظر نہیں آتا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا‬ ‫ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت ایک ہی تھی۔ پہاڑی کے اس وعظ کے چند اقتباسات یہاں نقل‬ ‫کیے جا رہے ہیں‪:‬‬ ‫•مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب (نرم) ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی ان کے لئے ہے۔ مبارک‬ ‫ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے۔ مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین‬ ‫کے وارث ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جنہیں راستبازی کی بھوک و پیاس ہے کیونکہ وہ سیراب ہوں‬ ‫گے۔ مبارک ہیں وہ جو رحمدل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔ مبارک ہیں وہ جو پاک دل‬

‫‪59‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫ہیں کیونک ہ و ہ خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک ہیں و ہ جو صلح کروات ے ہیں کیونک ہ و ہ خدا ک ے بیٹے‬ ‫(محبوب) کہلئیں گے۔ مبارک ہیں و ہ جو راستبازی ک ے سبب ستائ ے جات ے ہیں کیونک ہ آسمان‬ ‫کی بادشاہی (جنت) انہی کے لئے ہے۔‬ ‫•چراغ جل کر برتن کے نیچے نہیں بلکہ چراغدان پر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ گھر کے سب لوگوں کو‬ ‫روشنی دے۔ اسی طرح تمہاری روشنی کو لوگوں ک ے سامن ے چمکنا چاہی ے تاک ہ تمہار ے نیک‬ ‫کاموں کو دیک ھ کر و ہ تمہار ے آسمانی باپ (یعنی خدا) کی تمجید کریں ۔ (یعنی تمہیں نیکی‬ ‫کی دعوت دینی چاہیے۔)‬ ‫•جب تک تمہاری زندگی شریعت کے عالموں اور فریسیوں سے بہتر نہ ہ و گی تم آسمان کی‬ ‫بادشاہ ی میں داخل ن ہ ہ و گے۔ (اس میں یہود ک ے اہ ل علم کی ب ے عملیوں کی طرف اشارہ‬ ‫ہے۔)‬ ‫•جو کوئی اپنے بھائی کو گالی دیتا ہے وہ عدالت عالیہ میں (خدا کے سامنے) جوابدہ ہو گا۔‬ ‫•تم سن چک ے ہ و ک ہ زنا ن ہ کرنا‪ ،‬لیکن میں تم سے کہتا ہوں ک ہ جو کوئی کسی عورت پر بری‬ ‫نظر ڈالتا ہے وہ اپنے دل میں پہلے ہی اس کے ساتھ زنا کر چکا ہوتا ہے۔‬ ‫•اپنے مذہبی فرائض محض لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ کرو کیونکہ تمہارا آسمانی باپ اس پر‬ ‫تمہیں اجر نہ دے گا۔‬ ‫•جب تم خیرات تو ڈھنڈورا پٹوا کر ن ہ دو ۔ جب تم روز ہ رکھ و تو ریا کاروں کی طرح اپنا منہ‬ ‫اداس نہ بناؤ۔ ریاکاروں کی طرح عبادت خانوں اور بازاروں کے موڑ پر کھڑے ہو کر دعا مت‬ ‫کرو۔ دعا میں رٹے رٹائے جملے نہ دوھراؤ۔‬ ‫•اگر تم لوگوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا خدا بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا۔‬ ‫•اپنے لئے زمین پر مال و زر جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ لگ جاتا ہے اور چور نقب لگا کر‬ ‫چرا لیتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر خزانہ جمع کرو جہاں کیڑا اور زنگ نہیں لگتا اور نہ چور‬ ‫نقب لگا کر چراتے ہیں۔ کیونکہ جہاں تمہارا مال ہو گا وہیں تمہارا دل ہو گا۔‬ ‫•عیب جوئی نہ کرو تاکہ تمہاری عیب جوئی بھی نہ ہو۔‬ ‫•پاک چیز کتوں کو نہ دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ انہیں پاؤں‬ ‫سے روند کر پلٹیں اور تمہیں پھاڑ ڈالیں۔ (یعنی اچھ ی چیز کم ظرف لوگوں کو نہ دو ورنہ وہ‬ ‫تمہی کو نقصان پہنچائیں گے۔)‬ ‫•جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو۔ وہ تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں لیکن باطن میں‬ ‫پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ تم ان کے پھلوں (تعلیمات) سے انہیں پہچان لو گے۔ (اس سے یہ بھی‬ ‫معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹے نبیوں اور مذہبی راہنماؤں کا فتنہ بنی اسرائیل میں بھی تھا۔)‬

‫سیدنا عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کی دعوتی زندگی‬ ‫سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلم کی دعوت سن کر لوگ بہت حیران ہوئے کیونکہ ان کا‬ ‫انداز اس وقت کےے علمائےے شریعت سےے مختلف تھا۔ے ان کےے علماء تو بس انہیں چند‬ ‫رسومات کی تلقین کرتے تھے لیکن ان کے اخلقیات کو بہتر بنانے کی کوئی فکر انہیں نہ‬ ‫تھی۔ے کفر نحوم میں رومی فوج ک ے ایک افسر نےے بھ ی آپ کی دعوت سن کر ایمان‬ ‫قبول کیا۔ ایک عالم شریعت بھی آپ پر ایمان لئے۔ آپ گلیل کی جھیل میں کشتی پر جا‬ ‫رہے تھے ک ہ ایک طوفان آیا جو آپ کی دعا س ے ٹل گیا ۔ آپ ن ے کئی مریضوں کو الل ہ کے‬ ‫حکم سے شفا دی۔‬ ‫اس دور میں بھی آج کی طرح کسٹم آفیسر ایک نہایت ہی بدنام طبقہ تھا۔ انجیل متی‬ ‫کے مصنف متی رضی اللہ عنہ بھی ایک ایسے ہی کسٹم آفیسر تھے جو آپ کی دعوت پر‬ ‫ایمان لئے۔ے اس بات پر فریسی (یہود کا ایک شدت پسند فرقہ ) علماء نےے ناک بھوں‬ ‫چڑھائی کہ یہ کیسے نبی ہیں جو محصول لینے والوں اور گناہ گاروں کے ساتھ کھانا کھاتے‬ ‫ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو میری زیادہ ضرورت ہے۔‬ ‫‪60‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫آپ نے اپنے پیروکاروں میں سے بارہ افراد کو منتخب کر کے انہیں اپنی دعوت پھیلنے‬ ‫کے لئے گرد و نواح کے علقوں میں بھیجا۔ اسی واقعے کو قرآن نے "من انصاری الی اللہ۔‬ ‫قال الحواریون نحن انصار اللہ۔ کون اللہ کی راہ میں میرا مدد گار ہے۔ حواریوں نے کہا کہ‬ ‫ہ م الل ہ ک ے (دین کے ) مددگار ہیں۔ " ک ے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ آپ ن ے ان حواریوں کو‬ ‫صرف بنی اسرائیل کےے شہروں کی طرف جانےے کی تلقین فرمائی۔ے آپ نےے انہیں غیر‬ ‫مخلص لوگوں سےے خبردار رہنےے کی نصیحت فرمائی اور انہیں بتایا کہے اس دعوت کے‬ ‫باعث ان پر ظلم و ستم کیا جائے گا اور آپ کی دعوت قبول کرنے والوں سے ان کے گھر‬ ‫والے قطع تعلق کر لیں گے۔‬ ‫آپ ن ے اپنی دعوت سمجھان ے ک ے لئ ے تمثیل کا اسلوب اختیار کیا اور مختلف مثالوں‬ ‫س ے لوگوں کو دین سمجھات ے رہے۔ اس دوران آپ سیدنا یحیی علی ہ الصلو ۃ والسلم کی‬ ‫خبر بھی معلوم کرتے رہے جو بادشاہ کی قید میں تھے۔ اسی دوران بادشاہ نے انہیں شہید‬ ‫کر دیا ۔ شہادت کی وج ہ ی ہ تھ ی ک ہ بادشا ہ ک ے اپنی سوتیلی بیٹی س ے ناجائز تعلقات تھے۔‬ ‫سیدنا یحیی علی ہ الصلو ۃ والسلم نے اس پر تنقید کی تھ ی جس پر اس لڑکی ن ے بادشاہ‬ ‫سے آپ کے سر کی فرمائش کی۔‬ ‫سیدنا عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم ن ے ایک مرتب ہ پانچ ہزار اور دوسری مرتب ہ چار ہزار‬ ‫افراد کو اللہ تعالی کی جانب سے بھیجا گیا کھانا کھلیا۔ تھوڑا سا کھانا بہت سے افراد کے‬ ‫لئے کافی ہو گیا۔ ایسا ہی واقعہ احادیث کی کتب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ‬ ‫وسلم کے بارے میں ملتا ہے۔ جناب عیسی علیہ الصلوۃ والسلم کی دعوت کو دریائے اردن‬ ‫کےے دونوں جانب کےے علقوں میں بہ ت پذیرائی حاصل ہوئی البتہے آپ کےے اپنےے شہ ر کے‬ ‫لوگوں میں س ے زیاد ہ لوگ ایمان ن ہ لئ ے جس پر آپ ن ے فرمایا‪" ،‬نبی کی ب ے قدری اپنے‬ ‫شہر اور رشتہ داروں میں ہوتی ہے اور کہیں نہیں۔"‬ ‫آپ کی دعوتی سرگرمیوں ک ے نتیج ے میں فریسی‪ ،‬صدوقی اور دوسر ے فرقوں کے‬ ‫یہودی علماء آپ ک ے شدید مخالف ہ و گئے۔ ی ہ لوگ نہایت ہ ی انتہ ا پسند لوگ تھے۔ مذہب‬ ‫کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر آپ س ے بحث کرت ے لیکن خود بڑ ے بڑ ے احکام کی خلف‬ ‫ورزی کرتے۔ ان لوگوں ن ے آپ س ے ایس ے سوالت بھ ی کئ ے جن کا مقصد ی ہ تھ ا ک ہ آپ‬ ‫رومی بادشاہ کے عتاب کا شکار ہوں۔ انہوں نے پوچھا‪" ،‬ہم لوگ قیصر کو ٹیکس دیں یا نہ‬ ‫دیں؟" آپ نے بڑی خوبصورتی سے انہیں ٹال دیا اور سکے پر بنی قیصر کی تصویر دکھا‬ ‫کر فرمایا‪" ،‬جو قیصر کا ہے اسے دو اور جو خدا کا ہے‪ ،‬وہ اسے دو۔"‬ ‫یریحو میں خدا کا پیغام پہنچا کر آپ یروشلم میں داخل ہوئے۔ یہاں لوگ مسجد میں‬ ‫بیٹھے کاروبار کر رہے تھے۔ آپ نے انہیں نکال باہر کیا اور فرمایا‪(" ،‬تورات میں) لکھا ہے کہ‬ ‫میرا گھر دعا کا گھر کہلئے گا لیکن تم نے اسے ڈاکوؤں کا اڈا بنا رکھا ہے۔" آپ نے مختلف‬ ‫مثالوں سےے بنی اسرائیل کےے علماء پر چوٹ کی کہے توبہے کرنےے والےے کسٹم آفیسر اور‬ ‫طوائفیں ان سے پہلے جنت میں جائیں گی کیونکہ انہوں نے یحیی علیہ الصلوۃ والسلم کے‬ ‫ہاتھ پر توبہ کی تھی۔‬

‫بنی اسرائیل ک ے مذ ہبی را ہنماؤں کا کردار‬ ‫اس وقت یہودی علماء مختلف فرقوں میں بٹ ے ہوئ ے تھے اور ان ک ے ہاں مناظر ے بازی‬ ‫عام تھی۔ ان علماء کا کردار نہایت ہی بھیانک اور دوغل تھا۔ آپ نے لوگوں کے سامنے ان‬ ‫علماء کی حقیقت بیان کی اور انہیں ایسوں س ے ہوشیار رہن ے ک ے لئ ے کہا ۔ آپ ک ے چند‬ ‫ارشادات یہاں درج کئ ے جا رہے ہیں ۔ بریکٹس میں دی ے گئ ے الفاظ میر ے اپن ے ہیں ۔ ان کے‬ ‫‪61‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫آئینے میں ہم اپنے بہت سے علماء و مشائخ اور مذہبی رہنماؤں کا کردار دیکھ سکتے ہیں‪:‬‬ ‫•شریعت کے عالم اور فریسی موسی (علیہ الصلوۃ والسلم ) کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ لہذا جو‬ ‫کچھ یہ تمہیں سکھائیں اسے مانو اور اس پر عمل کرو۔ لیکن ان کے نمونے پر مت چلو کیونکہ‬ ‫وہ کہتے تو ہیں مگر کرتے نہیں۔‬ ‫•و ہ ایس ے بھاری بوج ھ جنہیں اٹھانا مشکل ہے ‪ ،‬باند ھ کر لوگوں ک ے کندھوں پر رکھت ے ہیں اور‬ ‫خود انہیں انگلی بھ ی نہیں لگاتے۔ (یعنی اپنی فقہ ی موشگافیوں اور نکت ہ رسی س ے دین کو‬ ‫بہت مشکل بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے۔)‬ ‫•وہ ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں اور عبادت خانوں میں اعلی درجے کی کرسیاں‪ ،‬اور‬ ‫چاہت ے ہیں ک ہ بازاروں میں لوگ انہیں جھ ک جھ ک کر سلم کریں اور 'ربی' کہہ کر پکاریں۔‬ ‫لیکن تم ربی نہ کہلؤ کیونکہ تمہارا رب ایک ہی ہے اور تم سب بھائی بھائی ہو۔ (مساوات کی‬ ‫کیا شاندار تعلیم ہے۔)‬ ‫•ا ے شریعت ک ے عالمو اور فریسیو! ا ے ریاکارو! تم پر افسوس‪ ،‬کیونک ہ تم ن ے آسمان کی‬ ‫بادشاہی (جنت) کو لوگوں کے داخلے کے لئے بند کر رکھا ہے‪ ،‬کیونکہ نہ تو خود اس میں داخل‬ ‫ہوتے ہو اور نہ ہی ان کو داخل ہونے دیتے ہو جو اس میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔‬ ‫•اے شریعت کے عالمو اور فریسیو! اے ریاکارو! تم پر افسوس‪ ،‬تم بیواؤں کے گھروں پر قبضہ‬ ‫کر لیتےے ہو اور دکھاوےے کےے لئےے لمبی لمبی دعائیں کرتےے ہو۔ے تمہیں زیادہے سزا ملےے گی۔‬ ‫(زمینوں پر قبضہ کرنے کی روایت ہمارے مذہبی طبقے میں بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔)‬ ‫•اے شریعت کے عالمو اور فریسیو! اے ریاکارو! تم پر افسوس‪ ،‬کیونکہ تم کسی کو اپنا مرید‬ ‫بنان ے ک ے لئ ے تو تری اور خشکی کا سفر کر لیت ے ہ و اور جب بنا لیت ے ہ و تو اس ے اپن ے سے‬ ‫دوگنا جہنمی بنا دیتے ہو۔ (یعنی اپنے سے دوگنا بے عمل بنا دیتے ہو۔)‬ ‫•اے شریعت کے عالمو اور فریسیو! اے ریاکارو! تم پر افسوس‪ ،‬کیونکہ تم پودینہ‪ ،‬سونف اور‬ ‫زیرہ کا دسواں حصہ (عشر) تو خدا کے نام پر تو دیتے ہو لیکن شریعت کی زیادہ وزنی باتوں‬ ‫یعنی انصاف‪ ،‬رحم دلی اور ایمان کو فراموش کر بیٹھے ہو ۔ تمہیں لزم تھ ا ک ہ ی ہ بھ ی کرتے‬ ‫اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔‬ ‫• اے اندھے رہنماؤ! تم مچھ ر تو چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔ (یعنی معمولی باتوں پر تو‬ ‫مین میخ نکالتے ہو لیکن دین کے بڑے بڑے احکامات کو فراموش کئے بیٹھے ہو۔)‬ ‫•ا ے شریعت ک ے عالمو اور فریسیو! ا ے ریاکارو! تم پر افسوس‪ ،‬کیونک ہ تم پیال ے اور رکابی‬ ‫کو باہ ر س ے تو صاف کر لیت ے مگر ان میں لوٹ اور ناراستی (یعنی رزق حرام) بھری پڑی‬ ‫ہے۔‬ ‫•اے شریعت کے عالمو اور فریسیو! اے ریاکارو! تم پر افسوس‪ ،‬کیونکہ تم نبیوں کے مقبرے تو‬ ‫بنات ے ہ و اور راستبازوں کی قبریں آراست ہ کرت ے ہ و ۔۔۔۔ میں تمہار ے پاس نبیوں‪ ،‬داناؤں اور‬ ‫شریعت ک ے عالموں کو بھیج رہ ا ہوں ۔ تم ان میں س ے بعض کو قتل کر ڈالو گے ‪ ،‬بعض کو‬ ‫صلیب پر لٹکا دو گے اور بعض کو اپنے عبادت خانوں میں کوڑوں سے مارو گے۔ (ان کی مردہ‬ ‫پرستی کا احوال زیر بحث ہے ک ہ زند ہ نیک لوگوں س ے ایسا سلوک اور مرن ے ک ے بعد ان کے‬ ‫عالیشان مقبرے!!!)‬

‫اس ک ے بعد سیدنا عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کو ہ زیتون پر جا بیٹھے۔ اسی پہاڑ کا ذکر‬ ‫قرآن کی سورہ تین میں آیا ہے۔ اس علقے میں انجیر کے باغات بکثرت تھے۔ یہاں آپ نے‬ ‫اپنے حواریوں کو قیامت کی نشانیاں بتائیں۔ آپ نے انہیں بنی اسرائیل پر آنے والے عذاب‬ ‫ک ے بار ے میں بتایا اور فرمایا ک ہ یروشلم کی مسجد کی اینٹ س ے اینٹ بجا دی جائے‬ ‫گی ۔ آپ نےے لوگوں کو خبردار کیا کہے مستقبل میں میرےے نام سےے یعنی مسیح ہونےے کا‬ ‫دعوی کر ک ے بہ ت س ے لوگ دوسروں کو گمرا ہ کریں گے۔ آپ ن ے قیامت کی بہ ت سی‬ ‫نشانیاں بتائیں۔‬ ‫یروشلم سے نکل کر سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلم بیت عنیاہ کے مقام پر تشریف‬ ‫لئے اور اپنے حواری شمعون رضی اللہ عنہ کے گھر ٹھہرے۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اس وقت‬ ‫‪62‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ہ م موجود تھے۔ے آپ ک ے بارہے قریبی حواریوں میں سےے ایک شخص یہوداہے اسکریوتی نے‬ ‫غداری کی ۔ اس ن ے تھوڑی سی رقم ک ے عوض یہود ک ے مذہبی رہنماؤں کو آپ کا پت ہ بتا‬ ‫دیا۔‬

‫سیدنا عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم ک ے آخری ایام‬ ‫اس واقعہ کے بعد بائبل اور قرآن مجید میں بیان کئے گئے واقعات میں اختلف ہے۔ بائبل‬ ‫ک ے مطابق ان لوگوں ن ے آپ کو عدالت میں پیش کیا اور ایک جھوٹا مقدم ہ چلیا ۔ یہوداہ‬ ‫جس نے آپ سے غداری کی تھی‪ ،‬خود کشی کر کے مر گیا۔ اس دن عید کا دین تھا اور یہ‬ ‫دستور تھا کہ رومی حاکم پیلطس ایک قیدی کو رہا کرتا تھا۔ اس نے آپ کو رہا کرنا چاہا‬ ‫لیکن علماء ک ے دباؤ ک ے باعث آپ کی بجائ ے برابا نامی ایک ڈاکو کو رہ ا کر دیا ۔ آپ کے‬ ‫ساتھ نہایت ہی گستاخی کا سلوک کیا گیا اور صلیب پر چڑھا کر آپ کو شہید کر دیا گیا۔‬ ‫آپ کے ایک شاگرد یوسف نے آپ کی میت کو حاصل کر کے دفن کیا۔ آپ کی وفات کے‬ ‫بارے میں چاروں انجیلوں کی روایات میں کچھ اختلف پایا جاتا ہے۔‬ ‫دفن کرن ے ک ے بعد ہفت ے ک ے دن آپ دوبار ہ زند ہ ہوئ ے اور اپن ے گیار ہ حواریوں س ے ملے‬ ‫اور انہیں اپنی دعوت پوری دنیا میں پھیلنے کی تلقین کی۔ قرآن مجید میں الل ہ تعالی ٰ نے‬ ‫آپ کے آخری دنوں کے واقعات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے‪:‬‬ ‫و قولھم انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ۔ و ما قتلوہ و ما صلبوہ و لکن شبہ لھم۔ و ان‬ ‫الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ۔ ما لھم من علم ال اتباع الظن۔ و ما قتلوہ یقینا۔ بل رفعہ اللہ الیہ۔ و‬ ‫کان اللہ عزیزا حکیما۔ (النسا ‪)158-157 :4‬‬ ‫اور ان کا قول کہ ہم نے مسیح‪ ،‬عیسی بن مریم رسول اللہ کو قتل کیا ہے۔ حالنکہ فی الواقع نہ تو‬ ‫انہوں نے انہیں قتل کیا اور نہ ہی صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لئے مشتبہ کر دیا گیا تھا۔ اور‬ ‫جن لوگوں نےے اس کےے بارےے میں اختلف کیا ہےے وہے بھی شک میں مبتل ہیں۔ے ان کےے پاس اس‬ ‫معامل ے میں کوئی علم نہیں ہے بلک ہ و ہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں ۔ انہوں ن ے مسیح کو‬ ‫یقین س ے قتل نہیں کیا بلک ہ الل ہ ن ے انہیں اپنی طرف اٹھ ا لیا تھا ۔ اللہ زبردست طاقت اور حکمت‬ ‫وال ہے۔‬

‫سیدنا مسیح علی ہ الصلو ۃ والسلم کی سیرت پر سوچت ے ہوئ ے اب ہ م واپس جا رہے تھے۔‬ ‫ایمن صاحب کہنے لگے کہ یہاں گاڑیاں وقت کی بہت پابندی کرتی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ گاڑی‬ ‫ہمیں چھوڑ کر اگلےے پھیرےے کےے لئےے چلی جائے۔ے ان کا خدشہے درست ثابت ہوا۔ے جب ہم‬ ‫اسٹاپ پر پہنچے تو گاڑی موجود نہ تھی۔ ہم انتظار میں بنچ پر بیٹھ گئے۔ اگلے پھیرے میں‬ ‫گاڑی آئی تو ہ م اس پر سوار ہ و کر واپس پہنچے۔ ایمن صاحب اور نائب پادری صاحب‬ ‫سےے الوداعی ملقات کی اور اپنی گاڑی پر بیٹھے کر ڈیڈے سی کی جانب روانہے ہوئے۔ے اب‬ ‫ہماری منزل عقبہ تھی۔‬ ‫ایمن صاحب سے میں پہلے ہی راستے کے بارے میں مشورہ کر چکا تھا۔ ڈیڈ سی والی‬ ‫یہی روڈ سیدھی عقبہ جاتی تھی۔ دوسرا راستہ براستہ عمان تھا جو کہ اگر چہ ایک دو رویہ‬ ‫ہائی وے پر مشتمل تھ ا لیکن وہ لمبا تھا ۔ اب ہم دوبارہ ڈیڈ سی کے ساتھ ساتھ جنوب کی‬ ‫جانب چلےے جا رہےے تھے۔ے یہے اردن کی سرحدی روڈے تھی۔ے ہمارےے ساتھے ساتھے اردن اور‬ ‫اسرائیل کی سرحد چل رہی تھی جو عقبہ تک جاتی تھی۔‬

‫ضغر یا غور صافی‬ ‫پچاس کلومیٹر کے بعد ڈیڈ سی ختم ہو گیا اور ہم نمک والی جھیلوں کے کنارے سفر کرنے‬ ‫لگے۔ تھوڑی دور جا کر "غور حدیثہ" کا گاؤں آیا اور اس کے بعد "غور صافی" کا قصبہ۔ یہ‬ ‫‪63‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫علقہ نہایت ہی سر سبز وہ شاداب تھا ۔ بائبل میں اس علقے کا "ضغر" آیا ہے۔ یہ سدوم‬ ‫کی سلطنت کا وہ علقہ تھا جہاں سیدنا لوط علیہ الصلوۃ والسلم عذاب کے بعد آباد ہوئے‬ ‫تھے۔ اس علقے میں پناہ لین ے کی وجہ شاید یہ رہ ی ہ و کہ سدوم کی قوم کے لوگوں میں‬ ‫سے یہ لوگ ان برائیوں سے پاک رہے ہوں گے جس میں پوری سدومی قوم مبتل رہی ہے۔‬ ‫قرآن مجید نے سدوم کی قوم کے علقے کے سرسبز و شاداب ہونے کا ذکر کیا ہے جو کہ‬ ‫عذاب کے بعد بالکل ہی تباہ ہو گیا تھا۔ اس علقے سے استثنا ضغر کے علقے کو حاصل ہے‬ ‫جہاں سیدنا لوط علیہ الصلوۃ والسلم آباد ہوئے تھے۔‬ ‫اب ہ م سفید وادی س ے گزر رہے تھے۔ یہاں "لوط کی غار" کا بور ڈ نظر آیا ۔ روایات‬ ‫میں ہے ک ہ اس غار میں سیدنا لوط علی ہ الصلو ۃ والسلم رہ ا کرت ے تھے۔ انبیاء کرام کے‬ ‫کسی گستاخ ن ے بائبل میں سیدنا لوط علی ہ الصلو ۃ والسلم اور آپ کی غار س ے متعلق‬ ‫ایسا گستاخان ہ واقع ہ داخل کر دیا ہے جس ک ے بار ے میں سوچت ے ہوئ ے انسان ک ے رونگٹے‬ ‫کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے دلوں سے خدا کے رسول‬ ‫کی عظمت نکل چکی ہو۔ ایسا یقینا ً بنی اسرائیل کے اخلقی انحطاط کے زمانے میں ہوا‬ ‫ہو گا۔‬ ‫نمک کی جھیلوں ک ے سات ھ سات ھ مختلف سالٹ کمپنیز ک ے بور ڈ نظر آ رہے تھے۔ اردن‬ ‫کا دیہاتی علق ہ بھ ی ہمار ے سند ھ اور پنجاب ک ے دیہاتی علقوں س ے مشاب ہ تھا ۔ ویسا ہی‬ ‫ماحول‪ ،‬ویس ے ہ ی کھیت‪ ،‬ویسی ہ ی زرعی گاڑیاں‪ ،‬اور بچوں کی شکلوں ک ے ویس ے ہی‬ ‫تاثرات ۔ آبادی ک ے باعث ہ م آہست ہ آہست ہ چل رہ ا تھ ا اور پہل ے گھنٹ ے میں ہ م بمشکل نوے‬ ‫کلومیٹر کا فاصلہ طے کر پائے تھے۔‬

‫وادی عراب ہ‬ ‫غور صافی کےے بعد صحرا شروع ہو گیا جس کےے نتیجےے میں ہماری رفتار بڑھے گئی۔‬ ‫دوسر ے گھنٹ ے ک ے سفر میں ہ م ن ے ڈیڑ ھ سو کلومیٹر کا فاصل ہ ط ے کر لیا ۔ اب ہ م "بئر‬ ‫مذکور" نامی قصبے سے گزرے۔ یہ علقہ "وادی عرابہ" کا علقہ تھا۔‬ ‫دور دور تک پہلےے سنہرےے رنگ کےے صحرا‪ ،‬صحرا کےے دونوں جانب چھوٹی چھوٹی‬ ‫پہاڑیاں‪ ،‬ڈھلتا ہوا سورج اور زرد دھوپ مل کر فطرت کا نہایت ہ ی دلفریب منظر پیش‬ ‫کر رہ ی تھیں ۔ وادی عراب ہ کو اس وقت شہرت ملی جب امریک ہ ک ے صدر بل کلنٹن نے‬ ‫یہاں اردن کےے شاہے حسین‪ ،‬فلسطین کےے یاسر عرفات اور اسرائیل کےے وزیر اعظم‬ ‫اسحاق رابن کی ملقات کروائی تھی۔‬ ‫وادی عراب ہ ک ے متوازی "وادی رم" ہے۔ ی ہ اس سڑک کے راست ے پر واقع ہے جو عمان‬ ‫س ے براست ہ معان عقب ہ تک پہنچتی ہے۔ ی ہ وادی اپن ے فطری حسن ک ے باعث سیاحوں کے‬ ‫لئ ے بڑی کشش کا باعث ہے۔ اس وادی ک ے بعد فلسطین ک ے پہاڑ ہمار ے کافی قریب آ‬ ‫چکے تھے۔ اب ہم عقبہ میں داخل ہوا چاہتے تھے۔‬

‫‪64‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫عقب ہ‬ ‫صحرائی وادیوں میں سفر کرتے ہوئے ہم عقبہ کے قریب جا پہنچے۔ عقبہے جس خطےے میں‬ ‫واقع ہے ‪ ،‬یہاں چار ممالک ک ے سرحدی شہ ر واقع ہیں ۔ بحیر ہ احمر کی دائیں شاخ خلیج‬ ‫عقبہ یہاں آ کر ختم ہوتی ہے۔ سمندر کے مشرقی جانب سعودی عرب کا شہر "حقل" ہے‬ ‫جس س ے بیس کلومیٹر ک ے فاصل ے پر اردن کا دوسرا بڑا شہ ر اور واحد بندرگا ہ "عقبہ"‬ ‫ہے۔ سمندر ک ے مغربی جانب عقب ہ س ے پانچ کلومیٹر ک ے فاصل ے پر اسرائیل کی بندرگاہ‬ ‫"ایلہ" ہے جس سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر مصر کا شہر "طابہ" ہے۔‬ ‫اب ہم ایک دو راہے پر جا پہنچے۔ ہمارے دائیں جانب سڑک ایلہ کی جانب جا رہ ی تھی‬ ‫اور بائیں جانب عقبہ کی طرف ۔ ہ م عقبہ کی جانب ہو لئے۔ شہر میں داخل ہوت ے ہ ی ایک‬ ‫خوشگوار احساس ہوا۔ اتنا صاف ستھرا شہر اب تک میں نے اردن میں نہ دیکھا تھا۔ پورا‬ ‫شہر ہی عمدہ پلننگ کا شاہکار تھا اور سعودی شہر "الخبر" سے مشابہت رکھتا تھا۔‬ ‫شہ ر میں داخل ہ و کر ایک مسجد کے پاس ہ م جا رکے۔ یہ مسجد ایک پارک میں واقع‬ ‫تھی اور کراچی کی مسجد بیت المکرم کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ مسجد کے دروازوں‬ ‫ک ے باہ ر اردن کی "اخوان المسلمون" ک ے بہ ت س ے اسٹکر لگ ے تھے۔ اخوان عالم عرب‬ ‫کی سب س ے بڑی اسلمی تحریک ہے۔ اس کی تفصیلت انشاء الل ہ میں مصر ک ے باب‬ ‫میں بیان کروں گا۔ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لوگ ساحل کی جانب روانہ ہوئے۔‬

‫سمندر یا پ ہاڑی دریا‬ ‫عقب ہ کا سمندر ایسا نقش ہ پیش کر رہ ا تھ ا جو میں ن ے اس س ے قبل ن ہ دیکھ ا تھا ۔ یہاں‬ ‫سمندر تنگ ہ و کر ایک بہ ت بڑےے پہاڑی دریا کا منظر پیش کر رہ ا تھا۔ے سمندر کےے ایک‬ ‫جانب عقبہ کی بندرگاہ تھی اور دوسری جانب ایلہ کی بندرگاہ۔ دونوں کناروں پر پہاڑ تھے‬ ‫اور درمیان میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔ اس دریا نما سمندر میں بہت سے بحری جہاز‬ ‫اور کشتیاں رواں دواں تھے۔ ان میں کچھ اردن اور کچھ اسرائیل کے جہاز تھے۔‬

‫سبت کی خلف ورزی‬ ‫عقبہے اور ایلہے میں زیادہے فاصلہے نہیں۔ے ایلہے دراصل وہے مقام تھا جہاں کےے رہنےے والی بنی‬ ‫اسرائیل پر الل ہ کا عذاب آیا تھا ۔ یہ لوگ پیشے کے اعتبار سے مچھیرے تھے۔ الل ہ تعالی نے‬ ‫ان کے لئے ہفتے کے دن کام کرنے کو ممنوع قرار دیا تھا۔ یہ لوگ اپنے للچ کے باعث اس‬ ‫دن بھ ی مچھلی کا شکار کرتے۔ اس ک ے لئ ے انہوں ن ے جو حیل ہ اختیار کیا و ہ ی ہ تھ ا ک ہ یہ‬ ‫سمندر سے متصل گڑھے کھود لیتے۔ مچھلیاں تیر کر ان گڑھوں میں آتیں تو ہفتے کے دن‬ ‫ی ہ ان گڑھوں کا راست ہ بند کردیت ے اور اتوار ک ے دن آ کر مچھلی کا شکار کر لیتے۔ اس‬ ‫حیل ے ک ے باوجود ہفت ے کو مچھلیوں ک ے انتظار میں بیٹ ھ کر اور ان کا راست ہ بند کر ک ے یہ‬ ‫لوگ سبت کے دن کی حرمت کو توڑ رہے تھے۔ چونکہ بنی اسرائیل کا معاملہ یہ رہا ہے کہ‬ ‫انہیں اس دنیا ہی میں ان کے جرائم کی سزا دی گئی ہے تاکہ دوسری قوموں کو عبرت‬ ‫حاصل ہو اس لئے ان کی صورت مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا۔‬ ‫ہ م لوگ سورج غروب ہونےے کا منظر دیکھتےے رہے۔ے سمندر کےے اس پار پہاڑیوں میں‬ ‫سورج سرخ‪ ،‬نارنجی اور زرد رنگ ک ے مختلف شی ڈ بکھیرتا ہوا غروب ہ و گیا ۔ اس وقت‬ ‫شام ک ے آٹ ھ بج رہے تھے۔ ہمارا اراد ہ ی ہ تھ ا ک ہ بندرگا ہ س ے فیری ک ے بار ے میں معلومات‬ ‫‪65‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫حاصل کر لی جائیں اور ٹکٹ بھی خرید لیا جائے تاکہ اگلے دن مشکل نہ ہو۔‬

‫اردنی معاشر ے ک ے بار ے میں ہمار ے تاثرات‬ ‫عرب ممالک میں عام رواج ہے کہ ہر پبلک مقام پر بادشاہ یا صدر کی تصویر آویزاں کی‬ ‫جاتی ہے۔ اردن میں ی ہ رواج نہایت ہ ی شدت س ے موجود تھا ۔ بندرگاہ ‪ ،‬امیگریشن کاؤنٹر‪،‬‬ ‫سرکاری عمارات‪ ،‬چوک‪ ،‬دکانیں‪ ،‬ہوٹل ہر جگہ اردن کے بادشاہ عبداللہ کی تصاویر موجود‬ ‫تھیں ۔ سلطان کہیں عربی لباس میں ملبوس ہیں تو کہیں سوٹ میں ۔ کہیں آرمی کی‬ ‫یونیفارم پہنی ہوئی ہے توکہیں ٹریفک پولیس کی۔ کہیں اپنے والد شاہ حسین کے ساتھ ہیں‬ ‫تو کہیں اپنی اہلیہے اور بچوں کےے ہمراہ۔ے معلوم ہوا کہے یہاں تمام سرکاری محکموں کا‬ ‫سربرا ہ سلطان ہ ی ہوتا ہے۔ ان کی ہ ر ممکن پوز میں لی گئی تصاویر اس قدر تھیں کہ‬ ‫اگر آپ دس منٹ اردن میں سفر کر لیں تو کم از کم بیس تصاویر دیکھنے کو ملیں گی۔‬ ‫اردن کے لباس میں ایک نئی چیز دیکھن ے کو ملی ۔ دیگر عرب ممالک میں لوگ یا تو‬ ‫عربی لباس یعنی توپ پہنتےے ہیں اور سر پر رومال اور گول چکر باندھتےے ہیں جسے‬ ‫"قطرۃ" کہتےے ہیں یا پھر پینٹ شرٹ وغیرہے پہنتےے ہیں۔ے اردن کےے لوگوں نےے ان دونوں‬ ‫لباسوں کو مل کر ایک نیا لباس ایجاد کیا ہے۔ے یہے لوگ نیچےے تو پینٹ شرٹ اور ٹائی‬ ‫استعمال کرتے ہیں اور سر پر عربی رومال اور قطرۃ باندھتے ہیں۔‬ ‫اردن کی معیشت پہلےے کافی کمزور تھی۔ے عرب ممالک میں یہے غریب ملک سمجھا‬ ‫جاتا تھا۔ عراق کی جنگ کے نتیجے میں بہت سے عراقی سرمایہ کاروں نے اردن میں پناہ‬ ‫لی ۔ یہے لوگ اپنا سرمای ہ بھ ی عراق س ے اردن ل ے آئےے جس ک ے باعث اردن میں صنعت‬ ‫کاری کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔ اب اردن کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس کا‬ ‫انداز ہ اس س ے لگایا جا سکتا ہے ک ہ میں ن ے سعودی عرب میں اپنی کمپنی ک ے لئ ے بہت‬ ‫سے اردنی افراد کے انٹرویو کئے لیکن ان میں سے کوئی پرکشش تنخواہ اور مراعات پر‬ ‫بھی سعودی عرب آنے کو تیار نہ ہوا۔‬ ‫کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا آغاز صرف اور صرف ایک چیز سے ہوتا ہے اور‬ ‫و ہ ہے "بیرونی سرمای ہ کاری (‪ ")Foreign Direct Investment‬۔ سرمای ہ کاری ک ے نتیج ے میں‬ ‫ملک کےے قدرتی اور انسانی وسائل بھرپور طریقےے سےے استعمال میں آتےے ہیں۔ے انفرا‬ ‫اسٹرکچر بنتا ہےے جس سےے بہ ت سےے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ے امیر طبقےے کےے پاس‬ ‫دولت کی کمی نہیں ہوتی لیکن افرادی قوت کی کمی ہوتی ہے۔ ی ہ افرادی قوت تعلیم‬ ‫یافت ہ مڈ ل کلس س ے حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح امیر طبق ے کی خوشحالی میں متوسط‬ ‫طبقہ بھی شریک ہو جاتا ہے۔‬ ‫امیر طبقےے سےے متوسط طبقےے میں دولت کا بہاؤ تیزی سےے ہوتا ہےے لیکن متوسط‬ ‫طبقےے سےے غریب طبقےے میں دولت کا بہاؤ کافی سست ہوتا ہے۔ے لوئر مڈ ل کلس کے‬ ‫لوگوں کو جب دولت ملتی ہے تو وہ اس ے زیادہ تر اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے‬ ‫لئے صرف کرتے ہیں اور مکان‪ ،‬گاڑی‪ ،‬فرنیچر وغیرہ پر رقم صرف کرتے ہیں۔ بعض لوگ‬ ‫جن کی خواتین بھی کام کرتی ہیں‪ ،‬انہیں گھریلو ملزموں کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ ان‬ ‫عوامل ک ے نتیجےے میں غریب طبقےے کےے افراد کو روزگار ملتا ہےے لیکن ان کی معاشی‬ ‫حالت میں اتنا تغیر واقع نہیں ہوتا جتنا کہ مڈل کلس کی حالت میں واقع ہوا ہوتا ہے۔ یہی‬ ‫وجہ ہے کہ چین اور بھارت کی معیشتوں نے حال ہی میں جو ترقی کی ہے‪ ،‬اس سے مڈل‬ ‫کلس کی حالت تو بہ ت بدل گئی ہے لیکن ان ک ے ہاں غربت میں واضح کمی نظر نہیں‬ ‫آتی۔‬ ‫‪66‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫معیشت کے خطوط کو منظم کرنے والوں کو اس بات کا احساس بھ ی ہونا چاہیے کہ‬ ‫ملک کی معاشی ترقی کےے ثمرات جلد سےے جلد معاشرےے کےے غریب طبقات تک پہنچ‬ ‫سکیں ورنہ جب وہ اپنے سے ملتے جلتے مڈل کلس کے لوگوں کو بہتر ہوتا دیکھیں گے اور‬ ‫اپنی حالت میں انہیں کوئی فرق نظر ن ہ آئ ے گا تو ی ہ حسرت و مایوسی انہیں جرائم کا‬ ‫راستہ اپنانے پر مجبور کر دے گی۔‬ ‫اہل اردن کے ساتھ گزارے گئے تین دن کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان تین دنوں میں‬ ‫اہل اردن کی محبت نے ہمارے دل جیت لئے۔ بحیثیت مجموعی اردنی قوم اخلقی اعتبار‬ ‫سے بہت بہتر ہے۔ غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ ان کے ٹورازم‬ ‫والےے علقوں میں بھ ی للچ اور سیاحوں کو حیلےے بہانےے سےے لوٹنےے کا سلسلہے نہیں پایا‬ ‫جاتا۔ان کے سرکاری اہل کاروں کو بھی اپنے کام میں ہم نے مستعد پایا۔ ان اچھی یادوں‬ ‫کے ساتھ اردن سے نکل کر ہم عازم مصر ہوئے۔‬

‫‪67‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مصر کا بحری سفر‬ ‫عقبہے ک ے حسین ساحل پر غروب آفتاب کا منظر دیکھنےے کےے بعد چند منٹ میں ہم‬ ‫بندرگاہ پر جا پہنچے۔ اب مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ میں نے بندرگاہ کے گیٹ پر محافظ‬ ‫س ے مصر کی بندرگا ہ "نویبع" جان ے والی فیری ک ے بار ے میں پوچھا ۔ و ہ صاحب مصر کے‬ ‫شہر منصورہ سے تعلق رکھنے والوں کے سے انداز میں گفتگو کرنے لگے۔ میں نے غلطی‬ ‫سے ان صاحب س ے پوچھ لیا‪" ،‬آپ کہیں منصورہ س ے تعلق تو نہیں رکھتے؟" وہ ناراض ہو‬ ‫گئے اور مزاح کے سے انداز میں کہنے لگے‪" ،‬آپ ن ے مجھے مصری کہا‪ ،‬اب آپ اندر نہیں‬ ‫جا سکتے۔"‬ ‫انہوں نے بتایا کہ نو بجے ایک فیری نویبع کے لئے روانہ ہو رہی ہے۔ ہم نے سوچا کہ بجائے‬ ‫ہوٹل میں رات گزارن ے ک ے کیوں نہے رات میں سمندر کی سیر کا لطف اٹھایا جائے۔ وہ‬ ‫صاحب کہن ے لگ ے ک ہ ایک بار آپ اندر چلے گئ ے تو باہ ر ن ہ آ سکیں گے۔ ہ م لوگ اندر داخل‬ ‫ہوئے۔ فیری کی روانگی میں ایک گھنٹ ے کا وقت تھا ۔ جلدی جلدی نماز ادا کی ۔ فیری کا‬ ‫ٹکٹ خریدا۔ یہاں ٹکٹ امریکی ڈالر میں فروخت ہوتے تھے۔ بالغ فرد کا ٹکٹ چالیس ڈالر‪،‬‬ ‫بچی کا تیس ڈالر اور گاڑی کا ٹکٹ سو ڈالر کا تھا۔ گاڑی کی ٹرپ ٹکٹ اور پاسپورٹوں‬ ‫پر مہر لگوائی۔ اردن والوں نے ملک سے جانے پر فی کس پانچ اردنی دینار ایگزٹ ٹیکس‬ ‫وصول کیا۔‬ ‫اردن اور مصر زمینی راستے سے منسلک تو ہیں لیکن درمیان میں پندرہ بیس کلومیٹر‬ ‫کا علقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ عقبہ سے نویبع کا فاصلہ سو کلومیٹر سے بھی کم ہے‬ ‫لیکن اسرائیلی علقے کی وجہ سے تمام گاڑیوں کو یہ سفر فیری کے ذریعے کرنا پڑتا ہے۔‬ ‫فیری چلنے والی اس کمپنی کا نام "عرب برج" رکھا گیا ہے یعنی عرب کا پل۔‬

‫عرب برج کی سروس کا معیار‬ ‫ٹکٹ خریدنے اور امیگریشن وغیرہ کے مراحل سے گزرنے میں ہمیں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ اب‬ ‫نو بج رہے تھے اور فیری کی روانگی کا وقت ہو رہا تھا۔ فیری پر سفر کرنے کا یہ ہمارا پہل‬ ‫تجرب ہ تھ ا اس لئ ے ہ م خاص ے پرجوش ہ و رہے تھے۔ نو بج ے روانگی کا کوئی اعلن ن ہ ہوا۔‬ ‫ساڑھے نو اور دس بھی بج گئے۔ میں نے معلومات کے کاؤنٹر سے پوچھا تو ان صاحب نے‬ ‫بے نیازی سے کندھے اچکائے اور بولے‪" ،‬ما فی معلوم"۔‬ ‫ہمارے علوہ اور بھی پچیس تیس گاڑیاں وہاں کھڑی تھیں۔ نمبر پلیٹوں سے معلوم ہوا‬ ‫کہ یہ سب سعودی عرب‪ ،‬کویت‪ ،‬قطر اور متحدہ عرب امارات سے آنے والے لوگ ہیں جو‬ ‫مصر جا رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مصری فیملیاں تھیں جبکہ کچھ سعودی لوگ بھی تھے‬ ‫جو سیاحت کے لئے مصر جا رہے تھے۔‬ ‫انتظار طویل ہوتا گیا۔ عرب لوگ بڑے اطمینان سے بیٹھے تھے۔ یہ لوگ شاید تجربہ کار‬ ‫تھے۔ ساڑھے بار ہ بج ے اعلن ہوا ک ہ پہل ے گاڑیوں وال ے فیری پر آ جائیں ۔ اب ہ م لوگ چل‬ ‫پڑے۔ فیری ایک پلیٹ فارم س ے لگی ہوئی تھی ۔ اب ہمیں فیری ک ے سامن ے لئنوں میں‬ ‫کھڑا کر دیا گیا اور ایک گھنٹہ مزید انتظار کروانے کے بعد اندر داخل ہونے کے لئے کہا گیا۔‬ ‫یہاں گاڑیوں کے لئے دو منزلیں بنی ہوئی تھیں۔ ہمیں اوپر والی منزل کی جانب بھیج دیا‬ ‫گیا ۔ ی ہ ایک وسیع و عریض پارکنگ تھ ی جس میں بل مبالغ ہ سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہو‬ ‫سکتی تھیں۔‬ ‫‪68‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ضروری سامان لے کر ہم لوگ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر جا پہنچے۔ استقبالیہ کاؤنٹر پر‬ ‫ہمار ے پاسپورٹ لے لئے گئے۔ ہم لوگ عرشے پر جا پہنچے۔ یہاں کافی چہل پہ ل تھی ۔ کچھ‬ ‫لوگ نیچ ے کیبن ل ے کر سو گئ ے تھے جبک ہ ہماری طرح کچ ھ لوگ تاز ہ ہوا میں عرش ے پر‬ ‫موجود تھے۔ فیری کے چلنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہ آ رہا تھا۔‬ ‫انتظار مزید طویل ہوتا گیا ۔ میں ن ے نیچ ے جھانکا تو عجیب منظر تھا ۔ خراب گاڑیوں‬ ‫کی ایک بڑی کھیپ مصر لے جائی جا رہ ی تھی۔ ایک صاحب خراب گاڑی میں بیٹھے تھے‬ ‫اور دوسر ے درست گاڑی ک ے اگل ے بمپر کو خراب گاڑی ک ے پچھل ے بمپر س ے جوڑ ے اسے‬ ‫دھکا لگاتے ل رہے تھے۔ اس طریقے سے انہوں نے خراب گاڑیاں فیری میں چڑھائیں۔ اس‬ ‫ک ے بعد بسوں کی باری آئی اور پندرہے بیس بسیں فیری میں سوار ہوئیں ۔ آخری نمبر‬ ‫ٹرکوں کا تھا جو سامان سے لدے ہوئے فیری میں داخل ہوگئے۔ اس پورے عمل میں مزید‬ ‫تین گھنٹے نکل چکے تھے اور فیری اپنے اعلن کردہ وقت سے ساڑھے سات گھنٹے لیٹ ہو‬ ‫چکی تھی۔‬ ‫صبح ساڑھے چار بج ے جا کر فیری چلی ۔ اس فیری س ے مجھے اپن ے بچپن ک ے زمانے‬ ‫میں جہلم اور گجرات ک ے درمیان چلن ے والی بسیں یاد آ رہ ی تھیں ۔ ی ہ بسیں جہلم سے‬ ‫"لہور" کا بورڈ لگا کر روانہ ہوتیں اور ان کے کنڈکٹر لہور لہور کی آوازیں لگا کر سواریاں‬ ‫اکٹھ ی کرتے۔ لہور کی بس سمج ھ کر لہور جان ے وال ے ناواقف مسافر بھ ی ان میں چڑھ‬ ‫جاتے۔ راستے میں کسی بھ ی مقام پر کوئی بھ ی شخص اگر بس کو رکنے کا اشارہ کرتا‬ ‫تو بس رک جاتی اور لوگ اپنی بکریوں اور مرغیوں سمیت چڑھ آتے۔ کسی سواری کو‬ ‫چھوڑ دینا ان کے نزدیک کفران نعمت ہوتا ۔ راستے میں سرائ ے عالمگیر‪ ،‬کھاریاں اور للہ‬ ‫موسی پر یہ بسیں دیر تک انتظار کرتیں اور پچھلی بس آنے پر آگے روانہ ہوتیں۔ جہلم سے‬ ‫گجرات تک پچاس کلومیٹر کا سفر یہے بسیں عموما ً تین سےے چار گھنٹےے میں طےے کیا‬ ‫کرتیں۔‬ ‫گجرات پہنچ کر لہور جانے والے غریب مسافروں کو یہ گوجرانوالہ جانے والی ایسی ہی‬ ‫بسوں میں منتقل کرتیں جو انہیں مزید تین گھنٹ ے میں پچاس کلومیٹر دور گوجرانوالہ‬ ‫پہنچاتیں۔ وہ بسیں ان مسافروں کو گوجرانوالہ سے لہور جانے والی بس میں بٹھا دیتیں۔‬ ‫اس طرح جہلم سے لہور کا ‪ 170‬کلومیٹر کا سفر آٹھ نو گھنٹے میں طے ہوتا۔ گجرات سے‬ ‫واپسی پر یہ بسیں "راولپنڈی" کا بورڈ لگا دیتیں اور یہی عمل دوہراتے ہوئے جہلم آ جاتیں‬ ‫اور پنڈ ی کے مسافروں کو گوجر خان کی بس پر منتقل کر دیا جاتا جو گوجر خان پہنچ‬ ‫کر مسافروں کو راولپنڈ ی کی بس پر بٹھ ا دیتیں ۔ اس طرح جہلم س ے راولپنڈ ی کا سو‬ ‫کلومیٹر کا سفر پانچ گھنٹے میں طے ہوتا۔‬ ‫عرب برج انٹرنیشنل فیری سروس تھ ی تاہ م اس ک ے مقابل ے پر مجھے جہلم گجرات‬ ‫لوکل بس والوں کی سروس کافی بہتر معلوم ہو رہی تھی۔ اگر رات نو بجے سے حساب‬ ‫لگایا جائ ے تو عقبہ س ے نویبع تک سو کلومیٹر کا سفر ہم لوگوں نے گیار ہ گھنٹے میں طے‬ ‫کیا تھا۔ تمام مسافر شاید اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کو کوس رہے تھے‬ ‫جس ک ے باعث ایک گھنٹ ے کا سفر گیار ہ گھنٹ ے میں ط ے ہوا تھا ۔ اگر بیچ میں ی ہ مسئل ہ نہ‬ ‫ہوتا تو ی ہ سفر ایک گھنٹ ے س ے بھ ی کم وقت میں ط ے ہ و جاتا ۔ ی ہ عرب برج والوں کی‬ ‫بدقسمتی تھ ی یا مسافروں کی خوش قسمتی ک ہ عقب ہ اور نویبع ک ے درمیان کوئی اور‬ ‫بندرگاہ نہ تھی ورنہ یہ لوگ وہاں بھی رک کر کم از کم چھ آٹھ گھنٹے تو ضائع کر ہی دیتے۔‬ ‫ہ م لوگوں نےے توبہے کی کہے آئندہے کبھ ی فیری پر سفر نہے کریں گےے یا کم از کم کسی‬ ‫مسلم ملک میں فیری پر سفر نہ کریں گے۔ وقت ایسی دولت ہے جسے کبھی بھی کیش‬ ‫‪69‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی جو اقوام وقت کی قدر کرتی ہیں‪ ،‬وہی آج دنیا میں کامیاب ہیں‬ ‫اور جو وقت کو اس طرح ضائع کرتی ہیں‪ ،‬وہی زمانے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔‬ ‫عرب ممالک میں بالعموم ی ہ رواج ہے ک ہ لوگ وقت کی پابندی شاذ و نادر ہ ی کیا کرتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫خلیجی ممالک سے بہت سے مصری اسی راستے سے ہر سال چھٹیوں میں مصر جاتے‬ ‫ہیں ۔ اس کی وج ہ یہے ہےے ک ہ مصر ک ے ہوائی جہاز ک ے کرائےے بہ ت زیاد ہ ہیں ۔ مثل ً جد ہ سے‬ ‫کراچی کےے ‪ 3000‬کلومیٹر کا ریٹرن ٹکٹ ‪ 1700‬ریال کا ہے جبک ہ جد ہ س ے قاہر ہ کےے ‪1600‬‬ ‫کلومیٹر سفر کا کرایہے ‪ 2500‬ریال ہے۔ اگر کوئی صاحب اپن ے پانچ فیملی ممبرز ک ے ساتھ‬ ‫بھی یہ سفر کریں تو ساڑھے بارہ ہزار ریال میں وہ صرف قاہرہ پہنچتے ہیں۔ قاہرہ سے آگے‬ ‫جانے کا کرایہ الگ۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے پاس مصر پہنچ کر گاڑی کی سہولت بھی‬ ‫نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مصری دو دن کی یہ خواری اٹھا کر بذریعہ فیری مصر‬ ‫جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک تو یہ سفر بہت سستا ہے اور دوسرے ان کے پاس مصر میں‬ ‫اپنی گاڑی بھی موجود ہوتی ہے۔‬

