قرآن اور بائبل ک ے دیس میں 2006-07 حصہ اول
محمد مبشر نذیر
یہ کتاب ان مقامات کے سفر نامے پر مشتمل ہے جن کا ذکر قرآن مجید ،احادیث اور بائبل میں کیا گیا ہے
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
انتساب میری والدہ محترمہ کے نام جن کی ان تھک محنت اور کاوشوں نے مجھے اس قابل بنایا کہ یہ سفرنامہ آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں ۔
2
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ف ہرست ف ہرست3.................................................................................................. ..................... دیباچ ہ4........................................................................................................................ . روانگی برائ ے سعودی عرب4..................................................................... ....................... جد ہ13...................................................................................................................... .... مک ہ20................................................................................................ ......................... جبل نور اور غار حرا40............................................................................ ....................... مک ہ ک ے دیگر تاریخی مقامات44.............................................................................. ........... سفر حج48............................................................................................................. ....... سفر ہجرت69.................................................................................... ............................ مدین ہ80........................................................................................................... ............. مدین ہ ک ے تاریخی مقامات94........................................................................................ ....... بدر98................................................................................................... ....................... احد107..................................................................................................... ................... خندق112................................................................................................................ ...... طائف 116.................................................................................................................... . جازان ،فیفا اور اب ہا130................................................................................................... . دمام ،الخبر اور بحرین کاز و ے148.............................................................. ....................... خیبر ،مدائن صالح اور تبوک152........................................................................... .............
3
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
دیباچ ہ سفر میرا شوق ہے۔ میں ہمیش ہ س ے سفر کرن ے میں خاصا لطف اندوز ہوتا ہوں ۔ دوران سفر انسان اپنی روزمرہ کی زندگی سے نکل کر فطری زندگی کی طرف لوٹتا ہے۔ شہر کی مصنوعی زندگی کی نسبت ہرے بھرے پہاڑوں ،سر سبز و شاداب کھیتوں ،لق و دق صحراؤں ،شوریدہے دریاؤں ،نیلےے ساحلوں ،اور پر سکون جھیلوں کی زندگی میرےے لئے بہ ت کشش کی حامل ہے۔ رب کریم کی بنائی ہوئی ی ہ دنیا انسانوں کی بنائی ہوئی دنیا س ے بہ ت مختلف ہے۔ اس میں ایک سکون ہے جو ہ ر صاحب ذوق کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سفر میں انسان دوسرے علقوں کے رہنے والے انسانوں سے بھی ملتا جلتا ہے۔ے ان کےے رسم و رواج ،قوانین ،رہ ن سہن ،لئف اسٹائل اور لین دین کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آثار قدیمہ کے مطالعے سے قدیم دور کے انسان کی زندگی کے انہی پہلوؤں سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ اس سب میں سیکھنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی عملی زندگی میں کام آتے ہیں۔ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سفر وسیلہ ظفر۔ زیر نظر سفر نام ہ میر ے ان اسفار کی روداد ہے ،جو سعودی عرب میں دوران قیام میں ن ے دنیائ ے عرب ک ے مختلف حصوں کی طرف کئے۔ مجھے ان جگہوں کو دیکھن ے کا جنون کی حد تک شوق تھ ا جہاں رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ وسلم ن ے اپنی زندگی بسر فرمائی ۔ ان مقامات ک ے علو ہ میں ن ے ی ہ بھ ی کوشش کی ک ہ ان مقامات کو بھ ی دیکھا جائے جن کا ذکر قرآن مجید اور بائبل میں کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد حضور صلی اللہ علیہ وسلم س ے پہل ے ک ے انبیاء کرام علیہ م الصلو ۃ والسلم کی دعوتی زندگی کا مطالع ہ کرنا تھا۔ میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ان مقامات سے متعلق قرآنی آیات ،احادیث اور بائبل کی آیات ک ے حوال ے بھ ی سات ھ ہ ی فراہ م کر دوں تاک ہ و ہ لوگ جو میری طرح ی ہ شوق رکھتے ہوں ،اس س ے استفاد ہ کر سکیں ۔ مزید برآں ان مقامات ک ے سیٹلئٹ نقش ے بھ ی فراہم کرن ے کی کوشش کی گئی ہے تاک ہ بعد میں ان مقامات کی سیاحت کرن ے وال ے آسانی سے انہیں تلش کر سکیں ۔ اس کے لئ ے میں گوگل ارتھ کا شکر گزار ہوں ۔ اس کوشش میں میں کتنا کامیاب ہوا ہوں ،اس کا اندازہ آپ کے تاثرات سے ہوگا۔ محمد مبشر نذیر
روانگی برائ ے سعودی عرب میں بیرون ملک ملزمت تلش کرن ے کی کوشش کر رہ ا تھا ۔ اس ضمن میں سب سے بہتر ذریع ہ انٹرنیٹ تھا ۔ دسمبرر 2005رمیں مجھے سعودی عرب کی ایک پروفیشنل آڈٹ 4
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
فرم کی طرف سےے ای میل وصول ہوئی جس میں انہوں نےے تازہے ترین سی وی اور انٹرویو ک ے وقت کا مطالبہے کیا تھا۔ے دلچسپ بات یہے ہےے کہے اس فرم میں میں نےے کبھی اپلئی نہیں کیا تھا لیکن انہوں ن ے bayt.comسے میرا سی وی تلش کرکے مجھ سے خود ہ ی رابطہ کیا تھا ۔ ایک ٹیلی فونک انٹرویو کے بعدانہوں ن ے مجھے جاب آفر دے دی ۔ مجھے جدہ میں رہنا تھا۔ دوسر ے لوگوں ک ے برعکس میر ے لئ ے سب س ے آئیڈیل جگ ہ سعودی عرب ہ ی تھی ۔ اس کی بنیادی وج ہ ی ہ ہے ک ہ حرمین شریفین کی قربت اور سعودی عرب کا ماحول ہمارے پورے خاندان کی دینی تربیت کے لئے آئیڈیل ہے۔ بشمول پاکستان ،دنیا بھر میں بے حیائی جس طرح پھیل رہی ہے ،اس سے اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا جوئے شیر لنے کے مترادف ہے۔ سعودی عرب کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں اگر کوئی ب ے حیائی کا شوقین ہے تو اس کی بے حیائی چار دیواری کے اندر محدود ہے۔ گھر سے باہر ہر خاتون اور مرد باحیا لباس میں ہ ی نظر آتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی اپنی اولد کو ب ے حیائی س ے بچانا چاہے تو اس کےے لئےے خاصی آسانیاں موجود ہیں۔ے انہ ی وجوہات کی بنیاد پر میں نےے اس فرم میں جوائن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ویزا پراسیسنگ جنوریر 2006ویزا پراسیسنگ میں گزرا۔ے سعودی قوانین کےے مطابق ان کا امیگریشن آفس کسی کمپنی کی درخواست پر اسے مختلف قومیتوں کے لئے ویزے جاری کرتا ہے۔ اس میں کسی متعین شخص کا نام نہیں ہوتا۔ے مثل ًر ایک ویزا تین پاکستانیوں اور چار بھارتیوں کے لئے جاری ہو سکتا ہے۔ وہ کمپنی خود ہی اپنی مرضی کے تین پاکستانی اور چار بھارتی تلش کرکے متعلقہ سفارت خانوں کے ذریعے ان کا ویزا پراسیس کروا سکتی ہے۔ میری فرم نے تمام ضروری کاغذات مجھے کوریئر کے ذریعے بھیج دیے تھے۔ پاکستان میں ویزا پراسیسنگ ک ے لئے کسی ریکروٹنگ ایجنٹ ک ے ذریع ے پراسیس کروانا ضروری ہے۔ے میں نےے ایکر دوستر کےے ذریعےے الجدیدر مین پاورر سروسزر سےے رابطہے کیا اور اپنے کاغذات انہیں دے دیے۔ انہوں نے مجھے ڈگری کی تصدیق کروا کے لنے کو کہا ۔ یہ تصدیق متعلق ہ یونیورسٹی ،ہایئر ایجوکیشن کمیشن ،وزارت خارج ہ ،سعودی کلچرل سینٹر اور سعودی سفارت خانے سے ہونا تھی۔ میں کراچی میں مقیم تھا اور میرا ویزا اسلم آباد ایمبیسی کا تھا۔ میں اپنی موجودہ کمپنی س ے چھٹی ل ے کر پہل ے لہور گیا۔ پنجاب یونیورسٹی س ے تصدیق کروان ے کے اسلم آباد پہنچا۔ وہاں چار جگہ سے تصدیق کروانے میں دو ہفتے نکل گئے۔ اسی پھیرے میں میں نے اپنی فیملی کے کاغذات یعنی نکاح نامہ اور بچوں کے برتھ سرٹیفیکیٹ کی تصدیق بھی کروا لی جو کہ وزارت خارجہ اور سعودی ایمبیسی سے ہونا ضروری تھی۔ تصدیق کے بعد میں ن ے ڈاکومینٹس الجدید والوں کو دی ے تو انہوں ن ے محض چار دن میں ویزا لگوا کر پاسپورٹ میرے حوالے کردیا۔ اپنی موجودہ ملزمت سے استعفیٰ دینے کے بعد میرا ارادہ جلد از جلد روانگی کا تھا۔ ان دنوں ابھ ی حج ختم ہوا تھ ا اور عمرہے کےے ویزوں کا اجرا شروع نہے ہوا تھ ا اس لئے فلئیٹیں تقریبا ً خالی تھیں۔ میں نے سعودی ائر لئن کی ایک فلئیٹ پر سیٹ بک کروائی 5
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اور 10فروری 2006کو جدہ کے لئے روانہ ہوگیا۔
روانگی سفر ناموں کےے اکثر مصنفین اپنےے سفر پی آئی ا ے سےے کرتےے ہیں اور اس کی ناقص کارکردگی کا رونا روتے ہیں۔ بے چاری پی آئی اے کو محض قومی ائر لئن ہونے کے باعث ی ہ سب باتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں ورن ہ میرا تجرب ہ ہے ک ہ پی آئی ا ے کی سروس اتنی بھی بری نہیں ہے جتنی مصنفین بیان کرتے ہیں ۔ میں نے چونکہ اپنے سفر کے لئے سعودی ائر لئن کا انتخاب کیا تھ ا اس لئ ے قارئین ک ے ذوق کی تسکین کرن ے ک ے لئ ے میر ے پاس کوئی خاص مواد موجود نہیں ہے۔ چونکہ نظریاتی طور پر میں قوم پرستی کے فلسفے کا قائل نہیں ہوں ،اس لئ ے کبھ ی بھ ی میں بین القوامی روٹ پر قومی ائر لئن س ے سفر نہیں کرتا ۔ قومی ائر لئن کونسا اپن ے ہ م قوم افراد کو کم ریٹ پر اعلی ٰ سروس پیش کرتی ہے جو ہم خصوصی طور پر اس کی رعایت کریں۔ ہم بھی اسی ائر لئن کا انتخاب کریں گے جو کم سے کم کرائے میں اچھی سے اچھی سروس پیش کرے گی۔ قوم پرستی کے معاملے میں ،میں اقبال کے اس فلسفے کا قائل ہوں کہ: ان تازہ خداﺅں میں سب سے بڑا وطن ہے جو اس کا پیرہن ہے وہ ملت کا کفن ہے قومیت کے بارے میں میرا نظریہ ہے کہ ملک یا قوم ایک بہت بڑے خاندان سے مشابہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا خاندان ترقی کرے۔ دوسرے خاندانوں ک ے مقابل ے میں اس ے نمایاں مقام اور عزت حاصل ہو ۔ اس حد تک قوم پرستی کا میں بھ ی قائل ہوں ۔ ہ م سب کو مل کر اپن ے ملک اور قوم کی سر بلندی اور ترقی ک ے لئے کام کرنا چاہئے۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر جب ملک و قوم ،خدا کا مقام حاصل کر لے اور انسان دوسری اقوام کے لئے تعصب میں مبتل ہو جائے تو پھر یہ قوم پرستی انسانیت ک ے لئ ے مہلک بن جاتی ہے۔ بیسویں صدی کا آغاز قوم پرستی ک ے فلسف ے ک ے عروج کا زمان ہ تھا ۔ تمام یورپی اقوام اپن ے ملک و قوم کی محبت میں ڈوب کر دوسری اقوام پر چڑھ دوڑیں جس کے نتیجے میں انہیں دو ایسی جنگوں سے گزرنا پڑا جنہوں نے انسانیت کو تباہی کے سوا کچھ نہ دیا۔ فلئیٹ کے لئے اعلن مقررہ وقت سے ایک گھنٹا پہلے ہی کر دیا گیا۔ میں بڑے اطمینان س ے کراچی ائر پورٹ ک ے سی آئی پی لﺅنج ک ے کھانوں س ے اپن ے کریڈ ٹ کار ڈ ک ے باعث مفت لطف اندوز ہورہا تھا۔ میں نے سوچا کہ بہت وقت ہے۔ فلئیٹ کے وقت سے آدھاگھنٹہ قبل پہنچ جاﺅں گا جو کہ عام دستور ہے۔ لﺅنج والوں نے فلئیٹ کے اعلن کو دوھراتے ہوئے مجھے زبانی کلمی دھکے دے کر وہاں سے نکال۔ میں نے سارا سامان تو بک کروا دیا تھا اس لئے اب بالکل اس طرح خالی ہاتھ جا رہا تھا جیسے سکندر دنیا سے گیا تھا۔ ائر لئن کے عملے نے تیوری چڑھا کر میرا استقبال کیا۔ کہنے لگے جناب ہمارا ارادہ تو یہ تھا کہ فلئیٹ کو آدھا گھنٹہ قبل ہی روانہ کردیں لیکن آپ کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے۔ دراصل اس پرواز میں صرف دس بارہ مسافر تھے ،اس لئے ان کی خواہش تھی کہ جہاز انہیں لے کر جلد سے جلد روانہ ہوجائے۔ میرے جہاز میں گھستے ہی دروازہ ایسے بند کیا گیا 6
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جیسے ملزم کو حوالت میں دھکیل کر دروازہ بند کیا جاتا ہے اور پانچ منٹ کے اندر اندر جہاز پرواز کر گیا ۔ ی ہ میرا پہل تجرب ہ تھ ا ک ہ فلئیٹ تاخیر کی بجائ ے وقت س ے پندر ہ منٹ پہل ے ہ ی روان ہ ہ و گئی تھی ۔ اس س ے میں ن ے یہ سبق حاصل کیا ک ہ آئند ہ ہمیش ہ فلئیٹ کے اعلن کے وقت ہی چل جاﺅں گا خواہ اس کے بعد جہاز میں بیٹھ کر تمام اردو اور انگریزی اخبارات کا بار بار مطالعہ کرنا پڑے۔ جہاز نے ٹیک آف کیا اور شارع فیصل کے اوپر سے ہوتا ہوا ملیر ندی کو کراس کرکے ڈیفنس ک ے اوپر آگیا ۔ بائیں جانب کورنگی کا علق ہ تھ ا اور دائیں جانب کلفٹن کا ساحل پھیل ہوا تھا۔ کورنگی کریک پر پارکو کا آئل پمپنگ اسٹیشن نظر آرہا تھا۔ ملک میں درآمد کئ ے جان ے وال ے خام تیل ( ) Crude Oilکا زیاد ہ تر حص ہ اسی اسٹیشن س ے ملک ک ے وسط میں موجود پارکو کی آئل ریفائنری ( ) Mid-Country Refineryکو بذریع ہ پائپ لئن بھیجا جاتا ہے۔ م ڈ کنٹری ریفائنری کوٹ ادو ک ے قریب قصب ہ گجرات میں واقع ہے اور ملک کے شمالی حصے کی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لئے لگائی گئی ہے۔ یہ ملک کے سب سے بڑی جدید ترین ریفائنری ہے اور ہمارے ملک کا بڑا اثاثہ ہے۔ پارکو میں نےے ڈیڑھے سال ملزمت کی تھ ی اور بہ ت اچھ ا وقت گزارا تھا۔ے پارکو کی بدولت میں آئل انڈسٹری ک ے نشیب و فراز س ے آگا ہ ہوا تھ ا اور اسی تجرب ے کی بنیاد پر مجھے کویت پیٹرولیم کے پراجیکٹ کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ پارکو سے میری خوشگوار یادیں وابستہے تھیں۔ے پمپنگ اسٹیشن کےے تیل کےے دیو ہیکل ٹینک اوپر سےے چھوٹےے چھوٹے دائرے لگ رہے تھے۔ تیل کے ٹینکوں کو کیمو فلج کرنے کے لئے ان پر مٹی کا سا رنگ کیا جاتا ہے اور اوپر سبز رنگ کے پودے بھی بنائے جاتے ہیں تاکہ جنگ کی صورت میں دشمن ک ے ہوائی جہازوں کو ی ہ نظر ن ہ آسکیں ۔ مجھے تو ہوائی جہاز س ے ی ہ صاف نظر آرہے تھے جس س ے مجھے ی ہ انداز ہ ہوا ک ہ کیمو فلج کا ی ہ تکلف بالکل ب ے کار ہے۔ بہرحال ماہرین دفاع اس معاملے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
مکران ک ے ساحل جہاز اب ڈیفنس کریک کےے اوپر سےے گزرتا ہوا ساحل کےے ساتھے ساتھے گوادر کی طرف پرواز کرنے لگا۔ نیلے سمندر میں دور دور تک پھیلے ہوئے بحری جہاز کھلونا کشتیوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ چونکہ جہاز خالی تھا ،اس لئے میں دائیں طرف کی کھڑکی پر آ بیٹھا تاکہ ساحل کا نظارہ کر سکوں۔ کیماڑی پر تیل کا دیو ہیکل جہاز لگا ہوا تھا جو شاید راس تنورا کی سعودی بندر گاہ سے تیل لے کر کیماڑی پہنچا تھا۔ یہ بھی کھلونا کشتی کی مانند لگ رہا تھا۔ اوپر سے کنارے کے قریب سمندر کی تہہ بھی صاف نظر آرہی تھی۔جوں جوں نگا ہ ساحل س ے دور ہوتی تھی ،تہہ غائب ہوتی جاتی اور پانی کا رنگ گہرا نیل ہوتا جاتا۔ نیل ے رنگ کے چھ سات شیڈ ز میں بحیرہ عرب بہ ت خوب صورت نظر آرہ ا تھا ۔ الل ہ تعالیٰ ک ے بنائ ے ہوئ ے ایک ہ ی رنگ ک ے شیڈ ز تو یقینا کروڑوں میں ہوں گ ے لیکن ہماری آنک ھ چھ سات شیڈز سے زیادہ فرق نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کمپیوٹر کی سکرین پر کروڑوں رنگوں کی موجودگی کا دعوی کیا جاتا ہے۔ جہاز کا عملہ ،جس میں ائر ہوسٹسوں کی بجائے زیادہ تر ائر ہوسٹ یعنی اسٹیورڈ تھے ،جلد از جلد کھانا سرو کرنے لگے تاکہ اس کے بعد انہیں گہری تان کر سونے کا موقع مل 7
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جائے۔ سعودی عام طور پر اپنی لڑکیوں ک ے لئ ے ائر ہوسٹس ک ے پیش ے کو مناسب نہیں سمجھتے ،اس لئے سعودی ائر لئن میں زیادہ تر اسٹیورڈ یا غیر ملکی ائر ہوسٹسیں پائی جاتی ہیں ۔ جہاز کا فاصل ہ اور رفتار بتان ے وال میٹر ایک ہ ی مقام پر رکا ہوا تھ ا یعنی جدہ 2100کلومیٹر ۔ میں ن ے ایک اسٹیور ڈ کی توج ہ اس طرف مبذول کروائی تو و ہ بول ،میں ابھ ی پائلٹ کو کہتا ہوں ۔ اس کے بعد وہ دوبار ہ نظر ن ہ آیا ۔ چونک ہ جہاز خالی تھا ،اس لئے کئیر رمسافروںر رنےے ردرمیانر رکیر رچارر رکرسیوںر رکیر رہتھیاںر راوپرر رکیںر راورر رلمبیر رتانر رکر سوگئے۔ے رمجھےے رسونےے رسےے رزیادہے رفطرتر رکےے رمناظرر ردیکھنےے رکار رشوقر رہےے راسر رلئےے رمیں کھڑکی سے فطرت کا نظارہ کرتا رہا۔ کراچی کے کچھ فاصلے پر حب پاور کمپنی کا پلنٹ نظر آیا ۔ یہ برطانیہ کی سب سے بڑی الیکٹرک کمپنی انٹرنیشنل پاور کےے زیر انتظام ہے۔ے انہوں نےے اسےے مکمل طور پر انوائرنمنٹ فرینڈلی بنایا ہوا ہے۔ چونک ہ پاکستان کی حکومتوں ن ے بروقت ڈیم بنان ے کی بجائ ے تھرمل پاور پر انحصار کیا ہے اس لئ ے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں ک ے ساتھ ساتھ بجلی بھی مہنگی اور نایاب ہوتی جارہی ہے۔ حب سے آگے گڈانی کا شپ بریکنگ یارڈ تھا اور اس سے آگے مکران کے حسین ساحل جہاں پہاڑوں اور سمندر کا امتزاج فطرت کے شائقین کے لئے نت نئے مناظر سموئے ہوئے تھا۔ کراچی اور گوادر ک ے درمیان تقریبا ً اتنا ہ ی فاصل ہ ہے جتنا ک ہ کراچی اور بہاولپور کے درمیان۔ میں نے ان دونوں روٹس پر سفر کیا ہے۔ کراچی اور بہاولپور کے درمیان بیسیوں چھوٹے بڑے قصبے اور شہر آتے ہیں لیکن کراچی اور گوادر کے درمیان صرف تین شہر ہیں یعنی حب ،اورماڑہ اور پسنی ۔ پنجاب میں ہر پندرہ منٹ کے فاصل ے پر ایک قصبہ اور ہر گھنٹے کے فاصلے پر لکھوں کی آبادی کا شہر آتا ہے لیکن بلوچستان میں تین چار گھنٹے ک ے فاصل ے پر جاکر ایک چھوٹا سا شہ ر آتا ہے جو پنجاب ک ے مریدک ے یا کامونک ے س ے بڑا نہیں ہوتا ۔ الل ہ تعالی ٰ ن ے جہاں پنجاب کو زرخیز زمینوں س ے نوازا ہے وہاں بلوچستان کو معدنی وسائل سے مال مال کیا ہے۔ پنجاب اس لئے زیادہ ترقی کر گیا کہ وہاں کے لوگوں نے کافی حد تک جاگیردارانہ نظام س ے نجات حاصل کر لی ہے جبک ہ بلوچ ابھ ی تک اپن ے سرداروں س ے نجات حاصل نہیں کرسک ے جو گیس اور دیگر معدنی وسائل کی رائلٹی پر قابض ہ و کر بیٹھے ہیں اور اپنے غریب مزارعوں اور ہاریوں کے علقے میں ایک پرائمری سکول بھی نہیں کھلنے دیتے۔ یہی کیفیت اب س ے پچاس سال پہل ے پنجاب کی تھ ی لیکن اب کافی حد تک حالت تبدیل ہو چکے ہیں جس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف تعلیم ہے۔ پندرہ منٹ کی پرواز کے بعد ہم اورماڑہ کے پاس سے گزرے۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہاں نیوی کی ایک بڑی بیس ہے۔ فضا س ے اورماڑ ہ کسی جام کے پیند ے کی مانند نظر آ رہ ا تھا ۔ ساحل س ے صراحی کی گردن کی طرح ایک پٹی نکل رہ ی تھ ی جو سمندر کے بیچ میں پہنچ کر چوڑی ہو رہ ی تھی ۔ یہ ایک نہایت ہ ی دلفریب منظر تھا ۔ کچھ ہ ی دیر کے بعد ہ م گوادر کےے ساحل پر تھےے جو اورماڑ ہ کی طرح کی ایک پٹی پر مشتمل تھ ا جو سمندر کے اندر کسی جام کی پیندے کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ چونک ہ اس علق ے میں سمندر ک ے سات ھ پہاڑ موجود ہیں ،اس لئ ے یہاں سمندر کافی 8
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
گہرا ہے۔ اسی لئ ے گوادر ڈیپ سی پورٹ کہلتی ہے اوریہاں بہ ت بڑ ے بڑ ے جہاز بھ ی لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ پر جو تیل کے جہاز آ کر رکتے ہیں ان میں تقریبا ً 70ہزار میٹرک ٹن خام تیل موجود ہوتا ہے لیکن گوادر کی بندرگاہ پر دنیا کے سب سے بڑے تیل کے جہاز آکر رک سکتے ہیں جن میں 500000میٹرک ٹن خام تیل رکھا جاسکتا ہے۔
عمان گوادر کے بعد ہ م ساحل س ے دور ہون ے لگے۔ ہمارے دائیں جانب اب ایران ک ے ساحل تھے جو خاص ے دور تھے۔ بحیر ہ عرب یہاں تنگ ہونا شروع ہوتا ہے اور بالخر آبنائ ے ہرمز کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد یہ پھیلتا ہے اور خلیج فارس میں تبدیل ہوجاتا ہے جو ک ہ ایک بہ ت بڑی جھیل ک ے مانند ہے۔ اب ہمار ے دائیں جانب ایران اور بائیں جانب عمان ک ے ساحل موجود تھے۔ چونک ہ ایرانی ساحل خاص ے دور تھے ،اس لئ ے میں دوبار ہ بائیں جانب کی کھڑکی پر آ بیٹھا۔ عرب ممالک میں عمان نسبتا ً سرسبز ملک ہے۔ یہاں سبز ے س ے ڈھک ے چھوٹ ے چھوٹے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ عمان سے گزر کر ہم متحدہ عرب امارات کے علقے سے گزرتے ہوئے سعودی عرب میں داخل ہوئے۔ ہمارے نیچ ے سعودی عرب کا سب س ے بڑا صحرا تھ ا جو ’ربع الخالی‘کہلتا ہے۔ ی ہ سعودی عرب ک ے تقریبا ً 52فیصد حص ے پر مشتمل ہے اور اس میں کوئی آبادی اور سڑکیں موجود نہیں ۔ ی ہ علق ہ تیل کی دولت س ے مال مال ہے۔ یہاں صرف سعودی آرامکو کےے انجینئر پوری تیاری کےے ساتھے بڑی بڑی ہمر جیپوں یا ہیلی کاپٹروں میں آتے ہیں اور ان کے پیچھے ریسکیو ٹیمیں تیار بیٹھی ہوتی ہیں ۔
ربع الخالی ربع الخالی نہایت ہ ی خوبصورت صحرائی مناظر پر مشتمل ہے۔ے اس کےے جو حصے شہروں ک ے قریب ہیں وہاں ایڈونچر پسند اپنی جیپوں میں ڈیزرٹ سفاری کا شوق پورا کرتےے ہیں۔ے صحرا میں کہیں تو ریت کےے بڑےے بڑےے سمندر ہیں جن کی لہریں پانی کی لہروں کی طرح معلوم ہوتی ہیں اور کہیں سرخ ،سبز اور نیلے رنگ کے ٹیلے جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ ایک مقام تو ایسا تھا جہاں بے شمار گنبد کی شکل کے بالکل ایک جیسے ٹیلے موجود تھے۔ میں اللہ تعالیٰ کی صناعی پر دنگ رہ گیا اور میرا وجود اس کی عظمت کا تصور کرکے کانپ اٹھا۔ ربع الخالی کے بعد الباحہ کے کچھ سبز اور کچھ پیلے پہاڑ آئے ۔ یہاں جہاز میں اعلن ہوا کہ ہم میقات کی حدود میں داخل ہونے والے ہیں ،اس لئے جو حضرات عمرہ کا ارادہ رکھتے ہیں ،وہ احرام باندھ لیں۔ کچھ ہی دیر میں ہم میقات سے گزر کر جدہ کی حدود میں داخل ہوئے۔
جد ہ ائر پورٹ میں گوگل ارتھ پر جد ہ کو تفصیل س ے پہل ے ہ ی دیک ھ چکا تھا ۔ جہاز س ے بالکل وہ ی منظر نظر آرہ ا تھ ا جو میں ن ے گوگل ارت ھ پر دیکھ ا تھا ۔ جد ہ کے مشرقی جانب سیا ہ اور بھورے رنگ کی پہاڑیاں ہیں اور مغربی جانب بحیرہ احمر ہے۔ ان دو حدود کے درمیان جدہ شمالً جنوبا ً پھیل ہوا ہے۔ ائر پورٹ جدہ کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ ہمارے بائیں جانب بحیرہ 9
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
احمر س ے دو تین کریک نکل کر شہ ر میں آئی ہوئی تھیں اور نیل پانی بہ ت ہ ی دلفریب منظر پیش کر رہ ا تھا ۔ چند ہ ی منٹ میں جہاز لین ڈ کرگیا ۔ فلئیٹ پندر ہ منٹ پہل ے روانہ ہوئی تھ ی اور مقرر ہ وقت س ے آد ھ گھنٹا پہلےے ہ ی جد ہ پہنچ گئی تھی ۔ شاید ہمار ے ٹرک ڈرائیوروں کی طرح پائلٹ کو بھ ی خالی جہاز ہلکا ہلکا سا لگا ہ و گا اور و ہ اسےے زیادہ رفتار میں اڑا کر جدہ لے آیا ہوگا۔ جد ہ ائر پورٹ حج اور رمضان ک ے مہینوں میں شاید دنیا کا مصروف ترین ائر پورٹ بن جاتا ہے۔ اب حج ختم ہوئے بھی مہینہ ہو چکا تھا اور عمرہ کے ویزوں کا شروع نہ ہوا تھا اس لئے جدہ ائر پورٹ سنسان پڑا تھا۔ کراچی کے مقابلے میں اس کی عمارت نہایت ہی گئی گزری تھی ۔ مجھے ی ہ بالکل ملتان ک ے پران ے ائر پورٹ کی طرح لگا ۔ جد ہ میں ایک کی بجائے تین ائر پورٹ ہیں۔ ایک سعودی ائر لئن کے لئے ،دوسرا فارن ائر لئنز کے لئے اور تیسرا حج کی فلئٹس کے لئے۔ ان تینوں کے لئے رن وے مشترک ہے۔ان میں سعودی ائر لئن وال ائر پورٹ نسبتا ً بہتر ہے مگر ہمارے کراچی اور لہور کے جدید ائر پورٹس کا مقابل ہ نہیں کرسکتا ۔ امیگریشن وغیر ہ میں بھ ی سعودی ائر لئن کے مسافروں کی جان جلدی چھوٹ جاتی ہے کیونکہ یہاں صرف ایک ائر لئن کے مسافر ہوتے ہیں جبکہ فارن ائر لئنز والے ائر پورٹ پر طویل قطاروں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی ٹنل وغیرہے نہے تھی۔ے ہمیں بس میں بٹھ ا کر لیا گیا۔ے اسی بس میں کئی خواتین نے بیگ سے نکال کر برقعے پہنے۔ چونکہ سعودی عرب میں پردے کی پابندی کرنا ضروری ہے ،اس لئے وہ خواتین جو کسی مذہبی جذبے کے بغیر برقع پہنتی ہیں ،ائر پورٹ سے نکلتے ہی برقع اتار لیتی ہیں اور پھر واپسی پر ہی پہنتی لیتی ہیں۔ امیگریشن کا ﺅنٹر پر نہایت ہی بیزار صورت نوجوان بیٹھے تھے جنہوں نے اسی بیزاری سے پاسپورٹ پر مہر لگا کر ہمیں چلتا کیا۔ ایک بنگالی پورٹر کو ساتھ لے کر جب میں باہر نکل تو ہمارے دفتر کا سوڈانی ڈرائیور عادل میرے نام کا پرچہ پکڑ کر شکل پر مزاحیہ تاثرات لئے بت بنا کھڑا تھا۔ سوڈانی لوگ بالعموم ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ سلم دعا کے بعد ہم گاڑی میں بیٹھے اور دفتر روانہ ہوگئے۔
نئ ے ملک میں سیٹل ہون ے ک ے مراحل میں نےے اسی دن اپنا نیا دفتر جوائن کیا۔ے آفس کےے دیگر احباب سےے تعارف ہوا۔ے اس کمپنی میں مختلف ممالک سےے تعلق رکھنےے والےے افراد موجود تھے۔ے ان میں مصری، سعودی ،اردنی ،لبنانی،فلسطینی ،ہندوستانی اور پاکستانی افراد شامل تھے۔ میرے باس جعفر صاحب کا تعلق انڈیا میں کرناٹک ک ے علق ے س ے تھا ۔ انہوں ن ے میری فرمائش کے مطابقر رمیرار راقامہے رجلدر رسےے رجلدر رپراسیسر رکروانےے رکار روعدہے رکیا۔ے رورکر رویزار رکور رجب پاسپورٹ پر endorseکیا جاتا ہے تو اس ویزے پر غیر ملکی تین ماہ کے لئے سعودی عرب میں رہ سکتا ہے۔ اسی مدت کے دوران اقامہ ( )Residence Permitبنوانا ہوتا ہے۔ اقامہ ملنے ک ے بعد ہ ی غیر ملکی رہائشی مکان کرائ ے پر حاصل کرسکتا ہے اور ڈرائیونگ لئسنس کے لئے اپلئی کر سکتا ہے۔ اسی شام کو میرا میڈیکل ہوا ۔ اگلے دن رپورٹ ملی اور اس سے اگل ے دن آفس کے سعودی مندوب حسن الغامدی پاسپورٹ لین ے آ پہنچے۔ حسن صاحب ایک پانچ فٹ کے 10
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
عرب بدو ہیں جو بات کرت ے ہوئ ے الفاظ کم بولت ے ہیں اور اچھلت ے کودت ے زیاد ہ ہیں ۔ میرا پاسپورٹ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ امیگریشن والوں نے مہر صحیح طرح نہیں لگائی چنانچہ عادل اور مجھے لے کر دوبارہ ائر پورٹ روانہ ہوئے۔ میرا خیال تھا کہ غامدی صاحب جاکر امیگریشن والوں کی منت سماجت کریں گے اور مہ ر صحیح کرن ے کی درخواست کریں گے لیکن انہوں نے جاکر عربی میں انہیں کھری کھری سنائیں ۔ ایک امیگریشن آفیسر ، جو دو دن پہلے زندگی سے بیزار بیٹھا تھا ،دوڑ کر گیا اور درست مہر لگا کر لے آیا۔ اس سے اگلے دن غامدی صاحب پاسپورٹ آفس گئے اور دو گھنٹے میں مجھے اقامہ ل کر تھما دیا ۔ میر ے جانن ے والوں ن ے مجھے بتایا ک ہ آپ خوش قسمت ہیں ورن ہ یہاں اقامہ ملنے میں ایک مہینہ لگ جاتا ہے۔ اگل دن میں نے مزید ڈاکومنٹس تیار کروانے میں لگایا اور ویک اینڈ پر عازم مکہ ہوا ۔ جمعہ کا دن مکہ میں گزار کر ہفتے کو میں ویزا آفس گیا اور فیملی کا ویزا حاصل کرلیا۔ اسی دن میں نےے ڈرائیونگ لئسنس کےے لئےے اپلئی کیا۔ے اللہے تعالیٰے نےے یہے مرحلہے بھی آسانی سے ط ے کروا دیا ۔ سعودی عرب میں پاکستان کے برعکس لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہے۔ جب رائیٹ ہین ڈ ڈرائیو کرن ے وال شخص پہلی مرتب ہ لیفٹ ہین ڈ والی گاڑی میں بیٹھتا ہے تو کئی لطیف ے وجود پذیر ہوت ے ہیں ۔ جب میں کویت میں تھ ا تو ان تمام لطائف س ے گزر چکا تھا ۔ مجھے اچھ ی طرح یاد ہے ک ہ دفتر کی دی گئی لنسر میں جب میں پہلی مرتبہ میں روڈ پر نکل تو دائیں طرف دیک ھ کر گاڑیوں کا انتظار کرنے لگا ۔ جب کوئی گاڑی نہ آئی تو خیال آیا کہ یہاں تو گاڑیاں بائیں جانب سے آتی ہیں۔ اس کے بعد میں نے انڈی کیٹر دین ے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں سوکھے شیشے پر وائپر چلن ے لگے۔ یہ اچھ ا تھا ک ہ اس گاڑی ک ے گیئر آٹو میٹک تھے ورن ہ میں پہل ے کی جگ ہ پانچواں اور دوسر ے کی جگہ ریورس گیئر لگا بیٹھتا ۔ یہاں اوور ٹیک بھ ی بائیں جانب سے کیا جاتا ہے لیکن کراچی کی طرح اس کا عام طور پر کوئی خیال نہیں رکھتا اور جہاں سے جگہ ملے ،اوور ٹیکنگ کی جاتی ہے۔ جب میری فیملی پاکستان س ے آئی تو میں ن ے اپنی اہلی ہ ک ے لئ ے اخلقا ً دائیں جانب کا درواز ہ کھول دیا لیکن و ہ اس ے نظر انداز کرک ے گاڑی ک ے گرد گھوم کر بائیں جانب کی طرف آ گئیں اور پھ ر اسٹیرنگ دیک ھ کر واپس ہوئیں ۔ بچ ے اسٹیرنگ دیک ھ کر سمجھے کہ میں نے کوئی کاریگری دکھاتے ہوئے اسے اتار کر دوسری طرف لگا لیا ہے۔ کویت کے تجربے کے باعث میں ڈرائیونگ ٹیسٹ باآسانی پاس کرگیا ۔ اب گھر ڈھونڈنے اور اسے سیٹ کرنے کا مسئلہ تھا جس کے لئے بہت بھاگ دوڑ درکار تھی۔ لئسنس ملتے ہ ی میں ن ے فوری طور پر ایک نسان سنی کرائ ے پر حاصل کی اور ان مراحل ک ے طے ہونے کا شکر ادا کرنے کے لئے اسی رات مکہ جا کر دوسری بار عمرہ ادا کیا۔ جمعرات کو دفتر سے فارغ ہوتے ہی میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ اس ک ے بعد میں ن ے ایک فلیٹ کرائ ے پر لیا اور اس ے ضروری سامان س ے آراست ہ کیا اور پھ ر گاڑی تلش کرنے نکل کھڑا ہوا ۔ یہ سب س ے مشکل مرحلہ ثابت ہوا ۔ کافی بھاگ دوڑر کےے بعدر ایکر رامریکن راسمبلڈے رری رکنڈیشنڈے ٹویوٹا رکیمریر پسندر آئی ر۔ے عامر امریکی گاڑیوں کی طرح اس کی بھ ی ہ ر چیز آٹو میٹک تھی ۔ پاکستان میں کیمری صرف امیر لوگ ہی افورڈ کر سکتے ہیں لیکن یہاں یہ اپر مڈل کلس کی گاڑی ہے۔ یہاں کے امیر لوگ تو مرسڈیز ،لیکسس اور بی ایم ڈبلیو ہ ی رکھت ے ہیں جن کے پارٹس مہنگے اور ری سیل 11
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ویلیو بہت کم ہوتی ہے۔ اپر مڈل کلس عموما ً کیمری ،اکارڈ اور الٹیما جیسی گاڑیوں اور لوئر مڈ ل کلس کرول ،سوک وغیر ہ کو ترجیح دیتی ہے۔ چونک ہ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام پاکستان سے بھی گیا گزرا ہے اس لئے کم آمدنی والے افراد بھی بیس پچیس سال پرانی گاڑیاں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جو محض پانچ سے دس ہزار ریال (اس وقت کے اسی ہزار سے ڈیڑھ لکھ پاکستانی روپے) میں دستیاب ہو جاتی ہیں۔ تین ہفتے میں میرے بیوی بچے بھی آپہنچے۔ گھر کو نئے سرے سے آراستہ کرنا بھی ایک مشکل مرحل ہ ثابت ہوا ۔ سوئی دھاگ ے س ے ل ے کر الماری تک اور بات ھ روم ک ے برش سے ل ے کر کچن ک ے برتنوں تک چھوٹی چھوٹی ب ے شمار اشیا تھیں جن کو خریدن ے میں ایک مہین ہ لگا ۔ اس ایک مہین ے میں ہ م ن ے بہ ت بھاگ دوڑ کی ۔ روزان ہ آفس س ے آکر تین چار گھنٹ ے مارکیٹوں میں خوار ہون ے س ے میرا ورکنگ ڈے بار ہ گھنٹ ے کا ہوگیا ۔ اس محنت کا نتیج ہ ی ہ نکل ک ہ مج ھ پر اعصابی تھکن سوار ہوگئی جو مسلسل کئی ما ہ تک سوار رہی۔ یہاں تک کہ چھ ماہ بعد اگست میں مجھے دفتر سے چھٹی ملی تو میں نے روزانہ بارہ تیرہ گھنٹے سو کر اس تھکن سے نجات حاصل کی۔ ایک ماہ بعد ہی میں نے گھر کے قریب ہی واقع الھلی کلب کی ممبر شپ لے لی اور وہاں اسکواش کھیلنے لگا۔ اسکواش کو میں بطور شوق نہیں بلکہ بطور ضرورت کھیلتا ہوں۔
12
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جد ہ جدہ ،ریاض کے بعد سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ رقبے کے اعتبار سے لہور اور آبادی ک ے لحاظ س ے فیصل آباد ک ے برابر ہے۔ سعودی عرب ک ے مشرق و مغرب دونوں جانب سمندر لگتا ہے۔ مشرق میں خلیج فارس ہے جس کی سب سے بڑی بندرگاہ دمام ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر یا ریڈ سی ہے جس کی سب سے بڑی بندرگاہ جدہ ہے۔ جدہ کی بندرگا ہ سیدنا عثمان غنی رضی الل ہ عن ہ ک ے دور س ے حجاج کی آمد و رفت ک ے لئے استعمال ہوتی آرہی ہے۔ قدیم دور میں یہ ایک مچھیروں کی بستی تھی جہاں اس دور کے چھوٹےے موٹےے جہاز اور کشتیاں لنگر انداز ہوتےے تھے۔ے اب یہے ایک جدید بندرگاہے کی شکل اختیارر رکرر رچکار رہےے رجور رحجاجر رکیر رآمدر رور ررفتر رکےے رباعثر ر"مینار رجدۃے رالسلمیر ر( Jeddah " )Islamic Portکہلتی ہے۔ جدہ شہر شمال جنوبا ً تیس چالیس کلومیٹر تک پھیل ہوا ہے۔ شرقا ً غربا ً اس کا پھیلﺅ بمشکل دس بار ہ کلومیٹر ہے۔ شہ ر کے مشرقی کنار ے پر پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایک روڈ جنوب س ے شمال کی طرف چلتی ہے جس ے رنگ رو ڈ کہ ا جاتا ہے۔ جنوب مشرق میں یہ مکہ ،طائف اور ریاض کی طرف چلی جاتی ہے جبکہ شمال مشرق میں یہی روڈ جدہ ائر پورٹ س ے ہوتی ہوئی سوئ ے مدین ہ رواں دواں ہوتی ہے اور آگ ے جاکر تبوک اور پھ ر اردن تک جاتی ہے۔ اسی روڈ پر جدہ ائر پورٹ کا حج ٹرمینل بھ ی ہے جہاں سے عازمین مکہ یا مدین ہ ک ے لئ ے روان ہ ہوت ے ہیں ۔ جدہ س ے تیسری سڑک جنوب میں جازان کی طرف نکلتی ہے۔ ی ہ گاڑیوں کی سیکن ڈ ہین ڈ مارکیٹ ”ہراج “ س ے ہوتی ہوئی لیث اور پھ ر آگ ے ابہ ا اور جازان کی طرف چلی جاتی ہے۔ آگے یہی روڈ یمن کے دارلحکومت صنعاء تک جاتی ہے۔ جد ہ کا سٹی سینٹر ”بلد“ کہلتا ہے۔ے ی ہ پرانا شہ ر ہے اور یہاں خاصی پرانی عمارتیں موجود ہیں ۔ ی ہ ہمار ے کراچی ک ے صدر اور لہور کی انارکلی کی طرز کا علق ہ ہے۔ یہاں س ے مک ہ اور مدین ہ جان ے والی قدیم شاہراہیں نکلتی ہیں ۔ بلد س ے مدین ہ جان ے والی قدیم شاہراہے شہ ر ک ے بیچوں بیچ گزرتی ہوئی ایئر پورٹ سےے ہوتی ہوئی شمال مشرق میں مدینہ کی طرف روانہ ہوتی ہے۔ ائر پورٹ سے پہلے اس شاہراہ پر دنیا بھر کی گاڑیوں کے شو رومز ہیں۔ ایئر پورٹ کے سعودی ایئر لئن والے ٹرمینل کے پاس فلئی اوورز کا بہت بڑا جنکشن ہے۔ یہاں چار سمتوں سے آنے والی روڈز پر فلئی اوورز اس طرح تعمیر کئے گئے ہیں کہ کسی بھی جانب سے آ کر کسی بھی سمت جانے کے لئے سگنل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ سیٹلئٹ تصاویر میں ی ہ مقام سانپوں ک ے بڑ ے س ے گچھے کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ جدہ کے مشرق سے آنے والی رنگ روڈ بھی ایئر پورٹ کے پاس مدینہ روڈ میں مل جاتی ہے۔
جد ہ میں ر ہن ے والی اقوام جدہے میں سبر سےے زیادہے آبادی تو سعودی باشندوں کی ہے۔ے اس کےے بعد دیگر عرب ممالک ک ے باشند ے بالخصوص مصری ،اردنی اور لبنانی یہاں کثرت س ے آباد ہیں ۔ غیر عرب ممالک سے تعلق ریکھنے والی سب سے بڑی کمیونٹی بھارتی مسلمانوں کی ہے ۔ 13
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اس کے بعد پاکستانیوں اور بنگالیوں کا نمبر آتا ہے۔ دیگر کمیونیٹیز میں سوڈانی ،فلپائنی اور ایتھوپین نمایاں ہیں۔ سعودی عرب میں زیادہ تر پاکستانی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ وائٹ کالر ملزمتوں میں بھ ی کافی پاکستانی پائ ے جات ے ہیں ۔ دفاتر میں اعلی ٰ عہدوں پر زیاد ہ تر سعودی، مصری ،لبنانی اور انڈین افراد کام کرتے ہیں۔ بہت ہی قلیل تعداد میں امریکی اور یورپی افراد بھ ی اعلیٰے ترین عہدوں پر کام کرتےے ہیں۔ے مذہبی اعتبار سےے یہاں کیر 99رفیصد آبادی مسلمان ہے کیونکہ سخت مذہبی پابندیوں کے باعث غیر مسلم یہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور عرب امارات اور کویت وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ جد ہ میں پاکستانی زیاد ہ تر شرفیہ ،بنی مالک اور عزیزی ہ ک ے علقوں میں رہت ے ہیں۔ پڑھے لکھے پاکستانی عزیزی ہ میں رہت ے ہیں کیونک ہ یہیں پر پاکستان ایمبیسی سکول کے علوہ دیگر پاکستانی اور انڈین سکول پائے جاتے ہیں۔ شرفیہ اور بنی مالک کے علقوں کو اپنےے رہاںر رکےے رکورنگی،ر رلنڈھیر راورر رمزنگر رپرر رقیاسر رکرر رلیجئے۔ے ریہاںر رزیادہے رترر ربلیور رکالر ملزمتیں کرنے والے پاکستانی رہتے ہیں۔سعودی عرب میں غیر ملکیوں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ۔ عام طور پر غیر ملکی کسی سعودی ک ے نام س ے کاروبار کرت ے ہیں۔ اگر و ہ کوئی شریف اور دیانتدار شخص ہ و تو ٹھیک ہے ورن ہ بعض لوگ اس میں نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ مجھے یہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں کی پاکستانی کمیونٹی میں عام پاکستانی معاشرے والی کوئی بات نہیں ۔ یہاں کی پاکستانی کمیونٹی نہایت ہی دیانت دار ،محنتی ، شریف اور مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ خاصا غور و فکر کرن ے پر ی ہ معلوم ہوا کہ یہاں منفی ذہنیت رکھن ے والوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں تو ایک سے بڑھ کر ایک جعل ساز ،ٹھگ اور دھوکے باز پڑے ہوئے ہیں لیکن اگر وہ یہاں آکر ایسا کریں تو انہیں سخت سزا ملتی ہے۔ یہ ی وجہ ہے کہ پاکستانیوں میں س ے چن چن کر محنتی اور مثبت طرز فکر رکھن ے وال ے افراد یہاں لئ ے جات ے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی اچھی اچھی سی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں کی انڈین کمیونٹی زیاد ہ تر کیرالہ س ے تعلق رکھنے وال ے افراد پر مشتمل ہے۔ ان کیر راپنیر رتلگور راورر رملیاڑمر رزبانیںر رہیںر راورر ریہے رخودر رکور رعامر رانڈینر رشہریوںر رسےے رہٹر رکر محسوس کرت ے ہیں ۔ ہندی یا اردو ی ہ عرب ممالک میں آ کر سیکھت ے ہیں ۔ ی ہ بڑی محنتی کمیونٹی ہے۔ے سعودی عرب میں زیادہے تر جنرل سٹورز یا بقالےے انہ ی کی ملکیت ہیں۔ بھارت کے دوسرے علقوں سے آنے والے بھی زیادہ تر مسلمان ہی ہیں اور پاکستانیوں کے بار ے میں مثبت طرز عمل ہ ی رکھت ے ہیں ۔ ی ہ لوگ اپن ے ملک س ے بھ ی بڑی محبت کرتے ہیں۔ رچند فساد زدہے علقوں کےے علوہے مسلمان بالعموم انڈیا میں خوش ہیں جس میں بالخصوصر رجنوبیر رہندوستانر رجیسےے رمدراس،ر ربنگلور،ر رحیدرر رآبادر ردکنر راورر رکیرالہے رکے مسلمان نمایاں ہیں۔ دراصل ان علقوں میں اسلم مسلمان تاجروں کی کوششوں سے پھیل جس کے باعث ہندو کمیونٹی میں ان کے خلف نفرت کے جذبات پائے نہیں جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے ہیں اور آزادی سے اپنے مذاہب پر عمل 14
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کرت ے ہیں ۔ اس ک ے برعکس شمالی اور مغربی ہندوستان ،وسطی ایشیا س ے آن ے والے مسلمان فاتحین کی آماجگا ہ بنا رہا ۔ ان میں س ے بعض فاتحین ن ے مندر گرائ ے اور ہندو کمیونٹی پر ظلم و ستم روا رکھ ا جس ک ے باعث ان علقوں میں مسلمانوں ک ے خلف نفرت پائی جاتی ہے جس کا اظہار فسادات کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔ پچھلے پچیس تیس سال میں بھارتی مسلمانوں میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ پہلے ان کی سوچ احتجاجی تھی۔ یہ ہمہ وقت ہندوﺅں کو اپنی پسماندگی کا ذمے دار قرار دیتے اور نفرت کی فضا برقرار رکھتے۔ ان کی سیاست بھی اسی کے گرد گھومتی تھی۔ بھارتی آئین میں مسلمانوں کو بہ ت س ے خصوصی حقوق دی ے گئ ے لیکن اس ک ے نتیجے میں انہوں نے کوئی خاص ترقی نہ کی ۔ کچھ عرصہ قبل انہیں احساس ہوا کہ ترقی آئینی حقوق سےے نہیں بلکہے اپنی محنت اور تعلیم کےے ذریع ے ہ ی حاصل کی جاسکتی ہے۔ے اب بھارتی مسلمان تعلیم کی طرف مائل ہو رہے ہیں اپنے ملک میں بھی اعلیٰ عہدے حاصل کر رہے ہیں۔ کاش یہی بات ہمارے ملک کے پسماندہ طبقات کی سمجھ میں بھی آجائے اور وہ احتجاج کی بجائے اپنی توانائی تعلیم کی طرف لگا دیں۔ وہ اس بات پر احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے علقوں میں لگنے والی فیکٹریوں میں اعلیٰ عہدوں پر دوسری زبان بولنے والے کیوں فائز ہیں۔ جس دن انہوں نے اپنی توجہ تعلیم کی طرف کی ،صرف پندرہ بیس سال کے عرصے میں وہ بھی ترقی یافتہ لسانی گروہوں کے ہم پلہ ہو جائیں گے۔ بلیو کالر ملزمتیں زیادہ تر بنگالی حضرات کے پاس ہیں۔ یہ بھی پاکستانیوں سے بڑی محبت کرتے ہیں جو ان کے رویوں س ے چھلکتی ہے۔ اگرچہ دونوں طرف کی لیڈرشپ نے اپنے مفاد کے تحت ہمیں دور کردیا لیکن عوام کے دل بہرحال ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ دفاتر اور ہسپتالوں میں نچل ے عہدوں پر بہ ت س ے فلپائنی بھ ی کام کرت ے ہیں ۔ ی ہ بڑی دلچسپ اور محنتی قوم ہے۔ ان کے زیادہ تر مرد موٹر مکینک اور خواتین نرس ہوتی ہیں۔ ایک کمپنی میں میرا ایک فلپائنی سےے تعارف ہوا۔ے وہے میری داڑھ ی دیکھے کر کہنےے لگا، ”سب پاکستانی داڑھ ی ضرور رکھتےے ہیں۔ “ میں نےے کہاک ہ ایسا تو نہیں ہےے ۔ کہنےے لگا ، ”میں نے جب بھی ٹی وی پر کوئی پاکستانی دیکھ ا تو اس کی داڑھی ضرور تھی۔“ میں نے اسے بتایا کہ پاکستان میں صرف مذہبی لوگ ہی داڑھی رکھتے ہیں۔ ی ہ بھ ی عجیب بات ہے ک ہ داڑھ ی صرف موجود ہ دور میں مذہ ب کی علمت بنی ہے۔ قدیم ادوار س ے ی ہ مردانگی کی علمت تھ ی اور دنیا کی ہ ر قوم س ے تعلق رکھن ے والے مرد ،خواہ ان کا مذہب کچھ بھی ہوتا ،داڑھی ضرور رکھا کرتے تھے۔میری اس بات سے وہ بہ ت محظوظ ہوا ۔ کہن ے لگا ک ہ میری بھ ی ی ہ خواہ ش ہے ک ہ میں داڑھ ی رکھوں تاک ہ میری مردانگی کا اظہار ہو سکے مگر ہم لوگوں کی داڑھی نکلتی ہی نہیں۔ یہاں دفاتر میں مصری بکثرت پائے جاتے ہیں۔ عرب ممالک میں مصر ایک غریب ملک ہے اور یہاں تعلیم کی فراوانی ہے ،اس لئے یہ لوگ دفتری کام کر لیتے ہیں اور عربی بھی بول لیت ے ہیں ۔ مجھے مصری بالکل لہوریوں بالخصوص 'بٹ برادری' کی طرح لگے۔ یہ لہوریوں کے الفاظ میں انہی کی طرح صحت مند ہوتے ہیں۔ انہی کی طرح خوش شکل، خوش مزاج اور خوش خوراک ہوت ے ہیں ۔ پہلی ملقات میں اس طرح ملت ے ہیں جیسے برسوں س ے واقف ہوں ۔ جو سلوک ہمار ے لہوڑی ے (اس ے کمپوزنگ کی غلطی ن ہ سمجھا 15
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جائے ) ’ر‘ اور ’ڑ‘ ک ے سات ھ کرت ے ہیں ،وہ ی سلوک مصری ’ج‘ اور ’گ‘ ک ے سات ھ کرتے ہیں ۔ جیس ے ’لہوری بکرا‘ ،ہمار ے لہوریوں ک ے نزدیک ’لہوڑی بکڑا ‘ ہوتا ہے ،اسی طرح ’جعفر ،جاویداور جدہ ‘ ،مصریوں کے نزدیک ’گعفر ،گاوید اور گدہ ‘ہوتے ہیں۔ دیگر عرب کمیونیٹیز میں شامی اور لبنانی شامل ہیں۔ یہ لوگ عموما ً بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ افریقی عرب بھی یہاں کثرت سے آباد ہیں ۔ زیادہ تر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں افریقی یہاں بھی آگے ہیں اور سعودی فٹ بال ٹیم میں بہت سے افریقی کھلڑی شامل ہیں۔ بعض افریقی جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں ،اس لئے لوگ ان کے علقوں میں ڈرتے ہوئے جاتے ہیں۔ سعودی رعربر کی رحکومتر راپنیر بڑھتیر رہوئی ربےے روزگار رنوجوان رآبادیر کور روزگار فراہ م کرنا چاہتی ہے۔اس مقصد کےے لئےے تمام سرکاری اداروں میں نئےے ملزم صرف سعودی رکھے جات ے ہیں۔بینکوں پر بھ ی ی ہ پا بندی ہے ک ہ و ہ صرف سعودی ملزم رکھیں گے۔ ان دنوں غیرملکیوں کے لئے نئے ویزوں کا اجرا بھی کافی کم کر دیا گیا ہے۔ کمپنیوں کو بھی اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ اگر ایک غیر سعودی کو ملزم رکھیں تو اس کے ساتھ ایک سعودی کو بھی ملزمت دیں۔
جد ہ کا ساحل بحیر ہ احمر کا ساحل تقریبا ًر دو ہزار کلومیٹر طویل ہے جس کا ستر ہ سو کلومیٹر حصہ سعودی عرب اور باقی یمن ک ے پاس ہے۔ یہاں جد ہ ک ے علو ہ ینبع ،جازان اور ضباء کی بندرگاہیں بھ ی ہیں ۔ اس ساحلی پٹی ک ے تقریبا ً وسط میں جد ہ کا شہ ر آباد ہے۔ ی ہ اگرچہ ایک جدید شہ ر ہےے لیکن مشرق وسطی کےے دیگر بڑےے شہروں ریاض ،دبئی اور کویت جیسا ترقی یافتہے نہیں ہے۔ سڑکیں ہمارےے کراچی سےے زیادہے کھلی ہیں لیکن سگنلز کی بھرمار ہے۔ شہر میں صرف تین سڑکیں ایسی ہیں جنہیں سگنل فری کہا جاسکتا ہے۔ جد ہ کی خوبصورتی اس کی ”طریق کورنیش“ ہے۔ ی ہ تقریبا ًر دو سو کلومیٹر طویل ساحلی سڑک ہے جو جد ہ ک ے شمال و جنوب میں سو سو کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ کورنیش ساحل سمندر ک ے بالکل ساتھ ساتھ ہے۔ جد ہ کے شمال میں ’ابحر“ کا مقام ہے جہاں ایک بہت بڑی خوبصورت کریک ( )Creekموجود ہے۔ اس میں لوگ ذاتی کشتیاں اور واٹر سکوٹر چلتے پھرتے ہیں۔ عربوں کی ایک عجیب عادت یہ ہے کہ انہیں جو مقام پسند آئے وہاں گاڑی روک کر اس میں سے قالین نکالتے ہیں اور اسے فٹ پاتھ پر بچھا کر پوری فیملی سمیت گاﺅ رتکیوں س ے ٹیک لگا کر بیٹھے جات ے ہیں ۔ چنانچہے کورنیش ک ے اکثر فٹ پاتھوں پر سعودی فیملیاں بیٹھی نظر آتی ہیں۔ ان کے بچے وہیں کھیلتے ہیں ،خواتین باتیں کرتی ہیں اور مرد تاش کھیلتے ہیں یا حقہ پیتے ہیں۔ابحر سے آگے ”درة العروس“ کا مقام ہے۔ یہاں بہت بڑے بڑے محل تعمیر کئے گئے ہیں جن کے ذاتی ساحل ہیں۔ ان ساحلوں میں کوئی اور مداخلت نہیں کرسکتا۔ یہ محلت لوگوں کو کرائے پر دیے جاتے ہیں۔ ان کا کم از کم یومیہ کرایہ 1500ریا ل ہے۔ ان ساحلوں پر خواتین بے پردگی کے بغیر لہروں سے لطف اندوز ہو سکتی ہیں۔
16
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جنوبی کورنیش بھ ی بہ ت دلفریب ساحلی مناظر پر مشتمل ہے۔ے یہاں ”صروم“کے مقام پر سمندر س ے کچ ھ فاصل ے پر قدرتی جھیل بھ ی موجود ہے۔ ظاہ ر ہے ی ہ سمندری پانی ہ ی ہے۔ ان جھیلوں اور سمندر کے درمیان خشکی کے قطعات ہیں جن پر کورنیش بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح کی ایک جھیل شمالی کورنیش پر درة العروس کے مقام پر بھی ہے۔ یہ جھیلیں اپنے سندھ کی کینجھر جھیل کے مقابلے میں کوئی خاص قدرتی خوبصورتی نہیں رکھتیں۔ جد ہ ک ے مشرق میں "مرم ہ جھیل" واقع ہ ہے۔ اس جھیل ک ے بار ے میں عام لوگ زیادہ نہیں جانتے۔ میں نے اس جھیل کو گوگل ارتھ پر دریافت کیا اور ایک دن وہاں جا دھمکا۔ یہ میٹھے پانی کی نہایت ہی خوبصورت جھیل ہے جس کے قدرتی مناظر بڑی حد تک کینجھر جھیل سے مشابہ ہیں۔
جد ہ ک ے لین ڈ مارکس جدہ راﺅنڈ اباﺅٹس کا شہر ہے۔ شہر کے بہت سے چوراہوں پر را ﺅنڈ اباﺅٹ بنے ہوئے ہیں جن ک ے درمیان آرٹ ک ے نمون ے تخلیق کئ ے گئ ے ہیں ۔ ان میں سب س ے مشہور سائیکل چوک ہے۔ یہاں کم و بیش پچاس فٹ اونچی سائیکل بنائی گئی ہے جس ے بعض لوگ حضرت آدم علیہ السلم کے زمانے کی سائیکل قرار دیتے ہیں ۔ ایک روایت یہ ہے کہ حضرت آدم و حوا کی ملقات یہیں ہوئی تھی ۔ پران ے شہ ر میں سید ہ حوا رضی الل ہ عنہ ا کی قبر بھی موجود ہے جو کہ ظاہر ہے اکثر مزارات کی طرح جعلی ہے۔ دیگر لینڈ مارکس میں بحری جہاز ،ہوائی جہاز ،جیومیٹری باکس کا سیٹ ،زمین کا گلوب ،انجینئرنگ ک ے اوزار ،نظام شمسی کا ماڈل اور کشتیاں نمایاں ہیں۔ میں آرٹ کے ان شاہکاروں کو دیکھ کر عربوں کے ذوق سے خاصا متاثر ہوا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں ان کا کوئی کمال نہیں۔ انہوں نے شہر کو خوبصورت بنانے کے لئے مختلف کمپنیوں کو ٹھیکہ دیا جنہوں نے آرٹ کے ی ہ نمون ے تخلیق کئے۔ جد ہ میں دنیا کا سب س ے بڑا نمکین پانی کا فوار ہ بھ ی بنایا گیا ہے جو کہ سمندر کی ایک کریک میں واقع ہے۔
جد ہ ک ے ریسٹورنٹس جدہے کا ذکر مکمل نہے ہوگا اگر اس کےے ریسٹورنٹس کا ذکر نہے کیا جائے۔ے چونکہے یہے ایک کاسمو پولیٹن شہر ہے ،اس لئے اس میں بہت سے ممالک کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ ایسے افراد کو ،جو انٹرنیشنل کھابہ گیری کے شوقین ہوں ،میرا مشورہ ہے کہ اگر وہ یہاں آئیں تو جد ہ ک ے کثیر القومی ریستورانوں کا مز ہ بھ ی ضرور چکھیں ۔ یہاں سعودی، لبنانی،ر رانڈونیشین،ر روسطیر رایشیائی،ر رایرانی،ر رامریکی،ر ریورپین،ر رانڈینر راورر رپاکستانی ریسٹورنٹس کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ رسعودی عرب کا سب سےے زیادہے چلنےے وال رفاسٹ فوڈے ریسٹورنٹ ”البیک“ ہے۔ے ہر وقت یہاں افراد کا مجمع لگا رہتا ہے۔ بعض جگ ہ اس ک ے بالکل سامن ے یا سات ھ ”ک ے ایف سی“ بھ ی پایا جاتا ہے جو عموما ًر خالی پڑا رہتا ہے۔ اگر آپ البیک میں جا کر آرڈ ر بک کروائیں تو آپ کو تیس چالیس افراد کے بعد کا نمبر ملتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کی باری دس منٹ ہی میں آ جاتی ہے۔ مجھے البیک کا شرمپ (جھینگا) سینڈوچ بہت
17
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
پسند آیا۔ جد ہ کی ”سبعین اسٹریٹ“ کو یہاں کی فو ڈ اسٹریٹ کہ ا جاسکتا ہے۔ یہاں آپ کو ہر قسم کے ریسٹورنٹس ملیں گے۔ خاص طور پر زیادہ تر پاکستانی ریستوران یہیں پر واقع ہیں جہاں تمام روایتی پاکستانی کھان ے دستیاب ہیں ۔ کھان ے زیاد ہ تر لہوری اسٹائل میں بنائ ے جات ے ہیں اور ان ک ے کاﺅنٹرز پر بھ ی عموما ً لہوری ے ہ ی اپن ے مخصوص اسٹائل میں توند نکال ے براجمان نظر آت ے ہیں ۔ مجھے چونک ہ کھان ے پین ے میں لہوری کھان ے پسند ہیں، اسلئے کراچی میں اپنے چھ سالہ قیام کے دوران میں اس ذائقے کو ترس گیا تھا۔ جدہ آکر مجھے دوبارہ یہ ذائقہ مل تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جد ہ میں جنوبی ہندوستان بالخصوص حیدر آباد دکن اور مدراس کے کھانے بھ ی ملتے ہیں۔ ہم لوگوں کے لئے ان کا ذائقہ عجیب سا ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ ان کھانوں میں املی کا استعمال کثرت س ے کرت ے ہیں ۔ شمالی ہندوستان اور پاکستان ک ے کھانوں کو ی ہ لوگ پنجابی کھانے کہتے ہیں اور بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
سعودی عرب کا نظام حیات سعودی عرب میں سلفی نقط ہ نظر س ے تعلق رکھن ے والوں کی حکومت ہے۔ علماء کا حکومتی معاملت میں خاصا عمل دخل ہے۔ تمام مساجد سرکاری کنٹرول میں ہیں جس کی وج ہ س ے ی ہ ہماری طرح اکھاڑ ے بنائ ے جان ے س ے محفوظ ہیں ۔ یہاں کی مساجد عام طور پر کویت کی طرح بہ ت خوبصورت نہیں ہیں۔طہارت خان ے بھ ی بس گزار ے لئق ہی ہوت ے ہیں ۔ حکومت کا ایک محکم ہ امر بالمعروف و نہ ی عن المنکر ہے۔ اس ک ے اہ ل کار مطوع کہلتےے ہیں۔ے یہے سڑکوں پر گشت کرتےے ہیں اور کسی ایسےے شخص کو جس نے کوئی قابل اعتراض حرکت کی ہو ،گرفتار کر لیتے ہیں۔ سعودی پولیس ہمارے ہاں کی نسبت کچھ بہتر ہے۔ عام طور پر یہ کسی کو تنگ نہیں کرت ے لیکن کبھ ی کبھار اگر کوئی ان ک ے نرغ ے میں آجائ ے تو اس کی جان بڑی مشکل چھوٹتی ہے۔ ان کے آفیسرز تک انگریزی سے ناواقف ہوتے ہیں ،اس لئے اگر کوئی ان کے قبضے میں آجائے تو اسے اس وقت تک انتظار کرنا پڑتا ہے جب تک کوئی انگریزی بولنے وال پولیس مین نہیں آجاتا یا پھ ر و ہ شخص اپن ے کسی عربی جانن ے وال ے س ے رابط ہ نہیں کرلیتا۔ سعودی خواتین عموما ً مغربی لباس پہنتی ہیں لیکن باہر نکلتے ہوئے یہ برقع ضرور پہن لیتی ہیں جو ”عبایہ “ کہلتا ہے جس کی وجہ سے بے حیائی نظر نہیں آتی۔ گھر کے اندر یہ خواتین اپنے سسر ،دیور اور کزنز وغیرہ سے پردہ کرتی ہیں۔ ان کی معاشرت میں ایک اچھی چیز یہ ہے کہ شادی کے وقت ہی والدین اولد کو الگ کردیت ے ہیں جس کی وجہ س ے ان کے ہاں ساس بہ و ،نند بھابی اور دیورانی جیٹھانی کے جھگڑے کافی کم ہیں۔ ہمارے ہاں جائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے آپس کے جھگڑے اتنے زیاد ہ ہوت ے ہیں ک ہ خواتین ب ے چاری بس گھ ٹ گھ ٹ کر زندگی گزارتی ہیں ۔ جب و ہ اپنی جوانی اسی حالت میں گزار کر بڑھاپے میں داخل ہوتی ہیں تو وہ اپنی بہو کے لئے ویسی ہی بن جاتی ہیں جیسی ان کی ساس ان کے لئے تھی۔ 18