‫سمندر میں چاندنی رات‬ ‫اس منفی پہلو سے ہٹ کر اس سفر کا ایک مثبت پہلو بھی تھا اور وہ تھا سمندری سفر‬ ‫کا مزہ۔ ہمارا ی ہ سفر دو ملکوں ک ے درمیان سفر ہ ی ن ہ تھ ا بلک ہ ہ م ایشیا س ے افریق ہ کی‬ ‫طرف جا رہے تھے۔ ایشیا سے باہر نکلنے کا میرے لئے یہ پہل موقع تھا۔ فیری چلنے کے بعد‬ ‫تاز ہ ہوا ہمار ے چہروں س ے ٹکران ے لگی ۔ اس دن رجب کی پندرہویں رات تھ ی اور تقریباً‬ ‫پورا چاند نکل ہوا تھا ۔ چاندنی سمندر اور اس کے گرد و نواح میں پہاڑوں کو روشن کر‬ ‫رہ ی تھی ۔ سمندر میں چاند کا جھلملتا ہوا عکس منظر کو اور بھ ی دلفریب بنا رہ ا تھا۔‬ ‫خاصا رومانٹک ماحول تھا۔‬ ‫اگر ہ م کسی مغربی ملک کی فیری میں سوار ہوتےے تو دنیا و ما فیہ ا سےے بےے خبر‬ ‫جوڑ ے سر عام رومانس میں مشغول ہ و جات ے لیکن اس وقت فیری ک ے تمام ک ے تمام‬ ‫مسافر عرب ممالک س ے تعلق رکھن ے وال ے باحیا لوگ تھے چنانچ ہ کسی کے لئ ے رومانس‬ ‫کا کوئی موقع نہ تھا۔ اہل مغرب نے نجانے زندگی کے اس حسن کو سر عام انجام دے کر‬ ‫اتنا بدصورت کیوں بنا دیا ہے۔‬ ‫سمندر میں رات کو میرا یہ پہل سفر تھا۔ اتنا صاف آسمان اس سے پہلے میں نے شاید‬ ‫ہی کبھی دیکھا ہو۔ ستاروں کی بہت بڑی تعداد آسمان پر موجود تھی جس میں دب اکبر‬ ‫ک ے سات ستار ے الگ س ے نظر آ رہے تھے۔ قرآن مجید ن ے اس آسمان کو "آسمان دنیا"‬ ‫قرار دیا ہے جس کی وسعتوں کی پیمائش نوری سالوں میں کی جاتی ہے۔ ایس ے ہی‬ ‫سات آسمان اور ہیں جو نجانےے کتنےے بڑےے اور کتنےے حسین ہوں گے۔ے تبارک اللہے احسن‬ ‫الخالقین۔‬ ‫میں رات کو جلدی سونے کا عادی ہوں۔ پوری رات جاگنے کے باعث اب نیند آنے لگی۔‬ ‫ہ م لوگوں عرش ے پر ہ ی اپن ے سلیپنگ بیگ بچھائ ے بیٹھے تھے۔ میں یہیں لیٹ کر سو گیا۔‬ ‫ایک گھنٹ ے بعد اذان کی آواز س ے آنک ھ کھلی ۔ ی ہ دراصل اذان کی بجائ ے اقامت کی آواز‬ ‫تھی ۔ جلدی سے نیچے ٹائلٹ تک گیا۔ کثرت استعمال کے باعث یہ ٹائلٹ نہایت ہ ی گندا ہو‬ ‫چکا تھا۔ میں نے باہر سنک سے صرف وضو کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ اوپر پہنچا تو جماعت ہو‬ ‫چکی تھی۔ خیر اپنی نماز ادا کی اور وہیں بیٹھ گیا۔ سمندر میں غروب آفتاب کے مناظر‬ ‫تو بہت مرتب ہ دیکھے تھے لیکن طلوع آفتاب کا منظر دیکھنے کا ی ہ پہل موقع تھ ا جس میں‬ ‫‪70‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ابھی ایک گھنٹا باقی تھا۔‬ ‫موبائل فون پر نظر پڑی تو یہاں سعودی موبائل سروس "الجوال" ک ے سگنلز آ رہے‬ ‫تھے۔ ان کی کوریج اتنی شاندار تھی کہ سعودی عرب کے دور دراز دیہات میں بھی سگنل‬ ‫آت ے تھے اور اب سمندر میں بھ ی ان کی کوریج موجود تھی ۔ اب تک تو ہ م انٹرنیشنل‬ ‫رومنگ پر گھر بات کرتے آئے تھے جس کے باعث بیلنس ختم ہونے کے قریب تھا ۔ جیسے‬ ‫ہی لوکل سگنلز ملے میں نے گھر کا نمبر ملیا۔ والدہ سے بات ہوئی۔ وہ فجر کی نماز کے‬ ‫لئے اٹھ ی ہوئی تھیں ۔ خلیج عقبہ اور جدہ کے طلوع و غروب کے اوقات میں ایک گھنٹے کا‬ ‫فرق تھا۔ جدہ میں اس وقت سورج طلوع ہونے کے قریب تھا۔ نماز کے بعد انہوں نے کال‬ ‫کی اور ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔‬

‫سمندر میں طلوع آفتاب کا منظر‬ ‫مشرق کی جانب شفق کی سرخی پہلے ہی نمودار ہو چکی تھی۔ تھوڑی دیر میں سورج‬ ‫طلوع ہون ے لگا ۔ سعودی عرب کی پہاڑیوں ک ے بیچ میں س ے پہل ے اس ن ے اپنا کنار ہ نکال۔‬ ‫پھ ر نصف دائر ے کی شکل اختیار کی اور آخر پورا ہ و گیا ۔ اس پور ے عمل میں دو تین‬ ‫منٹ س ے زیاد ہ وقت ن ہ لگا ہ و گا ۔ میں ن ے کیمرا آن کر ک ے اس پور ے منظر کی ویڈیو بنا‬ ‫لی تھی۔ اب سورج کا عکس نیلے پانی میں پڑ رہا تھا۔‬ ‫اب ہ م حقل اور طاب ہ ک ے بیچ میں سےے گزر کر نویبع ک ے قریب ہ و رہےے تھے۔ے اچانک‬ ‫عربی میں اعلن ہوا‪" ،‬جہاز پر سوار پاکستانی مسافر کاؤنٹر سےے رجوع کریں۔ " اس‬ ‫اعلن ک ے سات ھ ہ ی ہ م لوگ جہاز میں مشہور ہ و گئے۔ ہ ر شخص حیرت س ے ان سرپھرے‬ ‫پاکستانیوں کی جانب دیکھے رہ ا تھ ا جو اس راستےے سےے مصر جا رہےے تھے۔ے اپنا سامان‬ ‫سمیٹ کر ہم لوگ کاؤنٹر پر پہنچے۔ یہاں امیگریشن آفیسر بیٹھے تھے۔ عرب برج سروس‬ ‫کی واحد اچھی بات یہ تھی کہ امیگریشن کے مراحل فیری ہی میں طے کر لیے جاتے تھے۔‬ ‫میری پاکستانیت ک ے باعث ی ہ صاحب بھ ی مجھے کوئی نامی گرامی اسمگلر یا سکہ‬ ‫بند قسم کا دہشت گرد سمجھ رہے تھے لیکن فیملی کے باعث انہیں اپنی رائے تبدیل کرنا‬ ‫پڑی ۔ پوچھن ے لگے ‪" ،‬مصر میں آپ کہاں جائیں گے۔ " میں ن ے کہا‪" ،‬سینٹ کیتھرین‪ ،‬قاہرہ‬ ‫اور اسکندریہ۔" کہنے لگے‪" ،‬کہاں رکیں گے۔ ہوٹل کا نام بتائیے" میں نے کہا‪" ،‬وہاں پہنچ کر‬ ‫ہی ہوٹل دیکھیں گے۔ اگر آپ کوئی مخصوص ہوٹل چاہتے ہیں تو ہم وہاں رک جائیں گے۔"‬ ‫کہن ے لگے ‪" ،‬خیر جہاں بھ ی جائیے ‪ ،‬آپ کی مرضی ۔ اگر آپ کا اراد ہ سات دن س ے زیادہ‬ ‫قیام کا ہو‪ ،‬تو قریبی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کر دیجیےے گا۔ " یہے کہہے کر انہوں نے‬ ‫پاسپورٹ میرے حوالے کئے‪ ،‬اپنا بریف کیس اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔‬ ‫نویبع پہنچ ے تو نیل ے سمندر‪ ،‬براؤن پہاڑیوں اور نیل ے آسمان ن ے ہمارا خیر مقدم کیا۔‬ ‫یہاں سمندر کا پانی نہایت ہ ی صاف و شفاف تھا ۔ جیس ے ہ ی فیری اپن ے پلیٹ فارم پر‬ ‫لگی‪ ،‬وقت ضائع کرنے کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔ پہلے ٹرک نکلے‪ ،‬پھر بسیں اور آخر میں‬ ‫چھوٹی گاڑیاں ۔ ہ م لوگ چونکہے سب سےے پہلےے داخل ہوئےے تھےے اس لئےے اب ہماری باری‬ ‫سب سے آخر میں آئی۔‬

‫مصر ک ے سرکاری افسران‬ ‫مصر ک ے سرکاری آفیسرز اپن ے روی ے اور کرپشن کی عادات میں بالکل ویس ے ہ ی تھے‬ ‫جیسا کہ ہمارے پاکستانی آفیسر ہوا کرتے ہیں۔ کسٹم والوں کو ہمارے سامان میں سوائے‬ ‫کپڑوں اور ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر ک ے اور کوئی چیز ن ہ ملی ۔ کمپیوٹر بھ ی میں ن ے سفر‬ ‫‪71‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫نامے کے نوٹس اور تصاویر کے بیک اپ کے لئے ساتھ رکھ لیا تھا۔ انہیں ایک ہی اعتراض تھا‬ ‫کہ گاڑی میں آگ بجھانے وال آلہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے گاڑی میں آگ لگے تو انسان اپنی جان‬ ‫بچانے کے لئے دور بھاگے گا یا پھر آلہ تلش کر کے آگ بجھانے کی کوشش کرے گا۔‬ ‫ان کی فرمائش پر سب لوگوں کو انہ ی کے سنٹر س ے آگ بجھانے وال آل ہ خریدنا پڑا۔‬ ‫کسٹم کےے بعد آخری مرحلہے ٹریفک پولیس کا تھ ا جو بہ ت ہ ی صبر آزما ثابت ہوا۔ے اس‬ ‫موقع پر مجھےے اپنےے وہے ایجنٹ یاد آئےے جو سرکاری دفاتر کےے باہ ر موجود ہوتےے ہیں اور‬ ‫معمولی سی رقم ل ے کر سار ے کام کروا دیت ے ہیں ۔ مصر میں ایس ے ایجنٹ بھ ی نایاب‬ ‫تھے اور سرکاری اہل کار ہمارے اہل کاروں سے بڑھ کر بیوروکریٹ تھے۔‬ ‫عرب برج والوں کی سروس نے ہمیں فیری پر سفر کرنے سے توبہ کرنے پر مجبور کیا‬ ‫تھا۔ ٹریفک پولیس والوں نے ہمیں آئندہ اپنی گاڑی پر خلیجی ممالک سے باہر سفر کرنے‬ ‫سےے توبہے کرنےے پر مجبور کر دیا۔ے یہاں کےے سرکاری اہل کاروں کی نسبت اردن کے‬ ‫سرکاری اہ ل کار نہایت ہ ی مستعد اور سعودی عرب کےے سرکاری اہ ل کار تو فرشتہ‬ ‫صفت معلوم ہو رہے تھے۔‬ ‫چار گھنٹ ے کی خواری ک ے بعد گاڑی ک ے کاغذات اور ٹوٹی پھوٹی مصری نمبر پلیٹیں‬ ‫ملیں۔ یہاں بہت سے مصری بچے نمبر پلیٹیں تبدیل کرنے پر بے تاب نظر آ رہے تھے۔ نمبر‬ ‫پلیٹیں تبدیل کروائیں اور بالخر نویبع کی بندرگا ہ س ے ہ م باہ ر نکلن ے میں کامیاب ہوئے۔‬ ‫گزشت ہ رات عقب ہ کی بندرگا ہ میں داخل ہون ے س ے ل ے کر نویبع کی بندرگا ہ س ے نکلن ے تک‬ ‫ہمار ے سول ہ گھنٹ ے ضائع ہ و چک ے تھے۔ اچھ ی بات ی ہ تھ ی ک ہ اب ہ م مصر میں کہیں بھی‬ ‫جانے کے لئے آزاد تھے۔‬ ‫بندرگا ہ پر طویل وقت صرف کرن ے ک ے دوران ہمیں کئی مشا ہدات ہوئ ے اور‬ ‫ہم ن ے اپن ے مشا ہد ے ک ے دوران مصریوں کی چار اقسام دریافت کیں ۔‬

‫مصریوں کی چار اقسام‬ ‫پہلی قسم کےے مصری بڑےے بڑےے جسم اور بڑےے بڑےے چہروں کےے مالک ہوتےے ہیں ۔ ان کے‬ ‫چہرے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ہمارے ہاں کا بڑے سے بڑا چہرہ بھی ان کے چھوٹے سے چھوٹے‬ ‫چہرے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ بڑے جسم کے ساتھ ساتھ بالعموم یہ موٹے دماغ کے لوگ ہوتے ہیں‬ ‫اور بات ذرا مشکل ہی سمجھتے ہیں۔‬ ‫دوسری قسم کے مصری نہایت صاف رنگت کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے خواہ کبھی اسکول‬ ‫کا من ہ بھ ی ن ہ دیکھ ا ہ و پھ ر بھ ی شکل س ے نہایت ہ ی سوبر اور اعلی تعلیم یافت ہ نظر آتے‬ ‫ہیں۔ ان کی گفتگو کا انداز نہایت ہی مہذب ہوتا ہے۔‬ ‫تیسری قسم کےے مصریوں کو ہم نےے "ایکٹر مصریوں" کا خطاب دیا۔ے یہے عموما‬ ‫گھنگریالے بالوں والی نسل ہے۔ یہ گفتگو کے ساتھ ساتھ پورا ڈرامہ رچاتے ہیں۔ ان کی بات‬ ‫سمجھن ے ک ے لئ ے آپ کو عربی تو کیا بلک ہ دنیا کی کوئی بھ ی زبان سیکھن ے کی چنداں‬ ‫ضرورت نہیں ۔ لہج ے ک ے اتار چڑھاؤ‪ ،‬چہر ے ک ے تاثرات‪ ،‬جسم کی حرکات و سکنات اور‬ ‫اس ک ے علو ہ نان وربل زبان (‪ ) Non Verbal Language‬ک ے جتن ے بھ ی طریق ہائ ے کار دنیا‬ ‫میں دریافت ہو چکے ہیں‪ ،‬ان کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہ خوف کا شکار ہوں تو‬ ‫ایسا نقش ہ کھینچیں گ ے ک ہ آپ ڈ ر کر ر ہ جائیں ۔ اگر حیرت کا اظہار کریں گ ے تو آپ کو‬ ‫بھی حیران کر کے ہی چھوڑیں گے اور اگر غصے میں ہوں گے تو آپ کو غصہ دل کر رہیں‬ ‫گے۔‬ ‫‪72‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫چوتھی قسم کے مصری یہاں کے دیہاتی بدو ہیں۔ دوسرے عرب ممالک کے بدوؤں کی‬ ‫طرح نہایت ہ ی کشاد ہ دل‪ ،‬پر خلوص اور مہمان نواز ۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر‬ ‫آپ ان کےے علقےے میں چلےے جائیں اور ان کی کسی بھیڑ یا مرغ وغیرہے کی طرف‬ ‫پسندیدگی سے دیکھ لیں تو یہ اس جانور کو ذبح کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر دیتے‬ ‫ہیں۔ جزیرہ نما سینا کے زیادہ تر حصوں میں بدو ہی آباد ہیں۔‬

‫زبان کا مسئل ہ‬ ‫سعودی عرب میں اپنےے ڈیڑھے سالہے قیام کےے دوران میں نےے خاصی حد تک عربی زبان‬ ‫سیک ھ لی تھی ۔ اس زبان ک ے بل بوت ے پر یمن س ے ل ے کر اردن تک ک ے علق ے میں‪ ،‬میں‬ ‫باآسانی سفر کر چکا تھ ا جس ک ے باعث زبان ک ے بار ے میں میری قوت خود اعتمادی‬ ‫میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ میرا خیال تھ ا کہ مصریوں کے 'گ' کی جگہ 'ج' رکھ کر میں‬ ‫ان کی زبان بھی آسانی سے سمجھ لوں گا۔‬ ‫جیس ے ہ ی ہ م ن ے مصر کی سرزمین پر قدم رکھا‪ ،‬مصریوں کی زبان سن کر میری‬ ‫ساری خود اعتمادی اڑنچھو ہو گئی اور کانفیڈنس کا تاج محل دھڑام سے زمین بوس ہو‬ ‫گیا ۔ مصری تو میری بات کسی ن ہ کسی حد تک سمج ھ رہے تھے لیکن ان کی زبان میں‬ ‫"اعزک‪ ،‬اقلک اور اش تعوذےےےے؟؟؟" کے علوہ کچھ پلے نہ پڑ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا‬ ‫تھا کہ مصریوں نے عربی میں متروک افریقی زبانوں کے جنتر منتر شامل کر کے ایک نئی‬ ‫زبان تخلیق کی ہے۔ میری حالت اس انگریز کی سی ہو رہ ی تھ ی جس نے آکسفور ڈ کے‬ ‫کسی اعلی تعلیم یافتہے پنجابی پروفیسر سےے پنجابی زبان سیکھ ی اور اس کےے بل پر‬ ‫جھنگ اور میانوالی کےے دیہات کی سیاحت کےے لئےے نکل کھ ڑ ا ہوا جہاں کی زبان خود‬ ‫پنجابیوں کو سمجھ نہیں آتی۔‬ ‫اردو کی بجائے پنجابی کی مثال دینے کی وجہ یہ ہے کہ اہل زبان کے علوہ کیرالہ سے لے‬ ‫کر افغانستان تک اردو عام لوگوں کے رابطے کی زبان ہے۔ جس کسی کو بھی اردو آتی‬ ‫ہے ‪ ،‬وہ ہر علقے کے شخص کی بات آسانی س ے سمجھ لیتا ہے۔ پنجابی کا معامل ہ مختلف‬ ‫ہے۔ یہ ہر سو کلومیٹر پر تبدیل ہوتی ہے‪ ،‬ہر دو سو کلومیٹر پر اس میں کافی فرق واقع‬ ‫ہوتا ہے اور ہر پانچ سو کلومیٹر پر یہ اتنی بدل جاتی ہے کہ اسے سمجھنا کافی مشکل ہوتا‬ ‫ہے۔‬

‫‪73‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جزیر ہ نما سینا‬ ‫جزیر ہ نما سینا کا جغرافی ہ‬ ‫لگے ہاتھوں جزیر ہ نما سینا کا ذکر بھ ی ہوتا چلے۔ ہ م اس وقت سینا میں وارد ہوئ ے تھے۔‬ ‫مصر ک ے دو حص ے ہیں۔ ایک اس کی مرکزی زمین (‪ ) Main Land‬اور دوسری جزیر ہ نما‬ ‫سینا ۔ بحیر ہ احمر شمال میں جا کر دو شاخوں میں تقسیم ہ و جاتا ہے۔ مشرقی شاخ‬ ‫خلیج عقب ہ اور مغربی شاخ خلیج سویز کہلتی ہے۔ ان دونوں ک ے درمیان کا علق ہ جزیرہ‬ ‫نما سینا کہلتا ہے۔ ہم اس وقت خلیج عقبہ سے گزر کر نویبع پہنچے تھے۔ اس کے مشرقی‬ ‫جانب سعودی عرب اور اردن اور مغربی جانب جزیرہ نما سینا واقع ہے۔ خلیج سویز کے‬ ‫شمال میں سینا‪ ،‬مشرق میں اسرائیل اور‬ ‫مغربی جانب مصر کا مین لینڈ واقع ہے۔‬ ‫مغرب میں مصر ک ے مین لین ڈ س ے متصل ہے۔ اس ک ے شمال میں بحیر ہ روم واقع ہے۔‬ ‫سینا میں ہی کوہ طور واقع ہے جہاں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلم کو اللہ تعالی سے‬ ‫ہم کلم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔‬ ‫طور عربی میں پہاڑ کو کہتےے ہیں۔ے "الطور" سےے مراد وہے خاص پہاڑ ہےے جہاں سیدنا‬ ‫موسی علیہ الصلوۃ والسلم پر تورات نازل ہوئی۔ عام روایت کے مطابق یہ پہاڑ سینا کے‬ ‫عین بیچ میں واقع ہے اور جبل موسی کہلتا ہے۔ اس پہاڑ ک ے دامن میں تیسری صدی‬ ‫میں ایک کلیسا بھی تعمیر کیا گیا جو "سینٹ کیتھرین کا کلیسا" کہلتا ہے۔ اسی مناسبت‬ ‫سے یہاں موجود قصبے کا نام بھ ی "سینٹ کیتھرین" ہے۔ کوہ طور کی اصل لوکیشن کے‬ ‫بارے میں بعض عیسائی اہل علم کا خیال یہ ہے کہ یہ سعودی عرب کے شمالی علقے میں‬ ‫واقع ہےے اور "جبل لوز" کہلتا ہے۔ے ان کےے نقطہے نظر کےے مطابق بنی اسرائیل کےے لئے‬ ‫سمندر "نویبع" ک ے مقام پر شق ہوا تھا ۔ اہ ل کتاب اور مسلمانوں ک ے مذہبی علماء اور‬ ‫ماہرین آثار قدیمہ کی اکثریت اس بات پر متفق ہے سینا میں واقع پہاڑ "جبل موسی" ہی‬ ‫اصل کوہ طور ہے۔‬ ‫مصر کی سیاحت کا ہمارا پہل منصوبہ یہ تھا کہ نویبع سے ہم لوگ سینٹ کیتھرین جا کر‬ ‫وہیں رات گزاریں گے۔ اگلے دن کوہ طور کو دیکھنے کے بعد ہمارا پروگرام جزیرہ نما سینا‬ ‫کی نوک پر واقع شہر "شرم الشیخ" جانے کا تھا جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ‬ ‫سیاحت کے لئے نہایت ہی عمدہ اور خوبصورت مقام ہے۔ اس کے بعد ہم لوگ قاہرہ اور پھر‬ ‫اسکندریہے جاتے۔ے وہاں سےے واپسی پر ہمارا پروگرام جنوبی مصر کےے فرعونی شہر‬ ‫"القصر (‪ ")Luxor‬جانے کا تھا۔ القصر سے ہم لوگ مصر کے مین لینڈ کے سیاحتی مقام‬ ‫"الغردقہے (‪ ")Hurghada‬جاتےے جہاں سےے ہمیں سعودی عرب کےے شہ ر ضبا کےے لئےے فیری‬ ‫دستیاب ہو جاتی۔‬ ‫سول ہ گھنٹ ے کی خواری ن ے ہمیں اپنا پروگرام تبدیل کرن ے پر مجبور کر دیا ۔ مسلسل‬ ‫سفر‪ ،‬تھکاوٹ اور نیند ک ے مار ے ہمارا برا حال تھا ۔ ہ م ن ے سوچا ک ہ ابھ ی سیدھے شرم‬ ‫الشیخ چلتےے ہیں اور وہاں ایک دو روز رک کر آرام کرتےے ہیں۔ے شرم الشیخ‪ ،‬نویبع کے‬ ‫جنوب میں ‪ 160‬کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا جو ہمارے لئے ایک معمولی سا فاصلہ تھا۔‬

‫شرم الشیخ‬ ‫سینا کےے ساحل قدرتی حسن کی دولت سےے مال مال ہیں ۔ اگر ساحل کےے ساتھے ساتھ‬ ‫‪74‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫سڑک بنا دی جاتی تو ی ہ نہایت خوبصورت سفر ہوتا لیکن یہاں سڑک پہاڑوں ک ے درمیان‬ ‫بنائی گئی تھی ۔ ڈیڑ ھ گھنٹ ے میں ہ م لوگ شرم الشیخ جا پہنچے۔ چونک ہ ہ م لوگ اسرائیل‬ ‫کی جانب سےے آ رہےے تھےے اس لئےے راستےے میں جگہے جگ ہ چیک پوسٹوں سےے واسط ہ پڑا۔‬ ‫اردنی فوجیوں کی نسبت یہاں کے سپاہی کافی روکھے پھیکے لوگ تھے۔‬ ‫شہر میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ شہر اسم بامسمی کے بالکل متضاد کوئی چیز‬ ‫تھا۔ے نہے تو یہاں شرم نظر آ رہی تھی اور نہے ہی کوئی شیخ یعنی بزرگ۔ے ہمیں ایسا‬ ‫محسوس ہوا ک ہ ہ م لوگ کسی مشرقی ملک کی بجائے ‪ ،‬یورپ یا امریک ہ ک ے بھ ی کسی‬ ‫انتہائی مادر پدر آزاد مقام پر آ گئے ہیں جہاں شرم و حیا نام کی کسی چیز کا کبھی گزر‬ ‫نہیں ہوا۔‬ ‫شرم الشیخ‪1967 ،‬ء سےے پہلےے مچھیروں کا ایک گاؤں تھا۔ ے ‪1967‬ء کی جنگ میں‬ ‫اسرائیل نے پورے جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا ۔ ‪1978‬ء کے مصر اسرائیل سمجھوتے کے‬ ‫نتیج ے میں مصر ن ے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اسرائیل ن ے اس کے جواب میں مصر‬ ‫کو جزیر ہ نما سینا واپس کر دیا ۔ اس زمان ے میں مصری حکومت ن ے اس مقام پر ایک‬ ‫ٹورازم سٹی کا منصوب ہ بنایا کیونک ہ یہاں ک ے ساحل نہایت ہ ی خوبصورتی ک ے حامل ہیں۔‬ ‫مغربی سرمایہ کاروں نے یہاں بڑی بڑی رقوم انویسٹ کیں۔ بڑے بڑے ریزارٹس کے علوہ‬ ‫بڑی تعداد میں نائٹ کلب‪ ،‬ڈسکو اور کیسینو بنائ ے گئے۔ اب ی ہ شہ ر مغربی سیاحوں کے‬ ‫لئے یورپ کے ساحلی مقامات کا ایک متبادل تھا۔‬ ‫ہمیں انٹر نیٹ اور مصری دوستوں س ے ی ہ تو معلوم ہ و چکا تھ ا ک ہ یہاں مغربی سیاح‬ ‫کثیر تعداد میں آتےے ہیں لیکن ی ہ معلوم نہے تھ ا ک ہ اس مقام پر ان لوگوں ک ے لئےے کوئی‬ ‫گنجائش موجود نہیں ہے جو شرم و حیا کی مشرقی اقدار پر تھوڑا سا یقین بھی رکھتے‬ ‫ہیں ۔ اگر ی ہ معلوم ہوتا تو ہ م یہاں سر ے س ے آت ے ہ ی نہیں ۔ اردن میں بھ ی مغربی سیاح‬ ‫کثیر تعداد میں آتے ہیں لیکن اردن نے اپنا اسلمی‪ ،‬مشرقی اور عرب تشخص بحال رکھا‬ ‫ہوا ہے اور وہاں جا کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کسی مادر پدر آزاد معاشرے میں موجود‬ ‫ہیں ۔ شراب‪ ،‬رقص اور جوئ ے ک ے اڈوں میں اور بہ ت س ے لوگوں ک ے لئ ے تو بہ ت کشش‬ ‫تھ ی لیکن ہمارےے لئےے ایسےے مقامات کی بجائےے کچھے اور قسم کےے مقامات میں کشش‬ ‫موجود تھی۔‬

‫مرد کی عفت و عصمت‬ ‫اگر میں اکیل بھ ی ہوتا تو ایس ے مقامات کا رخ ن ہ کرتا لیکن اس وقت تو میری عفت و‬ ‫عصمت کا ایک خونخوار محافظ یعنی میری اہلیہ میرے ساتھ تھیں۔ نجانے ہمارے معاشرے‬ ‫میں عفت و عصمت کا تصور صرف اور صرف عورت ک ے سات ھ خاص کیوں کر دیا گیا‬ ‫ہے۔ے مرد کےے لئےے بھ ی عفت و عصمت اتنی ہ ی اہ م ہےے جتنی کہے عورت کےے لئے۔ے ہمارے‬ ‫معاشرے میں مرد تو جو چاہے کرتا پھرے اس سے خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں‬ ‫آتا لیکن اگر عورت ایسا کر بیٹھے تو یہ اس کے لئے ایک ناقابل معافی جرم ہوتا ہے۔ قرآن‬ ‫مجید ن ے اس گنا ہ ک ے بار ے میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں کی ۔ اس گنا ہ کے‬ ‫نتیج ے میں عورت جتنی گنا ہ گار ہوتی ہے ‪ ،‬مرد بھ ی اتنا ہ ی گنا ہ گار ہوتا ہے اور اگر مرد‬ ‫توبہ کے ذریعے پاک صاف ہو سکتا ہے تو ایسا عورت کے لئے بھی ممکن ہے۔‬ ‫جس طرح قدیم دور میں عالمی فتنہ شرک تھا جس نے چین و ہندوستان سے لے کر‬ ‫افریق ہ اور یورپ تک تمام اقوام کو اپنی لپیٹ میں ل ے لیا تھ ا اسی طرح دور جدید کا‬ ‫سب سے بڑا فتنہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ اہل مغرب جب اپنے مذہب سے برگشتہ ہوئے‬ ‫‪75‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫تو انہوں نے دل و جان کے ساتھ بے حیائی کو قبول کر لیا۔ جب ان کا قبضہ مسلم ممالک‬ ‫پر ہوا تو یہ بے حیائی یہاں بھی امپورٹ ہوئی۔‬ ‫شروع شروع میں تو ی ہ صرف معاشر ے ک ے ایک مخصوص طبق ے تک ہ ی محدود رہی‬ ‫لیکن ‪1990‬ء کے عشرے میں ڈش‪ ،‬کیبل اور انٹر نیٹ کے فروغ کے بعد جس تیزی سے یہ‬ ‫مسلم معاشروں میں پھیل رہ ی ہے‪ ،‬اس س ے ی ہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگل ے پندرہ بیس‬ ‫برس میں اس معاملےے میں مسلم اور مغربی معاشروں میں شاید ہ ی کوئی فرق رہ‬ ‫جائے۔ مسلم ممالک میں یہ منظر عام نظر آتا ہے کہ ماں اور بیٹی ساتھ ساتھ جا رہی ہیں۔‬ ‫ماں نے تو برقع لے رکھا ہے جبکہ بیٹی نیم عریاں لباس پہنے ہوئے ہے۔ بے حیائی دور جدید‬ ‫کا فتنہ ہے جس کے استیصال کے لئے اہل مذہب کو ایک عظیم جہاد کی ضرورت ہے جس‬ ‫کا میدان جنگ انسانی ذہن ہوگا۔‬ ‫میں ذاتی طور پر اہل مغرب کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہیں۔ جدید سائنسی‬ ‫ایجادات س ے ل ے کر جمہوریت‪ ،‬انسانی حقوق‪ ،‬آزادی اظہار اور نظم و ضبط جیسی بے‬ ‫شمار ایسی چیزیں ہیں جو مغرب ن ے تین چار سو سال کی محنت ک ے بعد انسانیت کو‬ ‫دیں۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی چیز مانع نہیں کہ جدید دور میں ان تصورات‬ ‫کو اپنان ے ک ے لئ ے اور اپن ے معاشروں کو ماڈرنائز کرن ے ک ے لئ ے ہمیں مغرب ہ ی س ے بہت‬ ‫کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔‬ ‫اعتراض مجھے اس بات پر ہے ک ہ مسلم معاشر ے اہ ل مغرب کی ان خوبیوں کو تو‬ ‫یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان س ے سیکھن ے کے لئے جس چیز کا انتخاب کرتے ہیں‬ ‫وہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ شاید یہ وہ واحد معاملہ ہے جس میں اہل مشرق‪ ،‬اہل مغرب‬ ‫کی بجائ ے بہتر مقام پر کھڑ ے ہوئ ے تھے لیکن انہوں ن ے مغرب کی اچھ ی چیزوں کو لینے‬ ‫کی بجائے اس چیز کا انتخاب کیا جس میں اہل مغرب انسانیت کے درجے سے بھی گرے‬ ‫ہوئےے ہیں ۔ انڈونیشیا سےے لےے کر مراکش تک تمام مسلم ممالک کو دیکھتےے چلےے جائیے‪،‬‬ ‫ہمیں مغرب کی انسان دوستی‪ ،‬انسانی حقوق‪ ،‬جمہوریت اور نظم و ضبط تو شاید ہی‬ ‫کہیں نظر آئے لیکن ان کی عریانی و فحاشی ہر جگہ ہمیں نظر آئے گی۔‬ ‫دور س ے شرم الشیخ ک ے ساحل نہایت خوبصورت نظرآ رہے تھے۔ دور تک پھیل ہوا پر‬ ‫سکون نیلگوں سمندر اور اس ک ے بیچ میں واقع سنہر ے رنگ کا جزیر ہ آنکھوں کو بہت‬ ‫بھل لگ رہ ا تھا ۔ ہ م لوگوں ن ے ساحل کی طرف جان ے س ے احتراز کیا کیونک ہ مین رو ڈ کے‬ ‫ماحول س ے ایسا محسوس ہ و رہ ا تھ ا ک ہ ساحل بالکل ہ ی مادر پدر آزاد ہ و گا ۔ شہ ر میں‬ ‫گرمی بھ ی بےے پناہے تھی۔ے معلوم نہیں مغربی سیاحوں کو اس موسم میں کیا کشش‬ ‫محسوس ہ و رہ ی تھ ی جو و ہ کھل ے عام ارن ے بھینسوں کی طرح ادھ ر ادھ ر دھوپ میں‬ ‫گھوم رہے تھے۔‬ ‫شرم الشیخ کو امن کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مشرق وسطی‬ ‫میں امن بحال کرنے کے لئے کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں ۔ امن بحال کرنے کے لئے ایک ہی‬ ‫چیز انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس کا نام ہے "کمپرومائز"۔ چھوٹے سے گھر سے لے‬ ‫کر دنیا میں امن قائم کرن ے ک ے لئ ے کمپرومائز ضروری ہے جس پر مشرق وسطی کی‬ ‫تمام متحارب قوتیں تیار نظر نہیں آتیں۔‬ ‫ایک نسبتا ً صاف مقام پر ایک اسٹور نظر آیا ۔ ہ م ن ے یہاں س ے بسکٹ وغیر ہ خریدے۔‬ ‫میں ن ے انرجی ڈرنک "ری ڈ بل" ل ے کر پیا ۔ ہ م ن ے یہ ی فیصل ہ کیا ک ہ یہاں رکن ے کی بجائے‬ ‫سینٹ کیتھرین کے بابرکت شہر میں ہی جا کر رکا جائے۔ سینٹ کیتھرین کے یہاں سے دو‬ ‫راستے تھے۔ ایک تو شرقی جانب سے خلیج عقبہ کے ساتھ ساتھ چلنے وال راستہ تھ ا جہاں‬ ‫‪76‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫سے ہم آئے تھے۔ دوسرا غربی جانب سے خلیج سویز کے ساتھ ساتھ جانے وال راستہ تھا۔‬

‫راس محمد اور مجمع البحرین‬ ‫ایک پولیس چیک پوسٹ پر میں ن ے رک کر پوچھ ا ک ہ کون سا راست ہ بہتر ہے۔ کہن ے لگے‪،‬‬ ‫"دونوں طرف سےے راستہے برابر ہے ‪ ،‬آپ جہاں س ے چاہےے چل ے جائیے۔ " ہ م لوگ اب خلیج‬ ‫سویز والے راستے سے روانہ ہوئے۔ تھوڑی دیر میں ہم "راس محمد" جا پہنچے۔ یہ سینا کا‬ ‫انتہائی کون ہ تھ ا جہاں خلیج سویز اور خلیج عقب ہ آپس میں مل رہ ی تھیں ۔ اس مقام کے‬ ‫بار ے میں کہ ا جاتا ہے ک ہ یہاں سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کی ملقات جناب خضر‬ ‫علیہ الصلوۃ والسلم سے ہوئی تھی۔ قرآن مجید نے یہ واقع کچھ اس طرح بیان کیا ہے‪:‬‬ ‫یاد کرو وہ وقت جب موسی نے اپنے خادم (یشوع بن نون) سے کہا‪" ،‬میں اپنا سفر ختم نہ کروں‬ ‫گا جب تک ک ہ دونوں پانیوں ک ے سنگم تک نہ پہنچ جاؤں۔ ورنہ میں عرصہ دراز تک اپنا سفر جاری‬ ‫رکھوں گا ۔ پس جب و ہ ان ک ے سنگم پر پہنچ ے تو اپنی مچھلی کو بھول گئ ے اور و ہ نکل کر پانی‬ ‫میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو۔‬ ‫آگے جا کر موسی نے اپنے خادم سے کہا‪" ،‬لؤ ہمارا ناشتہ‪ ،‬آج کے سفر میں تو ہم بری طرح‬ ‫تھک گئے ہیں۔" خادم نے کہا‪" ،‬آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھیرے ہوئے تھے‬ ‫تو مجھے مچھلی کا خیال ہی نہ رہا اور شیطان نے مجھے ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر کرنا‬ ‫آپ سے بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے پانی میں چلی گئی۔" موسی نے کہا‪" ،‬اسی کی‬ ‫تو ہمیں تلش تھی۔ " چنانچہے وہے دونوں اپنےے نقش قدم پر واپس ہوئےے اور وہاں انہوں نےے ہمارے‬ ‫بندوں میں س ے ایک بند ے کو پایا جس ے ہ م ن ے اپنی رحمت س ے نوازا تھ ا اور اپنی طرف سے ایک‬ ‫خاص علم دیا تھا۔‬ ‫موسی نے ان سے کہا‪" ،‬کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس دانش کی‬ ‫تعلیم دیں جو آپ کو عطا ہوئی ہے؟ انہوں نے جواب دیا‪" ،‬آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔"‬ ‫موسی نےے کہا‪" ،‬ان شاء اللہے آپ مجھےے صابر پائیں گےے اور میں کسی معاملےے میں آپ کی‬ ‫نافرمانی نہے کروں گا۔ " وہے بولے ‪" ،‬اچھ ا اگر آپ میرےے ساتھے چلتےے ہیں تو مجھے سےے کوئی بات نہ‬ ‫پوچھیے گا جب تک کہ میں خود آپ سے ذکر نہ کروں۔"‬ ‫اب وہ دونوں روانہ ہوئے‪ ،‬یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو ان صاحب نے کشتی میں‬ ‫شگاف ڈال دیا۔ موسی نے کہا‪" ،‬آپ نے اس میں شگاف پیدا کر دیا ہے تاکہ سب کشتی والوں کو‬ ‫ڈبو دیں؟ یہ تو آپ نے سخت حرکت کی۔" انہوں نے کہا‪" ،‬میں نے آپ کو نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ‬ ‫صبر نہیں کر سکتے۔ موسی بولے‪" ،‬بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں سختی سے‬ ‫کام نہ لیجیے۔"‬ ‫پھ ر و ہ دونوں وہاں سے چلے ‪ ،‬یہاں تک کہ ایک لڑکا انہیں مل۔ ان صاحب نے اسے قتل کر دیا۔‬ ‫موسی نے کہا‪" ،‬آپ نے ایک ب ے گناہ کی جان لے لی حالنک ہ اس نے کسی کا خون ن ہ کیا تھا؟ ی ہ تو‬ ‫آپ ن ے بہ ت برا کیا۔ " انہوں ن ے پھ ر کہا‪" ،‬میں ن ے آپ کو ن ہ کہ ا تھ ا ک ہ آپ میر ے سات ھ صبر نہیں کر‬ ‫سکتے۔ " موسی ن ے کہا‪" ،‬اگر اب میں آپ س ے کچ ھ پوچھوں تو آپ مجھے اپن ے سات ھ ن ہ رکھی ے گا۔‬ ‫لیجیے‪ ،‬اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا۔"‬ ‫پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں جا پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا مگر‬ ‫انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو کہ گرنے ہی‬ ‫والی تھی ۔ ان صاحب ن ے اس دیوار کو درست کر دیا ۔ موسی کہن ے لگے ‪" ،‬اگر آپ چاہت ے تو اس‬ ‫کام کی اجرت بھ ی ل ے سکتے تھے۔ " وہ بولے‪" ،‬اب میرا اور آپ کا سات ھ ختم ہوا۔ اب میں آپ کو‬ ‫ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔"‬ ‫اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے‬ ‫تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علقہ تھا جو ہ ر کشتی‬ ‫کو چھین لیتا تھا۔ے رہ ا وہے لڑکا‪ ،‬تو اس کےے والدین مومن تھے۔ے ہمیں اندیشہے ہوا کہے یہے لڑکا اپنی‬ ‫سرکشی اور کفر کے باعث انہیں تنگ کرے گا۔ اس لئ ے ہ م نے یہ چاہا کہ ان کا رب‪ ،‬اس کے بدلے‬ ‫انہیں ایسی اولد دے جو اخلق میں اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔‬

‫‪77‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫اور اس دیوار کا معامل ہ ی ہ ہے ک ہ ی ہ اس شہر کے رہن ے والے دو یتیم بھائیوں کی تھی اس دیوار کے‬ ‫نیچے ان بچوں کے لئے ایک خزانہ مدفون تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ اس لئے آپ کے رب نے‬ ‫چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ آپ کے رب کی رحمت کے باعث کیا گیا۔‬ ‫میں نے کچ ھ بھ ی اپنے اختیار سے نہ کیا۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔"‬ ‫(کہف ‪)82-18:60‬‬

‫سیدنا موسی و خضر علیہما الصلوۃ والسلم کے اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان‬ ‫اپن ے محدود علم ک ے باعث الل ہ تعالی ک ے بہ ت س ے معاملت کو سمج ھ نہیں پاتا اور اللہ‬ ‫تعالی کے کاموں پر اعتراض شروع کر دیتا ہے۔ جب ان کی حقیقت کسی طرح اس پر‬ ‫کھلے گی تو اسے معلوم ہو گا کہ اللہ تعالی کا فیصلہ بالکل درست تھا۔‬ ‫وہے مقام جہاں سیدنا موسی و خضر علیہما الصلوۃے والسلم کی ملقات ہوئی تھی‪،‬‬ ‫مجمع البحرین یعنی دو پانیوں کےے ملنےے کا مقام" تھا۔ے بہ ت سےے محققین کےے نزدیک یہ‬ ‫سوڈان کے شہر خرطوم کا مقام ہے جہاں سیدنا موسی اور یشوع بن نون علیہما الصلوۃ‬ ‫والسلم دریائ ے نیل ک ے سات ھ سات ھ سفر کرت ے گئ ے تھے۔ اس مقام پر دریائ ے نیل کی دو‬ ‫شاخیں بحر ابیض اور بحر ازرق آپس میں ملتی ہیں۔ے اہ ل علم کےے دوسرےے گروہے کے‬ ‫نزدیک یہ مقام راس محمد کا مقام تھا جو کہ خلیج سویز اور خلیج عقبہ کا سنگم ہے۔ اگر‬ ‫آپ کا ی ہ سفر قیام مصر ک ے دوران ہوا تو پھ ر خرطوم والی بات درست ہے اور اگر یہ‬ ‫مصر سے خروج کے بعد ہوا تو پھر راس محمد وال قول درست معلوم ہوتا ہے۔‬

‫ذ ہنی غلمی‬ ‫اس واقعے سے بعض مذہبی راہنماؤں نے ایک عجیب و غریب نتیجہ اخذ کیا۔ انہوں نے اپنے‬ ‫شاگردوں اور مریدین کو اپنا ذہنی غلم بنان ے ک ے لئ ے ی ہ اخذ کیا انسان کو اپن ے استاد یا‬ ‫مرشد س ے کسی معامل ے میں کوئی سوال نہیں کرنا چاہی ے اور اس ک ے ہات ھ میں "مردہ‬ ‫بدست زندہ " بن کر رہنا چاہیے۔ موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم الل ہ کے رسول تھے۔ وہ اسی‬ ‫کے خاص حکم سے جناب خضر علیہ الصلوۃ والسلم سے ملقات کے لئے گئے تھے۔ سیدنا‬ ‫خضر علیہ الصلوۃ والسلم اللہ تعالی کے فرشتے یا خاص امور سر انجام دینے والے کوئی‬ ‫بند ے تھے جو الل ہ تعالی س ے برا ہ راست حاصل ہون ے وال ے احکام ک ے مطابق عمل کرتے‬ ‫تھے جسے اصطلح میں "تکوینی امور" کہا جاتا ہے۔‬ ‫کیا ہمار ے مذہبی راہنماؤں میں کوئی ی ہ دعوی کر سکتا ہے ک ہ و ہ الل ہ تعالی س ے براہ‬ ‫راست احکام حاصل کرتا ہے اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اللہ‬ ‫کےے تمام بندےے ختم نبوت کےے بعد اب صرف اور صرف اس کےے بندےے ہ ی ہیں۔ے ان سے‬ ‫سوال بھی کیا جا سکتا ہے اور ان سے اختلف رائے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے نیک اور‬ ‫مخلص بندوں نے ہمیشہ ایسا ہی یہی رویہ اختیار کیا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغہ‬ ‫روزگار ہستی مسجد نبوی میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے روضہ انور‬ ‫کی طرف اشار ہ کر ک ے کہتے ‪" ،‬اس ہستی ک ے علو ہ ہ ر شخص س ے اختلف رائ ے کیا جا‬ ‫سکتا ہے؟"‬ ‫سیدنا ابوبکر رضی اللہے عن ہ جیسی ہستی کا ی ہ عالم تھ ا ک ہ فرماتے ‪" ،‬اگر میں ٹھیک‬ ‫راستے پر چلوں تو میری اطاعت کرو اور اگر غلط راستے پر چلنے لگوں تو میری اصلح‬ ‫کرو۔ " سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ س ے عام دیہاتی لوگ بھ ی جواب طلبی کر سکت ے تھے۔‬ ‫چادر وال واقعہے تو اس معاملےے میں بہ ت مشہور ہے۔ے یہ ی وجہے ہےے کہے آج بھ ی سچےے اور‬ ‫مخلص نیک بند ے اپن ے شاگردوں اور مریدوں کی تعلیم و تربیت ک ے دوران ن ہ صرف ان‬ ‫‪78‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کے سوالت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ انہیں استاد کے ذہ ن سے سوچنے کی بجائے‬ ‫ان کے اپنے ذہنوں سے سوچنے کی تربیت دیتے ہیں۔‬ ‫اگر آپ کے استاد‪ ،‬شیخ یا تنظیمی قائد آپ کو کھلے ذہن سے سوچنے اور واقعات اور‬ ‫نقطہ ہائے نظر کو تنقیدی انداز میں جانچنے اور پرکھنے کی تربیت دیتے ہیں تو جان لیجیے‬ ‫کہ وہ آپ کے ساتھ مخلص ہیں۔ دوسری طرف اگر وہ آپ کو اپنا ذہنی غلم بنانا چاہتے ہیں‬ ‫تو اچھ ی طرح سمجھ لیجیے کہ ان صاحب کا مقصد آپ کا جذباتی استحصال ہے اور آپ‬ ‫سے کچھ مالی یا کم ازکم نفسیاتی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‬

‫سمندر میں ڈائیونگ اور کورل ریف‬ ‫راس محمد کا علقہ "کورل ریف" کے لئے مشہور ہے۔ اس علقے میں سمندری مخلوقات‬ ‫کی بہت سی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں کے سمندر میں کورل کی بہت سی کالونیاں‬ ‫موجود ہیں جنہیں دیکھن ے ک ے لئ ے سیاح غوط ہ خوری کا لباس پہ ن کر سمندر میں اترتے‬ ‫ہیں ۔ میں ابھ ی تک اس تجرب ے س ے محروم رہ ا تھ ا اور گھ ر س ے ی ہ اراد ہ کر ک ے چل تھ ا کہ‬ ‫یہاں غوطہے خوری کا شوق پورا کروں گا لیکن ماحول کو مد نظر رکھتےے ہوئےے ایسا‬ ‫مناسب محسوس نہ ہوا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ غوطہ خوری کا شوق جدہ میں بھی پورا کیا‬ ‫جا سکتا ہے جہاں بہ ت سی ڈائیونگ کمپنیاں سیاحوں کو غوط ہ خوری کی سہولیات مہیا‬ ‫کرتی ہیں۔‬