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
حالیہے سالوں میں سعودی معاشرےے میں ایک تبدیلی رونما ہ و رہ ی ہے۔ے معاشرہے اب لبرل ازم کی طرف جارہ ا ہے۔ شخصی آزادیوں میں اضاف ہ ہ و رہ ا ہے۔ اب س ے چند سال پہل ے غیر ملکی افراد اپن ے کفیل کی تحریری اجازت کے بغیر شہ ر سے باہ ر نہیں جاسکتے تھے لیکن اب یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ غیرملکیوں کے کاروبار کرنے پر پابندی تو عائد ہے ہ ی لیکن امید ہے ک ہ اگل ے چند سالوں میں ی ہ اٹھ ا لی جائ ے گی۔فیملی سات ھ ہ و تو پولیس بھی بلوجہ تنگ نہیں کرتی۔ موجودہ سعودی حکمران شاہ عبداللہ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے ایک وژن رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد مقامات پر بڑی بڑی انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کی ہیں جن میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ لگانے کے لئے راغب کیا جارہا ہے۔ ان میں رابغ کا صنعتی زون بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
19
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
مک ہ جدہ پہنچنے کے بعد میری شدید خواہش تھی کہ حرمین شریفین کی زیارت کی جائے۔ میں سنیچر کے روز جدہ پہنچا تھا جو کہ سعودی عرب میں ہفتے کا پہل ورکنگ ڈے ہوتا ہے۔ اگر میں اسی دن مکہ کا رخ کرتا تو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ حرم کعبہ کو صحیح طور پر دیکھ ن ہ پاﺅ ں گا اور بھاگم بھاگ جد ہ واپس آنا پڑ ے گا ۔ میں حرم کعب ہ میں اپن ے پہل ے وزٹ کو یادگار بنانا چاہ رہا تھا۔ چنانچہ میں نے مکہ حاضری کو ویک اینڈ تک موخر کیا اوراس سے اگلے ویک اینڈ پر مدینہ جانے کا ارادہ کیا۔ اس کے بعد حاضریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو تادم تحریر جاری ہے۔ اس سفر نامے میں ان تمام اسفار کے چیدہ چیدہ واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ جدہ میں اکثر لوگ جمعرات کو عازم مکہ ہوتے ہیں ۔ شام کو حرم کعبہ میں دو یا تین نمازیں پڑ ھ کر اور عمر ہ کی ادائیگی ک ے بعد رات کو واپس گھ ر آ جات ے ہیں ۔ بعض لوگ باقاعدگی سےے جمعہے کی نماز خانہے کعبہے میں ادا کرتےے ہیں۔ے جدہے سےے مکہے جانےے کےے تین طریقے ہیں۔ بس ،ٹیکسی یا اپنی گاڑی کے ذریعے۔ بس کے سفر کا تو مجھے کوئی تجربہ نہیں ہوسکا۔ ٹیکسی کا سفر کافی آسان ہے۔ جدہے رمیںر ر”بابر رمکہے ر“سےے رمکہے رجانےے روالیر رٹیکسیاںر رملر رجاتیر رہیں۔ے رٹیکسیر رڈرائیور عموما ً عرب بدو ہوتے ہیں اور مک ہ مک ہ کی آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں ۔ چار سواریاں پوری ہون ے پر ٹیکسی چل پڑتی ہے اور فی کس دس ریال ک ے عوض حرم تک پہنچا دیتی ہے۔ میں ن ے اپنا پہل رسفر ایسی ہ ی ایک ٹیکسی پر کیا ۔ اپنی کار ک ے ذریع ے سفر سب سے آسان اور سستا ذریعہ ہے۔ چونکہ سعودی عرب میں پیٹرول بہت سستا ہے اس لئے محض دس پندرہ ریال کے پیٹرول میں بڑی سے بڑی گاڑی جدہ سے مکہ جا کر واپس آجاتی ہے۔ اس طرح پوری فیملی کے افراد معمولی سی رقم خرچ کرکے حرم سے ہوکر واپس گھر پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارا یہے معمول تھ ا کہے ہ م عمرہے بالعموم جمعرات کو ادا کرتےے تھےے کیونکہے اگلےے دن چھٹی ہوتی تھی۔ چونکہ جدہ میقات کی حدود کے اندر واقع ہے ،اس لئے جدہ کے رہنے والے اپن ے گھروں س ے ہ ی احرام باند ھ کر روان ہ ہوت ے ہیں ۔ مک ہ ک ے تمام اطراف س ے آن ے والے راستوں پر میقات مقرر کئے گئے ہیں جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے۔ احرام باندھتے ہی انسان پر کئی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں۔
20
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
احرام احرام دو چادروں پر مشتمل ہوتا ہےے جس میں سےے ایک دھوتی کےے طور پر باندھے لی جاتی ہے اور دوسری سین ے پر لپیٹ لی جاتی ہے۔ ی ہ اس بات کا اعلن ہے ک ہ ہ م ن ے اپنے پروردگار کےے حکم پر نت نئی ورائٹی کےے لباس چھوڑ کر ایک سادہے ترین لباس اختیار کرلیا ہے جس میں ہم اس کے حضور حاضری دینے کے لئے جارہے ہیں۔ چونکہ حج یا عمرہ شیطان کے خلف ایک علمتی جنگ ہے ،اس لئے اس کی یونیفارم احرام مقرر کی گئی ہے۔ میرا تعلق اگرچہ پنجاب سے ہے لیکن دھوتی باندھنا میرے لئے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ اس ائر کنڈیشنڈ لباس کو وہی سنبھال سکتا ہے جسے اس کی اچھی خاصی پریکٹس ہو۔ چونکہ یہ لباس اب شہروں میں متروک ہوتا جا رہا ہے' اس لئے میرے لئے بھی یہ ایک مسئلہ تھا۔ے احرام میں دھوتی باندھنےے کی مجبوری تھی ۔ میرےے ایک دوست حافظ عاطف کے سات ھ بھ ی حج ک ے موقع پر ایسا ہ ی مسئل ہ درپیش ہوا تھا ۔ انہوں ن ے اپن ے اجتہاد س ے کام لیتے ہوئے ،جیسا سمجھ میں آیا ،دھوتی باندھ لی۔ جب وہ اپنے عزیزوں کے سامنے آئے تو سبر رکی رہنسیر نکلر گئیر کیونکہے رانہوںر نےے ر'خطائےے راجتہادی'ر رسےے واجپائیر سٹائلر میں دھوتی باندھ لی تھی۔ رمیں نےے بھ ی جدہے میں مقیم اپنےے ایک کولیگ جمیل سےے دھوتی باندھنےے کا طریقہ دریافت کیا ۔ انہوں ن ے کچ ھ ایس ے فصیح و بلیغ طریق ے س ے کاغذ ک ے ایک ٹکڑ ے کی مدد س ے دھوتی باندھن ے کا طریق ہ عملی طور پر بیان کیا جو مجھے ازبر ہوگیا ۔ میں ن ے اسی طریقے کو آزمایا تو حیرت انگیز طور پر دھوتی بالکل درست طریقے سے بندھ گئی۔ اس کے ہوا میں اڑنے کا بھی کوئی احتمال نہ تھا۔ حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے اپنی پتلون کی بیلٹ بھی دھوتی کے اوپر باندھ لی اور اوپر کے کناروں کو بیلٹ کے گرد دو تین مرتبہ فول ڈ کرلیا ۔ اس ک ے باوجود دل پوری طرح مطمئن ن ہ تھ ا اور میر ے اعصاب کسی بھی متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تنے ہوئے تھے۔ دو تین بار عمر ہ کرن ے کے بعد مجھے اس دھوتی پر پورا اعتماد ہوگیااور اس کے بعد میں پوری خود اعتمادی سے اپن ے دیہاتی بھائیوں کی طرح دھوتی باندھنے لگا جو دھوتی باندھے کر کبڈ ی کھیلنےے سےے لےے کر سائیکل چلنےے تک تمام کام کر لیتےے ہیں۔ے احرام کی دوسری چادر کو سینے پر ڈالنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ پنجاب کی شدید سردی میں ہم لوگ اکثر گرم شال سین ے پر لپیٹا کرت ے تھے جس ے پنجابی میں ”بُکل مارنا‘ ‘کہت ے ہیں چنانچہ میں نے دوسری چادر کو بکل مارنے کے سٹائل میں سینے پر لپیٹ لیا۔ خواتین احرام میں عام سل ہوا لباس استعمال کرتی ہیں چنانچہ ان کے لئے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ اگرچہ یہ ایک شہری شخص کا دیہاتی لباس کے ساتھ پہل تجربہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لباس بہت آرام دہ ہے۔ احرام میں اس سادہ لباس کے استعمال کی حکمت غالبا ً یہ ہے کہ انسان علئق دنیا سے منہ موڑ کر خالصتا ً اپنے رب کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ حج اور عمرہ کی اصل روح اپنے رب کریم سے تعلق ہے۔ یہ تمثیلی اسلوب میں شیطان کے خلف جنگ کا نام ہے۔ انسان دنیا چھوڑ کر مجاہدانہ لباس پہ ن لیتا ہے اور اپن ے رب کریم کے حکم پر شیطان کے خلف برسر پیکار ہو جاتا ہے۔ عملی زندگی میں انسان کو مسلسل شیطان 21
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ک ے خلف جنگ درپیش ہوتی ہے۔ حج اور عمر ہ انسان کو بتات ے ہیں ک ہ اس کا روی ہ اپنی عملی زندگی میں بھی شیطان کے خلف ایک دشمن ہی کا ہونا چاہیے کیونکہ وہ ہمیں اپنے رب کریم سے دور لے جانے کی کوشش میں مسلسل مصروف ہے۔ اب ہم بیسمنٹ میں کھڑی اپنی گاڑی میں آ بیٹھے۔ میں نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ بکل مار کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا بھ ی ایک مسئل ہ ہوتا تھ ا کیونک ہ سعودی عرب میں سیٹ بیلٹ کی پابندی لزم ہے۔ اس کے لئے آئیڈیل طریقہ یہ ہے کہ اوپر والی چادر کو بغل کے نیچ ے سے نکال کر ایک کندھ ا برہن ہ کر دیا جائے جیسا کہ طواف کے دوران کرت ے ہیں۔ اس طرح سیٹ بیلٹ بھ ی بڑ ے آرام س ے بند ھ جاتی ہے اور ہات ھ بھ ی آزاد رہتا ہے۔ میری اہلی ہ ن ے سات ھ والی سیٹ سنبھالی اور بچیاں پچھلی سیٹ پر بیٹ ھ گئیں ۔ میری بڑی بیٹی اسماء قلم اور پیڈ سنبھال کر اس سفر نامے کے لئے نوٹس لینے کے لئے تیار ہوگئی۔ یقینا اسماءکی مدد کے بغیر میں یہ سفر نامہ آپ تک نہ پہنچا سکتا۔ ہم عزیزیہ کے علقے میں واقع اپنے گھر سے نکل کر شارع فلسطین پر آئے جو شرقاً غربا ً جدہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتی ہے۔ اس سے گزر کر ہم رنگ روڈ پر آگئے۔ یہاں مکہ جانے کے لئے دائیں جانب اور مدینہ جانے کے لئے بائیں جانب مڑنا ضروری ہے۔ اس مقام پر اوور ہیڈ برج کچھ اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ کسی بھی جانب جاتے ہوئے کسی سگنل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ہمارے گھر سے حرم مکہ کا فاصلہ تقریبا ً 75کلومیٹر ہے جس پر ہمیں صرف تین سگنلز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دو ہمار ے گھ ر کے بالکل پاس اور ایک حرم کے قریب۔ یہ فاصلہ ہم تقریبا ً 35س ے 40منٹ میں طے کر لیتے ہیں۔ حجاج کو جدہ ائر پورٹ سے لے کر حرم مکہ تک صرف ایک سگنل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ مکہ میں واقع ہے۔ چونکہ اس دن جمعرات تھی ،اس لئے رنگ روڈ پر ہزاروں گاڑیاں موجود تھیں۔ ہمارے ہاں جمعرات کا دن حلوے پکانے اور مزارات پر حاضریوں کا دن سمجھا جاتا ہے لیکن اہل جدہ اس دن ویک اینڈ کی وجہ سے عمرے کے لئے مکہ روانہ ہوتے ہیں۔ جدہ مکہ موٹر وے آٹھ لین پر مشتمل ہے جن میں سے چار جانے اور چار آنے کے لۓ ہیں۔ انٹرچینج کے نزدیک یہ موٹر وے ایک طرف سے پانچ چھ لین تک پھیل جاتی ہے۔ ہماری لہور اسلم آباد موٹر وے پر تو ہمیں دور دور تک کوئی گاڑی نظر نہیں آتی لیکن جد ہ مک ہ موٹر و ے پر ہم ہ وقت گاڑیوں کا اژدھام رہتا ہے جو ایک دوسر ے س ے محض بیس بیس فٹ ک ے فاصل ے پر 120 سے 150کی رفتار پر محو سفر ہوتی ہیں۔
جد ہ مک ہ موٹر و ے جد ہ س ے مک ہ جان ے ک ے دو راست ے ہیں ۔ ایک جد ہ مک ہ موٹر و ے اور دوسرا اول ڈ مک ہ روڈ۔ یہ دونوں راستے ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہوئے مکہ تک پہنچتے ہیں۔ اب سے تقریبا ً تیس سال پہلے مکہ جانے کا ایک ہ ی راستہ تھا ،لیکن جدید موٹر وے نے ایک اچھ ا متبادل فراہم کیا ہے جس کی وجہ سے دونوں شہروں میں سفر کا وقت بہت کم ہوگیا ہے۔ اب اولڈ مکہ روڈ کو زیادہ تر بھاری گاڑیاں استعمال کرتی ہیں جبکہ ہلکی گاڑیاں موٹر وے سے مکہ کی طرف سفر کرتی ہیں۔ شہر کے جنوب مشرقی کونے پر جدہ رنگ روڈ پر شہر کی بندرگاہ اور ساحلی علقوں 22
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
س ے آن ے والی میرین ہائی و ے بھ ی مل جاتی ہے۔ ی ہ ایلی ویٹ ڈ ( ) Elevatedہائی و ے ہے جو ایک بیس پچیس کلومیٹر طویل پل پر مشتمل ہے۔ دونوں سڑکوں کے سنگم پر بہت سے کھجور کے درخت لگے ہوئے ہیں۔ ایک کھجور کے درخت کا دیو قامت ماڈل ہے اور اس کے سات ھ ایک مصنوعی قلع ہ بھ ی بنا ہوا ہے۔ ایس ے ماڈ ل قلع ے سعودی عرب میں بہ ت سے مقامات پر سڑکوں ک ے درمیان بنےے ہوئےے ہیں ۔ اس مقام س ے جدہے مک ہ موٹر و ے شروع ہوتی ہے۔ یہ روڈ قبلہ رو ہے ۔ دنیا بھی بہت سے دوسرے روڈ بھ ی قبلہ رو ہوتے ہیں لیکن اس روڈ کی خصوصیت یہ ہے کہ انسان اس پر قبلے کی سمت میں سفر کرتے ہوئے سچ مچ قبلے تک پہنچ جاتا ہے۔ ی ہ سعادت دنیا میں کسی اور رو ڈ کو حاصل نہیں ہے۔ طائف ،مدین ہ اور جازان س ے آن ے وال ے دوسر ے راست ے ڈائرکٹ مسجد الحرام تک نہیں پہنچت ے لیکن ی ہ روڈ سیدھا حرم تک جاتا ہے۔ احرام باندھ کر مکہ کی طرف سفر کرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ اس سفر میں انسان اپنے رب کے دربار میں جارہا ہوتا ہے۔ دنیا میں اپنے محبوب سے ملنے کے لئے انسان کیسا سج سنور کر تیار ہوتا ہےے اور کیس ے جوش و جذبےے ک ے سات ھ اس کی طرف جاتا ہے۔ے یہاں کائنات کے مالک سے ملنے کے لئے جس کی محبت ایک بندہ مومن کا کل اثاثہ ہے ،انسان محض دو چادروں میں ملبوس انتہائی سادگی بلکہ فقیری کے عالم میں حاضری دیتا ہے۔ یہ اپنے رب کریم کے حکم کے آگے محبت سے سر جھکا دینے کا نام ہے۔ اس کی لذت وہی جانتےے ہیں جو محبت کرنا جانتےے ہوں۔ے اب سےے چار ہزار سال قبل سیدنا ابراہیم علیہ السلم نے اپنے رب کے حکم کے آگے سر جھکاتے ہوئے ایسا ہی ایک سفر کیا تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی بیوی ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور ننھے سے اسماعیل علیہ السلم کو اس وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا۔ اسی سر جھکانے کی یاد اب دنیا بھر سے لکھوں افرادآ آ کر تازہ کرتے ہیں۔ اسر رسفرر رکار رترانہے ر”لبیک“ر رہے۔ ے لبیک ّ اللٰھم لبیک۔ے ل شریک لک لبیک۔ے ان الحمد و النعم ۃ لک و الملک ۔ ل شریک لک ۔ ”میں حاضر ہوں ،اے میر ے اللہ ،میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بے شک تعریف ،نعمتیں اور بادشاہی تیر ے ہ ی لئ ے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ “ حج یا عمر ہ دراصل حاضر ہون ے ہ ی کا نام ہے۔ میرے پیارے اللہ نے مجھے بلیا اور میں چل آیا۔ یہی حج ہے۔ یہی عمرہ ہے۔ جدہ مکہ موٹر وے کے آغاز پر جدہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے ذرا سا آگے ہی ایک وسیع و عریضر رریسٹر رایریار رتھا۔ے راسر رریسٹر رایریار رمیںر رمسجد،ر رپیٹرولر رپمپ،ر رسپرر رمارکیٹ، ریسٹورنٹس ،ورک شاپس اور کئی سہولیات میسر تھیں۔ یہ سب کچھ کافی پرانا بنا ہوا تھا ۔ مجھے اپنی موٹر و ے ک ے ریسٹ ایریا یاد آئ ے جو خوبصورتی اور سروس میں اس ریسٹ ایریا سے بہتر تھے۔ یہاں سب س ے واضح چیز میکڈانل ڈ کا سائن بور ڈ تھا ۔ ہمار ے بعض لوگوں کو امریکی ریسٹورنٹس ک ے نام س ے ہ ی خدا واسط ے کا بیر ہے۔ ذرا سا جلوس نکل جائ ے تو ان پر پتھراﺅ شروع کردیتے ہیں اور یہاں تک کہ آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے حالنکہ یہ تمام ریسٹورنٹ مسلمانوں ہ ی کی ملکیت ہیں جو اپنا کاروبار چلن ے ک ے لئ ے انٹرنیشنل چین 23
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
سے محض فرنچائز کے طور پر نام استعمال کرتے ہیں ۔ اگر یہ غیر مسلموں کی ملکیت بھی ہوں تو کسی بھی انسان ،خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ،کی جان ،مال اورآبرو کو نقصان پہنچانا دین اسلم میں جرم عظیم ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اسلم کے نام پر اسلم ہی کی خلف ورزی کر رہے ہوتے ہیں۔ آگے مکہ جا کر معلوم ہوا کہ حرم کے اطراف میں کے ایف سی ،پیزا ہٹ ،ہارڈیز ،کوڈ و اور دیگر فاسٹ فوڈ کے ریسٹورنٹس نہ صرف موجود ہیں بلکہ بہت اچھا بزنس بھی کرتے ہیں۔ مجھے اس ریسٹ ایریا کو دیکھ کر خاصی حیرت ہوئی۔ ابھی سفر شروع ہی نہیں ہوا کہ ریسٹ ایریا آ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ دور دراز سے آنے والے حجاج اور زائرین جدہ ائر پورٹ پر امیگریشن اور دیگر مراحل میں کئی گھنٹ ے کی خواری برداشت کرن ے کے بعد اس ریسٹ ایریا ک ے مستحق ہیں ۔ اس س ے تھوڑا سا آگ ے ایک اور ریسٹ ایریا تھا جہاں ”طازج“ نمایاں تھا۔ یہ ایک عرب فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ہے۔ طازج س ے ذرا سا آگ ے براﺅ ن رنگ کی پہاڑیاں ہماری منتظر تھیں ۔ مجھے پہاڑی سفر ہمیش ہ پسند رہ ا ہے لیکن اس سفر میں فطرت کے حسن کے ساتھ ساتھ عقیدت کا رنگ بھ ی نمایاں تھا ۔ ان پہاڑیوں پر ایک جگہ بورڈ لگا ہوا تھا ۔ سیروا و سبحوا الل ہ ۔ ”سیر کرو اور الل ہ کی تسبیح بیان کرو۔ “ میر ے خیال میں ی ہ ایک بند ہ مومن ک ے ہ ر قسم کے سفر کا مقصد تھا۔ دنیا میں جب بندہ طرح طرح کی بوقلمونیاں دیکھتا ہے تو اس کا ذہن ب ے اختیار ان ک ے بنان ے وال ے کی طرف چل رجاتا ہے۔ خدا کی یاد اور اس کی پہچان ہی مومن ک ے سفر کا مقصد ہے۔ یہ ی وج ہ ہے ک ہ سفر میں انسان خود کو فطرت ک ے زیادہ قریب محسوس کرتا ہے۔ موٹر وے پر جگہ جگہ عربی میں 120کے بورڈ نظر آرہے تھے جس کا مطلب ہے کہ اس روڈ پر حد رفتار 120کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ دنیا بھر میں موٹر وے پر 120کی حد رفتار کا معیار مقرر ہے۔ عرب ممالک میں ہمار ے ہاں کی طرح قانون شکنی کی روایت تو نہیں ہے لیکن پھ ر بھ ی تقریبا ًر سبھ ی لوگر 140رسےے 160ر کی رفتار پر گاڑی چل ررہے تھے۔ یہ انسان کی شاید فطرت ہے ک ہ جب اس پر کوئی پابندی لگائی جاتی ہے ،تو و ہ اس سے تھوڑا سا تجاوز کر ہی جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پابندیاں تھوڑی سی زیادہ لگا دی جاتی ہیں تاکہ فطری تجاوز کرکے بھی انسان حدود ہی میں رہے۔ عرب بھی عجیب ڈرائیور ہوتے ہیں۔ اگر آپ 150کی رفتار سے تیز رفتار لین پر جارہے ہوں ،تب بھی کوئی عرب اچانک 200کی رفتار سے آئے گا اور آپ کی گاڑی سے چند فٹ کے فاصل ے پر لئٹیں جل بجھ ا کر آپ کو ہٹنے کے لئے کہے گا ۔ آپ کے ہٹن ے سے قبل ہ ی وہ روڈ کے شولڈر کا استعمال کرتے ہوئے آپ کو اوور ٹیک کر جائے گا۔ پہاڑیوں ک ے درمیان ”کنگ عبد العزیز میڈیکل سٹی“ کا انٹر چینج نظر آیا ۔ ی ہ میں نے پاکستان والی اصطلح استعمال کی ہے ورن ہ اس ے یہاں ”مخرج ( “)Exitکہ ا جاتا ہے۔ اس سے تھوڑا سا آگے کوئی ٹیلی کمیونیکیشن کی تنصیبات تھیں اور سفید رنگ کے بڑے بڑے ڈشر رانٹینار رنظرر رآرہےے رتھے۔ے رٹیلیر رکامر رکار ریہیر رانقلبر رہےے رجسر رکےے رنتیجےے رمیںر رہمر رلوگ انڈسٹریل ایج سے انفارمیشن ایج میں داخل ہوئے ہیں۔ایک عام آدمی کو بھی موبائل فون کے ذریعے وہ سہولت میسر ہے جو دور قدیم کے بادشاہوں کو بھی حاصل نہ تھی۔ بے چارے 24
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
پران ے بادشا ہ اہ م ترین جنگی معلومات ک ے لئ ے بھ ی اپن ے جاسوسوں ک ے منتظر رہ ا کرتے تھے جو گھوڑوں پر دنوں کا سفر کرکے معلومات لیا کرتے تھے۔ اب اس سے کہیں کم اہم معلومات ،جیسے میچ کی تازہ ترین صورتحال ،ہر شخص کو سیکنڈ ز میں اپنے موبائل پر مل جاتی ہیں۔ے خدا جانےے کتنےے لوگ ہیں جو اس نعمت پر اس کا شکر ادا کرتےے ہیں۔ انفارمیشن ایج کا ایک المیہ یہ ہے کہ معلومات کے انبار میں غور و فکر اور تدبر کرنے کی عادت کم ہوتی جارہی ہے۔ تھوڑا سا آگے موٹر وے پولیس کی گاڑی کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر سب اپنی رفتار کم کرکےے 120رپر ل ے آئے۔ یہاں کی موٹر و ے پولیس بھ ی ہماری موٹر و ے پولیس کی طرح مستعد ہے اور یہ لوگ بلوجہ کسی کو تنگ نہیں کرتے ۔ اس فورس میں زیادہ تر نوجوان ہی بھرتی کئے گئے تھے البتہ یہ نوجوان پولیس والے اپنی توند کے سائز میں ہماری روایتی پولیس کا مقابلہ کررہے تھے ۔ ان میں افریقی نسل کے پولیس مین خاصے سمارٹ اور چاک و چوبند نظر آرہے تھے۔ عرب نوجوان بالعموم کافی موٹے تازے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ لوگ کھانے میں پنیر کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ان کے عام نوجوان لڑکے ہمارے گوجرانوالہ اور لہور ک ے اسٹینڈر ڈ سائز ک ے پہلوانوں ک ے برابر ہوت ے ہیں ۔ ان ک ے دبل ے پتل ے لوگوں کو بھی اپنے ہاں کے سیاست دانوں پر قیاس کر لیجئے۔ جدہ میں ہمارے کلب میں کثیر تعداد میں عرب نوجوان آت ے ہیں جو الٹی سیدھ ی ورزشوں کی مدد س ے اپنی توند کم کرن ے کی کوشش کرتے ہیں مگر میری طرح ناکام رہتے ہیں۔ اچانک رو ڈ ک ے کنار ے گھنا سبز ہ آگیا ۔ شاید ی ہ کوئی فارم ہاﺅ س تھا ۔ وسیع و عریض صحرائی ماحول میں ی ہ سبزہے بہ ت ہ ی خوبصورت لگ رہ ا تھا ۔ ہ م لوگ ان صحراﺅ ں کو عبور کرنے کے لئے ائر کنڈیشنڈ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ مجھے وہ لوگ یاد آئے جو اپنے رب کی پکار پر حج و عمرہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اونٹ کا تکلیف دہ سفر کرکے یہ صحرا پار کرتے تھے۔ انہیں ایسے نخلستان کیسے لگتے ہوں گے؟ نخلستان ک ے بعد براﺅ ن پہاڑیوں ک ے درمیان سنہر ے رنگ کی وادیاں شروع ہوگئیں ۔ یہ منظر اتنا دلفریب تھ ا ک ہ ب ے اختیار میری زبان پر ی ہ حمدی ہ گیت جاری ہوگیا ------تیرے رنگ رنگ ،تیر ے رنگ رنگ ------میں جہاں بھ ی جاﺅ ں دنیا میں تیر ے جلو ے میر ے سنگ سنگ۔ شاید دنیا کا حسن دیکھ کر ہی بعض صوفیا کو وحدت الوجود کا نظریہ ایجاد کرنا پڑا ورن ہ قرآن کا ی ہ دعوی ٰ ہے ک ہ ہ ر چیز کی تخلیق میں اپن ے خالق کی نشانیاں موجود ہیں۔ سنہری وادیوں میں ریت ک ے جھکڑ چل رہے تھے۔ جب ی ہ شدید ہوں تو ان ک ے جھٹکے چھوٹیر رموٹیر رگاڑیر رکار رتوازنر ربگاڑر ردیتےے رہیں۔ے راسیر روجہے رسےے رعربر رکےے ررہنےے روالےے ران صحرائی راستوں پر کم ازکم 2000سی سی کی گاڑی میں سفر کرن ے کا مشور ہ دیتے ہیں۔ تھوڑا سا آگے ہی بحرہ کا ایگزٹ تھا۔ یہ جدہ اور مکہ کے درمیان ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ روڈ پر جگہ جگہ ہورڈنگز اور بل بورڈ لگے ہوئے تھے۔ چند ایک اشیا کی ایڈورٹائزنگ کے لئے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ سعودی عرب میں یہ چیزیں ابھی تک بے حیائی کی لعنت سے بچی ہوئی ہیں ۔ ی ہ ہورڈنگز پاکستان کی نسبت بڑ ے سلیق ے س ے لگائی گئی تھیں اور ان 25
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کی تنصیب میں اس بات کا خیال رکھ ا گیا تھ ا ک ہ ان س ے ڈرائیور کی توج ہ سڑک س ے نہ ہٹ سکے۔ بہ ت سی ہورڈنگز پر سعودی عرب ک ے نئ ے شا ہ عبد الل ہ کی تصاویر لگی ہوئی تھیں جن میں انہیں بادشاہ بننے پر مبارکباد دی گئی تھیں۔ میں سوچنے لگا کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہ ی ان ہورڈنگز پر شاہ فہد کی تصاویر ہوتی ہوں گی۔ مجھے وہ واقعہ یاد آیا کہ کوئی بزرگ کسی بادشاہ کے دربار میں گئے تو فرمانے لگے” ،مجھے یہ سرائے پسند نہیں آئی۔“ بادشا ہ ب ے چار ہ بہ ت سٹ پٹایا ک ہ جناب ی ہ میرا محل ہے کوئی سرائ ے نہیں ۔ فرمان ے لگے، ”سرائے وہ ہوتی ہے جس میں ایک شخص جائے اور دوسرا آئے۔ آپ کے محل میں آپ کے دادا آ کر رہے پھ ر چل ے گئ ے اور آپ ک ے والد اس ک ے مالک بنے۔ و ہ بھ ی گزر گئ ے اور آپ اس میں رہتے ہیں۔ آپ کے بعد آپ کا بیٹا اس میں رہے گا۔ یہ سرائے نہیں تو اور کیا ہے۔“ حقیقت ی ہ ہے ک ہ ی ہ دنیا ایک بڑ ے سائز اور لمبی مدت کی ( ) Long Termسرائ ے ہ ی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس سرائے میں سرائے کی ہی طرح رہتے ہیں اور اپنے اصل گھر کو نہیں بھولتے جو آخرت میں ہمارا منتظر ہے۔ بحر ہ س ے تھوڑا سا آگ ے ہ ی حرم کی حدود ک ے آغاز کے سائن بورڈ ز نظر آن ے لگے۔ یہاں س ے ایک رو ڈ نکل کر مک ہ کو بائی پاس کرت ے ہوئ ے طائف اور ریاض کی طرف جاتا ہے۔ اس مقام پر ایک چیک پوسٹ بنی ہوئی تھی ۔ سعودی پولیس کے بظاہ ر مستعد نظر آن ے وال ے اہ ل کار کسی کسی ک ے کاغذات چیک کر رہے تھے۔ ی ہ لوگ عموما ًر فیملی کے ساتھ جانے والے افراد کو چیک نہیں کرتے۔ چیک پوسٹ پر ایک مسجد بھی بنی ہوئی تھی جس کا نام شمیسی مسجد تھا ۔ اس مقام کا جدید نام شمیسی اور قدیم نام ”حدیبیہ“ ہے۔ جی ہاں ،یہ وہی مقام ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے 6ھ میں عمرہ کے لئے جاتے ہوئے قیام کیا تھا۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
حرم کی حدود تھوڑا سا آگے چلے تو ایک ہلکے سبز رنگ کی پہاڑی نظر آئی۔ صحرائی علقے میں ایسے خوبصورت مناظر بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سرسبز علقوں کی سیاحت میں تو ایک ہی رنگ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن صحرائی علقوں کی سیاحت میں فطرت کے بہت سے رنگ دیکھنےے کو ملتےے ہیں ۔ الل ہ تعالی ٰ ن ے یہے دنیا بہ ت ہ ی خوبصورت بنائی ہے۔ے سر سبز کھیت جہاں انسان کو زرعی اشیاء فراہم کرتے ہیں ،وہاں لق و دق صحرا تیل ،گیس اور دیگر معدنیات سے معمور ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ فبای اٰلءربکما تکذبان۔ ”تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلﺅ گے۔“ یہاں س ے حرم کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ ی ہ و ہ مقام ہے جس ے الل ہ تعالی ٰ ک ے حکم کے مطابق سیدنا ابراہیم علیہے الصلوة روالسلم نےے حرم قرار دیا تھا۔ے اخبار مکہے کےے مصنف علمہ ازرقی لکھتے ہیں، ”سب سے پہلے حرم کی حدود مقرر کرنے والے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلم تھے۔ سیدنا ابراہیم نے سیدنا جبریل کی ہدایات کے مطابق حرم کی (حدود متعین کرنے والی ) برجیاں نصب کیں۔ پھر ان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ 26
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm و ال ہ وسلم ن ے فتح مکہے ک ے سال سیدنا تمیم بن اسد خزاعی رضی الل ہ عنہے کو بھیجا، انہوں نے ان برجیوں کو نئے سرے سے بنایا۔ پھر ان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی حتی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چار قریشیوں کو مقرر فرمایا ،جنہوں نے ان کی پھر تجدید کی۔ “ (اخبار مکہ ،ازرقی :بحوالہ تاریخ مکہ مطبوعہ دارالسلم :ص )81
حرم کی حدود ک ے آغاز پر ایک گیٹ بنایا گیا ہے جس ک ے دونوں جانب برجیاں سی بنی ہوئی ہیں۔ یہاں حرم کے آغاز کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ اس سے تھوڑا آگے ایک بہت بڑا گیٹ ہے جس کے کے دو بازو روڈ کے دونوں کناروں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے اوپر پتھر کا بنا ہوا قرآن مجید کا بہ ت بڑا ماڈ ل ہے۔ حرم کی حدود میں لڑائی جھگڑا ،شکار کرنا اور حتی کہ یہاں کی نباتات کو نقصان پہنچانا بھی منع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت سےے قبل بھ ی عرب اس حرمت کا پورا احترام کیا کرتےے تھےے کیونکہے یہے لوگ سیدنا اسماعیل علی ہ السلم کی امت تھے اور آپ کی تعلیمات کم از کم اس معاملے میں پوری طرح زندہ تھیں۔ حرم کی حدود کےے آغاز سےے ہ ی روڈے کےے دونوں طرف درختوں کی طویل قطاریں شروع ہوگئیں جو صحرا کے پس منظر میں بہت بھلی معلوم ہو رہی تھیں۔ آگے ایک سرخ رنگ کی وادی تھی ۔ رو ڈ پر دونوں طرف سبحان الل ہ ،الحمد لل ہ ،الل ہ اکبر اور استغفر الل ہ ک ے بور ڈ نظر آرہے تھے۔ ی ہ اذکار بند ہ مومن ک ے ہ ر وقت ک ے اذکار ہیں ۔ خصوصا ً سفر میں جب انسان فطرت ک ے زیادہے قریب ہوتا ہے تو ی ہ اذکار اسےے اپن ے پروردگار کی یاد دلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یاد قائم کرنا ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ ہمارے ہاں ان اذکار کو جنتر منتر کی شکل دے لی گئی ہے اور ان پر غور کئے بغیر انہیں طوطے کی طرح زبان سے ادا کیا جاتا ہے۔ اگر انسان ان پر غور و فکر کرے تو اپنے پروردگار کی قربت حاصل کرنے کے لئے ان اذکار سے مفید کوئی چیز نہیں۔ روڈ پر ایک بہت بڑا بورڈ تھا جس پر یہ آیت لکھی ہوئی تھی۔ ان اول بیت وضع للناس للذی ببک ۃ مبارکا و ھدی للعالمین ۔ فی ہ آیات بینات مقام ابرا ہیم و من دخل ہ کان ا ٰمنا ۔ و لل ہ علی الناس حج البیت من استطاع الی ہ سبیل ۔ (آل عمران )97-3:96 ” ب ے شک سب س ے پہل رگھ ر جو لوگوں کی ہدایت ک ے لئ ے بنایا گیا ،و ہ مکہ مبارکہ میں تھا۔ اس میں روشن نشانیاں ہیں اور ابراہیم (کی نماز) کا مقام ہے۔ جو بھ ی اس میں داخل ہ و اس ے امان ہے۔ الل ہ ک ے لئ ے لوگوں پر لزم ہے کہ وہ اس گھر کا حج کریں ،جو بھی اس کی طرف آنے کی استطاعت رکھتا ہو۔“ یہے آیت کریمہ ،خانہے کعبہے اور مکہے مکرمہے کا بہترین تعارف ہیں۔ے بائیں ہاتھے جدہے واپسی والی روڈ کے کنارے ایک بہت بڑا پارک نظر آیا جہاں بچوں کے لئے جھولے وغیرہ لگے ہوئے تھے۔ ی ہ بہ ت بڑا پارک ہے۔ یہاں بہ ت بڑ ے الفاظ میں ”اسماک دانہ “ لکھ ا ہوا تھا ۔ یہاں کی مچھلی بہ ت مشہور ہے۔ آپ اپنی پسند کی مچھلی کا انتخاب کیجیے ،اس کی رقم ادا کیجیے ،اپنی پسند کے اسٹائل میں پکوائیے اور باپردہ ہٹ میں بیٹھ کر تناول فرمائیے۔ اس طرز کے مچھلی ریسٹورنٹ سعودی عرب کی شاہراہوں پر عام ہیں۔
27
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اس پارک کے بعد اچانک ڈھلن شروع ہوگئی ۔ یہ مسلسل ڈھلن تھی جو کہ ختم ہونے کا نام ہ ی ن ہ ل ے رہ ی تھی۔یوں لگ رہ ا تھ ا ک ہ ہ م لوگ مسلسل گہرائی میں جارہے ہوں۔ سامنے نظر پڑی تو "حرمین ٹاورز" کے جڑواں عمارتیں نظر آئیں جو مسجد الحرام کے بالکل ساتھ واقع ہیں۔ روڈ کے کنارے ایک فیروزی رنگ کی پہاڑی نظر آئی اور اس کے بعد مکہ کا تیسرا رنگ روڈ نظر آیا۔ اگر آپ یہاں سے دائیں مڑ جائیں تو سیدھے منیٰ ،مزدلفہ ،عرفات اور پھر ہدا اور طائف کی جانب جا نکلیں گے۔
مک ہ میں داخل ہ یہیں پر رابطہ عالم اسلمی کے ہیڈ کوارٹر کا بورڈ تھا۔ جو عرفات کی مخالف سمت میں واقع ہے۔ اس انٹرچینج ک ے فورا ًر بعد دائیں جانب ایک بہ ت بڑا پارک ہے جہاں کھجور کے درخت بکثرت ہیں۔ پارک سے آگے سگنل تھا۔ یہ جدہ مکہ موٹر وے کا اختتام تھا۔ اس سے آگے اس روڈ کو ”طریق ام القریٰ“ کہتے ہیں اور یہ سیدھی مسجد الحرام پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس چوک کو ہم لوگ ”صراحی چوک“ کہتے ہیں۔ یہاں صراحی اور مٹکے کے بہت بڑ ے بڑ ے ماڈ ل نصب ہیں ۔ قدیم عرب ک ے صحرائی ماحول میں ٹھنڈ ا پانی ایک بہ ت بڑی نعمت تھ ی جس کےے لئےے مٹی کےے ان برتنوں کی اہمیت غیر معمولی تھی۔ے تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی جگہ کولر اور فریج نے لے لی ہے۔ صراحی چوک ک ے سات ھ ”البیک “ تھا ۔ یہاں س ے رو ڈ ک ے دونوں طرف دکانوں کا ایک طویل سلسل ہ شروع ہ و جاتا ہے۔ درمیان میں شارع منصور ،طریق ام القری ٰ کو قطع کرتی ہے ،جس پر ایک اوور ہیڈ برج بنا ہوا ہے۔ عربی میں اوور ہیڈ برج کو "کوبری" کہتے ہیں ۔ حرم ک ے قریب جاکر ایک اور اوور ہی ڈ برج آتا ہے۔ اس برج ک ے اوپر ایک دوراہ ا ہے۔ اگر آپ دائیں طرف والی روڈ اختیار کریں تو آپ حرم کے بالکل سامنے والے بس اسٹینڈ پر جا پہنچیں گے۔ اگر آپ بائیں طرف وال روڈ اختیار کریں تو یہ آپ کو حرم کے نیچے ایک سرنگ میں ل ے جائ ے گا ۔ اس سرنگ میں بھ ی دو بس اسٹاپ ہیں ،جہاں س ے الیکٹرانک اور ساد ہ سیڑھیاں چڑ ھ کر حرم ک ے اوپر آرہ ی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں آپ حرم کے ملک فہد گیٹ یا ملک عبدالعزیز گیٹ کے سامنے آ نکلتے ہیں۔ میں نے سرنگ وال راستہ اختیار کیا اور اپنی فیملی کو سیڑھیوں کے پاس اتارا اور ان سےے حرم ک ے اندر ملنےے کی جگہے کا تعین کیا۔ے اس ک ے بعد میں پارکنگ کی تلش میں جانکل۔ مکہ میں بالخصوص حرم کے قریب پارکنگ تلش کرنا جوئے شیر لنے کے مترادف ہے۔ سرنگ سے نکلتے ہ ی دائیں ہاتھ ایک پارکنگ پلزہ ہے جو پارکنگ کی عدم دستیابی کا فائد ہ اٹھات ے ہوئ ے تیس ریال (تقریبا ًر چار سو اسی روپ ے ) فی گھنٹ ہ چارج کرتا ہے۔ یہاں بھی پارکنگ دستیاب نہ تھی۔ مکہ کی پولیس روڈ پر پارک کی جانے والی گاڑیاں اٹھانے میں بہت مستعد واقع ہوئی ہے۔ پولیس کو ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ پارکنگ کا معقول انتظام بھی ہونا چاہیے۔ مکہ کے برعکس مدینہ میں پارکنگ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کافی دور جاکر ایک گلی میں مجھے پارکنگ ملی۔ یہاں ہر گھر کے دروازے پر انڈیا کا جھنڈ ا نظر آ رہاتھا ۔ اس گلی کے تمام گھر انڈین حج مشن نے کرائے پر لئے ہوئے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے حج مشن کے مقابلے پر انڈین حج مشن زیادہ منظم طریقے سے کام کرتا ہے اور عازمین حج 28
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کو تمام سہولیات فراہ م کرن ے کی کوشش کرتا ہے۔ انڈین حکومت عازمین حج ک ے لئے خصوصی سبسڈی دیتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو حج کافی سستا پڑتا ہے۔ ایک غیر مسلم حکومت کی طرف سےے حاجیوں کو اتنی سپورٹ اور ہماری مسلمان حکومت حجاج کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ میں نے گاڑی پارک کرنے کے بعد قریب کھڑے ایک پولیس والے سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ ان صاحب نے بیزاری سے ”ما فی مشکل (کوئی مسئلہ نہیں)“کے الفاظ کہہ کر جان چھڑائی۔ے عرب میں آپ کو یہے الفاظ اکثر سننےے میں ملتےے ہیں لیکن اس کے باوجود بہ ت سےے مشکلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ے اس ک ے بعد میں پندر ہ منٹ کا پیدل فاصل ہ طے کرک ے واپس حرم پہنچا ۔ اس مسئل ے کا ایک متبادل حل یہ ہے کہ آپ حرم سے کافی فاصلے پر ”کُدَی پارکنگ“ میں گاڑی کھڑی کرکے وہاں سے کسی ٹیکسی وغیرہ کے ذریعے حرم پہنچ سکتے ہیں ۔ اگر آپ نے طویل وقت کے لئے حرم میں رکنا ہو تو یہ نسبتاً آسان حل ہے۔
مسجد الحرام میں ن ے جب حرم پر پہلی نظر ڈالی تو سامن ے ایک دلفریب منظر تھا ۔ سامن ے مسجد کا وسیع و عریض صحن تھا ۔ مسجد الحرام ک ے باہ ر چاروں طرف صحن ہےے جو سروس ایریا کا کام کرتا ہے۔ یہ اصطلحی مفہوم میں مسجد کا حص ہ نہیں۔ یہ سفید ماربل کا بنا ہوا ہےے اور رات میں بہ ت خوبصورت منظر پیش کرتا ہےے البتہے دن میں اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ جب بھی دن میں حرم جائیں تو اپنے ساتھ سن گلسز ضرور رکھیں۔ صحن میں زیر زمین مردوں اور خواتین ک ے الگ الگ طہارت خان ے تھے۔ ہ ر طہارت خان ے میں فلش ک ے سات ھ سات ھ ایک شاور بھ ی لگا ہوتا ہے تاک ہ گرمی کا مارا کوئی زائر اگر غسل بھ ی کرنا چاہے تو اس ے اس کی سہولت میسر ہوا البت ہ یہاں گرمیوں میں تیز گرم اور سردیوں میں شدید ٹھنڈ ا پانی دستیاب ہوتا ہے۔ صحن میں لکر رومز بھ ی ہیں جہاں آپ اپنی قیمتی اشیا رکھ کر جاسکتے ہیں۔ اس صحن کے ساتھ ہی کئی فائیو سٹار ہوٹل تھے جن ک ے گراﺅن ڈ فلور پر بڑی بڑی مارکیٹیں تھیں ۔ یہاں چھوٹ ے موٹ ے ہوٹلوں سے لے کر بڑے بڑے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس موجود تھے۔ میرے سامنے حرم کا "ملک فہد گیٹ" تھا جسے عربی میں "باب الملک فہد" کہتے ہیں۔ یہے دروازہے حرم کی جدید ترین توسیع میں بنایا گیا ہےے جو کہے 1988رمیں کی گئی تھی۔ مسجد الحرام کے 5بڑے اور 54چھوٹے دروازے ہیں ۔ بڑے دروازوں کے نام باب فہد ،باب عبد العزیز ،باب صفا ،باب فتح اور باب عمر ہ ہیں ۔ ان میں س ے ہ ر درواز ے ک ے سات ھ دو مینار ہیں جبکہ باب صفا کے ساتھ ایک مینار ہے۔ اس طرح مسجد الحرام کے کل میناروں کی تعداد نو ہے۔ میرا مشور ہ ہے ک ہ نئ ے عازمین اپنی سہولت ک ے مطابق ان میں س ے کسی بڑ ے گیٹ ہ ی س ے داخل ہوں ۔ گیٹ میں داخل ہوت ے ہیں دائیں اور بائیں سیڑھیاں اور لفٹیں موجود ہیں جو آپ کو فرسٹ اور سیکنڈ فلور تک لے جا سکتی ہیں۔ اگر فیملی ساتھ ہو تو میں عام دنوں میں فرسٹ فلور کو ترجیح دیتا ہوں کیونک ہ یہاں اس طرح کا رش نہیں ہوتا 29
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جیسا گراﺅنڈ فلور پر موجود ہوتا ہے۔ رمضان اور حج کے دنو ں میں سیکنڈ فلور بھی کھل جاتا ہے جو دراصل مسجد کی چھت ہے۔ باب صفا (اور اب باب عبدالعزیز) کے ساتھ ہ ی وہیل چیئرز کا کا ﺅنٹر موجود ہے جہاں اقامہ یا پاسپورٹ دکھا کر آپ بلمعاوضہ وہیل چیئر لے سکتے ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی بزرگ ،معذور یا چھوٹ ے بچ ے ہوں تو میرا مشورہے یہے ہےے ک ہ آپ وہیل چیئر لزما ًر ل ے لیں کیونکہ عمرہ میں تقریبا ً 8س ے 10کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا ہوتا ہے جو کسی بھی ضعیف شخص کے لئے خاصامشکل ہے۔ خواتین کے لئے بچوں کو اٹھا کر یہ فاصلہ طے کرنا بھ ی خاصا مشکلر ہے۔ے باب صفا کےے قریب فرسٹر فلور پر آٹومیٹکر وہیل چیئرز بھی دستیاب ہیں جو تیس ریال کےے عوض کرائےے پر لی جاسکتی ہیں۔ے انہیں خود ہ ی چلیا جاسکتا ہے ۔ یہ ان لوگوں کے لئے مفید ہیں جو ضعیف ہوں اور ان کے ساتھ کوئی نوجوان بھی نہ ہو۔ بڑے دروازوں میں سیڑھیوں کے ساتھ وہیل چیئر کے راستے بھی موجود ہیں۔ مسجدر رمیںر رجگہے رجگہے رآبر رزمزمر رکےے رکولرر ررکھےے رہوتےے رہیں۔ے رانر رکولرزر رکےے رساتھے رہی ڈسپوزیبل گلس بھ ی موجود ہوت ے ہیں ۔ ی ہ مسجد کا حسن انتظام ہے ک ہ ان کولرز میں کبھ ی پانی اور گلس کو کبھ ی ختم نہیں ہون ے دیا جاتا ۔ اگر آپ مسجد میں کافی وقت گزارنا چاہتے ہیں تو جاتے ہی آب زمزم نہ پئیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی زیادہ پینے سے رفع حاجت کی خواہ ش زیاد ہ ہوتی ہے اور مسجد س ے ل ے کر طہارت خان ے تک جان ے اور آنے کا فاصلہ تقریبا ً ایک کلومیٹر ہے۔ زیادہ پانی پینے کی بدولت آپ کو بار بار طواف اور سعی چھوڑ کر طہارت خانے کے چکر لگانے پڑیں گے۔ عمرہ اور دیگر عبادات سے فارغ ہو کر آپ واپسی سے پہلے دل کھول کر آب زمزم پینے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔ مسجد میں جوتوں کو ٹھکان ے لگانا بھ ی ایک مسئل ہ ہے۔ مسجد میں جگ ہ جگ ہ جوتوں کے ڈبے ہیں جن پر نمبر لکھے ہوئے ہیں۔ جب میں پہلی مرتبہ حرم گیا تو 100نمبر ڈبے میں اپنے جوتے رکھ کر آگے چل گیا۔ میں خوش تھا کہ نمبر بہت آسان ہے۔ واپسی پر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا کیونکہ 100نمبر ڈبہ کہیں نظر نہ آرہا تھا۔ اس ضمن میں یہ بھی ضروری ہےے ک ہ آپ ڈبےے نمبر ک ے ساتھے سات ھ اس درواز ے کا نمبر یا نام بھ ی یاد رکھیں جس کے راستے پر وہ ڈبہ پڑا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں ایک مسئلہ اور درپیش ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے جوتا جہاں رکھ دیا ہے اب واپسی کے لئے بھی وہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اگر آپ فیملی کے ساتھ آئے ہیں تو آسان حل یہ ہے کہ تمام جوتے ایک لفافے میں ڈال کر اسے ساتھ ہی رکھ لیں اور کعبہ کے قریب ترین کسی ڈبے میں یہ لفافہ ڈال کر اس کا نمبر یاد کرلیں۔ اس طریقے سے آپ آسانی سے جس راستے سے چاہیں واپس جا سکیں گے۔
کعب ۃ الل ہ مسجد الحرام کا مرکز کعبہ ہے۔ اس مسجد کا لے آﺅٹ دنیا کی دوسری تمام مساجد سے مختلف ہے۔ تمام مساجد عموما ً مربع یا مستطیل شکل کی بنائی جاتی ہیں اور ان کا رخ خانہ کعبہ کی طرف ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مسجد الحرام چونکہ کعبہ کے گرد تعمیر کی گئی ہے ،اس لئے اس کی شکل تقریبا ً بیضوی ہے۔ اس مسجد میں صفیں بھی دائرے کی شکل میں بنتی ہیں۔ ظاہر ہے ان کا رخ کعبہ کی طرف ہوتا ہے۔ کعب ہ اور مسجد کی عمارت کے درمیان کھل میدان ہے جسے "مطاف" کہتے ہیں ۔ یہاں 30
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
حجاج اور دیگر زائرین کعبہ کے طواف کی سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ مطاف بالکل گول شکل کا نہیں ہے بلکہ تقریبا بیضوی شکل کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد الحرام کی توسیع شمال و جنوب کی طرف زیادہ کی گئی ہے جبکہ مشرق اور مغرب کی طرف اس کی زیادہ توسیع نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسجد بیضوی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اگر مطاف میں جگہ نہ ہو تو طواف فرسٹ یا سیکنڈ فلور پر بھی کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں پر پھیرا خاصا طویل ہوجاتا ہے۔ مطاف میں طواف کرت ے ہوئ ے سات پھیر ے لین ے کے لئے تقریبا ً ایک سے دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے لیکن یہی فاصلہ مسجد کے اوپر والے فلورز پر اندازا ً سات کلومیٹر ہو جاتا ہے۔ مشہور تاریخی روایات کے مطابق کعبہ کی تعمیر متعدد مرتبہ کی گئی۔ اس کی پہلی تعمیرر فرشتوںر نےے کی جور مرورر زمانہے کےے ساتھے ختم ہوگئی۔ے اللہے تعالیٰے کےے حکمر کے مطابق سیدنا ابراہیم علی ہ الصلوة روالسلم ن ے اسی جگ ہ پر اس کی دوبار ہ تعمیر سیدنا اسماعیل علیہے الصلوة رواالسلم کی مدد سےے کی۔ے اس موقع پر کعبہے سادہے پتھروں کی عمارت تھ ی جو بغیر سیمنٹ وغیر ہ ک ے ایک دوسر ے ک ے اوپر رکھے ہوئ ے تھے۔ اس کی تیسری تعمیر قریش نے کی جو سیدنا اسماعیل علیہ السلم کی اولد ہونے کے ناتے اس کے متولی تھے۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے اعلن نبوت س ے تقریبا ً پانچ سال قبل بھی کعبہ کی تعمیر کی گئی تھی۔ اس موقع پر مختلف عرب قبائل نے اس میں حصہ لیا ۔ ہر قبیلےے کےے یہے خواہ ش تھ ی کہے حجر اسود نصب کرنےے کی سعادت اسےے حاصل ہو۔ے نوبت کشت و خون تک جا پہنچی ۔ بالخر یہ فیصلہ ہوا کہ اگلی صبح جو شخص کعبہ میں داخل ہو گا ،اس کا فیصلہ قبول ہوگا۔ اگلے دن تمام قبائل کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) ہیں۔ سب ہی لوگ آپ کی صداقت ،امانت اور دیانت دارانہ فیصلوں کے قائل تھے۔ آپ ن ے اس قضیے کا فیصل ہ یہ فرمایا کہ اپنی چادر بچھ ا کر اس پر حجر اسود رکھ دیا اور تمام قبائل کے نمائندوں کو اس کے کنارے پکڑا دیے۔ انہوں نے چادر اٹھائی اور آپ ن ے اپن ے دست مبارک س ے حجر اسود نصب فرما دیا ۔ اس طرح سب لوگ مطمئن ہوگئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعلن نبوت سے قبل حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو عرب معاشرے میں کیا مقام حاصل تھا۔ قریش کی تعمیر میں کچھ رقم کم پڑ گئی تھی کیونکہ انہوں نے اس کا اہتمام کیا تھا کہے صرف حلل کمائی ہ ی کعبہے کی تعمیر میں استعمال ہوگی۔ے اس وجہے سےے کعبہے کی تعمیر مکمل ابراہیمی بنیادوں پر ن ہ ہوسکی ۔ اس کا کچ ھ حص ہ باہ ر ر ہ گیا جس ک ے گرد دیوار بنا دی گئی۔ یہ دیوار حطیم کہلتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی یہ خواہش تھی کہ آپ اسے دوبارہ ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر فرمائیں ۔ صحیحین کی روایت کے مطابق آپ نے فتح مکہ کے موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا اور یہ بھی فرمایا کہ ” ،ابھی تمہاری قوم کے لوگ نئے نئ ے مسلمان ہوئ ے ہیں ۔ اگر ان ک ے مرتد ہون ے کا خطر ہ ن ہ ہوتا تو میں ایسا کر گزرتا۔“ 31
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلفت کے زمانے میں شامی افواج کی سنگ باری سے کعبہ کی چھت جل گئی تھی۔ آپ نے اس کی تعمیر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی خواہش کے مطابق ابراہیمی بنیادوں پر کی۔ آپ کی شہادت کے بعد عبد الملک بن مروان نے آپ کے کئے ہوئے اضافوں کو گرا کر اس کی صورت قریش کی تعمیر کی طرح کردی۔ بعد میں جب اسے سیدہ عائشہ رضی اللہے عنہ ا کی حدیث معلوم ہوئی تو اسےے اس کا افسوس ہوا لیکن اس نےے عمارت کو ایس ے ہ ی رہن ے دیا ۔ ولید بن عبد الملک ک ے دور میں اس ک ے حکم پر کعب ہ ک ے دروازے، پرنالے اور اندرونی ستونوں پر سونے کا کام کیا گیا۔ بعد میں کئی بادشاہوں نے کعبہ کی تعمیر کی خواہ ش کا اظہار کیا لیکن علماءن ے اس کی سختی س ے مخالفت کی کیونکہ اس صورت میں ی ہ ایک کھیل بن جاتا اور جس کا جی چاہتا ،کعب ہ کو گرا کر اس کی تعمیر کرتا رہتا۔ کعب ہ کی عمارت چونک ہ مکعب نما ( ) Cubicalہے ،اس لئ ے اس ے کعب ہ کہ ا جاتا ہے۔ اس کےے چار کونےے ہیں۔ے ایک تو حجر اسود وال رکونا ہے۔ے باقی کونوں کو رکن یمانی ،رکن شامی اور رکن عراقی کہتےے ہیں کیونکہے ان کا رخ بالترتیب یمن ،شام اور عراق کی طرف ہے۔ ہ م لوگ جب پاکستان میں نماز پڑھت ے ہیں تو ہمارا رخ تقریبا ً حجر اسود کی طرف ہوتا ہے۔ کعب ہ کا طواف اس کی عمارت کو اپن ے بائیں ہات ھ پر رکھت ے ہوئ ے خلف گھڑی وار ( ) Anti Clock Wiseسمت میں ہوتا ہے۔ اس ک ے ہ ر پھیر ے کا آغاز اور اختتام حجر اسود وال ے کون ے س ے ہوتا ہے۔ طواف کرن ے والوں ک ے لئ ے سنت ہے ک ہ و ہ ہ ر پھیرے میں حجر اسود کا بوسہ لیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تودور سے اس کی طرف اشارہ کر لیں۔ یہ اشارہ بوسے کے قائم مقام ہوتا ہے۔ جب میں پہلی بار حرم کی زیارت س ے فیض یاب ہوا تو میں باب فہ د س ے داخل ہوا تھا ،اس لئ ے میر ے سامن ے رکن یمانی تھا ۔ کچ ھ ن ہ پوچھئ ے ک ہ کعب ہ کی پہلی زیارت کا کیا لطف تھا۔ے اس لطف کی کیفیت کا عالم وہ ی جان سکتےے ہیں جنہیں یہے زیارت حقیقتاً نصیب ہوئی ہو۔ ہمارے ہاں یہ روایت مشہور ہے کہ پہلی نظر کے وقت جو بھی دعا مانگی جائےے گی وہے مقبول ہوگی۔ے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ے لوگوں نےے محض اپنی خوش فہمی کو رسول الل ہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے منسوب کر دیا ہے۔کعب ہ کی حاضری اصل میں اللہے تعالی ٰ ک ے دربار میں حاضری ہے۔ اس پوری حاضری میں جب بھ ی اور جہاں بھ ی کوئی دعا مانگی جائےے گی ،اللہے تعالی ٰ اسےے اپنی مشیت اور اپنےے قانون کے مطابق قبول فرمائے گا۔ میں طواف کرنے والوں میں شامل ہوئے بغیر گھوم کر حجر اسود کے سامنے آگیا۔ ان دنوں صفر کا مہین ہ تھ ا اور ابھ ی عمر ہ کا سیزن شروع نہیں ہوا تھا ،اس لئ ے زیاد ہ رش نہیں تھا لیکن یہ کم رش بھی بلمبالغہ سینکڑوں افراد پر مشتمل تھا اس لئے حجر اسود کو بوسہ دینے کا کوئی موقع نہ تھا۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر حجر اسود کی طرف اشارہ کیا۔ یہ اس کے بوسے ہی کی ایک شکل تھی۔ انسان کی یہ خواہش ہے کہ جب وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو تو اس کا رب مجسم صورت میں اس ک ے سامن ے موجود ہو ۔ و ہ اس ک ے قدموں س ے لپٹے ،اس ک ے ہاتھوں کو 32
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
چومے ،اس کے آگے سر بسجود ہو۔ اسی خواہش کے پیش نظر لوگوں نے اپنے معبودوں کے بت بنائے۔ اصل خدا کو ہم مجسم صورت میں اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی زیارت مقرر کر دی جہاں انسان لپٹ کر اپنے رب کے سامنے فریاد کر سکتا ہے۔ اس ک ے آگ ے گڑگڑا سکتا ہے۔ حجر اسود ک ے بوس ے کو الل ہ تعالی ٰ کا ہاتھ چومن ے کے قائم مقام قرار دیا گیا ۔ ظاہ ر ہے ،لکھوں لوگوں کے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ اسے باقاعدہ بوسہ دیں ،اس لئے ہاتھ سے اشارے کو بوسے کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔ بعض لوگ اشارہ کرکے اپنے ہاتھ کو چوم رہے تھے ،اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ سنت یہی مقرر کی گئی ہے کہ ہاتھ سے صرف اشارہ کیا جائے۔ اگر طواف کرتے ہوئے کعبہ کے قریب رہا جائے تو کم چلنا پڑتا ہے لیکن یہاں رش زیادہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے رک رک کر چلنے کی صورت میں وقت اتنا ہی لگتا ہے جتنا دور سے لمبا چکر لیت ے ہوئ ے لگتا ہے۔میں ن ے حجر اسود س ے طواف کا آغاز کیا ۔ حجر اسود والے کون ے ک ے سات ھ ہ ی کعب ہ کا درواز ہ ہے۔ کون ے اور درواز ے کی درمیانی جگ ہ کو ملتزم کہتے ہیں ۔ یہاں لوگ لپٹ کر کھڑ ے تھے اور اپن ے پروردگار ک ے سامن ے زاروقطار رو رہے تھے۔ کعبہ کا دروازہ زمین سے چھ فٹ سے زائد بلند ہے۔ سیاہ غلف میں سنہرے رنگ کا دروازہ انتہائی دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔ کعبہ کے اسی طرف سیدنا ابراہیم علیہ السلم سے منسوب پتھر ہے۔ اسے شیشے کے ایک کیس میں رکھ ا گیا ہے۔ے میں نےے قریب ہ و کر اس پتھ ر کو دیکھا ،اس پر آپ کے قدموں کے نشانات بنے ہوئے تھے۔ اب میں گھوم کر حطیم کی طرف آگیا۔ یہ ایک بریکٹ کی شکل کی دیوار ہے جو کعبہ کی شمال مغربی سمت میں بنائی گئی ہے۔ اس کے اندر کا حص ہ کعب ہ میں داخل ہے۔ یہاں لوگ نوافل پڑھ رہے تھے۔ بعض لوگ طواف میں حطیم کے اندر س ے گزر جات ے ہیں ،ی ہ درست نہیں کیونک ہ طواف پور ے کعبہ ک ے گرد ہونا چاھئیے۔ رکن شامی اور رکن عراقی کے سامنے سے گھومتا ہوا میں رکن یمانی تک آ گیا اور پھر تھوڑی دیرمیں دوبارہ حجر اسود تک پہنچ گیا۔ یہاں پر پھر ہاتھ اٹھا کر بوسے کا اشارہ کیا اور دوسرا پھیرا شروع کر دیا ۔ میری زبان پر لبیک کا تران ہ جاری تھ ا اور دل میں اپنے رب ک ے حضور حاضری کی سی کیفیت تھی ۔ یہ ی کیفیت قائم رکھنا حج اور عمر ے کی اصل روح ہے۔
طواف طواف کے چکر دراصل قربانی کے پھیرے ہیں۔ انسان اپنے رب کے حضور خود کو قربانی ک ے لئ ے پیش کرتا ہے۔ ی ہ سیدنا اسماعیل علی ہ السلم کی قربانی کی یاد ہے۔ رب کا بندہ پروانےے کی طرح گھومتا ہوا اپنےے رب کےے حضور قربان ہونا چاہتا ہے۔ے اگر خالصتا ًر مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ نقصان کا سودا نہیں ،اپنی جان کو اپنے رب ک ے حضور پیش کرک ے انسان و ہ کچ ھ حاصل کر لیتا ہے جس کی قیمت ی ہ پوری دنیا مل کر بھی ادا نہیں کر سکتی۔ ہجوم کی وج ہ س ے میر ے لئ ے اپنی نارمل رفتار پر چلنا دشوار ہ و رہ ا تھا ۔ میں آہستہ آہست ہ دائر ے ک ے باہ ر کی طرف حرکت کرن ے لگا ۔ اب کھلی جگ ہ میسر تھی ۔ میر ے چلنے 33
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
میںر رایکر رردہمر رپیدار رہونےے رلگا۔ے رمیںر رسوچنےے رلگار رکہے ردنیار رمیںر ردائرویر رحرکتر ر(Circular )Movementکو ایک عجیب اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کائنات بنائی ہے ،اس میں عظیم الجث ہ سیاروں اور ستاروں س ے لیکر ایک چھوٹ ے س ے الیکٹران تک ہ ر چیز کسی مرکز کے گرد گردش کر رہی ہے۔ اپنے رب کے آگے سر بسجود کائنات کے آگے مجھے اپنی حیثیت ایک الیکٹران کی سی معلوم ہوئی جو اپن ے مرکز ( ) Nucleusک ے گرد گردش کر رہ ا تھا ۔ کعب ہ کی موجودگی تو ایک علمتی شکل تھی ،دراصل ی ہ طواف تو اپن ے رب کے لئ ے تھا ۔ انسان اپن ے رب کو اپنی زندگی کا محور و مرکز مان کر اسی ک ے گرد گردش کرتا رہے ،یہ ی طواف کا سبق تھا ۔ یہاں س ے جان ے کے بعد بھ ی اگر اپنا الل ہ ہ ی انسان کے فکر و عمل کا مرکز بنا رہے تو اس نے اس طواف کا حق ادا کردیا ۔ سات پھیرے کب مکمل ہوئے ،اس کا پتہ ہی نہ چل۔ مطاف میں طواف کرنے والوں کے لئے خاصی جگہ چھوڑ کر پیچھے صفیں بندھی ہوئی تھیں۔ کارپٹ بچھے ہوئے تھے اور لوگ کعبہے کی جانب منہے کئےے نماز ،اذکار ،تلوت اور دعاﺅ ں میں مشغول تھے۔ے ساتواں پھیرا مکمل کرن ے ک ے بعد میں ن ے ان صفوں میں آ کر دو نفل ادا کئے۔ اگر حجر اسود کی سیدھ میں آپ پیچھے ہٹتے جائیں تو سیدھے صفا کی طرف پہنچ جائیں گے۔ چونکہ مطاف مسجد کی عمارت کی نسبت نشیب میں واقع ہے ،اس لئے یہاں سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ میں نے اپنی فیملی سے ملنے کے لئے یہی جگہ طے کی تھی۔ جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا ک ہ ی ہ سب ہ ی فیملیوں کا میٹنگ پوائنٹ ہے۔ تھوڑی دیر میں ہ م اکٹھے ہوگئے۔ اب صفا و مروہ کی سعی کی باری تھی۔
صفا و مرو ہ ہ م لوگ حجر اسود کی سید ھ میں چلت ے ہوئ ے صفا تک آئے۔ صفا ایک پہاڑی ہے جس کی عظیم تاریخی و شرعی اہمیت ہے۔ حضور نبی کریم صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے دور میں یہ اہل مکہ کے لئے اہم اعلن کرنے کے لئے ادا ہوتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ن ے بھ ی اپنی پہلی عام دعوت یہیں دی تھی ۔ آپ ن ے لوگوں کو یہاں اکٹھ ا کرک ے ان سے پوچھا ” ،اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ پہاڑی کے دوسری طرف ایک فوج آرہی ہے تو کیا تم اس بات پر یقین کر لو گے۔ “لوگوں نے بالتفاق کہ ا ” ،بالکل ،کیونکہ آپ جھوٹ نہیں بولتے۔ “ اس اعتماد ک ے بعد آپ ن ے انہیں اپنی رسالت کی طرف دعوت دی ۔ اس س ے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعوت دین کا کام کرنے والے کا اپنا کردار اعلیٰ اخلقی صفات کا حامل ہونا چاھئیے۔ اب صفا ک ے صرف چند پتھ ر ہ ی باقی ر ہ گئ ے ہیں جنہیں کچ ھ میٹریل لگا کر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ بہ ت س ے لوگ صفا ک ے پتھروں پر بیٹھے تھے۔ صفا ک ے پہل ے فلور کی چھ ت پر بڑا سا ایک گول سوراخ ہے۔ اس کے اوپر دوسرے فلور پر ایک گنبد ہے۔ یہاں دائروی شکل میں یہ آیت لکھی ہوئی تھی۔ ن الصفا و المروة رمن شعائر اللہ۔ فمن حج البیت او اعتمر فل رجناح علی ہ ان یطوف را ّ بھما ۔ ومن تطوع خیرا فان الل ہ شاکر علیم ۔ (البقرہے )2:158۔ ب ے شک صفا اور مرو ہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تو جو کوئی حج یا عمرہ کرے ،اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے 34
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کہ وہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے۔ اور جو اپنی طرف سے نیکی میں زیادتی کرے تو اللہے تعالیٰے شاکر و علیم ہے۔ “ مشرکین عرب نےے کعبہے کی طرح یہاں بھ ی بت آویزاں کررکھے تھے ،اس لئے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خیال گزرا کہ شاید یہ سعی کوئی جاہلیت کی رسم ہے۔ے اللہے تعالیٰے نےے اس آیت میں یہے واضح فرما دیا کہے یہے سعی جاہلیت کی رسم نہیں بلکہ اللہ کی نشانی اور سنت ابراہیمی ہے۔ میری بیٹی ماریہے اس وقت ڈیڑھے سال کی تھی۔ے چھوٹےے بچےے کو اٹھ ا کر طواف اور سعی خاصا مشکل کام ہے۔ بہت سے لوگوں نے تو اس کا حل یہ نکال ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بیلٹ کی مدد سے پشت پر باندھ لیتے ہیں۔ بعض لوگ اس مقصد کے لئے وہیل چیئر کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں فوری طور پر یہی حل سوجھا کہ سعی کرنے کے لئے دو پارٹیاں بنائی جائیں چنانچ ہ میری اہلی ہ اسماءاور ماری ہ کو ل ے کر صفا ک ے پاس بیٹ ھ گئیں اور میں فاطم ہ کو ل ے کر سعی ک ے لئ ے نکل کھڑا ہوا ۔ بعد میں معلوم ہوا ک ہ وہیل چیئر وال حل زیادہ مناسب ہے۔ سعی کی حقیقت بھ ی طواف ہ ی کی طرح ہے۔ ی ہ بھ ی الل ہ تعالیٰ کی را ہ میں قربان ہونے کے لئے قربانی کے چکر ہیں۔ صفا و مروہ کے درمیان اب ایک ائر کنڈیشنڈ گیلری بنا دی گئی ہے جو تقریبا ً پون کلومیٹر طویل ہے۔ یہ دو منزلہ گیلری ہے اور اس میں سے بہت س ے درواز ے باہ ر اور مسجد الحرام کی طرف کھلت ے ہیں ۔ فرش اور دیواروں پر اعلیٰ درج ے ک ے سبز و سفید ماربل کا استعمال کیا گیا ہے اور بہ ت خوبصورت فانوس چھت س ے لٹک رہے ہیں ۔ میں سوچن ے لگا ک ہ اب تو ی ہ حالت ہے ،اس وقت کیا عالم ہوگا جب گرمی میں سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے یہاں پھیرے لئے ہوں گے۔ تقریبا ًر پانچ چ ھ منٹ میں ہ م مرو ہ پر پہنچ گئے۔ صفا ک ے برعکس یہاں اب پہاڑی کی کوئی نشانی موجود نہیں۔ صرف فرش تھوڑا سا اوپر اٹھتا ہے۔ مروہ پر پہنچ کر ایک پھیرا مکمل ہ و جاتا ہے۔ امام حمید الدین فراہ ی کی تحقیق ک ے مطابق مرو ہ سیدنا اسماعیل علیہ السلم کی قربان گاہ ہے۔ جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں: ”سعی اسماعیل علی ہ السلم کی قربان گا ہ کا طواف ہے۔ سیدنا ابراہیم علی ہ السلم نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اس قربان گاہ کو دیکھا تھا اور پھر حکم کی تعمیل کے لئے ذرا تیزی سے چلتے ہوئے مروہ کی طرف گئے تھے۔ بائیبل میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے: ’تیسرےے ردنر رابراہیمر رنےے رنگاہے رکیر راورر راسر رجگہے رکور ردورر رسےے ردیکھا۔ے رتبر رابراہیمر رنےے راپنے جوانوں سے کہا :تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو۔ میں اور یہ لڑکا ،دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کرکے تمہارے پاس لوٹ آئیں گے۔ (پیدائش ’) 5-22:4 چنانچ ہ صفا و مرو ہ کا ی ہ طواف بھ ی نذر ک ے پھیر ے ہ ی ہیں جو پہل ے معبد ک ے سامن ے اور اس کے بعد قربانی کی جگہ پر لگائے جاتے ہیں۔“ (قانون عبادات)
اس قربانی کے بارے میں دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ منی میں ہوئی تھی۔ یہاں پر دعا کرنے کے بعد ہم نے صفا کی طرف رخ کرک ے دوسرا پھیرا شروع کیا۔ دوران سعی سبز نشانوں کے درمیان لوگ تیز چل رہے تھے بلکہ دوڑ رہے تھے۔ اس مقام پر حضور نے اپنی رفتار تیز کی تھی۔ صفا پر پہنچ کر اب میں اور فاطمہ بیٹھ گئے۔ میں نے ماریہ کو اٹھا لیا اور میری اہلیہ اسماء کو لے کر سعی کے لئے نکل کھڑی ہوئیں۔ 35
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جب یہ لوگ دو پھیرے مکمل کرکے واپس پہنچے تو میں نے سوچا کہ اوپر والے فلور پر رش کم ہوگا اور نسبتا ً آسانی س ے سعی ہ و جائ ے گی ۔ چنانچ ہ ہ م لوگ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والے فلور پر چلے گئے۔ یہاں واقعی رش بہت کم تھا ،چنانچہ بڑے اطمینان سے سعی مکمل ہوگئی۔ اس کے بعد ہم نے یہ معمول بنا لیا کہ ہم ایک وہیل چیئر لے لیتے اور جو بھی تھک جاتا وہ اس پر ماریہ کو لے کر بیٹھ جاتا اور باقی افراد پیدل چلتے رہتے۔ مجھے خیال آیا ک ہ اگر حکومت یہاں پر متحرک بیلٹ لگا د ے تو بہ ت س ے لوگوں کو آسانی ہو جائے کیونکہ وہیل چیئر لگنے سے کئی لوگوں کے پاﺅں زخمی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح طواف کرن ے ک ے لئ ے پہل ے یا دوسر ے فلور پر ایک بڑی سی متحرک بیلٹ لگا دی جائ ے جس پر معذور افراد کو وہیل چیئر سمیت کھڑا کردیا جائے۔ بس اسٹاپ اور باتھ رومز س ے ل ے کر ان بیلٹس تک مزید بیلٹیں بھ ی لگا دینی چاہیئیں ۔ شاید مستقبل میں کسی وقت حکومت اس منصوبے پر عمل درآمد کر ڈالے۔ صفا سے شروع ہونے والی سعی کے ساتویں پھیرے کا اختتام مروہ پر ہوتا ہے۔ اس پر عمر ہ ختم ہ و جاتا ہے اور احرام کھولن ے کی اجازت ہوتی ہے۔ احرام کھولن ے ک ے لئ ے سر منڈوانا یا بال کٹوانا ضروری ہے۔ دور قدیم میں جب کسی کو اپنی غلمی میں لیا جاتا تو اس کے بال منڈوا یا کٹوا دیے جاتے تھے۔ عمرہ کے اختتام پر یہ عمل اس بات کی علمت ہے کہ بندے نے اپنے آپ کو اپنے رب کی غلمی میں مکمل طور پر دیا ہوا ہے۔
حلق یا قصر مروہ کے دونوں فلورز پر ایک بڑا دروازہ ہے جس کے باہر بہت سے ہیئر کٹنگ سیلون ہیں۔ برادر مکرم ریحان احمد یوسفی کےے بقول اگر آپ نےے زیادہے پیسےے دےے کر خراب بال کٹوان ے ہوں تو یہاں س ے کٹوائیے۔ اس سلسل ے میں میری تحقیقات ی ہ ہیں ک ہ اگر آپ کا ارادہ سر منڈوانے کا ہو تو آپ یہاں ذوق فرما سکتے ہیں ۔ ہاں اگر آپ بال کٹوانے کا ارادہ رکھتےے رہوںر رتور رپھرر رحرمر رسےے ردورر رکسیر رحجامر رکار ررخر رکیجئے۔ے رزیادہے ربہترر رہےے رکہے رکسی پاکستانی یا انڈین سیلونر سےے بال کٹوائیں ورنہے عرب نائی آپ کےے ہیئر اسٹائل کو نہ سمجھن ے ک ے باعث اس کا بیڑا غرق کر سکتا ہے۔ ہاں اگر آپ فوجی بھائیوں کی طرح پیالہ کٹ بال رکھتے ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں۔ مجھےے رفنر رحجامتر رسےے رکوئیر رشغفر رنہیں۔ے رایکر رحجامر ربھائیر رسےے رحاصلر رکیر رگئی معلومات کے مطابق سر مونڈنا اس فن کی مبادیات میں سے ہے اور یہ کام اس فن کے سیکھن ے والےے اپن ے ابتدائی ایام میں سیکھے لیت ے ہیں ۔ چونکہے حرم ک ے قریب دکانیں اپنی کمرشل اہمیت کی بنا پر بہت مہنگی ہیں ،اس لئے سیلونز کے مالک اپنی کاروباری لگت کم کرنے کے لئے اناڑیوں کو بھرتی کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ مشین کی مدد سے سر مونڈنا تو با آسانی سیکھ جاتے ہیں لیکن بال کاٹنے کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے چنانچہ یہ آپ کے بالوں کا وہی حال کرسکتے ہیں جو ایک ارنا بھینسا نازک برتنوں کی دکان کا کرتاہے۔ شاید اس لئے عرب نائیوں کی دکان پر ”صالون الحلقہ“ لکھا ہوتا ہے کہ آ ﺅ اور ٹنڈ کرواتے چلے جاﺅ۔ باب مرو ہ ک ے باہ ر وسیع صحن میں طہارت خان ے موجود ہیں ۔ لوگ کہت ے ہیں ک ہ عین اس مقام پر ابوجہ ل کا گھ ر ہوتا تھا ۔ مسجد ک ے باہ ر صحن پر لوگ اس طرح دھرنا دیے 36
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بیٹھے تھے جیس ے ہماری سیاسی جماعتیں دھرنا دیتی ہیں ۔ ی ہ ن ہ صرف مرد تھے بلک ہ ان میں خواتین بھ ی تھیں۔ے ان کےے بچےے ادھ ر ادھ ر کھیل رہےے تھے۔ے دراصل مسجد کےے اندر کھانےے پینےے کی چیزیں لنا ممنوع ہے ،اس لئےے لوگ عبادت سےے فارغ ہ و باہ ر آتےے ہیں، دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں ،صحن میں بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں اور پھر عبادت کے لئے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔
رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی جائ ے ولدت باب مرو ہ س ے تھوڑ ے س ے فاصل ے پر ،بس اسٹاپ ک ے قریب ہ ی لئبریری کی و ہ عمارت تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا گھر ہوا کرتا تھا۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ و ال ہ و سلم کی جائ ے پیدائش تھی ۔ اس س ے کچھ فاصل ے پر جناب ابو طالب کا گھ ر تھا جنہوں نے والدہ اور دادا کی وفات کے بعد آپ کی خدمت کی۔ میں تصور ہی تصور میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور کے مکہ کو دیکھنے لگا ۔ آپ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی ولدت ،جوانی ،سید ہ خدیج ہ رضی الل ہ عنہ ا سے شادی ،معاشرےے میں مثبت سرگرمیوں کےے فروغ سےے لےے کر دعوت دین کےے آغاز کے مراحل میری نگاہوں ک ے سامن ے گردش کرن ے لگے۔ صفا پر پہل وعظ ،مک ہ میں جگ ہ جگہ دین کی دعوت ،سرداروں سےے خطاب ،عام لوگوں سےے خطاب یہے سب مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ مکہ چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ شدید گرمی میں یہاں کے پتھر انگاروں کی طرح تپ جاتے ہیں اور ہم ننگے پاؤں زمین پر قدم نہیں رکھ سکتے۔ مجھے سیدنا بلل ،عمار ،یاسر اور سمی ہ رضی الل ہ عنہ م یاد آئ ے جنہیں ان ک ے ب ے رحم آقا حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی دعوت قبول کرن ے ک ے سبب اس تپتی ریت پر لٹا کر ان ک ے سینوں پر دہکتے ہوئے پتھر رکھ دیا کرتے تھے لیکن دین کے ان جانثاروں کے پایہ استقلل میں کبھی لغزش نہ آئی۔ مروہ سے واپس آکر ہم لوگ مسجد میں داخل ہوگئے اور پہلے فلور پر جا کر عین کعبہ ک ے درواز ے ک ے سامن ے کھڑ ے ہوگئے۔ یہاں پر کعب ہ انتہائی دلفریب منظر پیش کر رہ ا تھا۔ حرم میں رات کو فلڈے لئٹس کا اتنا خوبصورت نظام ہےے کہے اس ک ے آگےے ہمارےے کرکٹ اسٹیڈیمز کی لئٹس کوئی وقعت نہیں رکھتیں ۔ جب دودھیا لئٹ سیا ہ و سنہری کعب ہ پر پڑتی ہے اور اس کے بیک گراﺅنڈ میں مطاف کا سفید فرش ہوتا ہے ،تو آنکھیں اس منظر کو دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ آپ نے کعبہ کی جو زیادہ تر تصاویر دیکھی ہوں گی ،وہ اسی رخ اور اسی مقام س ے لی گئی ہیں ۔ اگر چ ہ حرم میں تصاویر کشی کی ممانعت ہے لیکن لوگ دھڑا دھ ڑ اپن ے موبائل فونز کی مدد س ے کعب ہ کی تصاویر اتار رہے تھے۔ ایک پولیس مین ن ے انہیں اس س ے منع کیا اور باز ن ہ آن ے پر ان ک ے موبائل چھین لئے۔ یہ ی وج ہ ہے کہ میں نے اس سفر نامے اور اپنی ویب سائٹ میں اپنی بجائے دوسروں کی کھینچی ہوئی تصاویر کو جگہ دی ہے۔ یہاں بہت سکون تھا۔ میری اہلیہ نماز اور اذکار میں مشغول ہوگئیں۔ میں نے ریک میں سے ایک قرآن مجید اٹھا لیا۔ مسجد میں ہر جگہ اس طرح کے ریک رکھے ہوئے ہیں اور ان میں قرآن مجید مختلف زبانوں میں ترجمےے ک ے سات ھ موجود ہیں۔مجھے اس ریک میں 37
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
زیاد ہ تر فرنچ اور جرمن زبان ک ے ترجم ے نظر آئے۔ میری ی ہ عادت رہ ی ہے ک ہ حرم مکہ میں میں اکثر قرآن مجید کی مکی سورتوں کی تلوت کرتا ہوں اور حرم مدین ہ میں مدنی سورتوں کی ۔ اس طرح سیدنا ابراہیم اور حضور علیہما الصلو ة والسلم ک ے ادوار کا ایک پیارا سا نقشہے سامنےے آ جاتا ہے۔ے سامنےے وہ ی مقامات ہوتےے ہیں جہاں اللہے کےے یہ برگزیدہ رسول اور ان کے ساتھیوں کی دینی جدوجہد میں مختلف واقعات پیش آئے ہوتے ہیں۔ میں نے قرآن کھول تو سامنے سورہ ابراہیم تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلم کی اس دعا نے میرے سامنے وہ نقشہ کھینچ دیا جب آپ نے اپنی اولد کی ایک شاخ کو اس مقام پر آباد کیا تھا۔ آپ کے اس اقدام کا مقصد اس دعا سے پوری طرح واضح ہوتا ہے۔ و اذ قال ابرا ہیم رب اجعل ھذا البلد آمنا و اجنبنی و بنی ان نعبد الصنام ۔ رب ان ھن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فان ہ منی و من عصانی فانک غفور رحیم۔ے ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوة ،فاجعل افئدة من الناس ت ھوی الی ھم و ارزق ھم من الثمرات لعل ھم یشکرون ۔ (ابراہیم )37-14:35 اور یاد کرو جب ابراہیم ن ے اپن ے رب س ے دعا کی” ،ا ے میر ے رب! اس شہ ر کو امن کا گہوارہ بنا دے ،مجھے اور میری اولد کو بتوں کی عبادت سے محفوظ فرما دے۔ اے میرے رب! ان (بتوں) نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کر دیا ہے ،تو جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ میں سے ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا تو بے شک تو ہی بخشنے وال مہربان ہے۔ ا ے میر ے رب! میں ن ے اپنی اولد کو اس زراعت س ے محروم اس وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس آباد کر دیا ہے تاکہ یہ نماز قائم رکھیں۔ اس لئے لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر تاک ہ و ہ ان کی طرف (دین کا تعلق قائم کرن ے ک ے لئے ) آئیں اور انہیں پھلوں سے رزق دے تاکہ یہ شکر گزار بن سکیں۔“
کافی دیر یہاں گزارن ے ک ے بعد ہ م لوگوں ن ے واپسی کا اراد ہ کیا ۔ واپسی ک ے وقت ہم س ے ایک غلطی ہوگئی ۔ زیاد ہ آسان ی ہ تھ ا ک ہ ہ م لوگ فرسٹ فلور پر ہ ی چلت ے ہوئ ے باب عبد العزیز یا باب فہ د تک پہنچت ے اور سیڑھیاں اتر کر باہ ر نکل جات ے لیکن ہ م صفا کے پاس کی سیڑھیاں اتر کر گراﺅنڈ فلور پر آگئے اور اپنی طرف سے شارٹ کٹ مارنے کے چکر میں ایک غلط راستے پر چل نکلے۔ تھوڑی دور جا کر احساس ہوا کہ ہم غلط آگئے ہیں۔ یہاں ہر طرف خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ۔ میری اہلی ہ کے لئے کوئی مسئلہ ن ہ تھا ،وہ بڑے اطمینان سے ان کی صفیں پھلنگتی ہوئی بچوں کے ساتھ مطاف کی طرف نکل گئیں جبک ہ میں وہیں بے یارومددگار کھڑا رہ گیا۔ میں واپس مڑا تو وہاں بھی بہت سی خواتین صفیں بنا چکی تھیں۔ میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ،زندگی میں پہلی مرتبہ میں ایسی صورتحال سے دوچار ہوا تھا۔ میرے لئے تو مردوں کی صفیں پھلنگنا بھ ی ہمیش ہ ایک مسئل ہ رہ ا ہے کجا میں خواتین کی صفیں پھلنگتا۔ میں اسی شش و پنج میں مبتل تھ ا ک ہ اچانک میری نظر ایک اور صاحب پر پڑی جو میری ہ ی صورتحال سےے دوچار تھےے لیکن میرےے برعکس ان کےے چہرےے پر پریشانی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ یہ صاحب شکل سے پنجابی اور لہج ے س ے حیدر آباد دکن کے معلوم ہوت ے تھے۔ سر استر ے ک ے تاز ہ تاز ہ اثر س ے سفید لئٹوں میں چاندی کی طرح چمک رہا تھا۔ے وہے بڑےے اطمینان سےے خواتین کی صفوں کو پھلنگتےے ہوئےے آرہےے تھے۔ے یہاں زیادہے تر 38
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
مصر ،شام اور سعودی عرب کی بوڑھ ی خواتین بیٹھ ی تھیں جنہیں ان صاحب کی یہ حرکت ایک آنکھے نہے بھائی۔ے انہوں نےے ہاتھے اٹھ ا کر پوری فصاحت و بلغت کےے ساتھے ان صاحبر رکور رعربیر رمیںر رکوسنےے ردینےے رشروعر رکردیےے ر۔ے رغالبا ًر یہے ر’ککھے رنہے ررہوےے ر‘ر رٹائپر رکے کوسنوں کا عربی ترجم ہ تھ ا ۔ ان صاحب پر اس کا کوئی اثر ن ہ ہوا ،انہوں ن ے باقاعدہ لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھے نچا کر ان عربی کوسنوں کا اردو میں جواب دیا” ،اری اماں! تم بھی تو ہماری طرف آ جاتی ہو ،کیا ہوا اگر غلطی سے ہم یہاں آگئے۔“ ان کی قوت خود اعتمادی دیک ھ کر میں دنگ ر ہ گیا جس کی میں اس وقت خاصی کمی محسوس کر رہ ا تھا ۔ میری حالت تو ی ہ تھ ی ک ہ کاٹو تو بدن میں لہ و نہیں ۔ میں نے فوری طور پر دل ہی دل میں انہیں اپنا نجات دہندہ قرار دیا ،لپک کر ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے تاکہ وہ کہیں ہاتھ سے پھسل نہ جائیں اور تیزی سے ان کی پیروی شروع کی۔ ان ک ے صف پھلنگن ے ک ے نتیج ے میں بنن ے وال ے خل رکا میں ن ے بھرپور طریق ے س ے استعمال کیا ۔ چند سیکن ڈ میں ہ م اس مصیبت س ے چھٹکارا پا چک ے تھے۔ مجھے اصول ً اپن ے محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہئے تھا لیکن بدحواسی میں نے پیچھے بھی مڑ کر نہ دیکھا اور سر پر پاﺅ ں رک ھ کر مطاف کی طرف بھاگا جہاں میری اہلی ہ اور بچ ے میری حالت زار پر ہنس رہےے رتھے۔ے رمیریر راہلیہے رکہنےے رلگیںر ر،ر ر”خدار رکار رشکرر رادار رکریںر رکہے ریہے رعربر رخواتینر رتھیںر ر، پاکستانی یا انڈین خواتین نہیں تھیں۔ “ میں ن ے اس جمل ے کی معنویت پر کافی غور کیا اور جب اس کا مطلب سمجھ میں آیا تو سچ مچ خدا کا شکر ادا کیا۔ باب فہ د ک ے راست ے باہ ر نکلن ے میں ہمیں دس منٹ لگ گئے۔ باہ ر نکل کر ہ م ن ے ایک کولر سے دل کھول کر آب زم زم پیا۔ اس کے بعد میں نے اپنی فیملی کو سٹاپ پر کھڑا ہون ے ک ے لئ ے کہ ا اور خود گاڑی لن ے ک ے چل پڑا ۔ گاڑی خوش قسمتی س ے وہیں موجود تھ ی جہاں میں اس ے چھوڑ کر گیا تھا ۔ اس پر پولیس کی نظر نہیں پڑی تھی ۔ میں اسے لے کر واپس آیا اور بال بچوں کو اس میں لد کر اپنے کزن عابد کے گھر کی طرف روانہ ہ و گیا جو مک ہ ہ ی میں مقیم ہیں ۔ یہاں آکر ہ م ن ے بھابی س ے قینچی مانگی اور خود ہی پورے سر کے مختلف حصوں سے بال کاٹ کر احرام کھول۔
39
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جبل نور اور غار حرا عابد کا گھ ر شارع ام القریٰ پر حرم سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگلی صبح میں تن تنہ ا پیدل ہ ی سوئ ے حرم چل پڑا ۔ راست ے میں میں ن ے ایک بنگالی ریسٹورنٹ پر رک کر کافی کا گلس لیا اور پیدل چلتا گیا۔ میں نے موبائل پر اپنے دوسرے کزن ابرار کو کال کی ۔ ابرار سعودی عرب کے ابو جدائل گروپ میں ملزم تھے اور ان دنوں غار حرا ک ے بالکل نیچ ے جبل نور ک ے دامن میں ان کا سائٹ آفس تھا ۔ ابرار ن ے مجھے حرم کے باب فہد پر پہنچنے کے لئے کہا۔ تقریبا ً آدھ گھنٹے میں میں حرم پر پہنچ گیا ۔ جب میں باب فہد پر پہنچا تو ابرار وہاں کھڑے دانت نکال رہے تھے۔ رسمی کلمات کے بعد ہم لوگ مسجد الحرام میں داخل ہوگئے۔ جمع ہ کی صبح تھی۔ چھٹی کا دن ہونے کے باعث اکثر لوگ فجر کی نماز کے بعد محو استراحت تھے۔ ان دنوں محرم کے آخری ایام تھے ۔ ابھ ی کچھ دن پہل ے ہ ی حاجی رخصت ہوئ ے تھے اور عمر ہ کی ادائیگی کے لئے ابھی ویزوں کا اجرا شروع نہیں ہوا تھا۔ یہ حرم کی زیارت کا آئیڈیل وقت تھا۔ مجھے امید تھی کہ اس مرتبہ حجر اسود کا بوسہ نصیب ہو ہی جائے گا۔ جب ہم لوگ مطاف تک پہنچے تو واقعتا رش بہت ہی کم تھا لیکن ’قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا ہے‘ کی سی کیفیت تھی۔ ہماری طرح کے رش سے بھاگنے والے تین چار سو افراد عین اس وقت بھ ی وہاں موجود تھے ۔ شاید ی ہ مسجد الحرام کا کم س ے کم رش ہوگا ۔ خیر ہ م ن ے اطمینان س ے طواف کیا ،حطیم میں نوافل ادا کئ ے اور باب مرو ہ سے نکل کر جبل نور کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابرار کے کیمپ پر پہنچ کر کچھ دیر سستانے کے بعد ہم جبل نور پر چڑھنے کے لئے تیار ہوگئے۔ جبل نور مک ہ س ے طائف اور پھ ر ریاض جان ے والی سیل ہائی و ے ک ے کنار ے واقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور میں بھی یہ راستہ ہی رہا ہوگا۔ آپ کے گھر سےے پیدل یہاں تک آٹھے دس کلومیٹر کا فاصلہے ہوگا۔ے جبل نور کا سلوپ کافی زیادہے ہے۔ شروع میں اس پر چڑھت ے ہوئ ے راستہے 45رک ے زاوی ے پر اٹھتا ہے اور درمیان میں جا کر تقریبا ًر 60رک ے زاوی ے پر مڑ جاتا ہے۔ پہاڑی ک ے درمیان تک رو ڈ بنا ہوا ہےے جہاں گاڑی جا سکتی ہے۔ آگے پیدل ٹریک ہے۔ راستے کے شروع میں ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس پر عربی ، انگریزی ،اردو ،فرنچ اور ایک آدھ اور زبان میں یہ تحریر درج تھی۔ ”برادران اسلم! نبی کریم صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے اس پہاڑی پر چڑھنا ،اس پر نماز پڑھنا ،اس کے پتھروں کو چھونا ،اس کے درختوں پر گرہیں لگانا ،اس کی مٹی ،پتھر اور درختوں کی شاخوں کو بطور یاد مشروع نہیں کہا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و ال ہ و سلم کی سنت کی اتباع ہ ی میں ہ م سب ک ے لئ ے بھلئی ہے۔ اس لئ ے آپ اس کی مخالفت ن ہ کریں ۔ الل ہ رب العالمین کا ارشاد ہے ” ،اللہ کے رسول تم سب ک ے لئے بہترین نمونہ ہیں۔“
حقیقت ی ہ ہے ک ہ ہمیں دین کو اسی طرح لینا چاہیئ ے جیسا ک ہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے دیا ہے۔ آپ نے کبھی بھی جبل نور پر چڑھنے ،اس پر نماز پڑھنے ، 40
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اس ک ے پتھروں کو چھون ے ،اس کی مٹی اور پتھ ر کو سات ھ ل ے جان ے کا حکم نہیں دیا۔ صحابہے کرام رضی اللہے عنہ م ہ م سےے کہیں زیادہے حضور صلی اللہے علیہے و الہے و سلم سے محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے بھی آپ کی زندگی میں یا آپ کے بعد ایسا نہیں کیا۔ اس لحاظر سےے ریہے اعمالر ریقینیر طورر پرر ردینر اورر رشریعتر رکار رحصہے رنہیںر ہیں۔ے رہاںر دینر اور شریعت سے ہٹ کر ان کی ایک تاریخی اہمیت ضرور ہے جو کسی بھی بڑی شخصیت کے ساتھ کسی چیز کی نسبت ہونے سے پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ میرا اس پہاڑ پر چڑھنے کا مقصد ان جگہوں کو دیکھنا تھا جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے وقت گزارا تھا۔ ان جگہوں کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی حیات طیبہ اور آپ کے معمولت سامنے آتے ہیں جو آپ کی سیرت کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان جگہوں سے آپ کی تعلق کی بنا پر ایک جذباتی وابستگی بھ ی ہ ر مسلمان کو ہوتی ہےے لیکن اس کو بہرحال دین اور شریعت کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیئے۔ فروری کا مہینہ تھا اور دھوپ میں کوئی خاص گرمی نہ تھی لیکن ہمارا پسینہ چھوٹنے لگا ۔ رو ڈ کا سلوپ بہ ت زیاد ہ تھا ۔ پہاڑی ٹریک تک پہنچت ے پہنچت ے ہ م پسین ے س ے نہ ا چکے تھے۔ ابرار کا تعلق دیہاتی ماحول سے تھا۔ میں شہری ماحول سے تعلق رکھنے کے باوجود پابندی سےے اسکواش کھیلنےے کا عادی تھ ا اور اس کےے علوہے پاکستان کےے شمالی علقہ جات میں ٹریکنگ میرا شوق رہا تھا۔ اس کے باوجود اس پہاڑ کی چڑھائی خاصی مشکل معلوم ہو رہی تھی۔ پہاڑی ٹریک پتھروں پر مشتمل تھا۔ بعض جگہوں پر اسے سیڑھیوں کی شکل دینے کی کوشش کی گئی تھی ۔ شاید ی ہ ٹریک ہ م پاکستانیوں ہ ی کو مشکل لگ رہ ا تھ ا ورن ہ بعد میں ایک اور سفر میں میں نے دیکھا کہ اس ٹریک پر ترک بابے اور مائیاں قلنچیں بھرتے ہوئے اوپر جارہے ہیں اور واپس آ رہے ہیں۔ تقریبا ً دو سو میٹر کی بلندی پر ایک چھپر ہوٹل تھا ۔ اس ہوٹل کے بعد راست ے ن ے باقاعد ہ سیڑھیوں کی شکل اختیار کرلی ۔ جگہ جگ ہ کچھ افراد ہاتھ میں کشکول نما برتن لئے کھڑے تھے اور سیڑھیاں بنانے کے لئے چندہ مانگ رہے ہیں ۔ یہاں کی حکومت اس پہاڑ پر چڑھن ے کی حوصل ہ افزائی نہیں کرنا چاہتی ورن ہ یہاں چیئر لفٹ لگانا کیا مشکل تھا ۔ اسی وجہ س ے یہ لوگ یہاں کھڑ ے تھے اور چند ے میں سے کچھ رقم سیڑھیوں پر لگا کر باقی سے اپنا خرچ نکال رہے تھے۔ جبل نور کی چوٹی تکر پہنچنےے میں ہمیںر 45رمنٹر لگے۔ے پہاڑوں پر چڑھنےے کا میرا اسٹائل یہ ہے کہ میں دس بیس قدم اٹھاتا ہوں ،پھر چند سیکنڈ رک کر سانس لیتا ہوں اور پھر آگے چل پڑتا ہوں۔ جب ضرورت محسوس ہو تو رک کر دو تین منٹ آرام بھی کرلیتا ہوں۔ اس کے باوجود ہم خاصی جلدی اوپر پہنچ گئے تھے۔ پہاڑ کی بلندی سے دور دور تک پھیل ہوا مکہ نظر آر ہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور میں آبادی یہاں سے کافی دور رہی ہوگی جبھی آپ نے اس پہاڑ کا انتخاب فرمایا۔ اب مکہ اور شہروں کی طرح پھیلتا ہوا اس پہاڑ سے بھی پرے تک پھیل چکا ہے۔ سامنے البیک ریسٹورنٹ کا چمکتا ہوا زرد اور سرخ رنگ کا سائن بورڈ نظر آرہا تھا۔ مکہ شہر مختلف وادیوں میں پھیل چکا ہے۔ یہ ی وج ہ ہے ک ہ ان وادیوں کو ملن ے والی بہ ت سی سڑکیں پہاڑوں ک ے بیچ میں بنائی گئی سرنگوں سے گزرتی ہیں۔ 41
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اچانک میری نظر دور چمکتی ہوئی مسجد الحرام پر پڑی۔ے مسجد کےے مینار پوری شان کے ساتھ فضا میں ایستادہ تھے اور مسجد کا منظر یہاں سے بہت خوب صورت لگ رہا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں تشریف لتے ہوں گے تو شاید یہاں سے کعب ہ بھ ی نظر آتا ہو ۔ مسجد ک ے بیک گراﺅن ڈ میں زیر تعمیرر 65منزل ہ حرمین ٹاورز کی عمارت بھی نظر آرہی تھی۔ یہ بھی ٹوئن ٹاورز بنائے جارہے ہیں۔ شاید ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا یہ فیشن پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اب ہم پہاڑی کے دوسری جانب اترنے لگے۔ یہاں باقاعدہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ تھوڑا سا اترن ے پر ایک غار آگیا ۔ ی ہ پہاڑ ک ے آر پار جان ے وال غار تھا ۔ اس میں بڑی بڑی چٹانیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں اور اتنا تنگ راستہ تھا کہ بمشکل جسم کو موڑ توڑ کر انسان رینگتا ہوا ان چٹانوں کے درمیان سے نکل سکتا ہے۔ مجھے اپن ے 40انچ کے پیٹ کے ساتھ خاصی مشکل پیش آئی ۔ نجانے یہاں 55-50انچ سائز کے پیٹ والے عرب لوگ یہاں سے کیسے گزر جاتے ہوں گے جن کے آگے میں خود کو خاصا سمارٹ محسوس کرتا ہوں۔ اس غار سے گزرنے کے بعد ہم پہاڑ کی دوسری جانب تھے اور ہمارے سامنے پہاڑ کی دیوار میں غار حرا موجود تھا۔ غار حرا ایک چھوٹا سا غار ہے جس میں بمشکل ایک آدمی نماز پڑ ھ سکتا ہے۔ یہاں آگ ے پیچھے دو جاءنماز رکھے ہوئ ے تھے جن پر چار افراد نوافل ادا کر رہے تھے۔ یہاں سے بھ ی مسجد الحرام صاف نظر آرہ ی تھی ۔ میں سوچنے لگا کہ بعثت سے قبل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیوں فرمایا؟ مجھے سمجھ میں آیا کہ مکہ اس دور میں بھی ایک مرکزی شہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ کثیر تعداد میں لوگ حج اور عمرہے کرنےے کےے لئےے یہاں آیا کرتےے کیونکہے یہے عبادات سیدنا ابراہیم علیہ السلم کے زمانے سے یہاں جاری تھیں۔ اس کے علوہ مکہ ایک بڑا تجارتی شہر بھ ی تھ ا اور یمن س ے شام جان ے والی بین القوامی تجارتی شاہرا ہ کا ایک اہ م جنکشن تھا ۔ شہ ر کی اس گہما گہمی کی وج ہ س ے آپ ن ے جبل نور کا انتخاب فرمایا ہوگا ۔ دور جاہلیت میں بھی تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ایک معمول کی بات تھی اور عرب کے بہ ت س ے لوگ اس ے اختیار کیا کرت ے تھے۔ اس ے اصطلحا ً "تحنُس" کا نام دیا گیا تھا ۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اسے دین میں اعتکاف کی شکل میں جاری فرما دیا۔ میں ان چٹانوں کو دیکھنے لگا۔ یہاں ہر طرف میرے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کےے مبارک ہاتھوں اور قدموں کےے نشانات اب بھ ی موجود ہوں گے۔ے میرےے لئےے یہ احساس ہ ی کافی تھ ا ک ہ میں اس مقام پر موجود ہوں جہاں کی فضا میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے کبھ ی سانس لیا ہوگا۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم پر درود بھیجا۔ درود کیا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے لئے دعا ہے۔ ظاہر ہے ہماری دعاﺅں کے کرنے یا نہ کرنے سے آپ کی شان پر کیا اثر پڑتا ہوگا۔ لیکن یہ دعا محبت کی نشانی ہے۔ ایک سخی جب فقیر کو کچھ دیتا ہے تو فقیر جواب میں اور کچھ نہیں تو دعا کرکے ہی اس کا جواب دیتا ہے۔ میری ذات پر رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کے بے شمار 42
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
احسانات ہیں ۔ سب س ے بڑا احسان تو ی ہ ہے ک ہ آپ ک ے ذریع ے مجھے اپن ے پروردگار کی پہچان نصیب ہوئی اور میں اس کے کلم پاک کی لذت سے آشنا ہوا۔ میں اس کے جواب میں آپ کو کچ ھ دین ے کی اوقات نہیں رکھتا ،صرف آپ ک ے لئ ے اپن ے رب س ے دعا کرکے الفت و عقیدت کا نذرانہ ہ ی پیش کر سکتا ہوں ۔ الل ھ م صل علی محمد و علی ا ٰل محمد کما صلیت ابرا ہیم و علی ٰ ا ٰ ل ابرا ہیم انک حمید مجید ۔ الل ھ م بارک علی ٰ محمد و علی ٰ ا ٰ ل محمد کما بارکت علی ٰ ابرا ہیم و علی ٰ ا ٰ ل ابرا ہیم انک حمید مجید ۔ جمع ہ کی نماز کا وقت قریب آرہ ا تھا ۔ ہماری خواہ ش تھ ی ک ہ جمع ہ کی نماز مسجد الحرام میں ادا کی جائے۔ چنانچہ ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ ذرا سا اوپر چوٹی پر پہنچ ے اور پھ ر اترنا شروع کیا ۔ جو فاصل ہ ہ م ن ے پینتالیس منٹ میں چڑ ھ کر ط ے کیا تھا، اس ے اترن ے میں ہمیں پندر ہ منٹ لگے۔ اب ہ م نیچ ے آبادی میں تھے جہاں ایک وین حرم جان ے ک ے لئ ے تیار تھی ۔ اس میں بیٹھے اور حرم جا پہنچے۔ اب کی ہ م باب السلم سے داخل ہوئے جو صفا و مروہ کی سعی کی گیلری کے عین درمیان میں واقع ہے۔ ہم لوگ سیدھے فرسٹ فلور پر کعبہ کے سامنے جا کر بیٹھ گئے۔ جمعہ کی اذان ہورہی تھی۔ ایسا روح پرور منظر اس سے پہلے زندگی میں دیکھنا مجھے کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔ اذان کے بعد امام صاحب نے خطبہ دیا۔ سعودی عرب میں مساجد پر حکومت کا کنٹرول ہے اور جمع ہ ک ے خطبات بھ ی وزارت س ے تیار ہ و کر آت ے ہیں ۔ ی ہ خطبات مکمل طور پر اصلحی موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں اور آخرت کی یاد دلت ے ہیں ۔ الحمد لل ہ سعودی عرب میں فرقہ واریت موجود نہیں ہے اور لوگ الگ الگ نقطہ نظر رکھنے کے باوجود ایک ہ ی امام ک ے پیچھے نماز ادا کرت ے ہیں ۔ میں سوچتا ہوں ک ہ ہمارے ہاں فرقوں کے زیاد ہ تر فتنے مساجد کی پرائیویٹائزیشن سے پیدا ہوئے ہیں۔ نماز کے بعد مسجد سے نکلن ے کا مرحلہ تھا ۔ شروع شروع میں میں اکثر مسجد سے نکلت ے ہوئ ے کوئی ن ہ کوئی غلطی کر ہ ی جاتا تھا ۔ اس بار غلطی ی ہ ہوئی ک ہ میں ن ے اندر کی بجائ ے باہ ر کی طرف س ے جان ے کا فیصل ہ کیا ۔ ی ہ فیصل ہ مجھے خاصا مہنگا پڑا ۔ سورج پوری آب و تاب س ے چمک رہ ا تھ ا اور سفید ماربل اس کی روشنی کو کسی آئین ے کی طرح منعکس کر رہا تھا۔ پہلےے تو مجھےے احساس نہے ہوالیکن تھوڑی دور جا کر آنکھیں چندھیا گئیں۔ے اب چلنا دوبھ ر ہ و رہ ا تھا ۔ میں ن ے آنکھوں کو بند کیا اور پھ ر تقریبا ً ایک ملی میٹر ک ے برابر ایک آنکھ کھول کر چلنا شروع کیا۔ میرا انداز بالکل نابینا لوگوں کا سا تھا ۔ آنکھوں س ے بری طرح پانی بہہ رہا تھا اور میں بن لدن گروپ کے ان انجینئرز کی جان کو رو رہا تھا جنہوں ن ے حرم کے صحن میں لگان ے ک ے لئ ے سفید ماربل کا انتخاب کیا تھا ۔ بڑی مشکل صحن سے گزر کر بس سٹاپ تک آیا اور ایک وین میں بیٹھ کر عابد کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس دن کےے بعد سےے میں نےے مستقل ًر ایک سن گلس اپنی گاڑی میں رکھے لیا جو میں صرف حرم میں ہی استعمال کرتا ہوں۔
43
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
مک ہ ک ے دیگر تاریخی مقامات حدیبی ہ ا س دن رمضان کی پہلی تاریخ تھی۔ے 23ستمبر کا دن تھ ا اور سعودی قومی دن کی چھٹی بھی تھی۔ ہم نے اس دن مکہ کے تاریخی مقامات دیکھنے کا ارادہ کیا۔ ہم لوگ ظہر کی نماز س ے کچ ھ دیر پہل ے روان ہ ہوئ ے اور عین نماز ک ے وقت حدیبی ہ جا پہنچے۔ یہاں چیک پوسٹ کے ساتھ ہ ی ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ مسجد کافی پرانی تھی۔ صحرا میں لو چل رہی تھی۔ ہم مسجد میں داخل ہوۓ۔ اسی مقام پر صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ 6ھ میں حضور صلی اللہے علی ہ وسلم،ر 1400رصحاب ہ ک ے سات ھ الل ہ تعالی ک ے حکم سے عمرے کے لۓ مکہ تشریف لۓ۔ اہل مکہ نے آپ کو عسفان کے مقام پر روکنے کی کوشش کی ۔ آپ راست ہ بدل کر دشوار گزار راستوں س ے حدیبی ہ ک ے مقام پر پہنچے۔ یہاں آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر مکہ میں بھیجا۔ اہل مکہ نے انہیں روک لیا اور یہ افواہ پھیل دی کہ عثمان شہید کر دیے گئے۔ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن ے صحاب ہ س ے بیعت لی ک ہ و ہ میدان جنگ میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ تاریخ میں ی ہ ”بیعت رضوان“ ک ے نام س ے جانی جاتی ہے کیونک ہ قرآن مجید ن ے ان بیعت کرن ے والوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خوشخبری سنائی ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر عمرہ کرنے سے انکار کردیا ۔ اس ک ے بعد اہ ل مک ہ ن ے سہیل بن عمرو رضی الل ہ عن ہ ،جو بعد میں اسلم لئے ،کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ انہوں نے صلح کی پیش کش کی اور کچھ شرائط پیش کیں ۔ ان شرائط میں صرف ایک شرط مسلمانوں کے حق میں تھ ی کہ قبائل کو ی ہ حق حاصل ہوگا کہ وہ قریش یا مسلمانوں ،جس سے چاہے مل جائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ن ے اس ایک فائدے کے لئے باقی تمام شرائط کو قبول کرلیا جو بظاہ ر مسلمانوں کے مفاد کے خلف تھیں۔ اس سے ہمارے ناعاقبت اندیش لیڈروں کو سبق حاصل کرنا چاہی ے کہ بڑ ے فائد ے کے لئے چھوٹے مفادات کو قربان کرنا ہی عملی سیاست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو فتح مبین قرار دیا ۔ اس موقع پر مسلمانوں ک ے لشکر کی تعداد صرف 1400تھی ۔ دو سال ک ے عرص ے میں اس صلح کی بدولت ی ہ تعداد 10000تک جا پہنچی ۔ جب قریش ن ے اس معاہدے کی خلف ورزی کرکے اس ے توڑ دیا تو حضور صلی الل ہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ کو فتح کرلیا۔ قرآن مجید نے اس صلح کو فتح مبین قرار دیا: "ھم نے تمہیں کھلی فتح عطا کر دی تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی تمام کوتاہیوں کو معاف کرے ،تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کرے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھاۓ۔ ----------جو لوگ آپ کی بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ کی بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہات ھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ (فتح )10-48:1
مسجد جعران ہ 44
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
حدیبیہ میں ظہر کی نماز کی ادائیگی ک ے بعد ہ م آگ ے روان ہ ہوئے۔مک ہ ک ے تیسر ے رنگ روڈ سے ہم نے منیٰ کا رخ کیا۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ منیٰ کا پورا نقشہ دیکھ لیا جائے تاکہ حج کے موقع پر کوئی پریشانی ن ہ ہو ۔ منی ٰ س ے فارغ ہ و کر ہ م مسجد جعران ہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ مسجد طائف جانے والے سیل کبیر والے راستے پر موجود ہے۔ جعرانہ کے مقام پر حرم کی حدود ختم ہ و جاتی ہیں اور فٹ بال کا ایک بہ ت بڑا اسٹیڈیم نظر آتا ہے۔ اس اسٹیڈیم پر نہایت کی خوبصورت قابل حرکت فلڈ لئٹس لگی ہوئی ہیں۔ جعرانہ کے ایگزٹ س ے ایک سڑک نکل کر مسجد جعران ہ کی طرف جاتی ہے جو یہاں س ے نو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس مسجد کی تاریخی اہمیت ی ہ ہے ک ہ غزو ہ حنین ک ے بعد حضور صلی الل ہ علی ہ والہ وسلم نےے یہاں مال غنیمت تقسیم کیا تھا ۔ پھ ر اسی مقام سےے آپ نےے احرام باندھے کر عمرہ ادا فرمایا تھا۔ اسی موقع پر آپ نے قریش کے نومسلموں کی تالیف قلب کے لئے انہیں کچھ زیاد ہ مال عطا فرمایا تاکہ یہ لوگ ایمان پر مضبوطی سے قائم ہ و جا ئیں ۔ اس پر انصار ک ے بعض نوجوانوں کو ی ہ خیال آیا ک ہ آپ انہیں اپن ے ہ م قوم ہون ے ک ے نات ے زیادہ نواز رہے ہیں۔ اگر آپ آمرانہ انداز میں حکومت کر رہے ہوتے تو ان نوجوانوں کو سزا دیتے لیکن آپ ن ے اس کی بجائ ے انصار کو جمع کیا اور تفصیل س ے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ قریش ک ے نومسلموں کو زیاد ہ مال کیوں دیا گیا ہے ؟ اس موقع پر آپ ن ے انصار کو یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ”،لوگ تو مال و دولت لے جائیں گے جبکہ تم اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے جاﺅ گے۔“ آپ نے یہ اعلن فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد بھی آپ کا ٹھکانہ انصار ک ے سات ھ ہ ی ہوگا ۔ ی ہ ایک نہایت ہ ی جذباتی منظر تھا ۔ انصار کی روت ے روت ے ہچکی بندھ گئی ۔ ی ہ خوشی ک ے آنسو تھے جو ظاہ ر کرت ے تھے ک ہ انصار کو حضور س ے کتنی محبت تھی۔
مقام تنعیم مدینہ جانے والے راستے پر تنعیم کے مقام پر حرم مکہ کی حدود ختم ہوتی ہیں۔ یہاں ایک مسجد ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے موسوم ہے۔ دور قدیم سے مکہ کے رہنے والے عموما ً عمر ہ ادا کرن ے کے لئ ے یہاں آ کر احرام باندھت ے ہیں ۔ ویس ے تو اہ ل مک ہ کسی بھی جانب حرم کی حدود سے باہر جا کر احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے لئے آسکتے ہیں لیکن ان کی ترجیح یہی مسجد عائشہ ہوتی ہے کیونکہ یہ مسجد الحرام سے قریب ترین ہے اور یہاں سے حرم تک ٹرانسپورٹ باآسانی دستیاب ہے۔ اس مسجد کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی مخصوص وجوہات کے باعث عمرہ ادا نہ کر سکی تھیں۔ حج کے بعد انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے اس حسرت کا اظہار کیا تو آپ نے انہیں ان کے بھائی عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس مقام تک بھیجا جہاں سے انہوں نے احرام باندھ کر واپس کعبہ آ کر عمرہ ادا کیا۔ جب سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کعبہ کی از سر نو تعمیر کی تو سب لوگوں کو حکم دیا کہ وہ مقام تنعیم سے احرام باندھ کر آ کر عمرہ ادا کریں۔ 45
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
حجون ،جبل خندم ہ اور فتح مک ہ مسجد جعرانہ سے ہم لوگ حجون کے علقے کی طرف آ نکلے۔ یہ وہی علقہ ہے جہاں سے حضور فتح مکہ کے موقع پر شہر میں داخل ہوئے تھے۔ اب یہاں بازار ہی بازار ہیں۔ صلح حدیبی ہ کی شرائط ک ے تحت اہ ل مک ہ اور مسلمانوں میں دس سال ک ے ل ۓ جنگ بندی ہوئی ۔ صرف دو سال بعد قریش ک ے حلیف بنو بکر نےے مسلمانوں ک ے حلیف بنو خزاع ہ پر شب خون مارا اور قریش ن ے ان کا سات ھ دیا ۔ ی ہ حدیبی ہ ک ے معاہد ے کی کھلی خلف ورزی تھ ی جو قریش کی جانب سےے ہوئی۔ے اس کےے بعد اس معاہدےے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ ی تھ ی چنانچہے رسول اللہے صلی اللہے علیہے و الہے و سلم نےے دس ہزار قدوسیوں کا لشکر جرار تیار کیا اور مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس لشکر کا ذکر بائبل کی کتاب استثنا میں موجود ہے۔ سیدنا موسی ٰ علی ہ الصلو ۃ والسلم ن ے اپنی وفات سے پہلے ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے ارشاد فرمایا: خداوند سینا سے آیا ،اور شعیر سے ان پر ظاہر ہوا ،اور کوہ فاران سے ان پر جلوہ گر ہوا، وہ جنوب سے اپنی پہاڑی ڈھلنوں میں سے دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ (کتاب استثنا ) 3-33:2
آپ کی تیاریوں کی خبر سن کر قریش کے سردار ابوسفیان مدینہ آئے اور آپ سے یہ درخواست کی کہ آپ مک ہ پر حمل ہ ن ہ کریں ۔ ابو سفیان چونک ہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے سسر بھی تھے ،اس لئے انہوں نے اپنی بیٹی سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی سفارش بھی کروانا چاہی جس پر وہ تیار نہ ہوئیں۔ حجون س ے نکل کر ہ م جبل خندم ہ کی طرف س ے حرم میں داخل ہوئے۔ فتح مک ہ کے موقع پر حضور نےے مختلف دستوں کو مختلف اطراف سےے مکہے میں داخل فرمایا تھا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ،خندمہ سے داخل ہوئے۔ مکہ کے چند سرکشوں نے ان کا مقابل ہ کرن ے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ مک ہ بڑی آسانی س ے فتح ہوگیا ۔ پورا مکہ فتح ہونےے میں گنتی ک ے صرف چند لوگ قتل ہوئےے جنہوں ن ے سیدنا خالد ک ے دستےے کے سامنے مزاحمت کی تھی۔ مک ہ پر حمل ے س ے قبل ہ ی ابوسفیان رضی الل ہ عن ہ اسلم قبول کر چک ے تھے۔ رسول الل ہ ن ے ان تمام لوگوں ک ے لئ ے معافی کا اعلن کر دیا جو جنگ میں مزاحمت ن ہ کریں، اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیں ،یا کعبہ میں پناہ لے لیں یا پھر ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لیں۔ اہل مکہ نے تیرہ سالہ دعوت میں رسول اللہ کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔ انہیں بھی اپنی زیادتیوں کا پورا احساس تھا۔ حضور نے ان سب کو کعبہ ک ے پاس اکٹھ ا فرمایا اور ان س ے فرمایا” ،میں تمہیں وہ ی کہوں گا جو یوسف ن ے اپنے بھائیوں سے کہا تھاکہ آج کے دن تم پر کوئی گرفت نہیں۔“ اس عام معافی ک ے نتیج ے میں تمام اہ ل مک ہ ایمان لئے۔ ان میں بڑ ے بڑ ے اسلم دشمنوں ابوجہل اور امیہ بن خلف کے بیٹے عکرمہ اور صفوان بھی ایمان لئے۔ ان دونوں حضرات نےے بعد میں ساری عمر اسلم کی خدمت میں لگا دی اور روم و ایران کے خلف کئی معرکوں میں داد شجاعت دی۔
46
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
منی ،مزدلف ہ اور عرفات مکہ کے قریب یہ تین تاریخی میدان ہیں جہاں حج ادا کیا جاتا ہے۔ اب یہ جدید مکہ کے اندر شامل ہو چکے ہیں۔ ان کا تفصیلی تذکرہ آگے حج کے باب میں آ رہا ہے۔
غار ثور تفصیل کے لئے دیکھیے باب سفر ہجرت۔
47
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
سفر حج اب حج کا موسم قریب آ رہا تھا ۔ چونکہ سعودی عرب میں یہ میرا پہل سال تھ ا اس لئے حج کا موقع ہمیں زندگی میں پہلی مرتبہ مل رہا تھا۔ ہم کسی صورت بھی اس موقع کو کھونا نہیں چاہتےے تھے۔ے عید الفطر کےے فورا ًر بعد عمرےے کےے زائرین واپس جانےے لگےے اور حرمین شریفین خالی ہون ے لگے۔ ذیقعد کی آمد ک ے سات ھ ہ ی حجاج ک ے قافل ے دھڑا دھڑ جدہ پہنچنے لگے۔ ہمارا گھر چونکہ جدہ ایر پورٹ سے کچھ ہ ی فاصل ے پر تھ ا اس لئے تمام جہاز ہمار ے گھ ر ک ے اوپر س ے گزرت ے ہوئ ے ایر پورٹ پر جا اترتے۔ ایک دن میں ن ے دس منٹ تک ان جہازوں کا شمار کیا تو محض دس منٹ میں سات آٹھ جہاز اتر چکے تھے۔ ہ م ن ے حج کی تیاریاں ڈیڑ ھ ما ہ پہل ے ہ ی شروع کر دیں ۔ میرا تجرب ہ ہے ک ہ اگر مناسب تیاری اور پلننگ سے کسی کام کو کیا جائے تو اس میں پریشانیاں کم سے کم ہوتی ہیں۔ تیاریوں کا آغاز ہم نے منی ،مزدلفہ اور عرفات کا سروے کر کے کیا۔ گوگل ارتھ پر تفصیل سے ایک ایک مقام کا جائزہ لیا۔ منی کے نقشے کو اچھی طرح سمجھا۔ عرفات کے انفرا اسٹرکچر کا جائزہ لیا۔ حج کے لئے ضروری ساز و سامان خریدنے کے لئے جدہ کے "بلد" کا رخ کیا جو کہ جدہ کا "اندرون شہر" ہے۔ اس کے بازاروں کو کراچی کے صدر یا لہور کی انارکلی پر قیاس کر لیجیے۔ اپنی شاپنگ ک ے دوران ہ م ن ے سلیپنگ بیگ ،ایک عدد خیمہ، سامان کھینچنے والی ٹرالی اور ماریہ کے لئے پرام خریدی۔ حج سے چار ہفتے قبل ہم لوگ مکہ گئے اور منی ،مزدلفہ اور عرفات کا تفصیلی جائزہ لیا ۔ میری اہلی ہ کو شیطان دیکھن ے کا بہ ت شوق تھا ۔ کہن ے لگیں" ،حج ک ے دنوں میں تو ماریہ کو سنبھالنے کے باعث میں شیطان کے دیدار س ے محروم رہوں گی ،اس لئے ابھی دکھا دیجیے۔" جب ہم منی پہنچے تو وہاں حج کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں اور سینکڑوں کارکن صفائی اور دیگر کاموں میں مشغول تھے۔ے ہ م لوگ پل پر ہ ی گاڑی کھڑی کر کے شیطان کے دیدار کے لئے روانہ ہوئے۔ ان دنوں جمرات برج کو فائنل ٹچ دیا جا رہا تھا۔ نئے جمرات برج کے ساتھ یہ پہل حج تھا۔ پہلےے جمرات پتل ے پتل ے ستونوں کی شکل میں تھے جن پر چاروں طرف سےے سنگ باریر کی رجاتیر تھی۔ے لوگر چاروںر رطرفر سےے آتےے اورر رانہیںر واپسیر رکار رراستہے رنہے رملتا۔ درست نشانہے لگانےے کی کوشش میں حجاج بھگدڑ کا شکار ہوتےے اور بہ ت سی قیمتی جانیں یہاں ضائع ہوتیں ۔ جدید پل کو اس طرح بنایا گیا تھ ا ک ہ لوگ ایک طرف س ے آئیں اور رمی کرتےے ہوئےے دوسری طرف سےے نکل جائیں۔ے قدیم پتلےے ستونوں کی جگہے اب چوڑ ے چوڑ ے ستون بنا دی ے گئ ے تھے۔ جمرات کو دیک ھ کر میری اہلی ہ کو کافی مایوسی ہوئی کیونکہے یہے سیدھےے سادےے ستون تھے۔ے ان کا خیال تھ ا ک ہ یہاں پر شیطان کی کوئی خوفناک سی صورت بنی ہو گی لیکن ایسا کچھ نہ تھا۔ منی میں بہت سے مقامات پر منی کے خیموں کے تفصیلی نقشے دیے گئے تھے۔ ہم نے ان نقشوں کا تفصیلی مطالعہ کیا تاکہ بعد میں مشکل نہ ہو۔ منی دراصل ایک ٹینٹ سٹی 48
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہے جہاں مستقل خیم ے بن ے ہوئ ے ہیں ۔ آگ لگن ے ک ے واقعات ک ے باعث اب ان خیموں کو فائر پروف میٹریل سے بنایا گیا ہے۔ پہلے لوگ خیموں میں کھانا پکاتے جس کے باعث آگ لگ جاتی۔ اب کئی خیموں کے علیحدہ کچن بنا دیے گئے ہیں۔ منی کےے بعدر ہمر نےے مزدلفہے کار رخ کیا۔ے مسجدر مشعرر الحرامر دیکھیر اور منیر سے عرفات براست ہ مزدلف ہ جان ے والی سڑکوں کا جائز ہ لیا ۔ عرفات میں مسجد نمر ہ دیکھی، جبل رحمت دیکھا اور عرفات کے رنگ روڈ کا تفصیلی جائزہ لیا۔ مزدلفہ کے بیچوں بیچ دو چوڑی سڑکیں سیدھی عرفات کی طرف جارہی تھیں جس پر "طریق المشاۃ " لکھ ا ہوا تھا ۔ ی ہ پیدل حج کرن ے کا راست ہ تھا ۔ بہ ت س ے حجاج س ے ہم سےے سنا تھ ا کہے گاڑیوں کےے ذریعےے حج کرنےے والےے بہ ت خوار ہوتےے ہیں۔ے اگرچہے منی سے عرفات تک وسیع سڑکوں کا جال بچھ ا ہوا ہے لیکن گاڑیوں کی تعداد ک ے باعث ٹریفک جام ہو جاتا ہے اور کئی کئی گھنٹے کے سفر کے بعد لوگ چند کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر ہ م ن ے ط ے کیا ک ہ گاڑیوں پر انحصار کرن ے کی بجائ ے اپن ے زور بازو بلک ہ زور ٹانگ پر حج کیا جائے۔ ٹانگوں کے اسٹیمنا میں اضافے کے لئے میں نے روزانہ اپنی اہلیہ کو چھ چھ کلومیٹر پیدل چلنا شروع کر دیا۔ جد ہ میں بہ ت س ے حج گروپ آپریٹ کرت ے ہیں جو جد ہ س ے حجاج کو لے کر جات ے ہیں اور واپس وہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر ان کی سروس کے بارے میں لوگوں کے یہ ی تاثرات تھے کہ ان کی خدمات ن ہ ہ ی حاصل کی جائیں تو اچھ ا ہے چنانچ ہ ہ م ن ے یہ بھی فیصلہ کیا کہ کسی گروپ کی بجائے خود ہی حج کریں۔ بعد کے تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے دونوں فیصلے درست تھے۔
آٹ ھ ذوالحج ہ حج کی تیاریوں میں وقت کا پت ہ ہ ی ن ہ چل اور سات ذوالحج کی شام آ پہنچی ۔ شام کو تمام چیزیں پیک کرکے ہم اگلی صبح روانگی کے لئے تیار ہو گئے۔ فجر کی نماز کے بعد ہم نے ڈٹ کر ناشتہ کیا اور سوئے منی چل پڑے۔ ہمارا خیال تھا کہ جدہ مکہ روڈ پر بہت رش ہو گا لیکن یہاں خلف توقع بہت سکون تھا کیونکہ بیرون ملک سے آنے والے حاجی سات تاریخ سے پہلے ہی مکہ پہنچ چکے تھے اور جدہ سےے جانےے والےے گزشتہے رات بسوں ک ے ذریعےے منی پہنچ چکےے تھے۔ ان ب ے چاروں نےے 75 کلومیٹر کا فاصلہ چھ چھ گھنٹوں میں طے کیا تھا۔ اب سڑک پر بہت کم بسیں تھیں۔ اس وقت وہ ی سر پھر ے جا رہے تھے جنہوں ن ے ہماری طرح اپن ے بل بوت ے پر حج کا اراد ہ کیا تھا۔ جدہ اور مکہ کے راستے میں تین چیک پوسٹیں لگا دی گئی تھیں جن میں سے ہر ایک پر بس والوں کی تفصیلی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ ہمیں کسی نے نہ پوچھا ،چنانچہ ہم لوگ محض پینتالیس منٹ کی ڈرائیو ک ے بعد مک ہ میں داخل ہ و گئے۔ میں ن ے ایک بقالے س ے تیس ریال کا موبائل کار ڈ خریدا جو ک ہ ان صاحب ن ے بتیس ریال میں دیا کیونک ہ آج ان کی کمائی کا دن تھا۔ مکہ کے تھرڈ رنگ روڈ پر ٹریفک جام تھا کیونکہ اب اہل مکہ منی کے لئے نکل آئے تھے۔ 49