‫طور سینا کا قصب ہ‬ ‫ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم لوگ "طور سینا" نامی قصبے میں جا پہنچے۔ یہ خلیج سویز‬ ‫ک ے شرقی کنار ے پر واقع بندرگا ہ ہے اور اس کا نام کو ہ طور ک ے نام پر رکھ ا گیا ہے۔ ہم‬ ‫لوگ شہ ر ک ے اندر چل ے گئے۔ ایک بڑی سی مسجد میں نماز ادا کرن ے ک ے بعد ایک ہوٹل‬ ‫س ے تک ے کھائے۔ عربوں ک ے تک ے بھ ی مصالحوں س ے پاک ہوت ے ہیں جس ک ے باعث ہمارے‬ ‫جیسا تیز مصالح ے کھان ے وال انہیں مجبورا ً ہ ی کھاتا ہے۔ ہمیں اب پاکستانی کھان ے شدت‬ ‫سے یاد آ رہے تھے لیکن یہاں ان کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ انٹرنیٹ سے یہ معلوم‬ ‫ہوا تھا کہ قاہرہ میں چند انڈین ریسٹورنٹ ہیں۔ ہم نے سوچا کہ وہیں چل کر اپنی زبان کی‬ ‫اس خواہش کو پورا کریں گے۔‬ ‫تھکن ک ے باعث ہمارا دل ی ہ چاہ رہ ا تھ ا کہ یہیں قیام کر لیا جائ ے اور لمبی تان کر نیند‬ ‫پوری کی جائ ے لیکن اس قصب ے میں ایک دو ہوٹل ہ ی تھے جو فیملی ک ے سات ھ رکن ے کے‬ ‫لئے مناسب معلوم نہ ہوئے۔ اب ہم یہاں س ے آگے روانہ ہوئے۔ پچاس ساٹھ کلومیٹر کے بعد‬ ‫سینٹ کیتھرین کا ایگزٹ آ گیا۔ اب ہم اس سڑک پر ہو لئے۔ سینٹ کیتھرین یہاں سے سو‬ ‫کلومیٹر ک ے فاصل ے پر تھا۔ ی ہ پہاڑی سڑک تھ ی جو زگ زیگ انداز میں اوپر نیچ ے جا رہی‬ ‫تھی۔ راستے میں بدوؤں کے چند گاؤں آئے اور ایک گھنٹے کے مزید سفر کے بعد ہم بالخر‬ ‫سینٹ کیتھرین پہنچ گئے۔ یہاں کی چیک پوسٹ کے سپاہیوں کا رویہ بہت اچھ ا تھا ۔ عجیب‬ ‫بات ی ہ تھ ی ک ہ مصر میں چیک پوسٹوں پر سفید وردی وال ے اہ ل کاروں ک ے سات ھ ساتھ‬ ‫سادہ لباس والے بھی موجود تھے جو کہ چیکنگ کر رہے تھے۔ یہ چیکنگ بالعموم جزیرہ نما‬ ‫سینا تک ہی محدود تھی کیونکہ آگے مصر کے مین لینڈ میں ہمیں کہیں بھی چیک پوسٹ پر‬ ‫روکا نہیں گیا۔‬ ‫چیک پوسٹ سےے تھوڑا آگےے ہمیں ایک خوبصورت موٹل نظر آیا جس کا نام تھا‬ ‫"مورگن لینڈ موٹل"۔ نہایت ہی صاف ستھری جگہ تھی جس میں ایک دوسرے سے فاصلے‬ ‫‪79‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫پر عمارتیں بنی ہوئی تھیں اور گاڑی عمارت تک جا سکتی تھی۔ موٹل کا کرایہ بھی نہایت‬ ‫ہی مناسب تھا یعنی پچاس ڈالر روزانہ۔ اس رقم میں رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بھی‬ ‫شامل تھا۔ ہم یہیں رک گئے۔‬ ‫مغرب کے بعد کھانے کا وقت تھ ا جو کہ امریکی ڈشوں پر مبنی بوف ے پر مشتمل تھا۔‬ ‫اہل مغرب کے کھانے بھی ان کی طرح پھیکے ہی ہوتے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک ڈش‬ ‫ہمیں پسند آئی جو کہ گوشت کے قتلوں اور شملہ مرچوں سے بنائی گئی تھی۔ کھانے کے‬ ‫ہال کو بہت سے تاریخی نوادرات سے سجایا گیا تھا۔‬ ‫موٹل میں ایک چھوٹا سا بازار بھ ی تھ ا جہاں بدوؤں کےے ہینڈ ی کرافٹس کی دکانیں‬ ‫تھیں ۔ ی ہ ہینڈ ی کرافٹ بالکل ویس ے ہ ی تھے جیسا ک ہ ہمار ے ہاں سوات وغیر ہ میں ملتے‬ ‫ہیں۔ے یہاں بھ ی بدو خواتین گھروں میں یہے چیزیں بناتی تھیں جو کہے ان دکانوں پر غیر‬ ‫ملکیوں کو فروخت کئےے جاتےے تھے۔ے ایک دکان عیسائی حضرات کےے مذہ ب سےے متعلق‬ ‫اشیاء کی بھ ی تھ ی جس میں صلیبوں س ے لے کر سیدنا مسیح علی ہ الصلو ۃ والسلم کی‬ ‫تصاویر بھی شامل تھیں۔ عشاء کے بعد ہم لمبی تان کر سو گئے کیونکہ پچھلی رات ہم نے‬ ‫فیری میں بہ ت کم نیند لی تھی ۔ صبح اٹ ھ کر ڈ ٹ کر ناشت ہ کرن ے ک ے بعد ہ م کو ہ طور پر‬ ‫جانے کے لئے تیار ہو گئے۔‬

‫بنی اسرائیل کی تاریخ‬ ‫یہے پورا علقہے بنی اسرائیل کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔ے یہ ی تیہے کا وہ‬ ‫دشت تھ ا جہاں بنی اسرائیل کو چالیس سال قید رکھ ا گیا تھا۔ مناسب ہو گا اگر ہم آگے‬ ‫چلنے سے قبل بنی اسرائیل کی تاریخ کا کچھ جائزہ لے لیں۔‬ ‫جیسا ک ہ بیان کیا جا چکا ہے ک ہ الل ہ تعالی ن ے سیدنا ابراہیم علی ہ الصلو ۃ والسلم کی‬ ‫اولد کو اس دنیا میں آخرت کی جزا و سزا کا نمونہے بنا دیا تھا۔ے آپ کےے پوتےے سیدنا‬ ‫یعقوب علیہ الصلوۃ والسلم فلسطین کے علقے میں آباد تھے اور اللہ کے دین کی دعوت‬ ‫دیا کرتے تھے۔ آپ کا لقب اسرائیل تھا جس کا معنی ہے عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ آپ کے‬ ‫بارہے بیٹےے تھے۔ے ان میں سےے دس بیٹوں کو سب سےے چھوٹےے بھائی یوسف علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم س ے حسد ہوا اور انہوں ن ے آپ کو کنویں میں پھینک دیا ۔ بنی اسماعیل کا ایک‬ ‫قافلہ وہاں سے گزرا تو انہوں نے یوسف کو نکال ۔ ان کے بھائیوں نے تھوڑی سی رقم کے‬ ‫عوض یوسف کو قافلےے والوں کےے ہاتھے بیچ دیا جنہوں نےے آپ کو لےے جا کر مصر میں‬ ‫فروخت کر دیا۔‬

‫بنی اسرائیل مصر میں‬ ‫سیدنا یوسف علیہے الصلوۃے والسلم کےے زمانےے میں مصر کا دارالحکومت ممفس (‬ ‫‪ ) Memphis‬تھ ا جو موجود ہ قاہر ہ ک ے قریب دریائ ے نیل ک ے دوسری طرف آباد تھا ۔ سورہ‬ ‫یوسف میں آپ کے تفصیلی حالت بیان ہوئ ے ہیں ۔ آپ کی اعلی انتظامی صلحیتوں کے‬ ‫باعث بادشا ہ ن ے آپ کو مصر ک ے وزیر اعظم کا عہد ہ د ے دیا ۔ سور ہ یوسف ک ے مطابق‬ ‫مصر میں سات سال نہایت ہی اچھی فصل ہوئی جسےے سیدنا یوسف علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم نے ذخیرہ کر لیا۔ اس دور میں بھی مصر کی زیادہ تر آبادی دریائے نیل کے دونوں‬ ‫کناروں پر آباد تھی ۔ اس ک ے علو ہ ممفس س ے شمال کی جانب دریائ ے نیل کی مختلف‬ ‫شاخوں ک ے نتیج ے میں بنن ے وال ڈیلٹا کا علق ہ بہ ت زرخیز ہوا کرتا تھا ۔ آج بھ ی مصر کی‬ ‫آبادی کا نوے فیصد حصہ انہی علقوں میں آباد ہے۔‬ ‫‪80‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اگلے سات سال شدید قحط پڑا۔ ارد گرد کے علقوں سے لوگ غلہ لینے مصر آئے جن‬ ‫میں فلسطین سے آنے والے بھائی بھی شامل تھے۔ سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلم نے‬ ‫اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا اور اپنے والدین کو بھی یہیں بل لیا۔ ان بارہ بھائیوں کو مصر‬ ‫میں خوب پذیرائی ملی اور ی ہ زرخیز ترین زمینوں پر آباد ہوئ ے اور کچھ ہ ی عرص ے میں‬ ‫ان کی اولد کثیر تعداد میں ہو گئی۔ ماہرین آثار قدیمہ اور بائبل کے علماء کی تحقیق کے‬ ‫مطابق ی ہ واقع ‪ 1900‬قبل مسیح یعنی آج س ے تقریبا ً چار ہزار سال قبل کا ہے۔ چار سو‬ ‫سال کے عرصے میں بنی اسرائیل کی تعداد ہزاروں بلکہ لکھوں میں پہنچ گئی۔‬ ‫بنی اسرائیل اس دور میں شرک اور دوسری برائیوں میں مبتل ہو چکے تھے جس کی‬ ‫سزا انہیں بحیثیت قوم اسی دنیا میں دی ۔ جب بنی اسرائیل مصر میں آباد ہوئے تو اس‬ ‫دور میں مصر میں ہکسوس (یعنی چرواہےے یا اجنبی) بادشاہوں کی حکومت تھی۔ے یہ‬ ‫غیرملکی حکمران تھے اور عرب علقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ عرصے بعد مصر کے‬ ‫مقامی باشندوں میں قوم پرستی کی ایک شدید لہر اٹھی جس کےے تحت ہکسوس‬ ‫بادشاہوں کے خلف ایک عظیم بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں مصر کی قومی حکومت‬ ‫قائم ہوئی۔ بنی اسرائیل جو غیر ملکی بادشاہوں کے پسندیدہ لوگ تھے‪ ،‬اب معتوب ٹھہرے‬ ‫اور انہیں غلم بنا لیا گیا۔‬

‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم‬ ‫سیدنا یوسف علی ہ الصلو ۃ والسلم کے چار سو سال ک ے بعد الل ہ تعالی ن ے سیدنا موسی‬ ‫علی ہ الصلو ۃ والسلم کو بنی اسرائیل میں مبعوث فرمایا ۔ آپ کی پیدائش س ے قبل بنی‬ ‫اسرائیل پر ایسا وقت بھ ی آیا کہے فرعون نےے ان کی قوت ختم کرنےے کےے لئےے ان کے‬ ‫نوزائید ہ بچوں کو قتل کرن ے اور بچیوں کو اپنی خدمت ک ے لئ ے زند ہ رکھن ے کا حکم دیا۔‬ ‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم بھ ی شاید اسی حکم کی پاداش میں قتل کئ ے جاتے‬ ‫لیکن اللہ تعالی نے آپ کو بچا لیا اور ایسے حالت پیدا کئے کہ فرعون نے خود آپ کو گود‬ ‫لے کر آپ کی پرورش کی ۔ اس زمان ے میں مصر کا دارالحکومت ممفس س ے تھیبس (‬ ‫‪ )Thebes‬منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں آج "القصر (‪ ")Luxor‬کا تاریخی شہر‬ ‫ہے۔‬ ‫جوانی میں سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم س ے نادانست ہ طور پر ایک مصری قتل‬ ‫ہو گیا جو کہ ایک اسرائیلی پر ظلم کر رہا تھا۔ اس پر خوفزدہ ہو کر آپ مصر سے مدین‬ ‫تشریف لے گئے۔ یہ علقہ موجودہ عقبہ کے قریب ہی واقع تھا۔ یہاں آپ کی ملقات سیدنا‬ ‫شعیب علیہ الصلوۃ والسلم سے ہوئی ۔ آپ نے ان کے ہاں ملزمت کر لی ۔ کئی برس کے‬ ‫بعد سیدنا شعیب علیہ الصلوۃ والسلم نے اپنی بیٹی صفورا رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے‬ ‫کر دیا اور آپ مصر واپس آئے۔‬ ‫راستے میں آپ کا گزر صحرائے سینا کے اس مقام سے ہوا جہاں ہم اس وقت موجود‬ ‫تھے ‪ ،‬یہیں آپ کو جنگل میں ایک روشنی نظر آئی ۔ آپ کی زوج ہ اس وقت حمل سے‬ ‫تھیں جس کا وقت قریب ہی تھا۔ آپ سمجھے کہ شاید یہ آگ ہے۔ آپ اپنی زوجہ کے لئے آگ‬ ‫لینے جنگل میں گئے تو اللہ تعالی آپ سے ہم کلم ہوا اور آپ کو نبوت عطا ہوئی۔ آپ کو‬ ‫اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ فرعون کے دربار میں جا کر اس کو اللہ کے دین کی دعوت‬ ‫دیں۔ آپ نے ایک مددگار طلب کیا جس پر آپ کا مددگار آپ کے بھائی سیدنا ہارون علیہ‬ ‫الصلوۃ والسلم کو مقرر کیا گیا۔‬ ‫محققین کا خیال ہے ک ہ سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کا واسط ہ دو فراعین سے‬ ‫‪81‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫پڑا۔ے ایک تو رعمسیس ثانی تھ ا جس نےے آپ کی پرورش کی اور دوسرا اس کا بیٹا‬ ‫منفتاح تھ ا جس کو آپ نے اللہ کے دین کی دعوت پیش کی۔ آپ نے فرعون کو یہ بتایا کہ‬ ‫آپ الل ہ ک ے بھیج ے ہوئ ے رسول ہیں اور و ہ بنی اسرائیل کو ان ک ے سات ھ جان ے کی اجازت‬ ‫دے دے۔ فرعون کے طلب کرنے پر آپ نے اللہ تعالی کی طرف سے دیے گئے معجزے یعنی‬ ‫اپنا عصا اور ید بیضا (چمکتا ہوا ہاتھ) اسے دکھائے۔ فرعون نے اسے جادوگری قرار دیا اور‬ ‫آپ کے مقابلے پر اپنے جادوگروں کو لے آیا۔‬ ‫جادوگروں ن ے آپ ک ے سامن ے اپنی لٹھیاں اور رسیاں ڈالیں تو ی ہ سانپ بن کر نظر‬ ‫آئیں۔ آپ نے اپنا عصا زمین پر ڈال تو یہ اژدھا بن کر سب کو نگل گیا۔ جادوگر ماہرین فن‬ ‫تھے‪ ،‬وہ یہ جان گئے کہ یہ جادو نہیں ہو سکتا۔ یہ لوگ آپ پر ایمان لئے جس کی پاداش میں‬ ‫فرعون نےے انہیں ہاتھے پاؤں کٹوا کر شہید کر دیا۔ے فرعون نےے سیدنا موسی علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم جو کہ ایک غلم قوم کے فرد تھے ‪ ،‬کی دعوت کو اپنی سلطنت اور قوم کے لئے‬ ‫خطر ہ قرار دیا ۔ دلچسپ امر ی ہ ہے ک ہ سیدنا موسی و ہارون علیہما الصلو ۃ والسلم کی‬ ‫دعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں آپ کی پوری قوم آپ پر ایمان ل چکی تھی۔‬ ‫فرعون نے اللہ کے اس رسول کے سامنے نہایت ہی سرکشی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالی‬ ‫نےے اس کی پاداش میں اس کی قوم پر وقتا فوقتا چھوٹےے عذاب نازل کئےے جن میں‬ ‫قحط‪ ،‬ٹڈی دل‪ ،‬طوفان‪ ،‬جوئیں‪ ،‬مینڈک اور خون کے عذاب شامل ہیں ۔ عذاب سے تنگ آ‬ ‫کر فرعون سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم س ے عذاب ٹلن ے کی درخواست کرتا اور‬ ‫بنی اسرائیل کو آزاد کر دین ے کا آپ کا مطالب ہ مان لیتا لیکن عذاب ٹلن ے ک ے بعد حیلے‬ ‫بہانوں سے انکار کر دیتا۔‬ ‫معاملہ آخر کار اس مرحلے کو پہنچ گیا جب رسول کی جانب سے اتمام حجت ہو چکا۔‬ ‫الل ہ ک ے رسول اپنی اقوام کو مختلف دلئل س ے قائل کرن ے کی کوشش کرت ے تھے اور‬ ‫انہیں الل ہ کی جانب س ے دی ے ہوئ ے معجزات دکھایا کرت ے تھے۔ جب ان کی قوم ک ے پاس‬ ‫سوائے ضد‪ ،‬تعصب اور ہٹ دھرمی کے کوئی اور عذر رسول کا انکار کرنے کے لئے باقی‬ ‫نہ رہتا تو ان پر اللہ کی حجت پوری ہو جاتی تھی۔ اس کے بعد رسول کو مان لینے والوں‬ ‫کو الگ کر کے نہ ماننے والوں کو موت کی سزا دے دی جاتی تھی۔‬

‫بنی اسرائیل کا خروج (‪)Exodus‬‬ ‫اللہ کے حکم سے سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلم نے وادی نیل اور ڈیلٹا کے علقے میں‬ ‫پھیلے ہوئے بنی اسرائیل کو اکٹھا کیا اور انہیں لے کر نکلے۔ بائبل کے بیان کے مطابق بنی‬ ‫اسرائیل ک ے مصر میں قیام کی کل مدت ‪ 430‬برس تھی ۔ فرعون ن ے اس معامل ے میں‬ ‫کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی تھی کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا دل نرم کر دیا تھا۔ جب سیدنا‬ ‫موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم بنی اسرائیل کو ل ے کر مصر ک ے مین لین ڈ س ے باہ ر نکل ے تو‬ ‫فرعون کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اپنی فوج لے کر آپ کے تعاقب میں آیا۔‬ ‫اب بنی اسرائیل کے سامنے بحیرہ احمر تھا اور پیچھے فرعون کی فوج تھی۔ اللہ تعالی‬ ‫کےے حکم سےے سیدنا موسی علیہے الصلوۃے والسلم نےے اپنا عصا پانی میں مارا جس کے‬ ‫نتیجے میں پانی دو ٹکڑے ہو گیا اور راتوں رات اللہ تعالی نے اسے خشک کر کے اس میں‬ ‫ایک راست ہ بنا دیا ۔ بنی اسرائیل اس راست ے س ے سمندر پار کر گئے۔ فرعون کی پوری‬ ‫فوج ان ک ے تعاقب میں سمندر میں داخل ہوئی تو الل ہ تعالی ن ے پانی کو دوبار ہ مل دیا‬ ‫جس کے نتیجے میں فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔‬ ‫محققین کے مطابق یہ واقعہ موجودہ سویز شہر اور نہر سویز کے عین بیچوں بیچ واقع‬ ‫‪82‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کڑوی جھیلوں کے درمیان ہوا تھا۔ اس زمانے میں یہ کڑوی جھیلیں سمندر سے ملی ہوئی‬ ‫تھیں۔ے بعد میں جغرافیائی تبدیلیوں کےے نتیجےے میں سمندر پیچھےے ہ ٹ گیا ۔ ایک دوسری‬ ‫روایت کے مطابق یہ واقع "عیون موسی" نامی مقام کے قریب پیش آیا۔‬ ‫الل ہ تعالی کی جانب س ے دلئل ک ے ذریع ے اتمام حجت کا ی ہ معامل ہ صرف رسول کے‬ ‫اولین مخاطبین کےے ساتھے پیش آتا ہے۔ے فرعون کو ہ ر طرح کےے دلئل اور معجزات کے‬ ‫ذریعے قائل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جب اس کے پاس ضد اور ہٹ دھرمی کے علوہ‬ ‫کوئی عذر باقی نہ رہا تو اسے غرق کر دیا گیا۔ سمندر کے شق ہونے اور ہزاروں افراد کے‬ ‫اس میں ڈوب جان ے کا ی ہ واقع ایسا ن ہ تھ ا جس س ے دنیا ب ے خبر رہتی ۔ اس عظیم واقعہ‬ ‫کی خبر دور دور تک پھیل گئی۔ چونکہ اب اللہ کی یہ برہان آ چکی تھ ی اس لئے ارد گرد‬ ‫کی تمام اقوام پر خود بخود اتمام حجت ہ و چکا تھ ا اور اب شرک س ے چمٹ ے رہن ے اور‬ ‫سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلم کی رسالت کو قبول نہ کرنے کے باعث ان پر عذاب آنا‬ ‫تھا۔‬ ‫بنی اسرائیل اب آزاد ہو چکے تھے۔ یہ لوگ اب جزیرہ نما سینا میں سفر کر رہے تھے۔‬ ‫سینا کے علقے میں انہوں نے ایک قوم کو گائے کی پوجا کرتے دیکھا تو سیدنا موسی علیہ‬ ‫الصلو ۃ والسلم سےے فرمائش کی کہے وہے انہیں بھ ی ایسا ہ ی خدا بنا دیں ۔ اس سےے بنی‬ ‫اسرائیل پر غلمی کےے اثرات کا اندازہے لگایا جا سکتا ہے۔ے سیدنا موسی علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم نے اس پر انہیں سخت تنبیہ فرمائی۔‬ ‫بنی اسرائیل پر الل ہ تعالی کی نوازشوں اور رحمتوں کا سلسل ہ جاری رہا ۔ اتنی بڑی‬ ‫تعداد کے لئے خوراک اور پانی کا انتظام آسان کام نہ تھا لیکن اللہ تعالی نے ان پر من و‬ ‫سلوی نازل کیا۔ من‪ ،‬گندم کی قسم کے دانے تھے جو روزانہ ان پر برستے تھے اور سلوی‬ ‫بٹیر کی طرح کا ایک پرندہ تھا جو کثرت سے ان کے خیموں کے گرد جمع ہو جاتے اور بنی‬ ‫اسرائیل ان کو پکڑ کر بھون لیتے۔ پانی کے لئے اللہ تعالی نے بارہ چشمے جاری فرما دیے‬ ‫جو بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے لئے کافی تھے۔‬

‫دس احکام (‪)Ten Commandments‬‬ ‫الل ہ تعالی کا منصوب ہ ی ہ تھ ا ک ہ دنیا میں حق کے علمبرداروں کا ایک ایسا گرو ہ تیار کر دیا‬ ‫جائ ے جو اخلقی اور تمدنی اعتبار س ے دنیا س ے ممتاز ہو ۔ اس گرو ہ کو دنیا میں جزا و‬ ‫سزا کا نمونہ بنا دیا جائے۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اللہ تعالی کے احکام‬ ‫کےے مطابق گزارنےے کےے لئےے اللہے تعالی نےے قانون دینےے کا فیصلہے کیا۔ے اس کےے لئےے سیدنا‬ ‫موسی علیہ الصلوۃ والسلم کو کوہ طور پر طلب کیا گیا۔ یہاں اللہ تعالی نے آپ کو تورات‬ ‫عطا فرمائی جو صدیوں سے بنی اسرائیل کے قانون کا ماخذ ہے۔ اس کے دس احکام (‬ ‫‪ )Ten Commandments‬بہت مشہور ہیں‪:‬‬ ‫‪.1‬میرے حضور تم غیر معبودوں کو نہ ماننا۔‬ ‫‪.2‬تم کسی بھ ی چیز کی صورت کا خوا ہ و ہ اوپر آسمانوں میں یا نیچ ے زمین پر یا پانیوں میں‬ ‫ہو‪ ،‬بت نہ بنانا۔‬ ‫‪.3‬تم خداوند اپنے خدا کا نام بری نیت سے نہ لینا کیونکہ جو اس کا نام بری نیت سے لے گا‪ ،‬خدا‬ ‫اسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا۔‬ ‫‪.4‬سبت (ہفتے) کے دن کو یاد سے پاک رکھنا۔ چھ دن تم محنت سے کام کرنا لیکن ساتواں دن‬ ‫خداوند تمہارے خدا کا سبت ہے۔ اس دن نہ تو تم کوئی کام کرنا اور نہ ہی تمہارا بیٹا یا بیٹی‪،‬‬ ‫نوکر یا نوکرانی‪ ،‬تمہارے چوپائے اور تمہارے پاس مقیم مسافر کوئی کام کریں۔‬ ‫‪.5‬اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنا تاکہ تمہاری عمر اس ملک میں جو خداوند تمہارا خدا تمہیں‬ ‫‪83‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫دیتا ہے‪ ،‬دراز ہو۔‬ ‫‪.6‬تم (کسی کا) خون نہ کرنا۔‬ ‫‪.7‬تم زنا نہ کرنا۔‬ ‫‪.8‬تم چوری نہ کرنا۔‬ ‫‪.9‬تم اپنے پڑوسی کے خلف جھوٹی گواہی نہ دینا۔‬ ‫‪.10‬تم اپنے پڑوسی کے گھر کا للچ نہ کرنا۔ تم اپنے پڑوسی کی بیوی (کے حصول) کا للچ نہ کرنا‬ ‫اور ن ہ ہ ی اس ک ے غلم یا کنیز کا‪ ،‬ن ہ اس ک ے بیل یا گدھے کا اور ن ہ ہ ی کسی اور چیز کا۔‬ ‫(کتاب خروج ‪)17-20:3‬‬

‫قرآن مجید ن ے ان احکام کو میثاق س ے تعبیر کیا ہے۔ غلمی ک ے ادار ے کا خاتم ہ کرن ے کے‬ ‫لئے یہ قانون بنایا گیا کہ اگر بنی اسرائیل کوئی غلم یا کنیز خریدیں تو اس سے چھ سال‬ ‫خدمت لی جائےے اور ساتویں سال و ہ خود بخود آزاد ہ و جائے۔ے اگر کوئی اپنی کنیز کے‬ ‫حقوق ادا نہ کرے تو وہ خود بخود آزاد ہو جائے گی۔‬ ‫بنی اسرائیل کو تفصیلی فوجداری قوانین دی ے گئے۔ ان ک ے کاروبار ک ے قوانین بنائے‬ ‫گئے۔ے انہیں عدل و انصاف کی تلقین کی گئی۔ے ان کی دولت کا بڑا حصہے جانوروں پر‬ ‫مشتمل تھا اس لئےے ان کےے ہاں قربانی کی عبادت کو خاص اہمیت دی گئی اور ہر‬ ‫معاملےے میں جانوروں کی قربانی پیش کرنےے کا حکم دیا گیا۔ے اس کا مقصد یہے تھ ا کہ‬ ‫غریب لوگوں کی خوراک کا مستقل انتظام کیا جا سکے۔ے ان کےے ہاں زکوۃے کا مفصل‬ ‫قانون نازل کیا گیا ۔ ان ک ے ہاں زرعی پیداوار پر زکو ۃ ک ے وہ ی ریٹ مقرر کی ے گئ ے جو‬ ‫ہماری شریعت میں مقرر کیے گئے ہیں۔‬ ‫غریب لوگوں کی مدد کرنےے اور ان سےے عدل و انصاف کرنےے کےے خاص اہمیت دی‬ ‫گئی ۔ رشوت لین ے س ے منع کیا گیا اور مسافروں اور دوسری اقوام کے لوگوں سے اچھا‬ ‫سلوک کرنے کی تلقین کی گئی۔ ان کے لئے تین عیدیں مقرر کی گئیں۔ ان میں سے ایک‬ ‫کو "عید فطیر" کہا گیا۔ اس دن بے خمیری روٹیاں پکانے اور قربانی دینے کا حکم دیا گیا۔‬ ‫فصل اترنے کے موقع پر بھی عید منانے کا حکم دیا گیا اور زمین کے پھلوں میں سے اللہ‬ ‫کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا۔‬ ‫بنی اسرائیل کو ایک اجتماعی عبادت گا ہ بنان ے کا حکم دیا گیا جو ک ہ "خیم ہ اجتماع"‬ ‫کہلئی۔ اس کا پورا ڈیزائن کتاب خروج میں دیا گیا ہے۔‬

‫بچ ھڑ ے کی پوجا‬ ‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کو اللہے تعالی نےے چالیس راتوں ک ے لئ ے کو ہ طور پر‬ ‫بلیا۔ آپ کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کے کچھ مفسدین نے سونے کا ایک بچھڑا‬ ‫بنایا اور لوگوں کو اس کی عبادت کی ترغیب دی۔ غلمانہ ذہنیت کے حامل بنی اسرائیل‬ ‫کی بڑی تعداد اس فتن ے میں مبتل ہ و گئی ۔ سیدنا ہارون علی ہ الصلو ۃ والسلم کی شدید‬ ‫کوشش کےے باوجود بھی یہے لوگ اس سےے باز نہے آئے۔ے جب سیدنا موسی علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم واپس آئےے تو آپ اس پر بہت ناراض ہوئےے اور اللہے تعالی کےے حکم سےے ان‬ ‫مفسدین کو موت کی سزا دی گئی جنہوں ن ے بنی اسرائیل کو اس گمراہ ی کی طرف‬ ‫لگایا تھا۔‬ ‫بائبل کی کتاب خروج (‪ ، ) Exodus‬احبار (‪ ) Leviticus‬اور استثنا (‪ ) Deuteronomy‬میں‬ ‫بنی اسرائیل کو دیے گئے قوانین کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ واضح طور پر نظر آتا ہے‬ ‫کہے ان کتب میں اللہے تعالی کےے دیےے گئےے قانون کےے علوہے ان کےے علماء کےے اجتہادات‪،‬‬ ‫مفسرین کے تفاسیری نکات‪ ،‬تاریخی روایات‪ ،‬قانونی موشگافیاں اور یہاں تک کہ ان کے‬ ‫‪84‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫حکیموں ک ے نسخ ے بھ ی درج کر دی ے گئ ے ہیں ۔ ہماری شریعت کی طرح ان ک ے ہاں بھی‬ ‫جسمانی اور اخلقی و روحانی پاکیزگی کو بہ ت اہمیت دی گئی اور شرک س ے سختی‬ ‫سے روکا گیا ہے۔‬ ‫ازدواجی تعلقات سے متعلق ان کے قوانین بھی تقریبا ً ہماری شریعت سے ملتے جلتے‬ ‫ہیں ۔ سگی و سوتیلی ماں‪ ،‬بہن‪ ،‬بیٹی‪ ،‬پوتی‪ ،‬نواسی‪ ،‬پھوپھی‪ ،‬خالہ ‪ ،‬چچی‪ ،‬بہو‪ ،‬بھاوج‪،‬‬ ‫سوتیلی بیٹی سب سے ازدواجی تعلقات ممنوع قرار دیے گئے۔ ایک نکاح میں دو بہنوں کو‬ ‫جمع کرنا منع کیا گیا ۔ ہ م جنس پرستی اور جانوروں س ے جنسی تعلقات کو حرام قرار‬ ‫دیا گیا۔ مختلف جنسی جرائم پر سزائیں مقرر کی گئیں۔‬

‫بنی اسرائیل ک ے لئ ے دنیا ہی میں جزا و سزا کا قانون‬ ‫بنی اسرائیل کو ی ہ بتا دیا گیا ک ہ الل ہ تعالی کی فرمانبرداری کا بدل ہ انہیں اسی دنیا میں‬ ‫ملے گا اور اس کی نافرمانی کی سزا بھی انہیں اسی دنیا میں دی جائے گی۔ ایسا کرنے‬ ‫کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کی دوسری اقوام اس سے عبرت پکڑیں کہ یہی معاملہ ان کے ساتھ‬ ‫آخرت میں ہوگا۔ے بنی اسرائیل کا یہے معاملہے تمام نسل انسانیت کےے لئےے اللہے کےے وجود‪،‬‬ ‫آخرت کی زندگی اور اس ک ے رسولوں ک ے برحق ہون ے کا بین ثبوت ہے۔ اب جس کی‬ ‫مرضی ہے وہ اسے مان کر جنت کا مستحق ہو اور جس کی مرضی وہ انکار کر کے جہنم‬ ‫کا سزاوار ٹھہرے۔ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬ ‫(اے بنی اسرائیل!) اگر تم میری شریعت پر چلو گے اور میرے احکام کو ماننے میں محتاط رہو گے‬ ‫تو میں تہمارے لئے بروقت بارش برساؤں گا‪ ،‬زمین اپنی پیداوار دے گی اور میدان کے درخت اپنے‬ ‫پھ ل دیں گے۔۔۔۔ تم اپن ے ملک میں حفاظت س ے بس ے رہ و گے اور میں ملک میں امن بخشوں گا۔‬ ‫تم سوؤ گے اور کوئی تمہیں پریشان نہ کرے گا۔ میں جنگلی درندوں کو تمہارے ملک سے بھگا دوں‬ ‫گا۔ تلوار تمہارے ملک میں نہ چلے گی۔ تم اپنے دشمنوں کا تعاقب کرو گے اور وہ تہمارے آگے تلوار‬ ‫سے مارے جائیں گے۔ تمہارے پانچ آدمی سو کو اکھاڑ پھینکیں گے اور تمہارے سو آدمی دس ہزار پر‬ ‫غالب آئیں گے۔۔۔۔۔‬ ‫اگر تم میری نہ سنو گے ۔۔۔ میرے عہد کی خلف ورزی کرو گے تو میں ناگہانی دہشت‪ ،‬گھل دینے‬ ‫والی بیماریوں اور بخار تم پر بھیجوں گا جو تمہاری بینائی سلب کر لیں گے اور تمہاری جان لے‬ ‫لیں گے۔ تم بیکار بیج بوؤ گ ے کیونک ہ ان کا پھ ل تمہار ے دشمن کھائیں گے۔ میں تمہارا مخالف ہو‬ ‫جاؤں گا اور تم اپنے دشمنوں سے شکست کھاؤ گے۔۔۔۔ میں تمہارے اوپر آسمان کو لوہے اور نیچے‬ ‫زمین کو کانسی کی بنا دوں گا (یعنی تمہیں ان سے فائدہ حاصل نہ ہو گا)۔ زمین تمہیں پیداوار نہ‬ ‫دے گی اور نہ ملک کے درخت تمہیں فائدہ دیں گے۔۔۔۔ میں تمہارے خلف جنگلی درندوں کو بھیجوں‬ ‫گا‪ ،‬وہ تمہارے بچوں کو اٹھا لے جائیں گے اور تمہارے مویشیوں کو تباہ کر دیں گے۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے‬ ‫شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دوں گا ۔۔۔۔ تمہیں قوموں میں منتشر کر دوں گا۔۔۔۔۔ تم اپنے‬ ‫دشمنوں ک ے ملکوں میں رہ و گ ے ۔۔۔۔ جب تک و ہ دشمنوں ک ے ملک میں رہیں گے ‪ ،‬میں ان کو‬ ‫بالکل مسترد نہ کروں گا اور نہ ہی ان کے ساتھ ایسی نفرت کروں گا کہ ان کے ساتھ اپنے عہد کو‬ ‫توڑ کر انہیں فنا کر دوں۔ میں خداوند ان کا خدا ہوں۔ (کتاب احبار‪ ،‬باب ‪)26‬‬

‫بنی اسرائیل کی پوری تاریخ گوا ہ ہے ک ہ ان ک ے سات ھ ایسا ہ ی ہوا ۔ شریعت دین ے ک ے بعد‬ ‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم ن ے انہیں فوج کی صورت میں منظم کیا اور ان کی‬ ‫مردم شماری کی۔ بائبل کی کتاب گنتی کےمطابق ان کی تعداد ‪ 603,550‬تھی ۔ ہر قبیلے‬ ‫کو مختلف ذمےے داریاں تفویض ہوئیں۔ے سیدنا ہارون علیہے الصلوۃے والسلم کی اولد بنی‬ ‫لوی کو مذہبی ذمہ داریاں سوپنی گئیں۔ آپ نے ذہین اور تیز افراد پر مشتمل ایک انٹیلی‬ ‫جنس یونٹ بھی قائم کیا جس نے ملک فلسطین‪ ،‬جو اس وقت کنعان کہلتا تھا‪ ،‬کا جائزہ‬ ‫لے کر ایک تفصیلی رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کی۔‬ ‫‪85‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫بائبل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ارد گرد کی اقوام فرعون کے غرق کے واقعہ سے پوری‬ ‫طرح باخبر تھیں اور ان کے عوام میں س ے بہ ت س ے لوگ دل ہ ی دل میں سیدنا موسی‬ ‫علیہے الصلوۃے والسلم کی رسالت کو تسلیم کر چکےے تھے۔ے جب ان اقوام کو ان کی‬ ‫سرکشی اور شرک س ے تعلق ک ے باعث سزا دین ے ک ے لئ ے لشکر کشی کی گئی تو ان‬ ‫لوگوں ن ے بنی اسرائیل ک ے لشکروں کا سات ھ دیا ۔ الل ہ تعالی ک ے حکم س ے سیدنا موسی‬ ‫علی ہ الصلو ۃ والسلم ن ے بنی اسرائیل کو ارد گرد کی اقوام پر لشکر کشی کا حکم دیا۔‬ ‫بنی اسرائیل ایک طویل عرصےسے غلمی زندگی بسر کر رہے تھے اور نہایت ہی بزدل ہو‬ ‫چکے تھے۔ کہنے لگے‪" ،‬اے موسی! تم اور تمہارا خدا ہی ان سے جا کر لڑو‪ ،‬ہم تو یہ بیٹھے‬ ‫ہیں۔" بائبل کے مطابق انہوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور کہا‪:‬‬ ‫"کاش ک ہ ہ م مصر ہ ی میں مر جات ے یا بیابان ہ ی میں ڈھیر ہ و جاتے۔ خداوند ہمیں اس ملک میں‬ ‫کیوں لیا ہے؟ کیا صرف اس لئ ے کہ ہ م تلواروں سے قتل کئ ے جائیں؟ ہماری بیویاں اور بچ ے لوٹ‬ ‫کا مال بن جائیں؟ کیا ہمارے لئے یہ بہتر نہ ہوگا ہم واپس مصر چلیں؟" (کتاب گنتی ‪)4-14:3‬‬

‫الل ہ تعالی ن ے بنی اسرائیل کو جزیر ہ نما سینا ک ے صحرا میں قید کر دیا ۔ ان لوگوں کو‬ ‫یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملتا تھا۔ چالیس سال یہ یہیں قید رہے۔ سیدنا موسی علیہ‬ ‫الصلو ۃ السلم ن ے انہیں بتا دیا ک ہ سوائ ے یشوع بن نون اور کالب بن یفن ہ (علیہما الصلوۃ‬ ‫السلم) کے ان میں سے کوئی اب فلسطین میں داخل نہ ہو سکے گا۔ یہ دونوں حضرات‬ ‫نہایت ہی اولوالعزم اور ثابت قدم تھے۔ ان کی بنی اسرائیل میں وہی حیثیت ہے جو ہمارے‬ ‫ہاں سیدنا ابوبکر و عمر رضی الل ہ عنہما کو حاصل ہے۔ اس چالیس سال ک ے دوران ان‬ ‫کی پرانی نسل ک ے افراد دنیا س ے رخصت ہوئ ے اور نئی نسل صحرا ک ے کھل ے اور آزاد‬ ‫ماحول میں پل کر جوان ہوئی۔ اس نسل کے افراد کی دینی‪ ،‬اخلقی اور عسکری تربیت‬ ‫کا بھرپور انتظام کیا گیا۔ چالیس سال کے عرصے میں ایک نئی قوم تیار تھی جو اللہ کے‬ ‫دین سے پوری طرح وابستہ تھی۔‬ ‫بنی اسرائیل کے اس لشکر نے موجودہ اردن اور فلسطین کے جنوبی حصوں پر حملہ‬ ‫کیا اور یہاں موجود قوموں جن میں عمالیقی اور ادومی شامل تھے ‪ ،‬مفتوح کر لیا۔‬ ‫ادومی سیدنا یعقوب علیہ الصلوۃ السلم کے بھائی عیسو علیہ الرحمۃ کی اولد تھے۔ ابتدا‬ ‫میں بنی اسرائیل ن ے ان س ے صرف گزرن ے کا راست ہ مانگا تھ ا لیکن انہوں ن ے راست ہ دینے‬ ‫سے انکار کیا تھا۔ بنی اسرائیل کے بعض لوگوں نے سیدنا موسی علیہ الصلوۃ السلم کی‬ ‫نافرمانی کی اور آپ سے بغاوت پر آمادہ ہوئے جس پر اللہ تعالی نے سانپ بھیجے جنہوں‬ ‫نے ان لوگوں کو کاٹ کر ہلک کر دیا۔‬ ‫آگ ے اموریوں کی حکومت تھی ۔ ان س ے بھ ی راست ہ مانگا گیا لیکن و ہ مقابل ے پر اتر‬ ‫آئے۔ بنی اسرائیل اب اللہ تعالی کے نہایت فرمانبردار بندے تھے۔ اموریوں اور پھر ان سے‬ ‫آگےے موآبیوں کی افواج ان کےے آگےے نہے ٹک سکیں اور موجودہے اردن کا پورا علقہے بنی‬ ‫اسرائیل ک ے زیر تسلط آ گیا ۔ اس موقع پر دوبار ہ بنی اسرائیل کی مردم شماری کی‬ ‫گئی۔ے اب ان کی تعداد چھے لکھے کےے قریب تھی۔ے اسی دوران سیدنا ہارون علیہے الصلوۃ‬ ‫السلم نے وفات پائی۔‬ ‫بنی اسرائیل اب یریحو شہ ر کےے مقابل خیمہے زن ہوئےے اور دریائےے اردن پار کر کے‬ ‫فلسطین پر حملے کی تیاری کرنے لگے۔ بنی اسرائیل کو اعلی اخلق کی ہدایات دی‬ ‫گئیں ۔ انہیں بتایا گیا ک ہ انہیں دوسری قوموں ک ے طور طریقوں سےے دور رہنا ہے۔ے انہیں‬ ‫شرک سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی اور جنگ کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئیں۔‬

‫‪86‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کی وفات‬ ‫سیدنا موسی علیہ الصلوۃ السلم نے اس موقع پر تمام شرعی احکام کو تفصیل سے لکھ‬ ‫کر بنی اسرائیل کو دیا۔ے اس کےے بعد آپ کوہے نیبو پر تشریف لےے گئےے جہاں آپ کو‬ ‫فلسطین کا پورا ملک دکھایا گیا ۔ یہیں آپ ن ے وفات پائی ۔ آپ کا زمانہے ‪ 1500-1400‬قبل‬ ‫مسیح کا ہے۔‬ ‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ السلم کی وفات ک ے بعد آپ ک ے خلیف ہ اول یشوع بن نون‬ ‫علیہ الصلوۃ السلم کی حکومت آئی۔ جناب یشوع کو بنی اسرائیل میں وہی مقام حاصل‬ ‫ہے جو ہمارے ہاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ حربی صلحیتوں کے اعتبار سے آپ کا‬ ‫موازن ہ سیدنا خالد بن ولید رضی الل ہ عن ہ س ے کیا جا سکتا ہے۔ آپ کی جنگی صلحیتوں‬ ‫کی بدولت بنی اسرائیل ن ے جلد ہ ی فلسطین کا بیشتر علق ہ فتح کر لیا اور اس ے شرک‬ ‫کی غلظت سےے پاک کر دیا۔ے ان جنگوں میں آپ نےے فرزی‪ ،‬حتی‪ ،‬کنعانی‪ ،‬جرجاسی‪،‬‬ ‫حوی اور یبوسی اقوام سے مقابلہ کر کے انہیں فتح کیا۔‬ ‫ان جنگوں میں دوسری اقوام ک ے ان لوگوں ن ے آپ کا سات ھ دیا جو فرعون کے غرق‬ ‫کے واقعے سے متاثر ہو کر ایمان قبول کر چکے تھے۔ ان جنگوں کے بعد شرک کو جڑ سے‬ ‫اکھاڑ پھینکا گیا اور ان قوموں ک ے ان تمام لوگوں کو ہلک کر دیا گیا جو ایمان ن ہ لئے‬ ‫تھے۔ ایسا اس وج ہ س ے ہوا تھ ا ک ہ فرعون ک ے غرق ک ے بعد ان پر الل ہ کی حجت تمام ہو‬ ‫چکی تھی اور اب شرک پر قائم رہنے کے لئے ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہا تھا۔ بنی‬ ‫اسرائیل کے مختلف قبائل کو مختلف علقوں میں آباد کیا گیا اور بڑی تعداد میں مساجد‬ ‫اور قربان گاہیں تعمیر کی گئیں۔ بنی اسرائیل اور نئے ایمان لنے والوں کو تاکید کی گئی‬ ‫کہ وہ شرک کبھی اختیار نہ کریں اور اللہ کی دی ہوئی شریعت کی پیروی کریں۔‬

‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم ک ے مانند ایک اور‬ ‫رسول‬ ‫بائبل میں اللہ تعالی کا یہ فرمان درج ہے۔‬

‫(ا ے موسی!) میں ان ک ے لئ ے انہ ی ک ے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک رسول برپا کروں گا اور‬ ‫میں اپنا کلم اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ انہیں وہ سب کچ ھ بتائے گا جس کا میں اسے حکم‬ ‫دوں گا ۔ اگر کوئی شخص میرا کلم جس ے و ہ میر ے نام س ے کہے گا‪ ،‬ن ہ سن ے گا تو میں خود اس‬ ‫سے حساب لوں گا۔ (کتاب استثنا ‪)19-18:18‬‬

‫بنی اسرائیل کے بھائی دو قبائل ہ ی ہو سکتے تھے۔ ایک بنی اسماعیل اور دوسرے سیدنا‬ ‫اسحاق علیہے الصلو ۃ السلم ک ے بیٹ ے عیسو رضی الل ہ عنہے کی اولد جو ک ہ ادومی کہلتے‬ ‫ہیں ۔ بائبل اس بات کی خود گوا ہ ہے ک ہ ادومیوں ک ے ہاں کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا۔‬ ‫دوسری طرف بنی اسماعیل میں سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے‬ ‫کوئی اور رسول مبعوث نہیں ہوا ۔ تاریخ میں نبوت و رسالت کا دعوی کرن ے والوں میں‬ ‫سوائ ے سیدنا محمد علی ہ الصلو ۃ السلم ک ے کوئی ایسی شخصیت نہیں جس ک ے بارے‬ ‫میں یہ کہا جا سکے کہ اس کی نبوت و رسالت میں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ السلم سے‬ ‫مشابہت پائی جاتی ہے۔‬ ‫انبیاء کرام علیہ م الصلو ۃ السلم کی پوری تاریخ میں صرف سیدنا موسی و محمد‬ ‫علیہما الصلوۃ السلم ہی ایسی دو ہستیاں ہیں جن کی اقوام کے باشندوں نے کثیر تعداد‬ ‫میں ایمان قبول کیا۔ اس سے پہلے جن رسولوں کے ذریعے اللہ تعالی نے آسمانی عدالت‬ ‫‪87‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫زمین پر قائم کی تھی ان پر ایمان لنے والوں کی تعداد بہت کم تھی جس کے باعث ان‬ ‫اقوام پر اللہ کا عذاب قدرتی آفات کی صورت میں آیا اور انہیں زلزلے یا آگ کی بارش‬ ‫کی ذریعے تباہ کر دیا گیا۔‬ ‫سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ السلم پر لکھوں کی تعداد میں بنی اسرائیل ایمان لئے۔‬ ‫فرعون ک ے غرق ہون ے ک ے عظیم واقع ہ ک ے بعد ارد گرد کی اقوام پر الل ہ کی جو حجت‬ ‫پوری ہوئی تھی‪ ،‬اس ک ے نتیج ے میں ان اقوام پر حمل ہ کیا گیا اور ان ک ے جن افراد نے‬ ‫ایمان قبول نہیں کیا اور شرک سے چمٹے رہے‪ ،‬انہیں ہلک کر دیا گیا۔‬ ‫بعینہ یہی معاملہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور میں پیش آیا۔ آپ‬ ‫کی قوم یعنی بنی اسماعیل کے بڑے حصے نے شرک کو چھوڑ کر آپ کی دعوت پر لبیک‬ ‫کہا۔ جو لوگ ایمان نہ لئے تھے‪ ،‬سورہ توبہ میں دی گئی ہدایات کے مطابق انہیں موت کی‬ ‫سزا دی گئی۔ مک ہ فتح ہون ے س ے ل ے کر پور ے عرب کا مفتوح ہونا ایسا واقع ہ تھ ا جو ارد‬ ‫گرد کی اقوام کے لئے اللہ کی طرف سے آخری حجت تھا۔‬ ‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے ارد گرد کی اقوام کے سربراہوں کو خط‬ ‫لکھ کر الٹی میٹم دے دیا تھا ۔ ان میں سوائے نجاشی‪ ،‬جو کہ اہل کتاب میں سے تھے‪ ،‬کے‬ ‫کوئی ایمان نہ لیا تھا۔ جس طرح سیدنا موسی کے خلفاء یوشع اور کالب علیہما الصلوۃ‬ ‫والسلم ن ے اس اتمام حجت ک ے نتیج ے میں ارد گرد کی مشرک اقوام پر الل ہ کا عذاب‬ ‫نازل کیا تھ ا بالکل اسی سیدنا محمد صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم ک ے خلفا ابوبکر و عمر‬ ‫رضی اللہ عنہما نے ارد گرد کی اقوام پر اللہ کا عذاب نازل کیا جس کے نتیجے میں روم‬ ‫اور ایران کی دو سپر پاورز مفتوح ہوئیں ۔ اس کے علوہ ان کے باجگزار علقے مصر اور‬ ‫شمالی افریقہ فتح ہوئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ سیدنا یوشع و کالب کے دور میں کی جانے‬ ‫والی کاروائیوں کےے نتیجےے میں ایمان نہے لنےے کی سزا موت دی گئی تھ ی جبکہے سیدنا‬ ‫ابوبکر و عمر کے دور میں کی جانے والی کاروائی میں مغلوبیت کی سزا مقرر کی گئی‬ ‫تھی۔‬ ‫شرک ک ے خلف کی جان ے والی ان دو عالمگیر کاروائیوں ک ے نتیج ے میں متمدن دنیا‬ ‫سےے بالخر شرک کا ایک غالب قوت کےے طور پر خاتمہے ہ و گیا ۔ آج دنیا کی کئی اقوام‬ ‫شرک میں مبتل ضرور ہیں لیکن ان میں سے کوئی شرک کا علم بردار بن کر کھڑا نہیں‬ ‫ہوتا۔ بہت سے مشرکانہ مذاہب بھی مختلف تاویلوں کے ذریعے خود کو اہل توحید ہی کہتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫سیدنا موسی علیہ الصلوۃ السلم نے اپنی وفات سے قبل بنی اسرائیل کے سامنے جو‬ ‫آخری خطبہ دیا اس میں آپ نے فرمایا‪:‬‬ ‫"خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر ظاہر ہوا اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا۔ وہ جنوب سے‬ ‫اپنی پہاڑی ڈھلنوں میں سےے ‪ 10,000‬مقدسوں کےے ساتھے آیا اور اس کےے دائیں ہاتھے میں نورانی‬ ‫شریعت تھی۔" (کتاب استثنا ‪)3-33:2‬‬

‫آپ کے اس ارشاد میں اللہ تعالی کی اس مدد کا ذکر کیا گیا ہے جو بنی اسرائیل کو‬ ‫وقتا فوقتا نصیب ہوئی ۔ اس میں آپ ن ے محمد رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم کے‬ ‫اس لشکر کا ذکر بھ ی کیا ہے جو دس ہزار کی تعداد میں مدین ہ کی پہاڑی ڈھلنوں میں‬ ‫سے نکل اور اس نے مقدسوں کے شہر مکہ مکرمہ کو فتح کر کے اللہ کی شریعت کو دنیا‬ ‫پر نافذ کر دیا۔‬