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہم نے سروس لین پکڑی اور کسی ن ہ کسی طرح ہ م منی کے قریب پہنچے۔ روڈ س ے ہٹ کر ایک طرف کسی سرکاری محکمے کی بڑی اچھی پارکنگ تھی جس میں ہمیں خوش قسمتی س ے جگ ہ مل گئی ۔ یہاں گاڑی کھڑی کر ک ے ہ م ن ے سامان کو ٹرالی پر باندھا۔ ماریہے کو پرام میں بٹھایا۔ے اب میں ٹرالی کھینچنےے لگا اور میری اہلیہے ماریہے کو دھکیلنے لگیں۔ یہ جگہ مقام سے تقریبا ً تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ بے شمار حاجی جوق در جوق منی کی طرف جا رہے تھے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلم کی زبان سے ادا کی گئی خداوند قدوس کی پکار کو اسی رب نے پوری دنیا میں ایسے پھیلیا ہے کہ ہر سال لکھوں کی تعداد میں لوگ اس فریضے کی ادائیگی کے لئے چلے آتے ہیں۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کے انسانوں کی اکثریت اپنے رب سے کس قدر محبت کرتی ہے۔ے اگرچہے انسان کبھ ی اس کی نافرمانی کر بیٹھتا ہےے لیکن پھ ر بھ ی اسی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کا امتحان یہ نہیں کہ اس سے کبھی کوئی گناہ سر زد نہ ہو بلکہ اس کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سر جھکا کر رہے اور اگر کبھی نافرمانی ہو جائے تو فورا ً اس کی طرف رجوع کر کے توبہ کی جائے۔ ہ م بھ ی اہ ل محبت ک ے اس قافل ے میں شامل ہ و گئ ے جو دو ان سلی چادریں اوڑھے سوئ ے منی چل ے جا رہے تھے۔ گاڑیوں میں بیٹھے لوگ ٹریفک جام ک ے باعث گھنٹوں سے ایک ہی مقام پر کھڑے تھے جبکہ پیدل چلنے والے چلے جا رہے تھے۔ آدھ گھنٹے میں ہم منی کی حدود میں داخل ہ و چکےے تھے۔ے ہ م لوگ عبدالعزیز برج پر چلتےے گئےے اور منی کے دوسری جانب جا پہنچے جہاں رش کم تھا۔ ایک نسبتا ً پرسکون گوشہ دیکھ کر ہم نے خیمہ نصب کیا اور بیٹھ کر اذکار کرنے لگے۔ منی کا نقشہ کچھ اس طرح سے ہے کہ پورے منی کے طول میں بہت سے سڑکیں ہیں جو مزدلفہ اور عرفات تک جاتی ہیں۔ منی کے عرض کو دو پل تقسیم کرتے ہیں جن کے نام شا ہ عبدالعزیز اور شا ہ خالد ک ے نام پر رکھے گئ ے ہیں ۔ خالد برج جمرات ک ے قریب واقع ہے جبک ہ عبدالعزیز منی ک ے وسط میں ۔ اس ک ے بعد ایک اور پل فیصل برج ہے جو مزدلفہ کے قریب واقع ہے۔ تھوڑی دیر میں ظہر کا وقت ہو گیا۔ حج کے دنوں میں نمازیں قصر اور جمع کرکے ادا کی جاتی ہیں ۔ ہمارا قیام کویتی مسجد ک ے قریب تھا ۔ منی میں صرف دو مساجد ہیں، ایک مسجد خیف اور دوسری کویتی مسجد۔ مجھے رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ میں مسجد کے استنجا خانے میں پہنچا تو یہاں ہر ٹائلٹ کے سامنے طویل قطار موجود تھی۔ے میرا نواں نمبر تھا۔ے اس بھیانک تجربےے کےے باعث میں نےے عزم کر لیا کہ دوران حج کم سے کم کھانا اور پینا ہے تاکہ یہ مسئلہ دوبارہ درپیش نہ ہو۔ ظہر و عصر کی نمازوں سے فارغ ہو کر میں واپس اپنے خیمے میں آگیا اور اب میری اہلیہے رمسجدر رچلیر رگئیں۔ے ریہاںر رکچھے ردیرر رآرامر رکرنےے رکےے ربعدر رہمر رلوگر راذکارر رور راورادر رمیں مشغول رہے۔ اس سال میرے دو دوست عامر اور نوخیز بھی حج کر رہے تھے۔ نوخیز خان اپنےے رنامر رکےے ربرعکس،ر رطویلر رداڑھیر روالےے ربھرپورر رقسمر رکےے رجوانر رمردر رہیںر رجنر رمیں لہوریوں اور پٹھانوں کی خصوصیات اکٹھ ی پائی جاتی ہیں ۔ عامر کا تعلق کراچی سے ہے۔ شام کو عامر سے فون پر بات ہوئی جن کا خیمہ ہمارے قریب ہ ی تھا۔ وہ مجھے اپنے 50
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
پاس بل رہے تھے تاکہ میں انہیں منی کا نقشہ تفصیل سے سمجھا سکوں۔ میں عامر کے پاس پہنچا تو اپنے خیمے کے دروازے پر ہی اپنی ہمیشہ کی سی تشویش ناک صورت کے ساتھ موجود تھے۔انہیں اس بات پر تشویش لحق تھی کہ کثیر تعداد میں افریقی خواتین نے منی کے سڑکوں کے کناروں پر قبضہ جمایا ہوا تھا جہاں وہ چولہے جلئے مز ے س ے بیٹھ ی تھیں ۔ ان ک ے پاس انڈے ،کافی ،چائے ،ڈبل روٹی ،بسکٹ اور کھان ے پینے کی بہ ت س ے اشیا دستیاب تھیں ۔ بھگدڑ کی صورت میں انہ ی چولہوں میں آگ لگ کر کافی نقصان کر سکتی تھی۔ میں انہیں قریب لگے ہوئے ایک نقشے کے قریب لے گیا اور انہیں منی ،مزدلفہ اور عرفات کے طول و عرض سے آگاہ کیا جس کے نتیجے میں ان کی تشویش میں کوئی خاص فرق واقع نہ ہوا۔ واپس پہنچا تو نوخیز کا فون آ گیا جو اتفاق س ے عامر ک ے خیم ے میں ہ ی موجود تھے اور اپن ے بچوں ک ے باعث کافی پریشان معلوم ہ و رہے تھے۔ میر ے ذہ ن میں ایک آئیڈیا پیدا ہوا کہ رات کیوں نہ مزدلفہ کے قریب گزاری جائے لیکن ساتھ والے خیمے والوں نے بتایا کہ وہاں شدید ترین رش ہو گا۔ بہتر یہ ی ہے کہ آپ اتنی پرسکون جگہ چھوڑ کر نہ جائیں ۔ ان کی بات بالکل درست تھ ی کیونکہے یہے جگہے جہاں ہ ر وقت دس بارہے افراد فی سیکنڈے کے حساب سےے گزر رہےے تھے ،اس مقام کی نسبت بہ ت پر سکون تھ ی جہاں پچاس ساٹھ افراد فی سیکنڈ کے حساب سے گزر رہے ہوں۔ مغرب اور عشا کی نمازوں کے بعد ہ م ن ے بمشکل ایک دکان س ے کھانا لیا جو مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے ناکافی تھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ جلد سے جلد سویا جائے کیونکہ اگل دن نہایت ہ ی پر مشقت تھا ۔ تقریبا ً ساڑھے آٹ ھ بج ے ہ م سون ے ک ے لئ ے لیٹ چک ے تھے جس کا ہمیں اگلے دن خاطر خواہ فائدہ ہوا۔
حج کی حقیقت قرآن مجید میں حج کا حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے: و اذن فری الناس بالحرج۔ یاتوک رجال و علی کرل ضامرر ،یاتیرن مرن کرل فرج عمیرق ،لیشھدوا منافرع لھےےےم ،و یذکروا اللہ فرری ایام معلومات علی مررا رزقھےےےم مررن بھیمررۃ النعام ،فکلوا منہا ،و اطعموا البائس الفقیر ،ثم لیقضوا تفثھم ،ولیوفوا نذورھم ،ولیطوفوا بالبیت العتیق۔ (الحج )29-22:27 "لوگوں میں حج کی منادی کر دو ۔ و ہ دور دراز ک ے گہر ے پہاڑی راستوں س ے چلت ے ہوئ ے تمہارے پاس پیدل بھی آئیں گے اور ان اونٹوں پر سوار ہو کر بھی جو سفر کی وجہ سے دبلے ہو گئے ہوں گے ،تاکہ اپنے لئے منفعت کی جگہوں پر پہنچیں اور چند متعین دنوں میں اپنے ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا کئے ہیں۔ (پھر تم ان کو ذبح کرو) تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھ ی کھلؤ ۔ پھ ر چاہی ے ک ہ ی ہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔"
جاوید احمد صاحب اپنی کتاب میزان میں بیان کرت ے ہیں ک ہ حج دراصل تمثیل کی زبان میں شیطان کے خلف جنگ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو راندہ درگاہ کیا تو اس نے اللہ تعالی کو چیلنج کیا کہ وہ اس کے بندوں کو ہمیشہ گمراہ کرے گا۔ قرآن مجید کا بیان ہے کہ شیطان کا ی ہ چیلنج قبول کر لیا گیا ہے اور الل ہ ک ے بند ے اب قیامت تک اس ک ے دشمن شیطان کے خلف حالت جنگ میں ہیں۔ اسی جنگ کو حج کی صورت میں ممثل کر دیا 51
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
گیا ہے۔ اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال و متاع اور اس کی مصروفیات سے ہاتھ اٹھاتے ہیں ،پھر لبیک لبیک کہتے ہوئے میدان جنگ یعنی منی میں پہنچ جاتے ہیں اور مجاہدین کے طریقے پر اس وادی میں ڈیرا ڈال دیتے ہیں۔ اگل ے دن عرفات کے کھل ے میدان میں پہنچ کر اپن ے گناہوں کی معافی مانگت ے ہیں اور اس جنگ میں کامیابی کے لئے دعا و مناجات کرتے ہیں اور اپنے امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ تمثیل کے تقاضے سے میدان جنگ کی طرح نمازوں کو قصر اور جمع کر کے ادا کرتے ہیں اور شام کو راست ے میں مزدلف ہ ک ے میدان میں قیام کرت ے ہیں ۔ اگل ے دن ی ہ میدان جنگ میں اترتے ہیں اور اپنے دشمن شیطان پر سنگ باری کرتے ہیں ،اپنے جانوروں کو رب کے حضور قربان کرت ے ہیں اور سر منڈ ا کر اپن ے رب ک ے حضور نذر ک ے پھیروں ک ے لئ ے اس کے اصلی معبد یعنی کعبہ اور دین ابراہیمی کی قدیم قربان گاہ مروہ پر حاضر ہوتے ہیں۔
نو ذو الحج ہ فجرر کرے وقرت میری آنکرھ کھلی۔ ہم نرے قریرب ہی ہونرے والی جماعرت میرں نماز ادا کری، خیمہ لپیٹا ،سامان کو ٹرالی پر اور ماریہ کو پرام میں باندھےا ،قریبی دکان سے کافی پی اور چلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ سورج طلوع ہونے تک ہم روانہ ہو چکے تھےے۔ ہم سے پہلے بے شمار لوگ عرفات کی جانب روانہ ہو چکے ت ھے۔ انسانوں کا ایک ختم نہ ہونے وال ریلہ ت ھا جو چل جا رہا ت ھا۔ صبح کا وقت ت ھا اور دسمبر کے آخری ایام۔ طائف سے آنے والی سرد ہوائیں منی سے گزر رہی تھ یں۔ اچھےی خاصی سردی ہو رہی تھےی۔ عامر کے مشورے کے مطابرق میرں نرے ایرک اچھےا کام یرہ کیرا تھےا کرہ ایرک ہلکرا سرا کمبرل سراتھ رکرھ لیرا تھےا۔ اب وہی کمبل احرام کی اوپر والی چادر کا کام دے رہا تھا۔ تھوڑی دور جا کر منی ختم ہو گیا اور مزدلفہ کا آغاز ہو گیا۔ یہاں ایک بورڈ لگا ہوا تھےا جرس پرر لکھےا تھےا "عرفات ۱۱کلومیٹرر" ،گویرا ہمیرں اس دن کرل سرترہ اٹھارہ کلومیٹرر کرا سفر پیدل طے کرنا تھا۔ یہاں ٹریفک بری طرح جام تھا اور پیدل چلنے والے مزے سے چلے جارہے ت ھے۔ ایک جیسے احرام باند ھے ،سامان کو ٹرالیوں پر کھینچتے لوگ ایک رد ھم میں چلے جا رہے تھے۔ شیطان سے جنگ کی مماثلت سے کہیں سنا ہوا یہ نغمہ میرے کانوں میں گونجا۔ تیز چلو غازیو ،سامنے منزل ہے وہ ل الہ ال اللہ ،ل الہ ال اللہ مزدلفہ کے وہ حصہ جو منی کے قریب ہے ،اس میں بھےی منی کی طرز پر خیمے لگے ہوئے ت ھے۔ مج ھے ان خیموں کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ بعد میں کسی سے معلوم ہوا کہ زیادہ رقم دے کر حج کرنے والے وی آئی پی حضرات کو مزدلفہ کی رات ان خیموں میں ٹھہرایررا جاتررا ہے۔ بدقسررمتی س رے ہم مسررلمانوں میررں وی آئی پرری کلچررر اس بری طرح سررایت کرر گیرا ہے کرہ ہم حرج جیسری عبادت میرں بھےی اس سرے چھٹکارا نہیرں حاصرل کرر پاترے۔ اگرر یرہ خیمے آرام کی غرض سرے لگائے گئے ہیرں ترو ان کے مستحق وی آئی پیز کی بجائے بوڑھے اور معذور افراد زیادہ ہیں۔ تھوڑی دور جرا کرر خیمرے خترم ہو گئے۔ افریقری خواتیرن پلوں کرے نیچرے بھےی اپنرے اسرٹال 52
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
لگائے بیٹھےی تھیرں اور ہر طرح کرا ناشترہ مہیرا کرر رہی تھیرں۔ عرفات کرے راسرتے پرر طہارت خانوں کا نظام بہت شاندار تھےا۔ دو دو سو میٹر کے فاصلے پر طہارت خانے بنے ہوئے تھےے جرن کری مسرلسل صرفائی کری جرا رہی تھےی۔ ان کرے سراتھ ہی وضرو کری جگرہ اور پانری کرے کولر بھےی تھےے۔ یہاں بجلی کرے سروئچ بھےی دیرے گئے تھےے تاکرہ لوگ اپنرے موبائل کری بیٹری چارج کر سکیں اور لوگ ایسا کر رہے تھے۔ مزدلفہ کے اختتام پر ایک طویل چڑھائی شروع ہو گئی۔ یہاں لوگ ت ھک ت ھک کر بیٹھ نے لگے۔ اس مقام پر کسی صاحب دل نے منرل واٹر کی بوتلوں کے کریٹ رکھ دیے تھے اور لوگ اپنی ضرورت کے مطابق یہاں سے پانی لے رہے تھےے۔ ہم نے بھےی تین بوتلیں لیں اور آگرے چرل پڑے۔ چڑھائی کرا اختتام پہاڑی کری چوٹری سرے کچرھ نیچرے ہی ہوا اور اب ڈھلوان شروع ہوئی۔ عرفات اب پانچ کلومیٹر رہ گیا تھا۔ منی اور مزدلفہ تو ایک دوسرے سے متصل ہیں لیکن عرفات منی سے کافی فاصلے پر ہے۔ بائیں جانب بہت بڑا بس اسٹیشن تھےا جہاں کئی ہزار بسیں کھڑی تھ یں۔ یہ حجاج کی نقل و حرکت کی بسیں تھیں جن کا ایک حصہ اس وقت واقعتا ً حرکت میں تھا۔ تھوڑا سا آگے بڑھے تو ایک موڑ مڑتے ہی مسجد نمرہ سامنے نظر آنے لگی۔ تیز چلو غازیو ،سامنے منزل ہے وہ ،ل الہ ال اللہ ،ل الہ ال اللہ ٹریفرک جام سرے نکلنرے والی بسریں اب ہمیرں کراس کرر کرے آگرے بڑھ رہی تھیرں۔ بعرض حجاج نے ہمیں اس نظام کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بتایا کہ ان سے دوران حج نقل و حرکت کا پورا کرایہ وصول کیا گیا ہے لیکن عین موقع پر بسوں والے غائب ہو گئے اور ڈ بل رقم کرے للچ میرں ان حجاج کری بجائے عام سرواریاں اٹھانرے لگرے۔ حرج کرے موقرع پرر یرہ رویرہ!!!! شاید اسی اخلقی انحطاط کے باعث دنیا میں ہماری کوئی وقعت باقی نہیں رہی۔ عرفات کے قریب پہنچ کر یہ سڑک مسجد نمرہ سے دور ہٹنے لگی۔ دراصل یہ پیدل کا راستہ نہیں تھا۔ پیدل راست ہ تو مزدلف ہ کے بیچوں بیچ س ے گزر کر عرفات کی جانب آ رہا تھا ۔ لوگ اب سڑک سے اتر کر کچے پر ہو لئے۔ ہم بھی اسی طرف چلے لیکن یہاں پرام اور ٹرالی کو چلنا ناممکن ہو گیا۔ خیر کسی نہ کسی طرح اسے عبور کر کے ہم ایک پکے نالے تک آ پہنچے۔ نالے میں چلنا آسان تھا۔ اس سے نکل کر ہم عرفات کی اندرونی سڑک پر آ پہنچے۔ یہاں ہ م س ے زبردست غلطی ی ہ ہوئی ک ہ ہ م مسجد نمر ہ کی جانب چل پڑے جس کا خمیازہ ہمیں آّگے جا کر بھگتنا پڑا۔ اب ہمیں کافی بھوک لگ رہی تھی۔ راستے کے ایک جانب کلیجی کی خوشبو پھیل رہی تھی ۔ ی ہ ایک بنگالی صاحب تھے جو تو ے پر کلیجی کی کٹا کٹ بنا رہے تھے۔ ہ م ن ے دس ریال میں ایک پلیٹ لی۔ اس کے ساتھ انہوں نے ایک روٹی دی۔ میں نے ان سے اور روٹی مانگی اور کہا کہ رقم لے لیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ کچھ دیر بعد ان کے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ بغیر اضافی رقم کے ایک اور روٹی دے گئے۔ کلیجی کا ناشت ہ کر کے ہ م آگےے چلے۔ے مسجد نمرہے سامنےے نظر آ رہ ی تھ ی لیکن عرفات کی ابتدائی حد ابھی اڑھائی کلومیٹر دور تھی۔ پیدل چلن ے وال ے راست ے پر سوائ ے ایمبولینس اور پولیس کی گاڑیوں ک ے کسی گاڑی
53
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کو آنے کی اجازت نہ تھی جس کی وجہ سے اس دو سو فٹ کھلے روڈ پر لوگ چلے جا رہے تھے۔ے بہ ت سےے لوگوں نےے اپنےے اپنےے گروپوں کا جلوس سا بنایا ہوا تھا۔ے گروپ کو اکٹھا رکھن ے ک ے لئ ے گروپ لیڈ ر ن ے جھنڈے اٹھائ ے ہوئ ے تھے۔ جنہیں جھنڈ ا میسر ن ہ ہوا انہوں نے ڈنڈوں پر لفاف ے باند ھ کر جھنڈے کا کام لیا ہوا تھا ۔ ایک صاحب کو اور کچ ھ نہیں مل رتو انہوں ن ے ڈنڈے پر سرخ رنگ کا ایک لوٹا ہ ی باندھے رکھ ا تھا ۔ اسی قسم کا جھنڈ ا ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنا لینا چاہیے۔ بلند آواز میں لوگ پڑھتے جا رہے تھے" ،لبیک اللھم لبیک ،ل شریک ل لبیک ،ان الحمد و النعمۃ لک و الملک ،ل شریک لک۔" یہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلم کی اس صدا کا جواب ہے جو انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کے ایک پتھر پر کھڑے ہو کر کی تھی۔ اب یہ صدا پوری دنیا میں پھیل چکی ہے جس کے جواب میں الل ہ کے بند ے یہ دلنواز تران ہ پڑھت ے ہوئے شیطان کے خلف جہاد کے لئے عرفات کے میدان کی طرف رواں دواں تھے۔ راستے میں ایک صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے جا رہے تھے اور کیل کھا رہے تھے۔ انہوں نے کیل رکھ ا کر اس کا چھلکا راستےے پر اچھال دیا ۔ یہے بےے حسی کی انتہ ا تھی ۔ ایک معذور شخص کو تو اس حرکت ک ے نتائج کا اچھ ی طرح انداز ہ ہونا چاہیے۔ اس س ے پہل ے ک ہ یہ چھلکا کسی اور کو وہیل چیئر پر پہنچاتا ،میں نے لپک کر اسے اٹھا لیا اور کسی ڈسٹ بن کے انتظار میں ہاتھ میں لئے چلنے لگا۔ میر ے ساتھ ہ ی دو لہوریے چلے جا رہے تھے۔ انہوں نے میرے ہاتھ سے چھلکا چھین کر کیلے کی ایک ریڑھی پر رکھ دیا۔ عرفات کے رش کے باعث بعض لوگ عرفات کی حدود سے باہر ہی رکے ہوئے تھے۔ یہ نہایت ہی غلط عمل ہے کیونکہ وقوف عرفات حج کا رکن اعظم ہے۔ اللہ کرے یہ لوگ بعد میں کسی وقت عرفات ک ے اندر آگئ ے ہوں ۔ جیس ے ہ ی ہ م عرفات کی حدود ک ے قریب پہنچے ،ہمیں اپنی اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا جو ہم نے اس راستے پر آ کر کی تھی۔ لوگ راستے پر صفیں بنائے بیٹھے تھے جس کے باعث راستہ تنگ ہو گیا تھا۔ اس مقام سے نکلنے والے لوگ کم تھے اور گھسنے والے زیادہ جس کے نتیجے میں انتہائی درجے کی دھکم پیل ہ و رہ ی تھی ۔ منظم انداز میں چلن ے والی فوج ایک ہجوم بلک ہ ریوڑ کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ ہجوم کی نفسیات ی ہ ہے کہ انسان اس موقع پر اپن ے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے اور اگر اسے کوئی دھکا پڑتا ہے تو وہ اس ے آگ ے والے کو منتقل کر دیتا ہے۔ اس موقع پر اگر کوئی نیچ ے گر پڑ ے تو لوگ اس کا لحاظ کی ے بغیر اس ے روندت ے ہوئ ے گزر جات ے ہیں ۔ اگر ایسی حالت میں نظم و ضبط کا دامن ن ہ چھوڑا جائ ے تو کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکتیر رہیں۔ے رافسوسر رہمارےے روہے رحضراتر رجور رحجر رکیر رتربیتر ردیتےے رہیں،ر ربالعمومر رفقہی مسائل کی جزئیات یا مخصوص دعاؤں ک ے حفظ تک ہ ی اپنی تربیت کو محدود رکھتے ہیں اور رش میں چلنے اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب سے حجاج کو بہرہ ور نہیں کرتے۔ میں دو مرتب ہ گرا اور میری ٹرالی کئی مرتب ہ الٹی لیکن الل ہ تعالی کا کرم ی ہ رہ ا کہ بچت ہو گئی۔ میں اگلی جانب س ے ماریہ کی پرام کے لئ ے ڈھال بنا ہوا تھ ا اور میری اہلیہ پچھلی جانب سے۔ قریب ہی چند پاکستانی بیٹھے تھے جنہوں نے ہماری مدد کی اور ہمیں اپنی صفوں میں جگہ دی۔ راستے سے ہٹ کر کافی خواتین ایک جانب بیٹھی تھیں۔ میری 54
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اہلیہ ان میں چلی گئیں اور میں انہی صفوں میں گھس کر بیٹھ گیا۔ یہ دھکم پیل ظہر کی اذان تک جاری رہی۔ اپن ے محسنوں س ے تعارف ہوا ۔ ان میں ایک صاحب کوٹلی آزاد کشمیر ک ے رہن ے والے تھے اور دوسر ے ملتان کے۔ ایک فیصل آباد ک ے ریاض صاحب تھے جو مک ہ میں ملزمت کرتے تھے۔ وہ اور ان کی اہلیہ حجاج کی خدمت کرنے میں پیش پیش تھے۔ اذان کی صدا بلند ہوئی اور امام صاحب نے مختصر خطبہ کے بعد دو رکعت ظہ ر اور دو رکعت عصر کی نمازیں پڑھائیں ۔ یہاں کئی ٹرک اپن ے کنٹینرز ک ے سات ھ کھڑ ے تھے جن کی چھتوں پر بھ ی لوگ چڑھے ہوئےے تھے۔ قریب ہ ی ایک بلند ٹاور تھ ا جس پر حج کی کوریج کے لئے کیمرے لگائے گئے تھے۔ نماز کے بعد دوبارہ دھکم پیل کا آغاز ہوا۔ اس مرتبہ اس کی شدت کئی گنا زیاد ہ تھی ۔ ہ م لوگ فورا ًر اٹ ھ کر دیوار کی طرف چل ے گئ ے تاکہ بپھر ے ہوئ ے ہجوم س ے خود کو بچایا جا سکے۔ بعد میں معلوم ہوا ک ہ اس دھکم پیل کے باعث متعدد افراد کچل کر شہید ہو گئے۔ اس دھکم پیل کی وجہ بڑی مقدس تھ ی کہ لوگوں کی اکثریت جبل رحمت تک پہنچنا چا ہ رہ ی تھ ی جہاں رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ وسلم ن ے دوران حج قیام فرمایا تھا ۔ دین میں ی ہ کہیں لزم نہیں ہے ک ہ حجاج جبل رحمت تک جائیں ۔ پور ے عرفات میں کہیں بھی قیام کیا جاسکتا ہے لیکن لوگ اپنی اور دوسروں کی جانوں کو خطرات میں ڈالت ے ہوئے وہاں جانےے کی کوشش کر رہےے تھے۔ے یہے چیز بھ ی ہماری تربیت کی کمی ہےے ک ہ ہ م ایک ایسی چیز ک ے لئ ے جس کا دین میں کوئی حکم نہیں دیا گیا ،ک ے لئ ے انسانی جان کی حرمت کی پرواہ نہیں کرتے جس کی تلقین قرآّن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بار بار فرمائی ہے۔ رش کچ ھ کم ہوا تو بند کنٹینرز ک ے درواز ے کھلن ے لگے۔ ان میں صاحب ثروت لوگوں کی جانب سےے حجاج ک ے لئےے کھان ے پین ے کی اشیا تھیں ۔ رضا کار یہے اشیا حاجیوں میں بانٹن ے لگے۔ بہ ت س ے افراد ن ے ی ہ خدمت سنبھال لی کی کنٹینرز س ے اشیا وصول کر کے انہیں ہات ھ در ہات ھ منتقل کرت ے ہوئ ے خواتین اور بچوں تک پہنچایا جائے۔ ی ہ طریق کار اتنا کامیاب ہوا کہ ہر شخص تک وافر مقدار میں جوس ،بسکٹ اور پھل وغیرہ پہنچ گئے۔ میر ے قریب فیصل آباد کے کچھ حضرات کھڑ ے تھے۔ اہ ل فیصل آباد کی ی ہ خصوصیت ہے کہ وہ عام بات بھی کریں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے جگت کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب کےے موبائل پر کال وصول ہوئی جو ان کےے کسی دوست کی جانب سےے تھی۔ انہوں نےے چھوٹتےے ہ ی مخصوص جگت لگانےے والےے انداز میں پوچھا" ،آصف! زندہے بچ گیا ایں۔ " یہے زندہے دلی کی خوبصورت مثال تھ ی کیونکہے آصف صاحب دھکم پیل میں کہیں غائب ہو گئے تھے۔ ان کے ساتھی امید کر رہے تھے کہ وہ کہیں کچل کر اگلے جہان پہنچ چکے ہوں گے۔ چونک ہ ٹاور پر کیمر ے لگ ے ہوئ ے تھے اس لئ ے کئی افراد اس کی جانب دیک ھ کر ہاتھ ہلتے ہوئے گزر رہے تھے حالنکہ ٹاور تقریبا ً مینار پاکستان جتنا بلند تو ہو گا۔ فضا میں کئی ایمبولینس ہیلی کاپٹر گردش کر رہے تھے کیونکہ اس ہجوم میں گاڑی کا چلنا ناممکن تھا۔ ایمرجنسی خدمات دینے کے لئے بھی لوگ موٹر سائیکل پر آتے جاتے ہیں لیکن یہاں موٹر 55
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
سائیکل کا داخلہ بھی ناممکن تھا۔ قریب ہی ایک خاتون بے ہوش ہو گئیں۔ اطلع دینے پر ٹاور میں موجود ڈسپنسری س ے ایک ڈاکٹر صاحب بڑی مشکل لوگوں کو پھلنگت ے پہنچے اور انہیں طبی امداد دی۔ یہاں کچھ افغانی بھائیوں سے بھی ملقات ہوئی۔ یہ لوگ سعودی عرب ہی میں سیٹل تھے۔ ان کا تعلق تاجک نسل س ے تھا ۔ ی ہ افغانیوں کی و ہ نسل تھ ی جو پاکستان ہ ی میں پل بڑھ کر جوان ہوئی تھی۔ ان کی اردو بہت صاف تھی۔ وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ میرا تعلق جہلم سے ہے کیونکہ انہوں نے بھی جہلم میں کافی وقت گزارا تھا۔ جیسے جیس ے سورج ڈھ ل رہ ا تھا ،ہجوم کی شدت میں اضاف ہ ہوتا جا رہ ا تھا ۔ ہ م لوگ بمشکل کھڑے تھے اور اللہ تعالی کا ذکر کر رہے تھے۔ ہجوم اور دیگر مشکلت انسان کو حج ک ے اصل مقصد س ے غافل کر دیتی ہیں جو ک ہ الل ہ تعالی کی یاد ہے۔ ذکر الہ ی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے میں یہ وقت گزر گیا۔ اس موقع پر جو بھی دعا یاد آئی وہ کر ڈالی۔ یہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ میرا سر کھڑے کھڑے ہی اپنے رب ک ے حضور سجد ے کی نیت س ے جھ ک گیا۔ ی ہ شکر کا مقام تھ ا جس ن ے اس عاجز و حقیر بندے کو حج کی سعادت نصیب فرمائی۔ بعض لوگ اس افراتفری میں عرفات س ے نکلنا چاہت ے تھے حالنک ہ ایسا غروب آفتاب کے بعد کیا جانا تھا۔ پولیس والوں نے عرفات کا گیٹ بند کر دیا جس کے نتیجے میں ہجوم ایک جگہ رک گیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہ تھا جبکہ پیچھے سے آنے والوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے بازوؤں میں بازو ڈال کر زنجیر بنا لی تاک ہ بپھرا ہوا ہجوم خواتین پر ن ہ چڑ ھ جائے۔ ی ہ ترکیب کامیاب رہ ی اور اس زنجیر ک ے ذریع ے کئی مرتب ہ ہ م ن ے اس ہجوم کو روکا ۔ بہ ت س ے لوگ ب ے چار ے اپن ے سامان کو کندھوں پر اٹھائے گھنٹوں کھڑے رہے کیونکہ اسے زمین پر رکھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ سورج غروب ہوت ے ہ ی عرفات کا گیٹ کھول دیا گیا اور ہجوم سرکن ے لگا ۔ میں نے اپنی اہلی ہ اور ماریہ کو سامان سمیت ایک چھوٹی سی چار دیواری میں کھڑا کر دیا تاکہ ہجوم سے بچا جا سکے۔ اس چار دیواری میں جنریٹر لگا ہوا تھا اور تھوڑی سی جگہ تھی۔ اس جگ ہ ہ م تقریبا ًر دو گھنٹ ے بیٹھے رہے تاک ہ ہجوم میں کچ ھ کمی واقع ہ و تو ہ م بھ ی جا سکیں۔ے ریہاںر رایکر رشامیر ربزرگر رسےے رملقاتر رہوئی۔ے رانر رکےے رپاسر رہلکیر رپھلکیر رفولڈنگ کرسیاں تھیں جو انہوں نے ہمیں پیش کیں۔ ان کی فیملی بھی اسی جنریٹر میں محصور تھی۔ ی ہ بزرگ شام ک ے کسی اسکول ک ے ریٹائر ڈ استاد تھے۔ انہیں برصغیر کی تاریخ سے کافی دلچسپی تھ ی لیکن عربی ک ے علو ہ کوئی اور زبان ن ہ جانت ے تھے۔ مجھے بھ ی جس قدر عربی آتی تھی ،ان سے گپ شپ کی۔ وہ علمہ اقبال کی خدمات سے واقف تھے اور مغل بادشاہوں کےے بارےے میں بھ ی اچھ ی خاصی واقفیت رکھتےے تھے۔ے ایسےے لوگ عرب معاشر ے میں بہ ت کم پائ ے جات ے ہیں جو برصغیر ک ے بار ے میں اتنا جانت ے ہوں ۔ اس کی وج ہ ی ہ ہے ک ہ مختلف علوم میں برصغیر ک ے ماہرین ن ے جو کام کیا ہے و ہ زیاد ہ تر اردو، انگریزی اور فارسی زبانوں میں ہے۔ عربی میں بہ ت کم کام کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اہل عرب عربی کے علوہ دیگر زبانوں سے بالعموم ناآشنا ہی ہوتے ہیں۔ 56
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ریاض صاحب تو اپنا بوری بستر سمیٹ کر اپن ے اہ ل و عیال سمیت جلد ہ ی روان ہ ہو گئے۔ تقریبا ً دو گھنٹ ے ک ے بعد ہ م بھ ی اٹھے اور اپن ے ساز و سامان کو گھسیٹت ے ہوئ ے بس اسٹاپ تک آئ ے جہاں بسوں اور ویگنوں کی ایک دنیا موجود تھ ی مگر ایک ہ ی مقام پر گھنٹوں س ے ساکت کھڑی تھی ۔ ان میں س ے کسی گاڑی میں کوئی گنجائش نہیں تھی اور لوگ چھتوں پر بھ ی بیٹھے تھے۔ میری اہلی ہ اب کافی تھ ک چکی تھیں اور ان ک ے لئے چلنا دشوار تھا۔ بھوک بھی کافی لگی ہوئی تھی ۔ میں نے انہیں کہ ا کہ اگر ہم یہاں ساری رات بھی بیٹھے رہیں تو سواری اور خوراک ملنا مشکل ہے۔ زیادہ مناسب یہ ہو گا کہ ہمت کر کے پیدل ہی چلیں۔ اس راستے میں خوراک ملنے کا امکان بھی ہے۔ اس للچ نے انہیں پیدل چلنے پر قائل کر لیا۔ پیدل راست ے پر رش اب اتنا کم تو ہ و ہ ی چکا تھ ا ک ہ چلنا ممکن تھا ۔ سڑک پر ب ے پناہ کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ ظاہر ہے جہاں سے لکھوں افراد گزرے ہوں وہاں ایسا ہونا تو لزم ہے۔ ہم بھی کسی نہ کسی طرح ٹرالی اور پرام کو دھکیلتے ہوئے چلنے لگے۔ اچانک راستے میں ایک جگہ اعلن ہونے لگا" ،چائے تیار ہے ،جو صاحبان پینا چاہیں وہ آ کر 'اپنے خرچ' پر چائ ے پئیں۔ " ہ م ن ے بھ ی ان صاحب س ے کافی خریدی اور پھ ر چلن ے لگے۔ مزدلف ہ ہ م سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ راستے میں ایک جگہ کچھ بنگالی بھائی ایک بڑا سا پتیل ٹرالی پر رکھے لے جا رہے تھے۔ ہ م ن ے انہیں روک کر ان س ے دال روٹی خریدی اور بیٹ ھ کر کھانے لگے۔ اتنی شدید بھوک میں جو مزا اس دال روٹی میں آیا ،شاید ہی کبھی آیا ہو گا۔ ہمارے قریب ہی کراچی کی ایک میمن فیملی آ کر رکی ۔ ی ہ بہادر آباد ک ے رہن ے وال ے تھے۔ و ہ صاحب کھان ے والوں سے قیمت پر تکرار کرنے لگے۔ ان کی خواتین نے ماریہ کو بہت پیار کیا اور اسے حجن بوا کا خطاب دیا۔ کھانا کھا کر ہم روانہ ہوئے۔ ہمارے ساتھ ساتھ ایک انڈین بزرگ وہیل چیئر پر جا رہے تھے اور انر کا سعادتر مندر پوتا انہیںر دھکیلر رہ ا تھا۔ے مجھے سےے وہے اگلےے دن کےے بارےے میں استفسار کرنے لگے۔ بے چارے نہایت ہی سیدھے سادھے لوگ تھے۔ میں نے پوتے کو مشورہ دیا ک ہ و ہ اگل ے دن اپن ے دادا کی طرف س ے رمی خود ہ ی کر آئ ے اور انہیں جمرات کی طرف نہ لے کر جائے۔ تقریبا ً ڈیڑ ھ گھنٹ ے میں ہ م مزدلف ہ پہنچے۔ جو لوگ بسوں میں آ رہے تھے ،ان میں سے زیاد ہ تر صبح فجر ک ے وقت مزدلف ہ پہنچ پائ ے تھے۔ ایک جگ ہ جماعت ہ و رہ ی تھی ۔ ہ م نے بھ ی مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کیں اور سون ے ک ے لئ ے مناسب جگ ہ کی تلش میں نکل کھڑ ے ہوئے۔ رو ڈ پر بھ ی جگ ہ جگ ہ لوگ لیٹ ے تھے۔ جو جلد پہنچ گئ ے تھے ،انہیں خیمہ نصب کرن ے کی جگ ہ بھ ی مل گئی تھی ۔ اب کم از کم خیم ے کی کوئی جگ ہ ن ہ تھی ۔ ایک پہاڑی ک ے کنار ے پر ہمیں بڑی آئیڈیل جگ ہ ملی ۔ یہاں ایک کانٹ ے دار جھاڑی تھ ی جس کے ساتھ ہم سلیپنگ بیگ بچھا کر لیٹ گئے۔ اس جھاڑی کے باعث لوگوں کی آمد و رفت بھی ممکن نہ تھی۔
دس ذوالحج ہ دن بھ ر کی مشقت ک ے بعد دل کھول کر نیند آئی اور پت ہ بھ ی ن ہ چل ک ہ کب صبح ہوئی۔ 57
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ سورج نکلنے میں بیس منٹ باقی ہیں۔ جلدی جلدی وضو کیا اور نماز ادا کی۔ رات کی بچی کھچی دال روٹی کھائی اور چلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ نکلن ے س ے پہل ے حوائج ضروری ہ س ے فراغت ضروری تھی ۔ مزدلف ہ ک ے ٹوائلٹس ک ے سامنے طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ چونکہ ہم لوگ مزدلفہ کے کنارے پر تھے اس لئے میں نے عرفات کی جانب رخ کیا اور مزدلفہ سے باہر ایک ٹوائلٹ کا رخ کیا۔ یہ تقریبا ً خالی پڑا ہوا تھا۔ ہم ابھی چلنے ہ ی لگے تھے کہ ایک صاحب نے لسی کی بوتلیں ل کر دیں۔ پورا مزدلفہ بھی کوڑا کرکٹ سے بھرا پڑا تھا جو لکھوں لوگوں کے قیام کا نتیجہ تھا۔ میں نے سوچا کہ قدیم زمانے میں جب لشکر کوچ کرتے ہوں گے تو ان کی باقیات سے دشمن کے جاسوس باآسانی لشکر کی نقل و حرکت کا اندازہ لگا لیتے ہوں گے۔ ابھی ہم مزدلفہ سے نکل ہی رہے ک ہ نوخیز خان کا فون آ گیا ۔ کہن ے لگ ے ہ م صبح س ے بس میں بیٹھے ہیں لیکن ٹریفک جام کی وج ہ س ے چلنا مشکل ہے۔ میں ن ے انہیں مشور ہ دیا ک ہ بس س ے اتر کر پیدل ہی چل پڑیں۔ مزدلفہ سے منی زیادہ دور نہیں۔ اب ہم مشعر الحرام کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اس مقام پر اب مسجد بنا دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے: فاذار رافضتمر رمنر رعرفاتر رفاذکروار راللہے رعندر رمشعرر رالحرامر رور راذکروہے رکمار رھداکمر رور رانر رکنتمر رلمن الضالین۔ (البقرۃ )2:198 "جب تم عرفات کی طرف سے نیچ ے اترو تو مشعر الحرام ک ے پاس اللہ کا ذکر کرو کیونک ہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تم گمراہوں میں سے تھے۔"
غالبا ً اس آیت میں نیچے اترنے سے مراد وہ ڈھلوان ہے جس سے اتر کر انسان مزدلفہ کے میدان میں داخل ہوتا ہے۔ آیت کریمہ کے حکم کے مطابق ہم نے یہاں اپنے رب کا ذکر کیا، سبحان اللہ و بحمدہ ،سبحان اللہ العظیم۔ اس س ے آگ ے نکل ے تو کافی کی طلب محسوس ہوئی ۔ ایک اسٹال س ے کافی لی ۔ وہ صاحب ساری رات ک ے جاگ ے ہوئ ے تھے ،ب ے خیالی میں کافی ک ے کپ میں ٹی بیگ ڈال گئے۔ے میں نےے توجہے دلئی تو کہنےے لگےے کہے میں نیا بنا دوں؟ میں نےے ان کا نقصان کرنا مناسب ن ہ سمجھ ا اور زندگی میں پہلی اور شاید آخری مرتب ہ ٹی بیگ والی کافی پی۔ عجیب سا ذائقہ تھا۔ اب ہم وادی محسر میں داخل ہو چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس مقام سے تیزی سے گزرے تھے ،اس لئے ہم نے بھی رفتار کچھ تیز کر دی۔ جب ہم فیصل برج ک ے پاس پہنچ ے تو اچانک ناک س ے حلو ہ پوری کی خوشبو ٹکرائی ۔ دیکھ ا تو دونوں جانب عارضی طور پر پاکستانی ہوٹل بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف توند والے لہوریے پوریاں تل رہے تھے تو دوسری طرف مانسہر ہ ہزار ہ ہوٹل وال ے خان صاحب تو ے پر پٹھانوں والے پراٹھے بنا رہے تھے ،ایک طرف نان چن ے بک رہے تھے اور ایک صاحب تو شاید بونگ اور پائ ے ک ے پتیل ے لئ ے بیٹھے تھے۔ ہمیں رات کی ٹھنڈ ی دال روٹی کھ ا لین ے پر کافی افسوس ہوا کہ اس کی وجہ سے ہم اس ہائی کولیسٹرول ناشتے سے محروم رہ گئے تھے۔ یہاں ایک ریڑھی سے میں نے پاکستانی کینو خریدے۔ اب میں ایک ہاتھ سے ٹرالی کھینچ 58
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
رہا تھا جس میں میں نے کینو کا لفافہ بھی تھاما ہوا تھا۔ اس موقع پر میں نے ایک محیر العقول کارنامہ سر انجام دیا اور وہ یہ تھا کہ ایک ہاتھ میں کینو لے کر اسی ہاتھ سے اسے چھیل ،پھر اس کی پھاڑیاں الگ کیں اور پھر اسی ہاتھ سے اسے کھا بھی گیا۔ کیا آپ ایسا کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں؟ اب ہ م مزدلف ہ ک ے آخری کون ے میں تھے اور منی میں داخل ہوا چاہتےے تھے۔ میں نے قریب لگ ے نقش ے س ے اپنی پرسوں والی لوکیشن تلش کی اور اس جانب جان ے والی گلیوں کا تعین کرنے لگا۔ دو انڈین بزرگ میرے پاس کھڑے تھے۔ بے چارے بہت پریشان تھے کیونکہے وہے اپنےے گروپ سےے بچھ ڑ گئےے تھے۔ے وہے مجھےے اپنےے خیمےے کا نمبر بتا کر اس کی لوکیشن بتانے کا کہہ رہے تھے۔ میں نے نقشہ دیکھ کر ان کے خیمے کی لوکیشن کا تعین کیا جو یہاں س ے قریب ہ ی تھ ا اور انہیں راست ہ سمجھ ا دیا ۔ اب ایک پنجابی صاحب ن ے مجھ سے اسی خدمت کے لئے کہا ،میں نے انہیں بھی لوکیشن سمجھائی۔ اس کے بعد تو وہاں مجمعر رلگر رگیا۔ے رلوگوںر رنےے رمجھےے رنجانےے رکیار رسمجھار رکہے رکئیر رپاکستانی،ر رانڈین،ر رعرب، انڈونیشین مجھ سے اپنے اپنے خیمے کی لوکیشن سمجھنا چاہ رہے تھے اور میں کسی ماہر مجمع باز کی طرح اردو ،انگریزی ،پنجابی اور عربی میں تقریر جھاڑ رہا تھا۔ اس مجمع بازی میں میری مداریانہ صلحیتوں کا کوئی کمال نہ تھا بلکہ یہ ان بے چاروں کی مجبوری تھی کہ وہ اپنے گروپوں سے بچھڑ کر اب خیمے تلش کرتے پھر رہے تھے۔ اس س ے میر ے ذہ ن میں ایک نیا آئیڈیا پیدا ہوا ۔ جد ہ اور مک ہ میں مقیم بہ ت س ے لوگ حج کے دنوں میں حجاج کی خدمت کے لئے رضا کارانہ طور پر منی ،مزدلفہ اور عرفات جات ے ہیں ۔ ان میں س ے زیاد ہ تر لوگوں کی کوشش ی ہ ہوتی ہے ک ہ و ہ حجاج کو بلمعاوضہ کھان ے پین ے کی چیزیں فراہ م کریں ۔ ی ہ خدمت نہایت ہ ی عمد ہ ہے لیکن خدمت کا دوسرا رخ یہ بھی تھا کہ راستہ بھولے ہوئے حجاج کو راستہ سمجھایا جائے۔ اس کی طرف بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہے۔ نقشہ پڑھ کر اپنے خیمے تک پہنچنا ہر شخص کے لئے ممکن نہیں۔ حجاج کی خدمت کے لئے سرکاری طور پر بھی ہزاروں رضا کار متعین کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ صرف عربی زبان س ے واقف ہوتے ہیں اور انہیں بالعموم منی کا زیادہ علم بھی نہیں ہوتا۔ میں نے جب بھی کسی رضا کار سے کسی بارے میں کچھ پوچھا تو "واللہ! ما فی معلوم ،ما ادری" کا جواب مل۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ جتنا عرصہ سعودی عرب میں ہوں ،انشاء اللہ آئندہ سال سے یہاں آ کر یہی خدمت انجام دیا کروں گا۔ مجمع کچ ھ چھٹا تو ہ م ن ے آگ ے بڑھن ے کا اراد ہ کیا ۔ اب ہ م منی میں داخل ہ و رہے تھے۔ منی کے آغاز سے ہی پیدل چلنے والے راستے پر کئی کلومیٹر طویل چھت بنا دی گئی ہے تاکہ گرمی میں حجاج دھوپ سے محفوظ رہیں۔ یہ چھت منی کے آغاز سے لے کر مسجد الحرام تک بنائی گئی ہے۔ زیاد ہ اچھ ا ہ و اگر اس چھ ت کو عرفات تک بنا دیا جائے۔ ان دنوں سردی تھی ،اس لئے یہ چھت دن کی بجائے رات کو زیادہ کار آمد تھی۔ طریق المشاۃ سے ہٹ کر ہم لوگ گلیوں میں داخل ہوئے۔ یہ ایرانی حجاج کا علقہ تھا۔ منی میں کوشش یہے کی جاتی ہےے کہے ایک ملک سےے تعلق رکھنےے والےے لوگوں کو ایک مخصوص علقہ دے دیا جائے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایرانی حجاج نہایت ہی منظم طریقے سے کام کرتے ہیں۔ ان کے ہر گروپ کے پاس جھنڈا ہوتا ہے جسے لے کر گروپ لیڈر چلتا ہے 59
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اور تمام افراد ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اس علقے میں صفائی کا معیار بھی نسبتا ً بہتر تھا۔ گیارہ بجے تک ہم اپنے آٹھ ذو الحجہ والے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ یہاں ہم نے خیمہ نصب کیا۔ اہلیہ اور ماریہ کو وہیں چھوڑ کر میں رمی کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ نوخیز اور عامر کے پھر فون آئے۔ پوچھنے لگے کہ کہاں پہنچے ہیں۔ وہ بے چارے ابھی تک مزدلفہ سے روانہ ہی نہ ہ و پائ ے تھے اور فجر ک ے وقت س ے بسوں میں بیٹھے تھے۔ ان کا گروپ اچھ ا تھ ا ک ہ انہیں کم از کم بسیں فراہ م کر دی گئی تھیں ورن ہ بہ ت س ے گروپوں ن ے ٹرانسپورٹ کی رقم وصول کر لی تھی اور بسیں فراہم نہ کی تھیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں کسی گروپ وغیرہ سے منسلک نہیں ہوا۔ راستےے میں لوگ جگہے جگہے ایک دوسرےے کا سرر مونڈنےے میں مصروف تھے۔ے افریقی زائرین کا ایک گروپ رمی کر ک ے واپس آ رہ ا تھا ۔ یہے لوگ کسی فوج کی طرح لیفٹ رائٹ کرتےے دندناتےے ہوئےے چلےے آ رہےے تھے۔ے اس طرح کی حرکت سےے دوسرےے حجاج کو تکلیف ہوتی ہے ،اس کا خیال کرنا چاہیے۔ مختلف گلیوں سے ہوتا میں جمرات کی طرف جا رہا تھا۔ اب میں پاکستانی اور انڈین حجاج کے علقے میں تھا۔ پاکستانی حج مشن کا دفتر ایک خیم ے میں قائم تھ ا اور اس ک ے بالکل سامن ے انڈین حج مشن کا دفتر تھا۔ میں اس منظر کو دیکھ کر خاصا محظوظ ہوا۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسر ے س ے سوکنوں کی طرح لڑت ے ہیں اور ایک دوسر ے ک ے بغیر رہت ے بھ ی نہیں۔ ایک اچھ ی چیز یہے تھ ی کہے دونوں حج مشن والوں نےے ایک ایک خیمہے ان لوگوں کےے لئے مختص کیا ہوا تھ ا جو اپن ے گروپ س ے بچھ ڑ گئے ہیں ۔ ایس ے بزرگوں کو کوئی یہاں چھوڑ جاتا ہے اور ان کے لواحقین یہاں سے انہیں لے جاتے ہیں۔ کنکریاں ہم نے صبح ہی مزدلفہ سے جمع کر لی تھیں۔ بعض لوگ یہ ضروری سمجھتے ہیںر رکہے رکنکریاںر رمزدلفہے رہیر رسےے رجمعر رکیر رجائیں۔ے راسر رکیر رکوئیر ردینیر رحقیقتر رنہیں۔ کنکریاں کہیں سےے بھ ی جمع کی جا سکتی ہیں۔ے ہاں مزدلفہے میں یہے آسانی ہےے کہے وہاں کنکریاں بکثرت دستیاب ہیں۔ میری ٹانگوں میں آپس میں رگڑ لگنے کے باعث اب زخم ہونے لگے تھے۔ دراصل مجھ سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ خیمے سے روانہ ہوتے وقت میں ویزلین لگانا بھول گیا تھا۔ زیادہ پیدل چلنے والے افراد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ جمرات کا پل میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا ۔ اس سال جمرات کو تین منزل ہ بنا دیا گیا تھا ۔ اگل ے سالوں میں حکومت کا یہ اراد ہ تھ ا کہ مزید کئی منزلیں تعمیر کی جائیں ۔ شیطان کی علمتیں یعنی جمر ہ صغری، وسطی اور عقبہ کے ستون تہہ خانے سے نکلتے ہوئے اوپر کی منزل تک جا رہے تھے۔ اب یہ ستون چوڑے بنا دیے گئے تھے جن کے دو جانب سے سنگ باری کی جارہی تھی۔ لوگ ایک طرف سے آ کر دوسری جانب جارہے تھے۔ یہ پہل حج تھا جس میں جمرات کے پاس کوئی شخص کچل کر شہید نہیں ہوا تھا۔ میں ن ے سب س ے اوپر والی منزل کا انتخاب کیا ۔ جمرات ک ے پل پر دو طرف سے چڑھائی تھی ۔ پیدل لوگوں کی ٹریفک کا نظام قابل تعریف تھ ا اور رضا کار لوگوں کو گائیڈ کر رہے تھے۔ پہلے چھوٹا شیطان آیا ۔ اس پر میں نے اطمینان سے رمی کر لی ۔ اس کے بعد درمیانہ شیطان اور پھر بڑا شیطان۔ مجھے اپنے علوہ اپنی اہلیہ اور ماریہ کی جانب 60
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
سے بھی رمی کرنا تھی جس کے لئے میں گن کر کافی پتھر لے کر چل تھا۔ بڑ ے شیطان ک ے پاس ایک لہوری صاحب جنون ک ے عالم میں کھڑےے تھے اور کسی پنجابی ہیرو کی طرح شیطان کو للکار رہے تھے" :اوئے ایہہ وٹا اودا جیہڑا توں میرے کولوں جھوٹ بلیا۔ ٹھاہ۔ ایہہ اودا جیہڑا توں میرے کولوں غیبت کرائی۔ ٹھاہ۔ اہہہ اودا جیہڑا ۔۔۔۔۔" انہوں نے شیطان کو ہر کنکری کے ساتھ شیطان کو وہ جرم یاد دلیا جو اس نے انہیں بہکا کر کیا تھا۔ ننھے منے انڈونیشینز کو کنکریاں مارنے کے لئے جگہ نہیں مل رہ ی تھی ،چنانچہ وہ یہ فریضہ اچھل اچھل کر انجام دے رہے تھے۔ رمی جمار دراصل شیطان کے خلف جنگ کا کلئمیکس ہے۔ مجاہدین کا یہ لشکر منی میں اکٹھ ا ہوتا ہے ،پھ ر عرفات کےے میدان میں جاتا ہےے جو معبد کا قائم مقام ہے۔ے پھر واپس مزدلفہ آ کر پڑاؤ ڈالتا ہے۔ اس کے بعد میدان جنگ میں اترتا ہے۔ رمی جمار دراصل شیطان پر حملہ ہے۔ چونکہ قیامت تک کے لئے انسان اور شیطان کی جنگ جاری ہے ،اس لئ ے اس جنگ کو حج کی صورت میں ممثل کیا گیا ہے۔ اس جنگ کا سبق ی ہ ہے ک ہ اپنی عام زندگی میں بھ ی اس دشمن کو کوئی موقع ن ہ دیا جائے اور اپن ے رب کے سچ ے بندے بن کر رہ ا جائے۔ اگر کبھ ی شیطان اپنی کوشش میں کامیاب ہون ے لگ ے تو فورا ً توب ہ کے ذریعے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے لیکن اللہ کے سچے بندے کبھی اپنی غلطیوں پر قائم نہیں رہتے۔ وہ توبہ کر کے اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں۔ اب نماز کا وقت ہ و چکا تھا ۔ جمرات برج پر کافی جگ ہ خالی تھی ۔ ایک طرف ہونے والی جماعت میں میں نے ظہر و عصر کی نمازیں ادا کیں اور آگے چل پڑا۔ یہاں سے یہ سیدھی سڑک مسجد الحرام تک جا رہی تھی۔ رمی جمار کے بعد طواف کرنا حج کا اہم ترین رکن ہے۔ے چونکہے پچیس تیس کلومیٹر کا فاصلہے پیدل طےے کرنےے کےے باعث ہ م بری طرح تھکے ہوئے تھے ،اس لئے ہم نے ارادہ کیا کہ یہ فریضہ اگلے دن انجام دیا جائے۔ اپنےے خیمےے میں واپس پہنچ کر میں نےے قصر کر کےے احرام کھول۔ے ہمارےے خیمےے کے قریب ہ ی بہ ت سےے اسٹال لگےے ہوئےے تھےے جہاں دنیا جہان کی اشیا دستیاب تھیں۔ے ایک صاحب بہت سی سر مونڈنے والی مشینیں لئے بیٹھے تھے۔ جو بھی ان سے اس مشین کا پوچھتا ،وہ مشین اٹھ ا کر اس کے سر پر ایک "ٹک" لگا دیت ے جس پر اسے مشین خریدنا پڑتی۔ قریبی مستقل خیموں میں ایک انڈونیشین گروپ ٹھہرا ہوا تھا ۔ ی ہ اتن ے کھل ے دل کے لوگ تھے ک ہ انہوں ن ے اپن ے ٹوائلٹ عام لوگوں ک ے استعمال ک ے لئ ے کھول دی ے تھے۔ یہاں میں نے غسل کیا اور عام لباس پہ ن لیا۔ اس کے بعد میں لمبی تان کر سویا اور مغرب ک ے وقت آنک ھ کھلی ۔ شام میں نوخیز کا فون آیا ۔ معلوم ہوا ک ہ و ہ لوگ بمشکل مغرب کے وقت منی پہنچ پائے تھے۔ انہوں نے رمی رات کے وقت کی تھی۔ مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کر کے ہم نے کھانا کھایا اور نیند کا فائنل راؤنڈ شروع کیا۔
گیار ہ ذوالحج ہ صبح فجر کی نماز ک ے بعد ہ م بیت الل ہ ک ے لئ ے روان ہ ہوئے۔ میں دعا کر رہ ا تھ ا ک ہ گاڑی 61
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
صحیح سلمت اپنی جگ ہ پر موجود ہو ۔ جب وہاں پہنچ ے تو معلوم ہوا ک ہ دعا قبول ہوئی ہے۔ قریب ہ ی بڑی بڑی بسیں کھڑی تھیں جن ک ے شامی ڈرائیور اور کنڈیکٹر بسوں کے اندر سوئے پڑے تھے۔ ایک ڈرائیور نے جگہ بنا کر گاڑی نکالنے میں مدد کی۔ اس وقت منی سےے لےے کرر مسجدر الحرام رتکر ٹریفکر ربلکر تھیر اورر لوگر رکئیر کئی رگھنٹےے میںر یہے آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر پا رہے تھے۔ چونکہ مجھے مکہ کے راستوں سے کچھ واقفیت ہے، اس لئ ے میں ن ے شہ ر ک ے باہ ر کی سڑکوں کا ایک طویل چکر کاٹا اور پندر ہ منٹ میں مسجد الحرام پہنچ گیا کیونک ہ اس راست ے میں ہمیں صرف ایک سگنل مل تھا ۔ اپنی اہلیہ اور ماریہے کو حرم کےے نیچےے سرنگ میں اتار کر میں پارکنگ کی تلش میں روانہے ہوا۔ خلف توقع ایک گلی میں آسانی س ے پارکنگ مل گئی ورن ہ پارکنگ پلزا وال ے تو پچاس ریال فی گھنٹہ کے حساب سے چارج کر رہے تھے۔ واپسی پر میں نے اہلیہ کے لئے شاورما اور پیپسی اور اپنے لئے کیلے اور کینو خریدے۔ ہماری ملقات مسجد ک ے بیرونی صحن میں ایک متعین مقام پر ہوئی ۔ ناشت ہ کرن ے کے بعد ہ م باب عبدالعزیز س ے حرم میں داخل ہوئے۔ ایک پرسکون جگہ اہلی ہ کو بٹھ ا کر میں طواف کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ پہلے میں مطاف میں داخل ہوا جہاں لوگ ایک دوسرے میں پیوست چیونٹی کی رفتار س ے چل رہے تھے۔ میں ن ے یہاں طواف کرنا مناسب ن ہ سمجھا اور چند فٹ کا فاصلہ طے کر کے ہی باہر آ گیا۔ اب میں حرم کی چھت پر جا پہنچا جہاں طواف کا ایک پھیرا ایک کلومیٹر کا پڑتا ہے۔ یہاں لوگ نارمل رفتار میں چل رہے تھے۔ صرف حجر اسود ک ے سامن ے جہاں س ے طواف کا پھیرا شروع ہوتا ہے ،کچھے Bottleneck تھی ورنہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔ طواف کےے دوران پنجاب کےے کسی گاؤں کی ایک اماں سےے ملقات ہوئی جو وہیل چیئر پر بیٹھ ی تھیں۔ و ہ اپن ے خاوند س ے بچھ ڑ گئی تھیں ۔ میں ن ے ان س ے پوچھ ا کہ ان کے خاوند ک ے پاس موبائل ہے ،کہن ے لگیں" ،ہے ت ے سہ ی پر او میر ے کول اے۔ " میں ن ے کہ ا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ،وہ خود کسی سے موبائل لے کر آپ سے رابطہ کر لیں گے۔ میں ن ے ان کی کرسی کو دیوار ک ے سات ھ ایسی جگ ہ لگا دیا جہاں و ہ تمام طواف کرنے والوں کو دیکھتی رہیں اور انہیں تفصیل سے سمجھ ا دیا کہ اس جگہ کی کیا نشانیاں ہیں تاکہ وہ اپنے خاوند کو بتا سکیں۔ تقریبا ًر ڈیڑ ھ گھنٹ ے میں طواف ک ے پھیر ے مکمل کر ک ے میں نیچ ے پہنچا ۔ اب اہلی ہ کی باری تھی ۔ انہوں ن ے نیچ ے س ے ہ ی طواف شروع کیا لیکن مطاف کی بجائ ے مسجد کے اندر سے طواف کرتی رہیں جہاں زیادہ رش نہ تھا۔ طواف کے ساتھ ہی ہمارا حج مکمل ہو گیا۔ اب احرام کی تمام پابندیوں ختم ہو چکی تھیں۔ عصر کی نماز تک ہم لوگ حرم ہی میں رہے۔ عصر ک ے بعد ہ م واپسی ک ے لئ ے نکلے۔ پارکنگ والی گلی تک ہ م لوگ پیدل ہ ی آئے۔ گاڑی لے کر جیسے ہ ی ہم روڈ پر آئے تو بہت سے لوگ پریشان کھڑے تھے جنہیں منی کے لئ ے سواری نہیں مل رہ ی تھی ۔ ہ م ن ے بھ ی مراکش ک ے ایک صاحب اور ان کی اہلی ہ کو سات ھ بٹھ ا لیا ۔ حرم س ے منی تک پورا رو ڈ بلک تھ ا اس لئ ے ہ م ن ے ایک اور سڑک پکڑی۔ جب ہم منی کے پاس پہنچے تو وہاں بھی یہی حال تھا۔ ایک عرب صاحب نے یہ صورتحال دیکھتے ہوئے اپنی گاڑی آنے اور جانے والی سڑکوں کے درمیان موجود ٹریفک آئی لینڈ پر 62
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
چڑھائی اور زبردستی یو ٹرن لے کر واپس مڑ گئے۔ میں نے بھی ان کی تقلید کا ارادہ کیا لیکنر ردوسریر رجانبر رموجودر رٹریفکر رپولیسر رکیر رگاڑیر ردیکھے رکرر راسےے رپایہے رتکمیلر رتکر رنہ پہنچایا۔ ان صاحبان کو منی کے قریب اتار کر ہم واپس ہوئے اور اپنی سابقہ پارکنگ جا پہنچے۔ ہمیں دیکھ کر شامی ڈرائیور بہت خوش ہوئے اور ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ میں نے ان کا شکری ہ ادا کیا ۔ کہن ے لگ ے ک ہ اگر آپ کو جگ ہ کا مسئل ہ ہے تو رات ہماری بس میں بھی سو سکت ے ہیں ۔ شام ک ے لوگ پاکستانیوں س ے بہ ت محبت کرت ے ہیں ۔ اب ہ م واپس منی پہنچے۔ میں نے اہلیہ کو پل پر ہ ی بٹھ ا دیا جہاں بہ ت سے کویتی خواتین اپنے بچوں کو لئے بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے مرد رمی کے لئے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہمیں فلسک میں سے عربی قہوہ پیش کیا۔ اس دن کی رمی بھ ی کافی آسان ثابت ہوئی ۔ رمی سے فارغ ہو کر میرا ارادہ تھ ا کہ مغرب اور عشا کی نمازیں مسجد خیف میں ادا کی جائیں۔ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو پوری مسجد میں بےے شمار لوگ لیٹےے ہوئےے تھےے اور نماز کی کوئی جگہے نہے تھی۔ مجبورا ً باہر نمازیں ادا کرکے واپس ہوا۔ اہلیہ کو لے کر ہم اپنے خیمے کی جانب روانہ ہوئے۔ مجھے خیال آیا کہ آج اکتیس دسمبر ہے ،دنیا میں کتن ے لوگ ہوں گے جو نیو ائر نائٹ منا رہے ہوں اور رنگ رلیوں میں مصروف ہوں گے۔ الل ہ تعالی کا یہاں موجود لوگوں پر کتنا کرم ہےے ک ہ ی ہ آج کی رات ان خرافات کی بجائ ے اس کو راضی کرن ے ک ے لئ ے حج میں مصروف ہیں۔ یقینا ً اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ،یہ سب اللہ تعالی کا فضل ہے۔ ابھ ی ہ م اپن ے خیم ے ک ے قریب ہ ی پہنچ ے تھے ک ہ ایک خاتون ن ے ہ م س ے اپن ے خیم ے کی لوکیشن پوچھی اور اس کے ساتھ ہی زار و قطار رونے لگیں۔ ان کے خاوند ظہر کے وقت س ے ان س ے بچھ ڑ گئ ے تھے اور و ہ اپنی بچی اور جیٹ ھ ک ے ہمرا ہ اپن ے خاوند اور خیم ے کو اس وقت س ے ڈھون ڈ رہ ی تھیں ۔ ہ م ن ے انہیں تسلی دی ک ہ آپ ک ے خاوند یقینا ً خیم ے میں پہنچ چکے ہوں گے اور آپ کی تلش میں ہوں گے۔ ہم آپ کو خیمے تک پہنچا دیتے ہیں۔ ہماری گفتگو سن کر کراچی کے ایک صاحب بھی آ گئے۔ لکھنو کے صاف ستھرے لہجے میں کہنے لگے" ،بہت سے لوگوں کو اپنے خیمے نہیں مل رہے۔ میں بھی اسی سلسلے میں نکل ہوں کہ ایسے لوگوں کی مدد کی جائے۔ اگر اس فیملی کو آپ ان کے خیمے تک پہنچا رہے ہیں تو میں کسی اور کی تلش میں نکلتا ہوں۔" اگر ان کی طرح کچھ اور لوگ بھی یہ کام کر سکیں تو بہت سے لوگوں کی مشکل آسان ہو سکتی ہے۔ ہ م لوگ اس فیملی کو ان ک ے خیم ے تک پہنچان ے ک ے لئ ے چلے۔ ی ہ لوگ امریک ہ س ے حج ک ے لئ ے آئ ے تھے۔ بنیادی طور پر پاکستانی تھے ،لیکن اب امریکن نیشنل تھے اور شکاگو میں مقیم تھے۔ نقشے سے پڑھ کر ان کا خیمہ تلش کیا جو اتفاق سے قریب ہی تھا۔ انہیں وہاں پہنچا کر ہم واپس ہوئے اور آ کر ایک بار پھر لمبی تان کر سو گئے۔
63
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بار ہ ذوالحج ہ اگلے دن علی الصبح رمی کر کے ہم نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور واپس روانہ ہوئے۔ جب پارکنگ میں پہنچ ے تو شامی ڈرائیور اخبار ک ے سات ھ ہمار ے منتظر تھے جس میں صدام حسین کی پھانسی کی خبر نمایاں تھیں۔ ایک باب ختم ہوا۔ صدام نے اپنے دور میں ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا ،بے شمار افراد اس کے ظلم کا شکار ہوئے ،لوگوں کی شخصی آزادیاں سلب ہوئیں ،خواتین کی عزتیں پامال ہوئیں اور بچوں کو زہریلی گیسوں س ے قتل کیا گیا ۔ اس ک ے بعد یہی سب کچھ کویتیوں کے ساتھ کیا گیا۔ امت مسلمہ لئے یہ بات باعث شرم ہے کہ ایسا ظالم و جابر شخص ان کا ہیرو قرار پایا۔ امریک ہ ن ے عراقی عوام کو صدام ک ے ظلم س ے نجات دلن ے کا اعلن کر ک ے اس پر چڑھائی کر دی جس کے نتیجے میں عراقی عوام صدام کے ظلم سے نکل کر ایک طرف امریکیر رفوجر راورر ردوسریر رطرفر راپنےے رعسکریتر رپسندوںر رکےے رظلمر رکار رشکارر رہور رگئے۔ امریکی فوج اور عسکریت پسند ایک دوسر ے پر حملہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کا نقصان تو کم ہ ی ہوتا ہے ،لیکن مجبور و ب ے بس عراقی عوام مار ے جاتےے ہیں ۔ اللہ تعالی ہ ی بہتر جانتا ہے ک ہ ی ہ ظلم کب ختم ہ و گا ۔ اگر امریک ہ عراق س ے نکل بھ ی گیا تو عراق ک ے عسکریت پسند ،افغانستان اور فلسطین کی طرح آپس میں لڑن ے لگ جائیں گے اور کئی برس تک عراقی عوام کو امن نصیب نہ ہو پائے گا۔ بہرحال ہم عراقی عوام کے لئے دعا ہی کر سکتے تھے ،جو ہم نے کی۔ مک ہ س ے واپسی پر ہ م جد ہ کی بجائ ے الٹی سمت میں یعنی طائف کی طرف روانہ ہوئ ے کیونک ہ مجھے یقین تھ ا ک ہ جد ہ رو ڈ پر ٹریفک بری طرح بلک ہ و گی ۔ جب ہ م میدان عرفات ک ے پاس پہنچ ے تو نہایت افسوس ہوا ک ہ عرفات آن ے کا ی ہ راست ہ نہایت ہ ی آسان تھا۔ روڈ سے اتر کر کچے میں گاڑی کھڑی کر دی جاتی اور ہم چند سو میٹر کا فاصلہ طے کر کے عرفات کے کنارے پر وقوف کر لیتے اور مسجد نمرہ کے قریب جو دھکم پیل تھی، اس سے بچ جاتے۔ حرم مکہ کی حدود سے باہر شمیسی (حدیبیہ) سے آنے والی سڑک مکہ طائف روڈ سے مل رہی تھی جو کرسچن بائی پاس کہلتی ہے۔ ہم اس بائی پاس کے ذریعے مکہ جدہ روڈ تک پہنچ ے تو ایک گھنٹ ے میں اپن ے گھ ر پہنچ گئ ے جہاں میری والدہ ،اسما اور فاطم ہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے ہمیں حج کی مبارک دی۔ اس کے بعد والدہ کے بنائے ہوئے مزیدار کھانے کھا کر ہم انہیں حج کی داستان سنانے لگے۔ میں نے حساب لگایا تو ہم نے دوران حج پانچ دن میں تقریبا ً 55کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا تھا۔
حج ک ے تجربات سفر حج سے جو تجربات مجھے حاصل ہوئے ،ان میں چند تجاویز کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش ہیں تاکہ اپنے حج کے دوران آپ زحمت سے بچ سکیں۔ •حج ک ے دوران نظم و ضبط اور صبر و تحمل کا خیال رکھیں ۔ ی ہ قدم قدم پر آپ کی مدد کرے گا۔ 64
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
•اگر آپ کےے ساتھے فیملی ہےے تو عرفات میں مسجد نمرہے اور جبل رحمت کے قریب جانے کی کوشش نہ کیجیے۔ •اگر آپ کو پیدل چلنے کی عادت ہے تو بہتر ہے کہ پیدل حج کریں۔ اس س ے آپ ٹریفک جام کے مسائل سے بچ جائیں گے۔ •آج کل ہ ر شخص ک ے پاس موبائل فون ہے۔ اگر آپ کو انٹرنیشنل رومنگ کی سہوت میسر نہیں بھی ہے تب بھی اپنے موبائل سیٹ سعودی عرب لے آئیے اور یہاں سے حجاج کے لئے سستا کنکشن لے لیجیے۔ بچھڑنے کی صورت میں یہ بہت مفید ہو گا۔ •منی میں کوئی ایسا مقام طےے کر لیجیےے جس تک ہ ر کوئی آسانی سےے پہنچ سکے۔ بچھڑنے کی صورت میں سب لوگ اسی مقام پر آ جائیں۔ •اگر آپ کو بے سہارا بوڑھے ،معذور ،بچے یا خواتین ملیں تو ان کی مدد کیجیے۔ اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔ انہیں ان کے ملک کے متعلقہ حج مشن کے خیمے تک پہنچا دیجیے۔ ان کے لواحقین انہیں وہاں سے لے لیں گے۔
حج ک ے انتظامات اور جدید ٹیکنالوجی تیس لک ھ افراد کا ایک جگ ہ اکٹھ ا ہونا کوئی معمولی بات نہیں ۔ اتنی غیر معمولی تعداد کے لئے انتظامات بھی جب تک غیر معمولی نہ ھوں ،حجاج کو مناسب خدمات فراہم نہیں کی جاسکتیں ۔ حج ک ے موجود ہ انتظامات ک ے بار ے میں میری رائ ے ی ہ ہے ک ہ ی ہ حجاج کی اتنی بڑی تعداد کےے لئ ے بالکل ناکافی ہیں ۔ اگرچ ہ سعودی حکومت حجاج کو زیادہے سے زیادہے خدمات فراھ م کرن ے کی کوشش کر رہ ی ہے لیکن اس میں ابھ ی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ حج کے انتظامات کی بہتری کے لئے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ موجود ہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ن ے زندگی ک ے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال حج کے انتظامات میں کرکے حجاج کو زیادہ سےے رزیادہے سہولتیںر رفراہمر رکیر رجائیں۔ے رسعودیر رحکومت،ر رہرر ملکر کیر مسلمر رآبادیر رکے تناسب سے حجاج کا کوٹہ دنیا بھر کے ممالک میں تقسیم کرتی ہے۔ کئی حکومتیں حج کے انتظامات اپنے پاس رکھتی ہیں جبکہ بعض حکومتیں انہیں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے حوالے کرر ردیتیر رہیں۔ے رپاکستانر رکےے رحجاجر رکےے رلئۓے ردونوںر رطرحر رکےے رنظامر ررائجر رہیں۔ے رحجر رکے انتظامات کا آغاز حجاج کی رجسٹریشن س ے ہوتا ھے۔ میری رائ ے میں اسی مقام سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہو جانا چاھئیے۔ اس ضمن میں پہل رقدم ہ ر ملک میں حج رجسٹریشن سنٹرز کا قیام ھے۔ نادرا کے سنٹرز کی طرز پر یہاں بائیو میٹرک ( ) Biometricر ر سکینرز نصب کئےے جائیں جن کے ذریع ے حجاج ک ے چہر ے اور فنگر پرنٹس ل ے لئ ے جائیں ۔ ان سنٹرز کی تعداد بہرحال اتنی ہونی چاھئیے کہ تمام حجاج کو طویل قطاروں میں انتظار کروانے کی بجائے جلد از جلد فارغ کیا جاسکے۔تمام ممالک س ے ی ہ بائیو میٹرک ڈیٹا سعودی عرب ک ے مرکزی حج ڈیٹا بیس میں منتقل کر دیا جائے۔
65
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
سعودی عرب میں فی الوقت حج آپریشن جدہ اور مدینہ ائر پورٹس پر جاری رہتا ھے۔ ان ائر پورٹس پر امیگریشن کاؤنٹرز پر سکینرز نصب کئےے جائیں جن کےے سامنےے سے گزرنے پر یہ خود بخود حاجی کی آمدورفت کو ریکارڈ کرلیں۔ جدہ سے لے کر مکہ تک تین یا چار چیک پوسٹیں قائم کی جاتی ہیں جہاں حجاج کی کسی کسی بس کو چیک کیا جاتا ہے۔ جس بس کو چیکنگ ک ے لئ ے منتخب کیا جاتا ہے ،ان ک ے حجاج کو صبر آزما انتظار سے گزرنا پڑتا ہے۔ چیک پوسٹوں پر پولیس کے اہل کاروں کے پاس بھی ایسے ہی پورٹیبل سکینر ھوں جسے وہ بس میں بیٹھے حجاج کے چہروں کے سامنے سے گزارتے جائیں۔ جس شخص کا ڈیٹا مرکزی ڈیٹا بیس میں موجود نہ ہو گا ،سکینر اس کی نشاندہی کر دے گا۔ اس شخص کو بس سےے اتار کر مزید تفتیش کی جائےے اور بس کو فورا روانہے کر دیا جائے۔ اس پورے عمل میں ایک دو منٹ سے زیادہ وقت درکار نہیں ہو گا۔ حج کےے انتظامات میں سب سےے بڑا مسئلہے وہے لوگ پیدا کرتےے ہیں جو حکومت کی اجازت کے بغیر منی پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی تعداد لکھوں میں ہوتی ہے۔ ان کے اجازت نہ لینے کی بڑی وجہ اجازت دینے کا طریق کار ہے۔ اگرچہ سعودی حکومت کی طرف سے یہ اجازت نامہ مفت جاری کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف ٹور آپریٹرز کی وساطت سے جاری ہوتا ہے۔ یہ حضرات کسی کو اجازت نامہ جاری کروانے کے لئے یہ شرط رکھتے ہیں کہ ان سے رہائش ،کھانے اور ٹرانسپورٹ کا پورا پیکج لیا جائے ۔ پیکج کی رقم بہت زیادہ اور خدمات کا معیار عموما بہ ت ناقص ہوتا ہے۔ ی ہ اسی طرح ہے ک ہ کسی کو مجبور کیا جائ ے اسے نماز پڑھنےے کی اجازت اسی صورت میں دی جائےے گی جب وہے ایک ناقص چیز مہنگے داموں خریدے گا۔ اس شرط کا کوئی اخلقی اور شرعی جواز موجود نہیں ہے۔ سعودی حکومتر رکور رچاہئےے رکہے روہے راپنےے رحجر ررجسٹریشنر رسنٹرر رقائمر رکرےے رجہاںر رہرر رآنےے روالےے رکو رجسٹریشن کے بعد بل امتیاز حج کی اجازت دی جائے۔ منی اور عرفات کی گنجائش کو مد نظر رکھت ے ہوئ ے ایک معقول تعداد کو اجازت دین ے ک ے بعد ی ہ سلسل ہ موقوف کر دیا جائے اور انہیں اگلے برس یہ سعادت حاصل کرنے کے لئے کہا جائے۔ غیر قانونی انٹری روکنے کے لئے منی ،مزدلفہ اور عرفات کے گرد باؤنڈری وال بنا دی جائے۔ اس دیوار کو کئی منزل ہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس میں ہزاروں کی تعداد میں دروازے بنائےے جائیں تاکہے لکھوں حجاج کی آمد و رفت میں مشکل نہے ہو۔ے ہ ر دروازےے پر بائیو میٹرک اسکینر ہوں جو گزرتےے ہوئےے حجاج کی آمد و رفت کو ریکارڈے کریں۔ے ان تینوں میدانوں کو زونز میں تقسیم کر دیا جائ ے اور ایک زون س ے دوسر ے زون ک ے راست ے پر اسکینر نصب ھوں جو ہر شخص کا مکمل ریکارڈ رکھ سکیں کہ کس وقت وہ کہاں پر ہے۔ حجاج ک ے لئ ے سب س ے بڑا مسئل ہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب ان کا کوئی عزیز ہجوم میں گم ہو جائے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے جگہ جگہ کاؤنٹر بنائے جانے چاہیں جہاں کسی بھی حاجی کے کوائف بتانے پر کمپیوٹر کی مدد سے اس کی موجودہ لوکیشن بتائیر رجاسکے۔ے رانہیر رکاؤنٹرزر رکور رقربانیر رکےے رکوپنر رفروختر رکرنےے رکےے رلئےے راستعمالر رکیا جاسکتا ہے۔ حجاج کے پیکج میں سستی موبائل سم بھ ی شامل ہونی چاھیئے۔ آج کل ہر شخص کے پاس موبائیل سیٹ ہے۔ سعودی عرب پہنچنے پر وہ یہ سم اپنے موبائیل میں لوڈ کرلے جس کی مدد سے اس کا رابطہ اپنے عزیزوں سے قائم رہ سکتا ہے۔ انفارمیشنر رٹیکنالوجیر رکےے رعلوہے رزندگیر رکےے ردوسرےے رشعبوںر رمیںر رہونےے روالیر رجدید 66
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ایجادات کا بھرپور استعمال بھ ی حج ک ے انتظامات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ منی کا میدان، فکس خیموں پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں یہاں عمارتوں کی تعمیر بھی تجرباتی بنیادوں پر کی گئی ہے۔ پور ے منی میں خیموں کی جگ ہ بلند و بال عمارتیں تعمیر کی جاسکتی ہیں جن میں اپارٹمنٹ کی بجائے خیمے ہی بنائے جاسکتے ہیں۔ ان عمارتوں کی تعمیر سے زیادہ سے زیادہ حجاج کے لئے فریضہ حج کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی۔ ان عمارتوں کی تعمیر میں اس بات کا دھیان رکھنےے کی ضرورت ہےے کہے ان میں داخل ے ک ے راست ے کشاد ہ رکھے جائیں ،ایمر جنسی ایگزٹس موجود ہوں ،ہ ر عمارت میں آگ بجھانے کا انتظام موجود ہو اور ہر منزل پر کثیر تعداد میں طہارت خانے موجود ہوں۔ ایس ے افراد جو کسی ٹور آپریٹر ک ے بغیر حج کر رہے ہیں ،ان ک ے لئے ،ان کی تعداد کے تناسب سے عمارتیں مخصوص کی جائیں جہاں وہ اپنے خیمے لگا کر آرام سے عبادت کر سکیں ۔ ان عمارات کی ہ ر منزل پر بائیو میٹرک اسکینر لگ ے ہوں جو لوگوں کی آمد و رفت کو مانیٹر کر رہے ھوں ۔ خیموں ک ے موجود ہ نمبرز کی ترتیب خاصی نامعقول ہے۔ اس کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ منی کے موجودہ راستے کافی تنگ ہیں۔ منی میں راستوں کو تنگ کرنے میں سب سے بڑا کردار غیر قانونی اسٹالز کا ہے۔ے ان اسٹالز کی بھ ی رجسٹریشن کی جائےے اور ہر عمارت کی ہ ر منزل میں ان کےے لئےے جگہے مخصوص کی جائےے ۔ے راستوں میں اسٹالز لگانےس ے سختی س ے روکا جائے۔ عمارات کی تعمیر س ے حجاج کی تعداد میں کئی گنا اضافہے ہونےے کا امکان ہے۔ے اسی تناسب سےے منی کےے راستوں کو بھ ی کشادہے کرنےے کی ضرورت ہے۔ پچھل ے سال تک منی کا سب س ے خطرناک حص ہ جمرات کا ایریا تھا ۔ اس سال جمرات برج کی تعمیر س ے ی ہ مسئل ہ بڑی حد تک حل ہ و گیا ہے۔ ی ہ ایک بہ ت اچھا منصوبہ ہے جس کے مطابق جمرات برج کو کئی منزلہ تعمیر کرنے کا پروگرام ہے۔ مسجد الحرام سےے عرفات براستہے منی و مزدلفہ ،ٹرانسپورٹ کےے انتظام میں بھی انقلبی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس روٹ پر ٹرین چلنے کا منصوبہ نہایت عمدہ ہے۔ منی سے عرفات تک چار بڑے روڈ ہیں لیکن حجاج کی غیر معمولی تعداد کے باعث ان پر حج کے ایام میں گاڑیاں بلک رہتی ہیں اور چند کلومیٹر کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ نئے روڈز کی تعمیر کی بجائے زیادہ بہتر ہے کہ انہی سڑکوں کو کئی منزلہ تعمیر کیا جائے۔ بلکیج کی بڑی وجہے یہے ہےے کہے ڈرائیور حضرات سڑک کےے درمیان میں بس روک کر مسافر بٹھان ے لگت ے ہیں جس سےے دور دور تک رو ڈ بلک ہ و جاتا ہے۔ گاڑیوں کو صرف متعین کرد ہ بس اسٹاپس پر روکن ے کی اجازت ہونی چاھئیے ،اس ک ے لئ ے ضروری ہے کہ جگ ہ جگ ہ رو ڈ س ے ہ ٹ کر بڑ ے بڑ ے بس اسٹاپ بھ ی تعمیر کئ ے جائیں ۔ بیمار اور معذور افراد کے لئے پیدل راستے کے ساتھ ساتھ ائر پورٹ کی طرز پر متحرک بیلٹ نصب کرنے سے ان کے لئے کافی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے۔ مکہ کے قریب ایک جدید اور بڑے ائر پورٹ کی تعمیر بھ ی بہ ت ضروری ہے تاک ہ جد ہ اور مدین ہ ائر پورٹس پر بوج ھ کو کم کیا جاسکے۔ جدہ مکہ قدیم روڈ کو بھی موٹر وے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جدہ سے مکہ حجاج کے لئے دو راستے میسر ہوں۔ حج چونکہ ایک دینی فریض ہ ہے اس لئے اسے زیاد ہ س ے زیاد ہ سستا کرنے کی ضرورت 67
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہے تاک ہ غریب لوگ بھ ی حرم کی زیارت کا شوق پورا کر سکیں ۔ حج و عمر ہ ک ے سفر میں مک ہ و مدین ہ کی مہنگی رہائش گاہوں کا متبادل ی ہ ہے ک ہ ان دونوں شہروں کے خالی میدانوں میں کیمپنگ سائٹس قائم کی جائیں جہاں لوگ اپنے خیمے لگا کر رہ سکیں۔ ان سائٹس میں پبلک ٹائلٹ سے لے کر دکانوں تک ہر سہولت میسر ہو اور یہاں سے حرمین تک ائر کنڈیشنڈ بسیں چلئی جائیں۔ حجاج ک ے لئ ے حالی ہ میڈیکل سہولتیں اچھ ی ہیں لیکن انہیں بہتر بنان ے کی ضرورت ہے۔ رش کی وج ہ س ے ایمبولینس کو مریض تک پہنچن ے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس مشکل کو ایمبولینس ہیلی کاپٹروں میں اضافہ کرکے حل کیا جاسکتا ہے۔
68
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
سفر ہجرت سوئ ے مدین ہ سعودی عرب پہنچنے کے بعد پہلے ویک اینڈ پر میں نے مکہ کا سفر کیا۔ دوسرے ویک اینڈ پر مدین ہ کا اراد ہ تھا ۔ اس ویک این ڈ تک مجھے ڈرائیونگ لئسنس ن ہ مل سکا تھا ۔ جدہ سے مدین ہ جان ے ک ے متبادل ذرائع بس اور ٹیکسی تھے۔ بسیں عموما ً رات کو دس بج ے روانہ ہوتی ہیں ۔ اگر میں اس پر سفر کرتا تو مدین ہ جان ے ک ے راست ے کو ن ہ دیک ھ پاتا جس سے مجھے سالوں پرانا جذباتی تعلق رہا ہے۔ ٹیکسی کا سفر خاصا مہنگا ثابت ہو سکتا تھا۔ ان وجوہات کی بنیاد پر میں نے مدینہ کا سفر تیسرے ویک این ڈ تک موخر کیا۔ اس ہفت ے میں مجھےے رخوشر رقسمتیر رسےے رڈرائیونگر رلئسنسر ربھیر رملر رگیا۔ے رسعودیر رعربر رمیںر رگاڑی خریدن ے ک ے لئ ے لئسنس کی شرط ہے۔ فوری طور پر میر ے لئ ے ی ہ ممکن ن ہ تھ ا ک ہ میں گاڑی خرید سکوں چنانچہے میں نےے ایک کار کرائےے پر لی اور اس پر مدینہے روانہے ہوا۔ے یہ ٹیکسی اور بس کی نسبت کافی سستا ذریعہ ہے۔ تقریبا ًر سو کلومیٹر چلن ے ک ے بعد ی ہ رو ڈ دو شاخوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک روڈ رابغ اور ینبع کے ساحلی شہروں کی طرف چلی جاتی ہے اور دوسری مدینہ اور پھر آگے تبوک کی طرف روان ہ ہوتی ہے۔ اس س ے تھوڑا سا آگ ے جا کر ی ہ رو ڈ مک ہ س ے آن ے والی موٹر وے میں مل جاتی ہے۔ مکہ سے مدینہ موٹر وے اس راستے پر بنائی گئی ہے جس پر رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و الہ و سلم نے ہجرت فرمائی تھی۔اسے طریق الھجرہ کہ ا جاتا ہے۔ چونکہ قارئین کو جدہ مدینہ روڈ سے زیادہ طریق الھجرہ میں دلچسپی ہوگی ،اس لئے اس سفر نامے میں میں اپنے اس سفر کا ذکر کروں گا جو میں نے طریق الھجرہ پر کیا۔ جد ہ س ے مدین ہ میں دو بار جد ہ مدین ہ موٹر و ے ک ے راست ے جا چکا تھا ۔ اس راست ے کا تقریبا ً 70فیصد حصہ طریق الھجرہ پر مشتمل ہے ۔ اس کے باوجود مجھے یہ شدید خواہش تھی کہ کسی دن مکہ سے مدینہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے نقش قدم پر سفر کیا جائے۔ ایک دن ی ہ خواہ ش اس طرح پوری ہ و ئی ک ہ ہ م لوگ علی الصبح جدہ سے مدینہ کے لئے براستہ مکہ روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میری اہلیہ اور بچیاں تھیں۔ اسماءنے حسب روایت سفر نامےے کےے لئےے نوٹس لینا شروع کئے۔ے ہ م لوگ مکہے کےے راستےے میں دوسر ے سروس ایریا پر رک ے تاک ہ گاڑی ک ے ٹائروں میں ہوا وغیر ہ چیک کروا لی جائے۔ مکینک ن ے ی ہ کہہ کر ایک کی بجائ ے دو ریال وصول کئ ے ک ہ صبح کا وقت ہے اور آپ پہلے گاہ ک ہیں ۔ ہمار ے یہاں بوہنی کروان ے وال ے کو خصوصا ً رعایت دی جاتی ہے لیکن یہاں الٹا رواج تھا۔ مک ہ ک ے راست ے میں بہ ت سی سنہری وادیاں ہیں ۔ یہاں جب شام کی سنہری دھوپ میں ریت چمکتی ہے تو دور دور تک سنہرا رنگ بکھرا نظر آتا ہے۔ اس کی تفصیل میں سفر مک ہ میں بیان کر چکا ہوں ۔ یہ ی وادیاں صبح ک ے وقت ہلک ے پیل ے اور گر ے رنگ کا منظر پیش کر رہ ی تھیں ۔ تھوڑا سا آگ ے ایک ہورڈنگ پر موبائل فون کا عربی اشتہار تھا جس میں بطور خاص یہے فیچر بیان کیا گیا تھ ا کہے اس میں اگر نماز کا سالنہے نظام 69
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
الوقات سیٹ اپ کردیا جائے تو اذان کے اوقات میں باقاعدہ اذان دی سنائی دیتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ فیچر غیر مسلموں نے ڈیویلپ کیا ہو۔ یہ کمرشل سوچ کا کمال ہے ک ہ اس ن ے مسلمانوں کی ڈیمان ڈ کا انداز ہ لگات ے ہوئ ے اس میں ان ک ے مذہ ب س ے متعلق فیچر داخل کر دیا ۔ مسلم ممالک میں تو شاید اس کی کوئی خاص اہمیت ن ہ ہ و لیکن غیرمسلم ممالک کے سفر کے دوران یہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جب انسان کو کئی کئی دن اذان کی آواز سننے کو نہیں ملتی۔ اسی کمرشل سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں سب س ے زیاد ہ فروخت ہون ے وال ے جائ ے نماز ،تسبیحیں اور ٹوپیاں چین س ے بن کر آتی ہیں۔ جدہ مکہ موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے ہم لوگ مکہ میں داخل ہوئے۔ مکہ کے تیسرے رنگ رو ڈ س ے ہ م ن ے بائیں جانب کا رخ کیا ۔ ی ہ رنگ رو ڈ سیدھ ی جبل ثور س ے آ کر مدین ہ کی طرف روانہ ہوتی ہے۔ مدینہ مکہ کے شمال میں واقع ہے اور جبل ثور جنوب میں۔ مدینہ کا پرانا نام یثرب ہے۔ جب کثیر تعداد میں یثرب ک ے لوگوں ن ے اسلم قبول کیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو بحیثیت حکمران یثرب آنے کی دعوت دی تو کفار مکہ نے اس بات کو اپنے لئے ایک ممکنہ خطرہ ( )Potential Threatسمجھتے ہوئے دار الندوہ میں مجلس مشاورت منعقد کی۔ چونک ہ حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کا اپنا خاندان بنی ہاشم مک ہ میں بہ ت اثر و رسوخ وال خاندان تھ ا اس لئ ے ی ہ لوگ آپ کی ذات ک ے خلف کوئی بڑی کاروائی کرنے س ے پہل ے اچھ ی طرح سوچنا چاہت ے تھے۔ فیصل ہ ی ہ ہوا ک ہ ایک ٹیم جا کر حضور صلی اللہ علیہ و ال ہ و سلم کو شہید کر دے اور اس ٹیم میں ہر قبیل ے کے افراد ہوں تاکہ بنی ہاشم سب سے قصاص کا مطالبہ نہ کرسکیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ لوگ دیت (قصاص کے بدلے لی جانے والی رقم) کا مطالبہ کریں گے جو تمام قبائل کے لئے پورا کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔
سفر ہجرت اور غار ثور حضور نبی کریم صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ،الل ہ تعالی ٰ ک ے محض نبی ہ ی نہیں بلک ہ اس کے آخری رسول بھ ی ہیں۔ رسول اپنی قوم کے لئے آسمانی حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔ نبی چونکہ انسانی صلحیتوں کی بنیاد پر اللہ کے دین کی دعوت دیتا ہے اس لئے اس کو اس کے مخاطبین شہید بھی کر سکتے ہیں مگر رسول کی حفاظت براہ راست اللہ تعالیٰ کرتا ہے کیونکہ کوئی بھی اللہ کے رسول پر غالب نہیں آسکتا۔ الل ہ تعالی ٰ ن ے خاص اہتمام ک ے ذریع ے اپن ے رسول کو یثرب کی جانب ہجرت کرن ے کا حکم دیا۔ آپ صلی الل ہ علیہ و ال ہ و سلم کے اس سفر کا علم بہت ہ ی کم لوگوں کو تھا جن میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی رضی الل ہ عنہما شامل ہیں ۔ کفار ن ے حضور صلی اللہے علیہے و الہے و سلمر کےے گھ ر کا محاصرہے کر لیا تاکہے آپ کو شہیدر کر دیا جائے۔ے اس ایمرجنسی کی حالت میں بھ ی آپ نےے اخلقیات کا اعلیٰے ترین معیار قائم کرتےے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ کی امانتیں واپس کرنے پر مامور فرمایا۔ یہ امانتیں ان لوگوں کی بھی تھیں جو آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہوئے آپ سے دشمنی پر اترے ہوئے تھے۔
70
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اس انتظام سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے ان لوگوں کی طرف مٹی پھینکی جو آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے تھے۔ یہ لوگ اندھے ہو گئے اور آپ کو نہ دیکھ سکے۔ ہجرت کا انتظام کرنا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ذمے داری تھی۔ آپ نے پہلے ہی سے سواریاں تیار رکھ ی ہوئی تھیں۔ے ان پر سوار ہ و کر حضورصلی اللہے علیہے و الہے و سلم اور سیدنا ابوبکر مدینہ کی بجائے اس کی مخالف سمت میں چل پڑے اور آکر غار ثور میں پناہ لی۔ کفار آپ کو تلش کرت ے ہوئ ے یہاں بھ ی آ پہنچ ے لیکن الل ہ تعالی ٰ ک ے خصوصی ( )Divine انتظامات کی وج ہ س ے آپ تک ن ہ پہنچ سکے۔ قرآن مجید اس واقع ے کو اس طرح بیان کرتا ہے۔ فقدنصر ہ الل ہ اذ اخرج ہ الذین کفروا ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحب ہ ل تحزن ان الل ہ معنا فانزل الل ہ سکینت ہ علی ہ و اید ہ بجنود لم ترو ھا و جعل کلم ۃ الذین کفروا السفلی ٰ ۔ و کلم ۃ الل ہ ھ ی العلیا ،و الل ہ عزیز حکیم ۔ (توبہ )9:40 ”اللہ ان (اپنے رسول کی) مدد اس وقت کر چکا ہے جب کفار نے انہیں نکال دیا تھا ،جب وہ صرف دو (ساتھیوں میں سے ) ایک تھے۔ جب وہ دونوں غار میں تھے ،اس وقت وہ اپنے ساتھ ی سے کہہ رہے تھے ’ ،غم نہ کرو ،اللہ ہمار ے سات ھ ہے۔ ‘ اس وقت اللہ ن ے ان پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور ان کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تمہیں نظر ن ہ آت ے تھے۔ اس ن ے کفار کا قول نیچا کر دکھایا اور اللہ کا کلمہ بلند کر دیا ۔ اور اللہ بہت زبردست اور حکمت وال ہے۔“
غار ثور میں قیام کے دوران سیدنا ابوبکر کے بیٹے عبد اللہ ،بیٹی اسماءاور غلم عامر (رضی الل ہ عنہم) آپ دونوں کو خوراک پہنچات ے رہے۔ اس س ے خانواد ہ ابو بکر پر حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے اعتماد کا انداز ہ لگایا جاسکتا ہے۔ تین دن بعد ی ہ دونوں حضرات ہجرت کےے سفر پر روانہے ہوئے۔ان دونوں حضرات نےے یثرب جانےے والےے تجارتی قافلوں والے عام راستے کی بجائے ایک علیحدہ راستہ اختیار کیا۔ اسی راستے پر اب جدید موٹر وے طریق الھجرہ بنی ہوئی ہے جو وادی قدید کے راستے مدینہ کی طرف رواں دواں ہوتی ہے۔ تجارتی قافلوں وال ے عام راست ے پر مک ہ س ے مدین ہ جان ے والی قدیم سڑک بنی ہوئی ہے جو رابغ ،جحفہ اور بدر سے ہوکر مدینہ پہنچتی ہے۔ حال ہی میں اسے بھ ی موٹر وے بنا دیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں اب طریق الھجرہ پرانی سڑک معلوم ہوتی ہے۔ یہ موٹر وے مقام تنعیم س ے شروع ہوتی ہے۔ یہ چھ لین کی موٹر وے ہے۔ جدہ مک ہ روڈ کے مقابلے میں یہاں اتنا زیادہ ٹریفک نہیں ہوتا کہ آٹھ لین کی موٹر وے بنائی جائے۔
مدین ے کا سفر ہے اور ۔۔۔۔ مقام تنعیم سے چلے تو تھوڑی دور جا کر جموم شہر آگیا۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ یہاں سے دائیں جانب طائف اور بائیں جانب جدہ کے لئے راستہ نکلتا ہے۔ جموم ایک وسیع سرخ وادی پر مشتمل ہے جس کے بیک گراﺅنڈ میں سیاہ اور سرخ پہاڑ خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ یہاں ایک زرعی فارم بھی تھا۔ ایک بورڈ پر ”مدینہ 405کلومیٹر“ لکھا ہوا تھا۔ دل پر ایک اضطراب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ سنبھل جا اے دل مضطر ،مدینہ آنے وال ہے لٹا اے چشم تر گوہر ،مدینہ آنے وال ہے 71
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جموم س ے آگ ے جاکر ایک مقام پر حجاج گروپنگ سینٹر نظر آیا ۔ اس وقت ی ہ ویران پڑا ہوا تھا ۔ شام ،اردن اور سعودی عرب ک ے شمالی علق ہ جات س ے براست ہ سڑک آنے والےے حجاج اسی راستےے سےے فریضہے حج کی ادائیگی ک ے لئےے آتےے ہیں۔ے بائیں جانب دور اونچ ے اونچ ے پہاڑ نظر آ رہے تھے جن کی بلندی اس راست ے ک ے عام پہاڑوں کی نسبت خاصی بلند تھی۔ صحرا میں ایک راستہ بنا ہوا تھا جس کے کنارے کھجور کے درخت طویل قطار کی صورت میں لگے ہوئے تھے۔ یہاں ایک زرعی فارم بھی تھا۔ وسیع صحرا میں یہ نخلستان بہت بھل لگ رہا تھا۔ میں نے گاڑی کا شیشہ نیچا کیا تو سہانی ہوا کا ایک جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا اور مولنا احمد رضا خان کے یہ اشعار میری زبان پر جاری ہوگئے۔ بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے ہاں ہاں رہ مدینہ ہے ،غافل ذرا تو جاگ او پاﺅں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے میری ی ہ عادت رہ ی ہے ک ہ میں اچھ ی چیز ہ ر جگ ہ س ے ل ے لیتا ہوں اور اس عمل میں کسی تعصب کو پاس بھ ی پھٹکن ے نہیں دیتا ۔ مولنا س ے کئی نظریاتی و علمی اختلفات کے باوجود میں ان کے وہ اشعار بڑے شوق سے پڑھتا ہوں جن میں مجھے کوئی بات قرآن و سنت ک ے خلف نظر نہیں آتی ۔ فن نعت گوئی میں مولنا کا اعتبار نہایت ہ ی اعلیٰ درجے کے شعرا میں ہوتا ہے۔ اچانک دائیں جانب اونٹوں کا ریوڑ چرتا نظر آیا ۔ براﺅ ن رنگ کی پہاڑیوں کا ایک نیا سلسلہے شروع ہوگیا جس میں براﺅ ن رنگ کےے بےے شمار شیڈے موجود تھے۔ے ان صحرائی پہاڑوں اور وادیوں میں انسان خود کو فطرت کے کتنا قریب محسوس کرتا ہے۔ شہر کی مصنوعی زندگی انسان کو فطرت سے اور خدا سے کتنا دور لے گئی ہے۔ سڑک زگ زیگ کی شکل میں پہاڑوں پر چڑھن ے لگی ۔ سامن ے وادی میں خاصا سبز ہ تھ ا اور عسفان کا شہ ر نظر آرہ ا تھا ۔ چوٹی پر کسی قدیم عمارت ک ے ستون نظر آ رہے تھے۔ ی ہ پہاڑ مجھے اپن ے اپن ے س ے لگے۔ دراصل ان کی صورت بالکل کلر کہار ک ے پہاڑوں کی سی تھ ی جو موٹر وے پر اسلم آباد جاتے ہوئے دریائے جہلم کے فورا ً بعد سامنے آ جاتے ہیں ۔
عسفان اور سراق ہ بن مالک میری نظر ک ے سامن ے موجود سکس لین موٹر و ے پتلی کچی سڑک میں تبدیل ہونے لگی۔ گاڑیوں کے قافلوں کی جگہ اونٹوں اور گھوڑوں کے قافلوں نے لے لی۔ چشم تصور میں مجھے تین افراد کا قافل ہ نظر آنے لگا ۔ ایک اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں ،دوسرے ان کے بچپن کے ساتھ ی ابوبکر جن پر حضور سب س ے زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور تیسرا ان کا گائیڈ ہے۔ چونکہ یہ راستہ زیادہ معروف نہ تھا ،اس لئے انہیں گائیڈ کی ضرورت بھی پڑی تھی ورنہ سیدنا ابوبکر خود تجارتی راستوں کے بہت بڑے ماہر تھے۔ یہیں عسفان کے نزدیک کسی مقام پر ان کا سامنا سراقہ بن مالک سے ہوا تھا جو ان کی تلش میں تھے۔ سراقہ انہیں پہچان گئے تھے لیکن آگے بڑھتے ہوئے ان کے گھوڑوں کے
72
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
قدم زمین میں دھنس گئے۔ اس معجز ے کو دیک ھ کر و ہ ایمان ل ے آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے انہیں کسریٰ کے کنگن پہننے کی بشارت دی جو پندرہ بیس سال بعد اس وقت پوری ہوئی جب خلیفہ دوم عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں کسریٰ کے محلت فتح ہوئے۔ عسفان کے بعد روڈ اچانک گہرائی میں جاکر اوپر اٹھنے لگی۔ سامنے سیاہ رنگ کے پہاڑ تھے جن پر بے شمار ٹھیکری نما پتھر پڑے ہوئے تھے۔ اصل میں یہ سیاہ رنگ انہی ٹھیکریوں کا تھا ۔ رو ڈ ک ے کنار ے ’مرکز امداد حجاج ‘ تھا ۔ دور پھیلی ہوئی سنہری وادی میں ہلکے سبز رنگ ک ے صحرائی پود ے افراط س ے پھیل ے ہوئ ے تھے ۔ جہاں سنہری وادی ختم ہوتی تھی وہاں سے سیاہ پہاڑ شروع ہو جاتے تھے اور بلندی تک چلے جاتے تھے۔ سامن ے کی طرف ایک فصیل نما پہاڑی سلسلہے تھ ا جس ک ے پہاڑوں میں اتار چڑھاﺅ بالکل نہیں تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھ ا کہ ایک دیو قامت دیوار کھڑی ہے اور بس کھڑی ہے۔ ایسےے رپہاڑیر رسلسلےے رقدیمر رزمانوںر رمیںر ردفاعر رکیر رخدماتر رانجامر ردیتےے رتھے۔ے رشہرر رکے مصنوعی ماحول س ے نکل کر فطرت ک ے ماحول میں ایسی صناعی دیک ھ کر انسان کا ذہ ن ب ے اختیار خدا کی اس آیت کو یاد کر اٹھتا ہے :فبای اٰلءربکما تکذبان ۔ ”ا ے جن و انس! تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلﺅ گے۔“ سامنے خلیص الکامل کا ایگزٹ تھا ۔ اب مدینہ 305کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ اضطراب بڑھتا جارہا تھا۔ سنبھل جا اے دل مضطر ،مدینہ آنے وال ہے۔ سعودی عرب میں سڑکوں پر سفر ک ے دوران اکثر سبحان اللہ ،الحمد للہ ،الل ہ اکبر اور ل ال ہ ال الل ہ ک ے بور ڈ نظر آت ے ہیں ۔ ی ہ انسان کو دوران سفر خدا کی یاد دلت ے ہیں۔ یہاں ایک بورڈ پر لکھا ہوا تھا” ،تعوذ من الشیطان یعنی شیطان سے پناہ مانگو۔“ حقیقت یہ ہے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے لیکن ہم اس کی دشمنی کو پہچاننے کی بجائے اس سے دوستی پر تلے ہوئے ہیں۔
خیم ہ ام معبد اب جدہ سے آنے والی روڈ ہمارے سر کے اوپر سے گزرتی ہوئی ہم سے طریق الھجرہ پر آ ملی۔ یہیں سے ایک لنک روڈ رابغ والی سڑک کی طرف جارہ ی تھی ۔ ٹھیکری نما پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے ہم وادی قدید میں جانکلے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے سفر ہجرت میں قیام فرمایا تھا۔ یہاں پر ام معبد نامی خاتون کا خیمہ تھا جنہیں حضور کا میزبان بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ میرے دل میں یہ شدید خواہش تھی ک ہ اس مقام کو دیکھ ا جائےے جہاں حضورصلی الل ہ علیہے و ال ہ و سلم ن ے قیام فرمایا تھا چنانچہ میں نے گاڑی وادی قدید کے ایگزٹ کی طرف موڑ لی۔ دور جاہلیت سے اس علقے میں بنو خزاعہ آباد تھے۔ یہ وہی قبیلہ ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کا حلیف بن گیا تھا۔ بنو بکر نے ان پر شب خون مارا اور قریش نے ان کا ساتھ دیا۔ یہ حدیبیہ کے معاہدے کی کھلی خلف ورزی تھی جو قریش کی جانب سے ہوئی۔ اس کے بعد اس معاہدے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے دس ہزار قدوسیوں کا ایک لشکر جرار تیار کیا اور مک ہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ 73
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بنو خزاعہے عرب کا ایک اہمر قبیلہے تھا۔ے اس قبیلےے کی خاتون ام معبدر اپنی شعرر و شاعری کی وجہ سے پورے علقے میں مشہور تھیں۔ حضورصلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے سفر کے دوران جب ان کے خیمے کے پاس پہنچے تو ان کی ایک بکری وہاں موجود تھی ۔ آپ ن ے اس کا دود ھ دوہن ے کی اجازت مانگی ۔ یہ بکری دودھ دینے کے لئق نہ تھی لیکن آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے اس تھنوں میں کثیر مقدار میں دودھ اتار دیا۔ ام معبد اس معجزے کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے بعد میں آپ کے بارے میں ایک فی البدیہہ نظم کہی۔ بعد میں ام معبد اور ان کے شوہر نے اسلم قبول کرلیا۔ وادی قدید ایک بہت بڑے علقے کا نام ہے جو ٹھیکری والے سیاہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سی وادیاں شامل ہیں جن کا مجموعی نام وادی قدید ہے۔ ایک سنگل روڈ وادی ک ے بیچ میں س ے گزر رہ ا تھا ۔ اس پر دو تین چھوٹ ے چھوٹ ے گا ﺅ ں آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وادی میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے اس لئے جا بجا کھجوروں کے فارم نظر آرہے تھے۔ تھوڑا سا آگ ے جا کر رو ڈ ن ے ایک کچ ے ٹریک کی شکل اختیار کرلی ۔ اصل روڈ کہیں کہیں س ے زمین میں دھنسا نظر آرہ ا تھا ۔ ہ ر طرف چھوٹ ے چھوٹ ے پتھ ر بکھر ے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں سیلب آیا ہو جس نے روڈ کی یہ حالت کر دی ہو۔ اچانک رو ڈ ک ے کنار ے جدید طرز تعمیر پر مشتمل زرد رنگ ک ے چھوٹ ے چھوٹ ے کوارٹر نظر آئے جس کے ساتھ پانی کی ایک بڑی سی ٹینکی تھی۔ غالبا ً یہ ارد گرد کے علقے کے رہائشی مکانات اور کھجوروں ک ے فارمز ک ے لئ ے تعمیر کی گئی تھی ۔ میری گاڑی زیادہ اونچی نہیں اس لئ ے پتھ ر اس ک ے فرش س ے ٹکرا رہے تھے۔ ایسی جگ ہ آن ے ک ے لئ ے جیپ کی ضرورت تھی ۔ تھوڑا آگےے جاکر مجھے ایک جیپ پیچھے آتی نظر آئی جس ے اصولی طور پر کسی میوزیم میں ہونا چاہئے تھا۔ غالبا ً ی ہ 1960کی دہائی کا کوئی ماڈل تھا۔ میں نے معلومات حاصل کرنے کے لئے گاڑی ایک طرف روکی اور جیپ کو رکنے کا اشارہ کیا۔ خوش قسمتی س ے جیپ کو ایک پاکستانی چل رہے تھے۔ تعارف میں ان کا نام ادریس معلوم ہوا۔ ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ ادریس صاحب اس وادی میں کافی عرصے سے مقیم تھے۔ وہ کسی سعودی کے فارم پر رہتےے تھےے اور اس کی گاڑیاں وغیرہے چلتےے تھے۔ے سعودی عرب کےے زرعی فارمز پر کافی پاکستانی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس علقے میں ہر تین چار سال کے بعد شدید بارش ہوتی ہے جس ک ے نتیج ے میں سیلب آجاتا ہے۔ اس سیلب کی وج ہ س ے ہی یہاں زیر زمین پانی خاصی مقدار میں موجود رہتا ہے جس کی وج ہ س ے یہاں کھجوروں کے فارم پائے جاتے ہیں۔ سیلبی پانی بعد میں تالبوں کی شکل میں بھی اکٹھا ہو جاتا ہے۔ یہ ی وج ہ ہے ک ہ دور قدیم میں لوگ اس راست ے کو اختیار کرت ے تھے تاک ہ طویل صحرائی سفر میں اپن ے اور جانوروں ک ے لئ ے پانی حاصل کر سکیں ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علی ہ و ال ہ و سلم بھ ی اسی علق ے س ے گزر ے تھے البت ہ سیلب ک ے خدش ے ک ے باعث سے طریق الھجرہ کو پہاڑوں کے اوپر سے گزارا گیا ہے۔ ادریس صاحب ن ے ہمیں کھان ے کی پرزور دعوت دی جس پر میں ن ے معذرت کرلی۔ اب ہم ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔ تھوڑا سا آگے ظُبیہ نام کا قصبہ تھا۔ یہیں ان کا فارم ہا ﺅس تھا ۔ ہ م ایک بقال ہ (جنرل سٹور) پر رکے۔ادریس صاحب ن ے وہاں س ے میر ے بچوں ک ے لئے 74
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ڈھیروں چیزیں خرید کر دیں ۔ میر ے بھرپور اصرار ک ے باوجود انہوں ن ے اس ک ے پیس ے نہ لئے۔ بقال ے ک ے مالک ایک سوڈانی صاحب تھے جن کا نام اسماعیل تھا ۔ انہوں ن ے عربی میں ایک کتاب بھی دکھائی جس میں وادی قدید کے متعلق معلومات دی گئی تھیں۔ میں نے وہ کتاب خریدنا چاہی لیکن ادریس صاحب نے مجھے اس کی ادائیگی نہ کرنے دی۔ اس کتاب میں خیمہ ام معبد کی لوکیشن کے بارے میں تفصیلت درج تھیں۔ اسماعیل صاحب ن ے اس جگ ہ کی نشاندہ ی کی جو اس مقام ک ے قریب تھ ی جہاں وادی قدید کا ایگزٹ واقع ہے۔ ان کا شکریہ ادا کرکے ہم لوگ واپس روانہ ہوئے۔ ظُبیہ کے قریب آ کر طریق الھجرہ پھر ہمار ے قریب س ے گزر رہ ی تھی ۔ ہ م ن ے رخ مک ہ کی طرف کیا اور بیس کلومیٹر پیچھے وادی قدید ک ے ایگزٹ کی طرف روان ہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر ہ م پھ ر ایگزٹ س ے باہ ر نکلے۔ اب کی ہم نے موٹر وے سے دوسری جانب کا راستہ اختیار کیا۔ میری توقع کے خلف پکی روڈ جلد ہی ختم ہوگئی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ایسے ٹورز کے لے دو چیزوں کی ضرورت ہے، ایک فور وہیل ڈرائیو جیپ اور دوسرے ایڈونچر پسند ساتھی۔ اس وقت ان دونوں ہی کی کمی تھی ،لہذا ہ م ن ے خیم ہ ام معبد کی تلش کو ملتوی کیا اور دوبار ہ طریق الھجر ہ پر گاڑی ڈال کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ طریق الھجرہ پر پانی کا ایک سفید ٹینکر ہمارے آگے جا رہا تھا جس میں آب زمزم تھا۔ مک ہ س ے آب زمزم ٹینکروں کی مدد س ے مدین ہ پہنچایا جاتا ہے جہاں ی ہ مسجدنبوی میں اسی طرح میسر ہوتا ہے جیسا کہ مسجد الحرام میں۔ یہاں میری ڈیڑھ سالہ بیٹی ماریہ کو نجانے کیا سوجھی کہ وہ اچھل اچھل کر مدینہ مدینہ پکارنے لگی۔ اس کی یہ پکار تقریبا ً آدھ گھنٹ ہ جاری رہی ۔ اس کی شکل پر خوشی ک ے تاثرات تھے اور و ہ اپنی پکار کو خود ہی انجوائے کر رہی تھی۔ اب ہم ایک بار پھر وادی قدید سے گزر رہے تھے لیکن اب ہمارا راستہ سیلبی ٹریک کی بجائےے طریق الھجرہے تھی۔ے بائیں جانب ہمیں کچھے پہاڑ نظر آرہےے تھےے جو تیز دھوپ کے باوجود کچھ بھوت نما دکھائی دے رہے تھے۔ روڈ پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا جو یہ بتا رہا تھا کہ اس روڈ کو ریڈار کی مدد سے مانیٹر کیا جارہا ہے اس لئے آپ حد رفتار کا خیال رکھیں۔ جدہ مکہ روڈ کے برعکس یہاں زیاد ہ پولیس نہیں ہوتی اس لئے اس روڈ کو ریڈار کی مدد س ے مانیٹر کیا جاتا ہے اور جو گاڑی مسلسلر 120رس ے زائد رفتار پر سفر کر ے ،اسے اگلے کسی مقام پر پولیس کی گاڑی روک کر اس کا چالن کرتی ہے۔ ہم اس وقت 150کی رفتار پر تھے جو میں چالن سے بچنے کے لئے مسلسل کم زیادہ کرتا آ رہ ا تھا ۔ اچانک ایک گاڑی ن ے ہمیں اوور ٹیک کیا ۔ ی ہ یقینا 180کی رفتار پر ہ و گی۔ اگر ہم کھڑے ہوتے تو اس رفتار سے گزرتی ہوئی گاڑی پر نظر جمانا بھی مشکل ہے لیکن اس وقت وہ ہمیں آہستہ آہستہ چلتی نظر آرہی تھی۔ اس کائنات میں کوئی بھی چیز ہمیں مطلق صورت ( ) Absoluteمیں نظر نہیں آتی بلک ہ اضافی ( ) Relativeصورت میں نظر آتی ہے۔ چاند زمین کے گرد سینکڑوں میل فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتا ہے لیکن ہمیں اس کی حرکت سست نظر آتی ہے کیونکہ ہماری زمین خود اتنی ہی رفتار کر رہی ہے۔ یہ ی حال اس دنیا کی زندگی کا ہے۔ ہ م اس غلط فہمی میں مبتل رہیں ک ہ ہ م آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم تیزی سے اپنی موت کی طرف جارہے ہیں 75
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جس کے بعد ہماری اصل منزل ہماری منتظر ہے۔ بھوت نما پہاڑ ہمار ے بائیں جانب پیچھے ر ہ گئ ے تھے۔ اب سامن ے تہہ در تہہ پہاڑوں کی قطاریں تھیں۔ سامنے المساة ایگزٹ تھ ا اور مدین ہ 254کلومیٹر باقی رہ گیا تھا۔ سنبھل جا اے دل مضطر ،مدینہ آنے وال ہے۔
صحرائ ے مدین ہ آگے بہت بڑا برساتی نالہ تھا جس پر ایک طویل پل بنا ہوا تھا۔ اس سے گزر کر ہم وادی ستارہے میں داخل ہوگئے۔ے عربی میں ستارہے ،پردےے ( ) Curtainر کو کہتےے ہیں۔ے نجانےے اس وادی کی وج ہ تسمی ہ کیا ہوگی ۔ دور دور تک پھیل رہوا صحرا نظر آ رہ ا تھا ۔ مجھے مولنا الیاس قادری کی دعائے مدینہ یاد آئی جسے میں ہمیشہ پڑھا کرتا تھا۔ یا رب محمد! میری تقدیر جگا دے صحرائے مدینہ مجھے آنکھوں سے دکھا دے اب صحرائےے مدینہے میری آنکھوں کےے سامنےے تھا۔ے برسوں پہلےے مانگی ہوئی دعا کی قبولیت کا وقت اب آیا تھا۔ یہاں ایک ریسٹ ایریا بنا ہوا تھ ا جس ک ے پیٹرول پمپ س ے ہ م ن ے پیٹرول لیا ۔ پیٹرول ڈالنے والے ایک خان صاحب تھے۔ ایسی انجانی جگہوں پر اپنے پاکستانی بھائیوں کو دیکھ کر بہ ت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ے ان دنوں انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ خام تیل( Crude Oil) 73ڈالر فی بیرل تک جاپہنچا تھا۔ پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 58روپے فی لیٹر تک پہنچ چکی تھی لیکن سعودی عرب میں اس کی قیمت انہی دنوں میں 90حللہ فی لیٹر سے کم کرکے 60حللہ (تقریبا ً ساڑھے نو روپے ) فی لیٹر کر دی گئی تھی جو ہمارے لئے ایک بڑی نعمت تھی۔ پاکستان ک ے مقابل ے میں پیٹرول سعودی عرب میں چ ھ گنا سستا تھا ۔ پاکستان میں بھ ی اس وقت پیٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت تقریبا ًر 34رروپےے لیٹر تھی ۔ باقی رقم حکومت کے ٹیکس پر مشتمل تھی۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے سعودی عرب کو بہت فائدہ ہوا تھا۔ حکومت نے اس فائدے کو عوام تک منتقل کرنے کے لئے پیٹرول ،بجلی اور فون کی قیمتوں میں کمی کی تھی۔ کاش ہماری حکومتوں کو بھ ی اللہے تعالیٰے ایسی ہ ی توفیق دےے کہے وہے ملک کو پہنچنےے والےے ہ ر فائدےے کو عوام تک منتقل کر سکیں۔ وادی ستار ہ ک ے بعد ہ م ایک اور وادی میں جا پہنچ ے جس ک ے پتھ ر ہلک ے گر ے رنگ کے تھے اور آنکھوں کو بہ ت خوبصورت دکھائی د ے رہے تھے۔ الل ہ تعالی ٰ کی اس صناعی کا کون مقابلہ کر سکتا ہے؟ یہ وادی الفارع تھی۔ یہاں سرخ رنگ کے کچھ ایسے پہاڑ تھے جن ک ے ب ے شمار چھوٹ ے چھوٹ ے کون ے نکل ے ہوئ ے تھے۔ سڑک ک ے کنار ے ایک بور ڈ تھ ا جس پر بندر بنا ہوا تھا۔ اگرچہ موٹر وے کو دونوں طرف باڑھ لگا کر محفوظ کر دیا جاتا ہے لیکن یہ باڑھ ظاہر ہے بندروں کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے ڈرائیوروں کو وارننگ دی گئی تھی کہ وہ بندروں سے محتاط رہیں جو اچانک سامنے آسکتے تھے اور تیز رفتار گاڑی
76
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ان س ے ٹکرا کر الٹ سکتی تھی ۔ مجھے لہور اسلم آباد موٹر و ے کا ایک مقام یاد آیا جہاں ایسا ہی بورڈ تھا اور اس پر کچھوا بنا ہوا تھا۔ جدید تہذیب کی ی ہ خصوصیت مجھے بہ ت اچھ ی لگتی ہے کہ اس میں قرآن ک ے اصول ک ے مطابق انسانی جان کو بہ ت اہمیت دی جاتی ہے۔ جدید انداز میں تعمیر کی گئی ہر موٹر وے پر ایسی بہت سی وارننگز ملتی ہیں جو معمولی سے خطرے کی بھی نشاندہی کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی جان کو اب بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔ بدقسمتی سےے ہمارےے برصغیر میں ابھ ی یہے رجحان زور نہیں پکڑ سکا اور انسان کےے بنائےے ہوئے قوانین ،رسم و رواج اور روایات ،انسانی جان پر فوقیت رکھتے ہیں۔ صرف اپنے ہاں کی سڑکوں کا ہ ی جائز ہ لیں تو کتن ے لوگ ب ے احتیاطی کی وج ہ س ے ان پر جان د ے دیت ے ہیں اور بحیثیت مجموعی معاشر ے کو اس کا شعور ہ ی نہیں ۔ ہمار ے معاشر ے میں انسانی جان کس قدر ارزاں حیثیت کی حامل ہے۔ کاش ہمار ے لوگ قرآن کو پڑھیں جس میں انسانی جان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وادیر رالفارعر رکےے ربعدر راگلیر روادیر ر،ر روادیر رارنر رتھی۔ے راسر رمیںر رہلکےے رسبزر ررنگر رکے صحرائی پود ے سرخ ریت ک ے پس منظر میں بہ ت بھل ے لگ رہے تھے۔ یہاں ایک بہ ت بڑا زرعی فارم بھ ی تھ ا جس کے مالک نے اس راستے کی مناسبت س ے اس کا نام ”مزرعة الھجرہ “ رک ھ دیا تھا ۔ اس ک ے بعد وادی شلل ۃ الھم ۃ آئی ۔ ی ہ گر ے رنگ کا ایک اونچا نیچا میدان تھ ا جہاں کچ ھ بدو سفید رنگ کی بھیڑوں کو چرا رہے تھے۔ آج بھ ی سعودی عرب کی بدو آبادی کا سب سے بڑا پیشہ گلہ بانی ہے۔ لفظ ’بدو‘ ،بادیہ سے نکل ہے جس کے معنی گاﺅں کے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پنجابی میں پنڈ سے پینڈو۔ ہمارے ہاں کے دیہاتی ،پینڈو کہے جانے پر برا مان جاتے ہیں لیکن اس ک ے برعکس بدو اپنی بدویت پر فخر کرت ے ہیں ۔ ہمار ے ہاں ہات ھ س ے کام کرن ے والے پیشوں کو جاگیر دارانہ اثرات کے باعث حقیر سمجھ ا جاتا ہے لیکن عرب لوگ اپنے آبائی پیشوں پر فخر کرتے ہیں اور بڑے فخر سے نام کے ساتھ ”خیاط (درزی)“” ،حمال (قلی)“ لگات ے ہیں ۔ ان کا ی ہ طرز عمل اسلم اور انسانیت ک ے عین مطابق ہے۔ کوئی بھ ی ایسا پیشہ جس میں کوئی شرعی یا اخلقی قباحت نہیں ،یقینامعزز ہے۔ وادی قدید سے لے کر یہاں تک کا پورا علقہ دراصل ایک بہت بڑا آتش فشانی میدان ( )Volcanic Fieldر رہے۔ے رقدیمر ردورر رمیںر ریہاںر رآتشر رفشاںر رپھٹتےے ررہےے رہیں۔ے رمیںر رجنر رسیاہ ٹھیکریوں کا ذکر کر رہا ہوں ،یہ دراصل لوے میں شامل پتھر ہیں جو لوے کی حدت سے سیاہ رنگت اختیار کر گئے ہیں۔ اس میدان کو "حرات راحت" کا نام دیا گیا ہے۔ نجانے اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟
ساسکو ریسٹ ایریا اب ساسکو ریسٹ ایریا قریب آگیا تھا ۔ یہ کافی خوبصورت اور صاف ستھرا ریسٹ ایریا تھا ۔ یہاں ایک بڑی سی خوبصورت مسجد ،سپر مارکیٹ ،پیٹرول پمپ ،ٹائر شاپ ،بچوں ک ے جھولے ،ریسٹورنٹ موجود تھے۔ حیرت کی بات ی ہ ہے ک ہ یہاں ایک میوزک سنٹر بھی تھا۔ یہاں ہم نے رک کر تھوڑا سا آرام کیا اور کھانا کھایا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ روانہ ہوئے۔ مدینہ یہاں سے 171کلومیٹر دور تھا۔ 77
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
تھوڑی دور جاکر ایک بڑا برساتی نالہے آیا جس میں پانی بھ ی موجود تھا۔ے اس کے قریب سیا ہ بکریوں کا ریوڑ چر رہ ا تھا ۔ سامن ے ایک کوئل ہ نما پہاڑ تھ ا جو سیا ہ رنگ کے پاﺅڈ ر پر مشتمل تھا ۔ جس ک ے دامن میں بڑی بڑی مشینری نصب تھی ۔ نجان ے اس پہاڑ کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔ ایسا ہ ی ایک مقام میں ن ے ہنز ہ کے راست ے میں دیکھ ا تھ ا جہاں سیاہ چورا پہاڑ پر برف بھ ی موجود تھی ۔ اب ہ م "الکھل" ک ے علق ے میں پہنچ چک ے تھے اور ہمارے سامنے ایک وسیع کمپلیکس بنا ہوا تھا جس میں ایک بڑی سی مسجد بھی تھی۔ یہ کمپلیکس نجانے کس نے اور کیوں تعمیر کیا تھا۔ ابھی یہ غیر آباد تھا۔ اب ہم ایسے علقے میں داخل ہوئے جہاں بکثرت برساتی نالے تھے جن پر پل بنے ہوئے تھے۔ سیا ہ پہاڑوں میں ایک براﺅ ن رنگ کی پہاڑی تھ ی اور حیرت انگیز طور پر یہاں کی ریت کا رنگ اورنج تھا ۔ ی ہ وادی الفرع تھی ۔ یہاں دو پہاڑ الگ الگ کھڑ ے تھے اور ان کا کسی پہاڑی سلسلے س ے تعلق ن ہ تھا ۔ ان کی شکل آتش فشاں پہاڑوں سے متشابہ تھی۔ اس جگ ہ ٹرکوں والی لین بالکل نئی تعمیر کی گئی تھ ی کیونک ہ ٹرکوں ک ے چلن ے س ے یہ لین جلدی خراب ہ و جاتی ہے۔ میں ن ے اس نئی لین کا بھرپور فائد ہ اٹھانا شروع کیا ۔ ہم اب الجھیزہ کے علقے میں داخل ہورہے تھے اور مدین ہ 104کلومیٹر دور رہ گیا تھا ۔ سنبھل جا اے دل مضطر ،مدینہ آنے وال ہے۔ پودوں نے اب گہرا سبز رنگ اختیار کرنا شروع کردیا تھا۔ الیُتمہ کے علقے سے گزرتے ہوئ ے ہ م ثنی ۃ الشام ۃ میں داخل ہوگئ ے جو ک ہ ایک تنگ پہاڑی در ہ تھا ۔ عربی میں ثنی ۃ پہاڑی ٹریک کو کہت ے ہیں ۔ ایس ے ہ ی ایک ٹریک س ے گزر کر حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم مدینہ میں داخل ہوئے تھے جس کا نام "ثنیۃ الوداع" تھا۔ یہاں پہاڑ عین ہمارے سر پر کھڑے تھے جن کو کاٹ کر روڈ بنائی گئی تھی۔ یہاں سلئیڈنگ کا خطرہ بھی تھا۔
غزو ہ حمرا السد در ے س ے گزرن ے ک ے بعد ہماری دائیں جانب ایک وسیع میدان آیا جو ک ہ ریس کورس کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔ اس ک ے بعد کون نما سرخ پہاڑیاں تھیں جن ک ے دامن میں "اسماک الحمرا" کا ریسٹ ایریا تھا۔ یہاں کی مچھلی بھی مشہور ہے۔ یہ وہ ی مقام ہے جہاں "غزو ۃ حمراء السد" ہوا تھا ۔ احد کی جنگ کے بعد زخموں سے چور اسلمی فوج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ تیاری کا حکم دیا۔ خدا کے ی ہ بندے ،اس ک ے رسول ک ے حکم پر اپن ے زخموں کی پروا ہ ن ہ کرت ے ہوئ ے دوبار ہ اٹ ھ کھڑے ہوئے۔ے انہوں نےے مشرکین کےے لشکر کا تعاقب کیا اور حمراء السد کےے مقام تک آئے۔ مشرکین کی فوج ن ے ان کا مقابل ہ ن ہ کیا اور رفتار تیز کرک ے نکل گئے۔ اس لشکر کشی نے بڑی حد تک کفار کی اس خود اعتمادی کو توڑ دیا جو احد کی جنگ میں مسلمانوں کو نقصان پہنچا کر پیدا ہوئی تھی ۔ اسی طرح اس کے نتیج ے میں مسلمانوں کے مورال اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوا۔ مدینہ اب صرف 17کلومیٹر باقی رہ گیا تھا۔ اس مقام پر مولنا الیاس قادری صاحب کی نعت کا یہ شعر میری زبان پر جاری ہوگیا۔ ٹھہر جا اے روح مضطر ،نکل جانا مدینے میں 78
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
خدارا اب نہ جلدی کر ،مدینہ آنے وال ہے مولنا اور ان کی جماعت ،دعوت اسلمی کو مدین ے س ے شدید محبت ہے۔ ان کی شاعری کا 99فیصد حصہ مدینے کی آرزو ،اس کی تعریف اور اس سے جذباتی تعلق پر مشتمل ہے۔ اگر اردو اور پنجابی کی نعتی ہ شاعری کا جائز ہ لیا جائ ے تو اس کا بڑا حصہ مدین ے س ے متعلق ہے۔ حیرت کی بات ی ہ ہے ک ہ مک ہ کو بھ ی حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم س ے اتنا ہ ی تعلق ہے جتنا مدین ہ کو ہے ،لیکن اس ک ے بار ے میں بہ ت ہ ی کم اشعار کہے گئے ہیں۔ مدینہ سے متعلق تمام تر شاعری کا مرکز حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا روض ہ انور ہوتا ہے اور آپ کی سرگرمیوں ک ے اصل مرکز مسجد نبوی کو بالکل ہی نظر انداز کرد یا جاتا ہےے جسےے آپ نےے تعمیرر فرمایا اور اسےے ایک دینی حیثیت عطا فرمائی۔ے حضور نبی کریم صلی اللہے علیہے و الہے و سلم نےے زیارت کےے سفر کی اجازت صرف تین مقامات کے لئے دی تھی :مسجد الحرام ،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ اس کے علوہ آپ نے کسی اور مقام کی طرف زیارت کے سفر سے منع فرمایا تھا۔ آپ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے آپ کی مسجد کا ہی قصد کیا جائے اور اسے ہی اپنی عقیدت کا مرکز بنایا جائے۔
حرم مدین ہ گلبی رنگ کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے حرم مدینہ کی حدود کے قریب جا پہنچے۔ یہ "جبل عیر" کہلتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے جبل عیر سے لے کر جبل ثور (یہ مدینہ میں ایک پہاڑ ہے جس کا نام مکہ کے جبل ثور سے ملتا ہے) کو حرم قرار دیا۔ یہاں مکہ کی طرحر چیک پوسٹ بنی ہوئی تھ ی اور للمسلمینر فقط کا بورڈے لگا ہوا تھا۔ے غالبا ًر انہی پہاڑوں میں ثنیۃ الوداع ہے جس کا ذکر مدینہ کی بچیوں کے اس نغمے میں ہے جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی تشریف آوری پر پڑھا تھا۔ طلع البدر علینا ،من ثنیۃ الوداع وجب الشکر علینا ،ما دعا للہ داع روڈے کےے درمیان میں کھجور کےے درخت ایک لئن سےے لگےے تھے۔ے آگےے ذی الحلیفہے کا میقات تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے عمرے اور حج کی ادائیگی کے لئے احرام باندھا تھا ۔ اہل مدینہ کے لئے یہ ی میقات ہے۔ یہاں ایک بہ ت بڑی مسجد بنی ہوئی ہے۔ اس مسجد میں کثیر تعداد میں غسل خان ے موجود ہیں تاکہ حج و عمرہ پر جانے والے افراد یہاں غسل کرکے احرام باندھ سکیں۔
79
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
مدین ہ ہم اب مدین ہ میں داخل ہو ر ہے ت ھے۔ ب ہتر ہوگا ک ہ آگ ے بڑ ھن ے س ے قبل مدین ہ کا نقش ہ ذرا تفصیل س ے بیان کردیا جائ ے۔
مدین ہ کا نقش ہ موجود ہ مدین ہ ایک گول شکل کا شہ ر ہے جس کا مرکز مسجد نبوی ہے۔ مسجد ک ے گرد ایک سڑک بنی ہوئی ہے جسے مدینہ کا پہل رنگ روڈ کہا جاتا ہے۔ اس سے چھ سات کلومیٹر ک ے فاصل ے پر دوسری رنگ رو ڈ ہے جو مدین ہ شہ ر کا ایک چکر لگاتی ہے۔ اس س ے مزید فاصلے پر تیسری رنگ روڈ ہے جو شاہ خالد سے موسوم ہے۔ اگر آپ کسی بھی رنگ روڈ پر سفر کریں اور کسی جانب ن ہ مڑیں تو آپ گھوم کر اسی مقام پر آ جائیں گ ے جہاں سے چلے تھے۔ تیسریر ررنگر رروڈے رحرمر رمدینہے رکیر رباﺅنڈریر رلئنر رہے۔ے راسیر رروڈے رسےے رمشرقیر رسمت ریاض ،شمالی سمت تبوک ،مغربی سمت بدر اور جنوبی جانب مکہ اور جدہ جانے والی ہائی ویز نکلتی ہیں۔ دوسرا رنگ روڈ موجودہ مدینہ کی آبادی کی با ﺅنڈری لئن ہے اور پہل رنگ رو ڈ مسجد نبوی کی ۔ مسجد نبوی سےے مختلف سمتوں میں سڑکیں دوسر ے اور تیسرے رنگ روڈ تک جاتی ہیں۔ ان کے نام مختلف صحابہ کرام جیسے سیدنا ابوبکر ،سیدنا عمر ،سیدنا عثمان ،سیدنا علی اور سیدنا خالد بن ولید رضی الل ہ عنہ م کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور کا مدینہ ،موجودہ شہر کے سیکنڈ رنگ روڈ کے دائرے میں آباد تھا۔ اس دور میں مختلف خاندانوں کی الگ الگ بستیاں تھیں جو اس پورے علقے میں ایک دوسرے سے وقفے وقفے سے پھیلی ہوئی تھیں۔ موجودہ ٹاؤن پلننگ میں ی ہ پورا علق ہ شہ ر ک ے اندر آ گیا ہے۔ اپن ے تقدس س ے ہ ٹ کر بھ ی ی ہ شہ ر عمد ہ ٹاؤن پلننگ اور فطرت کے حسن کا شاہکار ہے۔ میقات ذوالحلیفہ کے قریب ہی سیکنڈ رنگ روڈ ،طریق الھجرہ کو کراس کرتا ہے۔یہاں سیا ہ رنگ ک ے قلع ے کا ایک ماڈ ل موجود ہے۔ ہ م ن ے یہاں س ے بائیں جانب گاڑی موڑی ۔ تھوڑی دور جا کر عمر بن خطاب روڈ کا ایگزٹ تھا۔ یہاں سے دائیں مڑ کر ہم تھوڑی دور چل ے تو فرسٹ رنگ رو ڈ کا سگنل تھ ا جس ک ے دوسری طرف مسجد نبوی اپنی بہاریں دکھا رہی تھی۔ یہ مسجد کی جنوب مغربی سمت تھی اورگنبد خضرا یہاں سے صاف نظر آ رہ ا تھا ۔ یہاں س ے اگر سیدھے چل ے جائیں تو دو راست ے ہ و جات ے ہیں ،ایک مسجد ک ے ارد گرد کی گلیوں میں جاتا ہے اور دوسرا مسجد کی بیسمنٹ میں۔
مسجد نبوی مسجد نبوی میں پارکنگ کا شاندار انتظام ہے۔ آپ ایک ریال فی گھنٹ ہ ک ے حساب سے جتنی دیر چاہے وہاں گاڑی کھڑی رکھیں ۔ پارکنگ س ے باہ ر نکلن ے ک ے راست ے بالکل قریب ہی واقع ہیں اور باہر نکلتے ہی مسجد بالکل سامنے ہوتی ہے۔ دراصل یہ پارکنگ مسجد کے 80
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