‫‪88‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫بنی اسرائیل کا پ ہل عروج‬ ‫سیدنا یشوع علیہ الصلوۃ السلم کی وفات کے بعد موجودہ فلسطین اور لبنان کے علقے‬ ‫فتح ہوئے۔ آپ کے بعد سیدنا کالب بن یفنہ علیہ الصلوۃ السلم کو خلیفہ مقرر کیا گیا ۔ ان‬ ‫کا موازنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کیا جا سکتا ہے۔‬ ‫اس ک ے بعد کی تاریخ الل ہ تعالی کی طرف س ے جزا و سزا کی تاریخ ہے۔ جب جب‬ ‫بنی اسرائیل توحید اور نیکی س ے وابست ہ رہے ‪ ،‬امن س ے رہے اور انہیں خوشحالی نصیب‬ ‫ہوئی۔ اور جب کبھی انہوں نے بدی کی راہ اختیار کی‪ ،‬انہیں اس کی سزا اس طرح ملی‬ ‫کہ ارد گرد کی اقوام ان پر حملہ آور ہوتی رہیں اور انہیں غلم بناتی رہیں۔ سزا پا کر ان‬ ‫ک ے ہاں اصلحی تحریکیں شروع ہوتیں اور ی ہ لوگ الل ہ کی طرف رجوع کرت ے جس کے‬ ‫نتیجے میں اللہ تعالی پھر انہیں غلبہ اور سرفرازی عطا فرما دیتا۔ بائبل کی کتاب قضاۃ (‬ ‫‪ ) Judges‬تین چار سو سال کےے اسی دور کی تاریخ پر مبنی ہے۔ے اس دور میں دشمن‬ ‫اقوام نے بنی اسرائیل پر حملہ کر کے ان سے وہ تابوت بھی چھین لیا تھا جس میں سیدنا‬ ‫موسی علیہ الصلوۃ السلم کے تبرکات اور تورات کے اصل نسخے کی تختیاں تھیں۔‬

‫بادشا ہت کا دور‬ ‫بنی اسرائیل کی حکومت قاضیوں (‪ ) Judges‬ک ے ہات ھ میں آئی ۔ ی ہ ایک جمہوری نظام تھا‬ ‫جس میں اجتماعی طریقےے سےے حکومت کی جاتی۔ے اسی عرصےے میں ان میں سیدنا‬ ‫سموئیل علیہ الصلو ۃ السلم مبعوث ہوئے۔ آپ کے دور میں بنی اسرائیل نے یہ مطالبہ کیا‬ ‫کہ ان میں ایک بادشاہ مقرر کیا جائے تاکہ ہم اس کی قیادت میں اللہ کی راہ میں جہاد کر‬ ‫سکیں۔‬ ‫سیدنا سموئیل علی ہ الصلو ۃ السلم ن ے انہیں خبردار کیا ک ہ تم بادشاہ ت ک ے طالب ہو۔‬ ‫بادشا ہ تمہار ے سات ھ ظلم کریں گے ‪ ،‬تمہار ے بیٹوں س ے خدمت لیں گ ے اور بیٹیوں کو اپنا‬ ‫غلم بنائیں گ ے لیکن انہوں ن ے اپنا اصرار جاری رکھ ا جس پر طالوت (ساؤل) رضی اللہ‬ ‫عنہ کو ان کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ بنی اسرائیل نے اعتراض کیا کہ ایک غریب آدمی ان کا‬ ‫بادشا ہ کیس ے بن گیا ۔ اس پر سیدنا سموئیل علی ہ الصلو ۃ السلم ن ے انہیں بتایا ک ہ طالوت‬ ‫جسمانی اور علمی اعتبار سے ان میں سب سے بہتر ہیں۔‬ ‫طالوت نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ فلستی قوم کا ایک نامور‬ ‫پہلوان جالوت (‪ ) Goliath‬تھ ا جس کےے مقابلےے کی کسی کو ہمت نہے ہ و رہ ی تھی۔ے بنی‬ ‫اسرائیل ک ے لشکر ک ے ایک عام سپاہ ی داؤد علی ہ الصلو ۃ السلم ن ے جالوت (‪ ) Goliath‬کا‬ ‫مقابلہ کر کے اسے ہلک کردیا۔ اس واقعہ کے بعد طالوت نے آپ کی شادی اپنی بیٹی سے‬ ‫کر دی اور طالوت کے بعد آپ ان کے بادشاہ مقرر ہوئے۔‬ ‫بائبل کی تاریخی کتب سموئیل ‪ 1‬اور ‪ 2‬میں جناب طالوت اور سیدنا داؤد علیہ الصلوۃ‬ ‫السلم ک ے بار ے میں کئی گستاخیاں درج کی گئی ہیں جن پر انبیاء کرام علیہ م الصلوۃ‬ ‫السلم پر سچا ایمان رکھنے وال کوئی شخص یقین نہیں کر سکتا۔‬ ‫سیدنا داؤد علیہے الصلوۃے السلم کےے دور میں یروشلم فتح ہوا اور آپ نےے اسےے اپنا‬ ‫دارالحکومت بنایا ۔ آپ کی حکومت موجود ہ شام‪ ،‬فلسطین اور اردن ک ے تمام علقوں‬ ‫میں پھیل گئی۔ آپ پر اللہ کی کتاب زبور نازل ہوئی جس میں نہایت ہی دلنشیں شاعری‬ ‫موجود تھی۔ یہ شاعری انسان کو خدا کے قریب کرتی تھی اور اس کا تزکیہ نفس کرتی‬ ‫تھی ۔ آج بھ ی یہودی و مسیحی عبادات میں زبور کی نظموں کو ذوق و شوق س ے پڑھا‬ ‫‪89‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫جاتا ہے۔‬ ‫سیدنا داؤد علیہ الصلو ۃ السلم کے بعد آپ کے بیٹے سیدنا سلیمان علیہ الصلو ۃ السلم‬ ‫آپ کے جانشین ہوئے جن کے دور میں بنی اسرائیل کی حکومت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔‬ ‫یہ اللہ تعالی کے اسی وعدے کا ایفا تھا جو نیکی سے وابستگی پر بنی اسرائیل سے کیا گیا‬ ‫تھا۔ے جناب طالوت‪ ،‬داؤد اور سلیمان کا زمانہے ‪ 1030‬سےے ‪ 926‬قبل مسیح کا زمانہے ہے۔‬ ‫سیدنا سلیمان علی ہ الصلو ۃ السلم ک ے زمانےے میں بیت المقدس کی عظیم مسجد کی‬ ‫تعمیر ہوئی جو یہود کی تاریخ میں ہیکل سلیمانی کہلتی ہے۔‬ ‫سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ السلم پر بھی بنی اسرائیل نے شرک کا الزام لگایا۔ قرآن‬ ‫مجید نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ سلیمان علیہ الصلوۃ السلم اللہ تعالی کی‬ ‫توحید سےے پوری طرح وابستہے تھےے اور ہ ر طرح کےے شرک سےے پاک تھے۔ے اس سےے ان‬ ‫لوگوں ک ے اخلقی انحطاط کا انداز ہ کیا جا سکتا ہے ک ہ انہوں ن ے الل ہ ک ے نبیوں پر الزام‬ ‫تراشی سے بھی اجتناب نہ کیا۔‬

‫بنی اسرائیل کا پ ہل فساد‬ ‫سیدنا سلیمان علی ہ الصلو ۃ السلم ک ے بعد بنی اسرائیل پر پھ ر دنیا پرستی کا غلب ہ ہوا۔‬ ‫سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ السلم کی اولد گمراہی کا شکار ہو گئی۔ انہوں نے آپس میں‬ ‫لڑ کر دو سلطنتیں قائم کر لیں۔ شمال کی سلطنت کا نام "اسرائیل (‪ " )Israel‬تھا جس‬ ‫کا پایہے تخت "سامریہ " تھا۔ے یہے سلطنت موجودہے لبنان کےے بیشتر علقوں پر قائم تھی۔‬ ‫جنوبی سلطنت کا نام "یہودیہے (‪ ")Judea‬تھ ا جس کا دارالحکومت یروشلم تھا۔ے شمالی‬ ‫سلطنت کچ ھ ہ ی عرص ے میں ہمسای ہ قوموں ک ے مشرکان ہ عقائد اور اخلقی فساد سے‬ ‫متاثر ہوئی۔‬ ‫بائبل کی کتاب سلطین کےے مطابق اسرائیل کےے فرمانروا اخی اب نےے مشرک‬ ‫شہزادی ایزبل س ے شادی کر لی اور بعل دیوتا کی پوجا کرن ے لگا ۔ ایزبل ن ے دین شرک‬ ‫کو پھیلن ے ک ے لئ ے خدا ک ے نیک بندوں جن میں انبیاء بھ ی شامل تھے ‪ ،‬قتل کروانا شروع‬ ‫کر دیا ۔ سیدنا الیاس اور ان ک ے خلیف ہ الیسع علیہما الصلو ۃ السلم ن ے اس اخلقی زوال‬ ‫کو روکنے کی پوری کوشش کی لیکن بنی اسرائیل نے ان کی دعوت قبول نہ کی۔ سیدنا‬ ‫الیسع علی ہ الصلو ۃ السلم ن ے نیک لوگوں کی ایک فوج تیار کی جس کا سربرا ہ یاہ و کو‬ ‫بنایا۔‬ ‫اسرائیل کی سلطنت پر اللہ نے قحط اور شام کے باشندوں اشوریوں کے حملوں کی‬ ‫صورت میں چھوٹے چھوٹے عذاب نازل کئے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے۔ یاہو نے لشکر کشی کر‬ ‫کے اخی اب کے پورے گھرانےکو قتل کیا اور اس کی بیوی ایزبل خواجہ سراؤں کے ہاتھوں‬ ‫قتل ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے بعل کے ان پجاریوں کا قتل عام کر دیا جو اہل توحید کو‬ ‫زبردستی بعل کی پوجا پر مجبور کرتے تھے۔ اخی اب کے بعد یاہو کی حکومت قائم ہوئی‬ ‫جو آگے چل کر پھر گمراہی میں مبتل ہو گئی۔‬ ‫اسرائیل کی سلطنت پر بہت س ے بادشاہوں ن ے حکومت کی۔ آخری بادشاہ ہوسیع تھا‬ ‫جس ے عراق ک ے اشوریوں ن ے ہلک کر دیا اور بنی اسرائیل کو ان ک ے گناہوں ک ے باعث‬ ‫جلوطنی اور غلمی کی سزا ملی۔ یہ واقعہ لگ بھگ ‪ 700‬قبل مسیح کا ہے۔‬ ‫دوسری طرف یہودیہے کی جنوبی سلطنت تھ ی جس کا اخلقی زوال اسرائیل کی‬ ‫نسبت سست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں زیادہ مہلت دی۔ اس پر بھی اشوریوں‬ ‫کے حملے ہوئے لیکن یہ مکمل ختم نہ ہو سکی بلکہ ان کی باج گزار بن گئی۔ اللہ نے ان کی‬ ‫‪90‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫طرف پے در پے نبی بھیجے جن میں حزقیاہ‪ ،‬عاموس‪ ،‬یسعیاہ‪ ،‬یرمیاہ‪ ،‬یوایل اور بہت سے‬ ‫دیگر انبیاء علیہ م الصلو ۃ السلم شامل ہیں ۔ ان انبیاء کی دعوت پران ے عہ د نام ے کے آخر‬ ‫میں دیےے گئےے صحائف س ے واضح ہے۔ بنی اسرائیل نےے ان نبیوں کی دعوت ک ے سامنے‬ ‫سرکشی کا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں ‪ 598‬قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ نبوکد‬ ‫نضر نے یروشلم پر حملہ کیا اور سلطنت یہودیہ کو تباہ کر دیا۔‬ ‫ہمارے آج کے مسلمانوں کی طرح‪ ،‬اس دور کے یہودیوں نے بھی اپنے اعمال کو درست‬ ‫کرنے کی بجائے بغاوت کے ذریعے اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی کوشش کی جس کے‬ ‫نتیج ے میں ‪ 587‬قبل مسیح نبوکد نضر ن ے یروشلم پر دوبار ہ حمل ہ کر ک ے اس کی اینٹ‬ ‫س ے اینٹ بجا دی ۔ آخری یہودی بادشا ہ صدقیا ہ ک ے بیٹوں کو اس ک ے سامن ے قتل کیا گیا‬ ‫اور اس کی آنکھیں نکال لی گئیں۔ے بیت المقدس کو تباہے کر دیا گیا۔ے اس فساد میں‬ ‫تورات کے نسخوں کو جل دیا گیا اور بنی اسرائیل کی تاریخ میں تورات مکمل طور پر‬ ‫غائب ہ و گئی ۔ اس دور میں بنی اسرائیل پر ظلم کی تفصیلت بائبل کی کتاب حزقی‬ ‫ایل (‪ )Ezeikiel‬میں دیکھی جاسکتی ہیں۔‬ ‫یہود کی تاریخ میں اس عذاب کو پہلی جلوطنی (‪ ) First Diaspora‬کہ ا جاتا ہے۔ قرآن‬ ‫مجید نے اسے ان کے پہلے فساد عظیم سے تعبیر کیا ہے۔‬

‫بنی اسرائیل کا دوسرا عروج‬ ‫بنی اسرائیل کا ایک گروہ اس دور میں بھی نیکی پر قائم رہا اور اپنی قوم کی اعتقادی‬ ‫اور اخلقی اصلح کی کوشش کرتا رہا ۔ یہ ی و ہ لوگ تھے جو انبیاء کرام ک ے ساتھ ی بنتے‬ ‫رہے۔ انہوں ن ے اپنی قوم کو توب ہ کی دعوت دی جو کامیاب رہی ۔ اس توب ہ کے نتیج ے میں‬ ‫الل ہ تعالی ن ے ان کی مدد کی ۔ بابل کی حکومت کو زوال آیا اور ‪ 535‬قبل مسیح میں‬ ‫ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل فتح کر لیا۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ سائرس ہی قرآن‬ ‫میں مذکور ذوالقرنین ہیں۔ سائرس نے یہود کو دوبارہ فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت‬ ‫دی۔ یہ لوگ واپس آئے اور انہوں نے بالخر یہودیہ کی سلطنت دوبارہ قائم کی۔‬ ‫‪ 458‬قبل مسیح میں یہود ک ے ہاں سیدنا عزیر (عزرا) علی ہ الصلو ۃ والسلم کی بعثت‬ ‫ہوئی۔ بعض اہل علم کے نزدیک آپ نبی ہیں اور بعض کے نزدیک آپ شریعت موسوی کے‬ ‫بہت بڑے عالم تھے اور بنی اسرائیل کی تاریخ کے سب سے بڑے مجدد۔ شاہ ایران دارا نے‬ ‫آپ کی بھرپور مدد کی ۔ آپ ن ے ہ ر طرف س ے یہود ک ے اہ ل خیر کو اکٹھ ا کیا اور ان میں‬ ‫تجدید و احیائ ے دین کا کام شروع کیا ۔ آپ ن ے تورات کی پہلی پانچ کتب دوبار ہ تصنیف‬ ‫کیں‪ ،‬تاریخ بنی اسرائیل کو دوبارہ مرتب کیا‪ ،‬دینی تعلیم کا اہتمام کیا اور ان اعتقادی و‬ ‫اخلقی برائیوں کو ختم کرن ے کی جدوجہ د کی جو غیر اقوام س ے بنی اسرائیل میں در‬ ‫آئی تھیں۔‬ ‫سیدنا عزیر علی ہ الصلو ۃ السلم ن ے اجتماعی توب ہ کروائی جس میں بنی اسرائیل نے‬ ‫اپن ے گناہوں کا اعتراف کیا ۔ ی ہ دعا اور توب ہ نام ہ بائبل کی کتاب عزرا میں درج ہے۔ بنی‬ ‫اسرائیل کی گمراہ ی میں بڑا ہاتھ غیر اقوام کی ان مشرک عورتوں کا تھ ا جن سے بنی‬ ‫اسرائیل کے مردوں نے شادی کر لی تھی۔ سیدنا عزیر علیہ الصلوۃ السلم نے انہیں حکم‬ ‫دیا کہ وہ ان مشرک عورتوں سے علیحدگی اختیار کر لیں۔‬ ‫سیدنا عزیر علی ہ الصلو ۃ السلم ک ے زمان ے ہ ی میں بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت‬ ‫سیدنا نحمیاہے (‪ )Nehemiah‬علیہے الصلوۃے السلم کےے ہاتھے میں آئی۔ے ایران کےے بادشاہ‬ ‫ارتخششتا نےے آپ کو یروشلم کا حاکم مقرر کیا ۔ آپ نےے ‪ 445‬قبل مسیح ک ے لگ بھگ‬ ‫‪91‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫یروشلم کی از سر نو تعمیر کی۔ اس طرح بنی اسرائیل کے دوسرے دور عروج کا آغاز‬ ‫ہوا ۔ سیدنا نحمیا ہ علی ہ الصلو ۃ السلم ن ے تورات کی تعلیم عام کی اور شریعت ک ے ان‬ ‫احکام کو دوبار ہ نافذ کیا جنہیں بنی اسرائیل ایک عرص ے س ے بھل چک ے تھے۔ اس س ے یہ‬ ‫معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس وقت اللہ کی کتاب سے کتنی دوری اختیار کر چکے تھے۔‬ ‫چونک ہ اس زمان ے میں بنی اسرائیل الل ہ تعالی کی طرف رجوع کر چک ے تھے اس لئے‬ ‫اللہ تعالی نے ان کی مدد کی۔ بائبل کی کتاب آستر (‪ )Esther‬میں ہامان کی سازش کی‬ ‫تفصیلت بیان کی گئی ہیں۔ ی ہ شخص شاہ ایران کا ساتھ ی اور مشیر خاص تھا ۔ اس نے‬ ‫یہود کے قتل عام کی کوشش کی۔ اللہ تعالی نے اس کی سازش کو ایران کی ملکہ آستر‬ ‫کے ذریعے ناکام بنا دیا۔‬ ‫اسی زمانے میں بنی اسرائیل کے ہاں سیدنا ایوب علیہ الصلوۃ السلم کی بعثت ہوئی۔‬ ‫آپ نہایت ہی مالدار تھے لیکن اللہ تعالی نے آپ کی آزمائش کے لئے آپ کا مال و اسباب‬ ‫تبا ہ کر دیا اور آپ کو شدید بیماری میں مبتل کر دیا ۔ آپ ن ے صبر کا و ہ نمون ہ پیش کیا‬ ‫جس کے بعد آپ کا نام صبر کے لئے ضرب المثل بن گیا ۔ قرآن مجید میں الل ہ تعالی نے‬ ‫آپ کے صبر کی بہت تعریف کی ہے۔ بائبل میں کتاب ایوب عبرانی شاعری کا شاہکار ہے‬ ‫جس میں آپ کی دعائیں اور مناجات شامل ہیں۔‬ ‫اسی دور میں بائبل کی کتب عزرا‪ ،‬نحمیاہ ‪ ،‬ایوب اور امثال لکھ ی گئیں۔ے امثال (‬ ‫‪ ) Proverbs‬نہایت ہ ی عمد ہ اقوال پر مشتمل ہے۔ ان کتب میں اخلقیات کو خاص اہمیت‬ ‫دی گئی ۔ ان کتب ک ے مطالع ے س ے ی ہ معلوم ہوتا ہے ک ہ بنی اسرائیل ک ے ہاں نیکی اور‬ ‫اخلص اپن ے عروج پر تھا ۔ کچ ھ عرص ے بعد ان ک ے ہاں صوفیان ہ خیالت بھ ی پیدا ہوئ ے اور‬ ‫انہیں ترک دنیا اور رہبانیت کی تعلیم دی گئی۔ بائبل کی کتاب واعظ ( ‪ )Ecclesiastes‬اس‬ ‫دور سے متعلق ہے۔‬ ‫یہود کے اس دور عروج میں لبنانی علقے کے رہنے والے اسرائیلی اپنی تہذیب سے دور‬ ‫ہوتے چلے گئے اور دوسری اقوام میں جذب ہوگئے۔ دو تین سو سال تک بنی اسرائیل کو‬ ‫عروج حاصل رہا۔ آہستہ آہستہ یہ لوگ پھر دین سے دور ہونے لگے۔‬ ‫‪ 300‬قبل مسیح کےے قریب اسکندر اعظم کی فتوحات اور بنی اسرائیل کی حامی‬ ‫ایرانی حکومت کے زوال کے بعد بنی اسرائیل کو شدید دھچکا لگا۔ یہودی قوم کا ایک بڑا‬ ‫حصہ یونانیوں کا آلہ کار بن کر یونانی تہذیب کو اپنے ہاں فروغ دینے لگا ۔ ‪ 175‬قبل مسیح‬ ‫میں یونانی حکمران انیٹوکس نےے جابرانہے قوت سےے یہودی مذہب کو ختم کرنےے کی‬ ‫کوشش کی۔ اللہ کے لئے قربانی بند اور دیوتاؤں کے لئے قربانی شروع کروائی اور تورات‬ ‫رکھنے یا شریعت پر عمل کرنے کی سزا موت مقرر کی۔‬

‫مکابی تحریک‬ ‫اس جبر کے خلف یہودیوں میں ایک زبردست تحریک اٹھی جو مکابی بغاوت کے نام سے‬ ‫مشہور ہے۔ یہ ایک خالص دینداری کی تحریک تھی۔ اس جنگ میں یونانیت پرست یہودیوں‬ ‫نے اہل یونان کا ساتھ دیا جبکہ عام یہودیوں نے مکابیوں کا ساتھ دیا۔ اللہ تعالی نے پھر بنی‬ ‫اسرائیل پر کرم کیا ۔ اس تحریک ک ے زیر اثر یہودیوں نے یونان س ے آزادی حاصل کر کے‬ ‫پھر ریاست قائم کر لی جو یہودیہ اور اسرائیل کے علقوں پر مشتمل تھی۔ یہ ریاست ‪67‬‬ ‫قبل مسیح تک قائم رہی۔‬

‫‪92‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫بنی اسرائیل کا دوسرا فساد‬ ‫مکابی تحریک کی دینداری آہست ہ آہست ہ ختم ہون ے لگی اور یہود ظواہ ر پرستی ک ے مرض‬ ‫میں مبتل ہوگئے۔ ان ک ے ہاں چھوٹ ے چھوٹ ے احکام پر تو سختی س ے عمل کیا جاتا لیکن‬ ‫دین ک ے بڑ ے بڑ ے احکام جیس ے رحم دلی‪ ،‬خدا س ے تعلق نظر انداز ہون ے لگے۔ اس کی‬ ‫سزا انہیں پھ ر غلمی کی صورت میں ملی اور مشہور رومی فاتح پومپی نےے ‪ 63‬قبل‬ ‫مسیح میں یہودی سلطنت کا خاتمہے کر دیا۔ے رومیوں نےے فلسطین کےے علقےے میں ایک‬ ‫یہودی ہیرود کو یہاں کا حکمران بنا دیا جو کہ ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے۔ یہ یہودی‬ ‫پوری طرح رومی و یونانی تہذیب میں غرق تھے۔‬ ‫اس زمان ے میں سیدنا یحیی علی ہ الصلو ۃ والسلم کی بعثت ہوئی ۔ یہود ک ے اخلقی‬ ‫انحطاط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہیرود کے بیٹے نے ہیرود اینٹی پاس نے‬ ‫اپنی سوتیلی بیٹی کےے رقص سےے متاثر ہو کر اس کی فرمائش پر سیدنا یحیی علیہ‬ ‫الصلوۃ والسلم کو شہید کروا دیا۔ واضح رہے کہ سیدنا یحیی علیہ الصلوۃ والسلم کو خود‬ ‫بنی اسرائیل میں ایک نہایت ہی معزز اور نیک شخص سمجھا جاتا تھا۔‬ ‫بنی اسرائیل کی طرف بھیجےے جانےے والےے آخری رسول سیدنا عیسی علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم تھے۔ یہود نے آپ کا انکار کیا اور آپ کو اپنے تئیں شہید کرنے کی کوشش کی۔ یہ‬ ‫تفصیل ہم اردن کے سفر نامے میں بیان کر چکے ہیں کہ کس طرح یہودی علماء نے سیدنا‬ ‫عیسی علیہ الصلوۃ والسلم کی جگہ برابا نامی ڈاکو کو رہا کروا دیا تھا۔‬ ‫سیدنا عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم الل ہ کی برہان تھے جس ک ے بعد بنی اسرائیل کے‬ ‫عروج کا باب ہمیش ہ کے لئ ے بند کر دیا گیا ۔ یہود ن ے ‪60‬ء کے لگ بھگ رومی سلطنت سے‬ ‫بغاوت کی ۔ ‪ 70‬ء میں رومی بادشاہ ٹائٹس کی صورت میں بنی اسرائیل پر اللہ کا عذاب‬ ‫آیا ۔ اسرائیلیوں ک ے ‪ 133,000‬افراد قتل کئ ے گئ ے اور ‪ 67,000‬افراد کو غلم بنا لیا گیا۔ ان‬ ‫کی لڑکیوں کو فاتحین کی عیاشی ک ے لئ ے رک ھ لیا گیا ۔ اس دور میں بنی اسرائیل کو‬ ‫پوری دنیا میں جل وطن کر دیا گیا ۔ یہود کی تاریخ میں اس ے بنی اسرائیل کی دوسری‬ ‫جلوطنی (‪ )Second Diaspora‬کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اسے ان کا دوسرا فساد قرار‬ ‫دیا گیا ہے۔‬ ‫چھٹی صدی عیسوی میں اللہ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو‬ ‫بھیجا۔ ی ہ بنی اسرائیل کے لئ ے آخری موقع تھ ا ک ہ وہ الل ہ کے آخری رسول کو مان کر آپ‬ ‫کی پیروی کریں ۔ اگر و ہ اس موقع س ے فائد ہ اٹھات ے تو آج پھ ر دنیا میں سرفراز ہوتے۔‬ ‫انہوں نے آپ کے خلف بھی سرکشی کا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں ان پر ذلت و‬ ‫مسکنت کا عذاب جاری رکھا گیا۔‬ ‫قرآن مجید نے بنی اسرائیل کی اس تاریخ کو مختصرا یوں بیان کیا ہے‪:‬‬ ‫ہ م ن ے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنب ہ کیا تھ ا ک ہ تم دو مرتب ہ زمین پر فساد‬ ‫عظیم برپا اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ آخر کار جب ان میں س ے پہلی سرکشی کا موقع پیش‬ ‫آیا۔ تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت ہی زور آور تھے‬ ‫اور و ہ تمہار ے ملک میں گھ س کر ہ ر طرف پھیل گئے۔ ی ہ ایک وعد ہ تھ ا جس ے پورا ہ و کر رہنا تھا۔‬ ‫اس ک ے بعد ہ م ن ے تمہیں ان پر غلب ے کا موقع دیا اور تمہیں مال و اولد سے مدد دی اور تمہاری‬ ‫تعداد پہل ے س ے بڑھ ا دی ۔ دیکھو! جو بھلئی تم ن ے کی‪ ،‬و ہ تمہار ے اپن ے لئ ے ہ ی بھلئی تھ ی اور جو‬ ‫برائی کی‪ ،‬وہ بھی اپنے لئے ہی تھی۔‬ ‫پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے‬ ‫چہر ے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھ س جائیں جس طرح پہل ے دشمن‬ ‫گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑ جائے اسے تباہ کردیں۔‬

‫‪93‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫ہو سکتا ہے کہ تمہارا رب تم پر اب رحم کرے‪ ،‬لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابقہ روش کا اعادہ کیا تو‬ ‫ہم بھ ی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے اور کفران نعمت کرنے والوں کے لئے ہم نے جہنم کو قید‬ ‫خانہ بنا رکھا ہے۔ (بنی اسرائیل ‪)8-17:4‬‬

‫بنی اسرائیل کا مقام ان ک ے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل کو دیا گیا ۔ اس قوم ن ے محمد‬ ‫صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم کی رسالت کا اقرار کر لیا جس کےے نتیجےے میں موجودہ‬ ‫افغانستان اور پاکستان سے لے کر سپین تک کی حکومت انہیں عطا ہوئی۔ جب انہوں نے‬ ‫اللہ تعالی کے مقابلے پر سرکشی اختیار کی تو پھر ان پر اللہ کا عذاب آپس کی جنگوں‪،‬‬ ‫تاتاریوں‪ ،‬صلیبیوں اور بالخر مغربی اقوام کی صورت میں نازل ہوا اور ان کے ساتھ وہی‬ ‫سلوک کیا گیا جو بنی اسرائیل کے ساتھ کیا گیا تھا۔‬ ‫قرآن مجید نےے سورہے اٰ ل عمران میں یہے بیان کیا ہےے کہے دوسرےے فساد کےے بعد بنی‬ ‫اسرائیل کو یہے سزا دی گئی کہے وہے قیامت تک سیدنا عیسی علیہے الصلوۃے والسلم کے‬ ‫پیروکاروں یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کےے ماتحت رہیں گے۔ے عیسائیوں نےے بنی‬ ‫اسرائیل کو اپنے علقوں میں شدید سزائیں دیں جبکہ مسلمانوں نے بالعموم ان سے اچھا‬ ‫سلوک کیا۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلم ک ے ‪ 1900‬سال بعد‪ ،‬آپ کے پیروکاروں کی‬ ‫مدد سے یہودیوں کو فلسطین کے علقے میں دوبارہ آنا نصیب ہوا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے‬ ‫کہے ان کی اس علقےے میں بقا کا دارومدار سیدنا عیسی علیہے الصلوۃے والسلم کے‬ ‫پیروکاروں یعنی امریکہ‪ ،‬یورپ اور روس پر رہا ہے۔‬ ‫بنی اسرائیل اگر اس دنیا میں دوبارہے سرفرازی حاصل کرنا چاہیں تو اس کےے لئے‬ ‫انہیں اللہ کے دو آخری رسولوں عیسی و محمد علیہما الصلوۃ والسلم پر ایمان لنا ہو گا‬ ‫اور اللہے تعالی کےے دین سےے وابستہے ہونا ہ و گا۔ے یہے وہ ی دین ہےے جو تمام انبیاء کرام کی‬ ‫وساطت س ے انسانوں کو دیا گیا ۔ اس کا آخری ورژن محمد رسول الل ہ صلی الل ہ علیہ‬ ‫واٰلہ وسلم کے ذریعے دنیا کو دیا گیا۔ اس کے برعکس ان لوگوں نے اس سرفرازی کو اپنا‬ ‫نسلی حق سمجھا اور اس وقت دنیا کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔‬ ‫بنی اسماعیل بھ ی اگر اس دنیا میں دوبار ہ سرفرازی حاصل کرنا چاہیں تو انہیں اللہ‬ ‫کے دین سے درست انداز میں وابستہ ہونا ہو گا جس پر وہ پہلے ہی ایمان رکھتے ہیں۔ اس‬ ‫کےے برعکس انہوں نےے اور ان کےے دیگر ساتھیوں (یعنی امت مسلمہ) نےے بھی اس‬ ‫سرفرازی کو محض محمد رسول اللہے صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم سےے نسلی یا قومی‬ ‫وابستگی کے باعث اپنا حق سمجھا اور آج یہ بھی دنیا کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔‬ ‫دیگر تمام انسانوں ک ے لئ ے اولد ابراہیم کی ان دو شاخوں کی داستان اس بات کا‬ ‫بین ثبوت ہے ک ہ خدا واقعتا ً ہے۔ اس دنیا ک ے اعمال کی جزا و سزا و ہ انسان کو آخرت‬ ‫میں د ے گا جیسا ک ہ اس ن ے اولد ابراہیم کو دنیا میں دی ۔ ابراہیم‪ ،‬موسی‪ ،‬عیسی اور‬ ‫محمد علیہم الصلوۃ والسلم اسی خدا کے سچے اور برحق رسول ہیں جن پر ایمان ل کر‬ ‫ہی اس دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔‬ ‫بنی اسرائیل و بنی اسماعیل کی تاریخ کو یاد کر کے مجھے قرآن مجید کی سورۃ تین‬ ‫یاد آ رہی تھی۔ ارشاد ربانی ہے‪:‬‬ ‫والتین والزیتون۔ و طور سینین۔ و ھذا البلد المین۔ لقد خلقنا النسان فی احسن تقویم۔ ثم رددناہ‬ ‫اسفل السافلین۔ ال الذین اٰمنوا و عملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون۔ فما یکذبک بعد بالدین۔‬ ‫الیس اللہ باحکم الحاکمین۔‬ ‫انجیر و زیتون‪ ،‬طور سینا اور یہ امن وال شہ ر گواہ ہیں کہ ہ م ن ے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا‬ ‫کیا ہے۔ پھر اسے الٹ پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچا کر دیا۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان‬ ‫لئ ے اور انہوں ن ے نیک عمل کئے۔ تو ان ک ے لئے کبھ ی ن ہ ختم ہون ے وال اجر ہے۔ تو کیا اس ک ے بعد‬

‫‪94‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫بھی تم روز جزا کو جھٹلؤ گے۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟‬

‫تین و زیتون سےے مراد اکثر مفسرین نےے گلیل و یروشلم کےے وہے علقےے لئےے ہیں جنہیں‬ ‫سیدنا عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم ن ے اپنی دعوت کا مرکز بنایا تھا ۔ زیتون نامی پہاڑ آج‬ ‫بھ ی یروشلم میں واقع ہے جہاں سیدنا عیسی علی ہ الصلو ۃ والسلم قیام پذیر ہوا کرتے‬ ‫تھے۔ طور سینا‪ ،‬یہ ی پہاڑ تھ ا جہاں سیدنا موسی علیہے الصلوۃے والسلم کو تورات عطا‬ ‫ہوئی ۔ امن وال شہ ر مک ہ مکرمہ ‪ ،‬سیدنا اسماعیل علی ہ الصلو ۃ والسلم ن ے آباد فرمایا ۔ یہ‬ ‫تینوں شہر تین امتوں کا نقطہ آغاز تھے یعنی عیسی‪ ،‬موسی اور اسماعیل علیہم الصلوۃ‬ ‫والسلم کی امتیں ۔ اپن ے آغاز میں ی ہ نہایت ہ ی نیک افراد پر مشتمل امتیں تھیں جو بعد‬ ‫میں بگڑ کر اپن ے ایمان و اخلق کو تبا ہ کر بیٹھیں ۔ ان امتوں کی ی ہ تاریخ گوا ہ ہے ک ہ اللہ‬ ‫سب سے بڑا حاکم ہے اور وہ روز جزا کو ہر انسان سے اس کے اعمال کا حساب لے گا۔‬

‫کو ہ طور کا علق ہ‬ ‫موٹل س ے نکل کر ہ م لوگ سڑک پر آئے۔ اب ہ م ان میدانوں س ے گزر رہے تھے جہاں‬ ‫بنی اسرائیل ن ے سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کی معیت میں کبھ ی قیام کیا تھا۔‬ ‫کچھے دیر ہی میں ہم ایک راؤنڈے اباؤٹ پر پہنچےے جہاں سےے ایک سڑک سیدھی سینٹ‬ ‫کیتھرین کے قصبے اور دوسری کوہ طور کی طرف جا رہی تھی۔‬ ‫ہمار ے بائیں جانب پہاڑی ک ے دامن میں ایک جگ ہ تھ ی جہاں "مقام نبی ہارون" کا بورڈ‬ ‫لگا ہوا تھا ۔ اس جگ ہ ک ے بار ے میں مشہور ہے ک ہ جب بنی اسرائیل ن ے بچھڑ ے کی پوجا‬ ‫شروع کی اور سیدنا ہارون علی ہ الصلو ۃ والسلم ن ے انہیں اس س ے روکا تو ی ہ باز ن ہ آئے۔‬ ‫اس وقت سیدنا ہارون علیہ الصلوۃ والسلم انہیں چھوڑ کر اس مقام پر آ بیٹھے تھے۔ کچھ‬ ‫آگے چل کر بچھڑے کا مقام تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلم‬ ‫کی آمد کے بعد بچھڑے کے بت کو جل کر راکھ کیا گیا تھا۔ بچھڑے کی پوجا پھیلنے والوں‬ ‫کو سزا بھی یہیں دی گئی ہو گی۔‬ ‫تھوڑی دور جا کر سینٹ کیتھرین ک ے گرجا کا گیٹ آ گیا ۔ یہاں بہ ت سی دکانیں بنی‬ ‫ہوئی تھیں اور مغربی سیاح کثرت سے اندر جا رہے تھے۔ دکانوں والے بدو نہایت ہی شستہ‬ ‫انگریزی میں مغربی سیاحوں کو تلقین کر رہے تھے کہ یہ مقدس مقام ہے‪ ،‬اس لئے انہیں‬ ‫یہاں معقول لباس میں جانا چاہیے۔ بہت سے مرد و خواتین ان کی تبلیغ س ے متاثر ہ و کر‬ ‫انہی سے چادریں خرید کر اپنی نیکروں کے اوپر دھوتیاں باندھ رہے تھے۔‬ ‫پاسپورٹ وغیرہ دکھا کر ہم پیدل اندر چل پڑے۔ موسم اگرچہ ٹھنڈا تھا لیکن دھوپ بھی‬ ‫کافی تیز تھی ۔ میں نے ایک انگریز س ے کوہ طور کی تفصیلت پوچھیں تو ان صاحب نے‬ ‫بڑی خند ہ پیشانی س ے آگے کی تفصیلت بتا دیں ۔ ایک بدو پولیس آفیسر اپنی گاڑی میں‬ ‫ہمار ے پاس س ے گزر ے تو بچی کو دیکھت ے ہوئ ے انہوں ن ے ہمیں اپن ے سات ھ بٹھ ا لیا ۔ نصف‬ ‫کلومیٹر کے بعد سینٹ کیتھرین کا گرجا آ گیا جس سے آگے جانے کا راستہ صرف پیدل کا‬ ‫تھا۔‬

‫سینٹ کیت ھرین کا گرجا اور خانقا ہ‬ ‫سیدنا موسی علیہ الصلو ۃ والسلم کی یاد میں یہ گرجا چوتھ ی صدی میں تعمیر کیا گیا۔‬ ‫پتھر کے تراشیدہ بلکس سے بنی ہوئی چرچ کی عمارت بہت اچھی حالت میں تھی۔‬ ‫ی ہ پورا علق ہ ساتویں صدی میں سیدنا عمرو بن عاص رضی الل ہ عن ہ کی فتوحات کے‬ ‫نتیجے میں مسلمانوں کے پاس آ گیا تھا۔ اس وقت سے اب تک مسلمانوں نے اپنی روایتی‬ ‫‪95‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫رواداری کے باعث اس چرچ کی حفاظت اپنی عبادت گاہوں کی طرح کی تھی۔ یہ ہماری‬ ‫تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس روایت‬ ‫کو قائم رکھنا چاہی ے کیونک ہ یہ ی ہمار ے اور دوسری قوموں ک ے درمیان اچھے تعلقات کی‬ ‫بنیاد ہے۔‬ ‫چرچ کے اندر کا آرکیٹکچر بھ ی خوبصورت تھا ۔ محرابوں کی صورت میں دروازے بنے‬ ‫ہوئےے تھے۔ے بیرونی دیوار کسی قلعےے سےے مشابہے تھی۔ے چرچ کےے دروازےے پر بدو مغربی‬ ‫سیاحوں کو باندھن ے ک ے لئ ے کپڑ ے د ے رہے تھے جس ک ے باعث ماحول کافی باپرد ہ ہ و گیا‬ ‫تھا ۔ سنا ہے کہ یہاں اسرائیلی سیاح بھ ی بڑی تعداد میں کو ہ طور کی زیارت ک ے لئ ے آتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫ہم چرچ سے نکل کر اس کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ ہمارے سامنے بالکل سیاہ‬ ‫رنگ کا پہاڑ تھا ۔ اس کا نام جبل مناجا ۃ معلوم ہوا ۔ عین ممکن ہے یہ وہ ی پہاڑ ہو جس پر‬ ‫الل ہ تعالی ن ے سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کی فرمائش پر اپنی تجلی ظاہ ر کی‬ ‫تھی جس کے نتیجے میں یہ جل کر راکھ ہو گیا تھا اور سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلم‬ ‫بے ہوش ہو گئے تھے۔‬ ‫گرجا سے آگے دو راستے نکل رہے تھے۔ ایک راستہ کوہ طور اور جبل موسی کی جانب‬ ‫جا رہا تھا۔ یہاں یا تو پیدل جایا جاسکتا تھا یا پھر اونٹوں پر۔ کوہ طور پر جانے کے لئے پتھر‬ ‫کی سیڑھیاں تراشی گئی تھیں۔ ہمارے ساتھ چونکہ بچی تھی اور اسے لے کر کوہ طور پر‬ ‫چڑھنا کافی مشکل کام تھا اس لئے ہم اوپر نہ جا سکے۔ کوہ طور کے دامن میں ایک اور‬ ‫گرجا اور ایک مسجد پہلو بہ پہلو موجود تھے۔‬

‫ر ہبانیت کا دور‬ ‫یہے گرجےے عیسائیت کےے اس دور کی یادگار ہیں جب ان کےے ہاں رہبانیت نےے فروغ پایا۔‬ ‫عیسائیت کی تاریخ س ے معلوم ہوتا ہے ک ہ ان لوگوں میں ترک دنیا کی زبردست تحریک‬ ‫پیدا ہوئی جس ے رہبانیت (‪ ) Monasticism‬ک ے نام س ے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس ک ے نتیجے‬ ‫میں بڑی تعداد میں نوجوان دنیا کو چھوڑ کر الل ہ تعالی ٰ کی عبادت کرن ے ک ے لئ ے نکل‬ ‫کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں نے خود پر دنیا کی لذتوں کو حرام کر لیا اور عبادت کرنے کے نت‬ ‫نئے طریقے ایجاد کئے۔ ترک دنیا میں یہ لوگ اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔ رہبانیت کی یہ تحریک‬ ‫مصر میں بہ ت زیاد ہ مقبول ہوئی ۔ اس کی کچھ تفصیل ‪History of the Christian Church‬‬ ‫میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔‬ ‫سینٹ انتھونی کتنے عظیم انسان تھے جنہوں نے اپنی بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اپنی زندگی کو‬ ‫رہبانیت میں بسر کردیا۔ انہوں نے کبھی اچھی خوراک کی خواہش نہ کی‪ ،‬نہ ہی لباس پہنا اور نہ ہی‬ ‫کبھ ی اپن ے پاؤں دھوئے۔ سینٹ ہیلریس جو ک ہ سینٹ انتھونی ک ے شاگرد اور مشرک والدین کی‬ ‫اولد تھے ‪ ،‬ن ے ترک ے میں ملن ے والی رقم کو اپن ے بھائیوں اور غرباء میں تقسیم کردیا اور دن کے‬ ‫روزے اور رات کی عبادت سے اپنے جسم کو گھلنے کی کوشش شروع کر دی۔ صرف بیس برس‬ ‫کی عمر میں ان کا جسم ایک ڈھانچ ے کی مانند تھا ۔ انہوں ن ے کبھ ی سورج غروب ہون ے سے قبل‬ ‫کھانا ن ہ کھایا ۔ ان کی کٹیا صرف پانچ فٹ اونچی تھ ی جو ان ک ے اپن ے قد س ے بھ ی نیچی تھی ۔ وہ‬ ‫ہمیشہ زمین پر سوتے اور سال میں صرف ایک بار بال کٹواتے۔ ‪-------‬‬ ‫سینٹ پاؤل نےے اپنےے ماں کےے جذبات کو کچلتےے ہوئےے اپنی بیٹی اور نومولود بیٹےے کو چھوڑ کر‬ ‫فلسطین اور مصر کا سفر اختیار کیا۔ انہوں نے مقد س زمین میں رہائش اختیار کی جہاں انہوں‬ ‫نے ایک خانقاہ قائم کی ۔ انہوں نے ہمیشہ شراب اور گوشت سے پرہیز کیا۔ بیماری کی حالت میں‬ ‫بھی وہ ننگے فرش پر سوتیں اور بالوں کا لباس پہنتیں۔ ‪-------‬‬ ‫سینٹ سائمن اپنی ابتدائی زندگی میں شام ک ے ملک میں رہن ے وال ے ایک چرواہے تھے۔ انہوں نے‬

‫‪96‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫چرچ میں گائ ے جان ے وال ے چند گیت سن ے اور اس ک ے نتیج ے میں ایک خانقا ہ کی طرف چل دیے۔‬ ‫یہاں وہ کئی دن بغیر کچھ کھائے پئے دہلیز پر پڑے رہے اور خود کو اس خانقاہ کا حقیر ترین خادم بنا‬ ‫لینے کی فریاد کرتے رہے۔ انہوں نے خود کو ہفتے میں صرف ایک دن اتوار کو کھانا کھانے کا عادی‬ ‫بنا لیا ۔اپنے چل ّے کے دوران انہوں نے چالیس دن گرم ترین علقے میں بغیر کسی خوراک کے بسر‬ ‫کئے۔ اس کوشش کے نتیجے میں وہ موت سے ہمکنار ہوتے ہوتے بچے لیکن انہوں نے (خدا سے کئے‬ ‫ہوئے )اپنے وعدے کی پاسداری کی۔‬ ‫ّ‬ ‫جب تھیوڈورس ان سے ملنے آیا تو وہ بغیر خوراک ک ے ‪ 26‬چل ے لگا کر (اپنے تئیں) موسیٰ‪ ،‬الیاس‬ ‫اور عیسیٰے (علیھ م الصلوۃے والسلم) سےے بھ ی آگےے بڑھے چکےے تھےے جنہوں نےے اپنی زندگیوں میں‬ ‫صرف ایک ایک مرتب ہ چالیس دن کا روز ہ رکھا ۔ ان کی ایک اور غیر معمولی کوشش ی ہ تھ ی کہ‬ ‫انہوں نے اپنے جسم کو اتنی سختی سے رسیوں سے باندھ لیا تھا کہ وہ ہڈیوں میں چبھتی تھیں اور‬ ‫شدید تکلیف پہنچائے بغیر انہیں کاٹا بھی نہ جاسکتا تھا۔ بعد ازاں انہیں خانقاہ سے نکال دیا گیا۔ اس‬ ‫ک ے بعد و ہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر چل ے گئ ے جہاں انہوں ن ے اپن ے پاؤں کو ایک وزنی لوہے کی زنجیر‬ ‫سے باندھ لیا۔‬ ‫جب انہیں اس س ے بھ ی اطمینان حاصل ن ہ ہوا تو و ہ انطاکی ہ ک ے مشرق میں دو دن مسافت کے‬ ‫مقام پرموجود ایک چالیس ہاتھ اونچے تنگ سے ستون پر چڑھ گئے ۔ یہاں وہ اپنی وفات تک موجود‬ ‫رہے۔ اس جگہ وہ ن ہ تو لیٹ سکتے تھے اور نہ ہی بیٹھ سکتے تھے بلکہ بڑی مشکل سے صرف جھک‬ ‫سکت ے تھے چنانچ ہ انہوں ن ے خدا ک ے سامن ے جھکنا شروع کردیا ۔ کسی ن ے خدا ک ے سامن ے ان کے‬ ‫رکوع کرن ے کو گننا شروع کیا تو صرف ایک دن میں ان کےے ‪ 1244‬رکوع شمار ہوئے۔ے انہوں نے‬ ‫جانوروں کی کھالیں پہن رکھی تھیں اور ان کی گردن کے گرد ایک موٹی زنجیر تھی۔ یہاں سینٹ‬ ‫سائمن ہفتوں‪ ،‬مہینوں بلک ہ سالوں تک کڑکتی دھوپ ‪ ،‬طوفانی بارشوں اورشدید برفباری میں‬ ‫کھڑے رہے اور روزانہ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتل رہے۔ ‪www.ccel.org/s/schaff/history‬‬ ‫‪,History of Christian Church‬‬

‫رہبانیت کا ی ہ سلسل ہ اتنی شدت اختیار کر گیا ک ہ ہ ر طرح ک ے جنسی تعلقات کو ممنوع‬ ‫قرار دیا گیا۔ جو شادی شدہ شخص راہب بنتا اس کے لئے لزم ہوتا کہ وہ اپنے بیوی بچوں‬ ‫کو چھوڑ کر آئے۔ ہنسنے اور مسکرانے کو بھی حرام سمجھا جاتا۔ راہب کے لئے یہ ضروری‬ ‫تھ ا ک ہ و ہ اپن ے تمام رشت ے داروں کی محبت دل س ے نکال دے۔ سید ابوالعلی ٰ مودودی‬ ‫لکھتے ہیں‪:‬‬ ‫ایک راہب ایواگریس سالہا سال سے صحرا میں ریاضتیں کر رہا تھا۔ ایک روز یکایک اس کے پاس‬ ‫اس کی ماں اور اس ک ے باپ ک ے خطوط پہنچ ے جو برسوں س ے اس کی جدائی میں تڑپ رہے‬ ‫تھے۔ اس ے اندیش ہ ہوا ک ہ کہیں ان خطوں کو پڑ ھ کر اس ک ے دل میں انسانی محبت ک ے جذبات نہ‬ ‫جاگ اٹھیں۔ اس نے ان کو کھولے بغیر فورا ً آگ میں جھونک دیا۔‬ ‫سینٹ تھیوڈورس کی ماں اور بہن بہت سے پادریوں کے سفارشی خطوط لے کر اس خانقاہ میں‬ ‫پہنچیں جس میں وہ مقیم تھا اور خواہش کی کہ وہ ایک نظر اپنے بیٹے اور بھائی کو دیکھ لیں۔ مگر‬ ‫اس نے ان کے سامنے آنے تک سے انکار کر دیا۔ سینٹ مارکس کی ماں اس سے ملنے کے لئے اس‬ ‫کی خانقاہ میں گئی اور خانقاہ کے شیخ ( ‪ )Abott‬کی خوشامدیں کرکے اس کو راضی کیا کہ وہ بیٹے‬ ‫کو ماں کے سامنے آنے کا حکم دے۔ مگر بیٹا کسی طرح ماں سے نہ ملنا چاہتا تھا۔ آخر کار اس نے‬ ‫شیخ کےے حکم کی تعمیل اس طرح کی کہے بھیس بدل کر ماں کےے سامنےے گیا اور انکھیں بند‬ ‫کرلیں۔ اس طرح نہ ماں نے بیٹے کو پہچانا ‪ ،‬نہ ہی بیٹے نے ماں کی شکل دیکھی۔‬ ‫ایک اور ولی سینٹ پوئمن اور اس کےے ‪ 6‬بھائی مصر کی ایک صحرائی خانقاہے میں رہت ے تھے۔‬ ‫برسوں بعد ان کی بوڑھ ی ماں کو ان کا پت ہ معلوم ہوا اور و ہ ان س ے ملن ے ک ے لئ ے وہاں پہنچی۔‬ ‫بیٹے ماں کو دور سے دیکھتے ہی بھاگ کر اپنے حجرے میں چلے گئے اور دروازہ بند کرلیا۔ ماں باہر‬ ‫بیٹ ھ کر رون ے لگی اور اس نے چیخ چیخ کر کہا میں اس بڑھاپ ے میں اتنی دور سے چل کر صرف‬ ‫تمہیں دیکھنے آئی ہوں ‪ ،‬تمہارا کیا نقصان ہوگا اگر میں تمہاری شکلیں دیکھ لوں۔ کیا میں تمہاری‬ ‫ماں نہیں ہوں؟ مگر ان ولیوں ن ے درواز ہ ن ہ کھول اور ماں س ے کہہ دیا ک ہ ہ م تج ھ س ے خدا ک ے ہاں‬ ‫ملیں گے۔‬ ‫اس س ے بھ ی درد ناک قصہ سینٹ سائمن اسٹائلئیٹس کا ہے جو ماں باپ کو چھوڑ کر ‪ 27‬سال‬ ‫‪97‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫غائب رہا۔ باپ اس کے غم میں مر گیا۔ ماں زندہ تھی۔ بیٹے کی ولیت کے چرچے جب دور و نزدیک‬ ‫پھیل گئےے تو اس کو پتہے چل کہے وہے کہاں ہے۔ے بےے چاری اس س ے ملنےے کےے لئےے اس کی خانقاہے پر‬ ‫پہنچی ۔ مگر وہاں کسی عورت کو داخلے کی اجازت نہ تھی۔ اس نے لکھ منت سماجت کی کہ بیٹا‬ ‫یا تو اس ے اندر بلل ے یا باہ ر نکل کر اسے اپنی صورت دکھا دے۔ مگر اس ولی اللہ ن ے صاف انکار‬ ‫کر دیا ۔ تین رات اور تین دن وہ خانقاہ کے دروازے پر پڑی رہی اور آخر کا روہیں لیٹ کر اس نے‬ ‫جان د ے دی۔ تب ولی صاحب نکل کر آئے۔ ماں کی لش پر آنسو بہائے اور اس کی مغفرت کی‬ ‫دعا کی۔ ‪-------‬‬ ‫اپن ے قریب ترین رشت ے داروں ک ے سات ھ ب ے رحمی ‪ ،‬سنگدلی اور قساوت برتن ے کی جو مشق یہ‬ ‫لوگ کیا کرت ے تھے ‪ ،‬اس کی وج ہ س ے ان ک ے انسانی جذبات مر جات ے تھے اور اسی کانتیج ہ تھ ا کہ‬ ‫جن لوگوں ک ے سات ھ انہیں مذہبی اختلف ہوتا تھ ا ان ک ے مقابل ے میں ی ہ ظلم و ستم کی انتہ ا کر‬ ‫دیتے تھے۔ چوتھی صدی تک پہنچتے پہنچتے مسیحیت میں ‪ 90-80‬فرقے پیدا ہو چکے تھے۔ ‪ -------‬یہ‬ ‫فرقے ایک دوسرے کے خلف سخت نفرت رکھتے تھے۔ ‪-------‬‬ ‫پہلے ایرئن فرقے کے بشپ نے اتھاناسیوس کی پارٹی پر حملہ کیا‪ ،‬اس کی خانقاہوں سے کنواری‬ ‫راہبات پکڑ پکڑ کر نکالی گئیں‪ ،‬ان کو ننگا کرکے خاردار شاخوں سے پیٹا گیا اور ان کے جسم پر‬ ‫داغ لگائ ے گئ ے تاک ہ و ہ اپن ے عقید ے س ے توب ہ کریں ۔ ‪ -------‬اسی اسکندری ہ میں ایک مرتب ہ سینٹ‬ ‫سائرل کے مرید راہبوں نے ہنگامہ عظیم برپا کیا‪ ،‬یہاں تک کہ مخالف فرقے کی ایک راہبہ کو پکڑ کر‬ ‫اپن ے کلیسا میں ل ے گئے ‪ ،‬اس ے قتل کیا‪ ،‬اس کی لش کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالی اور پھ ر اس ے آگ‬ ‫میں جھونک دیا۔ (تفہیم القرآن ‪ ،‬سورۃ الحدید)‬