صحن کے نیچے بنائی گئی ہے جو مسجد کا حصہ نہیں ہے۔ مسجد کے عین نیچے تہہ خانوں میں ائیر کنڈیشنگ پلنٹ وغیرہ نصب کیا گیا ہے ۔ مسجد الحرام ک ے برعکس ،مسجد نبوی عام مسجدوں کی طرح چوکور شکل کی ہے۔ اس کے چاروں طرف مسجد کے صحن ہیں جو سروس ایریا کا کام کرتے ہیں۔ رش ک ے دنوں میں یہاں صفیں بنا کر نماز بھ ی ادا کی جاتی ہے۔ صحن ک ے باہ ر جنوبی اور شمالی سمت میں ہوٹلز ،ریسٹورنٹس اور مارکیٹیں ہیں ۔ ہ م پارکنگ ک ے گیٹ نمبر ایک سے نکل کر اوپر آئے تو سامنے ہی گنبد خضراء پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ قبل ہ مسجد کی جنوبی سمت میں ہے۔ اس جانب مسجد تھوڑی سی آگ ے نکلی ہوئی ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے زمانے کی مسجد ہے۔ سعودی دور میں دو مرتبہ اس کی توسیع کی گئی ہے جو عثمانی دور کی مسجد سے شمال ،مشرق اور مغرب کی جانب ہے۔ اس آگے نکلی ہوئی جنوبی دیوار میں امام صاحب کا مصلیٰ ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی مقرر کی ہوئی مسجد اس کے اندر ہے۔ اسی کو آپ نے جنت کا حصہ قرار دیا ہے۔ ی ہ ریاض الجن ۃ کہلتا ہے۔ اس کی پہچان ی ہ ہے کہ اس کے کارپٹ سبز رنگ کے ہیں جبکہ پوری مسجد کے کارپٹ سرخ رنگ کے ہیں۔ ریاض الجنۃ کے بائیں جانب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا روضہ ہے۔ یہ دراصل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کمرہ تھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی وفات ہوئی اور آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔ دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے کمرے بھ ی یہیں تھے ۔ انہ ی کا ذکر سورة الحجرات میں ہوا ہے۔ سید ہ فاطم ہ اور علی رضی اللہ عنہما کاگھر بھی ساتھ ہی واقع تھا۔ اس پورے ایریا کے گرد سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں جالیاں لگا کر اسے محفوظ کر لیا گیا تھا۔ے تین اطراف میں یہے جالیاں سبز ہیں اور جنوبی سمت میں ان کا رنگ سنہری ہے۔ سنہری جالیوں میں ہی مواجہہ شریف ہے۔ یہ ان جالیوں میں تین سوراخ ہیں جن میں سے بڑے کے عین سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی قبر انور ہے۔ چھوٹےے ردونوںر رسوراخوںر رکےے رسامنےے رسیدنار رابوبکرر رور رعمرر ررضیر راللہے رعنہمار رکیر رقبریں موجودر رہیں۔ے ریہیںر رکھڑےے رہور رکرر رحضورر رصلیر راللہے رعلیہے رو رالہے رور رسلمر راورر رآپر رکےے رقریبی ساتھیوں کے لئے سلم پیش کیا جاتا ہے۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے حجرات ک ے بالکل پیچھے اصحاب صف ہ کا چبوترہے ہے۔ے یہے اب بھ ی ایک چبوترےے کی شکل میں ہےے جس پر لوگ عبادت کرتےے ہیں۔ ریاض الجنۃ میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے منبر و مصلیٰ نمایاں ہیں۔ آپ کے مصلیٰے کی جگہے سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہے عنہے نےے 91ھ رمیں محراب تعمیر کروائی ۔ موجود ہ محراب س ے ذرا سا دائیں جانب حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کا مصلیٰ ہے۔ آپ کے منبر کی جگہ اب نو سیڑھیوں وال منبر ہے۔ آپ کااصل منبر تین سیڑھیوں کا تھا اور آپ دوران خطبہ اس کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی الل ہ عن ہ ن ے دوسری اور سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ ن ے تیسری سیڑھی پر بیٹھا شروع کیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبر نبوی کے نیچے مزید سیڑھیاں بنوا 81
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کر اصل منبر کو اونچا کر دیا اور بعد ک ے بادشا ہ نچلی سیڑھیوں پر بیٹھت ے رہے۔ے 654ھ بمطابق 1256ء میں مسجد نبوی میں آگ لگ گئی اور منبر جل گیا ۔ اس موقع پر یمن کےے بادشاہے مظفر نےے منبر بھجوایا۔ے اس کےے بعد منبر کئی مرتبہے تبدیل ہوا۔ے آخری منبر سلطان مرادر ثالث عثمانی نےے 998ھے میں بھیجا جو اب بھ ی موجودر ہے۔ے (تاریخ مدینہ، مطبوعہ دارالسلم) ہمار ے مسلمان بھائی اپنی قبض ہ گروپ والی عادت س ے مجبور ہون ے ک ے باعث ریاض الجن ۃ میں بھ ی قبض ہ کر ک ے بیٹھت ے ہیں اور دوسر ے بھائیوں کو یہاں نماز پڑھن ے کا موقع نہیں دیت ے اور دھکم پیل جاری رہتی ہے۔ یہ ی ذہنیت حجر اسود ک ے بوس ے میں کار فرما ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم یہاں تھوڑی سی عبادت کرکے اپنے دوسرے بھائیوں کے لئے جگہے خالی کردیں۔ے خواتین کےے لئےے ریاض الجنۃے مختلف اوقات میں کھول رجاتا ہے۔ے اس دوران مردوں کو وہاں سے نکال کر اس کے تین اطراف میں ریگزین کی دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں اور انہ ی دیواروں کی مدد سے خواتین کی جانب سے ایک راستہ بنا دیا جاتا ہے۔ مسجد نبوی کی تعمیر حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے مدین ہ آمد ک ے فورا ً بعد کی جس میں تمام صحاب ہ کرام رضی اللہے عنہ م ن ے ایک ٹیم کی صورت میں کام کیا۔ مسجد کی پہلی توسیع آپ نے تقریبا ً سات سال بعد خیبر سے واپسی پر کی۔ مسجد کے ستون کھجور کے درختوں کے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلفت میں ان تنوں کو تبدیل کروا دیا کیونک ہ ی ہ کھوکھل ے ہ و گئ ے تھے۔ سیدنا عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما ک ے ادوار میں مسجد کی مزید توسیع کی گئی ۔ سیدنا عثمان ن ے قبل ہ کی جانب بھی مسجد میں توسیع کی جو آج تک موجود ہے۔ اس کے بعد ہمیشہ شمال ،مشرق اور مغرب کی جانب مسجد میں توسیع کی گئی۔ ولید بن عبد الملک کے دور میں سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ جو مدینہ کے گورنر تھے ،نےے 88ھے میں مسجد کی توسیع و تعمیر کی ۔ اس ک ے بعد مہدی عباسی کے دور میں 165-161ھ میں مزید توسیع کی گئی۔ مصر کے سلطان اشرف قاتیبائ ن ے 888ھ میں مسجد کی مزید توسیع کی۔ے ترکی کےے سلطان عبد المجید کےے دور میںر 1265ھ بمطابق 1849ء میں مسجد نبوی کی از سر نو تعمیر کی گئی۔ سعودی دور میں مسجد کی دو مرتبہ تعمیر و توسیع کی گئی۔ پہلی توسیع 1375-1371ھ بمطابق 1955-1951ء اور دوسری 1414-1405ھ بمطابق 1994-1984ء میں کی گئی۔ ان دو توسیعات کے نتیجے میں مسجد نبوی جدید ترین سہولیات س ے آراست ہ ہوگئی ہے۔ مسجد ک ے ہ ر ستون میں سے ایئر کنڈیشنر کا پوائنٹ دیا گیا ہے جس س ے ہ ر وقت تاز ہ ٹھنڈ ی ہوا نکلتی رہتی ہے۔ پہلی سعودی توسیع ک ے بعد مسجد میں 28000نمازیوں کی گنجائش تھ ی جو دوسری تعمیر کےے نتیجےے میںر 268000ہور گئی اورر اگرر صحنوںر کی گنجائشر کو مل رلیا جائےے تو رکل 430000نمازی اب یہاں نماز ادا کر سکتےے ہیں۔ے (تاریخ مدینہ ،صر ، 81-66مطبوعہے دار السلم)
موجود ہ مسجد نبوی ک ے بہ ت س ے درواز ے ہیں ۔ شمالی یعنی قبل ہ کی مخالف سمت میں تین بڑ ے درواز ے ہیں جن میں س ے درمیان وال باب فہ د کہلتا ہے۔ ی ہ مردوں ک ے لئے مخصوص ہے اور دوسر ے دو درواز ے خواتین ک ے لئ ے مخصوص ہیں ۔ مسجد ک ے شمالی حص ے میں دائیں اور بائیں خواتین ک ے لئ ے مخصوص جگ ہ ہے جس ک ے گرد قابل حرکت دیواریں لگا کر پردہ کیا گیا ہے۔ مسجد کی مشرقی اور مغربی دیواروں میں بھی خواتین
82
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کےے لئےے مخصوص دروازےے ہیں۔ے اس کےے علوہے مشرقی دیوار میں باب عبد العزیز اور مغربی دیوار میں باب سعود مردوں ک ے لئ ے مخصوص ہے۔ عثمانی دور کی مسجد میں مغربی دیوار میں باب سلم اور باب صدیق ہیں جبکہ مشرقی دیوار میں باب بقیع ،باب جبریل اور باب نسا ہیں۔ ان میں سے باب بقیع عین مواجہہ شریف کے ساتھ واقع ہے۔ باب جبریل اور باب نسا س ے داخل ہ و کر بھ ی سیدھ ا حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کے روضہ انور کے بالکل قریب پہنچا جاسکتا ہے۔ مسجد کےے اندر دو دروازےے باب عمر اور باب عثمان ہیں۔ے دراصل یہے پہلی سعودی تعمیر کے دروازے تھے جو اب مسجد کے اندر آگئے ہیں۔ ان دونوں دروازوں کے ساتھ تین منزل ہ لئبریری قائم کی گئی ہے۔ مسجد ک ے درمیان میں کھلی چھ ت چھوڑ دی گئی ہے جس پر چھتریاں لگی ہوئی ہیں۔ دھوپ اور گرمی میں ان چھتریوں کو کھول دیا جاتا ہے جبکہ رات اور سردی کے دنوں میں انہیں بند کر دیا جاتا ہے۔ مسجدر رنبویر ردنیار ربھرر رکےے ربہترینر رپروفیشنلزر رکیر رمحنتر رکار رشاہکارر رہے۔ے ربےے رشمار انجینئرز ،آرکیٹکٹس ،بڑھئی ،معمار ،مزدور ،ماربل کا کام کرن ے والے ،الیکٹریشن اور نہ جانے کن کن شعبوں کے ماہرین نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہو گا جس کے نتیجے میں ی ہ شاہکار سامن ے آیا ۔ مسجد کا پرانا حص ہ عثمانی بادشاہوں کا تعمیر کرد ہ ہے۔ انہوں نے اپن ے دور میں مسجد کی تعمیر ک ے لئ ے دنیا بھ ر ک ے بہترین ماہرین کو اکٹھ ا کیا اور انہیں مدینہے میں آباد کیا۔ے انہیں حکم دیا گیا کہے اپنا فن اپنی اولد میں منتقل کردیں۔ے جب یہ ماہرین کی یہ نئی نسل جوان ہوئی تو اس سے مسجد نبوی کی تعمیر کروائی گئی ۔ دو سو سال گزرنے کے بعد بھ ی یہ تعمیر ابھ ی نئی لگتی ہے۔ سعودی توسیع کے دوران اس حصے کو اپنی اصل حالت ہی میں رکھا گیا ہے۔ کہ ا جاتا ہے ک ہ موجود ہ مسجد نبوی حضور نبی کریم صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کے زمانے کے پورے مدینہ شہر پر مشتمل ہے۔ میں نے اٹلس سیرت نبوی میں شائع شدہ عہد رسالت کے مدینہ کا نقشہ دیکھا۔ پھر مسجد نبوی کی لئبریری میں مدینہ کا ماڈل دیکھا۔ ان ک ے مطابق مدین ہ شہ ر کی تفصیل س ے سیاحت کی ۔ ان کی روشنی میں میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔ موجود ہ مسجد نبوی زیاد ہ س ے زیاد ہ محل ہ بنی نجار اور ایک آد ھ اور محل ے پر مشتمل ہے۔ عہد رسالت کا مدینہ ،تقریبا ً آج کے مدینہ کے سیکنڈ رنگ روڈ کی حدود تک پھیل ہوا تھا۔ بنی معاویہ ،بنی عبد الشھل اور بنی حارثہ کے محلے مسجد نبوی اور جبل احد کے درمیان واقع تھے۔ بنی نجار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ننھیالی رشتے دار تھے، عین مسجد نبوی کی جگہ اور جنت البقیع کے آس پاس آباد تھے۔ بنی ظفر موجودہ مدینہ کےے فرسٹر رنگر روڈے کےے باہرر جنوبر مشرقی سمتر میںر آبادر تھے۔ے بنی قریظہے جنوب مشرق ہ ی میں سیکن ڈ رنگ رو ڈ ک ے آس پاس آباد تھے۔ ان س ے تھوڑا ہ ٹ کر بنی قینقاع اور بنی نضیر کے محلے اور قلعے تھے۔ قبا مسجد نبوی سے محض سات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ایسا ضرور تھا کہ اس وقت کے مدینہ کے محلے ایک دوسرے سے ذرا فاصلے پر آباد تھے اور ان میں آبادی ن ہ تھ ی جیسا ک ہ ہمار ے ہاں ک ے چھوٹ ے شہروں اور قصبوں میں ہوتا ہے۔
83
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
مسجد کے شمالی جانب بڑے بڑے ہوٹل ہیں جو بہت مہنگے ہیں۔ ان کا یومیہ کرایہ پیک سیزن میں 500ریال اور آف سیزن میں 200ریال ہوتا ہے۔ اسی طرف فرسٹ رنگ روڈ کے باہر ایک محلہ ہے ،جو بنگالی محلہ کہلتا ہے۔ یہاں سستے کمرے مل جاتے ہیں لیکن ان میں صفائی کا مناسب انتظام نہیں ہوتا ۔ اسی محل ے میں بہ ت س ے پاکستانی ہوٹل واقع ہیں جہاں چٹخارے دار کھانے مل جاتے ہیں۔ پاکستان ہاﺅس کی دو عمارتیں بھی یہیں واقع ہے۔ مسجد کے مغربی اور جنوبی جانب مارکیٹیں ہیں جہاں بہت سی اشیا برائے فروخت ہوتی ہیں۔ یہ کافی سستی مل جاتی ہیں۔
رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی قبر انور میں نے اپنی فیملی کو خواتین کی سائیڈ پر روانہ کر دیا۔ اس کے بعد میں باب بقیع سے مسجد میں داخل ہوا ۔ میرے دائیں جانب مواجہہ شریف کی سنہری جالیاں تھیں۔ ان کے سامنے بہت س ے لوگ کھڑے درود و سلم پڑ ھ رہے تھے۔ ایک صاحب جو یقینا مطوع تھے، جالیوں ک ے سات ھ کھڑ ے لوگوں کو کنٹرول کر رہے تھے۔ میں بھ ی انہ ی لوگوں میں آکھڑا ہوا اور سب س ے پہل ے رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی خدمت میں سلم پیش کیا۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں سلم پیش کرنے کا موقع مل۔ میں خاصی دیر وہیں کھڑا درود و سلم کے نذرانے پیش کرتا رہا۔ درود دراصل حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے لئے اللہ کی رحمت کی دعا ہے۔ آپ یقینا ہماری دعا کے محتاج نہیں لیکن ایک فقیر ،سخی کو دعا کے علوہ کیا دے سکتا ہے۔ مج ھ اپنی ذات پر رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے احسانات یاد آن ے لگے۔ اس دنیا میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت خدا کی پہچان ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و ال ہ و سلم کی ذات ن ہ ہوتی تو ہ م کس طرح اپنا تعلق اپن ے الل ہ س ے قائم کر پاتے۔ دور قدیم سے پائے جان ے والے الہامی مذاہ ب کو تو خود انہ ی کے علماءن ے بگاڑ دیا تھا ۔ حضور کی بدولت ہمیں قرآن نصیب ہوا جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکی۔ مجھے یقین ہے اس مقام پر الل ہ تعالی ٰ ک ے انوار کی بارش ہورہ ی ہ و گی ۔ اس میں میرا وجود عجیب سا لگ رہا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ سمندر میں ناپاک قطرہ گرنے سے سمندر کو کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ سمندر اس قطرے کو خود میں فنا کرکے پاک کر دیتا ہے۔ ی ہ صوفیا ک ے وحدت الوجود ک ے فلسف ے کی طرح انسان کی ذات ک ے خدا کی ذات میں جا ملن ے والی بات نہیں تھی ۔ انسان ک ے گناہوں کو حرم کی حاضری دھ و کر پاک کردیتی ہے اور اس ک ے وجود کا اس طرح س ے تزکی ہ ہ و جاتا ہے ک ہ و ہ آئند ہ گناہوں سے اجتناب کرنے لگتا ہے۔
84
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ابوبکر و عمر رضی الل ہ عن ہما سیدنا ابوبکر و عمر رضی الل ہ عنہما صحابہ کرام میں ممتاز ترین حیثیت ک ے حامل ہیں۔ حضور کی وفات کے موقع پر سب لوگوں نے بالتفاق سیدنا ابوبکر کو خلیف ہ منتخب کر لیا۔ آپ کی پوری زندگی حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ساتھ گزری تھی۔ بچپن کی دوستی ،جوانی کا ساتھ ،ادھیڑ عمری میں سب سے آگے بڑھ کر قبول اسلم ،ساری عمر کی کمائی ہوئی دولت کو حضور کے مشن پر خرچ کر دینا ،ہجرت کے سفر میں ہمراہی، غزوات میں شرکت ان سب پر اگر غور کیا جائے تو آپ کی ساری عمر ہی سراپا محبت نظر آتی ہے۔ے سوا دو سال کےے دور خلفت کی مختصر مدت میں آپ نےے مرتدین اور مانعین زکوة کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کی فتح کی بنیاد بھی رکھ دی جو کہ آپ کی زندگی کا نہایت ہی حیران کن باب ہے۔آپ کی فراہم کی گئی مضبوط بنیادوں پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کی سلطنت کا مکمل خاتمہ کردیا اور قیصر کو ایشیا اور افریقہ سے نکال باہر کیا۔ میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے پہلو میں یہ دونوں ہستیاں آرام فرما تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کیا شان تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی دعا ک ے نتیج ے میں اسلم لئ ے اور پھ ر زندگی دین ک ے لئ ے وقف کردی ۔ آپ کا دور حکومت مسلمانوں کی تاریخ کا سب سےے تابناک باب ہے۔ے دینی و دنیاوی اعتبار سے مسلمان آپ کے دور میں جس عروج پر پہنچے وہ پھر کبھی نصیب نہیں ہوا۔ سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہے عنہما کےے دور میں کی گئی فوجی کاروائی دراصل حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے مشن کی تکمیل تھی ۔ تاریخ میں ایسی ہ ی ایک کاروائی سیدنا موسیٰ علیہ السلم کے بعد ان کے خلفاء یوشع اور کالب علیہما السلم نے کی تھی ۔ امت مسلم ہ میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی الل ہ عنہما کی وہ ی حیثیت ہے جو سیدنا یوشع و کالب علیہما السلم کی بنی اسرائیل میں تھی ۔ فرق ی ہ ہے ک ہ و ہ دونوں حضرات منصب نبوت پر فائز ہوئ ے لیکن حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم پر نبوت کو ختم کردیا گیا ورنہ آپ کے فرمان کے مطابق ابوبکر و عمر بھی نبی ہوتے۔ حضور صلی اللہے علیہے و الہے و سلم کی تشریف آوری سےے قبل دنیا میں شرک کو عالمگیر حیثیت حاصل تھی ۔ عرب شرک کا گڑ ھ تھا ۔ دنیا کی ایک سپر پاور ایران کی حکومت بزور قوت لوگوں کو توحید س ے برگشت ہ کرکےے آگ اور دیوتاﺅ ں کی عبادت پر مجبور کرتی تھی۔ دنیا کی دوسری سپر پاور روم اگر چہ سیدنا عیسی ٰ علیہ السلم کی امت ہونے کے باعث توحید کی علمبردار تھی لیکن انہوں نے اپنے دین میں شرک کو داخل کر لیا تھا ۔ ابوبکر و عمر رضی الل ہ عنہما کی اس کاروائی ک ے نتیج ے میں دنیا ک ے بڑے حصے سے مذہبی جبر کا خاتمہ ہوا۔ شرک کی آفیشل حیثیت ایسی ختم ہوئی کہ اس کے بعد سے شرک کبھی سر نہ اٹھا سکا۔ آج بھی اگر چہ دنیا بھر کے مذاہب میں شرکیہ عقائد و اعمال موجود ہیں لیکن کوئی سینہ ٹھونک کر شرک کا علمبردار بن کر کھڑا نہیں ہوتا۔ ہندوﺅں کے بڑے بڑے سکالرز بھی خود کو اہل توحید قرار دیتے ہیں۔ شرک میں بہت سی قومیں اگرچہ مبتل ہیں لیکن اسے کوئی اپنا دین ماننے کے لئے تیار نہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اس فوجی کاروائی کے نتیجے میں وہ پورا علقہ حکومت اسلمیہ کے زیر نگیں آ گیا
85
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جسے بائبل میں اولد ابراہیم کی میراث کہا گیا ہے۔ سیدنا یوشع اور کالب علیہما السلم کےے دور میں بھ ی فوجی کاروائی اسی علقےے میں کی گئی تھی۔ے (دیکھیےے بائبل کتاب یشوع)
مسجد نبوی کی لئبریری اور میوزیم اب میں عثمانی دور کی مسجد نبوی میں داخل ہوا ۔ وسیع و عریض مسجد میں سونے کا انٹر نیشنل مقابل ہ ہورہ ا تھا ۔ ہ ر قوم س ے تعلق رکھن ے وال ے افراد دنیا و مافیہ ا س ے بے خبر سوئےے پڑےے تھے۔ے مسجد کےے اندر باب عمر اور باب عثمان کےے پاس ایک سہے منزلہ لئبریری ہے۔ے میں اس لئبریری میں جاگھسا۔ے یہے دو حصوں پر مشتمل ہے۔ے اس میں قرآن ،تفسیر ،حدیث ،سیرت ،فقہ ،اصول ،عربی زبان و ادب ،صرف و نحو ،سیاسیات، نفسیات ،معاشیات اور بہت سے موضوعات پر کثیر تعداد میں عربی کتب موجود ہیں۔ اس لئبریری کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا مخطوطات کا سیکشن ہے جو باب عثمان کے سیکنڈ فلور پر واقع ہے۔ یہاں سیدنا عثمان غنی رضی الل ہ عنہ کے ذاتی نسخے کی نقل بھ ی موجود تھ ی ۔ اصل نسخ ہ استنبول کے عجائب گھ ر میں موجود ہے۔ مشہور روایت کے مطابق یہ وہی نسخہ ہے جس کی تلوت کرتے ہوئے آپ شہید ہوئے تھے۔ اس کے علوہ ہر دور میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن وہاں موجود تھے۔ ردنیا بھ ر کی اقوام ن ے اپنی آرٹسٹک صلحیتوں کا اظہار مجسم ہ سازی ک ے فن سے کیا ۔ مسلمانوں ن ے اپنی تمام تر صلحیتیں فن کتابت ک ے لئ ے وقف کردیں چنانچ ہ ہمارے ہاں خطاطی کے ایسے ایسے نادر نمونے موجود ہیں جن کی مثال دنیا کی کسی قوم کے ہاں نہیں ملتی ۔ یہاں آٹ ھ سو سال پہل ے کا ایک قرآن موجود تھ ا جس پر بہ ت س ے رنگوں سے کام کیا گیا تھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جو رزلٹ ہم آج جدید ترین کلرڈ لیزر پرنٹر کی مدد سے حاصل کرتے ہیں ،وہ اس دور میں ہاتھ کے کام میں موجود تھا۔ قارئین کے ذوق کی تسکین کے لئے میں یہاں مخطوطات اور نوادرات کی تفصیل درج کر رہا ہوں۔ •بارہویں صدی کا قرآن مجید ،خط نسخ متقن۔ اس میں آیت کے نشان کے دائرے کو سنہرے رنگ میں لکھا گیا ہے۔ •1038ھ کا لکھ ا ہوا قرآن مجید ۔ سنہر ے اور نیل ے حاشیوں کے ساتھ۔ •1296ھے میں مولوی محمد یوسف دہلوی ک ے ہات ھ کا لکھ ا ہوا قرآنر رمجید۔ے راسر رمیںر رسنہرے،ر رنیلےے راورر رسبزر ررنگر رکا استعمال کیا گیا ہے۔ •بارہویں صدی ہجری کا قرآن مجید۔ •میانوالی کے احمد یار خان کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید۔ •گولئی میں لکھ ا ہوا قرآن مجید۔ے اس کےے کاتب کی تاریخ وفات 1245ھ تھی۔ ہر صفحے پر ایک دائرہ بنا ہوا تھا جس کے اندر قرآنی آیات لکھ ی ہوئی تھیں۔ے یہے بھ ی قرآن مجید کا 86
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کامل نسخہ تھا۔ •لکڑی ک ے کور وال ے قرآن مجید ۔ ان کا تعلق فلسطین سے تھا۔ •قاضی عیاض کی شفا۔ یہ نسخہ 1285ھ کا لکھا ہوا تھا۔ •804ھ 1401 /ء کی شرح الجامع ۔ یہ عمر بن علی بن الملقن انصاری کی تصنیف ہے۔ •1258ھ میں لکھا گیا بخاری کا نسخہ •مسلم کا قدیم نسخہ •1343ھ میں سونے کے پانی سے لکھا گیا قرآن مجید۔ •1880ء ر میںر رکھینچیر رگئیر رکعبہے راورر رمسجدنبویر رکیر رنادر تصاویر ۔ اس وقت کیمرا نیا نیا ایجاد ہوا ہ و گا ۔ فوٹو گرافر کا نام صادق بیگ لکھ ا تھا ۔ غالبا ًر ی ہ ترک ہوں گے۔ انہوں نے اپنی صلحیتوں کا بہترین مظاہر ہ کرت ے ہوئ ے ان تصاویر کو ڈیویلپر رکیار رہے۔ے ریہے ربلیکر راینڈے روائٹر رتصاویرر رتھیں۔ے رانر رمیں مسجد الحرام کی عمارت ایک منزل ہ تھی ۔ مقام ابراہیم کے پاس امام صاحب ک ے منبر ک ے لئ ے ایک بلند چبوتر ہ بنایا گیا تھا۔ے یہے اسی قسم کا تھ ا جیسا کہے مسجد نبوی میں ریاض الجنۃے میں اب بھ ی موجود ہے۔ے بعد کی کسی توسیع میں اس چبوترے کو ختم کردیا گیا۔ مسجد نبوی کی تصاویر میں گنبد خضرا نمایاں تھ ا اور چار مینار نظر آرہے تھے۔ ی ہ مینار اب بھی موجود ہیں۔ یہاں جنت البقیع کی تصاویر بھی تھیں جن میں بہ ت س ے مزارات نظر آرہے تھے۔ غالبا ً 1905ء میں ان مزارات کو گرا کر تمام قبروں کے حضور صلی اللہ علیہ و ال ہ و سلم ک ے حکم ک ے مطابق ایک ہات ھ ک ے برابر کر دیا گیا۔ •مصر ،ایران اور الجزائر کے قدیم کاتبوں کے قلم دوات •مدینہے رشہرر رکار رایک 3Dر رماڈلر ربھیر رموجودر رتھار رجور رسعودی آرمی ن ے 1998ء میں بنایا تھا۔ اس میں تمام پہاڑ ،مدینہ کے محلے اور مسجد نبوی نمایاں تھے۔
ریاض الجنۃ 87
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
لئبریری س ے نکل کر میں ریاض الجن ۃ کی طرف آیا ۔ یہاں ریگزین کی دیوار لگی ہوئی تھی اور اس کے اندر خواتین نوافل اور اس سے زیادہ دھکم پیل میں مصروف تھیں ۔ ان کی چیخ و پکار باہ ر بھ ی سنائی د ے رہ ی تھی ۔ میں قریب ہ ی بیٹ ھ گیا ۔ تھوڑی دیر میں خواتین کا وقت ختم ہوا ۔ انہیں واپس ان کی جگ ہ بھیجا گیا اور مردوں ک ے لئ ے ریاض الجن ۃ کھول دیا گیا ۔ میں بھ ی وہاں داخل ہوا اور دو نفل ادا کئے۔ یہاں سجد ہ کرت ے ہوئے میرے دل میں یہ دعا تھی : مل گئے مصطفی اور کیا چاہئے فضل رب العلءاور کیا چاہئے ہے یہ میری جبیں اور ریاض الجنۃ کی زمیں اب قضا کے سوا اور کیا چاہئے اسی اثنا میں عصر کی اذان ہوئی ۔ میں جماعت کے انتظار میں وہیں بیٹھا رہا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر گردش کرنے لگا جب سیدنا بلل رضی اللہ عنہ اذان دیتے ہوں گ ے اور صحاب ہ کرام جوق در جوق مسجد کی طرف آت ے ہوں گے۔ کچ ھ ہ ی دیر ک ے بعد حضورصلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے حجرے کا دروازہ کھلتا ہو گا اور آپ اس میں سے باہر تشریف لتے ہوں گے اور جماعت ہوتی ہوگی۔ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم قرآن کی آیات تلوت کرکے سناتے ہوں گے۔ تعلیم و تعلم کا سلسلہ چلتا ہوگا۔ جو ہم بھی ہوتے واں خاک گلشن ،لپٹ کے قدموں سے لیتے اترن چند منٹ بعد جماعت کھڑی ہوگئی ۔ نماز کی سعادت حاصل کرن ے کے بعد میں وہاں سےے نکل آیا تاکہے دوسرےے بھائیوں کو بھ ی موقع مل سکے۔عصر کی نماز ک ے بعد جنت البقیع کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ میں بھی جنت البقیع کی طرف روانہ ہوا۔ اس کی تفصیل آگے بیان کی جارہی ہے۔
اصحاب صفہ کا چبوترہ واپسی پر مجھے ریاض الجن ۃ ک ے قریب ہ ی اصحاب صف ہ ک ے چبوتر ے ک ے پاس جگ ہ ملی۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر آگیا جب مدینہ ہجرت کرنے والے بے سر و سامان اکیلے مرد یہاں رہا کرتے تھے ۔ اہل مدینہ کی برادری ان کی ضروریات کا خیال رکھتی اور چند ہی دن میں یہ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو جاتے۔ یہاں رہ کر یہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے قرآن سمجھتے اور اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہتے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عن ہ بھ ی انہ ی میں س ے ایک تھے جن کی بدولت ہمیں حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی سیرت کی تفصیلت کا ایک بڑا حصہ میسر آیا۔
ک ھجوروں ک ے پیکٹ اور کرکٹ ہ م مغرب ک ے انتظار میں بیٹھےے تھے۔ بہ ت س ے لوگوں نےے روز ہ رکھ ا ہوا تھ ا اس لئے مسجد میں افطاری کےے لئےے کھجوروں اور پانی کا انتظام تھا۔ے اچانک ایک صاحب کے موبائل کی بیل بجی ۔ انہوں نے ٹون میں کوئی انڈین گانا لگا رکھا تھا۔ سب نے انہیں گھور
88
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کر دیکھ ا ۔ و ہ خاص ے شرمند ہ ہوئے۔ انسان کو ایسا کام ہ ی نہیں کرنا چاہئ ے جس س ے وہ شرمندہ ہو۔ اچانک کہیں س ے ایک سفید ریش نورانی صورت وال ے بزرگ نمودار ہوئے۔ ان ک ے ہاتھ میں ایک زنبیل سی تھی۔ سب لوگ انہیں اور ان کی زنبیل کو دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ انہوں نےے اس میں ہاتھے ڈال راور کھجور کا ایک پیکٹ نکال کر ایک صاحب کو دیا ،پھر دوسرےے کو اور اس کےے بعد سلسلہے چل نکل۔ے زنبیل سےے پیکٹ نکلتےے آرہےے تھےے اور وہ لوگوں میں بانٹتے جارہے تھے۔ پچھلی صفوں میں بیٹھے ہوئے حضرات ہاتھ اٹھا کر ان سے فرمائش کرت ے تو و ہ فورا ًر پیکٹ اچھال دیت ے جس ے فرمائش کرن ے وال ے حضرات آسانی سے کیچ کرلیتے۔ ان کی تھرو اتنی شاندار تھی کہ لوگوں کے سروں اور کانوں کے درمیان سےے رپیکٹر رنکلر رجاتار راورر رکسیر رسےے رنہے رٹکراتا۔ے راپنیر رجوانیر رمیںر رانہوںر رنےے رنجانےے رکتنے کھلڑیوں کو رن آﺅ ٹ کیا ہوگا ۔ سب حاضرین اس صورتحال کو انجوائ ے کرنے لگے۔ میں ان کی اس صلحیت سے اتنا متاثر ہوا کہ اگر میرا بس چلتا تو انہیں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا فیلڈنگ کوچ مقرر کروا دیتا جس کی ہماری ٹیم کو ان دنوں بڑی ضرورت تھی۔ میں ن ے بھ ی ایک پیکٹ حاصل کیا ۔ اس میں بادام والی کھجوریں تھیں اور بہ ت مزیدار تھیں۔ انہ ی کھجوروں کےے باعث ساتھے بیٹھےے ہوئےے حضرات سےے بات چیت بھ ی ہوئی۔میرے دائیں طرف ایک ایرانی زائر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کی سیاحت نہیں کی تھی لیکن بھارت کی سیاحت کر چک ے تھے۔ انہوں ن ے مجھے تہران آن ے کی بھرپور دعوت دی اورر رمیںر رنےے رانہیںر رپاکستانر رآنےے رکی۔ے ربائیںر رطرفر رایکر رپاکستانیر ربزرگر رتھے۔ے رانہوںر رنے پنجابیر رمیںر رمجھے رسےے رپوچھا،ر ر”تسیر رپاکستانر راچر رکتھےے ردےے راو؟“ر رمیںر رنےے رجوابر ردیا، ”جہلم“ ۔ ی ہ سن کر بڑ ے خوش ہوئے۔ فرمان ے لگے ” ،جہلم اچ کیہڑ ے محل ے دے؟“ میں نے جواب دیا” ،مشین محلہ نمبر 3۔“ بولے” ،مشین محلے اچ کیہڑی گلی؟“ میں نے اس گلی کا نام بتایا جہاں میرا بچپن گزرا تھا ۔ اب ان کی باری تھی ۔ میں ن ے ان س ے یہ ی سوال کئے تو معلوم ہوا کہ ان کا گھر اس سے اگلی گلی ہی میں تھا۔ ایک دوسر ے ملک میں جب اپن ے آبائی علق ے کا کوئی شخص مل جائ ے تو اس کی کتنی خوشی ہوتی ہے ،اس کا انداز ہ وہ ی لوگ کر سکت ے ہیں جو اس تجرب ے س ے گزرے ہوں۔ ہم لوگ اگرچہ جہلم کو 1997میں چھوڑ کر پہلے لہور اور پھر کراچی میں آباد ہوگئے تھے لیکن بچپن کے محلے کی گلیاں ساری عمر نہیں بھولتیں۔ان سے محلے کے لوگوں کے بارے میں گفتگو ہونے لگی ۔ اسی اثنا میں اذان ہوئی۔ ہم نے مغرب کی نماز ادا کی ۔ وہ صاحب اپنی فیملی ک ے سات ھ عمر ہ کی ادائیگی ک ے لئ ے آئ ے تھے۔ میں ن ے انہیں جد ہ میں اپنے گھر آنے کی بھرپور دعوت دی اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ اب میں اس سفر نامے کےے رلئےے رمسجدر رکےے رطولر رور رعرضر رکیر رپیمائشر رکرنےے رلگار رتاکہے رقارئینر رکور رمسجدر رکی تفصیلت سے آگاہ کیا جاسکے۔
عرب بزرگ کا درس مسجد کے درمیانی حصے میں ایک عرب بزرگ کرسی پر بیٹھے تھے اور کچھ درس دے رہے تھے۔ طلباء زمین پر بیٹھے نوٹس ل ے رہے تھے۔ بہ ت س ے پاکستانی بھ ی ان ک ے حلقہ 89
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
درس میں بیٹھے بڑی عقیدت س ے سر دھ ن رہے تھے اگرچ ہ انہیں اس کی کچ ھ سمج ھ نہ آرہ ی تھی ۔ مجھے ی ہ دیک ھ کر امام مالک علی ہ الرحم ۃ کا حلق ہ درس یاد آگیاجب و ہ حدیث پڑھات ے ہوں گ ے تو دور دور س ے آئ ے ہوئ ے طالب علم کس طرح ان کا درس سنت ے ہوں گے۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہ بزرگ درس ختم کر رہے تھے۔ میں نے ایک طالب علم سے اس ک ے نوٹس والی کاپی ل ے کر دیکھ ا تو میری ہنسی نکل گئی کیونک ہ و ہ بزرگر Data Collection & Analysisر کا مضمون پڑھ ا رہے تھے جس ے لوگ بڑی عقیدت س ے سن رہے تھے۔ غالبا ًر ی ہ مدین ہ یونیورسٹی ک ے پروفیسر ہوں گ ے جو طلبا کو ریسرچ ک ے طریق کار سے آگاہ کر رہے تھے لیکن عربی سے ناواقف لوگ ان کے درس سے عقیدت کشید کر رہے تھے۔
گنبد خضرا مسجد کی تفصیلت کو نوٹ کرتا ہوا میں باہ ر آگیا اور دروازوں کی تفصیل نوٹ کرنے کےے رلئےے رمیںر رنےے رمسجدر رکےے رگردر رچکرر رلگایا۔ے رجبر رمیںر رقبلہے رکیر رجانبر رپہنچار رتور رسفید روشنیوں میں نہایا ہوا گنبد خضرا بہت بھل لگ رہ ا تھا۔ یہ گنبد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے عین اوپر بنا ہوا ہے۔ ہماری نعتیہ شاعری اس گنبد کے تذکرے پر اپنی معراج پر پہنچتی ہے۔ مجھے مولنا الیاس قادری کے یہ شعر یاد آئے۔ کیسا ہے پیارا پیارا ،یہ سبز سبز گنبد کتنا ہے میٹھا میٹھا ،میٹھے نبی کا روضہ جس وقت روح تن سے عطار کی جدا ہو ہو سامنے خدایا ،میٹھے نبی کا روضہ آپ کی گلیوں کے کتے مجھ سے تو اچھے رہے ہے سکوں ان کو میسر سبز گنبد دیکھ کر ن ہ صرف گنبد بلک ہ اس ک ے سبز رنگ س ے اتنی عقیدت پیدا کی جاتی ہے ک ہ بہ ت سے لوگ سبز چادر زمین پر نہیں بچھاتےے تاکہے اس پر پاﺅ ں نہے آئیں۔ے سبز رنگ کی اشیا کو ٹائلٹ میں نہیں لے جاتے کہ اس س ے اس رنگ کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ خدا جانے ی ہ لوگ گھاس پر چلت ے ہوئ ے کیا کرت ے ہوں گے ؟ گنبد خضرا س ے تمام تر عقیدت کا معامل ہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے قائم ہے۔ مجھے اس طرز فکر سے کچھ اختلف ہے۔ گنبد خضرا سے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی نسبت یقینا قائم ہوتی اگر آپ نے اپنی وفات سے قبل اپنا عالیشان روضہ بنوایا ہوتا ،اس پر سبز گنبد بنوا کر آپ حکم دیت ے ک ہ مجھے اس میں دفن کرنا اور ہ ر سال یہاں آکر میرا عرس منانا تاکہ دنیا کو تمہارے نبی کی شان کا پتہ چل سکے۔ یا چلئے ایسا معاملہ ہوتا کہ آپ کو اس کا موقع نہیں مل تو آپ وصیت ہی فرما دیتے اور آپ کے خلیفہ اول اس حکم پر عمل کرتے۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے اس ک ے بالکل متضادر رمعاملہے رفرمایا۔ے رمیںر راپنیر رطرفر رسےے رکوئیر رتبصرہے رکرنےے رکیر ربجائےے رآپر رکیر روہ احادیث نقل کرتا ہوں جن پر پوری امت کا اتفاق رائے ہے۔ 90
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm ”جابر س ے روایت ہے ک ہ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے قبروں کو پخت ہ بنانے، انہیں بیٹھن ے کی جگ ہ بنان ے اور ان پر عمارتوں کی تعمیر س ے منع فرمایا ۔ “ (مسلم ، کتاب الصلوة) ”سیدہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے عیسائیوں کے ایک گرجا کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا۔ آپ نے فرمایا’ ،جب بھ ی ان کا کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو ی ہ اس کی قبر کو عبادت گا ہ بنا لیتے۔ الل ہ کے نزدیک یہ لوگ روز قیامت بدترین مخلوق میں سے ہوں گے۔“ (بخاری ،کتاب الصلوة) ”سید ہ عائش ہ ،ابن عباس اور ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ م س ے روایت ہے ک ہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے فرمایا” ،الل ہ یہود و نصاری ٰ پر لعنت فرمائ ے کہے انہوں ن ے اپن ے انبیاءکی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا۔ ‘ ‘ سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں (” :آپ کو حجرے کے اندر اس لئے دفن کیا گیا کہ ) اگر آپ کی قبر مبارک کھلی جگہ پر ہوتی تو حضور کو یہ خدشہ تھا کہ لوگ کہیں اسے عبادت کی جگہ نہ بنا لیں۔ “ (بخاری ،کتاب الجنائز)
جن لوگوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ذات سے محبت ہے وہ یقینا یہ چاہیں گے کہ وہ آپ کا اس خدشہ کے مطابق آپ کی قبر انور اور روضہ مبارک کو اس شرک کا مرکز نہ بننے دیں جس کو مٹانے کے لئے آپ کو اس دنیا میں بھیجا گیا۔ آپ کی وفات کے کئی سو سال کے بعد حجرہ عائشہ پر گنبد تعمیر کیا گیا جس کا رنگ سفید تھا۔ بعد میں کسی بادشاہ نے اس پر سبز رنگ کروایا۔ اس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ گنبد کو حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم س ے کوئی نسبت نہیں ہے ۔ ی ہ بعد ک ے کسی بادشا ہ کا کارنام ہ ہے۔ اب اگر کوئی اور حکمران اس گنبد پر کوئی اور رنگ کروا د ے یا یہاں گنبد کے علوہ کچھ اور تعمیر کر دے تو کیا اس رنگ یا ڈیزائن کی نسبت حضور صلی الل ہ علی ہ و الہ و سلم کی طرف کرنا درست ہوگی اور اس س ے اسی عقیدت کا مظاہرہ کیا جائے گا جس کا موجودہ گنبد اور اس کے سبز رنگ سے کیا جاتا ہے؟ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی مسجد کو آپ سے گہری نسبت ہے۔ آپ ن ے اپن ے مقدس ہاتھوں س ے اس کی بنیاد رکھ ی اور اس ے اپنی دعوت کا مرکز بنایا ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہماری پوری نعتیہ شاعری میں جو اشعار اس مسجد کی شان میں کہےے گئےے ہیں ،ان کا حصہے بمشکل نصف فیصد بھ ی نہے ہوگا۔اسی چیز کور Shift of emphasisرکہت ے ہیں ۔ یعنی جس چیز کو حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم نےے 100رکی حیثیت دی ،ہم نے اسے 20کر دیا اور جس چیز کی اہمیت 10تھی ،اسے 500کردیا۔ شاید ایسا معلوم ہوتا ہے ک ہ ہندوستان بھ ر میں پھیل ے ہوئ ے مزارات ہمار ے ذوق کی تسکین کے لئے ناکافی تھے اس لئے ہم نے اپنی طرف ایک اور مزار کا اضافہ مدینے میں کر لیا۔ اس پر غور کرن ے کا مقام ہے ک ہ کیا حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ہمار ے اس طرز عمل سے خوش ہوں گے یا ناراض؟
اخوت و مساوات مسجد میں دنیا بھ ر س ے آئ ے ہوئ ے افراد موجود تھے اور بغیر کسی ذات ،برادری ،رنگ ، نسل اور قوم کی تفریق ک ے سات ھ سات ھ بیٹھے تھے اور نماز ادا کر رہے تھے۔ معلوم نہیں مسجد میں اس اخوت و مساوات کے مظاہرے کے بعد جب ہم مسجد سے باہر جاتے ہیں
91
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
تو پھر کیوں اس تفریق میں ایسے مبتل ہوتے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کا رشتہ دوسری ذات کے لوگوں سے کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ عشاءکی نماز کےے بعدر میں نےے فیملی کو لیا اور ہوٹلر پہنچ گئے۔ے میرار تجربہے ہےے کہ حرمین میں آپ ک ے پاس دو موبائل فون ہون ے چاہئیں تاک ہ فیملی س ے رابط ہ رہے۔ حج و عمرہ کی ادائیگی کے لئے یہاں کی موبائل کمپنیاں سستے داموں سم فروخت کرتی ہیں۔ جتنی رقم کی سم ہوتی ہے ،اتنا ہ ی بیلنس اس میں ہوتا ہے۔ موبائل کمپنیوں ک ے سیل پوائنٹ مسجد الحرام اور مسجد نبوی ک ے بالکل قریب واقع ہیں ۔ اگر آپ حج و عمرے کی ادائیگی ک ے لئ ے آ رہے ہیں تو اپنا موبائل سیٹ ل ے آئیں اور یہاں آکر سم خرید لیں۔ آپ کے قیام کے دوران اس کا بیلنس ختم ہو ہی جائے گا۔ کھانے کے طور پر ہم نے شاورما پر گزارا کیا جس کی کوالٹی کچھ اچھی نہ تھی۔ میں نے عرب کے کئی شہروں کا شاورما کھایا لیکن ہے جو مزہ اور کوالٹی کراچی کے شاروما میں تھا وہ کہیں نصیب نہ ہوا۔ مدینہ میں ہم لوگ عموما ً رات نہیں گزارتے تھے ۔ عام طور پر ہم فجر کے بعد جدہ سے چلتے ،دس گیارہ بجے تک مدینہ پہنچتے ،وہاں سارا دن گزار کر مغرب کے وقت واپس چلتے اور رات کو نو بجے تک واپس جدہ پہنچ جاتے۔ اس دن ہمارا اراد ہ وہیں رکن ے کا تھ ا کیونک ہ میں اس سفر نامے ک ے لئ ے مدین ہ کی تفصیلت اکٹھ ی کرنا چاہتا تھا۔ میری اہلی ہ ن ے مجھے ی ہ بتایا ک ہ خواتین کی طرف بہ ت بد نظمی اور ہلچل رہتی ہے۔ خواتین کے طہارت خانے بھی عموما ً بہت گندے ہوتے ہیں۔ دھکم پیل ،چیخ و پکار اور لڑائی جھگڑا خواتین کے حصے میں عام ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد دنیا میں گھومتے ہیں اس لئے بڑے اجتماعات کے آداب سے واقف ہوتے ہیں لیکن خواتین کو اس کی تربیت نہیں دی جاتی۔خواتین کے حصے میں بطور پولیس ،افریقی خواتین تعینات ہوتی ہیں جو سب سے بڑی سختی سے پیش آتی ہیں لیکن اتنے بڑے مجمع کو کنٹرول نہیں کرپاتیں۔ میری اہلیہ نے یہ واقعہ سنایا کہ ان کے سامنے پنجاب کی دیہاتی عورتوں نے کوئی چیز کھا کر اس کا ریپر مسجد میں پھینک دیا۔ ایک صفائی کرنے والی افریقی خاتون نے آکر سختی سے عربی میں ان سے باز پرس کی تو انہوں نے پنجابی میں اپنی حرکت کا جواز پیش کرت ے جواب دیا” :نی تسی شکر کرو ،الل ہ ن ے توانوں اپن ے گھ ر کی خدمت دا موقع دتا اے۔ لوکی کنی دوروں آند ے نیں پر تسی ایتھے رہندیاں او۔“(تم شکر کرو ک ہ الل ہ نے تمہیں اپن ے گھر کی خدمت کا موقع دیا ہوا ہے۔ لوگ کتنی دور سے آتے ہیں لیکن تم یہاں رہتی ہو۔) ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم گندگی پھیلتی رہیں اور تم شکر ادا کیا کرو کہ تمہیں اس طرح مسجد کی خدمت کا موقع ملتا رہے۔ رات میں مسجد نبوی بند کر دی جاتی ہے اور صبح تین بجے اسے تہجد کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔صبح جب ہ م مسجد پہنچ ے تو اذان ہوا ہ ی چاہتی تھی ۔ جلدی س ے تین رکعت تہجد کی نماز ادا کی ہ ی تھ ی ک ہ اذان ہوگئی ۔ اس کے بعد لوگ جوق در جوق آن ے لگے۔ دس منٹ بعد جماعت کھڑی ہوگئی۔ے نماز سےے فارغ ہ و کر ہ م واپس آگئےے اور نیند کا دوسرا راﺅن ڈ شروع ہوا ۔ آٹ ھ بج ے اٹ ھ کر ہ م پاکستان اسٹریٹ کی طرف روان ہ ہوئ ے جہاں سے حلوہ پوری کا ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے مدینہ کے طول و عرض کی پیمائش کا آغاز 92
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کیا۔ اس دن ہم جبل احد اور چند ایک اور مقامات تک گئے۔ دیگر مقامات ہم نے مختلف مواقع پر دیکھے۔
93
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
مدین ہ ک ے تاریخی مقامات جنت البقیع جنت البقیع مدینہ منورہ کا تاریخی قبرستان ہے۔ یہ مسجد نبوی کی شرقی دیوار کے ساتھ ہ ی واقع ہے۔ پہل ے مسجد اور قبرستان کے درمیان ایک محلہ تھ ا لیکن 1985ء کی تعمیر و توسیع کےے بعد مسجد اور بقیع میں کوئی فاصلہے نہیں رہا۔ے یہے قبرستان روضہے انور سے محض دو منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ اس کا دروازہ عموما ً فجر اور عصر کے بعد کھول جاتا ہے۔ے عصر کی نماز ک ے بعد میں بقیع کی طرف روان ہ ہوا ۔ یہاں بھ ی حسب روایت زیارت قبور سے متعلق احادیث درج تھیں۔ اب س ے تقریبا ً سو سال قبل بقیع کا نقش ہ بھ ی ہمار ے پاکستان ک ے قبرستانوں جیسا تھ ا جہاں لوگوں نے حضور صلی اللہ علی ہ و الہ و سلم کے احکامات کے خلف پخت ہ قبریں اور ان پر عالیشان عمارتیں تعمیر کی ہوئی تھیں۔ 1905ء میں ان عمارات کو گرا دیا گیا اور تمام قبور کو ایک ہاتھ کے برابر کر دیا گیا۔ یہاں یہ متعین کرنا ممکن نہیں ہے کہ کون صحابی کہاں دفن ہیں کیونک ہ عہ د صحاب ہ میں قبروں پر کتب ے لگائ ے جات ے تھے اور ن ہ ہی انہیں پختہ بنایا جاتا تھا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی قبر کے بارے میں البتہ روایات مشہور ہیں۔ یہ قبر ،قبرستان کے راستے کے عین بیچ میں واقع ہے۔ یہاںر رپہنچر رکرر رمجھے رپرر رعجیبر رکیفیتر رطاریر رہوئی۔ے رمجھےے ریوںر رمحسوسر رہوار رکہ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میرے سامنے ہے۔ یہاں مدفون 10000صحابہ ،ہزاروں تابعین ،تبع تابعین اور ان کے بعد امت کے بے شمار علماء و صالحین۔یہاں مدفون صحابہ میں سب س ے مشہور سیدنا عثمان رضی الل ہ عن ہ ہیں ۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی صاحبزادیاں سیدہے زینب ،رقیہ ،ام کلثوم اور فاطمہے رضی اللہے عنہ ن بھ ی یہیں دفن ہیں۔ امہات المومنین بھی ،سوائے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ،سب کی سب یہیں ہیں ۔ آپ ک ے صاحبزاد ے ابراہیم اور نواس ے حسن رضی الل ہ عنہما بھ ی یہیں ہیں ۔ تابعین میں سب سےے مشہور سعید بن مسیب رحمتہے اللہے علیہے بھ ی یہاں ہیں۔ے امام مالک علیہ الرحمۃ بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں۔ یہاں پر کئی قبریں مزید آنے والوں کے لئے کھدی ہوئی تھیں ۔ کھلی قبر پکار پکار کر کہہ رہ ی تھ ی ک ہ ا ے انسان! تو جتنا چاہے زمین ک ے اوپر چل پھ ر لے ،ایک دن تجھے میرے پاس ہی آنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قبرستان انسان کو دنیا کی سب سے بڑی حقیقت موت کی یاد دلتا ہے اور اسے اس کی اصل منزل کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں بقیع میں صحابہ و اہل بیت کے قریب جگہ ملے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ آخرت میں معامل ہ انسان ک ے اعمال پر ہ ی ہوگا ۔ اگر کسی ک ے عقائد و اعمال درست نہیں تو جیسے صحابہ کرام کی زندگی میں ان کا ساتھ مفید نہیں ویسے ہی ان کے قریب قبر بھی انسان کو کچھ نفع نہیں دے سکتی۔ منافقین بھی حضور اور صحابہ کے ساتھ رہے اور بقیع ہ ی میں دفن ہوئ ے لیکن ان کا انجام جہنم ہ ی ہوگا ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں اکثر رات کے آخری حصے میں تشریف لتے اور فرماتے: 94
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm ” اے اہل ایمان کے شہر والو! السلم علیکم! کل (روز قیامت) تمہیں وہ سب ملنے وال ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تم (اور تمہارا حساب و کتاب) قیامت تک کے لئے موخر کیا جارہ ا ہے۔ ان شاءالل ہ ہ م بھ ی جلد ہ ی تمہار ے پاس آن ے وال ے ہیں ۔ ا ے الل ہ ! بقیع غرقد میں مدفون لوگوں کی مغفرت فرما۔“
اس س ے ی ہ معلوم ہوتا ہے ک ہ حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم اپن ے سفر آخرت کو ہمیشہ یاد رکھا کرتے۔ کاش ہم بھی ایسا کر سکیں۔ اس قبرستان میں میں نے یہاں پہلی مرتبہے ر’لحد‘ر رکار رڈیزائنر ردیکھا۔ے رہمارےے رپاکستانر 1میںر رقبرر رکار رجور رڈیزائنر ربنایار رجاتار رہے اسے’صندوق‘ کہتے ہیں۔ یعنی قبر میں ایک چوکھٹا سا بنایا جاتا ہے اوراس میں مردے کو لٹا کر اس پر سلیں رکھ دی جاتی ہیں۔ لحد میں قبر کے اندر ایک بغلی قبر کھودی جاتی ہے اور اس میں مردے کو لٹا کر اصل قبر کو مٹی سے بھر دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی قبر مبارک اسی طرز کی تھی۔
مسجد قبا حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ہجرت فرما کر سب سے پہلے قبا میں قیام پذیر ہوئے۔ یہ اس زمان ے میں مدین ہ کی نواحی بستی تھی۔یہاں کی آبادی بھ ی سیدنا مصعب بن عمیر رضی الل ہ عن ہ کی دعوت کے نتیج ے میں اسلم قبول کر چکی تھی ۔ اس مقام پر آپ نے ایک مسجد تعمیر فرمائی جسے قرآن مجید نے بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایسی مسجد قرار دیا جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔ لمسجد اسس علی التقویٰے من اول یوم احق ان تقوم فیہ۔ے فیہے رجال یحبون ان یتط ھروا ۔ و الل ہ یحب المط ھرین ۔ (التوبہ ) 9:108 ”ایک ایسی مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقوی پر رکھی گئی ہو ،اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ (اے نبی!) آپ اس میں (نماز کے لئے) کھڑے ہوں۔ وہاں ایسے لوگ ہیں جو (اپن ے جسم و روح کو ) پاک کرنا پسند کرت ے ہیں اور الل ہ پاک رہن ے والوں کو پسند کرتا ہے۔“
مسجد قباء مک ہ س ے آن ے والی طریق الھجر ہ پر واقع ہے۔ اگر آپ مک ہ کی طرف سے مدینہ میں داخل ہوں تو کہیں مڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سڑک سیدھی مسجد قبا تک جاتی ہے۔ قبا کا علقہ نہایت ہی زرخیز اور سر سبز و شاداب ہے۔ مسجد قبا کے ارد گرد گھنا سبز ہ ہے اور کھجور ک ے کئی فارم ہیں ۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کے زمانے میں بھی یہ ایک زرعی علقہ تھا۔ احادیث کی کتب میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زراعت سے متعلق کئی روایات ملتی ہیں جو کہ ایک باقاعدہ زمیندار تھے۔ ہم لوگ مغرب سے کچھ دیر قبل ہی مسجد قبا جا پہنچے۔ نماز سے پہلے ہم نے قبا کے پورے علقے کو دیکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ پورا علقہ خاصا سر سبز و شاداب تھا۔ مسجد کے جنوب میں پانچ چ ھ کلومیٹر ک ے فاصل ے پر ایک بہ ت بڑا پارک تھ ا جو ہمار ے کراچی کے سفاری پارک سے ملتا جلتا تھا۔ مغرب کے وقت ہم مسجد میں جا پہنچے اور نماز ادا کی۔ مسجد کافی بڑی اور خوبصورت تھی۔ے نمازیوں کی بہ ت بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔ مجھے بمشکل صحن میں جگہ مل سکی۔ 95
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ایک حدیث میں مسجد قبا میں دو رکعت نماز پڑھن ے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے ک ہ اس س ے عمر ہ ادا کرن ے کا ثواب ملتا ہے۔ حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم بھ ی یہاں نماز پڑھنے کے لئے ہر ہفتے تشریف لیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے مقصد محض نماز کی ادائیگی نہیں بلکہ قبا کے لوگوں کی تعلیم و تربیت رہا ہوگا۔ اس مسجد کی پہلی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے کی ۔ دوسری تعمیر سیدنا عمر رضی الل ہ عنہ کے دور میں ہوئی جس میں سیدنا عثمان رضی الل ہ عن ہ ک ے دور میں اضاف ہ کیا گیا۔بعد میں اس کی تعمیر و تجدید ہوتی رہی ۔ مسجد کی موجود ہ تعمیر شا ہ فیصل ک ے دور میں 1968ء میں ہوئی جس میں 1985ء میں اضافہ کیا گیا۔ اب مسجد میں 20000افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔
مسجد قبلتین مسجد قبلتین و ہ مسجد ہے جہاں حضور نبی کریم صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم نماز کی امامت فرما رہے تھے اور دوران نماز تبدیلی قبلہ کے احکام نازل ہوئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم مدینہ میں ہجرت کرکے تشریف فرما ہوئے تو میثاق مدینہ کے مطابق مدین ہ ک ے تمام مسلم و غیر مسلم باشندوں ن ے آپ کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا ۔ اللہ تعالی ٰ نے ایک امت ہون ے کا شعور پیدا کرن ے کے لئ ے ہمیں ایک قبل ے کی طرف من ہ کرکے نماز کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلم نے کعبہ کو اپنی پوری امت کا قبل ہ مقرر کیا تھا ۔ بنی اسماعیل ہمیش ہ اس س ے وابست ہ رہے ۔ بنی اسرائیل بھ ی شروع میں اسی کی طرف من ہ کرک ے نماز اور قربانی کا اہتمام کرت ے رہے۔ تورات میں تفصیل سے خیمہ عبادت کا ڈیزائن بتایا گیا ہے اور اس کا رخ جنوب یعنی کعبہ کی طرف تھا۔ جب سیدنا سلیمان علی ہ السلم ن ے یروشلم میں بیت المقدس کی مسجد تعمیر فرمائی تو اس کے کچھ عرصے بعد بنی اسرائیل نے اسے اپنا قبلہ قرار دے لیا۔ رحضور نبی کریم صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی بعثت ک ے وقت ذریت ابراہیم کی دونوں شاخیں اپنے اپنے قبلے کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے اور اس کے بارے میں شدید نوعیت ک ے تعصب میں مبتل رتھے۔ الل ہ تعالی ٰ ن ے ان دونوں اقوام ک ے و ہ افراد جو حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی پیروی پر متفق ہ و چک ے تھے ،کی آزمائش ک ے لئے مدین ہ ہجرت ک ے بعد کچ ھ عرص ے ک ے لئ ے بیت المقدس کو مسلمانوں کا قبل ہ مقرر کیا۔ اس س ے بنی اسماعیل ک ے تعصب پر ضرب پڑی لیکن ثابت قدم قریشی صحاب ہ ن ے اللہ کے حکم کے سامن ے تمام تعصبات کو قربان کر دیا۔ تقریبا ً ڈیڑ ھ برس کے بعد دوبارہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کے وہ لوگ جو مسلمان ہو چکے تھے یا مسلمانوں کے قریب تھے ،آزمائے گئے اور ان میں سے منافقین کا پردہ چاک ہو گیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”نادان لوگ ضرور کہیں گے :انہیں کیا ہوا ،کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھت ے تھے ،اس س ے یکایک پھ ر گئے ؟ (ا ے نبی!) آپ ان س ے فرمائیے :مشرق و مغرب سب الل ہ ہ ی کا ہے۔ الل ہ جس ے چاہتا ہے ،سیدھ ی را ہ دکھ ا دیتا ہے۔ تو اسی طرح ہ م نے تمہیں ایک ”امت وسط“ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دو اور رسول تم پر حق کی گواہی دیں۔ پہلے جس کی طرف تم منہ کرتے تھے ،اس کو تو ہم نے صرف ی ہ آزمان ے ک ے لئ ے قبل ہ بنایا تھ ا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر
96
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm جاتا ہے۔ معامل ہ تھ ا تو بڑا سخت ،لیکن ان لوگوں ک ے لئ ے سخت ثابت ن ہ ہوا جو الل ہ کی ہدایت س ے فیض یاب تھے۔ الل ہ تمہار ے اس ایمان کو ہرگز ضائع ن ہ کر ے گا۔ یقین جانو وہ لوگوں کے حق میں بہت رحیم و کریم ہے۔ ی ہ تمہارے منہ کا ہ م بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لو ،ہ م تمہیں اسی قبلے کی طرف پھیر ے دیت ے ہیں ،جس ے تم پسند کرت ے ہو ۔ مسجد الحرام کی طرف رخ پھیر دو ۔ تم جہاں کہیں بھ ی ہو ،اسی کی طرف من ہ کرک ے نماز پڑھ ا کرو ۔ ی ہ اہ ل کتاب خوب جانتے ہیں کہ یہ حکم ان کے رب کی طرف ہی سے ہے اور برحق ہے ،مگر اس کے باوجود یہ جو کچھ کر رہے ہیں ،اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ تم ان کے پاس کوئی بھی نشانی لے آﺅ ،ی ہ تمہار ے قبل ے کی پیروی ن ہ کریں گ ے اور ن ہ تم ان ک ے قبل ے کی پیروی کرو گے۔ ان میں سے کوئی گروہ بھی ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر اس علم ک ے بعد جو تمہار ے پاس آچکا ہے ،تم ن ے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو تمہارا شمار یقینا ظالموں میں سے ہو گا۔ (البقرہ )145-2:143
مسجد قبلتین ،مسجد نبوی سے تقریباچار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں بشر بن براءبن معرور کے ہاں دعوت پر تشریف لئے تھے۔ یہاں ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا اور آپ نے نماز ادا کی ۔ تیسری رکعت میں ی ہ آیات نازل ہوئیں اور آپ ن ے اس ک ے حکم ک ے مطابق اپنا رخ تبدیل کیا ۔ چونک ہ یہے 180ردرج ے کی تبدیلی تھی ،اس لئ ے لمحال ہ آپ کو چل کر مخالف سمت میں آنا پڑا ہوگا اور صحابہ کو اپنی اپنی جگہ پر ہی اپنا رخ تبدیل کرنا پڑا ہوگا۔ بعد ازاں اس حکم کی منادی پورے مدینہ میں کی گئی۔ بہت سی دوسری مساجد میں لوگ نماز پڑھ رہے تھے جنہوں نے حالت نماز میں اپنا رخ تبدیل کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ک ہ حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کے دور کا مدین ہ صرف موجود ہ مسجد نبوی تک ہی محدود نہ تھا۔ ہ م عصر کی نماز پڑ ھ کر روان ہ ہوئ ے تھے۔ جب یہاں پہنچ ے تو بہ ت رش تھ ا اور لوگ مسجد دیکھنے کے آ رہے تھے۔ بعض لوگ یہاں نوافل بھی ادا کررہے تھے۔ زیارت اور عبادت کی نیت س ے رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے صرف تین مساجد یعنی مسجد الحرام ،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کی طرف بطور خاص سفر کرنے کی اجازت دی ہے۔ کسی اور مقام کی طرف بطور خاص عبادت ک ے لئ ے سفر کرک ے جان ے س ے آپ نے منع فرمایا ہے۔ بہت سے لوگ ان مقامات کے دیکھنے کو ”زیارت“ کا عنوان دیتے ہیں جو ک ہ غلط ہے۔ان تمام مقامات کو صرف ایک تاریخی یادگار ک ے طور پر دیکھناچاہئ ے ن ہ کہ کسی دینی اہمیت کے پیش نظر یہاں آنا چاہئے۔ مسجد قبلتین بھی جدید بنی ہوئی ہے۔ یہ سفید رنگ کی بہت بڑی مسجد ہے جس کے اطرافر میںر گھنا رسبزہے اورر درختر ہیں۔ے سنار ہےے پرانی رمسجدر رمیںر شمالر اورر جنوب دونوں جانب محراب تھ ی جو ی ہ ظاہ ر کرتی تھ ی ک ہ اس مسجد میں یروشلم اور مک ہ ، دونوں جانب من ہ کرک ے نماز پڑھ ی گئی ہے لیکن جدید تعمیر میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آرہی تھی۔ یہ عام مساجد جیسی تھی۔ محض اتنا تھا کہ اس مسجد کا آرکیٹکچر بہت خوبصورت تھا اور پوری مسجد سبز درختوں کے درمیان بہت بھلی لگ رہی تھی۔ یہ منظر مسجد قبا سے کسی حد تک مشابہ تھا۔ ان مقامات کو دیکھنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی اور طریق الھجرہ پر سفر کرتے ہوئے ساڑھے تین گھنٹے میں جدہ پہنچ گئے۔
97
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بدر میدان بدر دیکھنے کی مجھے بہت عرصے سے خواہش تھی۔ اب تک ہم لوگ طریق الھجرہ سے مدینہ جاتے رہے تھے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ جدہ یا مکہ سے مدینہ جانے ک ے دو راست ے ہیں ۔ ایک تو و ہ راست ہ ہے جو اب طریق الھجر ہ کہلتا ہے۔ اسی راست ے سے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی۔ اس دور میں یہ راست ہ زیادہے استعمال نہیں ہوتا تھا ۔ دوسرا راستہے ساحل ک ے سات ھ سات ھ ہےے جو جدہے سے براستہ رابغ ،ینبع کی طرف جاتا ہے۔ بدر کے مقام سے ایک سڑک مدینہ کی طرف نکلتی ہے۔ ی ہ قدیم دور میں عام استعمال ہون ے وال راست ہ تھا ۔ یوں سمج ھ لیجئ ے ک ہ ی ہ اس دور کی کوسٹل ہائی وے تھی جس پر تجارتی قافلے سفر کیا کرتے تھے۔ بحیر ہ احمر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے ی ہ قافل ے شمال کی طرف جایا کرت ے تھے۔ آخرمیں بحیرہ احمر کی دو شاخیں ہو جاتی ہیں۔ دائیں طرف کی شاخ خلیج اردن کہلتی ہے جس کا آخری سرا 'ایلہ ' اور 'عقبہ ' کی بندرگاہوں تک پہنچتا ہے۔ ی ہ قافل ے خلیج اردن ک ے سات ھ سفر کرت ے ہوئ ے بحیرہے روم کی کسی بندر گا ہ تک جایا کرتےے تھے جہاں یہے اپنا سامان فروخت کرتے جو آگے یورپ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ اس دور میں موجودہ اردن ،فلسطین اور شام کا پورا علقہ ،شام ہی کہلتا تھا جو براہ راست قیصر روم ک ے زیر تسلط تھا۔بائیں شاخ خلیج سویز کہلتی ہے۔ ان دونوں ک ے درمیان کا علقہ جزیرہ نما سینا کہلتا ہے۔ یہیں پر کوہ طور واقع ہے۔
میقات جحف ہ اس سفر میں میری والدہے ہمراہے تھیں۔ے جدہے سےے نکل کر ہ م لوگ مدینہے روڈے پر آگئے۔ے یہ سکس لین موٹر وے ہے۔ پہلے ائر پورٹ کا حج ٹرمینل آیا۔ اس کے بعد عسفان کا ایگزٹ آیا۔ یہاں سے ایک روڈ عسفان کی طرف جارہی تھی۔ آگے ذھبان اور ثول کے قصبے تھے۔ وادی قضیمہے کےے پاس پہنچ کر روڈے دو حصوں میں تقسیم ہور ہ ا تھا۔ے ایک حصہے طریق الھجرہ س ے مل رہ ا تھ ا اور دوسرا سیدھ ا ساحل کے ساتھ ساتھ ینبع کی طرف جارہ ا تھا۔ ہ م کوسٹل ہائی و ے کی طرف ہ و لئے۔ اب ہ م ایک وسیع چٹیل میدان میں سفر کر رہے تھے۔ ہمارےے بائیں جانب بحیر ہ احمر تھ ا اور دائیں جانب پہاڑیوں کی طویل قطار تھی۔ جزیرہ نما عرب کا یہ حصہ ”تہامہ“ کہلتا ہے۔ 130کلومیٹر کے فاصلے پر جحفہ کا میقات آیا۔ شمالی جانب سے مکہ آنے کے یہ دو راستے ہیں۔ جو لوگ حج یا عمرہ کے لئے براستہ مدینہ آرہے ہوں ،ان کے لئے میقات ذو الحلیفہ ہے جو مدینہ سے نکلتے ہی آجاتا ہے۔ دوسری طرف جو لوگ اردن ،شام اور مصر سے براستہ کوسٹل ہائی وے آرہے ہوں ،ان کا میقات جحفہ ہے۔ قدیم دور میں عمالقہ کے حملوں سے تنگ آ کر قوم عاد کے کچھ افراد یہاں آباد ہوئے تھے۔ یہاں قریب ہی رابغ کا شہر تھا۔ 2005ء میں شاہ عبداللہ نے یہاں دنیا کی سب سے بڑی بندرگا ہ اور اکنامک سٹی بنان ے کا اعلن کیا ۔ اس وقت دنیا کی سب س ے بڑ ی بندرگاہ روٹر ڈیم کی ہے۔ رابغ کی بندرگاہ اس سے بھی دس گنا زیادہ بڑی ہو گی اور یہاں دنیا کے 98
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بڑے بڑے بحری جہاز رک سکیں گے۔ اس وقت سعودی عرب میں دنیا کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر ہیں۔ تیل کی موجودہ ڈیمانڈ اور سپلئی کے پیش نظر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ ذخائر 2050ء تک ختم ہو جائیں گے۔ پچھلے پچاس سال سے سعودی عرب ایک صارف معاشرے ( )Consumer Societyکی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لوگ پوری دنیا کو تیل بیچ کر ڈالر حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ ڈالر دے کر دنیا بھر سے ضرورت زندگی کی تمام اشیاءحاصل کرت ے ہیں ۔ سعودی عرب اب انڈسٹرئلئزیشن ک ے دور س ے گزر رہ ا ہے۔ موجود ہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ ملک میں زیادہ سے انڈسٹری لگے تاک ہ تیل ختم ہون ے تک ی ہ ایک بڑی معیشت بن سکے۔
ابوا اور سید ہ آمن ہ رضی الل ہ عن ہا رابغ س ے آگ ے ابواء کا ایگزٹ آیا ۔ ی ہ جد ہ سےے 190رکلومیٹر ک ے فاصل ے پر تھا ۔ ی ہ وہی مقام ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی والد ہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہ ا ن ے وفات پائی ۔ آپ مدین ہ میں واقع اپن ے میک ے تشریف ل ے گئی تھیں ۔ آپ ک ے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم بھی تھے جن کی عمر صرف چھ سال تھی۔ واپسی پر آپ بیمار ہوگئیں اور ابواءکے مقام پر آپ وفات پاگئیں۔ یہیں پر آپ کو دفن کیا گیا۔ میں نے گاڑی ابواءکی طرف موڑ لی ۔ ی ہ اب بھ ی ایک چھوٹا قصبہ ہ ی تھ ا اور کوسٹل ہائی و ے سےے 22کلومیٹر ک ے فاصل ے پر تھا ۔ مجھے گمان ہوا ک ہ اس دور کا راست ہ شاید ابواء سےے گزرتا ہ و لیکن تھوڑا آگےے جا کر سنگل روڈے اونچی نیچی پہاڑیوں سےے گزرنے لگی ۔ اب سمج ھ آئی ک ہ اس دور کا راست ہ تو یقینا موجود ہ کوسٹل ہائی و ے ک ے پاس ہی ہوگا ۔ جب سید ہ آمن ہ کی طبیعت خراب ہوئی ہوگی تو قریبی قصب ہ یہ ی ابواء ہوگا ۔ قافلے ک ے لوگ آپ کو کسی حکیم وغیر ہ کو دکھان ے ک ے لئ ے یہاں لئ ے ہوں گ ے اور یہیں آپ کی وفات ہوئی ہو گی۔ دس منٹ میں ہم یہاں پہنچ گئے۔ یہاں ایک بقالہ سے میں نے کولڈ ڈرنک لئے اور دکاندار سے سیدہ کی قبر کے بارے میں پوچھا۔ ان صاحب کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا ۔ انہوں نے مجھے قبر کی لوکیشن تو بتا دی لیکن ساتھ مشورہ بھ ی دیا کہ آپ وہاں نہ جائیں کیونک ہ مطوع حضرات ن ے عین قبر کے قریب پولیس چوکی بنائی ہے اور یہاں آنے والوں سے بڑی سختی سے پیش آتے ہیں اور ان کا اقامہ وغیرہ ضبط کر لیتے ہیں۔ ہمار ے بعض حضرات اپنی طرف س ے ی ہ فرض کیا لیت ے ہیں ک ہ ایس ے مقامات پر جو بھ ی آتا ہے وہ مشرکان ہ افعال ک ے لئ ے آتا ہے۔ چنانچ ہ وہ ہ ر آن ے والے س ے ایک جیسا سلوک ہ ی کرت ے ہیں ۔ میری عربی اس وقت اتنی رواں نہیں تھ ی ک ہ میں انہیں سمجھ ا سکتا کہ میں یہاں کسی شرک یا بدعت کے لئے نہیں آیا اس لئے ہم نے یہی طے کیا کہ واپس ہو لیا جائے۔ ہمارے مذہبی لٹریچر میں بہت سی ل یعنی اور تکلیف دہ بحثیں بھی رواج پا گئی ہیں۔ ان میں سے ایک بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے والدین کے ایمان کے بارے میں ہے۔ ایک گرو ہ چند روایات کی بنیاد پر حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے والدین کو کافر اور معاذ اللہ ابدی جہنمی قرار دیتا ہے اور دوسرا گروہ چند اور روایات کی بنیاد پر انہیں اہل ایمان میں شامل کرتا ہے۔ اگر ان بحثوں کا مطالعہے کیا جائےے تو ایسا معلوم ہوتا ہےے کہے آخرت میں ہمارےے اپنے 99
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اعمال کا تو کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا البتہے سب سےے پہلےے یہے پوچھ ا جائےے گا کہے بتاﺅ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے والدین مسلمان تھے یا نہیں؟ اس معاملے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمیں خاموشی اختیار کرنی چاہئے اور کوئی بحث نہیں کرنی چاہئے۔ ان حضرات کےے بارےے میں یہے حسن ظن رکھنا چاہئےے کہے وہے دین ابراہیمی پر قائم ہوں گے جیساکہ اعلن نبوت سے قبل خود حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے سامنے کی جاتی تو آپ اس سےے سخت رنجیدہے ہوتے۔ے یہ ی رویہے آپ کےے چچا ابوطالب کےے ایمان کی بحث میں ہونا چاہئے۔ ابواءسے نکل کر ہم دوبارہ کوسٹل ہائی وے پر آگئے۔ النصائف اور الرائس کے قصبوں س ے گزرت ے ہوئ ے ہ م وادی صفراء میں داخل ہوئے۔ ی ہ وادی اسم بامسمی ٰ تھ ی یعنی زرد رنگ کی تھی۔ے یہے وادی بہ ت وسیع تھ ی اور میدان بدر سےے متصل ًر واقع تھی۔ے یہاں سے کوسٹل ہائی و ے ینبع اور ضباء س ے ہوتی ہوئی اردن کی طرف جارہ ی تھ ی اور ایک روڈ مدینہے کی طرف نکل رہ ی تھی۔جدہے ابر 265رکلومیٹر پیچھےے رہے گیا تھا۔ے یہے فاصلہے ہ م نے تقریبا ً پونے دو گھنٹے میں طے کیا تھا۔ اس مقام سے مدینہ جانے والی پرانی روڈ سنگل تھی اور پہاڑوں میں بل کھاتی ہوئی مدینہ کی طر ف جاتی تھی۔ اب نئی روڈ بنی تھی جو کہ تھری لین موٹر وے تھی۔ یہ نہایت شاندار کوالٹی کی روڈ تھی۔ یہ روڈ بھی پہاڑوں کے بیچ میں سے گزر رہی تھی لیکن اس کے موڑ ایسے بنائے گئے تھے کہ 150کی رفتار پر بھی اگر موڑ کاٹا جائے تو گاڑی کے الٹنے کا کوئی خطر ہ ن ہ تھا ۔ جیس ے ہ ی ہ م پہاڑوں میں داخل ہوئے ،بدر کا ایگزٹ آگیا ۔ اس کا فاصلہ جدہ سے 300کلومیٹر اور مدینہ سے 156کلومیٹر تھا۔
بدر کا نظار ہ بدر ک ے ایگزٹ س ے بدر شہ ر کا فاصل ہ محضر 5رکلومیٹر تھا ۔ راست ے میں ایک نہایت ہی خوبصورت پہاڑی نظر آئی ۔ ی ہ سیا ہ رنگ کی چٹان پر مبنی پہاڑی تھ ی لیکن ی ہ چوٹی تک ریت س ے ڈھکی ہوئی تھی ۔ ریت بھ ی صاف سنہر ے رنگ کی تھی ۔ اس رنگ کی ریت کا شیڈ میں نے اس سے پہلے صرف کراچی کے مغرب میں واقع ساحلی گاﺅں "مبارک ویلج" میں دیکھ ا تھا ۔ چمکتی دھوپ میں ریت آنکھوں کو بہ ت بھلی لگ رہ ی تھی ۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو دیکھتا ہے تو حیرت س ے دنگ رہ جاتا ہے۔ دور کیوں جائیے ،ہمارا اپنا وجود بھی پکار پکار کر یہ گواہی دے رہا ہے کہ تبارک اللہ احسن الخالقین۔ بدر ایک چھوٹا سا صاف ستھرا اور خوبصورت شہ ر تھا ۔ عہ د رسالت میں یہاں کوئی آبادی ن ہ تھ ی لیکن اب ی ہ ایک شہ ر بن گیا تھا ۔ شہرمیں داخل ہوت ے ہ ی ہمیں ایک ہسپتال نظر آیا۔ اس کے قریب رکی ہوئی کار میں ایک عرب فیملی بیٹھی تھی۔ میں نے مرد سے عربی میں جنگ بدر ک ے مقام ک ے بار ے میں پوچھا ۔ کہن ے لگے ،آپ میر ے پیچھے آ جائیں۔ میں سمجھا شاید انہوں نے اسی طرف جانا ہے۔ میں ان کے پیچھے ہو لیا۔ ہمیں جنگ بدر کے مقام تک پہنچا کر وہ واپس ہو لئے۔ وہ صرف ہمیں وہاں چھوڑنے کے لئے آئے تھے۔ مہمان نوازی کا یہ مظاہرہ دیکھ کر میں بڑا متاثر ہوا۔ سفر میں میں نے یہ دیکھا ہے کہ چھوٹ ے شہروں اور دیہات ک ے لوگ اس قسم کی مہمان نوازی کا بھرپور مظاہرہے کرتے 100
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہیں۔ عربوں کے بارے میں ہمارے ہاں یہ عام تصور ہے کہ یہ لوگ اخلق کے اچھے نہیں ہوتے لیکن میرا تجرب ہ اس کے برعکس ہے۔ ہ م لوگ محض چند لوگوں کی بداخلقی کو پوری قوم پر محمول کر لیتےے ہیں ۔ زیادہے تر عرب نہایت ہ ی مہمان نواز اور اعلی اخلق کے حامل ہوتے ہیں۔ ہاں وہ لوگ جو حجاج اور زائرین کے گروپوں کی خدمت پر معمور ہوتے ہیں ،ان میں س ے بعض لوگ للچی اور خود غرض ہوت ے ہیں جن کی بدولت پوری عرب کمیونٹی بدنام ہوتی ہے۔ جس مقام پر ہ م کھڑےے تھے ،وہاں شہداء بدر کی قبریں تھیں۔ے ہ م نےے احادیث میں منقول ،زیارت قبور ک ے موقع پر پڑھ ی جانےے والی دعا پڑھی ۔ ایک اورگاڑی وہاں آکر رکی اور اس میں س ے لوگ اتر آئے۔ یہاں ایک چوک سا بنا ہوا تھا ۔ اس کے درمیان میں ایک بہ ت بڑا کتب ہ نصب تھ ا جس پر شہداء بدر ک ے نام لکھے ہوئ ے تھے۔ میں ی ہ نام نوٹ کرنے لگا۔ جنگ بدر میں چودہ صحابہ کرام شہید ہوئے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں۔ .1صفوان بن وہب .2ذوالشمالین بن عبد عمرو .3مھجع بن صالح .4عاقل بن کبیر .5عبیدہ بن حارث .6سعد بن خثیمہ .7مبشر بن عبد المنذر .8حارثہ بن سراقہ .9رافع بن المعل .10عمیر بن الحمام .11یزید بن حارث .12معوذ بن حارث .13عوف بن حارث .14عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم۔ ان میں 6مہاجر اور 8انصار تھے۔ انصاریوں میں سے 6کا تعلق قبیلہ خزرج سے اور 2 کا تعلق اوس س ے تھے۔ سیدنا عمیر بن ابی وقاص مشہور صحابی سعد بن ابی وقاص ک ے بھائی تھے۔ے عبیدہے بن حارث قریشی اور رسول اللہے صلی اللہے علیہے و الہے و سلم کے رشتےے دار تھے۔ے آپ جنگ بدر کےے پہلےے شہید تھےے جو انفرادی مقابلوں میں شہید ہوئے۔ میر ے سامن ے و ہ منظر گردش کرن ے لگا جب قریش کی طرف س ے عتبہ ،شیب ہ اور ولید میدان میں آئے۔ ان کے مقابلے پر سیدنا حمزہ ،علی اور عبید ہ رضی اللہ عنہم نکلے۔ عتبہ اور ولید بالترتیب سیدنا حمزہ اور علی کے ہاتھوں قتل ہوئے البتہ شیبہ نے سیدنا عبیدہ کو زخمی کردیا۔ اس کے بعد اس نے سیدنا علی سے مقابلہ کیا اور مارا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سیرت پر بننے والی فلم The Messageمیں یہ منظر بہت خوبی سے فلمایا گیا ہے۔ حسب روایت یہاں بھ ی ایک پولیس چوکی بنی ہوئی تھی۔ے تھوڑی دیر میں ایک
101
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
پولیس مین نکل آیا اور نہایت ہ ی درشتگی ک ے سات ھ سب لوگوں کو وہاں س ے جان ے کے لئے کہا۔ ہم اس جگہ سے ہٹ کر واپس آئے۔ ایک دیوار پر جنگ بدر کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ یہ ایک اعلی ٰ کاوش تھی ۔ اس نقش ے ک ے مطابق جہاں اب شہدا کی قبریں ہیں ،عین اس جگہ معرکہ ہوا تھا۔ مسلمانوں کا لشکر اس سےے ہ ٹ کر اس جگہے تھ ا جہاں اب مسجد عریش ہےے اور مشرکین کا لشکر اس مقام پر تھا جہاں اب کھجور کا فارم ہاﺅس ہے۔ اسی مقام پر ایک کنواں اور حوض بھ ی تھ ا جس کو مسلمانوں نےے جنگی حکمت عملی کےے تحت اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ ہم اب دائیں جانب موڑ کاٹ کر مسجد عریش کے قریب آگئے۔ یہ ایک بہ ت بڑی مسجد تھی ۔ عربی میں ’عریش‘ ،چھپر کو کہت ے ہیں ۔ اس مقام پر رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے لئ ے ایک چھپر بنایا گیا تھ ا جہاں بیٹ ھ کر آپ ن ے ساری رات عبادت کی تھی اور پھر دن کے وقت جنگی ہدایات جاری کی تھیں۔ چھپر کا یہ مقام مسجد کے اندر کہیں ہوگا۔
الل ہ تعالی ٰ کا قانون دینونت قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت بیان ہوئی ہے کہ اس نے بارہا اس دنیا میں محدود پیمانےے پر ایک چھوٹی سی قیامت برپا کی ہے۔ے اس کا مقصد یہے رہ ا ہےے کہے لوگوں کے سامنے ایک نمونہ ( )Sampleآجائے کہ ایسا ہی معاملہ وہ آخرت میں کرنے وال ہے۔ یہ قیامت صغریٰ محض کسی قدرتی آفت ( ) Disasterکی شکل ہ ی میں نہیں ہوتی۔اس کا طریق کار یہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے کسی قوم کا انتخاب کرتا ہے۔ اس میں س ے ایک رسول منتخب کرتا ہے اور اس پر اپنی وحی بھیجتا ہے۔ اس رسول ک ے ذریعے قوم کو الٹی میٹم دیا جاتا ہےے کہے وہے اپنی روش کو چھوڑ دیں اور ایک اللہے کی عبادت کریں ۔ اپن ے اخلقی وجود کا تزکی ہ کریں اور خدا ک ے دین ک ے علمبردار بن کر دنیا میں رہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اسی دنیا میں آئے گا۔ اس کے برعکس اگر وہ رسول کی پیروی کریں گے تو اس کی جزا انہیں اس دنیا ہی میں دی جائے گی۔ رسول ایک خاص وقت تک انہیں اپنی دعوت پہنچاتا ہے۔ جب اس قوم پر اتمام حجت ہ و جاتا ہے یعنی رسول کی پیروی ن ہ کرن ے ک ے لئ ے ان ک ے پاس سوائ ے ضد ،عناد اور تعصب کے کوئی عذر باقی نہیں رہتا تو ان پر اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ اسی اصول ک ے تحت الل ہ تعالی ٰ ن ے متعدد رسولوں کا انتخاب کیا ۔ سیدنا نوح ،ہود، صالح ،شعیب ،ابراہیم اور لوط علیہ م الصلوة روالسلم کو اپنی قوموں کی طرف بھیجا گیا۔ ان کے نافرمانوں کو اتمام حجت کے بعد اسی دنیا میں عذاب کا شکار کیا۔ یہ عذاب قدرتی آفات کی صورت میں آیا ۔ اس میں اور ہماری آج کی آفات میں ی ہ فرق ہے کہ وہاں رسول کے ذریعے پہلے سے خبردار کیا گیا۔ اس لئے آج کل کی آفات کو ویسا عذاب قرار دینا درست نہیں۔ سیدنار رموسیٰے رعلیہے رالصلوة روالسلمر رکےے رساتھے رمعاملہے رکچھے رمختلفر رہوا۔ے رانر رپرر ربنی اسرائیل ک ے لکھوں افراد ایمان ل ے آئ ے جبک ہ فرعون اور اس ک ے ساتھ ی ایمان ن ہ لئے۔ فرعون کو بنی اسرائیل کے سامنے بحیرہ احمر میں غرق کردیا گیا۔ یہ معاملہ اتمام حجت کی آخری شکل تھی ۔ اس ک ے بعد ارد گرد کی اقوام میں کسی ک ے لئ ے الل ہ تعالی ٰ کے 102
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
وجود ،موسی ٰ علی ہ السلم کی رسالت اور آخرت ک ے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی تھی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اس مقام کے ارد گرد بسنے والی اقوام پر یہ عذاب موسیٰ علیہ السلم کے صحابہ کے ہاتھوں نازل کیا۔ آپ کے خلیفہ اول یوشع اور خلیفہ دوم کالب علیہما السلم ن ے ان قوموں کو دین حق کی دعوت دی ۔ جنہوں ن ے مان لیا انہیں امان ملی اور جنہوں نے نہ مانا ،انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تہہ تیغ کر دیا گیا۔ تورات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان درج ہے: ”اور خداوند ن ے مج ھ (موسیٰ ) س ے کہا ،میں ان ک ے لئ ے ان ک ے بھائیوں میں س ے تیری مانند ایک رسول برپا کروں گا اور میں اپنا کلم اس کے منہ میں ڈالوں گااور وہ انہیں وہ سب کچھ بتائے گا جس کا میں اسے حکم دوں گا۔ اگر کوئی شخص میرا کلم ،جسے وہ میرا نام ل ے کر سنائ ے گا ،نہے سن ے گا تو میں خود اس س ے حساب لوں گا ۔ “ (استثنا ) 19-18:17
اسی فرمان کے تحت اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل میں محمد رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و الہ و سلم کو رسول متعین کیا ۔ آپ کی قوم پر اتمام حجت کیا گیا۔ آپ پر بھی قدیم رسل کے برخلف بہت سے لوگ ایمان لے آئے۔ اللہ تعالیٰ ن ے اپنی سنت ک ے مطابق آپ کی قوم کو آپ ک ے صحاب ہ ک ے ہاتھوں سزا دی ۔ جنگ بدر اس عذاب کی پہلی قسط تھی۔ جنگ بدر دراصل قریش کی اس لیڈر شپ کے لئے سزائے موت کی حیثیت رکھتی ہے جو الل ہ تعالی ٰ ک ے مقابل ے میں سرکشی پر اتر آئ ے تھے۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے جنگ س ے ایک دن پہل ے اپن ے مقدس ہاتھوں س ے زمین پر نشان لگا دی ے ک ہ فلں سردار یہاں مرے گا اور فلں وہاں۔ اگلے دن ایسا ہ ی ہوا اور ہر لیڈ ر عین اپنے تعین کردہ مقام پر قتل ہوا ۔ قریش ک ے سردار عتب ہ و شیب ہ ،انفرادی مقابلوں میں سیدنا حمز ہ و علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ جب یہے لوگ جنگ کےے لئےے جا رہےے تھےے تو ان کےے ایک عیسائی غلم تھےے جن کا نام عداس رضی اللہ عنہ تھ ا ۔ انہوں نے اسلم قبول کر لیا تھا ۔ اہل کتاب ہون ے کے باعث ،یہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے اپنے آقاﺅں کے پاﺅں پکڑ کر انہیں جان ے س ے روکا اور بتایا ک ہ آپ الل ہ تعالی ٰ ک ے عذاب کی طرف جارہے ہیں ۔ ی ہ لوگ دوسر ے جاہلی سرداروں کی طرح گھٹیا پن پر کبھ ی ن ہ اتر ے تھے۔ طائف ک ے سفر میں انہوں ن ے رسول الل ہ صلی الل ہ علیہ والہ وسلم کی مدد کی تھی۔ لیکن اپن ے قومی تعصب ک ے باعث اس موقع پر انہوں نےے عداس کی بات نہے مانی اور محض قومی غرور میں مقابلہ پر آ اترے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب کا مزہ چکھنا پڑا۔ عذاب کی اس پہلی قسط کے نتیجے میں قریش کی اس لیڈر شپ کا صفایا ہوگیا جن ک ے بار ے میں ی ہ واضح تھ ا ک ہ ی ہ کبھ ی ایمان نہیں لئیں گے۔ دلچسپ بات ی ہ ہے ک ہ ابولہب اس جنگ میں بیماری کا بہان ہ کرک ے شریک نہیں ہوا ۔ اس پر ی ہ سزا چیچک کی صورت میں مسلط کی گئی اور اس ے قبر بھ ی نصیب ن ہ ہوئی کیونک ہ اس دور ک ے عرب چیچک سے بہت ڈرتے تھے اور ایسے مریض کو ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے۔ اس کے بعد قریش کی لیڈر شپ ان لوگوں کے ہاتھ میں آئی جن کے دل میں کچھ قبولیت کا رجحان باقی تھا۔ بالخر یہی لوگ ایمان لے آئے۔ 103
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جنگ کے واقعات کچھ اس طرح سے تھے کہ قریش کا ایک قافلہ ابوسفیان (رضی اللہ عنہ ) کی قیادت میں شام س ے براست ہ کوسٹل ہائی و ے آ رہ ا تھا ۔ اہ ل مک ہ اکثر مدین ہ پر تاخت کرکے لوٹ مار کرتے رہتے تھے۔ اس لئے جوابی کاروائی یہ کی گئی کہ ان کے قافلے پر حملہ کیا گیا۔ اس قافلے میں مکہ کے تمام تاجروں کا سرمایہ لگا ہوا تھا۔ انہوں نے قافلہ بچانے کے لئ ے 1000کا لشکر تیار کرکے بھیج دیا ۔ قافلہ تو ساحل کے ساتھ ہو کر نکل گیا لیکن اس لشکر ن ے مسلمانوں کو ہمیش ہ ک ے لئ ے ختم کرن ے کا عزم کیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم محض 313جانثاروں کے ساتھ تشریف لئے۔ مدینہ سے آنے وال راستہ اس وقت بھی بدر کے مقام پر ساحلی شاہراہ سے ملتا تھا۔ اسی مقام پر جنگ ہوئی۔ اسلم اور کفر کے لشکروں میں ایک اور تین کا تناسب تھا۔ اس کے باوجوداس جنگ میں محض 14صحابہ شہید ہوئے جبکہ 70کفار قتل ہوئے اور 70قیدی بنائے گئے۔ قتل ہونے والوں میں تمام سرکش لیڈ ر شامل تھے۔ باقی لوگ بھاگ نکلے۔ قرآن مجید میں اس جنگ کو اس طر ح بیان کیا گیا ہے۔ ُُ”بدر میں الل ہ ن ے تمہاری مدد کی حالنک ہ اس وقت تم بہ ت کمزور تھے۔ تو الل ہ س ے ڈرو تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔اس وقت کو یاد کرو (اے رسول!) جب تم اہل ایمان سے کہہ رہےے تھے ’ ،کیا تمہارےے لئےے یہے بات کافی نہیں ہےے کہے اللہے 3000رفرشتوں سےے تمہاری مدد کرے۔ب ے شک ،اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو جس آن دشمن تم پر چڑھائی کریں گے ،اسی آن تمہارا رب ( 3000نہیں بلکہ) 5000فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ ‘یہ بات اللہ نے تمہیں اس لئے بتا دی ہے کہ تم خوش ہو جاﺅ اور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں۔ فتح و نصرت جو کچھ بھی ہے ،اللہ کی طرف سے ہے،جو بڑی قوت والاور دانا و بینا ہے۔ (یہ مدد و ہ اس لئ ے تمہیں د ے گا )تاکہ کفر کی را ہ چلن ے والوں کا ایک بازو کاٹ د ے ،ان کو ایسی ذلیل شکست دے کہ وہ نامرادی کے ساتھ پسپا ہو جائیں۔“ (اٰل عمران ) 127-3:123
سور ہ انفال کا موضوع ہ ی جنگ بدر اور اس س ے پہل ے اور بعد ک ے واقعات ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”یاد کرو و ہ موقع جب ک ہ الل ہ تم س ے وعد ہ کر رہ ا تھ ا ک ہ دونوں گروہوں میں س ے ایک تمہیں ضرور ملے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ سے تمہارا سامنا ہو۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھ ا ک ہ اپن ے ارشادات س ے حق کو حق کر دکھائ ے اور کافروں کی جڑ کاٹ د ے تاک ہ حق، حق ثابت ہو سکے اور باطل ،باطل خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ اور وہ موقع یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد ک ے لئےے 1000فرشت ے بھیج رہ ا ہوں ۔ ی ہ بات الل ہ ن ے اس لئ ے فرمائی ک ہ تمہیں خوشخبری ملے اور تمہارے دل مطمئن ہوں ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے ،اللہ کی طرف ہی سے ہوتی ہے۔یقینا اللہ زبردست اور دانا ہے۔ و ہ وقت یاد کرو جب اللہ غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و ب ے خوفی کی کیفیت طاری کر رہ ا تھ ا اور آسمان س ے تمہار ے اوپر پانی برسا رہ ا تھ ا تاک ہ تمہیں پاک کر ے اور شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست کو دور کر ڈالے۔ تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے تمہار ے قدم جما دے۔ اور و ہ وقت جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کر رہ ا تھ ا ’ ،میں تمہار ے سات ھ ہوں ،تم اہ ل ایمان کو ثابت قدم رکھو ،میں ابھ ی ان کافروں ک ے دل میں رعب ڈالے دیتا ہوں ،پھر تم ان کی گردنوں اور جوڑوں پر ضرب لگاﺅ۔‘ یہ اس لئے کہ ان لوگوں ن ے الل ہ اور اس ک ے رسول کا مقابل ہ کیا اور جو الل ہ اور اس ک ے رسول کا مقابلہ کرے ،اس کے لئے ،اللہ نہایت ہی سخت گیر ہے۔ یہ ہے تم لوگوں کی سزا ،اب اس کا مزہ 104
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm چکھواور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لئے آگ کا عذاب ہے۔۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا ،بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا۔ (اے نبی!) آپ نے ان کی طرف ریت نہیں پھینکی بلک ہ الل ہ ن ے ان کی طرف پھینکی ۔ (مومنین ک ے ہاتھوں کو اس کام میں استعمال کرنے کا) مقصد یہ تھا کہ اللہ مومنین کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے ۔ بے شک اللہ سننے اور جاننے وال ہے۔ یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے ،کفار کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والہے۔ (ان کفار سے کہہ دو) اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو لو ،فیصلہ تمہارے سامنے آگیا۔ اب باز آجا ﺅ تو تمہارے لئے بہتر ہے ،ورنہ پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری فوج خواہے کتنی زیاد ہ ہو ،تمہار ے کچھے کام ن ہ آسک ے گی۔ب ے شک الل ہ مومنین کے ساتھ ہے--------- اس وقت الل ہ ان پر عذاب نازل کرن ے وال رن ہ تھا ،جب (ا ے رسول!) آپ ان ک ے درمیان موجود تھے اور نہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ انہیں عذاب دے۔ لیکن اب و ہ کیوں ن ہ ان پر عذاب نازل کر ے جب و ہ مسجد الحرام کا راست ہ روک رہے ہوں۔ حالنکہ وہ اس کے جائز متولی نہیں ہیں--------- (اے رسول!) آپ ان سے کہیںکہ اگر ی ہ اب بھ ی باز آ جائیں تو جو کچ ھ پہل ے ہ و چکا ،اس س ے درگزر کر لیا جائ ے گا ،لیکن اگر ی ہ اپنی پچھلی روش کا اعاد ہ کریں گ ے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ،وہ سب کو معلوم ہے--------- یاد کرو وہ وقت جب تم وادی کے اس جانب تھے اور وہ دوسری جانب پڑاﺅ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا۔ اگر اس سے پہلے تمہارا مقابلہ ان سے ہوتا تو تم ضرور پہلوتہی کر جاتے ،لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لئے تھا کہ جس بات کا فیصلہ الل ہ کر چکا ہے ،اس ے ظہور میں ل ے آئ ے تاک ہ جس ے ہلک ہونا ہے و ہ روشن دلیل ک ے ساتھ ہلک ہواور جسے زندہ رہنا ہے ،وہ روشن دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ یقینا اللہ سننے اور جاننے وال ہے۔ اور یاد کرو وہ وقت جب( ،اے رسول!) اللہ انہیں تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا۔ اگر کہیں وہ تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معامل ے میں بحث شروع کر دیتے۔ لیکن الل ہ ہ ی ن ے تمہیں اس س ے بچایا ،و ہ سینوں کے حال بہتر جانتا ہے۔ے اور یاد کرو اس وقت کو جب اللہے نےے ان کی نگاہے میں تمہیں اور تمہاری نگاہ میں انہیں کم کر دکھایا تاکہ جو بات ہونی ہے ،اللہ اسے ظہور میں لے آئے اور آخر کار سارے معاملت اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ “ (النفال ) 44-8:5
سفر سے واپس آکر میں نے یہ آیات بار بار پڑھیں۔ ان کا مطالعہ میں پہلے بھی کر چکا تھ ا لیکن ی ہ مقامات دیکھن ے ک ے بعد جنگ بدر کی صورتحال جس طرح واضح ہوئی ،وہ پہلے نہ ہو سکی تھی۔ یقینا جنگ بدر اللہ کے عذاب کی پہلی قسط تھی جو مشرکین مکہ پر نازل ہوئی۔ مسجد عریش سےے نکل کر ہ م واپس ہوئے۔ے یہاں میری والدہے نےے بچوں کےے لئےے کچھ کھانے پینے کے لئے لنے کو کہا۔ بدر شہر میں ایک بقالے پر گاڑی روک کر میں اترا۔ بقالے کے مالک ایک خان صاحب تھے جن کا تعلق چارسدہ سے تھا۔ وہ پٹھانوں کی روایتی مہمان نوازی کی روایات ک ے امین تھے۔ مجھے دیک ھ کر بہ ت خوش ہوئ ے اور چیزوں کی قیمت لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے بصد اصرار انہیں یہ رقم دینے پر آمادہ کیا۔ اس کے بعد وہ مصر ہوگئ ے ک ہ ان ک ے گھ ر چل کر ہ م چائ ے پئیں ۔ ان کی دکانداری کا وقت تھا ،اس لئے مجھے یہ مناسب نہ لگا۔ بقالے پر ایک عرب بزرگ بھی تشریف فرما تھے۔ وہ میرا انٹرویو 105
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کرنے لگے۔ مجھے جس قدر عربی آتی تھی ،ان کے سوالوں کا جواب دیا اور باقی باتوں کے لئے خان صاحب کی خدمات بطور مترجم حاصل کیں۔ بدر شہ ر س ے نکل کر ہ م پھ ر جدید موٹر و ے پر آئے۔ ی ہ ایک پہاڑی موٹر و ے تھ ی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے موڑ ( )Curvesاتنے شاندار طریقے سے بنائے گئے تھے کہ 150 کی رفتار س ے بھ ی موڑ کاٹت ے ہوئ ے ذرا بھ ی محسوس ن ہ ہوتا تھا ۔ بدر ک ے بعد الحسینیہ، الخیف ،الخرمااور الحمراءکےے ایگزٹ آئے۔ ی ہ چھوٹےے موٹےے قصب ے ہوں گے۔ ایک مقام پر پرانی سنگلر روڈے بھیر ہمیں اپنےے ساتھے ساتھے دوڑتیر نظر آئی۔ے وادی الجی،ر المسیجد، الفریش کے قصبوں سے گزرتے ہوئے محض 50منٹ میں ہم بدر سے مدینہ جاپہنچے۔ حرم نبوی کی حدود سے قبل ہی یہ روڈ طریق الھجرہ پر جاملی اور اس کے بعد جبل عیر کے پاس پولیس چیک پوسٹ آگئی جس سے گزر کر ہم مدینہ جا پہنچے۔
106
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
احد مسجد نبوی سے احد پہاڑ محض دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ مسجد نبوی کے باب فہد سے احد پہاڑ صاف نظر آتا ہے۔ یہاں سے بالکل سیدھی ایک روڈ احد تک جاتی ہے۔ ہم اس کی بجائ ے خالد بن ولید رو ڈ س ے روان ہ ہوئ ے کیونک ہ پارکنگ س ے اس کا فاصل ہ کم تھا ۔ سیکنڈ رنگ روڈ پر پہنچ کر ہم احد کی طرف مڑے اور اس کے دامن میں پہنچ گئے۔ یہ براﺅن رنگ کا پہاڑ ہے۔ اس کی خوبی ی ہ ہے ک ہ اس ک ے متعلق حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مجھ سے محبت رکھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں اکثر تشریف لیا کرتے تھے۔ پہاڑ کی بلندی کچھ زیادہ نہیں لیکن پھیلﺅ کافی زیادہ ہے۔ احد کے دامن میں چھوٹی سی پہاڑی ہے جو کہ تیر اندازوں کی پہاڑی کے نام سے مشہور ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرور زمانہ سے یہ پہاڑی گھس کر اب کافی چھوٹی ہو گئی ہے۔
اصلح کا صحیح طریق ہ پہاڑ کے دامن میں شہدائے احد کا قبرستان تھا جس کے گرد چار دیواری تھی ۔ کوئی قبر بھ ی ایک ہات ھ س ے زیاد ہ بلند ن ہ تھی ۔ قبرستان کی دیوار پر ایک بور ڈ لگا ہوا تھ ا جس پر عربی ،انگریزی ،اردو اور کئی زبانوں میں زیارت قبور سے متعلق احادیث درج تھیں جن میں قبر پرستی کی مذمت کی گئی تھی۔ے اپنےے نقطہے نظر کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرن ے کی بجائ ے ی ہ طریق ہ کار نہایت ہ ی موثر ہے۔ اگر کسی شخص پر جبرا ًر اپنا عقید ہ مسلط کیا جائ ے تو اس س ے صرف ضد پیدا ہوتی ہے اور مخاطب اپن ے عقید ے پر مزید پختہے ہ و جاتا ہے۔ے ایک متعصب شخص کےے لئےے دوسرےے مسلک کےے کسی فرد کی بات ،ایک دشمن کی بات ہوتی ہے جس ے وہ صرف تعصب اور منفی ذہ ن کے ساتھ سنتا ہے ۔ اصلح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنی بات کی بجائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی بات کو سامن ے رک ھ دیا جائ ے اور فیصل ہ اس ک ے اپن ے ضمیر پر چھوڑ دیا جائے ۔ مخاطب کو خود س ے مختلف کوئی مخلوق فرض کرنے کی بجائے اسے اپنا بھائی سمجھنا چاہئے اور محبت و ہمدردی کے ساتھ اس کی اصلح کی کوشش کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی غلطی اور اس کی اصلح کے امکان کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ ہمار ے مذہبی لوگ جب دوسر ے س ے گفتگو کرت ے ہیں تو و ہ ی ہ فرض کر لیت ے ہیں ک ہ ہ م تو حق پر ہیں ،غلطی اگر ہے تو مخاطب ہ ی ک ے عقید ے یا عمل میں ہو سکتی ہے۔ دعوت دین ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اس میں مخاطب کی اصلح کے ساتھ ساتھ اپنی اصلح بھ ی مد نظر ہونی چاہئے۔ عین ممکن ہے کہ مخاطب کا نقطہ نظر درست ہو اور ہمارا غلط ہو۔ اس روی ے کو امام شافعی علیہ الرحم ۃ ن ے اس طرح بیان کیا ہے۔ ”ہم اپنی رائ ے کو درست سمجھت ے ہیں لیکن اس میں غلطی کا امکان تسلیم کرت ے ہیں اور مخالف کی رائے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اس کے درست ہونے کا امکان تسلیم کرتے ہیں۔“ اپنا نقط ہ نظر مخاطب کو پہنچان ے ک ے بعد اس پر ڈنڈ ا ل ے کر مسلط ہون ے کی بجاۓ 107
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اسے غور و فکر کا موقع بھی دینا چاہیۓ۔
جنگ احد احد پہاڑ اور تیر اندازوں کی پہاڑی کو دیکھتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے جنگ احد کا منظر گردش کرن ے لگا ۔ جنگ احد حضور صلی اللہ علیہ و ال ہ و سلم کی مدین ہ ہجرت کے تین سال بعد ہوئی ۔ بدر میں کفار کو جب شکست ہوئی تو انہوں ن ے مک ہ جا کر فوراً اگلی جنگ کی تیاری شروع کردی۔ان ک ے سردار ابوسفیان رضی الل ہ عنہ ،جو بعد میں اسلم لئے ،نے خود پر لذیذ کھانے حرام کر لئے۔ ایک سال کے بعد 3000افراد کے لشکر جرار نے مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ اہل مدینہ میں سے لڑنے والے بمشکل 1000نکل سکے۔ ان میں س ے بھ ی 300منافقین تھے جو اپن ے سردار عبد الل ہ بن ابی کی سرکردگی میں راستے ہی میں ساتھ چھوڑ گئے۔ جنگی پلننگ کے سلسلے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی رائے یہ تھ ی کہے شہ ر کےے اندر رہے کر مقابلہے کیا جائے۔ے عبد اللہے بن ابی کی بھ ی یہ ی رائےے تھی۔ نوجوان صحابہ کی رائے یہ تھ ی کہ باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم امرہ م شوری ٰ بینھ م ک ے قرآنی حکم پر پوری طرح عمل کرنے والے تھے۔ آپ ایسے معاملت میں ،جن کا تعلق وحی سے نہ تھا ،خود سے اختلف رائ ے کی اجازت بھ ی بخوشی دیا کرت ے تھے۔ کاش ہمار ے راہنما آپ ک ے اسو ہ حسن ہ سے راہنمائی حاصل کریں ،جن سے اختلف رائے کرنے والے کو زندیق ،کافر ،گستاخ اور منکر کا خطاب دیا جاتا ہے۔ عبدالل ہ بن ابی اس بات پر ناراض ہ و کر اپن ے ساتھیوں کو ل ے کر چل گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اس کی رائے نہیں مانی تھی۔ مدین ہ س ے نکل کر آپ ن ے احد پہاڑ ک ے دامن میں پڑاﺅ رڈال ۔ جنگی حکمت عملی کے تحت پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھ ا اور 50تیر اندازوں کا ایک دستہ چھوٹی پہاڑی پر متعین کیا تاک ہ آپ ک ے لشکر کی پشت محفوظ ہ و جائے۔ جب کفار کا لشکر سامن ے آیا تو پہلے ہ ی ہلےے میں سیدنا ابوبکر ،عمر ،علی ،ابودجانہ ،ابو عبیدہے اور حمزہے رضی اللہے عنہ م نے کفار ک ے چھک ے چھڑا دی ے اور و ہ بیس افراد ک ے قتل ک ے بعد بھاگ کھڑ ے ہوئے۔ اسلمی لشکر ان کا مال و اسباب لوٹن ے لگا اور اس میں پہاڑی پر متعین تیر اندازوں کا دستہ بھی آ کر شریک ہوگیا۔ اس غلطی کے نتیجے میں ان کی پشت غیر محفوظ ہوگئی۔ لشکر کفار میں شامل نوجوان خالد بن ولید (رضی الل ہ عنہ) ،جو ابھ ی ایمان ن ہ لئے تھے اور جنگ حکمت عملی ( )War Tacticsکے میدان میں سپر جینئس کی حیثیت رکھتے تھے ،واپس پلٹ ے اور اسی پہاڑی در ے س ے ہ و کر اسلمی لشکر پر پیچھے کی جانب سے حملہ آور ہوئے جس سے اسلمی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر سامنے سے بھاگنے والے کفار بھی پلٹ کر حملہ آور ہوئے۔ اب مسلمان دو طرف سے نرغے میں آگئے اور یکایک 70صحابہ جام شہادت نوش کرگئے جن میں سب سے نمایاں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔ پتھراﺅ رک ے نتیج ے میں حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے دندان مبارک بھ ی شہید ہوئے۔ سیدنا ابوبکر اور سعد بن ابی وقاص رضی الل ہ عنہمان ے جان پر کھیل کر آپ کی 108
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
حفاظت کی۔ یہ مشہور ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم شہید ہوگئے۔ اس پر بعض لوگوں ن ے ایمان ترک کرن ے کا اراد ہ کیا ۔ کچ ھ دیر بعد کفار کا لشکر اگل ے سال بدر کے میدان کا چیلنج دے کر واپس ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے بچی کھچی طاقت جمع کرک ے ان کا پیچھ ا کیا لیکن الل ہ تعالی ٰ ن ے ان پر تھکن سوار کردی اور و ہ مڑ کر مقابلے پر نہ آئے۔ غزوہے ربدرر رکیر رطرحر راسر رجنگر رمیںر ربھیر راللہے رتعالیٰے رکار رقانونر ردینونتر رپوریر رطرح کارفرما نظر آتا ہے۔ اس قانون کو ایک اسکالر اس طرح بیان کرت ے ہیں ک ہ اگر ہمارے ساتھ یہ معاملہ ہو جائے کہ اگر ہم نماز پڑھیں تو فورا ً ہزار روپے ملیں اور اگر نہ پڑھیں تو فورا ایک کوڑا پڑے تو ظاہر ہے کہ ہم میں سے کوئی نماز ترک نہ کرے گا۔ یہ معاملہ ہمارے سات ھ نہیں ہوتا ۔ ہماری نیکیوں کی جزا اور برائیوں کی سزا ہمیں آخرت میں مل ے گی۔ الل ہ تعالی ٰ ن ے اولد ابراہیم کی دونوں شاخوں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل ک ے ساتھ اسی دنیا میں یہ معاملہ کیا ہے۔ سیدنا موسی ٰ علی ہ السلم س ے ل ے کر آج تک کی بنی اسرائیل کی تاریخ اور حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے لیکر آج تک بنی اسماعیل کی تاریخ ،اس بات کی گواہ ہیں کہ ان کے ساتھ بحیثیت قوم دنیا میں جزا و سزا کے معاملت کئے گئے ہیں تاکہ یہ دوسری قوموں کے لئے عبرت کا باعث بنیں اور انہیں آخرت پر یقین حاصل ہو۔ بنی اسرائیل جب نیکی پر کاربند ہوئ ے تو دنیا ان ک ے سامن ے مفتوح ہوگئی ۔ ان کی سلطنت عراق س ے ل ے کر افریق ہ تک پھیل گئی اور دنیا ک ے بڑ ے بادشا ہ ان ک ے باجگزار ہوئے۔ جب انہوں نے برائی کا راستہ اختیار کیا تو نبوکد نضر سے لے کر ٹائٹس اور آخر کار ہٹلر جیسے حکمران ان پر مسلط ہوئے جنہوں نے ان کا قتل عام کیا۔ بعینہ یہی معاملہ بنی اسماعیل ک ے سات ھ ہوا ۔ جب انہوں ن ے الل ہ تعالی ٰ اور اس ک ے رسول کی پیروی کی تو انہیں دنیا میں اس کی جزا ملی اور اپن ے س ے کئی گنا بڑ ے لشکر ان ک ے سامن ے مفتوح ہوئے ،یہاں تک کہ بلوچستان سے لے کر مراکش تک کے علقے محض چند سال میں ان کے زیر نگیں آگئے لیکن جب انہوں نے کوئی غلطی کی تو اسی دنیا میں انہیں اس کی سزا بھگتنا پڑی۔ چونکہ احد میں بنی اسماعیل کے لشکر کے ایک اہم حصے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ال ہ و سلم ک ے احکامات کی خلف ورزی کی تھی ،اس لئ ے انہیں اس کی سزا فوراً ملی اور انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔ یوں سمج ھ لیجئ ے ک ہ انہیں اپنی مردان ہ آبادی کے دس فیصد حصے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ قرآن مجید نے اسے اس طرح بیان کیا ہے: دل شکست ہ ن ہ ہو ،غم ن ہ کرو ،تم ہ ی غالب ہ و گ ے اگر تم مومن ہو ۔ اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ ی ہ تو زمان ے ک ے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہ م لوگوں ک ے درمیان گردش دیت ے رہت ے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لئے لیا گیا کہ اللہ آزماناچاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں ،اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھ ا جو واقعی (حق کے ) گوا ہ ہوں ۔ کیونک ہ ظالم لوگ الل ہ کو پسندر رنہیںر رہیں۔ے راورر روہے راسر رآزمائشر رکےے رذریعےے رمومنوںر رکو رالگ رچھانٹر رکرر رکفار رکی سرکوبی کر دینا چاہتا تھا۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو ک ہ یونہی جنت میں چلے جاﺅ گے حالنک ہ ابھی اللہ نے یہ تو آزمایا
109
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm ہ ی نہیں ک ہ تم میں سے کون و ہ لوگ ہیں جو اس کی را ہ میں جانیں لڑان ے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔ تم تو موت کی تمنائیں کر رہے تھے! مگر یہ اس وقت کی بات تھ ی جب موت سامن ے ن ہ آئی تھی ۔ لو اب و ہ تمہار ے سامن ے آگئی اور تم ن ے اسے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ محمد محض اللہ کے رسول ہیں ۔ ان سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں ۔ پھر کیا اگر و ہ فوت ہ و جائیں یا قتل کر دی ے جائیں تو تم لوگ الٹے پاﺅں پھ ر جاﺅ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھر ے گا و ہ اللہ کا کچ ھ نقصان ن ہ کر ے گا ،البت ہ جو اللہ ک ے شکر گزار بند ے بن کر رہیں گے ،انہیں وہ جزا دے گا۔ کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مر سکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ ۔۔۔ اس س ے پہل ے کتن ے ہ ی نبی ایس ے گزر چک ے ہیں جن ک ے سات ھ مل کر بہ ت س ے خدا پرستوں نے جنگ کی ۔ الل ہ کی را ہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں ان سے وہ دل شکست ہ نہ ہوئے ،انہوں نے کمزوری نہ دکھائی ،وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہ ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہے پسند کرتا ہے۔ے ان کی دعا بس یہ ی تھی’ ،اےے ہمارےے رب! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما ،ہمار ے کام میں تیرے حدود سے جو کچ ھ تجاوز ہ و گیا ہ و اسے معاف کردے۔ ہمارے قدم جما دے اور کفار کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔‘ آخر کار اللہ نےے ان کو دنیا میں (سرفرازی کی صورت میں) بدلہے بھ ی دیا اور اس سےے بہتر ثواب آخرت میں عطا کیا۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل والے لوگ پسند ہیں۔۔۔۔ اللہ نے (مدد کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا ،وہ تو اس نے پورا کردیا۔ ابتدا میں اس کے حکم تم ہی ان لوگوں کو قتل کر رہے تھے۔ مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہ م اختلف کیا ،اور جونہ ی و ہ چیز الل ہ ن ے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) ،تم اپن ے امیر ک ے حکم کی خلف ورزی کر بیٹھے۔ اس لئ ے ک ہ تم میں سے کچ ھ لوگ دنیا ک ے طالب تھے اور کچ ھ آخرت کی خواہ ش رکھتے تھے۔ تب اللہ نے تمہیں کفار کے مقابلے میں پسپا کردیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کردیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے۔ یاد کرو جب تم بھاگ ے جا رہے تھے۔ کسی طرف پلٹ کر دیکھن ے کا ہوش تمہیں نہ تھااور رسول تمہار ے پیچھے تمہیں پکار رہے تھے۔ اس وقت تمہاری اس روش کا بدلہ اللہ ن ے تمہیں ی ہ دیا ک ہ تمہیں رنج پر رنج دی ے تاک ہ آئند ہ ک ے لئ ے تمہیں ی ہ سبق مل ے ک ہ جو کچھ تمہار ے ہات ھ س ے جائ ے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو ،اس پر ملول ن ہ ہو ۔ الل ہ تمہار ے سب اعمال سے باخبر ہے۔ اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کر دی ک ہ و ہ اونگھن ے لگے۔ ایک دوسرا گرو ہ جس ک ے لئ ے ساری اہمیت بس اپنے مفاد ہی کی تھی ،اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلنہ گمان کرنے لگا۔۔۔۔ تم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹ ھ پھیر گئے تھے ،ان کی اس لغزش کا سبب یہ ت ھ اک ہ ان کی بعض کمزوریوں ک ے باعث شیطان ن ے ان ک ے قدم ڈگمگا دی ے تھے۔ الل ہ نے انہیں معاف کر دیا ،اللہ بہت درگزر کرنے وال اور بردبار ہے۔۔۔۔ جن لوگوں ن ے زخم کھان ے ک ے بعد بھ ی الل ہ اور رسول ک ے پکار پر لبیک کہا ،ان میں سے جو اشخاص نیک اور پرہیزگار ہیں ،ان کے لئے بڑا اجر ہے۔ (اٰل عمران ) 172-3:140
110
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
عجو ہ ک ھجور احد ک ے دامن میں بہ ت س ے ریڑھ ی وال ے کھڑ ے کھجوریں بیچ رہے تھے۔ یہاں کئی افریقی خواتین نےے زمین پر بہ ت سی اشیا کی دکانیں لگائی ہوئی تھیں جہاں وہے مکمل باپردہ لباس میں چیزیں بیچ رہی تھیں۔ ریڑھیوں پر جا بجا بہت سی جڑی بوٹیاں بک رہی تھیں۔ بیچن ے وال ے ان جڑی بوٹیوں س ے مخصوص زنانہ امراض س ے لے کر دل کی بیماریوں کے علج کا دعویٰ کر رہے تھے۔ مجھے چونکہ ان کے خواص کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا اس لئے میں نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی۔ پورےے عرب میں سب سےے سستی اور اعلی کوالٹی کی کھجوریں مدینہے منورہے میں ملتی ہیں۔ ایک ریڑھی وال ”عجوہ ،عجوہ“ کی آواز لگا رہا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کےے پاس عجوہے کھجور ہےے جو دوسری اقسام کی کھجور کی نسبت دوگنی قیمت پر فروخت ہو رہی تھی۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو عجوہ بہت پسند تھی۔ میں نے بھی آدھا کلو عجوہ خریدی۔ یہ عام کھجور سے کافی چھوٹی تھی اور اس میں گٹھلی بھی برائے نام ہی تھی۔ اس کا ذائقہ بھی بہت مختلف تھا۔ یہاں یہ خاصی سستی دستیاب ہو گئی ورنہ مسجد نبوی کے پاس تو یہ پچاس ساٹھ ریال فی کلو کے حساب سے بکتی ہے۔ یہاں سے رخصت ہو کر ہم نے گاڑی پر احد کے گرد ایک چکر لگایا۔ یہ پورا علقہ کھجور کے فارمز س ے بھرا ہوا تھا۔ درختوں پر کھجور کے زرد خوش ے لٹک رہے تھے۔ ی ہ زرد کچی کھجور پنجاب اور سند ھ میں ’ڈوکے ‘ کہلتی ہے۔احد ک ے آخری کون ے پر مدین ہ کی تیسری رنگ رو ڈ گزر رہ ی تھی ۔ ہ م اس پر احد ک ے دوسری طرف آگئے۔ دوسری جانب ی ہ پہاڑ عمودی چٹانوں پر مشتمل تھا۔ تیسری رنگ روڈ اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی شہر کے گرد گھوم رہی تھی۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ تیسری رنگ روڈ حرم مدینہ کی باﺅنڈری پر بنائی گئی ہے۔ جمع ہ کی نماز کا وقت قریب تھا ۔ رنگ رو ڈ کا چکر لگا کر ہم لوگ علی بن ابی طالب روڈ پر آگئے جو سیدھی مسجد نبوی تک جا پہنچتی ہے۔
111
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
خندق عصر کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرکے ہم لوگوں نے غزوہ خندق کے مقام کا قصد کیا۔ مسجد نبوی میں ایک پاکستانی صاحب سے ،جو مدین ہ ہ ی میں رہت ے تھے ،میں ن ے خندق کے مقام کا پوچھا۔ انہوں نے تفصیل سے راستہ سمجھا دیا۔ یہ مسجد نبوی سے محض چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ مقام "بئر سبع" کہلتا ہے۔ یہاں سات مساجد ہوا کرتی تھیں جو مختلف صحابہ سے موسوم تھیں۔ اب اس مقام پر ان مساجد کو شہید کرکے ایک ہی بڑی مسجد کی شکل دی جارہی تھی ۔ یہاں ک ے مقامی لوگوں ک ے مطابق خندق عین اس جگ ہ کھودی گئی تھ ی جہاں اب سڑک بنی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے جنگ کے کچھ عرصے بعد یہ خندق بند کر دی گئی ہو گئی تاکہ عام لوگوں کو آمد و رفت میں مشکل ن ہ ہو ۔ ی ہ خندق مدین ہ ک ے دو اطراف میں کھودی گئی تھ ی جہاں سے کفار کی آمد کا خطرہ تھا۔ باقی دو اطراف میں پہاڑ کچھ اس طرح موجود ہیں کہ وہاں سے کسی بڑے لشکر کی آمد ممکن ہی نہیں۔ جنگ خندق ،مدینہ پر کفار مکہ کی تیسری اور آخری چڑھائی تھی جو جنگ احد کے دو سال کے بعد ہوئی۔ اس مرتبہ کفار قریش نے عرب قبائل کو مل کر 10000کا لشکر تیار کیا۔ے ان قبائل میں بنو غطفان ،مرہ ،اشجع ،سلیم اور اسد شامل تھے۔ے کہ ا جاتا ہےے کہ عرب میں اتنا بڑا لشکر پہل ے کبھ ی ن ہ بنا تھا ۔ اتنے بڑے اجتماع کی وجہ س ے اس جنگ کو جنگ احزاب بھ ی کہ ا جاتا ہےے یعنی لشکروں کی جنگ۔ے ان کا ارادہے یہے تھ ا کہے اس مرتبہ مسلمانوں کا قلع قمع کرکےے اسلم کا نام و نشان مٹا دیا جائےے لیکن انہوں نےے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا تھ ا ک ہ ان کا مقابل ہ الل ہ ک ے رسول س ے ہے جو الل ہ ک ے بنائے ہوئے قانون کے تحت کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے۔ اس مرتبہ سیدنا سلمان فارسی رضی الل ہ عنہ کے مشورے پر حضور صلی اللہ علی ہ و الہ و سلم نے خندق کھود کر دفاعی حکمت عملی اختیار کی۔ دعوت دین کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد دو سال میں اب 700سے بڑ ھ کر 3000ہو چکی تھی۔ ان افراد نے دن رات کی محنت کرکے خندق کھودی۔ مشہور محقق ڈاکٹر حمید اللہ بیان کرتے ہیں کہ دس دس افراد کی جماعت کو چالیس چالیس ہاتھ لمبی خندق کھودنے کا کام سپرد کیا گیا۔ ان 300ٹیموں نے مل کر 6000گز یعنی تقریبا ً چھ کلومیٹر لمبی خندق کھودی۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی انتظامی صلحیتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ محض جنگ میں لڑنے ہی کا نام نہیں بلک ہ جنگ کی ہ ر طرح کی تیاری بھ ی جہاد کا حص ہ ہے۔ جہاد میں لجسٹک سپورٹ فراہ م کرن ے وال ے بھ ی اسلم کی نظر میں مجاہدین فی سبیل الل ہ ہوت ے ہیں لیکن جہاد اسلم کے نزدیک ،ظلم کے خلف ایک منظم حکومت کی کاروائی ہوتی ہے نہ کہ افراد یا گروہوں کی پھیلئی ہوئی بدنظمی ۔ خندق کی وجہ سے کوئی بڑی لڑائی درپیش نہ ہوئی۔ کفار کے لشکر کے لئے یہ ممکن 112
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
نہ تھا کہ وہ بیک وقت اس خندق کو پھلنگ سکیں۔ ان کا محاصرہ طویل ہوتا گیا۔ عرب کے مشہور جنگجو عمرو بن عبدود نے ایک مقام سے خندق پھلنگ لی اور اسلمی لشکر کے سامنے آگیا۔ یہ شخص اپنی بہادری و شجاعت اور حربی مہارت کے باعث 1000سوار کے برابر مانا جاتا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ،جو اس وقت 28برس کے تھے ،اس کے مقابلے پر آئے۔ آپ سے تعارف پر وہ کہنے لگا ” ،تم ابھ ی بچے ہو اور میرے دوست کے بیٹے ہو ،میرے مقابلے پر نہ آﺅ ،خواہ مخواہ مارے جاﺅ گے۔“ آپ نے اس کا مقابلہ کیا اور اس کا خاتمہ کر دیا۔ اس ک ے بعد کسی کو خندق عبور کرن ے کی جرات ن ہ ہوئی ۔ اس حکمت عملی س ے ی ہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر جنگی قوت کا توازن مخالف کے پلڑے میں ہو تو دو بدو مقابلے سے بچنا ( ) Avoidanceبہترین حکمت عملی ہوا کرتی ہے۔ے بدقسمتی سےے ہمارےے لیڈ ر اس حکمت عملی کو ماننے کے لئ ے تیار نہیں اور ہر موقع پر ممولے کو شہباز سے لڑانے کے لئ ے تیار رہت ے ہیں ۔ ی ہ اور بات ہے ک ہ و ہ پوری قوم کو تو ی ہ درس دیت ے ہیں البت ہ اپنی اولد کو ان معاملت سے دور رکھتے ہیں۔ یہود کے قبیلے بنو قریظہ کا اہل اسلم سے یہ معاہدہ تھا کہ وہ ان سے جنگ نہ کریں گے۔ اس موقع پر انہوں ن ے بدعہدی کی اور پیچھے س ے مسلمانوں پر حمل ے کا اراد ہ کیا ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی مدد آئی۔ اس نے حملہ آوروں میں سے ایک اہم شخصیت صاحب نعیم بن مسعود اشجعی رضی الل ہ عن ہ کا ذہ ن تبدیل کیا اور و ہ ایمان ل ے آئے۔ انہوں نے مشرکین اور بنو قریظ ہ ک ے مابین ایسی غلط فہمیاں پیدا کیں ک ہ ان کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ دوسری طرف الل ہ تعالی ٰ ن ے اپنی مدد آندھ ی و طوفان کی صورت میں نازل کی جس کےے نتیجےے میں شدید سردی ہ و گئی اور کفا ر کےے خیمےے اکھ ڑ گئے۔ے لشکر کےے سردار ابوسفیان رضی الل ہ عنہ ،جو ابھ ی ایمان ن ہ لئ ے تھے ،ایس ے بدحواس ہوئ ے ک ہ بندھے ہوئے اونٹ پر سوار ہ و کر اس ے بھگان ے لگے۔ جب رسی نے آگ ے بڑھن ے ن ہ دیا تو اپنی تلوار سے رسی کاٹ کر اونٹ کو آزاد کیا ۔ اس جنگ کے بعد بنو قریظ ہ کی بد عہدی کی سزا دی گئی اور ان میں سے ایک گروہ کو قتل اور دوسرے کو جنگی قیدی بنایا گیا ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے: ا ے ایمان والو! یاد کرو الل ہ ک ے احسان کو جو (ابھ ی ابھی) اس ن ے تم پر کیا ہے۔ جب لشکر تم پر چڑ ھ آئ ے تو ہ م نے ان پر ایک سخت آندھ ی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تمہیں نظر ن ہ آتی تھیں ۔ الل ہ و ہ سب کچ ھ دیک ھ رہ ا تھ ا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے۔ جب و ہ اوپر اور نیچ ے س ے تم پر چڑ ھ آئے ،جب خوف ک ے مار ے آنکھیں پتھرا گئیں ،کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت اہل ایمان خوب آزمائے گئے اور بری طرح ہل دیے گئے۔ یاد کرو و ہ وقت جب منافقین اور و ہ سب لوگ جن ک ے دلوں میں روگ تھ ا ،صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدے ہم سے کئے تھے ،وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے۔ جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا’ ،اے اہل یثرب! تمہارے لئے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ،پلٹ چلو۔ ‘ جب ان کا ایک فریق یہے کہہے کر نبی س ے یہے کہہے کر رخصت طلب کر رہ ا تھ ا ک ہ ہمار ے گھ ر خطر ے میں ہیں ،حالنک ہ و ہ خطر ے میں ن ہ تھے۔ دراصل وہ (محاذ جنگ سے) فرار ہونا چاہتے تھے۔ اگر شہر کے اطراف سے دشمن گھس آئے ہوتے اور اس وقت انہیں فتنے کی دعوت دی جاتی تو یہ اس میں جا پڑتے اور مشکل ہ ی س ے انہیں شریک فتنہ ہونے میں کوئی تامل ہوتا۔ ان لوگوں ن ے اس سے پہل ے اللہ سے 113