‫الل ہ تعالیٰ ن ے ان کی اس رہبانیت پر تبصر ہ کرتے ہوئ ے فرمایا‪ :‬و رھبانی ۃ ن ابتدعوھا ۔ ما‬ ‫کتبنٰھا علیھم اّل ابتغاء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا۔ (الحدید ‪’’ )57:27‬رہبانیت تو‬ ‫انہوں ن ے خود ہ ی ایجاد کر لی تھی ۔ ہم ن ے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا ۔ انہوں نے اللہ کی‬ ‫رضا حاصل کرنے کے لئے( اسے ایجاد تو کرلیا ) مگر اس کی رعایت نہ رکھ سکے۔’’ اس‬ ‫رہبانیت کی ایجاد کی وجہ ی ہ تھ ی ک ہ جب انسان دین کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی‬ ‫نظر میں دنیا کی وقعت کچھ نہیں رہتی۔‬ ‫اسی بنا پر بعض صحاب ہ رضی الل ہ عنہ م ن ے بھ ی رہبانیت اختیار کرنے کی کوشش کی‬ ‫اور یہ ارادہ کیا کہ وہ رات بھر نمازیں پڑھا کریں گے‪ ،‬ہمیشہ روزہ رکھیں گے اور ہمیشہ اپنی‬ ‫بیویوں س ے دور رہیں گے۔جب رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰلہ وسلم تک ی ہ بات پہنچی تو‬ ‫آپ ن ے فرمایا‪’’ :‬خدا کی قسم! میں تم سےے زیادہے خدا س ے ڈرن ے وال ہوں اور اس کے‬ ‫حدود کا پاس رکھنے وال ہوں‪ ،‬لیکن میں روزے بھ ی رکھتا ہوں اور افطار بھ ی کرتا ہوں۔‬ ‫میں نماز بھ ی پڑھتا ہوں اور سوتا بھ ی ہوں اور شادی بیاہ بھ ی کرتا ہوں ۔ جس نے میرے‬ ‫طریقے سے انحراف کیا ‪ ،‬اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔’’ (بخاری ‪ ،‬کتاب النکاح)‬ ‫اسی طرح رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم فرمایا کرتے’’ دین ک ے معامل ے میں‬ ‫خود پر سختی نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر سختی کرے۔ ایک گروہ نے اپنے اوپر سختی‬ ‫کی تو اللہے نےے بھی ان پر سختی کی۔ے یہے انہی کی باقیات ہیں جنہیں تم گرجوں اور‬ ‫خانقاہوں میں دیکھتےے ہو۔ے پھ ر آپ صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلم نےے آیت رہبانیت تلوت‬ ‫فرمائی۔’’ (ابوداؤد‪ ،‬کتاب الدب)‬ ‫قرآن مجید میں الل ہ تعالی ٰ کا فرمان ہے ‪ :‬قل من حرم زین ۃ الل ہ التی اخرج لعباد ہ و‬ ‫(العراف ‪ ) 7:32‬آپ کہہ دیجئ ے ک ہ کس ن ے الل ہ کی عطا کی ہوئی‬ ‫الطیبت من الرزق ۔‬ ‫زینت اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو حرام کیا ہے جو اس ن ے اپنے بندوں کے لئ ے پیدا کی‬ ‫ہیں۔ے یا ایھ ا الذین آمنوا ل تحرموا طیبٰ ت ما احل اللہے لکم ول تعتدوا۔ے ان اللہے ل یحب‬ ‫المعتدین ۔ و کلوا مما رزقکم الل ہ حلٰل طیبا ۔ و اتقوا الل ہ الذی انتم ب ہ مومنون ۔ (المائدہ‬ ‫‪ ) 88-5:87‬ا ے ایمان والو! الل ہ ن ے جو پاک چیزیں تمہار ے لئ ے حلل کی ہیں انہیں حرام نہ‬ ‫‪98‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کرو۔ حد سے نہ بڑھو کیونکہ بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اللہ نے‬ ‫جو حلل اور پاکیزہ چیزیں تمہیں دی ہیں ‪ ،‬ان میں سے کھاؤاور اللہ سے ڈرتے رہوجس پر‬ ‫تم ایمان رکھتے ہو۔‬ ‫موجودہ دور میں بھی بہت سے ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دین پر چلنے کی توفیق‬ ‫دی ہے ‪ ،‬دنیا کو بالکل نظر انداز کئ ے ہوئ ے ہیں ۔ مثال ک ے طور پر میر ے کئی جانن ے والوں‬ ‫ن ے اپنی تعلیم کو اس لئ ے خیرباد کہ ا ک ہ و ہ اپنا وقت تعلیم کی بجائ ے اپنی دینی جماعت‬ ‫کی سرگرمیوں میں لگانا چاہتےے تھے۔ے کچھے عرصےے کےے بعد انہیں اپنی جماعت سے‬ ‫نظریاتی اختلفات پیدا ہوگئ ے جس ک ے نتیج ے میں انہیں اس س ے علیحد ہ ہونا پڑا ۔ اب وہ‬ ‫صورتحال سامنے آئی کہ نہ خدا ہی مل نہ وصال صنم‪ ،‬نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔‬ ‫اسی طرح میں کچ ھ ایس ے لوگوں کو جانتا ہوں جو دین کی تبلیغ ک ے لئ ے اپن ے بیوی‬ ‫بچوں کو چھوڑ کر کئی کئی ماہ کے لئے چلے جاتے ہیں اور ان کے خاندان کا خرچ ان کے‬ ‫رشت ہ داروں کو بادل نخواستہے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ و ہ رشتہے دار ان کا خرچ اٹھانےے پر‬ ‫جس طرح کی طعن و تشنیع کرت ے ہیں اور اس س ے ان کی بیوی اور بچوں کی عزت‬ ‫نفس جس بری طرح س ے مجروح ہوتی ہے اس کا حال وہ ی جانت ے ہیں یا پھ ر خدا جانتا‬ ‫ہے۔ ی ہ لوگ یقینا الل ہ تعالی ٰ ک ے ایک حکم پر تو عمل کر رہے ہیں لیکن دوسر ے حکم کی‬ ‫خلف ورزی کر رہے ہیں اور اسی کا نام انتہا پسندی ہے۔‬

‫ر ہبانیت اور دنیا پرستی کی انت ہائیں‬ ‫اس ک ے بالکل برعکس ہمار ے معاشر ے کا عمومی رجحان دنیا پرستی کا ہے جو ک ہ انتہا‬ ‫پسندی کی دوسری شکل ہے۔ اپنی چند سال ہ دنیا کو خوبصور ت بنانے کے لئ ے ہم آخرت‬ ‫کو مکمل طور پر نظر انداز کئے ہوئ ے ہیں ۔ کاروبار یا ملزمت میں ترقی کے لئ ے ہم اپنا‬ ‫خون پسینہ ایک کردیتے ہیں۔ دفاتر میں خود کو زیادہ محنتی ثابت کرنے لئے آٹھ گھنٹے کی‬ ‫بجائے سولہ سولہ گھنٹے کام کرت ے ہیں ۔ اس سلسلے میں نمازیں ب ے شک قضا ہوں‪ ،‬اولد‬ ‫کی تربیت سےے جتنی چاہےے غفلت ہو جائے‪ ،‬دین کےے تقاضےے جتنا چاہےے نظر انداز ہو‬ ‫جائیں‪،‬ہمیں اس کی کوئی پروا ہ نہیں ہوتی حتی ٰ ک ہ ہمیں اپنی روحانی صحت ک ے علوہ‬ ‫جسمانی صحت کا بھی خیال نہیں رہتا اور ہم اپنی جسمانی صحت کو بہتر بنانے کا وقت‬ ‫نکالنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے۔‬ ‫یہ درست ہے کہ غیر منصفانہ معاشرتی و معاشی نظام کی وجہ سے اکثر مالکان اپنے‬ ‫ملزمین کا خون چوست ے ہیں اور انہیں کم س ے کم تنخوا ہ د ے کر ان س ے زیاد ہ س ے زیادہ‬ ‫وقت کام کروانےے کی کوشش کرتےے ہیں لیکن ایسےے ملزمین کی بھ ی کمی نہیں جو‬ ‫محض اپنےے شوق میں دن رات کام میں مشغول رہتےے ہیں۔ے اسی طرح بہت سے‬ ‫کاروباری حضرات اپنے بزنس میں اس طرح مگن ہوتے ہیں کہ انہیں دین و دنیا کی کوئی‬ ‫خبر نہیں ہوتی۔ یہ بھی انتہا پسندی ہی کی ایک شکل ہے۔‬ ‫عیسائی حضرات کے تصوف اور رہبانیت کی اس تحریک نے مسلمانوں کو بھی متاثر‬ ‫کیا۔ ابتدا میں مسلمانوں کے ہاں صوفی تحریک خالصتا ً تزکیہ نفس کی تحریک تھی جس‬ ‫کا مقصد دنیا پرستی کےے غلبےے سےے مسلمانوں کو بچانا تھا۔ے بعد کےے بہ ت سےے صوفی‬ ‫یہودی‪ ،‬عیسائی‪ ،‬مجوسی اور ہندو تصوف س ے بہ ت متاثر ہوئ ے اور ترک دنیا کی تحریک‬ ‫ان میں عام ہو گئی۔ خانقاہیں بننے لگیں اور لوگ دنیا کو ترک کر کے جنگلوں میں نکلنے‬ ‫لگے۔‬ ‫موجودہ دور میں دنیا پرستی کو جو غلبہ حاصل ہوا ہے اس کے نتیجے میں ترک دنیا کی‬ ‫‪99‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ی ہ تحریک کم از کم مسلمانوں میں دم توڑ چکی ہے اور خانقاہوں پر تارک الدنیا صوفیا‬ ‫کے جانشین بیٹھے ہیں جو اپنے بزرگوں کے برعکس دنیا پرستی میں کسی طور بھی عام‬ ‫لوگوں سے کم نہیں ہیں ۔ دنیا کی رنگینیوں سے فائد ہ اٹھان ے کے لئے انہوں ن ے یہ حل نکال‬ ‫ہے کہ "دنیا کی محبت اگر دل میں نہ ہو تو اس کی چیزوں کو استعمال کرنے میں کوئی‬ ‫حرج نہیں۔"‬ ‫دین اسلم ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کا راستہ پیش کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ‬ ‫دین اور دنیا میں توازن قائم کرتے ہوئے دونوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی‬ ‫جائے۔ رہبانیت ہ و یا دنیا پرستی‪ ،‬دونوں س ے الل ہ ک ے رسول صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم نے‬ ‫منع فرمایا ہے۔‬

‫خلیج سویز‬ ‫اب ہ م یہاں س ے واپس ہوئے۔ سینٹ کیتھرین ک ے گیٹ س ے نکل کر گاڑی میں بیٹھے اور‬ ‫قاہر ہ کی طرف اپنا رخ کر لیا ۔ ایک گھنٹ ے میں ہ م واپس اسی مقام پر پہنچ چک ے تھے‬ ‫جہاں س ے ایک دن پہل ے ہ م سینٹ کیتھرین ک ے لئے مڑ ے تھے۔ اب ہ م خلیج سویز کے ساتھ‬ ‫ساتھ سفر کر رہے تھے جس کا نیل پانی دور دور تک پھیل ہوا تھا ۔ خلیج سویز کے مناظر‬ ‫خوبصورت تھے لیکن ان کی نسبت سینا ک ے دوسری جانب خلیج عقب ہ ک ے مناظر زیادہ‬ ‫خوبصورت تھے۔‬ ‫کچ ھ ہ ی دیر میں ہ م ایسےے پہاڑوں کےے قریب سےے گزرےے جنہیں باقاعدہے عمارتوں کی‬ ‫شکل میں تراشا گیا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق یہاں چاند دیوی کے ماننے والوں کی‬ ‫آبادی تھی ۔ غالبا ً یہیں س ے گزرت ے ہوئےے بنی اسرائیل ن ے مشرک اقوام ک ے معبودوں کو‬ ‫دیکھت ے ہوئ ے سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم س ے درخواست کی تھ ی ک ہ و ہ بھ ی انہیں‬ ‫ایسا ہی معبود بنا دیں۔‬ ‫آگے ایک چھوٹا سا قصبہ "ابو ردیس" آیا۔ میں نےیہاں رک کر کوک اور ایک پین خریدا۔‬ ‫قصبےے کی دکانیں اور بازار ہمارےے بٹ گرام اور بٹ خیلہے کا منظر پیش کر رہےے تھے۔‬ ‫تھوڑی دیر میں ہ م "حمام فرعون" ک ے مقام پر جا نکلے۔ اس جگ ہ ک ے بار ے میں مشہور‬ ‫ہے کہ فرعون منفتاح یا رعمسیس‪ ،‬جو کہ سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلم کے مقابلے پر‬ ‫آ کر غرق ہوا تھا‪ ،‬کی لش یہاں تیرتی ہوئی ملی تھی۔ مصریوں نے اپنے بادشاہ کی لش‬ ‫دیکھ کر اسے حنوط کر کے محفوظ کر لیا۔ کچ ھ آگ ے جا کر ہ م "عیون موسی" ک ے مقام‬ ‫پر پہنچ گئے۔ اس جگہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ بنی اسرائیل نے اس مقام سے سمندر‬ ‫کو پار کیا تھا اور فرعون اپنی فوج سمیت سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔‬

‫مصر اسرائیل جنگ‬ ‫اس مقام پر ‪1973‬ء کی جنگ کی یادگار بنی ہوئی تھی۔ یہاں مصری سپاہیوں کے مجسمے‬ ‫بھ ی تھے جن کی مدد ایک فرشتے کو کرتے دکھایا گیا تھا ۔ غالبا ً مصر میں اس طرح کی‬ ‫کہانیاں عام ہوں گی جیسا کہ ہماری ‪1965‬ء کی جنگ کے بارے میں مشہور کر دی گئی ہیں‬ ‫کہ بھارتی جہازوں ک ے راوی کے پل پر پھینک ے ہوئ ے بم کوئی بزرگ دریائ ے راوی س ے نکل‬ ‫کر کیچ کر لیتے تھے اور دریا میں غوطہ لگا جاتے تھے۔‬ ‫مصری افواج نے سینا کا کچھ حصہ اسرائیلی افواج سے چھڑا لیا تھا جس پر مصر کو‬ ‫فخر حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیلی افواج نے اس کے بدلے میں مصر کے مین لینڈ‬ ‫کے اتنے ہی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت مصر کے صدر انور سادات تھے جو جمال‬ ‫‪100‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫عبدالناصر کی نسبت کافی معقول اور حقیقت پسند تھے۔ے انہوں نےے اس جنگ سےے یہ‬ ‫سبق حاصل کیا کہ وہ اسرائیل سے تو لڑ سکتے ہیں مگر امریکہ سے نہیں۔ امریکہ کے ایماء‬ ‫پر انہوں نے اسرائیل سے صلح کر کے اسے تسلیم کر لیا جس کے بدلے اسرائیل نے مصر‬ ‫کو جزیرہ نما سینا واپس کر دیا۔‬

‫ن ہر سویز‬ ‫دوپہ ر تک ہ م نہ ر سویز ک ے قریب پہنچ چک ے تھے۔ سمندر اب ختم ہ و چکا تھا ۔ جزیر ہ نما‬ ‫سینا اور مصر کے مین لینڈ کی سرحد نہر سویز ہے۔ اس نہر کا آئیڈیا تو بہت پرانا ہے لیکن‬ ‫دفاعی نقطہ نظر سے اس نہر کو کبھی تعمیر نہ کیا گیا۔‬ ‫انیسویں صدی میں جب مصر انگریزوں کے قبضے میں آیا تو انہوں نے ‪1869‬ء میں نہر‬ ‫سویز کھود ڈالی ۔ اس دور ک ے انگریز ذرائع نقل و حمل کو ترقی دین ے ک ے لئ ے مشہور‬ ‫تھے۔ یہ وہی دور ہے جب انگریز برصغیر میں ریل بچھا رہے تھے۔ یہ نہر‪ ،‬جہاز رانی کی دنیا‬ ‫میں ایک بڑا بریک تھرو تھ ی جس کےے نتیجےے میں ایشیا سےے یورپ جانےے والےے بحری‬ ‫جہازوں کا فاصلہ کئی ہزار کلومیٹر کم ہو گیا تھا۔‬ ‫نہ ر سویز‪ ،‬سویز کی بندرگا ہ س ے شروع ہ و کر پورٹ سعید تک جاتی ہے۔ نہ ر کی کل‬ ‫لمبائی ‪ 170‬کلومیٹر ہے۔ اس کی چوڑائی عام طور پر تین سو میٹر ہے اور بڑ ے س ے بڑا‬ ‫بحری جہاز اس میں سے باآسانی گزر سکتا ہے۔ مصر کی معیشت کا بڑی حد تک انحصار‬ ‫نہر سویز کی آمدنی پر ہے۔ اسرائیل کا ارادہ بھی ہے کہ وہ خلیج عقبہ کو ایک نہر کے ذریعے‬ ‫ڈیڈ سی سے اور پھر ڈیڈ سی کو ایک اور نہر کے ذریعے بحیرہ روم سے مل دے۔ اگر یہ نہر‬ ‫بن گئی تو مصر کی آمدنی کو بڑا دھچکا پہنچنے کا خطرہ ہے۔‬ ‫نہ ر سویز کو پار کرن ے ک ے لئ ے پل کی بجائ ے سرنگ بنائی گئی تھی ۔ دو مصری پاؤنڈ‬ ‫ٹول ٹیکس ادا کر کے ہم سرنگ میں داخل ہوئے۔ یہ پتلی سی سرنگ تھی جس میں ٹریک‬ ‫اتنا تنگ تھ ا کہے اوور ٹیک کرنا ممکن ہ ی نہے تھا۔ے اسےے دیکھے کر مجھےے مکۃے المکرمۃے کی‬ ‫سرنگیں یاد آئیں جو ک ہ نہایت ہ ی کشاد ہ ہیں ۔ نصف کلومیٹر لمبی سرنگ س ے نکلت ے ہی‬ ‫ایک ریسٹ ایریا آ گیا۔ یہاں رک کر ہم نے نماز ادا کی۔ یہاں بیٹھے کچھ مصریوں سے میں‬ ‫نے پوچھا کہ کہیں کوئی ایسا مقام ہے جہاں سے ہم نہر سویز کو دیکھ سکیں۔ وہ کہنے لگے‪،‬‬ ‫"نہر سویز پوری کی پوری فوج کی تحویل میں ہے اور اس تک جانے کے تمام راستے بند‬ ‫ہیں۔"‬ ‫اب میری گاڑی کے پہیوں س ے عجیب سی آواز نکل رہ ی تھی ۔ قریب ہ ی ایک صاحب‬ ‫اپنی گاڑی کا بونٹ اٹھائ ے کھڑ ے تھے۔ میں ن ے ان س ے درخواست کی ک ہ و ہ میری گاڑی‬ ‫بھی دیکھ لیں۔ دیکھ کر انہوں نے کہا‪" ،‬گھبرانے کی کوئی بات نہیں‪ ،‬پاور اسٹیرنگ آئل ذرا‬ ‫کم ہو گیا ہے‪ ،‬وہ ڈال لیں تو آواز ٹھیک ہو جائے گی۔" میں نے ایسا ہی کیا جس کے نتیجے‬ ‫میں آواز ختم ہ و گئی ۔ مصر میں میں ن ے ی ہ پہل ے صاحب دیکھے جنہوں ن ے داڑھ ی رکھی‬ ‫ہوئی تھی ۔ بڑ ے خوش مزاج تھے۔ سعودی عرب ک ے شہ ر دمام میں کام کرت ے تھے اور‬ ‫ہماری طرح وہاں سے اپنی گاڑی پر مصر جا رہے تھے۔‬ ‫مصری بالعموم داڑھی نہیں رکھتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے فقہا کے نزدیک‬ ‫داڑھی رکھنا "واجب" نہیں بلکہے "مستحب" ہے۔ے دوسری وجہے یہے ہےے کہے مصری حکومت‬ ‫داڑھ ی والوں کو اخوان المسلمون کا نمائند ہ سمجھتی ہے اور ان س ے تفتیش کا سلسلہ‬ ‫شروع کر دیتی ہے۔ یہ ی وج ہ ہے ک ہ سعودی عرب میں رہن ے وال ے بہ ت س ے مصری داڑھی‬ ‫رکھ لیتے ہیں لیکن جب سالنہ چھٹیوں پر یہ لوگ مصر جاتے ہیں تو داڑھی منڈوا دیتے ہیں‬ ‫‪101‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اور واپسی پر پھر رکھ لیتے ہیں۔ مجھے مصری کولیگز نے بتایا تھا کہ آپ بے فکر ہو مصر‬ ‫جا سکتے ہیں کیونکہ غیر ملکی داڑھی والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔‬

‫سویز ش ہر‬ ‫ہم نے سوچا کہ ذرا سویز شہر بھی دیکھ لیا جائے۔ شہر یہاں سے دس کلومیٹر کے فاصلے‬ ‫پر تھا۔ے شہر میں داخل ہوئےے تو ریلوےے پھاٹک نےے ہمارا استقبال کیا۔ے جس زمانےے میں‬ ‫انگریزوں نے ہمارے ہاں ریلوے لئن بچھائی تھی‪ ،‬اسی زمانے میں انہوں نے مصر میں بھی‬ ‫ریلوے لئن بچھا ڈالی تھی۔ مصر کی ریلوے لئن کو دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ ہم نے اپنی‬ ‫ریل کو کافی اپ گریڈ کر لیا ہے کیونکہ یہاں ابھی تک تنگ گیج کی لئن بچھی ہوئی تھی۔‬ ‫سویز شہ ر ک ے جس علق ے میں ہ م داخل ہوئ ے و ہ لہور کی چمڑ ہ منڈی‪ ،‬سلطان پورہ‬ ‫اور تیزاب احاط ے کی طرز کا علق ہ تھا ۔ ویسی ہ ی ریلو ے لئن‪ ،‬ویس ے ہ ی مکانات اور‬ ‫ویسا ہی ٹریفک۔ ہم یہاں سے واپس ہوئے۔‬

‫بحیرات مر ۃ یا کڑوی ج ھیلیں (‪)Bitter Lakes‬‬ ‫نہر سویز کے بیچوں بیچ دو جھیلیں ہیں جو "بحیرات مرۃ" یعنی کڑوی جھیلیں کہلتی ہیں۔‬ ‫یہ جھیلیں اسماعیلیہ شہر کے قریب واقع ہیں اور سمندر کے مدوجزر کو جذب کر کے نہر‬ ‫میں پانی کی سطح بلند نہیں ہونے دیتیں۔ گوگل ارتھ سے یہ کافی خوبصورت نظر آ رہی‬ ‫تھیں۔ میرا ارادہ تھا کہ یہ جھیلیں دیکھی جائیں۔ ایک دکاندار سے معلوم کیا تو پتہ چل کہ یہ‬ ‫جھیلیں بھ ی فوج ک ے قبض ے میں ہیں اور یہاں جانا ممکن نہیں ۔ پوری نہ ر سویز مصری‬ ‫فوج کے زیر کنٹرول ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نہر سے گزرنے والے جہازوں‬ ‫پر دہشت گرد‪ ،‬نہر کے کنارے سے راکٹ فائر کر کے حملہ کر سکتے ہیں۔‬ ‫اسماعیلیہے شہر سےے مجھےے حسن البناء یاد آ گئےے جنہوں نےے اس شہر میں اخوان‬ ‫المسلمون کی بنیاد رکھ ی تھی ۔ اخوان مسلم اور بالخصوص عرب دنیا میں سب سے‬ ‫منظم اسلمی تحریک سمجھ ی جاتی ہے اس لئ ے بہتر ہے ک ہ لگ ے ہاتھوں اس کا تعارف‬ ‫بھی پیش کر دیا جائے۔‬

‫اخوان المسلمون‬ ‫اخوان المسلمون کی بنیاد ‪1928‬ء میں اسماعیلیہ کے قصبے میں پڑی۔ اس کے بانی حسن‬ ‫البناء تھے۔ ابتدا میں اس تحریک ن ے سماجی اور فلحی نوعیت ک ے کاموں پر اپنی توجہ‬ ‫رکھ ی لیکن جلد ہ ی ی ہ تحریک سیاسی میدان میں آ گئی ۔ اس تحریک ن ے معاشر ے کی‬ ‫اصلح کے لئ ے ٹاپ ڈاؤن ماڈ ل کو اختیار کیا ۔ ان کا نقطہ نظر ی ہ تھ ا کہ حکومت تبدیل کر‬ ‫ک ے اسلم کا نظام خلفت رائج کیا جائ ے اور اس کی مدد س ے معاشر ے کی اصلح کی‬ ‫جائے۔‬ ‫مصر پر اس وقت شاہ فاروق کی حکومت تھ ی جو مصری معاشر ے کو مغربی رنگ‬ ‫میں رنگنا چاہتےے تھے۔ے اخوان المسلمون کی تحریک ان کی راہے میں بڑی رکاوٹ تھی۔‬ ‫اخوان کی حکمت عملی بالعموم عدم تشدد کی تھ ی لیکن ان ک ے مخالفین ک ے مطابق‬ ‫ان کا ایک خفیہ عسکری ونگ کام کر رہا تھا ۔ ‪1948‬ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اخوان‬ ‫نے اپنے ممبرز کو اسرائیل کے خلف جنگ کرنے کے لئے بھیجا۔ دسمبر ‪1948‬ء میں پولیس‬ ‫نے اخوان کے خفیہ ونگ کے خلف ایک آپریشن میں بم اور دیگر اسلحہ پکڑ لیا۔‬ ‫اس زمانے میں اخوان مصری معاشرے میں مضبوط پوزیشن حاصل کر چکے تھے۔ ان‬ ‫‪102‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کے اپنے ہسپتال‪ ،‬فیکٹریاں اور اسکول کام کر رہے تھے۔ مصری حکومت نے اس خفیہ ونگ‬ ‫کو انقلبی تحریک سمجھتےے ہوئےے اخوان کےے خلف کریک ڈاؤن کیا۔ے اسی دوران ایک‬ ‫اخوانی نے مصر کے وزیر اعظم محمود فہمی النقریشی کو قتل کر دیا۔ حسن البناء نے‬ ‫ان تمام متشددان ہ کاروائیوں کی مخالفت کی اور خود کو اس س ے بری الذم ہ قرار دیا۔‬ ‫فروری ‪1949‬ء میں ایک نامعلوم شخص نے حسن البناء کو قتل کر دیا۔‬ ‫اخوان کی یہے تحریک مغربی کلچر کےے اثر و نفوذ‪ ،‬سیکولر نیشنلزم کےے خطرےے اور‬ ‫مغربی امپیریل ازم کی موجودگی کے خلف رد عمل ک ے طور پر وجود میں آئی۔اخوان‬ ‫نے اسلم کی نظریاتی خود کفالت پر زور دیا۔ یہ مغرب کی شدید مخالف جماعت تھی۔‬ ‫انہوں ن ے مغرب اور مشرق ک ے کیپٹلزم اور سوشلزم کو مسلم دنیا ک ے لئ ے ماڈ ل ماننے‬ ‫سےے انکار کر دیا۔ے انہوں نےے مسلم معاشروں کی ویسٹرنازیشن اور سیکولر ائزیشن‪،‬‬ ‫نیشنلزم کی تقسیم امہ‪ ،‬کیپٹلزم کے معاشی تفاوت اور مارکسزم کی مادیت پرستی اور‬ ‫خدا کے انکار کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو بتایا کہ وہ یاد رکھیں کہ ان سب‬ ‫سےے ہ ٹ کر ان کےے پاس اسلم موجود ہےے جو غیر ملکی ماڈلز اور سسٹمز کا بہترین‬ ‫متبادل ہے۔‬ ‫‪ 1952‬ء میں ایک فوجی انقلب ک ے نتیج ے میں جمال عبدالناصر ن ے اقتدار پر قبض ہ کر‬ ‫لیا۔ اس بغاوت میں اخوان نے ناصر کا ساتھ دیا۔ اقتدار کے بعد ناصر نے اخوان سے سرد‬ ‫مہری کا رویہے اختیار کیا۔ے انہوں نےے اسلم کو اپنا رول ماڈل ماننےے کی بجائےے عرب‬ ‫سوشلزم کو فروغ دیا ۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں ل ے لیا گیا اور عرب قومیت کو‬ ‫فروغ دیا گیا ۔ اس دوران اخوان کے آپس میں تنظیمی اختلفات بڑھت ے گئے۔ ‪1954‬ء میں‬ ‫اخوان نے ناصر پر قاتلنہ حملہ کیا جس کے بعد ناصر نے اخوان پر مکمل پابندی عائد کر‬ ‫کے اس کے ہزاروں ممبرز کو جیل بھجوا دیا۔ ان افراد کو سالوں جیل میں رکھا گیا جس‬ ‫کے نتیجے میں اخوان میں انتہا پسندی نے فروغ پایا۔‬ ‫‪ 1960‬ء کےے عشرےے میں سید قطب اخوان کےے سب سےے بڑےے مفکر اور لیڈ ر بن کر‬ ‫ابھرے۔ ‪1966‬ء میں ناصر نے سید قطب کو بھی پھانسی دے دی جس کے بعد اخوان میں‬ ‫شدت پسندی بڑھتی چلی گئی اور وہ طاقت کے زور پر موجودہ حکومت کو ختم کر کے‬ ‫اسلمی حکومت کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہو گئے۔ ‪1967‬ء میں عرب اسرائیل جنگ‬ ‫میں مصر کی شکست کے نتیجے میں جزیرہ نما سینا اسرائیل کے قبضے میں چل گیا۔ یہ‬ ‫جنگ عرب قومیت کےے جذبےے کےے تحت لڑی گئی تھی۔ے اس جنگ کےے نتیجےے میں عرب‬ ‫سوشلزم اور ناصر کی مقبولیت کم ہونے لگی۔ ‪1970‬ء میں ناصر اچانک فوت ہو گئے۔‬ ‫ناصر ک ے بعد انور سادات کی حکومت آئی جنہوں ن ے اخوان س ے اچھ ا سلوک کیا اور‬ ‫حکومت کو اسلمی بنانےے کا ارادہے ظاہ ر کیا۔ے انہوں نےے بہ ت سےے اخوان کو رہ ا کر دیا۔‬ ‫‪ 1978‬ء میں سادات نے اسرائیل س ے صلح کر لی جس ک ے نتیج ے میں اخوان سادات کے‬ ‫خلف ہو گئے۔ اس دوران ان کے بہت سے شدت پسند گروپ ان سے الگ ہو گئے۔ اخوان‬ ‫نےے ان گروہوں سےے لتعلقی کا اعلن کیا۔ے ایسےے ہ ی ایک گروپ الجہاد کےے ایک کارکن‬ ‫لیفٹیننٹ خالد اسلمبولی نے ‪1981‬ء سادات کو میں قتل کر دیا۔‬ ‫سادات کےے بعد حسنی مبارک مصر کےے صدر بنے۔ے انہوں نےے اپنےے ابتدائی ایام میں‬ ‫اخوان کو کسی حد تک برداشت کیا لیکن انتہا پسند گروپوں کے خلف کریک ڈاؤن جاری‬ ‫رکھا۔ مذہبی انتہا پسندوں کو سائیڈ لئن کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ان کے غیض‬ ‫و غضب میں اضاف ہ ہوا اور انہوں ن ے عیسائی گرجوں اور ان کی دکانوں پر حمل ہ کرنا‬ ‫شروع کر دیا۔بڑے شہروں میں نائٹ کلبوں‪ ،‬باروں‪ ،‬سینماؤں‪ ،‬ویڈیو سنٹروں اور جو بھی‬ ‫‪103‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫چیز مغربی اثر و نفوذ کو ظاہر کرتی تھی‪ ،‬کو آگ لگا دی گئی یا بم سےے اڑا دیا‬ ‫گیا۔اسلمی قانون ک ے نفاذ ک ے لئ ے مظاہر ے کئ ے گئے۔ ان گروپوں کی باقیات اب ڈاکٹر‬ ‫ایمن الظواہری کی قیادت میں القاعدہ میں شامل ہو چکی ہیں۔‬ ‫اخوان المسلمون ن ے اپنی حکمت عملی مکمل طور پر تبدیل کر دی ۔ اب انہوں نے‬ ‫تشدد کا سہارا لینے کی بجائے معاشرے میں اصلح کے عمل کا آغاز کیا۔ اس دوران انہوں‬ ‫نےے محدود تعداد میں پارلیمنٹ کےے الیکشن میں حصہے بھ ی لیا اور خاطر خواہے کامیابی‬ ‫حاصل کی۔ اس کامیابی کو مغربی مفکر جان ایل ایسپوزیٹو اس طرح بیان کرتے ہیں‪:‬‬ ‫‪ 1990‬کا عشرہ مصر میں ایک نئی تبدیلی لے کر آیا۔ اسلم جو پہلے غریبوں یا لوئر مڈل کل س تک‬ ‫ہی محدود تھا‪ ،‬اب مڈل اور اپر کلس میں بھی مقبولیت حاصل کرنے لگا۔تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم‬ ‫یافتہ‪ ،‬کسان اور پروفیشنلز‪ ،‬بوڑھے اور جوان اور مرد و عورت سب قرآن کے مطالعے کے گروپس‬ ‫میں آنے لگے۔اب اسلمی شناخت کا اظہار محض مذہبی رسوم و رواج ہی سے نہیں بلکہ سماجی‬ ‫سرگرمیوں میں بھ ی ہونے لگا ۔ اس کی مثال منشیات ک ے علج کے سنٹر‪ ،‬میڈیکل کیمپ‪ ،‬قانونی‬ ‫مدد فراہ م کرن ے والی سوسائیٹیز اور ایسی تنظیموں ہیں جو سست ے مکانات اور خوراک فراہم‬ ‫کرتی ہیں۔علماء اور مساجد کا کردار بھی معاشرے کی تعمیر میں بڑھنے لگا ۔‬ ‫مذہبی رہنما جیسے شیخ محمد مطاولی الشراوی اور شیخ عبدالحمید مقبول ترین میڈیا سٹار بن‬ ‫گئے۔ان کی تقاریر باقاعدگی س ے ٹی وی پر نشر کی جان ے لگیں اور ان کی کتب مذہبی اداروں‬ ‫سے ہٹ کر عام دکانوں پر بھی بکنے لگیں۔اب مذہبی تقاریر صرف مساجد تک ہی محدود نہ رہیں‬ ‫بلکہ ی ہ ٹیکسیوں‪ ،‬بسوں‪ ،‬گھروں‪ ،‬دکانوں اور بازاروں میں بھ ی آڈیو کیسٹوں کی شکل میں پھیل‬ ‫گئیں۔رسالوں اور میگزینوں میں سیاست دانوں اور فلمی اداکاروں ک ے علوہ اب علماء کو بھی‬ ‫کوریج دی جانے لگی ۔ ان تمام چیزوں کے نتیجے میں انقلبیوں کی اہمیت معاشرے میں کم سے‬ ‫کم ہوتی جارہی ہے۔ (‪)John L. Esposito, The Islamic Threat: Myth or Reality‬‬

‫مصری حکومت کی جانب سے اخوان کے خلف کریک ڈاؤن کا سلسلہ کسی حد تک اب‬ ‫تک جاری ہے۔ے یہے اب بھ ی مصر کا سب سےے مضبوط اپوزیشن گروپ ہے۔ے اخوان کی‬ ‫شاخیں تمام عرب ممالک کے علوہ مغربی ممالک میں بھی موجود ہیں۔‬ ‫اخوان کی ویب سائٹ سےے حاصل کردہے معلومات ک ے مطابق ان کا تنظیمی ڈھانچہ‬ ‫متعدد درجوں پر مشتمل ہے۔ تنظیم کا سب س ے نچل یونٹ "اسرۃ " یعنی خاندان کہلتا‬ ‫ہے۔ نئ ے آن ے وال ے افراد کو اسر ہ کا ممبر بنایا جاتا ہے۔ تنظیم کی آئیدیالوجی ک ے مطابق‬ ‫ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ یہ یونٹ "اسرۃ التکوین" کہلتا ہے۔ اس تربیت کے نتیجے میں‬ ‫منتخب افراد کو "اسرۃ العمل" میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ افراد دراصل اخوان کے سب سے‬ ‫زیادہ متحرک رکن ہوتے ہیں۔ انہی افراد کو ان کی مزید تربیت اور خدمات کے نتیجے میں‬ ‫درجہ بدرجہ سینئر لیول تک لے جایا جاتا ہے۔‬ ‫تربیت پانے کے مختلف درجے ہیں۔ ابتدائی درجہ "ناصر" ہے جس کا معنی ہے مددگار۔‬ ‫اس کے بعد منفذ (نفاذ کرنے وال)‪ ،‬عامل (عمل کرنے وال) اور مجاہد (جہاد کرنے وال) کے‬ ‫درجے آتے ہیں۔ سب سے سینئر درجہ نقیب کا ہے۔ اخوان کے ایکٹو ممبرز کا اصل ٹارگٹ‬ ‫تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جہاں سے نئے افراد کو تنظیمی ماحول کا حصہ بنایا جاتا ہے۔‬ ‫اخوان معاشرے میں تبدیلی کا ایک ہمہ جہتی وژن رکھتی ہے۔ ان کے مطابق معاشرے‬ ‫میں تعلیمی‪ ،‬معاشی‪ ،‬سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں سےے اصلح کا عمل جاری رہنا‬ ‫چاہیے۔ اخوان خواتین کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں البتہ انہیں باپردہ رہنے کی تلقین کرتے‬ ‫ہیں۔ وہ اہل مغرب کے خلف مسلح مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں۔‬ ‫اپنے ابتدائی پچاس سالوں میں اخوان جو کامیابی حاصل نہ کر سکی‪ ،‬اس ن ے آخری‬ ‫بیس سالوں میں اس سے کہیں بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھ ی کہ‬ ‫اخوان نے حکومت حاصل کرنے کو اپنا مقصد حیات بنا کر تشدد کا راستہ اپنانے کی بجائے‬ ‫‪104‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مثبت انداز میں دعوتی کام پر اپنی توج ہ مرکوز کی جس کا نتیج ہ ی ہ نکل ک ہ آج مصری‬ ‫معاشرے میں تمام تر مغرب زدگی کے باوجود اسلم تیزی سے پھیل رہا ہے۔‬

‫‪105‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫قا ہر ہ‬ ‫مصر بھ ی پاکستان کی طرح ایک آرمی سٹیٹ ہے۔ شرم الشیخ س ے ل ے کر قاہر ہ تک ہر‬ ‫شہر میں جگہ جگہ یہاں کے صدر حسنی مبارک کی تصاویر نظر آئیں جو کہ ائر فورس کے‬ ‫چیف تھے۔ چونکہ ہم اردن میں سلطان کی لتعداد تصاویر دیکھ کر آ رہے تھے اس لئ ے یہ‬ ‫تصاویر ہمیں کافی کم محسوس ہوئیں ۔ مبارک یہاں ‪ 1981‬ء س ے برسر اقتدار ہیں ۔ مصر‬ ‫کی سیاست اور معیشت فوج کے مضبوط قبض ے میں ہے۔ صدارتی الیکشن میں ان کے‬ ‫علو ہ کسی اور امیدوار کو حص ہ لین ے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ پاکستان کی طرح ان کی‬ ‫پارلیمنٹ بھ ی فوج کے ماتحت رہ کر کام کرتی ہے۔ مصری فوج کا کردار بھ ی پاکستانی‬ ‫فوج کی طرح ہ ی ہے۔ اپن ے ملک ک ے معامل ے میں دونوں شیر ہیں البت ہ دشمن کے مقابلے‬ ‫میں مصری فوج کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آیا جو ‪ 1971‬میں پاکستان آرمی کے ساتھ‬ ‫پیش آیا تھا۔‬ ‫مصر میں روز مرہ استعمال کی عام اشیا کی قیمتوں سے اندازہ ہوا کہ یہاں اشیا کی‬ ‫قیمتیں تقریبا ً سعودی عرب جتنی ہی ہیں البتہے یہاں کےے لوگوں کی آمدنی کا معیار‬ ‫پاکستان جیسا ہے۔ پیٹرول اگرچ ہ سستا ہے لیکن لوگوں کی قوت خرید کے مطابق مہنگا‬ ‫ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بھی گاڑیاں ‪ LPG‬پر چلئی جاتی ہیں جو پیٹرول پمپوں پر عام‬ ‫دستیاب ہے۔ ناصر کے دور میں کی گئی نیشنلئزیشن نے معیشت کا بیڑا غرق کر کے رکھ‬ ‫دیا ۔ یہاں ب ے روزگاری بھ ی عام ہے۔ افرادی قوت کا بڑا حص ہ زراعت س ے وابست ہ ہے جو‬ ‫مصر کے صرف چھ فیصد رقب ے پر ممکن ہے۔ یہاں زراعت صرف دریائے نیل کے اطراف‬ ‫میں یا پھر ڈیلٹا کے علقے ہی میں ہو سکتی ہے۔‬ ‫سویز سےے نکلےے تو ویسا ہ ی منظر تھ ا جیسا کہے ہمارےے دیہاتی علقوں میں ہوتا ہے۔‬ ‫سرسبز لہلہات ے کھیت‪ ،‬ٹریکٹر ٹرالیاں‪ ،‬سرخ اینٹوں ک ے مکانات‪ ،‬اڑتی ہوئی دھول اور ان‬ ‫سب ک ے علو ہ دیہاتی چھپڑ جس ے اردو میں جوہ ڑ کہت ے ہیں ۔ ایک گھنٹ ے میں ہ م قاہر ہ جا‬ ‫پہنچے۔ے میں چونکہے گوگل ارتھے پر تفصیل کےے ساتھے قاہرہے شہ ر کو دیکھے کر اس کا نقشہ‬ ‫سمج ھ چکا تھ ا اس لئ ے کوئی مشکل ن ہ ہوئی ۔ بجائ ے شہ ر میں داخل ہ و کر ٹریفک میں‬ ‫پھنسنے کے ہم لوگ رنگ روڈ پر ہو لئے۔‬ ‫قاہرہ افریقہ کا سب سے بڑا شہر ہے اور اسے دنیا کا سولہواں بڑا شہر سمجھا جاتا ہے۔‬ ‫اس کی آبادی اس وقت ایک کروڑ ساٹھ لکھ کے قریب ہے۔ یہ شہر سیدنا عمرو بن عاص‬ ‫رضی الل ہ عن ہ کا بسایا ہوا ہے۔ بعد میں جب فاطمی حکمرانوں ن ے مصر فتح کیا تو اس‬ ‫کو از سر نو آباد کر ک ے اس کا نام قاہر ہ رکھا ۔ اب ی ہ ایک جدید شہ ر ہے۔ اپن ے پہل ے تاثر‬ ‫میں ی ہ ہمیں لہور اور کراچی س ے زیاد ہ متاثر کن ن ہ لگا ۔ اگر قاہر ہ س ے دریائ ے نیل اور‬ ‫تاریخی مقامات کو نکال دیا جائے تو ی ہ ایک عام سا شہ ر ہے۔ گرد و غبار اور گاڑیوں کے‬ ‫دھویں کے باعث خلیجی ممالک کے شہروں کی نسبت یہ کافی گندا سا محسوس ہوا۔ اہل‬ ‫مصر کی آبادی کا پچیس فیصد اس شہر میں آباد ہے۔‬ ‫رنگ رو ڈ س ے باہ ر "القاہر ۃ الجدید" کا علق ہ تھا ۔ ی ہ پوش علق ہ تھا ۔ دور س ے ہ ی اعلی‬ ‫درجے کے رہائشی کمپاؤنڈ نظر آ رہے تھے جو کسی طرح بھی خلیجی ممالک کے کمپاؤنڈز‬ ‫س ے کم ن ہ تھے۔ آگ ے جا کر معلوم ہوا ک ہ اس طرح کےپوش علقوں کےعلو ہ قاہر ہ میں‬ ‫کچی آبادیاں بھ ی پائی جاتی ہیں ۔ سعودی عرب میں امیر اور غریب علقوں میں فرق‬ ‫ضرور ہوتا ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں۔ وہاں کے غریب لوگوں کے علقوں میں بھی کم از کم‬ ‫‪106‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫زندگی کی بنیادی سہولیات جیس ے پکی سڑکیں‪ ،‬سیوریج‪ ،‬بجلی‪ ،‬پانی اور پیٹرول وغیرہ‬ ‫دستیاب ہوتی ہیں۔ مصر میں امیر اور غریب کا یہ فرق پاکستان کی طرح بہت زیادہ ہے۔‬ ‫تھوڑی دیر میں ہ م دریائ ے نیل کو پار کر ک ے اہرام تک جا پہنچے۔ قاہر ہ دریائ ے نیل کے‬ ‫مشرقی کنارےے پر واقع ہےے جبکہے مغربی کنارےے پر "جیزہ" کا شہر ہےے جو کہے ایک الگ‬ ‫گورنریٹ کا حص ہ ہے۔ عملی طور پر قاہر ہ اور جیز ہ اس طرح ایک ہ ی شہ ر ہیں جیسا کہ‬ ‫ہمارے ہاں لہور اور شاہدرہ ہیں۔ قاہرہ کے اہرام دراصل جیزہ میں واقع ہیں۔‬ ‫جیسے ہی ہم لوگ اہرام پہنچے‪ ،‬ایجنٹ ٹائپ کے لڑکوں نے ہم پر یلغار کر دی۔ یہ لڑکے‬ ‫ہم پر ویسے ہی ٹوٹ پڑے تھے جیسا کہ ایوبیہ اور نتھیا گلی کے علقوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے‬ ‫ہاں کے لڑکے ان کی نسبت کافی مہذب ہوتے ہیں۔ یہ لڑکے سیاحوں کو غلط معلومات دے‬ ‫کر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ میں چونکہ ان سے نمٹنے کا طریقہ اچھی طرح جانتا تھا‬ ‫اس لئ ے ان س ے جان چھرانا مشکل ثابت ن ہ ہوا ۔ اہرام ک ے محافظوں س ے معلوم ہوا کہ‬ ‫اہرام دیکھنے کا وقت صبح ساڑھے سات سے شام چار بجے تک ہے۔ اس وقت ساڑھے چار‬ ‫بج رہے تھےے اس لئےے اہرام بند تھے۔ یہاں مغرب کا وقت آّٹ ھ بج ے تھ ا اس لئ ے ی ہ اوقات‬ ‫عجیب سے معلوم ہو رہے تھے۔‬

‫نیل ک ے کنار ے پر ایک شام‬ ‫اب ہ م واپس رنگ روڈے پر آئےے اور سوئےے نیل روانہے ہوئے۔ے دریائےے نیل کی کورنیش کے‬ ‫ایگزٹ س ے نکل کر ہ م لوگ نیل کی کورنیش پر آ گئے۔ ی ہ سڑک نیل ک ے دونوں کناروں‬ ‫ک ے سات ھ سات ھ بنائی گئی ہے۔ کورنیش س ے عام طور پر دریائ ے نیل نظر نہیں آتا کیونکہ‬ ‫کورنیش اور نیل کے درمیان چپے چپے پر ریسٹورنٹ بنا دیے گئے ہیں۔ ہمیں پہل ریسٹورنٹ‬ ‫میرینا کلب کا نظر آیا چنانچ ہ ہ م اسی میں داخل ہ و گئے۔ ی ہ ایک صاف ستھرا اور کافی‬ ‫بڑا ریسٹورنٹ تھا۔‬ ‫ہوٹل میں کلسیکی مصری موسیقی چل رہ ی تھی ۔ ی ہ اسی قسم کی موسیقی تھی‬ ‫جیسی میں نے کراچی سے گوادر جاتے ہوئے سنی تھی۔ اگر مکرانی موسیقی میں پشتو‬ ‫میوزک کو مل دیا جائے تو مصری موسیقی برآمد ہوگی۔ مجھے موسیقی سے بالعموم اور‬ ‫کلسیکل موسیقی س ے بالخصوص سخت چڑ تھ ی اس لئ ے ہ م لوگ ریسٹورنٹ س ے باہر‬ ‫نکل کر نیل کے کنارے بچھی کرسیوں پر جا بیٹھے۔‬ ‫کسی بھی قوم کی موسیقی اس کے مزاج کی عکاس ہوتی ہے۔ پنجاب میں سکھوں‬ ‫ہ ی کو دیک ھ لیجیے ‪ ،‬شادی بیا ہ س ے ل ے کر جناز ے تک ڈھول کو ان ک ے ہاں انتہائی اہمیت‬ ‫حاصل ہے۔ ہماری موسیقی کی بنیاد اردو شاعری پر ہے جو الفاظ ک ے طوطا مینا اور‬ ‫تخیل کی پرواز کے لئے مشہور ہے۔ یہ شاعری انسان کو اس کی حقیقی زندگی سے کاٹ‬ ‫کر خیالی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں وہ جس تخیل کی جس وادی میں چاہے بھٹکتا پھرتا‬ ‫ہے۔ جب تخیل س ے نکل کر انسان حقیقی زندگی میں آتا ہے تو حقائق کی تلخی اسے‬ ‫کچھ زیادہ ہی تلخ محسوس ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر تخیل سے لطف اندوز ہونے کی‬ ‫بجائے زندگی کے حقائق کا سامنا کرنا اچھا لگتا ہے خواہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں۔ یہی‬ ‫وجہ ہے کہ مجھے موسیقی کے شور کی بجائے سکون اور پن ڈراپ خاموشی پسند ہے۔ ہر‬ ‫کسی کو اپنے مزاج کے مطابق کسی چیز کو پسند اور ناپسند کرنے کا اختیار حاصل ہے۔‬ ‫نیل پر آ کر بیٹھےے تو ہ م فطرت کےے نہایت ہ ی قریب تھے۔ے ڈھلتا ہوا سورج‪ ،‬سنہری‬ ‫دھوپ‪ ،‬نیل کا پرسکون نیل پانی‪ ،‬دریا ک ے درمیان سرسبز جزیرے ‪ ،‬پرندوں کی چہچہاہٹ‬ ‫اور پانی کی سرسراہٹ ایسا سماں باندھ رہی تھی کہ جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ فضا‬ ‫‪107‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫میں ایک خاص قسم کی رومانویت موجود تھی۔‬ ‫رومانویت ک ے بار ے میں بھ ی اہ ل برصغیر عجیب قسم ک ے افراط و تفریط میں مبتل‬ ‫ہیں ۔ ایک طرف تو ان کے ہاں مرد و زن پر عجیب و غریب پابندیاں عائد کی جاتی ہیں‬ ‫اور دوسری طرف ان کی تمام رومانوی داستانوں کا اختتام شادی پر ہ و جاتا ہے۔ے یہ‬ ‫عجیب بات ہے کہ جہاں سے رومانس کو اصول شروع ہونا چاہیے‪ ،‬وہاں آ کر وہ ختم ہو جاتا‬ ‫ہے۔ شادی کے بعد بیوی کو صرف شوہر سے نہیں بلکہ اس کے پورے خاندان سے نمٹنا پڑتا‬ ‫ہے جو عموما ً شوہ ر اور بیوی ک ے تعلقات میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کو اپنا حق سمجھتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫ہمارے معاشرے شوہر اور بیوی کا رشتہ محبت‪ ،‬رومانس اور دوستی کا نہیں بلکہ آقا یا‬ ‫غلم یا پھر مخدوم اور خادم کا رشتہ ہے۔ اسی فلسفے کے باعث خواتین کے لئے ازدواجی‬ ‫زندگی میں عموما ً کوئی کشش باقی نہیں رہتی جس کے باعث ان کی دلچسپی کا مرکز‬ ‫شوہر کی بجائے بچے اور گھر کے کام بن جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شوہر کی‬ ‫دلچسپیاں گھر سے باہر کی سرگرمیوں سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ اگر کوئی زن و شو کے‬ ‫تعلق کو صحیح معنوں میں انجوائ ے کر سک ے تو انسان کا گھ ر جنت کا نمون ہ بن جائے۔‬ ‫اس کے لئے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر ارشد جاوید صاحب کی کتب کا مطالعہ بہت مفید‬ ‫ہیں‪:‬‬ ‫دستیاب‬ ‫پر‬ ‫لنک‬ ‫اس‬ ‫کتب‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ہے۔ےےےےےے‬ ‫‪http://www.noorclinic.com/Book1/book1_home.htm‬‬ ‫اس مقام پر آ کر دریائے نیل اپنے سات ہزار کلومیٹر طویل سفر کے تقریبا ً اختتام پر‬ ‫تھا۔ مزید دو سو کلومیٹر کے بعد اسے بحیرہ روم میں جا گرنا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی‬ ‫ک ہ اتنا طویل فاصل ہ ط ے کرن ے ک ے بعد بھ ی دریائ ے نیل لبالب بھرا ہوا تھا ۔ آسمان کا نیل‬ ‫رنگ دریائےے نیل سےے پوری طرح منعکس ہو رہ ا تھا۔ے نیل کےے بیچوں بیچ موجود سبز‬ ‫جزیر ے اس نیل ے رنگ ک ے سات ھ مل کر فطرت کا دلفریب منظر پیش کر رہے تھے۔ میرا‬ ‫اپنا تعلق بھ ی پانچ دریاؤں کی سرزمین س ے ہے لیکن بغیر کسی تعصب ک ے میں ی ہ کہنے‬ ‫پر مجبور ہوں کہ اتنا خوبصورت دریا میں نے اس سے پہلے نہ دیکھا تھا۔‬

‫دریائ ے نیل‬ ‫دریائ ے نیل دنیا کا سب س ے بڑا دریا سمجھ ا جاتا ہے۔ عام طور پر دنیا ک ے زیاد ہ تر دریا‬ ‫شمال سے جنوب کی طرف بہتے ہیں۔ دریائے نیل‪ ،‬دنیا کے ان چند دریاؤں میں شامل ہیں‬ ‫جو جنوب سے شمال کی طرف بہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل مصر جنوبی مصر کو بالئی‬ ‫مصر (‪ ) Upper Egypt‬اور شمالی مصر کو زیریں مصر (‪ ) Lower Egypt‬کہتےے ہیں۔ے ہم‬ ‫چونکہ پاکستان سے آئے تھے اس لئے ان اصطلحات ہضم کرنا کافی دشوار محسوس ہوا۔‬ ‫دریائ ے نیل دراصل دو دریاؤں کا مجموعہ ہے۔ اس کی ایک شاخ بحر ازرق یا نیل دریا‬ ‫کہلتی ہے۔ے یہے دریا ایتھوپیا میں واقع "ترانہے جھیل" سےے شروع ہوتا ہےے اور سوڈان کے‬ ‫دارالحکومت خرطوم ک ے قریب آ کر دوسر ے دریا بحر ابیض یا سفید نیل میں مل جاتا‬ ‫ہے۔ بحر ازرق‪ ،‬تران ہ جھیل کے قریب نہایت ہ ی خوبصورت آبشار کی شکل اختیار کر لیتا‬ ‫ہے۔‬ ‫سفید نیل کا سفر بہت طویل ہے۔ اس کا آغاز بالعموم جھیل وکٹوریہ سے مانا جاتا ہے‬ ‫جو ک ہ کینیڈ ا کی جھیلوں ک ے بعد روئ ے زمین پر میٹھے پانی کا سب س ے بڑا ذخیر ہ ہے۔ یہ‬ ‫جھیل کینیا‪ ،‬یوگنڈا‪ ،‬تنزانیہ اور روانڈا کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ پورا علقہ بہت سے جھیلوں‬ ‫پر مشتمل ہے جو مختلف دریاؤں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ جھیل وکٹوریہ‬ ‫‪108‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫سے نکل کر دریائے نیل جھیل کیوگو سے ہوتا ہوا جھیل البرٹ میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں سے‬ ‫یہ سوڈان میں داخل ہوتا ہے۔‬ ‫سوڈان رقبےے سےے اعتبار سےے افریقہے اور مسلم دنیا کا سب سےے بڑا ملک ہے۔ے پورے‬ ‫سوڈان س ے گزرتا ہوا دریائ ے نیل مصر میں داخل ہوتا ہے جہاں اس دریا پر سب س ے بڑا‬ ‫ڈیم "اسوان ڈیم" بنایا گیا ہے۔ مصر کو سیراب کرتا ہوا یہ دریا قاہرہ کے قریب دو شاخوں‬ ‫میں تقسیم ہو جاتا ہے جو آگے جا کر مزید تقسیم ہو جاتی ہیں۔ یہ علقہ ڈیلٹا کہلتا ہے۔ یہ‬ ‫شاخیں بحیرہ روم میں جا گرتی ہیں۔‬ ‫دریائےے نیل دور قدیم سےے افریقی تہذیبوں کا مرکز رہ ا ہے۔ے سیدنا نوح علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم ک ے بیٹ ے حام کی اولد افریق ہ ک ے علقوں میں جا کر آباد ہوئی ۔ ان ک ے دوسرے‬ ‫بیٹوں میں سام کی نسلیں مشرق وسطی اور یافث کی نسلیں وسطی ایشیا میں جا‬ ‫کر آباد ہوئیں۔ حام کی اولد نے دریائے نیل اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر آبادی‬ ‫اختیار کی۔ بہت سے افریقی ممالک کے نام بھی حام کی اولد میں بڑے سرداروں کے نام‬ ‫پر پڑے۔ بائبل کے مطابق 'مصر' حام کے بیٹے اور نوح علیہ الصلوۃ والسلم کے پوتے کا نام‬ ‫ہے۔ دریائے نیل ن ے قدیم دور میں بہ ت سی افریقی تہذیبوں کو جنم دیا جن میں فراعین‬ ‫کی مصری تہذیب شامل ہے۔ اس دور کی سپر پاورز کا تعلق بھی زیادہ تر افریقہ ہی سے‬ ‫رہا ہے۔‬ ‫صدیوں کے ارتقائی عمل میں افریق ہ دوسری اقوام سے پیچھے رہ گیا جس کے باعث‬ ‫اس کی سپر پاور کی حیثیت ختم ہوئی اور بالخر بنی اسرائیل کےے دور میں دنیا کا‬ ‫اقتدار حام کی نسلوں سےے سیدنا نوح علیہے الصلوۃے والسلم کےے دوسرےے بیٹےے سام کی‬ ‫نسلوں کو منتقل ہوا۔ سام کی اولدیں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی حکومت دنیا‬ ‫پر تقریبا ً اڑھائی ہزار برس قائم رہی ۔ اس ک ے بعد دنیا کا اقتدار سیدنا نوح علی ہ الصلوۃ‬ ‫والسلم کے تیسرے بیٹے یافث کی نسلوں کو منتقل ہوا۔‬ ‫وسطی ایشیا کےے تاتاری اور ترک یافث ہی کی اولد ہیں۔ے جدید دور میں یورپ‪،‬‬ ‫روس‪ ،‬امریکہ ‪ ،‬جاپان اور چین بڑی طاقتیں بنے۔ ی ہ لوگ بھ ی یافث ہ ی کی نسلوں میں‬ ‫س ے ہیں ۔ یافث کی نسلیں اس وقت شمالی و جنوبی امریکہ ‪ ،‬آسٹریلیا‪ ،‬یورپ‪ ،‬روس‪،‬‬ ‫چین اور پور ے مشرقی ایشیا پر چھائی ہوئی ہیں ۔ یافث کی ان نسلوں کے بعض لوگوں‬ ‫میں سام کی نسلوں کےے خلف نفرت کا رویہے پایا جاتا ہےے جسےے اینٹی سامیت ( ‪Anti-‬‬ ‫‪ )Semitism‬کہا جاتا ہے۔‬ ‫ماہرین ارضیات ک ے خیال میں افریق ہ کا شمالی علق ہ دور قدیم میں بہ ت زرخیز تھا۔‬ ‫موسمی تبدیلیوں ک ے باعث ‪ 8000‬قبل مسیح میں ی ہ علق ہ صحرائ ے اعظم میں تبدیل ہو‬ ‫گیا جس کے باعث ان علقوں کے رہنے والوں کو دریائے نیل کے اطراف میں ہجرت کرنا‬ ‫پڑی۔ اس وقت بھی مصر کی آبادی کا بڑا حصہ دریائے نیل کے اطراف میں آباد ہے۔ نیل‬ ‫کا ڈیلٹا دنیا کے زرخیز ترین علقوں میں سے ہے۔ یہاں پانی کی کوئی کمی نہیں جس کے‬ ‫باعث بہترین قسم کی فصلیں یہاں ہوتی ہیں ۔ جد ہ میں ہ م ن ے ڈیلٹا کا چاول کھان ے کی‬ ‫کوشش کی تھی لیکن پنجاب کےے چاول کےے مقابلےے میں زیادہے اچھا محسوس نہے ہوا۔‬ ‫سعودی عرب میں پنجاب کا چاول‪ ،‬مصری چاول کے مقابلے میں پانچ گنا مہنگا ہے۔‬ ‫غروب آفتاب تک ہ م دریائ ے نیل ک ے کنارے ‪ ،‬موسم اور مناظر سےے لطف اندوز ہوتے‬ ‫رہے۔ ہوٹل والوں ن ے دریا ک ے پانی میں ڈائرکٹ موٹر لگائی ہوئی تھ ی جس س ے دریا کے‬ ‫پانی کو کھینچ کر چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا۔ دریا کے کنارے پر ریلنگ لگی ہوئی تھی جس کے‬ ‫پار جانا قانونی طور پر ممنوع تھا ۔ قریب ہ ی ایک کافی بڑا بحری جہاز کھڑا تھا ۔ قاہرہ‬ ‫‪109‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫میں بڑے بڑے ہوٹل‪ ،‬کیسینو‪ ،‬نائٹ کلب اور دیگر عیاشی کے اڈے انہی بحری جہازوں میں‬ ‫قائم ہیں۔‬ ‫ہم اب مصری کھانوں سے تنگ آ چکے تھے اس لئے فاسٹ فوڈ ہی کو ترجیح دی۔ ہمیں‬ ‫سرو کرن ے وال ے صاحب مصر کے کسی دور دراز گاؤں س ے آئ ے ہوئ ے تھے۔ انہوں ن ے مجھ‬ ‫سے کافی گپ شپ کی۔ یہ معلوم ہونے پر کہ میں پاکستانی ہوں‪ ،‬وہ بہت خوش ہوئے۔ ان‬ ‫صاحب کے علوہ مصریوں میں پاکستانیوں سے خاص محبت اور گرم جوشی کا وہ جذبہ‬ ‫دیکھنے کو نہیں مل جو کہ اردن میں نظر آیا تھا۔‬ ‫ریسٹورنٹ کے ایک کمرے کو مسجد کی شکل دی گئی تھی۔ مصر میں بھی پاکستان‬ ‫کی طرح خواتین کےے لئےے علیحدہے ہال کا رواج نہے تھا ۔ مغرب کی نماز میں یہاں موجود‬ ‫نمازیوں نے مجھے امامت کے لئے آگے کر دیا۔ کچھ دیر یہاں بیٹھنے کے بعد ہم روانہ ہوئے۔‬

‫قا ہر ہ کا آزادی چوک‬ ‫اب ہماری منزل قاہر ہ کا اندرون شہ ر تھی ۔ میر ے کولیگ احمد نادر ن ے مشور ہ دیا تھ ا کہ‬ ‫قاہرہ میں "میدان التحریر" یعنی آزادی چوک کا رخ کروں کیونکہ زیادہ تر ہوٹل یہیں واقع‬ ‫ہیں۔ راستے میں ایک جگ ہ ہم نے پٹرول لیا ۔ مصر میں تیل کے بزنس پر ایگزون موبل کا‬ ‫قبضہ ہے۔ دیگر تیل کی کمپنیاں جیسے شیل اور ٹوٹل موجود ہیں لیکن موبل یہاں مارکیٹ‬ ‫لیڈ ر ہے۔ حیرت کی بات ی ہ ہے ک ہ مصر میں اب تک آکٹین ‪ 80‬دستیاب ہے۔ ان دنوں شاید‬ ‫ان کے ہاں آکٹین ‪ 92‬نیا نیا لنچ ہوا تھا جس کی ہر جگہ بہت ایڈورٹائزنگ کی گئی تھی۔ ہم‬ ‫لوگ تو سعودی عرب میں آکٹین ‪ 95‬استعمال کرنے کے عادی تھے اس لئے یہ سب عجیب‬ ‫سا لگ رہا تھا۔‬ ‫گوگل ارتھ کے نقشوں کی مدد سے ہم سیدھے میدان التحریر جا پہنچے۔ یہ کراچی کے‬ ‫صدر جیسا علقہ تھا۔ یہاں کی خاص بات یہ تھی کہ یورپ کے شہروں کی طرح مصریوں‬ ‫نے بھ ی قدیم عمارتوں کو محفوظ کر لیا تھا۔ یہاں موجود سب کی سب عمارتیں کافی‬ ‫پرانی تھیں ۔ ان ک ے طرز تعمیر س ے ی ہ لگ رہ ا تھ ا ک ہ ی ہ انیسویں صدی میں انگریزوں نے‬ ‫تعمیر کی ہوں گی ۔ عمارتوں کی ساخت اور طرز تعمیر کراچی کی ایمپریس مارکیٹ‬ ‫جیسا تھا۔‬

‫قا ہر ہ کی ٹریفک‬ ‫قاہرہ میں کراچی یا راولپنڈی کی طرز کی کالی پیلی ٹیکسیاں چل رہی تھیں لیکن ان کے‬ ‫رنگوں کی ترتیب الٹ تھ ی یعنی پوری ٹیکسی زرد رنگ کی اور چھ ت سیا ہ رنگ کی۔‬ ‫شہر میں بہت اژدھام تھا اور لوگ بسوں سے اسی طرح لٹک کر سفر کر رہے تھے جیسا‬ ‫کہے ہمارےے ہاں ہوتا ہے۔ے یہاں بھ ی نفسا نفسی کا عالم تھا۔ے پیدل لوگ چلتی گاڑیوں کے‬ ‫درمیان سڑک پار کر رہے تھے اور گاڑیوں والے انہیں راستہ دینے کو تیار نہ تھے۔ ہر طرف‬ ‫ہارن کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔‬ ‫میں سعودی عرب میں رہن ے ک ے باعث وہاں کی ڈرائیونگ کی اخلقیات کا عادی ہو‬ ‫چکا تھا۔ سعودی عرب میں یہ رواج ہے کہ گاڑی والے رفتار آہستہ کر کے یا گاڑی روک کر‬ ‫پیدل چلنے والوں کو پہلے راستہ دیتے ہیں۔ اگر دو گاڑیوں کا آمنا سامنا ہو جائے تو دوسری‬ ‫گاڑی کو نکلنے کا راستہ پہلے دیا جاتا ہے۔ ہارن بجانے کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ ہفتے میں‬ ‫ایک آدھ بار ہی ہارن بجانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اپنی اسی عادت کے باعث میں نے‬ ‫رک کر پیدل چلنے والوں کو سڑک پار کرنے کا راستہ دیا۔ اس پر ان لوگوں نے خوشگوار‬ ‫‪110‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫حیرت سے مجھے دیکھا ۔ میری ی ہ حرکت پیچھے آن ے والوں کو پسند نہ آئی جس کا اظہار‬ ‫انہوں نے ہارن بجا کر کیا۔‬ ‫فٹ پاتھوں پر کھڑے ٹورسٹ گروپوں کے ایجنٹ لوگوں کو گھیرنے کا فریضہ انجام دے‬ ‫رہے تھے۔ ہ م پر بھ ی انہوں نے طبع آزمائی کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ہ م لوگوں کا‬ ‫مزاج کچ ھ ایسا بن گیا ہے کہ ہ م بڑ ے گروپوں میں سیر و تفریح کو پسند نہیں کرتے۔ جو‬ ‫آزادی انسان کو اپنے طور پر سفر کر کے میسر ہوتی ہے‪ ،‬گروپ کی صورت میں اس کا‬ ‫مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے۔‬ ‫قاہرہ کے فائیو اسٹار ہوٹل کافی مہنگے تھے کیونکہ یہ سیزن کا عروج تھا۔ ہم نے ایک آدھ‬ ‫فور اسٹار کہلنے وال ہوٹل بھی دیکھا لیکن یہ ٹھہرنے کے قابل معلوم نہ ہوا۔ خوش قسمتی‬ ‫س ے ہمیں "کینیڈین ہاسٹل" کی عمارت نظر آ گئی ۔ ی ہ نہایت ہ ی صاف ستھرا ہاسٹل تھا‬ ‫اور ریٹ بھ ی بہ ت مناسب تھے۔ اسٹاف کا روی ہ بھ ی بہ ت اچھ ا تھا ۔ یہاں کراچی ک ے صدر‬ ‫کی طرح پارکنگ کا مسئلہ تھا لیکن ہوٹل کے کاؤنٹر پر موجود صاحب نے میرے ساتھ اپنے‬ ‫ایک کولیگ کو بھیج دیا جنہوں نے ایک چارجڈ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کروا دی۔‬ ‫رات کے کھانے کے طور پر میں پہلے ہ ی 'چونسا' سے ملتے جلتے مصری آم خرید چکا‬ ‫تھا۔ے کھانےے پر معلوم ہوا کہے ہمارا چونسا اس کی نسبت بہ ت لذیذ ہے۔ے اگلےے دن ہ م نے‬ ‫'لنگڑا' س ے ملت ے جلت ے آم بھ ی خرید ے جس کا ذائق ہ واقعی اپن ے لنگڑ ے آم س ے ملتا جلتا‬ ‫تھا۔ صبح ہم جلد ہی بیدار ہو گئے۔ ناشتہ کمرے کے کرائے میں شامل تھا۔ یہاں لنڈری کی‬ ‫سہولت بھی ارزاں نرخوں پر دستیاب تھی۔‬ ‫ڈائننگ ہال میں ایک جاپانی گروپ موجود تھا ۔ ی ہ لوگ بڑ ے عجیب ہوت ے ہیں‪ ،‬گھنٹوں‬ ‫ایک دوسرے کے سامنے صم بکم بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ بھی شاید ہمارے صوفیا کی طرح‬ ‫کم کھانے‪ ،‬کم سونے اور کم بولنے کے قائل ہیں۔ میں بھی کسی حد تک اس نقطہ نظر کا‬ ‫قائل ہوں لیکن یہے بات بھ ی ہےے کہے بری گفتگو سےے خاموش رہنا اور خاموش رہنےے سے‬ ‫اچھ ی گفتگو کرنا افضل ہے۔ اسی طرح کم کھان ے اور کم سون ے میں بھ ی اعتدال ہونا‬ ‫چاہیے اور انسان کو اپنی جسمانی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔ ناشتےے کی میز پر اٹلی‬ ‫کے دو صاحبان س ے ملقات ہوئی ۔ ی ہ باپ بیٹا تھے اور اٹلی س ے مصر دیکھن ے کے لئ ے آئے‬ ‫ہوئے تھے۔‬ ‫ہاسٹل میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب تھی۔ کافی دن سے میں نے نہ تو ای میل‬ ‫چیک کی تھ ی اور ن ہ ہ ی پاکستانی اخبار نہیں دیکھے تھے۔ انٹرنیٹ پر ی ہ دونوں کام کرنے‬ ‫ک ے بعد ہ م قاہر ہ کی سیاحت ک ے لئ ے تیار ہ و گئے۔ ہماری پہلی منزل قاہر ہ کا عجائب گھر‬ ‫تھ ی جو کہے میدان التحریر پر ہ ی واقع تھا۔ے یہے عجائب گھ ر اتنا بڑا ہےے کہے اگر اس میں‬ ‫موجود ہر چیز کو دیکھنے پر ایک منٹ بھی لگایا جائے تب بھی اس پورے عجائب گھر کو‬ ‫دیکھنے کے لئے آٹھ مہینے درکار ہوں گے۔‬

‫تاریخ ک ے مطالع ے کا مقصد‬ ‫بہتر ہو گا کہ ہم اس عجائب گھر کی سیر سے پہلے مصر کی قدیم تاریخ پر کچھ نظر ڈال‬ ‫لیں ۔ مجھے انداز ہ ہے ک ہ آپ اب مسلسل تاریخ پڑ ھ کر بور ہ و رہے ہوں گ ے لیکن تاریخی‬ ‫مقامات ک ے سفر نام ے پڑھن ے میں ایسا تو ہوتا ہ ی ہے۔ میری کوشش ی ہ رہ ی ہے ک ہ اس‬ ‫سفر نامے میں تاریخی واقعات کو گنجلک انداز میں پیش کرنے کی بجائے سادہ اور سبق‬ ‫آموز انداز میں پیش کیا جائے۔ اس کوشش میں میں کتنا کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ‬ ‫آپ ہی کر سکتے ہیں۔‬ ‫‪111‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫تاریخ کا مطالع ہ کرنے کے لئ ے عموما ً دو نقط ہ ہائے نظر رائج ہیں ۔ ایک نقطہ نظر تو یہ‬ ‫ہے ک ہ انسان "تاریخ برائ ے تاریخ" ک ے طریق ے پر قدیم اقوام کی ہسٹری کا مطالع ہ کرے۔‬ ‫دوسرا نقط ہ نظر ی ہ ہے ک ہ "تاریخ برائ ے سبق" ک ے طریق ے پر انسان تاریخی واقعات کا‬ ‫تجزیہے کرےے اور ان سےے اپنےے لئےے سبق حاصل کرنےے کی کوشش کرے۔ے مجھےے یہے دوسرا‬ ‫طریقہ پسند ہے۔ اگر سبق حاصل نہ کرنا ہو تو میرے نزدیک تاریخ کا مطالعہ سوائے وقت‬ ‫کے ضیاع کے اور کچھ نہیں ہے۔‬ ‫تاریخ کے مطالعے کا ایک اور نقطہ نظر بھی ہے جو ہم مسلمانوں میں بہت مقبول ہے‬ ‫اور و ہ ہے "تاریخ برائ ے فخر" ۔ اس طریق ے س ے انسان کو سوائ ے اپن ے تابناک ماضی پر‬ ‫فخر کر کے اپنی انا کی تسکین کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ زوال پذیر قومیں اپنے زوال کے‬ ‫اسباب کا تجزیہ کر کے ان کو دور کرنے کی بجائے 'پدرم سلطان بود' کے تخیلتی ماحول‬ ‫میں پھنسی رہتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے ماضی کے مقابلے میں ان کا حال‬ ‫اور مستقبل مزید خراب ہوتا چل جاتا ہے۔‬

‫مصر کی قدیم تاریخ‬ ‫مصر کی قدیم تاریخ سات ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ دنیا کی تواریخ میں یہ سب‬ ‫س ے طویل تاریخ ہے۔ بائبل ک ے مطابق مصر کو سیدنا نوح علی ہ الصلو ۃ والسلم ک ے پوتے‬ ‫مصر نے آباد کیا۔ مصر کی اولد موجودہ مصر اور فلسطین کے علقوں میں جا آباد ہوئی‬ ‫اور بائبل کی تصنیف کے زمانے تک یہ لوگ ان علقوں پر حکومت کرتے رہے۔ سوائے اولد‬ ‫ابراہیم کے اور کوئی قوم سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلم تک اپنے مکمل شجرہ نسب سے‬ ‫آگاہ نہیں ہے۔‬ ‫آج سے بارہ ہزار برس قبل مصر کے لوگوں نے غلے کو پیسنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس‬ ‫زرعی ثقافت ک ے بعد پتھ ر ک ے دور میں پتھ ر ک ے بن ے اوزار ک ے ذریع ے شکار ک ے پیش ے کا‬ ‫آغاز ہوا ۔ دس ہزار برس قبل اس علقے میں شمالی افریقی قبائل آباد ہوئے کیونکہ اس‬ ‫دور میں شمالی افریقہ کا پورا علقہ صحرائے صحارا میں تبدیل ہوا تھا۔ اب سے آٹھ ہزار‬ ‫سال قبل ان کے ہاں گلہ بانی اور عمارتوں کی تعمیر کا سراغ ملتا ہے۔‬ ‫‪ 3100‬قبل مسیح میں ان ک ے ہاں خاندانی بادشاہ ت کا آغاز ہوا ۔ ی ہ بادشاہ ت موجودہ‬ ‫اسوان سےے لےے کر ڈیلٹا تک کےے پورےے زرعی علقےے پر محیط تھی۔ے یہے سلطنت مختلف‬ ‫خاندانوں ک ے پاس رہ ی جن کی تعداد اکتیس ہے۔ ی ہ سلسلہے ‪ 330‬قبل مسیح تک چلتا رہا‬ ‫جب اسکندر اعظم ن ے مصر فتح کر ک ے خاندانی بادشاہتوں کے اس سلسل ے کو ختم کر‬ ‫دیا۔‬ ‫تیسرے خاندان سے لے کر چھٹے خاندان تک کا زمانہ "قدیم سلطنت ( ‪")Old Kingdom‬‬ ‫کہلتا ہے۔ اس دور میں لشوں کو محفوظ کر ک ے ممیاں بنان ے کی صنعت کا آغاز ہوا۔‬ ‫بڑی بڑی عمارتیں جن میں اہرام مصر بھی شامل ہیں‪ ،‬بنائی گئیں۔ے اس دور کا‬ ‫دارالحکومت ممفس تھا جو موجودہ جیزہ کے علقے میں واقع تھا۔ اہرام دراصل اس دور‬ ‫کے شاہی قبرستان میں بنائے گئے۔ ‪ 2575‬قبل مسیح میں موجودہ بڑا اہرام‪ ،‬فرعون خوفو‬ ‫کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ چھٹے خاندان کے دور میں فرعون پیپی کے دور میں مصر کو‬ ‫عروج حاصل ہوا جو کہ اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔‬ ‫اگلے پانچ سو سال کا عرصہ طوائف الملوکی کا دور رہا اور پانچ مختلف خاندانوں نے‬ ‫مصر پر حکومت کی ۔ اس دور میں پور ے مصر میں خان ہ جنگی جاری رہی۔ے ‪ 2055‬قبل‬ ‫مسیح میں منتو حوتب دوئم ن ے اس انتشار کا خاتم ہ کر ک ے ایک مضبوط حکومت کی‬ ‫‪112‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫بنیاد رکھ ی جو ک ہ درمیانی سلطنت (‪ ")Middle Kingdom‬کہلتی ہے۔ ی ہ سلطنت آمن ام‬ ‫ہات سوئم نامی فرعون کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچی۔‬

‫ہکسوس بادشا ہ‬ ‫انیسویں صدی قبل مسیح میں مصر پر سامی النسل ہکسوس بادشاہوں نے حملہ کر کے‬ ‫اس ے فتح کر لیا ۔ جب سیدنا یوسف علی ہ الصلو ۃ والسلم یہاں آئ ے تو انہ ی کی حکومت‬ ‫تھی۔ ان کے دور میں بنی اسرائیل کو یہاں آباد ہونے کا موقع مل۔ اس کے کچھ عرصے بعد‬ ‫ان غیر ملکی بادشاہوں کےے خلف ایک زبردست قوم پرستی کی تحریک اٹھی اور‬ ‫ہکسوس بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ لوگ پندرھویں اور سولہویں خاندان پر مشتمل تھے۔‬ ‫اسی دور میں بنی اسرائیل کو غلم بنایا گیا۔‬ ‫سترہویں خاندان کےے دور میں دارالحکومت کو ممفس سےے تھیبس منتقل کیا گیا۔‬ ‫تھیبس عین اس مقام پر واقع تھا جہاں آج کا لقصر شہر موجود ہے۔ توتن خامون کے دور‬ ‫میں مصر کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ے اس کےے کچھے عرصےے بعد مصر میں اخناتون نامی‬ ‫فرعون کی حکومت آئی جس ن ے ب ے شمار دیوتاؤں کی بجائ ے ایک خدا کی عبادت کو‬ ‫فروغ دیا۔ اخناتون کی وفات کے بعد مصری پھر بہت سے دیوتاؤں کی عبادت کرنے لگے۔‬ ‫اخناتون کے بعد مصر میں رعمسیس دوئم کی حکومت آئی۔ اسی زمانے میں سیدنا‬ ‫موسی علیہے الصلوۃے والسلم کی بعثت ہوئی اور آپ نےے بنی اسرائیل کو ان سےے آزاد‬ ‫کروایا ۔ رعمسیس کا بیٹا فرعون منفتاح سمندر میں غرق ہوا جس کی لش بعد میں‬ ‫ملی اور اس کی ممی بنائی گئی۔‬ ‫بعد کا دور جدید سلطنت (‪ ) New Kingdom‬کا دور ہے۔ے اس میں مختلف خاندان‬ ‫اقتدار میں آئے۔ مصر چونکہے ایک زرخیز ملک تھ ا اس لئ ے اس پر ایران اور یونان کی‬ ‫سلطنتوں کےے حملےے ہوتےے رہےے ۔ بالخر اکتسویں خاندان کےے دور میں‪ ،‬جو ک ہ ایران کے‬ ‫ہخامنشی خاندان کا دور تھا‪ ،‬اسکندر اعظم نے مصر کو فتح کر کے خاندانی بادشاہت کے‬ ‫دور کا خاتم ہ کر دیا ۔ اسکندر ن ے اپن ے نام س ے اسکندری ہ کا شہ ر بسایا اور اس ے مصر کا‬ ‫دارالحکومت قرار دیا۔‬ ‫‪ 323‬قبل مسیح میں بابل میں اسکندر کی موت کے بعد اس کے جرنیلوں میں پھوٹ‬ ‫پڑ گئی۔ مصر کا علق ہ پٹولمی اول کے حصے میں آیا جس نے فرعون کا لقب اختیار کر‬ ‫کے مصر پر اپنی حکومت قائم کی اور اگل ے تین سو سال یہاں حکومت کرت ے رہے۔ اس‬ ‫خاندان کی آخری ملک ہ قلوپطر ہ تھ ی جس ن ے روم ک ے بادشا ہ سیزر س ے شادی کر لی‬ ‫تھی۔ ‪30‬ء میں قلوپطرہ کی موت کے بعد مصر رومی سلطنت کا حصہ بن گیا۔‬

‫رومی دور‬ ‫اگلےے چھے سو برس یہاں رومی سلطنت قائم رہی۔ے تیسری صدی میں رومی بادشاہ‬ ‫قسطنطین ک ے عیسائیت قبول کرن ے ک ے بعد ی ہ علق ہ عیسائی مبلغین کا گڑ ھ بن گیا اور‬ ‫یہاں کے مقامی باشندوں کی اکثریت نے بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت کو بطور مذہب‬ ‫اپنا لیا۔ پورے مصر میں بے شمار خانقاہیں اور گرجے تعمیر کئے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ‬ ‫علی ہ واٰل ہ وسلم ک ے دور میں روم و ایران کی بڑی جنگ ہوئی جس ک ے دوران ایران کے‬ ‫بادشا ہ خسرو ن ے مصر بھ ی فتح کر لیا ۔ اس ک ے کچ ھ ہ ی عرص ے بعد ہرقل ن ے مصر کو‬ ‫دوبارہ فتح کر کے بازنطینی سلطنت کا حصہ بنا دیا۔‬ ‫‪113‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مسلمانوں کا دور‬ ‫حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم ن ے مصر ک ے گورنر مقوقس کو خط لک ھ کر اسلم لنے‬ ‫کی دعوت دی تھ ی جسےے اس نےے سنجیدگی س ے سنا تھ ا لیکن اسلم قبول ن ہ کیا تھا۔‬ ‫‪ 639‬ء میں سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ ن ے سیدنا عمرو بن عاص رضی الل ہ عن ہ کی قیادت‬ ‫میں چار ہزار کا ایک لشکر مصر بھیجا ۔ آپ ن ے اپنی اعلی درج ے کی حربی مہارت کے‬ ‫باعث صرف ڈیڑھے سال کےے عرصےے میں ہی سینا سےے لےے کر مصر کا دارالحکومت‬ ‫اسکندریہ فتح کر لیا۔ اس فتح میں مصر کے عیسائیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا کیونکہ‬ ‫وہ رومی حکومت اور دوسرے فرقوں کے عیسائیوں کے مظالم سے سخت تنگ تھے۔‬ ‫سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں سیدنا عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ یہاں‬ ‫کےے گورنر مقرر ہوئےے جو اعلی پائےے کےے منتظم اور جرنیل تھے۔ے آپ نےے موجودہے لیبیا‪،‬‬ ‫تیونس‪ ،‬الجزائر اور مراکش کےے علقوں کو فتح کر لیا۔ے اس کےے کچھے ہ ی عرصےے بعد‬ ‫مسلمانوں نے بحیرہ روم پار کر کے سپین بھی فتح کر لیا۔ خلفت راشدہ کے بعد مصر بنو‬ ‫امیہ اور بنو عباس کی بادشاہتوں کے دور میں ایک صوبہ رہا۔‬ ‫عباسی بادشاہوں کی کمزوری کےے باعث مصر میں طولونی اور پھر اخشیدی‬ ‫بادشاہوں کی حکومت قائم رہی۔ے یہے لوگ عباسی بادشاہے کو خلیفہے مان کر اس کا نام‬ ‫خطبوں میں لیت ے لیکن کاروبار سلطنت اپنی مرضی س ے چلت ے گویا اس حکومت میں‬ ‫عباسی خلیف ہ کو برائ ے نام اقتدار حاصل تھا ۔ بالخر ‪ 971‬ء میں یہاں تیونس ک ے فاطمی‬ ‫بادشاہوں کی حکومت آئی جو اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ فاطمیوں نے قاہرہ‬ ‫کی بنیاد رکھی اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ انہوں نے ایک سو سال حکومت کی جس‬ ‫ک ے بعد ملک طوائف الملوکی کا شکار ہ و گیا ۔ مزید سو سال کی طوائف الملوکی کے‬ ‫بعد صلح الدین ایوبی ن ے ‪1183‬ء میں مصر کو اپنی سلطنت میں شامل کر کے اسے اپنا‬ ‫مرکز بنایا۔‬ ‫ایوبی کے جانشین ان کی طرح باصلحیت نہ تھے۔ ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوا جو‬ ‫اورنگ زیب عالمگیر کے جانشینوں کے ساتھ ہوا تھا۔ بھائیوں میں اقتدار کے لئے جنگ چھڑ‬ ‫گئی۔ے حکومت ان کےے غلموں کےے قبضےے میں چلی گئی جو مملوک سلطان کہلئے۔‬ ‫مملوکوں کی حکومت ‪1517‬ء تک رہی جب عثمانی بادشاہ سالم اول نے مصر فتح کر کے‬ ‫اسے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنا دیا۔‬

‫مصر کی جدید تاریخ‬ ‫عثمانی بادشاہوں کی حکومت میں مصر پر حکومت ان ک ے لئ ے ایک مشکل کام رہی۔‬ ‫‪ 1798‬ء میں نپولین کی قیادت میں یہاں فرانس ن ے قبض ہ کر لیا جسےے ‪ 1805‬ء میں محمد‬ ‫علی پاشا نے ختم کر کے اپنی حکومت کی بنیاد رکھی۔ محمد علی کی حیثیت عثمانیوں‬ ‫ک ے گورنر کی سی تھی ۔ اس ک ے بعد مصر کی سعودی عرب کی قدیم سلطنتوں کے‬ ‫ساتھے جنگیں بھ ی ہوئیں۔ے محمد علی کو مزید جنگوں کا سامنا بھ ی کرنا پڑا۔ے ان کے‬ ‫جانشینوں نےے انگریزوں سےے تعلقات بڑھائےے اور ‪1869‬ء میں نہر سویز کھودی گئی۔‬ ‫انیسویں صدی کےے اواخر تک مصر پر انگریزوں کا قبضہے مستحکم ہ و چکا تھا۔ے ان کے‬ ‫قبضے کے دوران مصر پر کٹھ پتلی بادشاہوں کی حکومت رہی۔‬ ‫‪1922‬ء میں مصر آزاد ہوا۔ے اس کےے بعد ان کےے ہاں مغرب پرست بادشاہوں کی‬ ‫حکومت رہ ی جو اپنی عیاشی کےے لئےے مشہور تھے۔ے ‪ 1952‬ء میں ایک فوجی بغاوت کے‬ ‫‪114‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫نتیج ے میں جمال عبدالناصر ن ے شا ہ فاروق کی حکومت کا خاتم ہ کر دیا ۔ اس وقت سے‬ ‫مصر میں فوجی حکومت کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔‬

‫قا ہر ہ کا عجائب گ ھر‬ ‫ہاسٹل سےے نکل کر ہ م لوگ پیدل ہ ی چل کر مصر کےے قومی عجائب گھ ر جا پہنچے۔‬ ‫عجائب گھر میں داخلے کا ٹکٹ پچاس مصری پاؤنڈ (تقریبا ً پانچ سو روپے) کا تھا۔ عجائب‬ ‫گھر کےے باہر مختلف فرعونی ادوار کےے مجسمےے نصب تھے۔ے اندر کیمرہے لےے جانےے کی‬ ‫اجازت ن ہ تھ ی جس ک ے باعث ہ م تصاویر لین ے س ے محروم رہے۔ بعد میں معلوم ہوا ک ہ یہ‬ ‫پابندی اس لئےے لگائی گئی تھ ی تاکہے لوگ خود تصویر کھینچنےے کی بجائےے وہاں موجود‬ ‫دکانوں سے سی ڈیز وغیرہ خریدیں۔‬

‫پورٹیبل قبریں اور ماسک‬ ‫اندر جا کر ہماری نظر فرعون توتن خامون عرف توت کےے ماسک پر پڑی۔ے یہے ماسک‬ ‫دراصل دھات یا پتھ ر س ے بن ے ہوئ ے تابوت ہوت ے تھے۔ ان پر فرعون کا چہر ہ بنایا جاتا اور‬ ‫حنوط شدہ ممی کو اس کے اندر رکھ کر پتھر کی بنی ہوئی قبر میں رکھا جاتا۔ اس قبر‬ ‫کو تابوت اور لش سمیت اہرام میں رکھ دیا جاتا۔‬ ‫فرعون توت غالبا اٹھارہویں خاندان کا مشہور فرعون ہے۔ اس س ے میرا کبھ ی کوئی‬ ‫تعلق نہیں رہ ا لیکن اس ن ے اپن ے مرن ے ک ے چار ہزار سال بعد میر ے لئے ایک خالصتا ً ذاتی‬ ‫مسئل ہ کھڑا کر دیا تھا ۔ مسئل ہ ی ہ تھ ا کہ اس فرعون کا نام سنت ے ہ ی میر ے ذہ ن میں لہور‬ ‫کی نہ ر پر کیمپس پل کے ساتھ ریڑھوں پر بکن ے والے شہتوت آ جات ے ہیں اور انہیں کھانے‬ ‫کی شدید خواہ ش پیدا ہوتی ہے۔ اس کوالٹی ک ے شہتوت مجھے کبھ ی سوائ ے طائف کے‬ ‫اور کہیں نصیب نہیں ہوئے۔ قاہرہے میں کہیں شہتوت کا نام و نشان بھ ی نہے تھ ا اس لئے‬ ‫سوائے فرعون توت کے نام کو کوسنے کے میں کچھ نہ کر سکتا تھا۔‬ ‫فراعین کی پورٹیبل قبروں ک ے پاس س ے گزرت ے ہوئےے ہ م اوپر کی منزل کی طرف‬ ‫روانہے ہوئے۔ے اس قسم کی پورٹیبل قبریں بلوچوں کےے ہاں بھی بنائی جاتی تھیں اور‬ ‫کراچی سے باہر نکلتے ہوئے نیشنل ہائی وے پر اسی قسم کا قبرستان بھی آتا ہے۔ اوپر جا‬ ‫کر معلوم ہوا ک ہ ممی سیکشن میں جان ے ک ے لئ ے علیحد ہ ٹکٹ لینا پڑ ے گا جو سو پاؤنڈ‬ ‫میں دستیاب تھا ۔ ہ م یہاں ممیاں دیکھن ے تو آئ ے تھے چنانچ ہ ٹکٹ لینا پڑا ۔ ہمار ے ہاں کے‬ ‫شیخ‪ ،‬بنیے اور میمن تو بلوجہ ہی مشہور ہیں‪ ،‬پیسہ کمانا تو کوئی مصریوں سے سیکھے۔‬

‫ممی سیکشن‬ ‫ہم لوگ ممی سیکشن میں داخل ہوئے۔ے اس سیکشن میں کم از کم تیس چالیس‬ ‫فرعونوں کی ممیاں تو ہوں گی ۔ ممی کیا تھی‪ ،‬ہڈیوں ک ے سالم ڈھانچ ے ہ ی تھے۔ ان کے‬ ‫چہروں س ے گوشت وغیر ہ کب کا سوک ھ چکا تھ ا البت ہ ڈھانچ ہ پور ے کا پورا صحیح سلمت‬ ‫موجود تھ ا جس پر کھال منڈھ ی ہوئی تھی ۔ یہاں سیدنا موسی علی ہ الصلو ۃ والسلم کے‬ ‫زمان ے ک ے فراعین رعمسیس اور منفتاح کی ممیاں بھ ی موجود تھیں ۔ منفتاح کی ممی‬ ‫کی جب پٹیاں کھولی گئیں تو اس پر نمک کی تہہ بھ ی برآمد ہوئی ۔ قرآن مجید کی یہ‬ ‫آیات میرے ذہن میں گردش کرنے لگیں‪:‬‬ ‫اور ہ م بنی اسرائیل کو سمندر میں س ے گزار کر ل ے گئے۔ فرعون اور اس ک ے لشکر ظلم و‬ ‫زیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے۔ یہاں تک کہ فرعون جب ڈوبنے لگا تو بول اٹھا‪" ،‬میں نے‬

‫‪115‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫مان لیا کہے خداوند حقیقی اس کےے سوا کوئی نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لئےے اور میں‬ ‫اطاعت کرن ے والوں میں سے ہوں۔ " (جواب دیا گیا)‪" ،‬تم اب ایمان لتے ہو‪ ،‬حالنکہ اس سے پہلے‬ ‫تک تم نافرمانی کرتے رہے اور تم فساد برپا کرنے والوں میں سے تھے۔ اب ہم صرف تمہاری لش‬ ‫کو بچائیں گے تا کہ بعد کی نسلوں کے لئے تم نشان عبرت بنو۔" (یونس ‪)92-10:90‬‬

‫ان ممیوں کو دیکھ کر انسان کو دنیا کی بے ثباتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں اس وقت جتنے‬ ‫بھ ی لوگ شیش ے ک ے شو کیسوں میں بند ب ے حس و حرکت لیٹ ے ہوئ ے تھے ‪ ،‬و ہ سب کے‬ ‫سب اپن ے زمانوں میں نہایت ہ ی باجبروت حکمران تھے۔ ان میں س ے بہ ت سوں ن ے خود‬ ‫کو اپنے جیسے انسانوں کا خدا قرار دیا اور انہیں اپن ے آگ ے جھکنے پر مجبور کر دیا ۔ اس‬ ‫وقت ان فراعین کے جسم انہی عام انسانوں کے رحم و کرم پر تھے۔ ان کی روحیں اللہ‬ ‫تعالی کے حضور پہنچ چکی تھیں اور اپنے دنیا کے اعمال کا بدلہ وصول کر رہی ہوں گی۔‬ ‫نیک فراعین اللہ تعالی سے اپنے نیک اعمال کی جزا پا رہے ہوں گے اور برے فراعین اپنے‬ ‫برے اعمال کی سزا بھگت رہے ہوں گے۔‬

‫بچگان ہ تصاویر اور ب ھد ے مجسم ے‬ ‫ممی سیکشن سے نکل کر ہم باہر آ گئے۔ اب ہمارے سامن ے فراعین کے دور کی تصاویر‬ ‫تھیں ۔ یہے اسی قسم کی تصاویر تھیں جیسی ہمار ے بچےے اسکول کی ابتدائی جماعتوں‬ ‫میں بنات ے ہیں ۔ یہے تمام تصاویر دو جہتی (‪ ) Two dimensional‬تھیں ۔ اس دور میں شاید‬ ‫تصویر سازی ہ ی میں س ہ جہتی (‪ ) Three dimensional‬تصویر بنان ے کا رواج ن ہ ہ و گا ۔ اس‬ ‫کے لئے یہ لوگ مجسمہ سازی کرتے ہوں گے۔‬ ‫تصاویر ک ے بعد ہ م لوگ مجسموں کے سیکشن میں جا نکلے۔ اہل مصر نے شاید اپنے‬ ‫ارد گرد جو کچھے دیکھا‪ ،‬اس کےے مجسمےے بنا ڈالے۔ے ہ ر طرح کےے جانوروں کےے مجسمے‬ ‫ہمارے ارد گرد تھے۔ بادشاہوں کے مجسمے بھی تھے۔ کچھ مجسمے ان کے مذہبی تصورات‬ ‫ک ے مطابق دیوتاؤں ک ے تھے۔ اہ ل مصر کی مجسم ہ سازی میں ایک خاص بات ی ہ تھ ی کہ‬ ‫ان ک ے مجسم ے کافی بھد ے بھد ے س ے تھے۔ انہ ی ک ے ہ م عصر موہ ن جو دڑو اور ٹیکسل‬ ‫سے ملنے والے مجسمے ان کی نسبت نفاست کا شاہکار تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ‬ ‫اہل ہندوستان کے ہاں مجسمہ سازی کا فن مصر کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ تھا۔‬

‫عام آدمی ک ے مجسم ے‬ ‫ان میں ایک سیکشن ہمیں نہایت ہ ی دلچسپ لگا کیونک ہ و ہ بادشاہوں ک ے برعکس وہاں‬ ‫ک ے عام آدمی کی زندگی کی عکاسی کرتا تھا ۔ ان لوگوں ن ے اپن ے ہاں موجود مختلف‬ ‫پیشوں کی مجسموں کےے ذریعےے عکاسی کی تھی۔ے کہیں کسان ہل چل رہ ا تھا‪ ،‬کہیں‬ ‫سپاہ ی ہتھیار تھامے کھڑا تھا‪ ،‬نانبائی تنور پر روٹیاں لگا رہ ا تھا‪ ،‬دود ھ وال ہمارے لہوریوں‬ ‫کی طرح بڑی سی کڑاہ ی میں دود ھ لئ ے بیٹھ ا تھا‪ ،‬اور ملح کشتی چل رہ ا تھا ۔ عجائب‬ ‫خانےے میں دو کشتیاں بھ ی موجود تھیں۔ے ان کےے تختےے وغیرہے کہیں ملےے ہوں گےے جسے‬ ‫ماہرین ن ے جوڑ کر اس دور کی کشتی کی شکل دی تھی ۔ ایسی کشتیاں میں ن ے اپنی‬ ‫کینجھر جھیل پر دیکھی تھیں۔‬

‫قدیم مصر کا رسم الخط (‪)Script‬‬ ‫اس میوزیم میں اہل مصر کی لکھائی کے بہت سے نمونے دیے گئے تھے۔ ان کے ہاں زیادہ‬ ‫تر پتھ ر کی سلوں پر لکھ ا جاتا تھا ۔ یہ تصویری رسم الخط تھ ا جس میں چھوٹی چھوٹی‬ ‫‪116‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫تصاویر کے ذریعے بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہی رسم الخط بعد میں‬ ‫ترقی یافتہ ہو کر موجودہ رسم الخط کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے‬ ‫ک ہ قدیم دور میں حرف 'ن' س ے مراد مچھلی ہوتی تھ ی اور 'ن' کو ترچھ ا کر ک ے دیکھا‬ ‫جائے تو یہ دراصل مچھلی کے سر کی تصویر تھی۔‬ ‫میر ے ذہ ن میں فن تحریر ک ے ارتقاء ک ے بار ے میں کئی اشکال دور ہوئے۔ مسلمانوں‬ ‫کے ہاں چونکہ مجسمہ سازی اور تصویر سازی پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اس لئے ان کے‬ ‫ہاں آرٹسٹوں کی پوری توج ہ فن خطاطی پر مرکوز ہ و گئی ۔ اس کا نتیج ہ ی ہ نکل ک ہ فن‬ ‫تحریر ان ک ے ہاں اس قدر ترقی کر گیا کہ آج جو جو کام ہ م لوگ کمپیوٹر کی مدد سے‬ ‫کر سکتے ہیں‪ ،‬وہ لوگ ہاتھ کی مدد سے کیا کرتے تھے۔‬ ‫قدیم دور میں لوگ پتھروں کی سلوں‪ ،‬چمڑ ے اور درختوں کی چھال پر لکھ ا کرتے‬ ‫تھے۔ جب کاغذ ایجاد ہوا تو اس فن میں بڑی ترقی ہوئی ۔ کاغذ ک ے بڑ ے بڑ ے ٹکڑوں کو‬ ‫اوپر اور نیچے لکڑیوں سے باندھ لیا جاتا اور لکھنے کے بعد نقشوں کی طرح اسے رول کر‬ ‫کےے رکھے دیا جاتا۔ے اس رول کو طومار (‪ ) Scroll‬کہتےے ہیں۔ے قدیم دور کی جو لئبریریاں‬ ‫دریافت ہوئی ہیں ان میں یہی اسکرول بڑی تعداد میں ملے ہیں۔‬ ‫میں اپنے تحریر کرنے کے طریق کار پر غور کرنے لگا۔ ہم لوگ کمپیوٹر پر لکھتے ہیں۔‬ ‫ہ م س ے صرف ایک نسل پہل ے ک ے مصنفین کاغذ پر لکھ ا کرت ے تھے۔ تحریر کی اصلح اور‬ ‫اس میں تبدیلیوں کے لئے انہیں کافی کاٹ پیٹ سے کام لینا پڑتا تھا۔ ان کی تحریروں کو‬ ‫کاتب اور اس کےے بعد کمپوزر دوبارہے لکھا کرتے۔ے مصنفین کو اپنا مدعا کاتبوں کو‬ ‫سمجھانے کے لئے بہت مغز ماری کرنا پڑتی۔ حوالہ جات کی تلش کے لئے انہیں کئی کئی‬ ‫دن لئبریریوں میں مغز ماری کرنا پڑتی۔ے اس کےے بعد کہیں جا کر کتاب طباعت کے‬ ‫مراحل سے گزرتی۔ طباعت کے بعد اس کو پوری دنیا میں پھیلنے کے لئے بہت بڑے نیٹ‬ ‫ورک کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ اگر کوئی قاری اس کتاب کو تلش کرنا چاہتا تو اسے‬ ‫بہت سی لئبریریوں کی کیٹلگز کھنگالنا پڑتیں۔‬ ‫اب یہ تمام مراحل آسان ہو چکے تھے۔ ہماری نسل کے مصنفین براہ راست کمپیوٹر پر‬ ‫لکھت ے ہیں۔ تحریر کی اصلح اور اس میں تبدیلی کرنا بہ ت آسان ہے۔ میں تو تحریر کی‬ ‫فارمیٹنگ بھی ساتھ ساتھ ہی کرتا جاتا ہوں کیونکہ اس سے اپنی فکر کو منظم کرنے میں‬ ‫بہت مدد ملتی ہے۔ حوالہ جات تلش کرنے کے لئے بہت سی کتب ای بکس کی شکل میں‬ ‫دستیاب ہیں جن میں سرچ کی سہولت بھ ی موجود ہوتی ہے۔ جیسےے ہ ی تحریر مکمل‬ ‫ہوتی ہے‪ ،‬صرف چند بٹن دبانے سے یہ انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کو میسر ہو جاتی ہے۔‬ ‫تھوڑی سی محنت کے بعد یہ تحریر گوگل جیسے سرچ انجنز میں اچھی رینکنگ پر آ جاتی‬ ‫ہے۔ اگر کوئی اپنی تحریر کو کاغذی صورت میں بھ ی لنا چاہے تو ی ہ مراحل بھ ی نسبتاً‬ ‫آسان ہیں۔ ان سب سہولتوں پر ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔‬ ‫میوزیم سےے نکل کر ہم باہر آئے۔ے ریسپشن سےے اپنا کیمرہے واپس لیا۔ے باہر موجود‬ ‫مجسموں اور تحریروں کی کچھ تصاویر بنائیں اور واپس چل پڑے۔ پارکنگ سے گاڑی لے‬ ‫کر ہم باہر نکلے۔‬

‫قا ہر ہ کی کچی آبادی‬ ‫اہرام تک جانے کا ایک راستہ تو ہمارے علم میں تھا لیکن ہم قاہرہ شہر بھی دیکھنا چاہ رہے‬ ‫تھے ‪ ،‬اس لئ ے دوسر ے راست ے س ے روان ہ ہوئے۔ راست ے میں ہ م ایک کچی آبادی میں داخل‬ ‫ہوگئے۔ یہ آبادی بڑی حد تک لہور کی بستی سیدن شاہ سے مشابہ تھی۔ ویسا ہی گندا نالہ‪،‬‬ ‫‪117‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اس کے کناروں پر بنے کچے پکے مکان اور تنگ و تاریک گلیاں۔ مکانات تو خیر جیسے بھی‬ ‫تھے‪ ،‬ان سب کی چھتوں پر لگے ہوئے ڈش انٹینا بہت نمایاں تھے۔‬ ‫کچی آبادیاں دراصل بے گھر افراد کی اجتماعی کوششوں ک ے نتیج ے میں وجود پذیر‬ ‫ہوتی ہیں۔ خالی پڑی ہوئی زمینوں پر لوگ آ کر قابض ہو جاتے ہیں اور یہاں اپنے گھر بنانا‬ ‫شروع کر دیتےے ہیں۔ے چونکہے یہے علقےے کسی پلننگ کےے بغیر بنتےے ہیں اس لئےے ان میں‬ ‫سڑکوں‪ ،‬سیوریج‪ ،‬بجلی‪ ،‬پانی اور گیس کی بنیادی سہولیات موجود نہیں ہوتیں ۔ افراد‬ ‫خان ہ کی کثیر تعداد اور جگ ہ کی قلت کے باعث لوگوں ک ے دل تنگ ہوت ے ہیں ۔ ان کے ہاں‬ ‫اجتماعی سوچ کا فقدان ہوتا ہے۔ے یہ ی وجہے ہےے کہے تین فٹ کی گلی کےے لئےے بھ ی جگہ‬ ‫چھوڑت ے ہوئ ے انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ جب مکانات بن جات ے ہیں تو آہست ہ آہست ہ حکومت پر‬ ‫دباؤ ڈال کر بجلی‪ ،‬پانی اور گیس کی سہولیات حاصل کر لی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں‬ ‫بھ ی ریلو ے لئن ک ے سات ھ سات ھ ایسی آبادیاں ہ ر جگ ہ موجود ہیں ۔ ان آبادیوں میں پوش‬ ‫علقوں کی نسبت بے حیائی کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔‬ ‫اس آبادی میں بھ ی رکشا چل رہے تھے جو ویسے ہمیں قاہر ہ میں نظر نہ آئے تھے۔ ہم‬ ‫ن ے یہاں رک کر ایک دکان س ے آئس کریم خریدی ۔ یہاں نیسل ے کی آئس کریم دستیاب‬ ‫تھی ۔ دنیا میں نیسل ے اور یونی لیور کی والز آئس کریم ک ے کاروبار میں بڑی کمپنیاں‬ ‫ہیں۔ میں والز آئس کریم میں کام کر چکا ہوں اور اس سے میری کچھ جذباتی وابستگی‬ ‫بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیسلے کی آئس کریم کوالٹی اور ذائقے میں والز سے بہت‬ ‫بہتر محسوس ہوئی۔ یہاں پھلوں کی منڈی بھی تھی جہاں مردوں کے علوہ بوڑھی خواتین‬ ‫بھی ریڑھیاں لگائے کھڑی تھیں۔ یہاں سے ہم نے آم اور انگور خریدے۔ مصر کا انگور بالکل‬ ‫پاکستان کے انگور جیسا تھا۔‬

‫ا ہرام مصر‬ ‫تھوڑی دیر میں ہ م اہرام ک ے مین گیٹ پر پہنچ گئے۔ اہرام ک ے علق ے میں گاڑی ل ے جانے‬ ‫کی اجازت تھی۔ اہرام کے علقے کے لئے پچاس پاؤنڈ کا ایک ٹکٹ تھا اور کسی بھی اہرام‬ ‫کےے اندر جانےے کےے لئےے ایک اور ٹکٹ خریدنا پڑتا۔ے پورےے علقےے میں دھول اڑ رہ ی تھی۔‬ ‫سعودی عرب کے تاریخی مقامات کی نسبت یہ علقہ کافی گندا سا لگ رہا تھا۔‬ ‫اس علقے تین بڑے اور متعدد چھوٹے اہرام تھے۔ تصاویر میں دیکھ کر میرا یہ خیال تھا‬ ‫ک ہ اہرام کی بیرونی دیواریں بالکل مسطح ہوں گی لیکن حقیقت میں ایسا ن ہ تھا ۔ بڑے‬ ‫بڑ ے چوکور پتھ ر ایک دوسر ے ک ے اوپر رکھے کر گار ے وغیر ہ س ے جوڑ ے گئ ے تھے۔ پتھروں‬ ‫کی ہر قطار اپنی نچلی قطار سے اندر کی جانب اور چھوٹی تھی۔ اس طرح اوپر جا کر‬ ‫یہ عمارت ایک مخروط (‪ )Pyramid‬کی صورت اختیار کر گئی تھی۔‬ ‫ان میں بڑا اہرام‪ ،‬بادشا ہ خوفو کا تھ ا جو چوتھے خاندان کا دوسرا بادشا ہ تھا۔ے ‪2550‬‬ ‫قبل مسیح کے لگ بھگ‪ ،‬خوفو نے اپنا مقبرہ بنانے کا حکم دیا۔ اس مقبرے کی تعمیر میں‬ ‫بیس سال کا عرصہ لگا۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں پتھر کے بیس لکھ بلک کام آئے‬ ‫جن کا اوسط وزن اڑھائی ٹن فی بلک تھا۔ ان میں سب سے بڑے بلکس کا وزن نو ٹن‬ ‫ک ے قریب تھا ۔ اس س ے ی ہ معلوم ہوتا ہے ک ہ و ہ لوگ وزنی چیزوں کو بلندی پر پہنچان ے کا‬ ‫کوئی طریقہ دریافت کر چکے تھے۔ ماہرین مصریات کا خیال ہے کہ ان پتھروں کو انہوں نے‬ ‫بھاری تختوں پر رکھ کر انہیں رسوں کے مدد سے کھینچ کر اوپر پہنچایا ہو گا۔‬ ‫دوسرا اہرام‪ ،‬خوفو کے بیٹے خفری کا جبکہ تیسرا اہرام مینکارس کا تھا۔ ان کے علوہ‬ ‫یہاں ‪ 54‬دیگر چھوٹےے اہرام ہیں جو شاہ ی خاندان ک ے دیگر افراد سےے منسوب ہیں ۔ ان‬ ‫‪118‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اہرام کا بلڈنگ میٹیریل پہنچانے کے لئے ان لوگوں نے دریائے نیل کا استعمال کیا۔ جب نیل‬ ‫میں طغیانی آتی تھی تو یہ پھیل کر اہرام کے علقے تک جا پہنچتا تھا۔ اس سے ان لوگوں‬ ‫کو مال و اسباب یہاں پہنچانے میں آسانی ہوتی ہو گی۔‬ ‫‪ 500‬قبل مسیح میں مشہور یونانی تاریخ دان ہیروڈوٹس نے اہرام کا سفر کیا اور اپنی‬ ‫کتب میں ان کا ذکر کیا ۔ اس ک ے مطابق ی ہ ان اہرام کی تعمیر میں ایک لک ھ س ے زیادہ‬ ‫افراد نے کام کیا۔ ہیروڈوٹس نے یہ سفر اہرام کی تعمیر کے دو ہزار سال بعد کیا تھا۔ جدید‬ ‫ماہرین مصریات کے مطابق یہ تعداد بیس ہزار کے قریب رہی ہو گی۔ اب اہرام کی تعمیر‬ ‫میں بہت سے لوگوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں لیکن ظاہر ہے‪ ،‬بادشاہوں کی اس کی کیا‬ ‫پرواہ ہو سکتی ہے۔‬ ‫اہرام کے اندر فرعون کی قبریں تھیں ۔ اہرام کے درواز ے س ے ایک تنگ و تاریک راستہ‬ ‫اوپر جا رہ ا تھا ۔ اس راست ے ک ے اختتام ایک کمر ے میں ہ و رہ ا تھا ۔ یہاں پتھ ر کی قبر میں‬ ‫فرعون کا تابوت جس پر اس کی شکل بنی ہوتی تھ ی رکھ ا جاتا تھ ا جس میں اس کی‬ ‫ممی موجود ہوتی تھی ۔ فرعون ک ے کمرےے ک ے نیچےے ایک کمر ہ ملک ہ ک ے لئ ے بنا ہوا تھا۔‬ ‫دروازے سے ایک اور تنگ و تاریک راستہ اہرام کے تہہ خانوں کی طرف جا رہا تھا جہاں ایک‬ ‫اور کمرہ موجود تھا۔‬ ‫فرعون کی لش ک ے سات ھ بہ ت س ے ہیر ے جواہرات اور دیگر ساز و سامان ک ے علوہ‬ ‫لونڈ ی غلم بھ ی بند کر دیےے جاتےے کیونکہے ان لوگوں کا عقیدہے تھ ا کہے مرنےے کےے بعد کی‬ ‫زندگی میں فرعون کو ان سب چیزوں کی ضرورت ہ و گی ۔ ہیر ے جواہرات کا تو خیر‬ ‫کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس بند جگہ جو کچھ ان غلموں کے ساتھ ہوتا ہو گا اس کے تصور‬ ‫سے ہی روح لرز جاتی ہے۔‬ ‫ی ہ اہرام ساڑھے چار ہزار سال س ے یہاں موجود ہیں ۔ ماہرین آثار قدیم ہ کی آمد سے‬ ‫قبل ہی چور ڈاکوؤں نےے ہیرےے جواہرات لوٹ لیےے اس لئےے ماہرین کو سوائےے ممیوں‪،‬‬ ‫قبروں‪ ،‬تابوتوں اور تختیوں ک ے اور کچ ھ ن ہ مل ۔ ی ہ سب کچ ھ مصر ک ے عجائب گھ ر میں‬ ‫محفوظ کر دیا گیا ہے اور مصر کے لئے آمدنی کا باعث ہے۔ اہرام مصر کا شمار دنیا کے‬ ‫سات قدیم عجائب میں ہوتا ہے۔‬

‫ابوال ہول (‪)Sphinx‬‬ ‫اہرام سے ہٹ کر اب ہم ابوالہول (‪ )Sphinx‬کی طرف آ گئے۔ دوپہر کا وقت تھا اور کافی‬ ‫گرمی ہ و رہ ی تھی ۔ بہ ت س ے مغربی سیاح گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان میں س ے بعض کو‬ ‫اس شدید دھوپ میں بھی رومانس کی سوجھ رہ ی تھی۔ ہم لوگ تو خیر گاڑی میں فل‬ ‫اے سی میں بیٹھے تھے۔ میری اہلیہ اہرام سے کوئی خاص متاثر نہ ہوئیں۔ ان کے خیال میں‬ ‫یہ تمام احمق لوگ تھے جو ان بے ڈھنگی عمارتوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔‬ ‫ابوالہول یا اسفنکس دنیا کا ایک ہ ی پتھ ر س ے بنا ہوا سب س ے بڑا مجسم ہ ہے۔ ی ہ ‪185‬‬ ‫فٹ لمبا‪ 20 ،‬فٹ چوڑا اور ‪ 65‬فٹ بلند ہے۔ے اس مجسمےے کا جسم شیر کا اور شکل‬ ‫انسان کی سی ہے۔ فراعین کے دور میں یہ مجسمہ سورج دیوتا کے مظہر کے طور پر بنایا‬ ‫گیا۔ اس دور میں سورج کو شیر سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اس کے قدموں میں مندروں‬ ‫کے آثار بھ ی ملت ے ہیں ۔ شرک بھ ی کیسا عظیم فتن ہ تھ ا ک ہ اس ن ے بڑی تعداد میں لوگوں‬ ‫کو عقلی و منطقی انداز میں سوچنے سے ہٹا دیا تھا ۔ اللہ تعالی کے دین اسلم کا یہ دنیا‬ ‫پر احسان ہے کہ اس نے شرک سے دنیا کو نجات دل کر عقل و دانش کو فروغ دیا۔‬ ‫ابوالہول کی چند تصاویر لے کر ہم اہرام کی سائٹ سے باہر آ گئے۔ اب بھوک لگ رہی‬ ‫‪119‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫تھی اور ہمارے سامنے ایک ہی جگہ پر کے ایف سی اور پزا ہٹ نظر آ رہے تھے۔ ہم نے ایک‬ ‫بڑا زنگر برگر اور چھوٹا اسپائسی پزا خریدا اور اوپر والی منزل پر جا کر بیٹھ گئے۔ اب‬ ‫ابوالہول اور اہرام ہمار ے سامن ے تھے اور شیشوں س ے ان کا منظر چمکتی دھوپ میں‬ ‫بھل لگ رہا تھا۔‬ ‫کھانا کھا کر ہم لوگ یہاں سے روانہ ہوئے۔ دریائے نیل پر سے گزرتے ہوئے میں نے پل پر‬ ‫رک کر دوپہ ر میں نیل کی تصاویر لیں جو کہے بہ ت خوبصورت آئیں۔ے اب ہماری منزل‬ ‫مسلم دور کا قاہرہ تھی جس کا آغاز فسطاط سے ہوتا تھا۔‬

‫فسطاط‬ ‫قدیم دور سے جیزہ کی آبادی دریائے نیل کے مغربی کنارے پر آباد تھی۔ جب سیدنا عمرو‬ ‫بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ علقہ فتح کیا تو آپ نے دریا کے مشرقی کنارے پر ایک شہر‬ ‫کی بنیاد رکھی جو مسلم افواج کے خیموں کی مناسبت سے یہ "مصر الفسطاط" یعنی‬ ‫خیموں کا شہر کہلیا۔ یہاں آپ نے ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی۔ اس علقے کو مصر کا‬ ‫دارالحکومت بنایا گیا۔ اس سے پہلے مصر کا دارالحکومت اسکندریہ تھا۔ دارالحکومت کو‬ ‫شفٹ کرن ے کی ضرورت اس لئ ے پیش آئی ک ہ خلیف ہ دوم‪ ،‬سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ کے‬ ‫خیال میں اسکندریہ مصر کی اصل آبادی سے کافی ہٹ کر تھ ا اور وہاں سے پورے مصر‬ ‫کو کنٹرول کرنا مشکل تھا۔ اس شہر کو آباد کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہو گی کہ عام‬ ‫مسلمان اپنے مفتوحین کے عقائد و اعمال سے متاثر نہ ہو سکیں۔‬ ‫فاطمی دور میں قاہر ہ آباد کیا گیا۔ے ‪ 1168‬ء میں فسطاط شہ ر کو صلیبی حملوں کے‬ ‫باعث یہاں کے باشندوں نے خود آگ لگا دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ نہ چاہتے تھے کہ‬ ‫ان کا مال و اسباب دشمن ک ے قبض ے میں آئے۔ بعد میں ی ہ شہ ر ایوبی سلطنت کا حصہ‬ ‫بنا۔ دور جدید میں جب قاہرہ شہر پھیل تو فسطاط اس کا ایک محلہ بن گیا۔‬ ‫ہماری منزل سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے منسوب مسجد تھی۔ مسجد کو‬ ‫ڈھونڈنے میں ہمیں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ یہ مسجد ‪642‬ء میں عین اس مقام پر بنائی‬ ‫گئی جہاں سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنا خیمہ نصب کیا تھا۔ اس مسجد کو متعدد بار‬ ‫تعمیر کیا گیا۔ اس کی موجودہ تعمیر ‪1875‬ء میں محمد علی پاشا کے دور میں کی گئی۔‬

‫سیدنا عمرو بن عاص رضی الل ہ عن ہ‬ ‫سیدنا عمرو بن عاص رضی الل ہ عن ہ اسلمی تاریخ کی ایک نامور شخصیت ہیں ۔ آپ کا‬ ‫باپ عاص بن وائل رسول اللہ صلی اللہ علی ہ واٰلہ وسلم کی دعوت کا شدید دشمن تھا۔‬ ‫اسلم دشمنی آپ کو ورثے میں ملی تھی ۔ آپ کا خاندان مک ہ کی مملکت میں سفارت‬ ‫کی ذم ہ داریاں رکھتا تھا ۔ حبش ہ میں ہجرت کرن ے وال ے مسلمانوں کو واپس لن ے ک ے لئے‬ ‫آپ ہ ی وفد لےے کر نجاشی کےے دربار میں گئےے لیکن ناکام رہے۔ے جنگ احد میں آپ نے‬ ‫مسلمانوں کے خلف قریش کے ایک اہم دستے کی قیادت کی۔ آپ نے اسلم لنے پر اپنی‬ ‫بیوی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو طلق دے دی جو بعد میں سیدنا عمر بن خطاب رضی‬ ‫اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔‬ ‫آپ ک ے بیٹ ے عبدالل ہ بن عمرو رضی الل ہ عنہما اوائل جوانی ہ ی میں اسلم قبول کر‬ ‫چکے تھے اور اپنے زہد و تقوی کے باعث مشہور ہیں۔ احادیث کی بہت بڑی تعداد ان سے‬ ‫مروی ہے۔ اسلم کی دعوت آہستہ آہستہ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کےدل میں گھر کرتی‬ ‫گئی ۔ ایک دن آپ اسلم قبول کرن ے کا فیصل ہ کر کے مک ہ س ے نکلے۔ راست ے میں آپ کی‬ ‫‪120‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ملقات سیدنا خالد بن ولید رضی الل ہ عن ہ س ے ہوئی جو اسی اراد ے س ے گھ ر س ے نکلے‬ ‫تھے۔ دونوں نے اکٹھے مدینہ پہنچ کر اسلم قبول کیا۔‬ ‫سیدنا عمرو رضی اللہے عنہے کی غیر معمولی صلحیتوں کےے باعث حضور نبی کریم‬ ‫صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں اہم ترین ذمہ داریوں تفویض کیں۔ سریہ ذات السلسل‬ ‫میں انہیں لشکر کا امیر بنایا گیا ۔ اس لشکر میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی الل ہ عنہما‬ ‫جیسے جلیل القدر صحابہ بھ ی شامل تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کسی‬ ‫بھی کام کے لئے تقرری خالصتا ً میرٹ پر کیا کرتے تھے۔‬ ‫سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو عمان کا گورنر مقرر کیا۔ آپ کو ضرورت پڑنے‬ ‫پر اردن‪ ،‬فلسطین اور شام ک ے محاذوں پر بھیجا گیا جہاں آپ فوج ک ے سینئر عہد ے دار‬ ‫کی حیثیت سےے سیدنا خالد بن ولید اور ابوعبیدہے رضی اللہے عنہما کےے ساتھے رہے۔ے سیدنا‬ ‫ابوعبید ہ رضی الل ہ عن ہ کی وفات ک ے بعد آپ مسلم فوج ک ے امیر بنے۔ آپ کی تجویز پر‬ ‫سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو مصر کی جانب کوچ کرنے کا حکم دیا۔‬ ‫صرف ‪ 4000‬افراد پر مشتمل فوج کے ساتھ آپ نے جزیرہ نما سینا فتح کر لیا۔ اس کے‬ ‫بعد ہیلو پولس یا عین الشمس کا معرکہے ہوا۔ے اس معرکےے میں بازنطینی فوج مشہور‬ ‫جرنیل تھیوڈور کی قیادت میں سامن ے آئی ۔ مسلم افواج کی تعداد ‪ 15000‬اور بازنطینی‬ ‫فوج کی تعداد ‪ 20000‬ک ے قریب تھی ۔ سیدنا عمرو رضی الل ہ عن ہ بھ ی مان ے ہوئ ے جرنیل‬ ‫تھے۔ آپ نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ایک حصہ‬ ‫جنگ س ے نکل گیا اور ایک طویل چکر کاٹ کر بازنطینی فوج ک ے پچھلی جانب آ پہنچا۔‬ ‫اب دشمن دو جانب سے گھر چکا تھا۔ یہ جنگ مصر کی فتح میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔‬ ‫‪ 641‬ء میں سیدنا عمرو رضی الل ہ عن ہ ن ے مصر کا دارالحکومت اسکندری ہ فتح کر لیا۔‬ ‫اس کے بعد خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے آپ نے فسطاط کیا نیا شہر آباد کر کے‬ ‫اسے دارالحکومت بنایا۔ کچ ھ عرص ہ آپ مصر ک ے گورنر رہے۔ اس دوران آپ ن ے عدل و‬ ‫انصاف سے حکومت کی۔ ایک موقع پر آپ کے بیٹے نے ایک مصری کو کوڑا مار دیا۔ اس‬ ‫نے حج کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو شکایت کی۔ آپ نے سیدنا عمرو اور ان‬ ‫کے بیٹ ے دونوں کو کوڑا مارن ے کی سزا سنائی۔ اس کی وجہ آپ نے یہ بیان کی‪" ،‬تمہارے‬ ‫بیٹے کو یہ جرأت اس لئے ہوئی ہے کہ وہ گورنر کا بیٹا ہے۔‬ ‫مصر سے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کو شام بھیج دیا گیا جہاں آپ سیدنا معاویہ رضی‬ ‫اللہ عنہ کے ساتھ نئ ے علقے میں تعمیر و ترقی کا کام کرت ے رہے۔ سیدنا معاوی ہ رضی اللہ‬ ‫عن ہ ک ے دور میں آپ کو دوبار ہ مصر کا گورنر مقرر کیا گیا ۔ آپ ن ے یہاں نو ے برس کی‬ ‫عمر میں وفات پائی۔‬

‫مسجد عمرو بن عاص‬ ‫مسجد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مسلم آرکیٹیکچر کا شاہکار تھی۔ حویلی نما مسجد‬ ‫صحن کے چاروں طرف بنی ہوئی تھی۔ درمیان میں کھل صحن تھا۔ ایسا ہی ڈیزائن لہور‬ ‫کی بادشاہی مسجد کا ہے۔ مسجد کے صحن میں ایک قدیم فوارہ تھا جسے اب پانی پینے‬ ‫والے کولر کی شکل دی جا چکی تھی۔ وضو کا انتظام مسجد سے ہٹ کر تھا۔ یہاں میں‬ ‫نے زندگی میں پہلی بار کسی مسجد میں کھڑا ہو کر پیشاب کرنے والے ٹائلٹ دیکھے۔ ہم‬ ‫جب مسجد پہنچے تو یہاں عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ کچھ دیر میں نے مسجد کی تصاویر‬ ‫لیں ۔ اتنی دیر میں جماعت کا وقت ہ و گیا ۔ امام صاحب بغیر ریش ک ے تھے کیونک ہ اہل‬ ‫مصر کے نزدیک داڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے۔‬ ‫‪121‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫نماز سے فارغ ہو کر میں نے مسجد کے امام صاحب سے امام شافعی کی مسجد کا‬ ‫راستہ دریافت کیا۔ اگلی صف میں موجود ایک صاحب کہنے لگے‪" ،‬میں اس طرف ہی جا‬ ‫رہا ہوں‪ ،‬آپ میرے پیچھے آ جائیے۔" اب ہم ان کے پیچھے لگ کر روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور جا‬ ‫کر انہوں نے ہمیں امام شافعی کی مسجد کو جانے والے راستے تک پہنچا دیا۔‬

‫امام شافعی کی مسجد‬ ‫امام شافعی رحم ۃ الل ہ علی ہ کی مسجد ایک قدیم آبادی میں واقع تھی ۔ ی ہ آبادی بالکل‬ ‫لہور کےے دھرم پور ے کی پرانی آبادی کا نقشہے پیش کر رہ ی تھی۔ے گلی میں لگےے گھنے‬ ‫درختوں ک ے سائ ے تل ے ریڑھیوں پر عجیب و غریب شکلوں وال ے مشروبات بک رہے تھے۔‬ ‫جس طرح ہمارے ہاں فالودے کی دیگوں کو سرخ کپڑا چڑھا کر نمایاں کیا جاتا ہے‪ ،‬اسی‬ ‫طرح کی کچھ دیگیں بھی نظر آئیں۔ تھوڑی دور جا کر ہم امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی‬ ‫مسجد تک پہنچ گئے۔‬ ‫یہ مسجد ‪1891‬ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مقام پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے‬ ‫اپنی عمر بسر کی تھی۔ے مسجد کےے اندر نہایت خوبصورت شیشےے کا کام کیا گیا تھا۔‬ ‫مسجد ک ے اندر اور باہ ر خطاطی ک ے فن پار ے دیواروں پر تراش ے گئ ے تھے۔ مسجد کی‬ ‫چھ ت اور دیواروں پر لکڑی کا نفیس کام بھ ی کیا گیا تھا۔ے مسجد کےے ساتھے ہ ی امام‬ ‫صاحب کا مزار بھی تھا جہاں کا ماحول گڑھی شاہو میں بی بی پاک دامن کے مزار جیسا‬ ‫لگ رہا تھا۔ مزار کے اندر خواتین قبر کی طرف رخ کئے اپنی منتوں مرادوں میں مشغول‬ ‫تھیں۔‬ ‫مسجد اور مزار ک ے باہ ر بھکاریوں کی کثرت تھی ۔ غیر ملکی سمجھت ے ہوئ ے ان میں‬ ‫سےے ہ ر ایک کی کوشش تھ ی کہے ہ م انہیں کچھے دےے کر جائیں۔ے مزار کےے مجاور نےے بھی‬ ‫ہماری بڑی آؤ بھگت کی اور بتایا ک ہ امام صاحب کی قبر ک ے سات ھ صلح الدین ایوبی‬ ‫رحم ۃ الل ہ علی ہ کے بھائی کی قبر بھ ی ہے۔ ی ہ صاحب بھ ی چا ہ رہے تھے کہ ہ م انہیں کچھ دے‬ ‫دل کر رخصت ہوں ۔ ہ م لوگ چونکہے اس قسم کےے لوگوں کی حوصلہے افزائی کرنا نہیں‬ ‫چاہت ے اس لئ ے کچ ھ دین ے دلن ے س ے گریز کیا ۔ ہمار ے بہ ت س ے لوگ پیش ہ ور بھکاریوں کو‬ ‫رقم دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اس کی بجائے ہمیں اپنی‬ ‫تمام رقوم کو ایس ے افراد پر خرچ کرنا چاہیے جو کہ محنت مزدوری کرت ے ہیں لیکن پھر‬ ‫بھ ی انہیں اتنی آمدنی میسر نہیں ہوتی کہ وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں ۔ ہمار ے ہاں‬ ‫تو مزارات کو باقاعدہے کمرشل مقاصد کےے لئےے بنایا جاتا ہےے لیکن مصر میں یہے رجحان‬ ‫نسبتا ً کم محسوس ہوا۔‬

‫امام محمد بن ادریس شافعی‬ ‫امام محمد بن ادریس شافعی رحم ۃ الل ہ علیہے ‪150‬ھ یا ‪ 767‬ء میں پیدا ہوئے۔ آپ فلسطین‬ ‫میں غز ہ کے علقے میں پیدا ہوئے۔ مکہ میں آپ ن ے تعلیم حاصل کی اور پھر مدین ہ جا کر‬ ‫امام مالک رحم ۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں شامل ہو گئے۔ امام مالک رحم ۃ اللہ علیہ کی‬ ‫وفات کےے بعد آپ بغداد چلےے گئے۔ے یہاں آپ نےے امام ابوحنیفہے رحمۃے اللہے علیہے کےے شاگرد‬ ‫رشید امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ آپ کو اپنے اساتذہ‬ ‫امام مالک‪ ،‬امام محمد اور ان کے استاذ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم سے خاص عقیدت‬ ‫تھی۔‬ ‫ہارون رشید کی طرف سے آپ کو نجران کا قاضی مقرر کیا گیا۔ عدل و انصاف سے‬ ‫‪122‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫آپ کی وابستگی ن ے آپ ک ے لئ ے مشکلت پیدا کیں ۔ آپ ن ے کچ ھ فیصل ے ایس ے کئ ے جو‬ ‫گورنر کو پسند نہ آئے۔ سازشیوں نے آپ کو اس عہدے سے ہٹوانے کی کوشش کی۔ آپ یہ‬ ‫سب چھوڑ کر علمی تحقیق میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے سب سے پہلے اصول فقہ کے فن‬ ‫کو مدون کیا ۔ اسی بنا پر آپ کو اصول فقہ کا بانی کہ ا جاتا ہے۔ آپ کی کتاب "الرسالہ"‬ ‫اس فن میں پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے۔‬ ‫امام شافعی رحمۃے اللہے علیہے کی علمی تحقیقات کےے نتیجےے میں اسلمی قانون کا‬ ‫شافعی مسلک وجود میں آیا جس کے پیروکار افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں زیادہ‬ ‫پائ ے جاتے ہیں ۔ آپ ک ے ہ م عصر علماء ن ے آپ کو پوری قوم ک ے برابر ذہین قرار دیا ۔ آپ‬ ‫علم کلم اور تصوف کی پیچیدہے بحثوں سےے دور رہتےے تھے۔ے آپ کی تحقیق کا میدان‬ ‫"عملی زندگی ک ے مسائل اور ان کا حل" تھا ۔ امام شافعی رحم ۃ الل ہ علی ہ کی قبر پر‬ ‫احادیث میں منقول دعا پڑھ کر میں باہر آیا اور بھکاریوں سے بچتا بچاتا گاڑی میں بیٹھا۔‬

‫صلح الدین ایوبی کا قلع ہ‬ ‫اب ہماری اگلی منزل صلح الدین ایوبی کا قلع ہ تھی ۔ تھوڑی دیر ہ ی میں ہ م وہاں جا‬ ‫پہنچے۔ ایوبی کا قلعہ سادگی اور ہیبت کا مجموعہ نظر آ رہا تھا۔ قلعے کے اوپر مسجد کے‬ ‫مینار نظر آ رہےے تھے۔ے یہے مسجد محمد علی پاشا نےے ‪ 1816‬ء میں تعمیر کروائی تھی۔‬ ‫مسجد ک ے گنبد سفید رنگ ک ے تھے اور اس پر ایک گھنٹ ہ گھ ر بھ ی بنا ہوا تھا ۔ شاید اس‬ ‫دور میں گھنٹہ گھر بنوانے کا رواج بہت عام تھا۔‬ ‫ً‬ ‫قلعے کی دیواریں مضبوط پتھروں سے بنی ہوئی تھیں اور تقریبا عمودی تھیں۔ یہ قلعہ‬ ‫صلح الدین نے قاہرہ کی حفاظت کے نقطہ نظر سے تعمیر کیا تھا۔قلعے کا دروازہ لہور کے‬ ‫شاہی قلعے کے چھوٹے دروازے جیسا ہی تھا جس کے دونوں جانب برجیاں بنی ہوئی تھیں۔‬ ‫اس سفر میں صلح الدین س ے تعلق رکھن ے وال ی ہ تیسرا قلع ہ تھ ا جو ہ م دیک ھ رہے تھے۔‬ ‫اس سے قبل ہم شوبک اور کرک کے قلعے دیکھ چکے تھے۔‬ ‫قلعے کے باہر مسجد سلطان حسن بنی ہوئی تھی جو بذات خود ایک قلعہ معلوم ہوتی‬ ‫تھی۔ے یہے مسجد مملوک سلطان حسن نےے ‪ 1356‬ء میں تعمیر کروائی تھی۔ے مسجد کی‬ ‫تعمیر مکمل ہونے سے قبل ہی سلطان حسن کو قتل کر دیا گیا تھا۔‬ ‫مسجد اور قلعےے کی چند تصاویر لینےے ک ے بعد ہ م لوگ جامع ۃ الزہ ر کی جانب روانہ‬ ‫ہوئے۔ ی ہ پرانا شہ ر تھ ا اس لئ ے اس کی سڑکیں کافی تنگ تھیں ۔ تھوڑی دور جا کر ایک‬ ‫بڑی عمارت نظر آئی جو تاریخی لگ رہ ی تھی ۔ میں ن ے قریب ایک دکاندار س ے اس کے‬ ‫بار ے میں پوچھ ا تو انہوں ن ے بتایا ک ہ ی ہ مصر کی تاریخی لئبریری تھ ی جس ے اب عجائب‬ ‫گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تھوڑی دور جا کر ازہ ر اسٹریٹ آ گئی ۔ اب ہ م اسی پر ہو‬ ‫لئے۔ تھوڑی دور جا کر ہ م جامع ۃ الزہ ر پہنچ گئے۔ سڑک ک ے ایک جانب مسجد تھ ی اور‬ ‫دوسری جانب الزہر یونیورسٹی کی ایڈمنسٹریشن کی عمارت تھی۔‬

‫جامع ۃ الز ہر‬ ‫جامع ۃ الزہ ر کا شمار عالم اسلم ک ے بڑ ے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی‬ ‫کی اصل تخصیص (‪ ) Specialization‬فق ہ ہے۔ یہاں تمام فقہ ی مسالک کی تعلیم دی جاتی‬ ‫ہے۔ یہ ی وج ہ ہے ک ہ یہاں ک ے طالب علم فقہ ی معاملت میں دوسروں ک ے نقط ہ نظر کو‬ ‫سمجھتےے ہیں اور اپنےے مسلک کےے بارےے میں زیادہے متشدد نہیں ہوتے۔ے جامعۃے الزہ ر میں‬ ‫باقاعد ہ تعلیم کا آغاز اب س ے تقریبا ً ایک ہزار سال قبل ‪ 975‬ء میں ہوا ۔ ی ہ ادار ہ فاطمی‬ ‫‪123‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫دور میں قائم کیا گیا۔ پوری مسلم دنیا کے علماء کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انہیں ازہر میں‬ ‫تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے۔‬ ‫ماضی قریب میں جامع ۃ الزہ ر ن ے مسلم دانش ک ے ارتقاء میں اہ م کردار ادا کیا ہے۔‬ ‫ہمارے قدیم فقہا نے اسلمی قانون پر جو کام کیا تھا‪ ،‬اس کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمانوں‬ ‫کی ایسی حکومت قائم ہے جو دین کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی‬ ‫میں زیادہے تر مسلم ممالک مغربی اقوام ک ے زیر نگیں آ گئے۔ اس وقت اس بات کی‬ ‫ضرورت محسوس کی گئی کہے ایسا فقہے مرتب کیا جائےے جو مغلوب مسلم قوم کے‬ ‫مسائل کا حل پیش کرتا ہو۔ے جدید سائنسی ایجادات کےے علوہے فلسفہ‪ ،‬سیاسیات‪،‬‬ ‫معاشیات اور معاشریات کےے میدانوں میں مغربی ترقی نےے بہ ت سےے فقہ ی احکام کے‬ ‫بارے میں کچھ ایسے مسائل پیدا کر دیے جن کا جواب قدیم انداز میں تعلیم یافتہ اہل علم‬ ‫کے پاس نہیں تھا۔‬ ‫ان میں س ے بہ ت س ے علماء تو ان مسائل کو سمجھن ے کی اہلیت ہ ی ن ہ رکھت ے تھے‬ ‫کیونک ہ ان ک ے تعلیمی اداروں میں علم کلم اور فق ہ ک ے جو مسائل پڑھائ ے جات ے تھے ‪ ،‬وہ‬ ‫زمانی تبدیلیوں ک ے باعث غیر ضروری (‪ ) Obsolete‬ہ و کر ر ہ گئ ے تھے۔ ان ک ے ہاں علمی‬ ‫جمود کا ی ہ عالم تھ ا ک ہ انیسویں صدی ک ے اواخر میں جامع ۃ الزہ ر ہ ی میں سید جمال‬ ‫الدین افغانی پر یہ اعتراض کیا گیا کہ وہ بزرگوں کے طریقے کے خلف جغرافیے کے تعلیم‬ ‫ہاتھ میں زمین کا گلوب لے کر کیوں دیتے ہیں۔‬ ‫دور جدید کے زندہ مسائل اب یہ نہیں رہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق؟ خدا کے‬ ‫عرش پر استوا کی حقیقت کیا ہے؟ ناپاک کنویں کو کیسے پاک کیا جائے؟ وضو کرنے والے‬ ‫تالب کا سائز کیا ہو؟ بیع عینہ اور بیع سلم کیا چیز ہے؟ ان سب کی بجائے اب مسلم اہل‬ ‫علم کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں یہ مسائل اہم ترین ہیں کہ خدا کے وجود کے عقلی‬ ‫دلئل کیا ہیں؟ کسی شخصیت کو خدا کا سچا رسول ثابت کرن ے کا معیار کیا ہے ؟ کیا‬ ‫بینکوں کا موجود ہ سود ربا کی تعریف پر پورا اترتا ہے ؟ فنون لطیف ہ جیس ے مصوری و‬ ‫موسیقی کے بارے میں اسلم کا نقطہ نظر کیا ہے؟ کیا بغیر حکومت کے جنگی کاروائیاں‬ ‫کرنا درست ہے؟ کیا قرآن کی بیان کردہ سزائیں موجودہ دور میں دینا عدل و انصاف کے‬ ‫تقاضوں پر پورا اترنا ہے؟ جدید معاشرے میں اسلم کے اصولوں کی روشنی میں خواتین‬ ‫کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ دور جدید کو اسلم سے ہم آہنگ کیسے کیا جائے؟‬ ‫جامعۃ الزہر کے علماء نے دور جدید کے اس چیلنج کا جواب سب سے پہلے دیا۔ ان کے‬ ‫ہاں اہل علم کی ایک ایسی نسل تیار ہوئی جو نہ صرف ان مسائل کا ادراک رکھتی تھی‬ ‫بلکہ انہوں نے ان مسائل پر تحقیق کی اور ان کے مختلف اہل علم نے اپنا نقطہ نظر بیان‬ ‫کیا۔ ان میں محمد عبدہ‪ ،‬طہ حسین‪ ،‬الطحطاوی جیسی شخصیات پیدا ہوئیں۔‬ ‫دلئل کی بنیاد پر جامع ۃ الزہ ر ک ے علماء ک ے نقط ہ نظر س ے اختلف کیا جا سکتا ہے‬ ‫لیکن انہوں نے جو عمل شروع کیا ا س کی افادیت س ے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کی‬ ‫انہی کاوشوں کے نتیجے میں صدیوں سے قائم جمود کے ختم ہونے کا عمل شروع ہوا اور‬ ‫اب امریکہ و یورپ کی یونیورسٹیوں سے لے کر ملئشیا تک مسلم اہل علم دور جدید کے‬ ‫تقاضوں اور اداروں کو اسلم سے ہم آہنگ کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔‬ ‫حالیہ عشروں میں جامعۃ الزہر پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہاں انتہا پسندوں کو تیار‬ ‫کیا جاتا ہے۔ الزہ ر ک ے عمائدین اس الزام کی سختی س ے تردید کرت ے ہیں ۔ جامع ۃ الزہر‬ ‫ک ے صدر احمد الطیب ک ے مطابق الزہ ر ک ے تحت چلنےے وال ے اسکولوں ہ ی میں یہے بات‬ ‫سکھ ا دی جاتی ہے ک ہ تمام فقہ ی مسالک درست ہیں اور ان میں س ے کوئی ایک حق یا‬ ‫‪124‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫باطل نہیں ۔ ان حالت میں ی ہ کیسے ممکن ہے کہ الزہر س ے تعلیم یافتہ شخص انتہ ا پسند‬ ‫بن سکے۔ الزہر کے علماء یورپ اور امریکہ سے مستشرقین سے بھی مکالمے کا سلسلہ‬ ‫جاری رکھے ہوئے ہیں۔‬ ‫جامعۃ الزہر کے باہر ایک بڑا بازار تھا جس میں خالصتا ً مولویانہ قسم کی چیزیں یعنی‬ ‫ٹوپیاں‪ ،‬تسبیحیں‪ ،‬مسواکیں اور دینی کتابیں وغیرہے فروخت ہ و رہ ی تھیں۔ے مسجد کی‬ ‫عمارت کا آرکی ٹیکچر کافی خوبصورت تھ ا اور قدیم مسلم ماہرین فن کےے آرٹ کے‬ ‫نمونے اس کے در و دیوار پر نظر آ رہے تھے۔‬ ‫مصر میں ہ م ن ے ایک اچھ ی چیز ی ہ دیکھ ی ک ہ ی ہ لوگ اپن ے آثار قدیم ہ کی قدر و قیمت‬ ‫س ے پوری طرح آگا ہ ہیں ۔ مصر کی معیشت کا بڑا حص ہ ٹورازم پر منحصر ہے۔ اس کے‬ ‫مقابلےے میں ہمارےے پاکستان میں محکمہے آثار قدیمہے تو ہےے لیکن یہے لوگ دیگر سرکاری‬ ‫محکموں کی طرح اپنےے کام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ے آثار قدیمہے کی‬ ‫حفاظت سے لے کر ان کی مارکیٹنگ تک بہت سے ایسے کام ہیں جن کے ذریعے ٹورازم کو‬ ‫فروغ دیا جا سکتا ہے مگر ہمارے لوگ ان سب کاموں سے غافل ہی نظر آتے ہیں۔‬ ‫اس ک ے برعکس بھارت ن ے قدیم ہندو مندروں س ے ل ے کر مسلمانوں کی بنائی ہوئی‬ ‫عمارتوں کو اپنا تاریخی ورثہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے تاج محل کی مارکیٹنگ اس طرح سے‬ ‫پوری دنیا میں کی ہے ک ہ اس ے دنیا ک ے سات جدید عجائب میں شمار کر لیا گیا ہے۔ دنیا‬ ‫بھ ر س ے سیاح بھارت میں صرف تاج محل دیکھن ے ک ے شوق میں جات ے ہیں اور بھارتی‬ ‫عوام کے لئے روزگار کا باعث بنتے ہیں۔‬

‫مکانات وال قبرستان‬ ‫کچ ھ دیر یہاں تصاویر لین ے ک ے بعد ہ م لوگ آگ ے نکلے۔ کچ ھ دور جا کر ہمار ے سامن ے ایک‬ ‫نئی چیز تھی ۔ ی ہ یہاں کا قدیمی قبرستان تھا ۔ اہ ل مصر ک ے ہاں ی ہ رواج ہے ک ہ ہ ر خاندان‬ ‫قبرستان میں جگ ہ خریدتا ہے اور اس پر ایک مکان نما عمارت تعمیر کر لیتا ہے۔ اس‬ ‫خاندان کے تمام لوگوں کی قبریں اس مکان کے اندر بنتی ہیں۔ یہاں بہت سے مکانات تھے‬ ‫جن پر باقاعدہ نیم پلیٹس لگی ہوئی تھیں۔ ان کے اندر خاندان کے لوگوں کی قبریں تھیں۔‬ ‫ہمار ے ہاں تو پبلک قبرستان کی زمین پر زبردستی قبض ہ کر ک ے ایک خاندان کی قبروں‬ ‫کو اکٹھا بنایا جاتا ہے لیکن یہاں اس رواج کو باقاعدہ قانونی شکل دے دی گئی تھی۔‬

‫دریائ ے نیل کی وادی میں‬ ‫اب ہم دوبارہ دریائے نیل کی طرف جا رہے تھے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ قاہرہ سے کچھ باہر نکل‬ ‫کر دریائے نیل کی کھلی فضا میں شام بسر کی جائے۔ اس مرتبہ ہم دریا پار کر کے اس‬ ‫کےے مغربی کنارےے کےے ساتھے ساتھے کورنیش پر چلےے جا رہےے تھے۔ے کافی دور جا کر ہمیں‬ ‫میریٹ ہوٹل کا قائم کرد ہ ایک ریزارٹ نظر آیا ۔ اس میں جب داخل ہوئ ے تو ہمار ے موڈ‬ ‫خراب ہ و گئےے کیونکہے یہاں باقاعدہے رقص گاہے بنی ہوئی تھی۔ے اس دن رقص و سرور کا‬ ‫کوئی پروگرام ن ہ تھ ا اس لئ ے ی ہ جگ ہ خالی پڑی تھی ۔ ہمار ے لئ ے ی ہ اچھ ی بات تھ ی ورنہ‬ ‫ہمیں کوئی اور جگہ تلش کرنا پڑتی۔ ہمارے علوہ یہاں ایک آدھ اور فیملی موجود تھی۔‬ ‫ہ م لوگ ریزارٹ س ے نکل کر دریا ک ے کنارےے بیٹ ھ گئےے اور شام تک وہیں بیٹھے رہے۔‬ ‫کھانا بھ ی وہیں کھایا اور پھ ر نکل کر اپن ے ہوٹل کی طرف آ گئے۔ قاہر ہ میں ی ہ دن خاصا‬ ‫خوشگوار گزرا تھا۔‬ ‫‪125‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫اسکندری ہ‬ ‫اگلے دن ہم جلد بیدار ہوئے۔ گھر سے نکلے ہوئے ہمیں کافی دن ہو چکے تھے اور اب ہمارا‬ ‫دل یہ چاہ رہا تھا کہ اڑ کر گھر پہنچ جائیں۔ ہم لوگ اپنے بچوں‪ ،‬والدہ اور گھر کو بہت مس‬ ‫کر رہے تھے۔ پہلے تو ہمارا پروگرام تھا کہ اسکندریہ دیکھ کر ہم لوگ لقصر جائیں اور وہاں‬ ‫س ے الغردق ہ یا ہرغاد ہ لیکن موجود ہ حالت ک ے پیش نظر ہ م ن ے ط ے کیا ک ہ بس اسکندریہ‬ ‫دیکھ کر ہی واپسی کا سفر کیا جائے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ فراعین کی تاریخ‬ ‫میں مجھے کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ رہا ہرغادہ تو اس کے بارے میں معلوم ہوا تھا‬ ‫کہ وہاں کا ماحول شرم الشیخ جیسا ہی ہے اس لئے اس میں بھی ہمیں کوئی دلچسپی نہ‬ ‫رہی تھی۔‬ ‫ناشت ہ کر ک ے ہ م لوگ اب رنگ رو ڈ پر آئے۔ یہاں س ے ایک سڑک فیوم ک ے نخلستان (‬ ‫‪ ) Fayum Oasis‬کی جانب نکل رہ ی تھی ۔ ی ہ مصر کا بڑا نخلستان ہے اور یہاں ایک بڑی‬ ‫جھیل‪" ،‬جھیل قارون" بھ ی موجود ہے۔ رنگ رو ڈ س ے ہوت ے ہوئ ے ہ م اسکندری ہ جانی والی‬ ‫طریق صحراوی یا ڈیزرٹ ہائی وے پر آ گئے۔ یہ مصر کی موٹر وے تھی اور مصری اس پر‬ ‫اسی طرح فخر کرتے تھے جیسا کہ پاکستانی اپنی موٹر وے پر کرتے ہیں۔‬

‫مصر کی موٹر و ے‬ ‫چار پاؤنڈ کا ٹول ٹیکس ادا کرنے کے بعد ہم لوگ موٹر وے پر آ گئے۔ کہنے کو تو یہ تین لین‬ ‫والی موٹر وے تھی لیکن شکل و صورت سے کوئی عام سی ہائی وے لگ رہی تھی۔ روڈ‬ ‫ک ے دونوں طرف باڑ بھ ی ن ہ تھ ی اور ٹریفک بھ ی خاصا ب ے ہنگم نظر آ رہ ا تھا ۔ سب سے‬ ‫بائیں طرف کی تیز رفتار لین پر خراماں خراماں چلنےے والوں کا قبضہے تھا۔ے ٹرک اور‬ ‫بسیں بھی درمیانی اور بائیں لین پر آئی ہوئی تھیں۔ راستہ مانگنے کے باوجود کوئی راستہ‬ ‫دینے کو تیار نظر نہ آ رہا تھا۔‬ ‫مجھے کراچی کی منی بسوں ک ے پٹھان ڈرائیوروں سےے سیکھے گئ ے ڈرائیونگ ک ے وہ‬ ‫تمام گر یاد آ گئے جو سعودی عرب میں میں بھل چکا تھا ۔ مج ھ میں سویا ہوا پاکستانی‬ ‫جاگ اٹھا ۔ مصری کتنی ہ ی ب ے ہنگم ڈرائیونگ کیوں ن ہ کر لیں و ہ ہ م پاکستانیوں س ے آگے‬ ‫ہیں بڑ ھ سکتے۔ اب میں ن ے ڈرائیونگ ک ے تمام انٹرنیشنل قوانین کو بالئ ے طاق رکھ ا اور‬ ‫بڑ ے اطمینان سےے ‪ 140‬کی رفتار پر زگ زیگ انداز میں ڈرائیونگ شروع کر دی ۔ پھ ر کیا‬ ‫تھا‪ ،‬راستہ جیسے بالکل صاف ہو گیا اور ہم پھنس پھنس کر چلتی ہوئی ٹریفک کے درمیان‬ ‫س ے نکلت ے چل ے گئے۔ے کہیں کہیں ی ہ رو ڈ چار لین پر مشتمل تھی ۔ دلچسپ بات یہے ہےے کہ‬ ‫ٹرکوں والی لین بالعموم خالی تھی اور ہر کوئی بائیں طرف کی تیز رفتار لین پر گھسا‬ ‫چل آ رہا تھا۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ مجھے اوور ٹیک کے لئے تیز لین سے دو لین پار کر‬ ‫کے دائیں جانب ٹرکوں کی لین پر آنا پڑا۔‬ ‫مجھے اس وقت اپن ے پاکستان کی موٹر وے یاد آئی ۔ شہروں میں چلن ے والی بے ہنگم‬ ‫ٹریفک موٹر وے پر پہنچ کر نہایت ہ ی منظم ہ و جاتی ہے۔ یہ کمال ہماری موٹر وے پولیس‬ ‫کا ہے۔ انہوں نے پہلے تعلیم و تربیت اور پھر قانون کے حقیقی نفاذ کے ذریعے پاکستانیوں‬ ‫جیسی قوم کی عادات تبدیل کر دی ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت‬ ‫اور قانون کے حقیقی نفاذ کے ذریعے ہر قوم کو سدھارا جا سکتا ہے۔‬ ‫میں ن ے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی موٹر ویز بھ ی دیکھ ی ہیں ۔ بغیر‬ ‫‪126‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫کسی جانبداری کےے میں اطمینان سےے یہے کہہے سکتا ہوں ک ہ ان میں سےے کوئی موٹر وے‬ ‫ہماری موٹر وے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگرچہ خلیجی ممالک کی سڑکوں کا معیار وہی‬ ‫ہے جو پاکستانی موٹر وے کا ہے لیکن ہمارے ہاں خدمات کا معیار ان کی نسبت بہت بلند‬ ‫ہے۔ خوبصورت اور اعلی درج ے کے ریسٹ ایریا‪ ،‬پبلک فون‪ ،‬پولیس کی خدمات‪ ،‬موبائل‬ ‫ورکشاپ‪ ،‬حد رفتار پر کنٹرول‪ ،‬ٹریفک قوانین کی پابندی ان سب معاملت میں ہماری‬ ‫موٹر وے کا موازنہ امریکہ اور یورپ کی اعلی درجے کی موٹر ویز سے کیا جا سکتا ہے۔‬

‫‪ 6‬اکتوبر کا ش ہر‬ ‫قاہرہ سے باہر نکلے تو ہماری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا‪" ،‬مدینہ ‪ 6‬اکتوبر"۔‬ ‫یہ دراصل قاہرہ کے قریب ہ ی ایک جدید صنعتی شہر ہے جس کا نام عرب اسرائیل جنگ‬ ‫کی اہ م تاریخ پر رکھ ا گیا ہے۔ مصر میں ی ہ عام رواج ہے ک ہ نئ ے بسائ ے گئے شہروں‪ ،‬پلوں‬ ‫اور سڑکوں ک ے نام اہ م تاریخوں پر رک ھ دی ے جات ے ہیں جیسےے ‪ 26‬جولئی روڈ‪ 6 ،‬اکتوبر‬ ‫شہر وغیرہ۔‬ ‫رو ڈ ک ے دونوں کناروں پر ہورڈنگز کا جال بچھ ا دیا گیا تھ ا تاک ہ ہ ر آن ے جان ے وال ے کی‬ ‫توجہ ان کی طرف ہو اور اس کے نتیجے میں حادثات پیش آئیں۔ شدید آندھی اور طوفان‬ ‫کے وقت یہ ہورڈنگز گر کر جانی و مالی نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ اس معاملے‬ ‫میں سعودی عرب میں بہ ت اچھے قوانین مرتب کئ ے گئ ے ہیں ۔ ان ک ے ہاں ہائی ویز پر‬ ‫کبھی ایک خاص حد سے زیادہ ہورڈنگز نہیں لگانے دی جاتیں اور ان کا سائز اور لوکیشن‬ ‫ایسی ہوتی ہے کہ یہ ڈرائیور کو متوجہ نہ کریں اور کسی حادثے کی صورت میں روڈ پر نہ‬ ‫گر سکیں۔‬ ‫کہنے کو تو یہ طریق صحراوی تھی لیکن اس کے دونوں جانب بھی کھیت ہی تھے جن‬ ‫میں دور دور تک پھیل ہوا سبز ہ آنکھوں کو بہ ت بھل لگ رہ ا تھا ۔ ی ہ دریائ ے نیل ک ے ڈیلٹا کا‬ ‫علقہ تھا ۔ میں نے اس سے قبل میر پور ساکرو اور کیٹی بندر میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا‬ ‫کا نظار ہ بھ ی کیا تھ ا لیکن نیل کا ڈیلٹا‪ ،‬ہمار ے ڈیلٹا کی نسبت بہ ت سرسبز تھا ۔ اس کی‬ ‫بڑی وجہ یہ تھی کہ یہاں پانی کی کوئی کمی نہ تھی۔‬ ‫ہمیں ڈگی س ے کچ ھ اشیا نکالن ے کی ضرورت محسوس ہ و رہ ی تھی ۔ میں ن ے رو ڈ کے‬ ‫ایک جانب گاڑی روکی۔ یہاں ایک بزرگ اپنی گاڑی روک کر سب کھڑکیاں کھولے مکھیوں‬ ‫کو انجوائے کر رہے تھے۔ دروازہ کھولنے کے باعث یہ مکھیاں ہمارے ہاں بھی آ گھسیں۔ جب‬ ‫گاڑی چلی تو یہ اپنی ہم جولیوں سے بچھڑنے کے باعث کافی بے چین ہوگئیں۔ بڑی مشکل‬ ‫ہم نے ان سے نجات حاصل کی۔‬ ‫اسی ہائی وے پر افریقی سفاری پارک آیا جو یہاں کا چڑیا گھر تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے میں ہم‬ ‫لوگ اسکندریہ کے ٹول پلزہ پر جا پہنچے۔ یہاں نام نہاد موٹر وے ختم ہو رہی تھی اور عام‬ ‫سڑک شروع ہو رہی تھی۔ اس سے آگے ابھی اسکندریہ ‪ 50‬کلومیٹر دور تھا۔ تھوڑی دور جا‬ ‫کر میکڈونلڈ نظر آیا۔ یہاں سے ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا۔‬

‫ج ھیل ماریوت‬ ‫اب ہم اسکندریہ میں داخل ہو رہے تھے۔ سڑک کے دونوں جانب جھیل نظر آ رہی تھی۔ یہ‬ ‫یقینا ً بحیرہ روم کا پانی تھ ا جو زمین کے اندر سے نکل کر جھیل کی شکل اختیار کر گیا‬ ‫تھا ۔ ی ہ "جھیل ماریوت" کہلتی ہے۔ منظر کافی خوبصورت تھا ۔ اس جھیل ک ے کناروں پر‬ ‫ہماری ہالیجی جھیل کی طرح بہت سے سرکنڈے اگے ہوئ ے تھے جن کے باعث پوری جھیل‬ ‫‪127‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫سبز رنگ کی نظر آ رہی تھی۔‬

‫ٹرام‬ ‫ان نظاروں کو دیکھتے ہوئے ہم آبادی میں داخل ہوئے۔ ایک جگہ سگنل بند تھا۔ یہاں ہماری‬ ‫حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ایک ایسا منظر ہمارے سامنے تھا جو ہم نے اس سے پہلے کبھی نہ‬ ‫دیکھا تھا۔ یہ قدیم زمانے کی ٹرام تھی جو اسکندریہ میں ابھی تک چل رہی تھی۔ بعد میں‬ ‫معلوم ہوا کہ یہ ٹرام یہاں پر ‪1860‬ء سے اسی طرح چل رہی ہے۔‬ ‫چار بوگیوں پر مشتمل ٹرام تنگ لئن پر ہمار ے سامن ے س ے گزر رہ ی تھی ۔ اس کی‬ ‫بوگیاں بھی انگریزوں کے دور کی معلوم ہو رہی تھیں۔ اس کے لئے کسی پھاٹک وغیرہ کے‬ ‫تکلف کی ضرورت بھی نہ تھی۔ جہاں سے یہ گزرتی‪ ،‬اس طرف کا سگنل بند ہو جاتا اور‬ ‫ٹرام آہستہ آہستہ گزر جاتی۔‬ ‫اسکندری ہ (‪ ،)Alexandria‬مصر کی فتح ک ے بعد اسکندر اعظم ن ے اپن ے نام پر آباد کیا‬ ‫اور اسے لقصر کی جگہ مصر کا دارالحکومت بنایا۔ یہ پٹولمی اور رومن بادشاہوں کے دور‬ ‫میں مصر کا دارالحکومت رہا ۔ مصر کی مشہور ملک ہ قلوپطر ہ کا دارالحکومت بھ ی یہی‬ ‫تھا ۔ یہاں مشہور رومی فاتح پومپی مصر کے خواج ہ سراؤں کے ہاتھوں قتل ہوا ۔ بعد میں‬ ‫پومپی سے حکومت چھیننے والے سیزر نے یہاں حملہ کیا تو قلوپطرہ سے شادی کر بیٹھا۔‬ ‫قلوپطرہ کے بعد یہ شہر رومی سلطنت کا صوبائی دارالحکومت قرار پایا۔‬ ‫سیدنا عمرو بن عاص رضی الل ہ عن ہ ن ے جب مصر فتح کیا تو انہوں ن ے اسکندری ہ کی‬ ‫جگہے فسطاط کو مصر کا دارالحکومت بنایا جو بعد میں قاہرہے کےے اندر جذب ہ و گیا۔‬ ‫اسکندری ہ کا لئٹ ہاؤس دنیا ک ے سات قدیم عجائب میں شمار ہوتا تھا ۔ ی ہ لئٹ ہاؤس‬ ‫زلزلے کے باعث چودھویں صدی میں تباہ ہو گیا۔‬ ‫اسکندری ہ کا موسم مصر میں سب س ے اچھ ا سمجھ ا جاتا ہے۔ یہاں شدید گرمی کے‬ ‫موسم میں بھ ی زیادہے گرمی نہیں ہوتی۔ے مصر کےے امراء اپنی گرمیاں گزارنےے کےے لئے‬ ‫اسکندریہ کا رخ کرتے ہیں۔ اسکندریہ کے شمال مغرب میں ساحل کے ساتھ ساتھ بہت سے‬ ‫ریزارٹ اور ٹورسٹ ولیج بنےے ہوئےے ہیں۔ے اسکندریہے کی لئبریری دنیا کی قدیم ترین‬ ‫لئبریریوں میں شمار ہوتی ہے۔‬

‫منتز ہ پیلس پارک‬ ‫ہ م لوگ چونکہے اب تاریخی مقامات سےے سیر ہ و چکےے تھےے اور آج ہ ی ہمارا واپسی کا‬ ‫پروگرام تھ ا اس لئ ے ہ م ن ے فیصل ہ کیا ک ہ کسی تاریخی مقام کو دیکھن ے کی بجائ ے جتنا‬ ‫وقت بھ ی ہے بحیر ہ روم ک ے ساحل پر گزارا جائے۔ گوگل ارتھ پر میں ن ے ساحل پر واقع‬ ‫پارک بھی دریافت کیا تھا جو "منتزہ پیلس پارک" کہلتا ہے۔ ہم اب سیدھے کورنیش پر جا‬ ‫پہنچے۔ کورنیش پر زیاد ہ تر انگریزوں ک ے دور ک ے قدیم طرز ک ے ہوٹل بن ے ہوئ ے تھے۔ ان‬ ‫ہوٹلوں کو اسی طرح برقرار رکھا گیا تھا۔ ہم اب ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے تھوڑی‬ ‫دیر میں اس پارک میں جا پہنچے۔‬ ‫ساحل سمندر پر واقع ی ہ پارک بہ ت خوبصورت تھا ۔ ی ہ انگریزوں ک ے دور کا بنا ہوا تھا‬ ‫اور لہور کے لرنس گارڈ ن کی طرز کا تھا ۔ ہر طرف گھنا سبزہ اور پھول ہ ی پھول تھے۔‬ ‫ساحل سمندر پر اتنا سبزہے میں نےے پہلی مرتبہے دیکھ ا تھا۔ے یہاں زیادہے رش بھ ی نہیں تھا‬ ‫چنانچہ ہم لوگوں نے یہیں وقت گزارنے کا فیصلہ کیا اور خوب انجوائے کیا۔‬ ‫پارک کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ بھی تھا جہاں جانے کے لئے پل بنا ہوا تھا۔ میں نے‬ ‫‪128‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫ایک صاحب اس کا راست ہ پوچھ ا تو کہن ے لگے ‪" ،‬اگر آپ گزیر ہ پر جانا چاہت ے ہیں تو اس‬ ‫طرف سے چلے جائیے۔" ہم اسی طرف ہو لئے اور گزیرے پر پہنچ گئے۔ اسکندریہ میں ہم‬ ‫نے یہ بات نوٹ کی کہ یہاں کے لوگ قاہرہ کی طرح للچی اور گھیرنے والے نظر نہیں آئے۔‬ ‫یہاں موجود خدمات پیش کرنے والے لوگ قریب آ کر مہذب انداز میں اپنی خدمات پیش‬ ‫کرتے اور انکار پر خاموشی سے پیچھے ہٹ جاتے۔ قاہرہ کے لوگوں کی طرح سیاحوں کے‬ ‫پیچھے پڑ جانا ان کی عادت نہیں تھی۔‬ ‫گزیر ے میں بھ ی پارک بنا ہوا تھ ا اور یہاں بھ ی گھنا سبز ہ تھا ۔ پارک میں بہ ت س ے لن‬ ‫بن ے ہوئ ے تھے۔ یہاں گھنا سبز ہ تھ ا اور مختلف لوگ اپنی فیملیوں سمیت یہاں بیٹھے تھے۔‬ ‫بحیر ہ روم کی چھالیں دیواروں س ے ٹکرا کر بلند ہ و رہ ی تھیں اور لوگوں کو بھگو رہی‬ ‫تھیں ۔ دور دور تک نیل سمندر اور گھنا سبز ہ نظر آ رہ ا تھا ۔ سمندر کا پانی بھ ی صاف و‬ ‫شفاف تھا ۔ یہاں آ کر بحیر ہ روم کافی چوڑا ہ و جاتا ہے۔ اس سمندر ک ے دوسری جانب‬ ‫ترکی کا شہر پٹارا تھا جو یہاں سے زیادہ سے زیادہ ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہو گا۔‬ ‫قاہرہ کی نسبت یہاں کا ماحول کافی صاف ستھرا تھا اور لوگ زیادہ تر اپنی فیملیوں کے‬ ‫ساتھ ہی تھے۔‬

‫اسکندر اعظم‬ ‫اسکندری ہ س ے مجھے اس شہ ر کا بانی اسکندر اعظم یاد آ گیا ۔ یونان ک ے رہن ے وال ے اس‬ ‫شخص نے نوجوانی ہ ی میں دنیا کے بڑ ے حصے کے سکون کو تہہ و بال کر دیا ۔ مصر سے‬ ‫لے کر ہندوستان کے علقوں کو تاخت و تاراج کرتا چل گیا۔ ہندوستان سے واپسی پر بابل‬ ‫کے علقے میں بیمار پڑا اور اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا کہ جب مجھے دفنانے لگو تو میرے‬ ‫ہات ھ کفن س ے باہ ر رکھنا تاک ہ دنیا کو عبرت ہ و ک ہ اتنا بڑا فاتح ہ و کر بھ ی میں دنیا سے‬ ‫خالی ہات ھ جا رہ ا ہوں ۔ اسکندر ن ے زندگی کی جو حقیقت مرت ے دم دریافت کی‪ ،‬اگر ہم‬ ‫اسے اپنی زندگی میں دریافت کر لیں تو لوٹ کھسوٹ اور چھینا جھپٹی سے اپنی زندگی‬ ‫کو پاک کر سکتے ہیں۔‬ ‫کافی دیر اس پرسکون ماحول سے لطف اندوز ہو کر ہم واپس ہوئے۔ گیٹ کے قریب‬ ‫مسجد میں نماز ادا کی۔ باہر نکل کر ایک بقالے سے ہم نے بسکٹ اور کولڈ ڈرنک خریدے۔‬ ‫اسکندری ہ میر ے ایک کولیگ علء حمز ہ رہت ے تھے اور ان دنوں چھٹیوں پر گھ ر واپس آئے‬ ‫ہوئے تھے۔ علء نے بہت خلوص سے مجھے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی اور اس پر اس‬ ‫قدر اصرار کیا تھ ا ک ہ ی ہ معلوم ہوتا تھ ا ک ہ ان کی دعوت محض رسمی نہیں ہے۔ ان کے‬ ‫خلوص کے جواب میں فون بھی نہ کرنا بے مروتی ہوتی۔ میں نے بقالے کے مالک سے ایک‬ ‫فون کی درخواست کی جس ے انہوں ن ے خند ہ پیشانی س ے قبول کرت ے ہوئ ے علء کا نمبر‬ ‫مل کر مجھےے دیا ۔ میں ن ے علء سےے معذرت کی کہے ان کی طرف نہیں آ سکا اور اب‬ ‫واپس جا رہا ہوں۔‬

‫‪129‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مصر س ے سعودی عرب براست ہ اردن‬ ‫اب ہماری واپسی کا سفر شروع ہ و چکا تھا ۔ ہمار ے سامن ے دو راست ے تھے۔ ایک تو وہی‬ ‫واپس قاہر ہ اور وہاں س ے سویز ۔ دوسرا راست ہ ی ہ تھ ا ک ہ ڈیلٹا میں س ے گزرت ے ہوئ ے پورٹ‬ ‫سعید تک جائیں اور وہاں س ے نہ ر سویز ک ے سات ھ سات ھ سویز شہ ر تک چلیں ۔ میں ذاتی‬ ‫طور پر دوسر ے راست ے ک ے حق میں تھ ا کیونک ہ یہاں دریائ ے نیل کی شاخیں سمندر میں‬ ‫گرتی تھیں اور علق ہ سرسبز تھ ا لیکن لوگوں س ے معلوم کرن ے پر پت ہ چل ک ہ اس راستے‬ ‫میں زرعی اور آبادی وال علقہ ہونے کے باعث بہت رش ہو گا۔ اسی وجہ سے ہم لوگ جن‬ ‫قدموں پر گئے تھے انہی پر واپس آ گئے۔‬

‫بیجوں س ے تیار کرد ہ کا ک ھانا‬ ‫قاہرہ سے ہوتے ہوئے ہم لوگ مغرب کے وقت سویز پہنچ کر نہر سے پہلے والے ریسٹ ایریا‬ ‫میں جا پہنچے۔ے اس وقت ہمیں شدید بھوک لگ رہ ی تھ ی اور شوربےے والی کوئی چیز‬ ‫کھان ے کو دل چا ہ رہ ا تھا ۔ ہوٹل وال ے س ے پوچھ ا تو معلوم ہوا ک ہ یہاں شورب ہ دستیاب ہے۔‬ ‫جب شوربہ ہمار ے سامن ے آیا تو ی ہ شاید خربوز ے یا کسی اور چیز بیجوں کا بنا ہوا سالن‬ ‫تھا۔‬ ‫کھانے سے فارغ ہو کر نماز ادا کی۔ نہر سویز کی سرنگ پار کر کے اب ہمیں نویبع تک‬ ‫مزید تین سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا۔ اب ہم دوبارہ جزیرہ نما سینا میں تھے۔ میری‬ ‫تین سال ہ بچی ماری ہ جو مسلسل سفر کر کر ک ے اب بذات خود فطرت ک ے مناظر کو‬ ‫سمجھنےے لگی تھی‪ ،‬کہنےے لگی‪" ،‬ابو! وہے دیکھیں‪ ،‬سین!!!۔ " جب سین پر نظر پڑی تو‬ ‫واقعتا ً ایک نہایت ہی دلفریب منظر سامنے تھا۔‬

‫صحرا میں طلوع ما ہتاب‬ ‫اب س ے پہل ے ہ م ن ے صحرا میں طلوع آفتاب کا منظر تو دیکھ ا تھ ا لیکن طلوع ماہتاب کا‬ ‫منظر دیکھنے کا ہمارے لئے یہ پہل موقع تھا۔ چاند کی غالبا ً اٹھارہ یا انیس تاریخ تھی۔ سینا‬ ‫کی پہاڑیوں کے پیچھے سے سرخ رنگ کا چاند آہستہ آہستہ طلوع ہو رہا تھا ۔ جیسے جیسے‬ ‫چاند بلند ہوتا گیا‪ ،‬اس کی سرخی سفیدی میں بدلتی گئی۔ کچھ ہی دیر میں پورا صحرا‬ ‫روشن نظر آ رہا تھا۔‬

‫بدت ہذیبی کا جواب‬ ‫رات کی ڈرائیونگ میں بھ ی مصری ڈرائیور خاصے غیر مہذب ثابت ہوئے۔ سامنے س ے آتے‬ ‫ہوئے تیز لئٹیں ہلکی کرنا تو دور کی بات‪ ،‬قریب آ کر انہیں مزید جل بجھا کر سامنے والے‬ ‫کی آنکھوں کو خیر ہ کر دینا ان کا خاص انداز تھا ۔ اس کا مقصد ی ہ ہوتا تھ ا ک ہ ان کی‬ ‫بجائے سامنے وال اپنی رفتار کم کر لے۔ سعودی عرب میں اس کے برعکس لوگ سامنے‬ ‫سے آتی گاڑی دیکھ کر خود ہ ی لئٹیں ہلکی کر لیتے ہیں تاکہ کسی کو تکلیف ن ہ ہو ۔ میں‬ ‫بھی چونکہ یک طرفہ اخلقیات کے نظریے کا قائل نہیں ہوں اس لئے جو شخص بھی ایسا‬ ‫کرتا میں نے بھی اس کے ساتھ وہی عمل دوہرانا شروع کر دیا۔‬ ‫بعض لوگوں کی ی ہ عادت ہوتی ہے ک ہ وہ خود کو عقل کل سمجھت ے ہیں اور دوسروں‬ ‫کو ب ے وقوف بنان ے کی کوشش میں مصروف رہت ے ہیں ۔ اگر کوئی ان ک ے سات ھ اخلقی‬ ‫‪130‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫رویہ اختیار کرے تو یہ اسے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا علج یہی ہے کہ ان کے‬ ‫سات ھ بالکل ویسا ہ ی سلوک کیا جائ ے جو و ہ دوسروں ک ے سات ھ روا رکھت ے ہیں ۔ ہاں اس‬ ‫بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ انسان خود پہل نہ کرے اور کسی کی زیادتی کا جواب‬ ‫دیت ے ہوئ ے اس ک ے سات ھ صرف اتنا ہ ی کر ے جتنا اس ن ے کیا ہو ۔ حد س ے تجاوز کرن ے کی‬ ‫صورت میں انسان کو اللہ تعالی کے ہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔‬ ‫جوابی کاروائی کا یہ اصول صرف ان معاملت کے لئے ہے جو قانون کے دائرے میں آتے‬ ‫ہوں ۔ ایس ے معاملت جو قابل دست اندازی قانون ہوں‪ ،‬ان ک ے معامل ے میں انسان کو‬ ‫صرف اور صرف قانون سے رجوع کرنا چاہیے اور کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا‬ ‫چاہیے۔‬ ‫اگر قانون کی ہمدردیاں مظلوم کی بجائے ظالم کے ساتھ ہوں جیسا کہ ہمارے ہاں عام‬ ‫دستور ہے ‪ ،‬اس صورت میں خود کوئی کاروائی کرنےے کی بجائےے انسان کو معاملہے اللہ‬ ‫تعالی پر چھوڑ دینا چاہی ے اور اپن ے انتقام کو آخرت تک موخر کر دینا چاہیے۔ اگر انسان‬ ‫قانون کو اپن ے ہات ھ میں لینا شروع کر د ے تو اس کا نتیج ہ سوائ ے معاشرتی انتشار اور‬ ‫انارکی ک ے کچھے نہے نکلےے گا اور معاشرےے کی حالت ویسی ہ ی ہ و جائےے گی جیسی اس‬ ‫وقت مثل ً افغانستان اور عراق میں ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں وہ شخص اور اس‬ ‫کا خاندان بھی محفوظ نہ رہے گا جس نے ابتدا میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔‬ ‫تین گھنٹے میں ہم لوگ نویبع جا پہنچے۔ رکنے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ اگلے دن فیری‬ ‫کےے اوقات معلوم کر لئےے جائیں۔ے اوقات کا معلوم کرنےے کےے بعد ہ م لوگ ٹورسٹ ولیج‬ ‫پہنچے۔ے خوش قسمتی سےے ہمیں یہاں ایک نہایت ہ ی اعلی درجےے کےے موٹل میں کمرہ‬ ‫سستے داموں مل گیا کیونکہ ان دنوں نویبع میں سیاح بہت کم تھے۔‬ ‫اگل ے دن صبح اٹ ھ کر ناشت ے ک ے بعد ہ م لوگ بندرگا ہ کی جانب روان ہ ہوئے۔ عرب برج‬ ‫والوں کے دفتر سے اسپیڈ بوٹ کا ٹکٹ حاصل کیا۔ اسی دوران جمعہ کی نماز کا وقت ہو‬ ‫چکا تھا۔ بندرگاہ کے گیٹ بند ہو گئے اور وہاں موجود محافظوں نے نماز کے بعد آنے کا کہا۔‬

‫دی ہاتی مصر میں نماز جمع ہ‬ ‫میں نےے قریب ہ ی واقع بندرگاہے کی مسجد میں نماز جمعہے ادا کی۔ے مسجد میں امام‬ ‫صاحب خطبہے دینےے کےے لئےے آئے۔ے خطبےے کا موضوع حضور نبی کریم صلی اللہے علیہے واٰلہ‬ ‫وسلم کا سفر معراج تھا کیونکہ ان دنوں رجب کا مہینہ تھا۔ امام صاحب کا تقریر کرنے کا‬ ‫اسٹائل بالکل ویسا ہ ی تھ ا جیسا ک ہ ہمار ے دیہاتی علقوں ک ے خطیب حضرات کا ہوتا ہے‬ ‫البتہ راگ لگانے کے معاملے میں وہ ہمارے خطیبوں کی ہم سری نہ کر سکے۔‬ ‫نماز ک ے بعد کسٹم اور امیگریشن ک ے مراحل ط ے پائے۔ بیوروکریسی ک ے باعث نمبر‬ ‫پلیٹیں واپس کرن ے کا مرحل ہ اتنا ہ ی دشوار ثابت ہوا جتنا ک ہ انہیں حاصل کرن ے کا معاملہ‬ ‫تھا۔ے ایک مصری صاحب نےے یہے معلوم ہونےے پر کہے میں پاکستانی ہوں‪ ،‬اس معاملےے میں‬ ‫میری کافی مدد کی۔ جب فیری پر چڑھنے کا مرحلہ آیا تو پتہ چل کہ ٹکٹ کاؤنٹر والوں نے‬ ‫ہمار ے اصرار ک ے باوجود ہمیں اسپی ڈ بوٹ کی بجائ ے سلو بوٹ کا ٹکٹ د ے دیا تھا ۔ میرا‬ ‫دماغ گھوم گیا اور میرے ذہن میں یہاں پہنچنے کا گیارہ گھنٹے کا سفر آیا۔ میں نے ان سے‬ ‫کہ ا ک ہ و ہ اضافی رقم ل ے لیں اور ہمیں اسپی ڈ بوٹ پر ہ ی جان ے دیں ۔ شکر ہے ک ہ و ہ لوگ‬ ‫اس پر مان گئے۔‬

‫‪131‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مصر ک ے بار ے میں ہمار ے تاثرات‬ ‫مصر س ے ہ م ملی جلی یادیں ل ے کر جا رہے تھے۔ چار دن ک ے اس سفر میں ہمیں بہت‬ ‫سے اچھے لوگ بھی ملے تھے اور دوسروں کو تنگ کرنے والے بھی۔ ان کے ہاں پاکستانیوں‬ ‫ک ے بار ے میں بھ ی کوئی خاص گرمجوشی ہمیں محسوس نہیں ہوئی ۔ بحیثیت مجموعی‬ ‫ہمیں اہل اردن کا رویہ اہل مصر کی نسبت بہت بہتر محسوس ہوا۔‬ ‫اہ ل مصر پر تاثرات کا یہے سلسلہے اس وقت تک مکمل نہے ہ و گا جب تک مصر کی‬ ‫مغربیت پر کچھ تبصرہ نہ کر دیا جائے۔ مصر مسلم دنیا میں وہ پہل ملک ہے جسے ماڈرنائز‬ ‫بلکہ ویسٹرنائز کرنے کی کوششیں بہت پہلے شروع کر دی گئیں۔ محمد علی پاشا کے دور‬ ‫میں مصر کو ماڈرنائز کرن ے ک ے عمل کا آغاز ہوا ۔ برطانوی دور ن ے مصر ک ے حکمرانوں‬ ‫اور ان کی اشرافیہ کو مکمل طور پر مغرب زدہ کر دیا۔ مصر غالبا ً وہ پہل مسلم ملک ہے‬ ‫جہاں کھلے عام نائٹ کلب‪ ،‬کیسینو اور رقص گاہیں تعمیر کی گئیں۔ یہاں شراب کو عام‬ ‫کیا گیا۔‬ ‫دلچسپ امر یہے ہےے کہے معاشرےے کو ویسٹرنائز کرنےے کی ان کوششوں میں مسلم‬ ‫معاشروں میں س ے کسی ن ے اہ ل مغرب کی مثبت اقدار یعنی آزادی اظہار‪ ،‬جمہوریت‪،‬‬ ‫غریب طبقوں کے حقوق‪ ،‬انسانی حقوق وغیرہ پر توجہ نہ دی۔ سب نے صرف اور صرف‬ ‫مغربیت ک ے ایک پہلو یعنی جنسی آزادی‪ ،‬شراب اور جوئ ے کو ہ ی اختیار کیا ۔ اس سے‬ ‫ہمارے اخلقی زوال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‬ ‫مصر میں اس مغربیت ک ے خلف اخوان المسلمون نےے موثر آواز اٹھائی ۔ انہوں نے‬ ‫حکومت کے خلف تشدد کا راستہ اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ نکل کہ اس پوری تحریک کو‬ ‫سختی سےے کچل دیا گیا۔ے پچھلےے دو عشروں میں اخوان نےے تشدد کی بجائےے دعوت و‬ ‫اصلح کے ذریع ے معاشر ے کو تبدیل کرن ے کی کوششوں کا آغاز کیا جس کے نتیج ے میں‬ ‫انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔‬ ‫‪ 1990‬ء کےے عشرےے تک اہ ل مصر کی اکثریت نائٹ کلبوں وغیرہے سےے دور رہتی تھی۔‬ ‫صرف اشرافی ہ اور اپر مڈ ل کلس کا ایک محدود طبق ہ تھ ا جو مغرب کی اس مادر پدر‬ ‫آزادی کا حامی تھا ۔ عوام کی اکثریت ان خرافات س ے دور تھی ۔ حالی ہ دو عشروں میں‬ ‫میڈیا کے فروغ نے معاشرے کی بڑی تعداد کو ان چیزوں سے سے روشناس کیا ہے۔‬ ‫‪ 2000‬ء کے عشر ے میں مصری معاشرے میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ دنیا میں‬ ‫معاشی تبدیلیوں کےے باعث یہاں بھ ی مہنگائی تیزی سےے بڑھے رہ ی ہےے اور آمدنیوں میں‬ ‫کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں اہل مصر کی بڑی تعداد جو مڈل کلس‬ ‫سے تعلق رکھتی تھی‪ ،‬غربت کا شکار ہو چکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہ ا ہے کہ مصری‬ ‫معاشرہ اب دو مختلف سمتوں میں جا رہا ہے۔‬ ‫ان کےے ہاں ایک وہے طبقہے ہےے جو دینی تحریکوں کی دعوت کےے نتیجےے میں دین سے‬ ‫وابستہے ہ و رہ ا ہے۔ے دوسری طرف غربت نےے بہ ت سےے افراد بالخصوص خواتین کو نائٹ‬ ‫کلبوں‪ ،‬رقص گاہوں اور جسم فروشی کے کاروبار سے وابستہ کر دیا ہے۔ اب صورتحال یہ‬ ‫ہےے کہے ایک ہ ی خاندان کا ایک فرد اخوان یا کسی اور دینی تحریک سےے وابستہے ہےے اور‬ ‫دوسرا کسی رقص گا ہ سے۔ اس معاشی تقسیم ک ے نتیج ے میں نئ ے نئ ے دولت مند ہونے‬ ‫والے حضرات اس کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں۔ مصری معاشرے میں اس تقسیم کا کیا‬ ‫نتیجہ برآمد ہو گا اس کا فیصلہ آنے وال وقت کرے گا۔‬ ‫اس تجزی ے میں ہ م پاکستانی معاشر ے کا عکس دیک ھ سکت ے ہیں ۔ پاکستان میں بھی‬ ‫‪132‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫مذہبی اور سیکولر انتہ ا پسندی وقت ک ے سات ھ سات ھ بڑ ھ رہ ی ہے۔ عین ممکن ہے ک ہ اگلے‬ ‫چند برس میں ان دونوں قسم ک ے انتہ ا پسندوں ک ے درمیان ایک بڑی خان ہ جنگی وقوع‬ ‫پذیر ہو جائے۔ے ایسی خانہے جنگی کےے نتیجےے میں پاکستان کی حالت بھی عراق اور‬ ‫افغانستان سے مختلف نہ ہو گی۔‬

‫اسپی ڈ بوٹ‬ ‫تین گھنٹے لیٹ ہونے کے بعد اسپیڈ بوٹ چلی تو سفر کا مزہ آ گیا۔ عملے سے معلوم ہوا کہ‬ ‫بوٹ کی رفتار چالیس ناٹ فی گھنٹ ہ یعنی تقریبا ً پچھتر کلومیٹر فی گھنٹ ہ تھی ۔ یہ ی وجہ‬ ‫تھی کہ اس بوٹ میں باہر نکلنے کے تمام راستے بند تھے۔ اندر سے سیٹیں ہوائی جہاز کی‬ ‫مانند تھیں۔ دونوں جانب بند کھڑکیاں تھیں جن سے سمندر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔‬ ‫فیری پر آتے ہوئے ہمیں گیارہ گھنٹے لگے تھے۔ اسپیڈ بوٹ اس کی نسبت کافی چھوٹی‬ ‫تھی اس لئے اس میں گاڑیاں بھی کم ہی تھیں۔ اسپیڈ بوٹ کے اعلی معیار کے باعث سو‬ ‫کلومیٹر کا نویبع س ے عقب ہ کا سفر اب گیار ہ کی بجائ ے صرف چ ھ گھنٹ ے میں ط ے ہ و گیا‬ ‫جس پر سب لوگ کافی خوش نظر آ رہے تھے۔ ان چھ گھنٹے میں اصل سفر یعنی سمندر‬ ‫میں سیلنگ ٹائم صرف سوا گھنٹہ تھا جبکہ باقی وقت انتظار میں ہی صرف ہوا تھا۔‬ ‫بوٹ کےے اندر ہ ی ایک کاؤنٹر تھ ا جس پر ایک طویل قطار تھی۔ے میں نےے ایسےے ہی‬ ‫معلوم کرنا چاہ ا ک ہ ی ہ کیا ہے۔ جب وہاں موجود آفیسر س ے اس ک ے بار ے میں پوچھ ا تو‬ ‫پوچھنےے لگے‪" ،‬آپ پاکستانی ہیں؟" میں نےے اثبات میں جواب دیا تو کہنےے لگے‪" ،‬اپنے‬ ‫پاسپورٹ دیجیے۔ " پاسپورٹ دین ے پر اسی وقت انہوں ن ے مہریں لگا کر میر ے حوال ے کر‬ ‫دیا۔ اس سے اہل اردن کے لحاظ اور مروت کا اندازہ ہوتا ہے۔‬ ‫عقب ہ کی بندرگا ہ پر کسٹم ک ے مراحل ان ک ے آفیسرز کی مستعدی ک ے باعث جلد ہی‬ ‫طے ہو گئے۔ اب ہم بندرگاہ سے نکلے اور سعودی عرب کے بارڈر کی طرف روانہ ہوئے جو‬ ‫یہاں سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ اردن سے نکلنے کے بعد ہم سعودی عرب‬ ‫میں داخل ہوئےے تو ان کا رویہے اہل اردن سےے بھ ی اچھ ا تھا۔ے کسٹم آفیسر نےے بہرحال‬ ‫تفصیلی تلشی لی لیکن ان کا رویہ اچھا تھا۔ تلشی لینے کے لئے انہوں نے بنگالی ملزمین‬ ‫رکھے ہوئے تھے۔‬ ‫سعودی عرب میں جیس ے ہ ی ہ م داخل ہوئ ے تو سکون کا سانس لیا ۔ ایسا محسوس‬ ‫ہ و رہ ا تھ ا جیس ے ہ ر چیز اپنی جگ ہ پر آ گئی ہے۔ یہاں زندگی کافی آسان ہے اور معاشرے‬ ‫میں نظم و ضبط کافی اچھ ا ہے۔ے یہ ی وجہے ہےے کہے چھٹیوں میں یہاں رہنےے والےے جو لوگ‬ ‫پاکستان کا رخ کرتے ہیں‪ ،‬وہ وہاں جا کر کچھ عجیب سا محسوس کرتے ہیں۔‬ ‫ہ م لوگ اب سعودی عرب کےے سرحدی شہ ر "حقل" میں رات دس بجےے ک ے قریب‬ ‫داخل ہوئے۔ ی ہ ایک چھوٹا سا قصب ہ تھا ۔ اندر داخل ہوت ے ہ ی ہمیں ایک بخاری ریسٹورنٹ‬ ‫نظر آیا جس پر موجود افغانی حضرات سے کھانا خریدا۔ ساتھ ہی ایک بقالہ تھا‪ ،‬اس سے‬ ‫کچھ اشیا خریدنے کے لئے میں اندر داخل ہوا تو کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب کچھ اپنے اپنے سے‬ ‫لگے۔ گفتگو پر معلوم ہوا کہ ان کا تعلق کراچی میں کھارادر کے علقے سے ہے۔ وہ میمن‬ ‫حضرات ک ے مخصوص اسٹائل میں کاؤنٹر پر بیٹھے تھے اور کاروبار کر رہے تھے۔ ان سے‬ ‫معلوم ہوا‬ ‫کہ حقل میں کوئی مناسب ہوٹل نہیں ہے۔‬

‫‪133‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫صحرا میں رات کو قیام‬ ‫ہمارا اراد ہ تو یہ تھ ا کہ رات حقل ہ ی میں رک کر اگل ے دن جد ہ کی جانب چل جائ ے لیکن‬ ‫اب مجبوری تھی۔ے ہ م دوبارہے پہاڑی راستوں پر سفر کرنےے لگے۔ے کچھے دور جانےے کےے بعد‬ ‫اچانک مجھ پر نیند کا غلب ہ ہونے لگا ۔ روڈ کے ایک طرف ایک بڑی سی کچی جگہ تھ ی جو‬ ‫ٹرک والوں کے آرام کے لئے بنائی گئی تھی۔ میں نے بھی وہیں گاڑی روک لی۔ یہاں ہمارے‬ ‫علو ہ کوئی ن ہ تھا ۔ ہمار ے پاس خیم ہ بھ ی تھ ا جو ہ م یہاں آسانی س ے لگا سکت ے تھے لیکن‬ ‫اس میں یہ خطرہ تھا کہ صحرا میں کہیں کوئی سانپ وغیرہ نہ ہو۔‬ ‫ہم نے گاڑی کے تمام شیشے اور چھت کھول دی اور سیٹیں سیدھی کر کے سونے کی‬ ‫کوشش کرنے لگے۔ صحرا میں ہر طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی اور ارد گرد کی پہاڑیاں‬ ‫کافی خوبصورت معلوم ہ و رہ ی تھیں ۔ صحرا کی رات کافی سرد ثابت ہوئی اور ٹھنڈی‬ ‫ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے ہمیں جلد ہی گہری نیند میں پہنچا دیا۔ جیسے ہی صبح کا اجال‬ ‫پھیلنا شروع ہوا تو میری آنکھ کھلی۔ ڈگی میں موجود پانی کی کین سے وضو کر کے فجر‬ ‫کی نماز ادا کی اور ٹھیک چھ بجے ہم نے اپنا سفر دوبارہ شروع کر دیا۔‬

‫قوم شعیب کا علق ہ‬ ‫ایک گھنٹے میں ہی ہم لوگ "البدع" نامی قصبے میں جا پہنچے۔ یہ قصبہ یمن اور مکہ سے آ‬ ‫کر شام جان ے وال ے قدیم تجارتی راست ے پر ایک اہ م مقام تھا ۔ اس مقام پر عراق سے‬ ‫مصر جان ے والی دوسری تجارتی شاہرا ہ یمن س ے شام جانے والی شاہرا ہ کو قطع کرتی‬ ‫تھی۔ دو بڑی تجارتی شاہراہوں کے اس چوراہے پر سیدنا شعیب علیہ الصلوۃ والسلم کی‬ ‫قوم آباد تھی۔ یہ قوم سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلم کے تیسرے فرزند مدین کی اولد‬ ‫تھی۔ تین چار صدیوں میں یہ لوگ اعتقادی اور اخلقی خرابیوں میں مبتل ہو چکے تھے۔‬ ‫اپنی مخصوص لوکیشن ک ے باعث ی ہ لوگ تجارتی قافلوں کی آمد و رفت س ے ناجائز‬ ‫فائدہے اٹھاتے۔ے انہوں نےے ناپ تول میں کمی کرنا شروع کی۔ے سیدنا شعیب علیہے الصلوۃ‬ ‫والسلم نےے انہیں شرک اور ناپ تول میں کمی سےے روکا جس پر انہوں نےے آپ سے‬ ‫سرکشی کا سلوک کیا۔ے انہوں ن ے جوابا آپ اور آپ پر ایمان لنےے والوں کو اپنا ایمان‬ ‫چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا اور کہنے لگے‪" ،‬اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی سکھاتی ہے‬ ‫کہ ہ م ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ‬ ‫کہ ہم کو اپنے مال میں اپنی منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو۔ کیا بس تم ہی‬ ‫ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گئے ہو؟" (ھود ‪)11:87‬‬ ‫اس جواب س ے اس قوم کی اکابر پرستی‪ ،‬اندھ ی تقلید اور اخلقی زوال کا اندازہ‬ ‫لگایا جا سکتا ہے۔ اتمام حجت کے بعد اللہ تعالی نے سیدنا شعیب علیہ الصلوۃ والسلم کو‬ ‫یہاں سے نکلنے کا حکم دیا اور آپ یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گئے‪" ،‬اے میری قوم! میں‬ ‫ن ے تو اپنا پیغام تم تک پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہ ی کا حق ادا کر دیا ۔ اب میں اس‬ ‫قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے۔" (العراف ‪)7:93‬‬ ‫سیدنا شعیب علیہ الصلوۃ والسلم کے نکل جانے کے بعد اس قوم پر بھی اللہ کا عذاب‬ ‫آیا اور اس کا انجام بھ ی وہ ی ہوا جو ان سے پہلے عاد اور ثمود کی اقوام کا ہو چکا تھا۔‬ ‫تجارتی چوراہے پر آباد ہونے کے باعث اس عذاب کی خبر ارد گرد کی اقوام تک پہنچ گئی‬ ‫اور مدین کی تباہ ی عرب اور فلسطین میں بطور ضرب المثل مشہور ہ و گئی ۔ پورے‬ ‫عرب کا بچہ بچہ اس مقام سے واقف تھا۔ قرآن مجید نے اس تباہی کو خدا کے وجود اور‬ ‫‪134‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬

‫محمد رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم کی رسالت ک ے ثبوت ک ے طور پر پیش کیا۔‬ ‫آپ کی قوم کے جو لوگ آپ پر ایمان نہ لئے انہیں آپ کے ماننے والوں کے ہاتھوں ایسی‬ ‫ہی سزا دی گئی۔‬ ‫البدع کے قصبے سے نکلتے ہی قوم شعیب کے آثار ہمارے دائیں جانب تھے۔ ان کے گرد‬ ‫باڑ لگا کر انہیں محفوظ کر لیا گیا تھ ا اور ان کا گیٹ بند تھا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ‬ ‫آثار نو بجے کھلیں گے۔ ابھی صبح کے سات بجے تھے‪ ،‬اس لئے ہم لوگوں نے باہر سے ہی یہ‬ ‫آثار دیکھنے پر اکتفا کیا۔ ان کے گھر بھی قوم ثمود کے مقابر کی طرح چٹانوں میں کھود‬ ‫کر بنائے گئے تھے۔ چونکہ بعد میں یہاں شاید نبطی آباد نہیں ہوئے اس لئے اس پر آرٹ کے‬ ‫نمونے تخلیق نہیں ہوئے۔‬

‫سعودی عرب کی کوسٹل ہائی و ے‬ ‫البدع سےے نکل کر ہ م اب ساحل کےے ساتھے ساتھے "ضباء" کی طرف روانہے ہوئے۔ے کھلی‬ ‫صحرائی سڑک پر صرف ہ م ہ ی تھے جو ہوا ک ے دوش پر اڑ ے جا رہے تھے۔ ضباء ک ے بعد‬ ‫"الوجہ " کا شہ ر آیا اور اس ک ے بعد "ینبع" ۔ ینبع ایک بڑا شہ ر ہے لیکن ہمیں تو ی ہ ٹریفک‬ ‫سگنلز کا شہ ر لگا ۔ ڈھیروں ڈھیر سگنلز ک ے بعد ہ م ینبع کی انڈسٹریل اسٹیٹ جا پہنچے‬ ‫جس کے بعد سڑک نے شاندار موٹر وے شکل اختیار کر لی۔‬ ‫تھوڑی دیر ہ ی میں بدر کا ایگزٹ آیا ۔ ی ہ وہ ی مقام ہے جہاں س ے مدین ہ ک ے لئ ے سڑک‬ ‫نکل رہ ی تھی۔ے اس کےے بعد ابوا سےے ہوتےے ہوئےے عصر کےے وقت ہ م لوگ جدہے پہنچ گئے۔‬ ‫سعودی عرب کی سڑکوں کی خوبی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حقل سے جدہ‬ ‫تک فاصل ہ تقریبا ً ‪ 1100‬کلومیٹر ہے جو تقریبا ً لہور س ے حیدر آّباد ک ے فاصل ے ک ے مساوی‬ ‫ہے۔ یہ فاصلہ ہم نے صرف آٹھ گھنٹے میں طے کیا تھا۔‬ ‫اس سفر کےے ساتھے ہ ی قرآن مجید اور بائبل سےے متعلق علقوں کےے سفر کا میرا‬ ‫ٹارگٹ مکمل ہ و چکا تھا ۔ اگر الل ہ تعالی ن ے کبھ ی موقع دیا تو شام اور ترکی اور اگر‬ ‫کبھ ی ممکن ہ و سکا تو عراق اور فلسطین ک ے علقوں کا سفر کر ک ے انبیاء کرام اور‬ ‫اسلمی تاریخ س ے متعلق جو مقامات باقی ر ہ گئ ے ہیں‪ ،‬انہیں انشاء الل ہ آپ کی خدمت‬ ‫میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔‬

‫مزید مطالعے کے لئے‬

‫تمت بالخیر‬

‫قرآن اور بائبل ک ے دیس میں | کائنات‪ :‬خدا کی ایک نشانی | ‪Quranic Concept of‬‬ ‫‪ | Human Life Cycle | A Dialogue with Atheism‬الحاد جدید ک ے مغربی اور مسلم‬ ‫معاشروں پر اثرات | کیا عقل ک ے ذریع ے خدا کی پ ہچان ممکن ہے؟ | کیا آخرت کا‬ ‫عقید ہ معقولیت رک ھتا ہے؟ | خدا ک ے جسم س ے کیا مراد ہے؟ | خدا نظر کیوں ن ہیں‬ ‫ٓاتا؟ | تقدیر کا مسئل ہ؟ بعض لوگ خدا ک ے منکر کیوں ہیں؟ | محمد رسول الل ہ کی‬ ‫رسالت کا ثبوت کیا ہے؟ | اسلم اور نسلی و قومی امتیاز | دین دار افراد ک ے لئ ے‬ ‫معاش اور روزگار ک ے مسائل | موٹر و ے کی ٹریفک | جنریشن گیپ | ساس اور‬ ‫ب ہو کا مسئل ہ | اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیس ے کی جائ ے؟ | مایوسی کا‬ ‫| بزرگوں کی کرامات یا ان کا کردار سبز یا نیل |‬ ‫علج کیوں کر ممکن ہے؟‬ ‫مشکل پسندی | اختلف رائ ے کی صورت میں ہمارا روی ہ | سیکس ک ے بار ے میں‬ ‫متضاد روی ے | تکبر ک ے اسٹائل | انسان کا اپنی شخصیت پر کنٹرول | علماء کی‬ ‫زبان | جذب ہ حسد اور جدید امتحانی طریق ہ | فرشت ے‪ ،‬جانور اور انسان | شیطانی‬ ‫‪135‬‬

‫متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے‬ ‫‪http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm‬‬ ‫قوتوں کا مقابل ہ کیس ے کیا جائ ے؟ | ای ڈورٹائزنگ کا اخلقی پ ہلو س ے جائز ہ | دین کا‬ ‫مطالع ہ معروضی طریق ے پر کیجی ے | ر ہبانیت | دو ہر ے معیارات | فارم اور اسپرٹ‬ ‫| دین میں اضاف ے | گنیش جی کا جلوس | صوفیاء کی دعوتی حکمت عملی |‬ ‫عقل اور عشق | اسلم ن ے غلمی کو ایک دم ختم کیوں ن ہ کیا؟ | سور ہ توب ہ ک ے‬ ‫شروع میں بسم الل ہ کیوں ن ہیں ہے ؟ | کیا رسولوں پر ایمان ضروری ہے؟ | مک ہ اور‬ ‫مدین ہ حرم کیوں ک ہلت ے ہیں؟ | مرد کا وراثت میں حص ہ دوگنا کیوں ہے؟ | متشاب ہات‬ ‫کیا ہیں؟ | دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار | اسلم کا خطر ہ‪ :‬محض ایک و ہم‬ ‫| دور جدید کی سازش |‬ ‫یا حقیقت | مسلم دنیا میں علمی و تحقیقی رجحانات‬ ‫ہم اسلم نافذ کیوں ن ہ کر سک ے؟ | امت مسلم ہ زوال پذیر کیوں ہے؟ | اقوام عالم کو‬ ‫مسلمانوں س ے ہمدردی کیوں ن ہیں؟ | مذ ہب کی دعوت ک ے لئ ے کرن ے کا سب س ے بڑا‬ ‫کام؟ |‬

‫‪136‬‬

Related Documents

Safarnama Jordan Egypt
November 2019 15
Egypt-jordan 12 Days
April 2020 7
Safarnama
June 2020 6
Safarnama Arab
November 2019 44
Jordan
November 2019 44
Jordan
May 2020 32