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm عہ د کیا تھ ا ک ہ ی ہ پیٹ ھ ن ہ پھیریں گ ے اور الل ہ س ے کئ ے ہوئ ے عہ د کی باز پرس تو ہونی ہی تھی۔۔۔۔ درحقیقت تم لوگوں ک ے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمون ہ تھا ،ہ ر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ سچے مومنوں نے جب حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے’ ،یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس ک ے رسول ن ے ہ م س ے وعد ہ کیا تھا ،الل ہ اور اس ک ے رسول کی بات بالکل سچی تھی۔‘ اس واقعہ نے ان کی ایمان اور سپردگی کو اور بڑھا دیا۔۔۔۔ الل ہ ن ے کفار کا من ہ پھیر دیا اور و ہ کوئی فائد ہ حاصل کئ ے بغیر اپن ے دل کی جلن لئے یونہی پلٹ گئے اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لئے کافی ہوگیا۔ اللہ بڑی قوت وال اور زبردست ہے۔ پھ ر اہ ل کتاب میں س ے جن لوگوں ن ے ان حمل ہ آوروں کا سات ھ دیا تھا ،اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اتار لیا اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے گروہ کو قید کر رہے ہو۔ اس نے تم کو ان کی زمین اور ان ک ے گھروں اور ان ک ے اموال کا وارث بنا دیا اور و ہ علقہ تمہیں دیا جہاں تم ن ے کبھ ی لشکر کشی ن ہ کی تھی ۔ الل ہ ہ ر چیز پر قادر ہے۔ (الحزاب ) 27-33:9
یہ جنگ 5ھ میں ہوئی۔ اس جنگ کے بعد مشرکین عرب کبھی اہل اسلم پر حملہ آور نہ ہ و سکے۔ اگل ے سال یعنی 6ھ میں حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم 1500جانثاروں کی معیت میں عمرہے کی ادائیگی کےے لئےے مکہے تشریف لےے گئے۔ے اس موقع پر اہ ل مکہے سے حدیبیہ کے مقام پر صلح ہو گئی۔ یہودی جو مدینہ پر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھے، 7ھ میں جنگ خیبرکے نتیجے میں مغلوب ہوئے۔ اس کے بعد اہل مک ہ نے حدیبی ہ کے معاہدے کیر رخلفر رورزیر رکیر راورر 8ھے میںر ررسولر راللہے رصلیر راللہے رعلیہے رور رالہے رور رسلمر رنےے 10000 قدوسیوں کے لشکر کے ساتھ مکہ فتح کر لیا۔ 9ھ میں پورے عرب سے قبائل کے وفود نے آ کر اسلم قبول کیا۔ اسی سال سورہ توبہ نازل ہوئی جس میں عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ پر حضور صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کو نہ ماننے کے باعث اللہ تعالیٰ کے عذاب کی آخری قسط نازل ہوئی۔ مشرکین کی سزا موت اور اہ ل کتاب کی سزا جزی ہ مقرر کی گئی ۔ مشرکین کی سزا پر وسیع پیمانے پر عمل درآمد نہ ہوسکا کیونکہ اہل عرب نے عذاب سے قبل ہی ایمان قبول کرلیا البتہے اہ ل کتاب پر جزیہے کی سزا نافذ کی گئی اور وہے عرب میں ہمیشہے ہمیشہے کےے لئے مغلوب ہو کر رہ گئے۔ 10ھ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے حج ادا کیا جس موقع پر پورا عرب اسلم ک ے زیر نگیں آچکا تھا۔اس کےے بعد 11ھ رمیں آپ وفات پاگئے۔ے آپ کےے بعد محض دس بارہ سال کے عرصے میں قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں مغلوب ہ و گئیں اور الل ہ تعالی ٰ ن ے و ہ پورا علق ہ بنی اسماعیل ک ے تسلط میں د ے دیا جس ے تورات میں اولد ابراہیم کی میراث کہا گیا ہے۔ ایسا کرن ے کا مقصد ی ہ تھ ا ک ہ اس وقت کی متمدن دنیا ک ے قلب میں الل ہ تعالی ٰ کی توحید کے علمبرداروں کی حکومت قائم کی جائے تاکہ اس زمانے کی دنیا کی دیگر اقوام جزا و سزا کے اس قانون کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکیں اور ان پر اللہ کی حجت قائم ہ و سکے۔ بعد میں آن ے والی نسلوں ک ے لئ ے جزا و سزا کا ی ہ واقع ہ قرآن مجید میں 114
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
محفوظ کر دیا گیا ہےے جس کی تاریخی حیثیت میں اس کےے ماننےے والوں اور نہے ماننے والوں میں کوئی اختلف موجود نہیں ۔ اس طرح پوری نسل انسانی پر الل ہ کی حجت پوری کرد ی گئی ہے۔ اب یہ انسان کی مرضی ہے کہ وہ ان واقعات کو محض تاریخ سمجھ کر نظر انداز کر دےے یا پھ ر اس سےے آخرت کی جزا و سزا کا قانون اخذ کرکےے اپنی دنیاوی زندگی کو آخرت کی تیاری پر لگا دے۔
115
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
طائف طائف رسعودی رعربر کا رگرمائیر دارلحکومتر ہے۔ے رگرمیوں رمیں رجب رریاضر میںر درجہ حرارت 55ڈگری سینٹی گری ڈ پر پہنچ جاتا ہے تو شاہ ی خاندان طائف میں منتقل ہ و جاتا ہے۔ شدید گرمی میں بھی یہاں درجہ حرارت 35ڈگری سے زیادہ نہیں بڑھ پاتا۔ ایک پہاڑی مقام ہونے کے علوہ اس کی اپنی تاریخی اہمیت بھی ہے اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سیرت طیبہ سے گہرا تعلق ہے۔ دور جاہلیت میں اس شہ ر کا شمار مک ہ ک ے بعد عرب ک ے اہ م ترین شہروں میں ہوتا تھا۔ یمن سے آنے والی دو تجارتی شاہراہوں میں سے ایک پر طائف واقع تھا۔ مکہ کے کئی رئیسوں ن ے یہاں اپن ے فارم ہاﺅ س بنائ ے ہوئ ے تھے۔ شہ ر میں بنو ثقیف اور بنو ہوازن کے قبائل آباد تھے۔ اس ک ے اطراف میں بنو سعد آباد تھے جن کی آبادی طائف س ے ل ے کر مکہ کے ایک طرف سے ہوتی ہوئی حدیبیہ تک جاتی تھی۔ اس شہ ر کو حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم س ے کئی طرح کی نسبت ہے۔ آپ کا بچپن اسی شہ ر ک ے اطراف میں بنو سعد ک ے علق ے میں گزرا ۔ انہ ی سر سبز پہاڑیوں میں دوڑ کر آپ بچپن س ے لڑکپن کی حدود میں داخل ہوئے۔ اسی شہ ر ک ے قریب سیل کبیر ک ے علق ے میں آپ کی نوجوانی کی عمر میں جنگ فجار ہوئی جس میں آپ بھی کسی حد تک شریک تھے۔ آپ کی دعوتی زندگی کا سب س ے تکلیف د ہ وقت بھ ی اسی طائف میں گزرا جب یہاں کے اوباشوں نے آپ پر پتھروں کی بارش کی اور آپ نے اس ک ے جواب میں بھ ی دعا ہ ی دی ۔ غزو ہ حنین اور غزو ہ طائف بھ ی اسی علق ے میں وقع پذیر ہوئ ے جن کے بعد کوئی بڑی جنگ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی زندگی میں سامنے نہ آئی۔ طائف کے سفر ک ے لئ ے ہ م ن ے جمع ہ کے دن کا انتخاب کیا کیونک ہ اس دن چھٹی تھی۔ صبح فجر ک ے بعد نیند کا دوسرا راﺅن ڈ چل رکیونک ہ یہاں پر مجھے صرف ایک ہ ی ہفت ہ وار چھٹی دستیاب ہوتی تھی۔ تقریبا ً ساڑھے دس بجے آنکھ کھلی اور میں نے اپنی فیملی کو جگایا ۔ ساڑھے گیار ہ بج ے ہ م لوگ تیار ہ و کر نکل چک ے تھے۔ اس وقت جمع ہ کی نماز کے لئے پہلی اذان دی جارہی تھی۔ سعودی عرب میں یہ رواج ہے کہ جمعہ کی پہلی اذان زوال سے قبل ہی دے دی جاتی ہے۔ زوال کے فورا ً بعد دوسری اذان ہوتی ہے اور امام صاحب خطبہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد نماز ہوتی ہے۔ایک بجے تک سب لوگ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جمعہ کی نماز راستے میں ادا کریں گے۔ آدھے گھنٹے میں ہم لوگ حدیبیہ یا شمیسی کے مقام پر جا پہنچے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ کئی سو سال کے بعد اس مقام کا نام شمیسی پڑ گیا۔ یہاں سے طائف کے لئے ایک بائی پاس بنا ہوا ہے۔ غیر مسلم اسے کرسچن بائی پاس کہتے ہیں۔ اس مقام سےے طائف جانےے کےے دو راستےے ہیں۔ایک راستہے تو یہ ی کرسچن بائی پاس ہےے اور دوسرا راستہ حرم مکہ کی حدود کے اندر مکہ کے تیسرے رنگ روڈ سے ہوتا ہوا طائف کی طرف جاتا ہے۔ مکہ میں داخل ہو کر دائیں جانب تیسرے رنگ روڈ پر مڑ جائیے۔ مزدلفہ کے
116
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
قریب ایک مقام پر دائیں جانب طائف جان ے کا راست ہ نکلتا ہے۔ کرسچن بائی پاس بھی اسی رو ڈ پر آملتا ہے۔ میرا تجرب ہ ہے ک ہ مک ہ ک ے اندر کا راست ہ نسبتا ًر جلد ط ے ہ و جاتا ہے کیونکہ کرسچن بائی پاس زگ زیگ پہاڑیوں سے گزر کر آتا ہے۔ طائف جانے کا ایک تیسرا طویل راستہ مکہ سے براستہ سیل کبیر طائف کی طرف جاتا ہے۔
کرسچن بائی پاس اس مرتبہے ہ م نےے کرسچن بائی پاس کا انتخاب کیا ۔ حدیبی ہ س ے تھوڑی دور چل ے تھےے کہ گھنے سبزے میں ڈھکی ہوئی ایک وادی نظر آئی ۔ اس بے آب و گیاہ ،وادی غیر ذی زرع میں اتنا سبزہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ یہ ویسے ہی صحرائی پودے ہیں جو کراچی اور حیدر آباد کے درمیان نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ اتنے گھنے تھے کہ ان کے بیچ میں زمین دکھائی نہ دے رہ ی تھی ۔ غالبا ً اس کی وجہ طائف کے پہاڑوں سے آنے وال پانی تھا۔ ذرا سی نمی ملنے پر یہ جھاڑیاں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ تھوڑا سا آگ ے جا کر سیا ہ پہاڑ نظر آئے جنہیں چوٹی تک سنہری ریت نے ڈھانپا ہوا تھا۔ کہیں کہیں سیا ہ چٹانوں کے کون ے باہ ر نکل ے ہوئ ے تھے۔ ی ہ جگ ہ وادی ملکان کہلتی ہے۔ یہاں وسیع ریتل ے میدان میں ہ ر سائز ک ے ب ے شمار اونٹ چر رہے تھے ۔ ان کی خوراک وہی صحرائی پودے تھے۔ اس علقے میں صدیوں سے یہی منظر نظر آتا تھا۔ رسول اللہ صلی الل ہ علی ہ و الہ و سلم ک ے دور میں بھ ی ایسا ہ ی منظر ہوتا ہ و گا جہاں آپ اپن ے بچپن اور لڑکپن میں بکریاں اور اونٹ چراتے ہوں گے۔ دور نوکیلی پہاڑیوں کا ایک سلسلہ نظر آرہا تھا۔ ان میں سے ایک پہاڑی بالکل شہادت کی انگلی کی طرح سب سے الگ تھلگ سیدھی کھڑی تھی ۔ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت منظر تھا۔ تھوڑا سا آگے جا کر ایک فیکٹری آئی۔ نجانے یہ کس چیز کی فیکٹری تھی۔ اس س ے تھوڑا سا آگ ے ایک چھوٹا سا ائر پورٹ تھ ا جو صرف ایک چھپر اور ایک رن و ے پر مشتمل تھا۔ غالبا ً ی ہ پرائیویٹ ائر پورٹ تھا ۔ چھپر کے نیچ ے ننھے منے جہاز کھڑے تھے جن میں سے کئی ٹوسیٹر تھے۔ اس قسم کے جہاز میں نے اسلم آباد ائر پورٹ پر بھی دیکھے تھے۔ وہاں یہ عموما ً مختلف ممالک کے سفارت خانوں کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اب ہم وادی ام دوح ہ میں داخل ہ و گئے۔ ایک مسجد پر نظر پڑت ے ہ ی میں ن ے جمع ہ کی نماز ک ے لئے گاڑی روک دی۔ اس روڈ پر خاصے گمراہ کن بورڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک بورڈ پر راستے کو آگے جا کر بند دکھایا گیا تھا۔ میں سارا راستہ اسی شش و پنج میں گاڑی آہستہ چلتا رہا کہ کہیں اچانک روڈ بند نہ ہوجائے۔ ایک مقام پر طائف کا بورڈ لگا ہوا تھا اور تیر کا رخ مکہ کی جانب تھا۔ دراصل ان دنوں طائف جان ے وال ے اس راست ے کو پہاڑ پر دو روی ہ کرن ے ک ے لئ ے بند کرنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ یہ بورڈ لگا دیے گئے تھے مگر راستہ ابھی بند نہ ہوا تھا۔ ان بورڈز سے کنفیوز ہونے کے باعث میں نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔ مسجد میں بہ ت س ے پاکستانی بھ ی نماز پڑ ھ رہے تھے۔ میں دوران سفر سعودی عرب ک ے بہ ت سے چھوٹےے بڑےے شہروں سےے گزرا ہوں۔ے یہے مخلوق مجھےے ہ ر مقام پر نظر آئی ہے۔ے شلوار قمیص میں ملبوس پاکستانی سعودی عرب کے ہر شہر ،ہر قصبے اور شاید ہر گاﺅں میں پائے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد میں نے ایک صاحب سے طائف کا راستہ کنفرم کیا۔ وہ سوچ 117
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
میں پڑ گئے۔ پھ ر ایک اور ساتھ ی س ے پوچ ھ کر انہوں ن ے مجھے بتایا ک ہ یہ ی راست ہ سیدھا طائف جائے گا۔ مسجد کے ساتھ ایک بقالہ بھی تھا۔ اس میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ میں پنجاب کے کسی گاﺅ ں کی ہٹی پر کھڑا ہوں۔ فرق صرف زبان کا تھا ۔ یہاں کئی عرب بدو شور مچاتے ہوئے سامان اکٹھا کر رہے تھے۔ دو عربوں میں کسی بات پر زبردست بحث ہو رہی تھی۔ ایک عرب دکاندار سے قیمت پر جھگڑ رہا تھا۔ یہاں کئی پنجابی دیہاتی بھی تھے جو عربوں ک ے مقابل ے میں بہ ت ڈیسنٹ نظر آرہے تھے۔ اس مسجد میں ارد گرد ک ے دیہات سے لوگ گروپوں کی صورت میں کھلی ہائی لکس گاڑیوں کے پیچھے بیٹھ کر بلکہ لٹک کر نماز جمعہ کے لۓ آئے تھے۔ بچوں کے لئے کولڈ ڈرنکس لے کر میں واپس آگیا اور ہم نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔
عرفات اور عکاظ کا بازار تھوڑا سا آگے جاکر بائیں جانب ہمیں میدان عرفات نظر آیا۔ اس میدان کی خاص پہچان اس میں لگا ہوا سبزہ ہے۔ حج کے دنوں میں یہاں ہر طرف سفید رنگ ہی نظر آتا ہے جو حجاج کے احرام کا رنگ ہے۔ اس وقت یہ میدان ویران پڑا تھا۔ اس جانب حرم کی حدود یہیں ختم ہوتی ہیں۔ اب ہم مکہ طائف موٹر وے پر پہنچ چکے تھے جو کہ منیٰ سے سیدھی یہاں آ رہ ی تھی ۔ یہاں قریب ہ ی کسی جگ ہ دور جاہلیت میں ’عکاظ‘ کا مشہور بازار لگا کرتا تھا ۔ ی ہ عرب کی سب س ے بڑی تجارتی منڈ ی تھ ی جس میں پور ے عرب س ے تاجر آکر خرید و فروخت کیا کرت ے تھے۔ عکاظ ک ے بعد قریب ہ ی ’ذو المجاز‘ کی منڈ ی لگتی اور اس کے بعد لوگ یہاں سے سیدھے منیٰ جا کر حج کیا کرتے تھے۔
سیل کبیر اور حرب فجار جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مکہ سے طائف جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ تو یہی ہے۔ دوسرا راستہ جبل حرا سے شروع ہوتا ہے اور سیل کبیر کے راستے طائف کی طرف جاتا ہے۔ ی ہ نسبتا ً لمبا راست ہ ہے اور یہاں س ے طائف تک تقریبا ً سوا گھنٹ ہ لگتا ہے۔ اس راست ے میں پہاڑی سفر والی کوئی تھرل نہیں ۔ میں ایک مرتب ہ پہل ے اس راست ے سے طائف جا چکا تھا ۔ اس راست ے پر خاص بات ’سیل کبیر ‘ہے۔ ی ہ دور قدیم س ے سیلبوں کی گزرگا ہ رہ ی ہے۔ ان صحرائی پہاڑوں پر کئی کئی سال بارش نہیں ہوتی لیکن جب ہوتی ہے تو پھر سیلب ہی آتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام سیل کبیر یعنی بڑا سیلب ہے۔ ریہاں عرب کی مشہور تجارتی منڈیاں لگا کرتی تھیں ۔ اسی مقام پر مشہور ’جنگ فجار‘ ہوئی تھی ۔ عرب قبائل کے جنگجو مزاج ک ے باعث جھگڑا ہوا جو بڑ ھ کر جنگ کی شکل اختیار کر گیا ۔ اس میں ہوازن ،ثقیف اور قریش نے حص ہ لیا ۔ رسول الل ہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی عمر اس وقت صرف پندرہ برس تھی۔ چونکہ اس میں قریش حق پر تھے اس لئے آپ نے ان کا ساتھ دیا۔ آپ نے اپنے چچاﺅ ں کو تیر پکڑائے البتہ خود عملی جنگ میں حصہ نہ لیا۔ بالخر جنگ کا اختتام ،حضور صلی الل ہ علی ہ وسلم ک ے چچا زبیر بن عبد المطلب کی کوششوں سے ایک صلح کے معاہدے سے ہوا جس میں شریک ہونے والے کئی افراد کا 118
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
نام ’فضل‘ تھا۔ے اس وجہے سےے یہے معاہدہے ’حلف الفضول‘ کہلتا ہے۔ے اپنی انسان دوست فطرت کے باعث حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو اس معاہدے سے اتنی خوشی ہوئی کہ آپ فرماتے ” ،مجھے یہ معاہدہ سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ محبوب تھا۔“ مکہ سے طائف جانے کا دوسرا راستہ عرفات اور ہدا سے ہو کر طائف جاتا ہے۔ نبوت ک ے دسویں سال ،اپن ے دعوتی سفر ک ے دوران حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم اسی راست ے س ے طائف تشریف ل ے گئ ے تھے۔ ی ہ مختصر راست ہ ہے۔ اس پر سفر کرک ے تقریباً پینتیس چالیس منٹ میں طائف پہنچا جاسکتا ہے۔ ی ہ راست ہ پہاڑی ایڈونچر اور تھرل سے بھرپور ہے۔اپنےے طائف کےے سفر سےے واپسی کےے دوران حضور صلی اللہے علیہے وسلم نے سیل کبیر وال راست ہ اختیار فرمایا تھا ۔ یہاں وادی نخل ہ میں آپ ن ے کچ ھ دیر قیام فرمایا اور قرآن مجید کی تلوت فرمائی جسے جنات کے ایک گروہ نے سنا اور وہ ایمان لے آیا۔ اسی واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورہ احقاف میں ہے۔ جنات نے آپ سے قرآن سن کر اپنی قوم میں جا کر تبلیغ کی ۔ اس ک ے بعد جنات ک ے کئی وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لئے۔ مکہ طائف موٹر وے ایک طرف سے تین لین پر مشتمل تھی اور روڈ کی کوالٹی بہت اچھ ی رتھی۔ے عرفات رسےے آگےے نکلےے تور رہمارےے دونوںر طرفر خوبصورتر فارمر ہاﺅسزر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب ہمارے سامنے ایک بہت بڑا پہاڑی سلسلہ نظر آرہا تھا جو کہ کسی قلعے کی فصیل کی مانند دائیں بائیں پھیل ہوا تھا ۔ دس منٹ میں ہ م اس فصیل تک جا پہنچے۔ اس مقام کو میں ن ے ’ہدا‘ ر ک ے بیس کیمپ کا خطاب دیا ۔ اس مقام کی بلندی سطح سمندر سے تقریبا ً 2000فٹ ہے۔ بیس کیمپ پر موٹر وے ختم ہو جاتی ہے اور ایک سنگل روڈ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یہ روڈ زگ زیگ انداز میں گھومتی ہوئی فصیل نما پہاڑ پر چڑھتی ہے۔پہاڑ کی چوٹی پر ’ہدا‘ کا مقام ہے جس کی بلندی سطح سمندر سےے 6000فٹ ہے۔ ی ہ چڑھائی بیس منٹ میں ط ے ہوتی ہے۔ ان بیس منٹ میں مک ہ سے طائف کی جانب فاصلہ کم نہیں ہوتا لیکن انسان 4000فٹ کی بلندی کا سفر طے کر لیتا ہے۔
غزو ہ حنین بعض تاریخی روایات کے مطابق غزوہ حنین اسی بیس کیمپ کے قریب کسی وادی میں ہوا تھا ۔ یہ وادی تاریخ کی کتابوں میں شہرت نہ پاسکی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ن ے اس جنگ کا مال غنیمت مسجد جعران ہ ک ے مقام پر تقسیم کیا تھا ۔ یہے مسجد سیل کبیر ک ے راست ے ک ے قریب واقع ہے اس ل ۓ قرین قیاس یہ ی ہے ک ہ جنگ سیل کبیر والی جانب ہوئی ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سرکردگی میں یہ آخری جنگ تھی جس میں باقاعدہ مقابلہ بھی ہوا۔ اس دور کے عرب میں مکہ کے بعد طائف دوسرا بڑا شہر تھا۔ فتح مک ہ ک ے بعد حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم طائف کو فتح کرن ے ک ے اراد ے س ے وہاں تشریف لے گئے۔ اب اسلمی لشکر کی تعداد 12000ہو چکی تھی جس میں فتح مکہ کے دس ہزار قدوسیوں کے علو ہ مکہ کے دو ہزار نو مسلم بھ ی شامل تھے۔ اس علقے میں آباد بنو ہوازن ،بنو ثقیف ،بنو جشم ،بنو نضر اور بعض دوسرےے چھوٹےے موٹےے قبائل 119
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
مقابلے پر آئے۔ اب وہ وقت نہ تھا کہ کفار کا لشکر اسلمی لشکر کے مقابلے پر زیادہ ہوتا۔ اب لشکر اسلم کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔ یہ جاہلیت کے پیروکاروں کی عرب میں اسلم کے خلف آخری بڑی مزاحمت تھی۔ اپنے عظیم لشکر کے مقابلے میں معمولی سی قوت دیکھ کر بعض افراد یہ کہہ اٹھے ، ’ یہ کیا ہمارا مقابلہ کریں گے؟‘۔ یہ جملہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ چونکہ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ مختلف ہے اس لئے ان کی ہر غلطی کی فورا اسی دنیا میں ہ ی پکڑ کی جاتی ہے۔ احد کی طرح یہاں بھ ی ایسا ہ ی معامل ہ پیش آیا۔ے جب جنگ شروع ہوئی تو ہوازن نےے تیر اندازی شروع کی۔ے یہے اتنی سخت تھ ی کہ اسلمی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی لیکن حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور چند جلیل القدر صحابہ ثابت قدم رہے۔ ابوسفیان رضی الل ہ عنہ ،جو فتح مک ہ س ے قبل کفر کی ہ ر مزاحمت کے لیڈ ر تھے ،اب رسول اللہ صلی اللہ علی ہ و الہ و سلم کے گھوڑے کی لگامیں تھامے سب لوگوں کو جمع ہونے کے لئے کہہ رہے تھے۔ ہوازن کے تیر ان کی آنکھوں میں لگے اور ان کی آنکھیں شہید ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور آپ کے جلیل القدر صحابہ کی ثابت قدمی کے باعث لشکر دوبارہ اکٹھ ا ہوا اور اس نے ان قبائل کو شکست دی۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر کچھ یوں آیا ہے: اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے جیسے حنین کے دن۔ اس روز تم اپنی کثرت تعداد پر اترا گئے مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹ ھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھ ر الل ہ ن ے اپنی سکینت اپنے رسول اور مومنوں پر نازل کی اور وہ لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے۔ پھر منکرین حق کو سزا دی ک ہ یہ ی بدل ہ ہے ان لوگوں ک ے لئ ے جو حق کا انکار کریں ۔ “ (توبہے -9:24 ) 26
اس جنگ ک ے بعد عرب کی قسمت کا فیصل ہ ہوگیا ک ہ اب اس ے دار السلم بننا ہوگا۔ ایک سال ک ے عرص ے میں ہ ی باقی عرب قبائل ک ے وفود مدین ہ حاضر ہوئ ے اور انہوں نے اسلم قبول کیا ۔ صرف دو برس ک ے اندر مسلمان مردوں کی تعداد 12000س ے بڑ ھ کر سوا لک ھ تک پہنچ گئی ۔ ی ہ و ہ لوگ ہیں جور 10ھے رک ے حج میں شریک ہوئے۔ عرب ک ے وہ افراد جو اس حج میں شامل نہ تھے ،اس کے علوہ ہیں۔
زید بن حارث ہ رضی الل ہ عن ہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا سفر طائف یاد آنے لگا۔ اس سفر میں آپ ک ے ہمرا ہ صرف سیدنا زید بن حارث ہ رضی الل ہ عن ہ تھے۔ ی ہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔ ایمان لن ے والوں میں سیدنا ابوبکر ،خدیج ہ اور علی رضی اللہ عنہم کے بعد چوتھے ہیں۔ انہیں بچپن میں کسی بردہ فروش نے اغوا کرکے غلم بنا لیا تھا۔ بعد میں کئی ہاتھوں میں فروخت ہوتےے ہوئےے سیدہے خدیجہے رضی اللہے عنہ ا کےے پاس آئے جنہوں نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ نے ان سے غلموں جیسا برتاﺅ نہ رکھا بلکہ اپنے بیٹوں جیسا سلوک کیا۔ ان کے والد انہیں ڈھونڈتےے ہوئےے آپ تک آ پہنچےے اور منہے مانگی قیمت کےے عوض ان کی واپسی کا 120
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
مطالبہ کیا۔ آپ نے جواب دیا ” ،زید سے پوچھ لو۔ اگر وہ جانا چاہے تو میں کوئی قیمت نہ لوں گا۔ “ باپ بیٹےے کی ملقات ہوئی ۔ زید ن ے حضور صلی اللہے علیہے و ال ہ و سلم کا در چھوڑن ے س ے انکار کردیا اور والد کو بتایا ک ہ اتنی محبت آپ بھ ی مجھے نہیں د ے سکتے جتنی مجھے حضور نے دی ہے۔ والد بھی مطمئن ہو کر چلے گئے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا۔ عرب میں عام دستور تھا کہ منہ بولے بیٹوں کے ساتھ بالکل حقیقی بیٹوں وال سلوک کیا جاتا۔ انہیں وراثت میں بھی حصہ ملتا جس کی وجہ سے اصل وارث محروم رہ جاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے زید کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن زینب بن جحش رضی الل ہ عنہ ا س ے کی تھی ۔ ان میں نب ھ ن ہ سکی اور زید کو انہیں طلق دینا پڑی ۔ اللہ تعالی ٰ ک ے حکم ک ے مطابق حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کو سید ہ زینب س ے نکاح کرنا پڑا تاک ہ اس رسم کا خاتم ہ کیا جاسکے۔ قرآن مجید ک ے مطابق من ہ بول ے بیٹوں کے سات ھ اگرچ ہ اچھ ا سلوک کرن ے میں کوئی حرج تو نہیں ہے لیکن انہیں اپن ے اصل والد کی نسبت ہ ی س ے پکارا جانا چاہئے۔ اس س ے ی ہ بھ ی معلوم ہوا ک ہ جاہلن ہ رسموں ک ے خاتمے ک ے لئےے ی ہ ضروری ہےے ک ہ قوم ک ے راہنما خود ان رسموں کو توڑن ے ک ے لئےے ذاتی اقدام کریں تاکہ لوگوں کے لئے مثال قائم کی جا سکے۔ حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے زمان ے میں ی ہ پہاڑی ٹریک محض ایک تنگ سا راستہ ہوگا جس سے گھوڑے وغیرہ گزرتے ہوں گے۔ بعض روایات کے مطابق آپ پیدل ہی روانہ ہوئے تھے۔ چار ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچنا کتنا مشکل کام رہا ہوگا۔ سفر کی اتنی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود یہ اہل طائف کی بے مروتی کہیے یا سخت دلی کہ ایک غلم کے سوا کسی کو ایمان لنے کی توفیق نہ ہوئی۔ انہوں نے محض آپ کی دعوت سے انکار ہی نہ کیا بلکہ ان کے اوباشوں نے آپ پر پتھر بھی برسائے۔ قریب تھا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر آئے ،لیکن حضورصلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی اور یہ امید ظاہر کی کہ ان کی نسل میں اہل ایمان پیدا ہوں گے۔آپ کی اس امید ک ے عین مطابق صرف 11برس بعد اہ ل طائف ن ے اسلم قبول کرلیا۔ ان کی نسل سے کئی مشہور لوگ پیدا ہوئے۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم کا تعلق بھی اسی نسل سے تھا۔ افسوس رجس ردین رکیر خاطرر حضور رصلی راللہے علیہے رو الہے و رسلمر نےے راتنی رتکالیف برداشت کیں اس کی آج اس کے ماننے والوں کے نزدیک قدر نہ رہی۔ اس سے دین کو تو کوئی فرق نہیں پہنچتا البتہ یہ ہماری محرومی کی انتہا ہے۔
ہدا ہ م اب چڑھائی کا سفر ط ے کرن ے لگے۔ے 4000فٹ اوپر ہدا ک ے مقام س ے کیبل کار بیس کیمپ تک آ رہ ی تھی ۔ ی ہ بھ ی اپنی نوعیت کا سنسنی خیز تجرب ہ ہوگا ۔ نیچ ے ایک فیملی پارک تھ ا جہاں کیبل کار کا پوائنٹ بنا ہوا تھا ۔ دوسر ے عرب پہاڑوں ک ے بر عکس ی ہ پہاڑ کافی سرسبز تھا۔ راستے میں پانی کے کئی پہاڑی راستے نظر آ رہے تھے۔ ہمارے شمالی علقہ جات کے چشموں کی طرح یہ ہر وقت تو نہ چلتے تھے البتہ بارش کے وقت ان میں ضرور پانی نظر آتا تھا۔ اس وقت یہ خشک تھے۔ روڈ بل کھاتی ہوئی اوپر جارہی تھی۔ 121
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
میں اور میری اہلیہے تو پہاڑی سفروں کےے عادی تھےے لیکن میرےے بچوں کےے لئےے اپنے شعور میں یہ پہل تجربہ تھا۔ روڈ کے ایک طرف گہری کھائی کو دیکھ کر ان کا خون خشک ہو رہا تھا جو ہر پل مزید گہری ہوتی جارہی تھی۔ اس چڑھائی کو دیکھ کر مجھے مالم جبہ اور شوگران کی چڑھائیاں یاد آئیں۔ یہاں ان کی نسبت سبزہ کافی کم تھا لیکن روڈ ویسا ہ ی تھا ۔ اس رو ڈ کی کوالٹی بہ ت اچھ ی تھی ۔ دو طرف ہ ٹریک اتنا چوڑا تھ ا ک ہ تین گاڑیاں ایک ساتھ گزر سکتی تھیں۔ کھائی والی جانب مضبوط بلک لگے ہوئے تھے۔ ہماری پہاڑی سڑکوں میں اس معیار کی سڑک ’قراقرم ہائی وے ‘ ہی ہے یا پھر زلزلے سے پہلے کاغان روڈ ہوا کرتی تھی۔ اب اس روڈ کو بھی دو رویہ کیا جا چکا ہے۔ ہ م آہست ہ آہست ہ بلند ہوت ے چل ے جارہے تھے۔ آٹو میٹک گیئر والی گاڑی اب کچ ھ دشواری محسوس کررہی تھی۔ میں نے پہاڑی ٹریکس کے مخصوص گیئرز میں سے پہل گیئر لگایا۔ انجن کی ریوولیشن میں اضاف ہ ہوا اور گاڑی ہموار ہوگئی ۔ ہ م 60کلومیٹر فی گھنٹ ہ کی رفتار س ے بلندی کا سفر ط ے کر رہے تھے۔ چوٹی پر پہنچن ے س ے کچ ھ دیر قبل رو ڈ ڈبل ہوگئی۔ یہاں پہاڑ کے گرد پل بنا کر روڈ کی توسیع کی گئی تھی ۔ جیس ے ہ ی ہ م چوٹی پر پہنچے ،براﺅن رنگ کے ہر سائز کے بندروں کے ایک غول نے ہمارا پرجوش استقبال کیا۔ یہ مسکین صورت بنائے روڈ کے کنارے بیٹھے تھے۔ بچے ان بندروں کو دیکھ کر بہت پر جوش ہوگئ ے تھے۔ چونک ہ ی ہ بندر رو ڈ ک ے دوسری طرف تھے ،اس لئ ے میں یو ٹرن ل ے کر اس طرف آیا ۔ یہاں چار ہزار فٹ گہرا بیس کیمپ صاف نظر آرہ ا تھا ۔ اس گہرائی کا اندازہ اس بات س ے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر بیس کیمپ س ے چوٹی تک ایک عمارت بنائی جائے تو اس کی چار سو منزلیں بن سکتی ہیں۔ یہ عمارت دنیا کی موجودہ بلند ترین عمارت سے چار گنا بلند ہو گی۔ چونکہے رلوگر رانر ربندروںر رکور رکھانےے رپینےے رکیر راشیار ردیتےے رہیں،ر راسلئےے ریہے رسارار ردنر ریہیں براجمان رہتے ہیں۔ کوک کا ٹن کھولنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔یہاں کئی لوگ گاڑیاں روک کر اتر ے ہوئ ے تھے۔ کئی اپن ے موبائل کیمروں کی مدد س ے ان کی تصاویر ل ے رہے تھے۔ کچھ خواتین بندروں کے درمیان بیٹھ کر تصاویر بنوا رہی تھیں۔ بچے ان کے آگے کھانے پین ے کی اشیا پھینک رہے تھے اور بندر انہیں جھپٹن ے میں مصروف تھے۔ بعض عرب لڑکے بھی ہاہا ہو ہو کرتے آگئے اور بندروں کو تنگ کرنے لگے۔ ہ م پھ ر گھوم کر ہدا کی طرف روانہ ہوئے۔ الل ہ تعالی ٰ کی قدرت دیکھئ ے کہ فصیل نما پہاڑ کی چوٹی پر وسیع و عریض میدان تھا جس میں کہیں کہیں چوٹیاں نکلی ہوئی تھیں۔ اس مقام کو ’ہدا‘ کہتے ہیں۔ اسی میدان میں بیس کلومیٹر کے فاصلے پر طائف کا شہر تھا ۔ وادی ہدا کی اصل خوبصورتی اس کا کنار ہ ہے جس ک ے سات ھ ایک دم چار ہزار فٹ کی گہرائی ہے۔ دور گہرائی میں سنہری ریت کے بیک گرا ﺅنڈ میں سیاہ مکہ روڈ نظر آرہی تھی ۔ تھوڑ اسا آگ ے جاکر پھلوں کی ب ے شمار دکانیں آئیں جن میں بہ ت ہ ی ترتیب سے رنگ برنگے پھل چنے ہوئے تھے۔ ذرا سا آگ ے دائیں جانب ہدا رنگ رو ڈ نکل رہ ا تھا ۔ ی ہ نصف دائر ے کی شکل کی روڈ تھی جو وادی ہدا کا چکر لگا کر پھر گھوم کر مکہ طائف روڈ پر آملتی تھی۔ ہم بھی رنگ روڈ پر ہو لئے۔ یہیں ایک فائیو سٹار ہوٹل تھا۔ دائیں طرف کئی روڈز نکل رہی تھیں جن پر شوخ رنگوں ک ے ریزارٹ بن ے ہوئ ے تھے۔ ایک جگ ہ سعودی ائر فورس کا کوئی سنٹر تھا۔ 122
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ایک روڈ کافی اوپر پہاڑوں میں جارہ ا تھا ۔ ہ م اسی پر ہولئے۔ کافی بلندی پر پہنچ کر روڈ بند ہو رہا تھا۔ یہاں ایک فیملی نے خیمہ لگایا ہوا تھا۔ ہم نے بھی وہیں گاڑی روکی ۔ آسمان پر گھن ے بادل اکٹھے ہ و رہے تھے۔ ہ م ن ے گاڑی کی سن روف اور تمام شیش ے کھول دیے۔ بچوں کو وہیں چھوڑ کر میں اور اہلیہ ہائکنگ کے لئے روانہ ہوگئے۔ وادی ہدا کو اگر سبزہ ،خوشبو ،خنکی اور گھنے بادلوں کا مجموعہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ پہاڑی ٹریک پر ہمیں بہ ت س ے پرند ے دیکھن ے کو ملے۔ زمین پر انواع و اقسام کے کیڑے مکوڑے نظر آرہے تھے۔ ان میں سے کئی افزائش نسل میں مشغول تھے۔ وادی ہدا کی خوبصورتی کو دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی خیمہ خریدیں گے اور سردیوں میں یہاں آ کر شدید سردی اور دھوپ کو انجوائ ے کریں گے۔ تھوڑی دیر میں ایک بڑی سی گاڑی بھ ی یہاں آ پہنچی۔ے یہے ایک بڑی جی ایم سی ویگن تھی۔ے اس نسل کی ویگنیں پاکستان میں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے اندر ایک موبائل ریسٹورنٹ بنا ہوا تھا۔ ہم نے اس سے کون اور کارن فلیکس لئے۔ عصر کی اذان ہو رہ ی تھی چنانچہ ہم مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ مسجد کے پاس کافی آبادی تھی۔ ماحول ہمارے شمالی علقہ جات کے کسی گا ﺅں کا سا تھا ۔ خواتین کا مصلی ٰ دوسری منزل پر تھا ۔ نماز ک ے بعد میں ن ے امام صاحب سے ’مسجد عداس‘ کے بارے میں دریافت کیا۔ فرمانے لگے” ،وہاں جانا تو گمراہی ہے۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کی اجازت دی ہے۔“ مجھے جتنی عربی آتی تھی ،اس کا زور لگا کر میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ک ہ اس حدیث پر میرا بھ ی ایمان ہے۔ میں ی ہ سفر ثواب یا زیارت کی نیت س ے نہیں بلکہ محض سیاحت کے طور پر کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علی ہ و الہے و سلم سےے تعلق رکھن ے والےے مقامات ک ے بار ے میں ایک کتاب لک ھ رہ ا ہوں۔ آدمی معقول تھے۔ میری بات ان کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے مجھے مسجد عداس کا راستہ بتا دیا۔ قارئین کی سہولت کے لئے میں اس راستے کی تفصیل بھی لکھ رہا ہوں۔
مثنا ۃ اور مسجد عداس ہدا سے طائف جانے والی روڈ جب طائف ہ ی حدود میں داخل ہوتی ہے تو سب سے پہلے طائف کے رنگ روڈ سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ مکمل گول رنگ روڈ نہیں بلکہ نصف دائرے کی شکل میں طائف ک ے گرد پھیل ہوا ہے۔ ہ م لوگ رنگ رو ڈ س ے دائیں جانب مڑے۔ یہ ی روڈ سیدھا ’شفا‘ کی طرف جاتا ہے۔ تھوڑی دور جا کر کنگ عبد العزیز ہسپتال آگیا۔ اس سے اگلے ایگزٹ سے ہم رنگ روڈ سے نکل کر بائیں جانب شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ تھوڑا دور جا کر مثنا ۃ کا علق ہ آگیا ۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ک ے زمانے میں طائف یہاں آباد تھا ۔ رو ڈ ک ے اوپر ہ ی ایک قدیم مسجد نظر آرہ ی تھی ۔ دارالسلم پبلشرز کی شائع کردہ ’اطلس سیرت نبوی‘ میں اسی مسجد کی تصویر دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہی مسجد عداس ہے۔ میں نے قریب کھڑے ایک پانی کے ٹینکر کے پاکستانی ڈرائیور سے مسجد کے بارے میں پوچھا۔ وہ کہنے لگا کہ اصل مسجد عداس آبادی کے اندر ہے۔ چنانچہ ہم لوگ ٹینکر کے پیچھے آبادی میں داخل ہوئے۔ ی ہ علق ہ اب طائف کا مضافاتی علق ہ ہے۔ پورا علق ہ میں زرعی فارم پھیل ے ہوئ ے تھے۔ 123
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
آگے گلیاں تنگ تھیں اور ماحول بالکل پنجاب کے دیہات جیسا تھا۔ ہم لوگ گاڑی ایک جگہ کھڑیر رکرکےے رپیدلر رروانہے رہوئے۔ے رہمارےے ردیہاتر رکیر رطرحر رلڑکےے رٹولیوںر رکیر رصورتر رمیں دیواروں بلکہ ’بنیروں‘ پر بیٹھے تھے۔ سامنے ہ ی ’مسجد عداس‘ تھی جو خاصی پرانی ہو چکی تھی۔ رو ڈ ک ے کنار ے ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی ۔ مقامی لوگوں س ے میں ن ے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ طائف کے اوباش اس پہاڑی کے پاس چھپے بیٹھے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں پہنچے تو انہوں نے آپ پر پتھر برسائے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم کو ڈھال بنا کر ان پتھروں کو روکنے کی کوشش کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور سیدنا زید کافی زخمی ہ و کر اس مقام پر آئے جہاں اب مسجد عداس ہے۔ اس زمانے میں یہاں مکہ کے رئیس عتبہ اور اس کے بھائی شیبہ کا باغ ہوا کرتا تھا۔ یہ دونوں وہیں موجود تھے۔ ی ہ لوگ بھ ی اگرچ ہ اسلم دشمنی میں پیش پیش تھے لیکن ابو لہب اور ابوجہل کے مقابلے میں کمینی فطرت کے مالک نہ تھے۔ اپنے شہر کے دو افراد کو اس حالت میں دیکھ کر انہیں افسوس ہوا اور انہوں نے اپنے غلم ’عداس‘ کے ہاتھ آپ کو انگور بھجوائے۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے اپنی دعوت عداس ک ے سامن ے پیش کی ۔ یہ عتبہ کے غلم تھے اور اس باغ کی رکھوالی کیا کرتے تھے۔ مذہبا ً عیسائی تھے۔ ان کا تعلق نینوا سے تھا۔ جب انہوں نے یہ بتایا تو حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا” ،وہ تو میر ے بھائی یونس بن متی علی ہ السلم کا شہ ر ہے۔ “ آپ کی دعوت پر عداس رضی اللہ عنہ فورا ً ایمان لئے ۔ جس مقام پر آپ اور زید بیٹھے تھے ،اسی مقام پر بعد میں مسجد عداس بنا دی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ انہوں نے آپ کے سر اور پاﺅں کو بوسہ دیا۔ عتبہ اور شیبہ اس بات پر ان س ے ناراض ہوئ ے اور انہیں آپ س ے دور رہن ے اور اپن ے مذہ ب پر قائم رہن ے کی نصیحت کی ۔ اس واقع ہ ک ے پانچ سال بعد عتب ہ و شیب ہ جنگ بدر ک ے لئ ے روان ہ ہوئے۔ اہل کتاب ہونے کے ناتے عداس اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے اچھی طرح واقف تھے کہ رسول کا مقابلہ کرن ے والوں کو ہلک کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے پاﺅں پکڑ کر اپن ے آقاﺅں کو روکنے کی کوشش کی لیکن یہ لوگ مقابلے پر نکلے۔ عتبہ ،سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا اور شیب ہ سیدنا علی رضی اللہ عن ہ کے ہاتھوں ۔ ابوسفیان کی زوجہ ہند رضی اللہ عنہا بھی اسی عتبہ کی بیٹی تھیں۔ اپنے باپ کا انتقام انہوں نے جنگ احد میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبا کر لیا لیکن فتح مکہ کے دن وہ اسلم لئیں۔ چونکہ انہیں رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی ساس ہون ے کا شرف بھ ی حاصل تھ ا اس لئے آپ کے ساتھ ان کا ہنسی مذاق کئی روایات میں مذکور ہوا ہے۔
غزو ہ طائف مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ پورا علقہ عتبہ و شیبہ کا باغ تھا۔ اس وقت بھی یہ علقہ دو تین بڑے بڑے فارم ہاﺅسز پر مشتمل تھا۔ میرے سامنے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سیرت طیبہ کے مناظر پھر گردش کرنے لگے۔ اہل طائف کی اس بدتمیزی کے بعد جبریل علیہ السلم آئے اور کہن ے لگے" ،اگر آپ کہیں تو اسی پہاڑی کو اہل شہ ر پر گرا کر انہیں 124
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہلک کردیا جائے۔ " آپ ن ے اس سے منع فرمایا اور امید ظاہ ر کی کہ ان لوگوں کی نسل میں اہ ل ایمان ہوں گے۔ اس واقع ہ ک ے ٹھیک 11برس بعدآپ ن ے طائف پر چڑھائی کی۔ اس وقت مک ہ فتح ہ و چکا تھ ا اور اہ ل طائف اپن ے حلیف قبائل ک ے ہمرا ہ حنین کی جنگ میں شکست کھا کر شہر میں قلعہ بند ہو چکے تھے۔ حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے شہ ر کا محاصر ہ کیا ۔ اس دوران ان ک ے رئیس عرو ہ بن مسعود رضی الل ہ عن ہ ایمان لئے۔ ی ہ وہ ی صحابی ہیں جن ک ے بار ے میں رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے بتایا ک ہ ان کی شکل سیدنا عیسی ٰ علی ہ السلم سے ملتی ہے۔ ان کی دعوتی کوششوں کے نتیجے میں اہل طائف اسلم لئے اور حضور صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے محاصر ہ اٹھان ے کا حکم دیا ۔ بعد میں اہ ل طائف پک ے مسلمان ثابت ہوئے۔ سیدنا ابوبکر و عمر رضی الل ہ عنہما ک ے ادوار میں انہوں ن ے قیصر و کسریٰ کے خلف جنگوں میں بھرپور حصہ لیا۔ بنو امیہ کے مشہور گورنر حجاج بن یوسف کا تعلق بھی طائف کے قبیلے بنو ثقیف سے تھا ۔ ی ہ شخص اپنی انتظامی قابلیت ک ے علو ہ ظلم و ستم ک ے لئ ے مشہور تھا ۔ اسی کے بھتیجے محمد بن قاسم تھے جنہوں نے سندھ فتح کیا۔ اپنی انتظامی صلحیتوں میں یہ اپنے چچا سےے بڑھے کر تھےے لیکن اس کی ظالمانہے طبیعت کےے برعکس یہے نہایت ہ ی نرم دل تھے۔ان کی نرمی نے ہندوﺅں کا دل جیت لیا۔ یہاں تک کہ بعض ہندو ان کا بت بنا کر انہیں پوجنے بھی لگے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ ان کا تعلق بھی طائف اور بنو ثقیف سے تھا۔ طائف کی ایک اور مشہور شخصیت ابو عبید ثقفی رضی الل ہ عن ہ تھے۔ ی ہ ایک تابعی تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب مملکت ایران کی شرپسندیوں کے جواب میں اس پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو تمام مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں اس جہاد میں شرکت کی ترغیب دی۔یہ ایک نہایت مشکل جنگ تھی۔ ابو عبید وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کھڑے ہو کر اس جہاد میں شمولیت کا اراد ہ ظاہ ر کیا ۔ ان کی بہادری ک ے باعث حضرت عمر نے انہیں اس لشکر کا سالر مقرر کیا جس میں کئی کبار صحابہ بھی شامل تھے۔ اس لشکر کا سامنا جسر کے مقام پر ایرانی فوج سے ہوا۔ دونوں افواج کے درمیان دریائے دجلہ تھا۔ ابو عبید جوش جہاد سے سرشار تھے۔ انہوں نے ایک جنگی غلطی کی اور دریا پار کرکے دشمن کےے مقابلےے پر آئے۔ے جوش شہادتر میں انہوں نےے وہے پل بھ ی توڑ دیا جس سے اسلمی لشکر نے دریا پار کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ کسی کے دماغ میں فرار کا خیال بھی نہ آئے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں ک ے لئ ے جگ ہ تنگ پڑ گئی ۔ جنگی حکمت عملی ک ے تحت لشکر کو جتنا پھیلنا چاہئ ے تھ ا اس ے اس کی جگ ہ میسر ن ہ آئی جس ک ے نتیجے میں ایرانیوں ن ے دباﺅ ربڑھ ا دیا ۔ اس معرک ے میں بہ ت س ے مسلمان شہید ہوئ ے جن میں سالر لشکر ابو عبید بھی تھے۔ اس موقع پر مشہور صحابی مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی اور ایرانی لشکر کی یلغار کو روکا۔ انہوں نے لشکر کے ایک حصے کو پل دوبارہے بنانےے کا حکم دیا۔ے پل بنتےے ہ ی لشکر واپس دریا پار کر گیا۔ے اس جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا جس کا افسوس سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ کو ایک عرصے تک رہا۔ مثني وہی صحابی ہیں جنہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایران پر حملے کے 125
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
لۓ تیار کیا اور باقاعدہ جنگی کاروائی کا آغاز کیا۔ طائف کی ایک اور مشہور شخصیت مختار ثقفی بھی ہے۔ یہ ان طالع آزما لوگوں میں سے تھا جنہوں نے واقعہ کربل کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اس نے بنو امیہ کی حکومت کے خلف علم بغاوت بلند کیا اور چن چن کر قاتلین حسین کو ہلک کیا ۔ اس س ے اسے بہ ت مقبولیت حاصل ہوئی ۔ بعد ازاں اس ن ے عراق پر اپنا اثر و رسوخ مضبوط کیا اور پھر نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ جب سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے بھائی مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس فتنے کا خاتمہ کیا۔ طائف کی تاریخ کے بارے میں سوچتے اور باتیں کرتے ہم لوگ مسجد ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف روانہ ہوئے۔
مسجد ابن عباس سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،رسول اللہ صلی الل ہ علیہ و ال ہ و سلم کے چچا عباس کے بیٹے اور مشہور صحابی ہیں۔ آپ کی وفات کے وقت یہ ابھی بچے تھے۔ عبداللہ، سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ کے خاص شاگرد تھے۔ نوجوانی کے عالم میں بزرگ صحاب ہ کی مجلس مشاورت میں شریک ہوتے۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم ن ے انہیں ’حبر المۃ ‘ یعنی امت ک ے بڑ ے عالم کا خطاب دیا تھا ۔ آپ سیدنا علی رضی الل ہ عن ہ ک ے دور میں مکہ کے گورنر بھی رہے۔ بعد میں آپ نے مکہ میں رہنے ہی کو ترجیح دی۔ جب سیدنا حسین رضی الل ہ عن ہ کوف ہ ک ے لئ ے روان ہ ہوئ ے تو ابن عباس ن ے انہیں وہاں جان ے س ے بہ ت منع کیا ۔ یہاں تک ک ہ جب آپ روان ہ ہوئ ے تو ابن عباس ،ان ک ے گھوڑ ے کی لگام پکڑ کر ساتھ دوڑتے گئے اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بعد ازاں ،آپ کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور اہل کوفہ کی بے وفائی کے باعث آپ کو کربل میں شہید کر دیا گیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہے عنہما کی پوری عمر قرآن سمجھنےے اورسمجھانےے میں گزری۔ آخری عمر میں آپ نابینا ہوگئے۔ کسی نے آپ کو طائف شفٹ ہونے کا مشورہ دیا جو آپ نےے قبول کیا۔ے مکہے کےے سخت گرم موسمی حالت کےے مقابلےے میں طائف ایک پرفضا پہاڑی مقام ہے۔ یہیں آپ کی عمر ک ے آخری ایام گزر ے اور آپ ن ے وفات پائی۔ جس مقام پر آپ کی قبر تھی ،اس ک ے قریب آپ س ے منسوب مسجد تعمیر کی گئی۔ موجودہ طائف میں یہ مسجد ،شہر کے مرکز میں واقع ہے اور شہر کے ’فیس لینڈ مارک‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ ٹریفک میں پھنسنے کے باعث ہم لوگ نماز کے کچھ دیر بعد مسجد ابن عباس پہنچے۔ مسجد کی وسیع و عریض پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرک ے ہ م مسجد میں داخل ہوئے۔ اتنی بڑی مساجد دنیا میں بہ ت کم ہوں گی ۔ دوسری جماعت میں نماز پڑھن ے کا موقع مل ۔ سیدنا ابن عباس رضی الل ہ عنہ کی قبر اب ایک بند کمر ے میں واقع ہے جس پر تالہ لگا ہوتا ہے۔ اس کے بعدمیں نے احادیث میں مروی زیارت قبور کے لئے پڑھ ی جانے والی دعا پڑھی۔ میر ے کزن ابرار ان دنوں طائف میں مقیم تھے۔ میں ن ے موبائل پر ان سے مغرب کا 126
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
وقت ط ے کیا تھا ۔ ان س ے بھ ی یہیں ملقات ہوئی ۔ و ہ ہمیں ل ے کر قریب ہ ی بخاری ہ کے علقے میں واقع ایک پاکستانی ہوٹل پر لے گئے۔ یہ پٹھانوں کا ہوٹل تھا۔ یہاں کے فیملی ہال میں بیٹھ کر ہم نے کڑاہی گوشت کا آرڈر دیا۔ جب کڑاہی چکھی تو اس کا ذائقہ پشاور کی نمک منڈی کی کڑاہی جیسا معلوم ہوا۔
شفا طائف کے قریب ہی شفا کا پرفضا مقام ہے۔ طائف کی طرف اپنے پہلے سفر کے دوران ہ م ’سیل کبیر‘ ک ے راست ے طائف پہنچ ے تھے۔ شہ ر س ے گزر کر ہ م شفا کی جانب روانہ ہوئے ۔ طائف سے شفا تک دو رویہ فور لین موٹر وے بنی ہوئی ہے۔ جب ہم شفا کے قریب پہنچےے تو ایسی چڑھائی نظر آئی جو بالکل سیدھ ی تھی۔ے روڈے کےے دونوں جانب گہری کھائیاں تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہ ا تھا کہ ہم ایک ایسی دیوار پر چل رہے ہیں جو بلند ہوتی جارہی ہے۔ چڑھائی کا اختتام شفا رنگ روڈ پر ہوا۔ وادی شفا ایک نہایت ہ ی خوبصورت اور پر فضا مقام ہے۔ رنگ رو ڈ بالکل گول شکل میں وادی ک ے گرد بنایا گیا ہے اور تمام ہوٹل وغیر ہ اس پر واقع ہیں ۔ رنگ رو ڈ س ے ادھر ادھ ر چھوٹی سڑکیں نکلتی ہیں جو مختلف ریزارٹس تک جاتی ہیں ۔ ہ م لوگ ایک عرب ریسٹورنٹ پر رکے جہاں کے تمام ملزم پاکستانی تھے۔ میں نے یہاں سے ’مندی‘ خریدی۔ یہ ہماری ’سجی‘ سے ملتی جلتی ایک عرب ڈش ہوتی ہے۔ عرب لوگ سالم بکرے کو ذبح کرک ے اس کی کھال اتارن ے ک ے بعد دہکت ے پتھروں ک ے درمیان دفن کر دیت ے ہیں ۔ پتھروں کی گرمی س ے گوشت پک جاتا ہے۔ اس ک ے بعد اس گوشت ک ے ٹکڑ ے کر ک ے روٹی یا بخاری پلﺅ کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔ یہاں کے ہوٹلوں میں بیٹھنے کا رواج نہ تھا۔ ہم نے ہوٹل والے سے برتن مستعار لئے اور کھانا لیکر گھنے سبزے کے درمیان آ بیٹھے۔ ہم لوگوں کے لئے سالم بکرے کا تصور بڑا لذیذ تھا لیکن جب یہ سامنے آیا تو بچوں نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سالم بکر ے کا گوشت ،اس طرح صاف نہیں ہوتا جیسا ک ہ ہ م عام طور پر کھات ے ہیں۔ اس میں گوشت ک ے علو ہ چربی ،ریش ہ اور و ہ سب کچ ھ ہوتا ہے جو ہمار ے قصاب بھائی صاف کرکے دیتے ہیں۔ شاید اسی لئے یہ اسے ’مندی‘ کہتے ہیں جو پنجابی میں ’چنگی‘ کے متضاد ک ے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ عرب لوگ ہڈیوں ک ے علوہے ی ہ سب کچ ھ کھ ا جاتے ہیں ۔ ہ م ن ے پک ے ہوئ ے گوشت س ے ی ہ سب آلئشیں صاف کیں اور پھ ر اس ے چاولوں کے ساتھ کھایا۔ سلد اور سرکے والے اچار کے ساتھ مندی بہت لذیذ محسوس ہوئی۔ مندی کھا کر ہم وادی کے مختلف گوشوں کا جائزہ لینے لگے۔ پرفضا مقامات پر ہماری دلچسپی ہمیش ہ قدرتی ماحول س ے رہ ی ہے۔ ایک رو ڈ نیچ ے اتر رہ ی تھی ۔ جب ہ م اس پر گئے تو یہ نیچے ہی اترتی گئی۔ تھوڑی دیر میں ہم ایک اور سر سبز وادی میں تھے۔ ہم نے یہیں ڈیرہ لگانے کا ارادہ کیا۔ بچے وادی میں کھیلنے لگے اور میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ہائکنگ میں مصروف ہوگیا ۔ وادی میں ہ ر طرف سبز ہ پھیل ہوا تھا ۔ ی ہ ہمار ے شمالی علق ہ جات جیسا علقہے تو خیر نہیں تھ ا جہاں پہاڑ مکمل طور پر سبزےے سےے ڈھکےے ہوتےے ہیں۔ے البتہ پاکستان میں اسے زیارت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ یہاں سبزے کے بیچ پہاڑوں کا اصل رنگ نمایاں تھا۔ کیمپنگ کے لئے یہ مقام آئیڈیل تھا۔ 127
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اب ہم اس وادی سے آگے روانہ ہوئے۔ بل کھاتی ہوئی سڑک اوپر چڑھتی جا رہی تھی۔ راستے میں ایک جگہ رک کر ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ سڑک کا اختتام پہاڑ کی چوٹی پر ہوا جہاں ایک عرب اور ایک خان صاحب کھڑ ے تھے۔ مجھے گیٹ نظر ن ہ آیا اور میں گاڑی کو سیدھ ا اندر ل ے گیا ۔ ی ہ ان صاحب کا گھ ر تھا ۔ میں ن ے ان س ے بڑی معذرت کی لیکن و ہ خند ہ پیشانی س ے پیش آئے۔ ی ہ صاحب طائف ک ے رہن ے وال ے تھے اور انہوں ن ے یہ گھر اپنی تفریح کے لئے بنایا تھا ۔ یہ پہاڑ اور اس کے گرد و نواح کا علقہ انہ ی کی ملکیت تھا اور خان صاحب کو انہوں نے بطور نگران یہاں ملزمت دی ہوئی تھی۔ ان صاحب کی فیملی بھی وہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں چائے کی بھرپور دعوت دی۔ میں نے معذرت کر لی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ ہ م لوگ نیچ ے اتر کر ان کا فارم ہاؤس دیک ھ آئیں جو ان ک ے گھ ر س ے تقریبا ً سو فٹ کی گہرائی میں واقع ہ تھا ۔ ہ م خان صاحب ک ے سات ھ وہاں روان ہ ہوئے۔ ی ہ نہایت ہ ی خوبصورت فارم تھا ۔ اس میں بارش ک ے پانی کو جمع کرن ے کے لئ ے ایک پخت ہ تالب تھ ا جس س ے موٹر کے ذریع ے پانی اوپر گھر تک پہنچایا جاتا تھا ۔ خان صاحب ن ے اپن ے لئ ے یہاں ایک کمر ہ تعمیر کیا ہوا تھ ا اور طویل عرصے سے تن تنہ ا یہیں مقیم تھے۔ ایس ے لوگ فطرت ک ے ماحول میں رہت ے ہوئ ے فطرت کا حص ہ بن جاتےے رہیں۔ے ریہے رلوگر رآہستہے رآہستہے رموسم،ر ردریا،ر رندیر رنالے،ر رپہاڑوںر راورر رچٹانوںر رکیر رزبان سمجھن ے لگت ے ہیں اور ان ک ے حواس بہ ت تیز ہ و جات ے ہیں ۔ آسمان ک ے بدلت ے ہوئ ے رنگ سے یہ بارش کا اندازہ لگانے کی صلحیت رکھتے ہیں۔ مجھے ایسے کئی لوگ شمالی علقہ جات میں ہائکنگ کے دوران ملے تھے جو برسوں سے ایک ہی جگہ مقیم تھے۔ مغرب س ے ذرا پہل ے ہ م روان ہ ہوئے۔ واپسی کے سفر میں مسجد ملن ے میں کچ ھ تاخیر ہوئی ۔ بالخر ایک مسجد ملی جہاں ہ م ن ے مغرب کی نماز ادا کی ۔ سفر کی افراتفری ک ے باعث میں ن ے مغرب و عشا کی نمازیں جمع کرن ے کا اراد ہ کیا ۔ مغرب ک ے بعد میں عشا کی نماز پڑ ھ رہ ا تھ ا ک ہ ایک عرب صاحب آکر میر ے سات ھ کھڑ ے ہ و گئ ے اور بول ے ، ’تصلی المغرب ۔ (تم مغرب پڑ ھ رہے ہو؟)‘ میں انہیں کیا جواب دیتا ۔ وہ میر ے مقتدی کے طور پر نماز میں شامل ہوگئے۔ میں شش و پنچ میں پڑ گیا کہ میں عشا کی نماز پڑھ رہ ا ہوں اور یہ مغرب کی ۔ فقہ ک ے مطالع ہ ک ے دوران ایسا کوئی ’مسئلہ ‘ میری نظر س ے ن ہ گزرا تھ ا ک ہ ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے۔ میں نے نماز توڑی اور اپن ے ساتھ ی س ے کہا ’ ،اصلی العشاء ۔ (میں تو عشا کی نماز پڑھ رہ ا ہوں)‘۔ نماز کے دوران ان صاحب کا قہقہہ نکل گیا۔ نماز توڑ کر وہ بولے’ ،کوئی بات نہیں ،آپ عشا پڑھیں ،میں مغرب کی نیت کرتا ہوں۔‘ اس کے بعد انہوں نے میری امامت میں مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں نے ان سے راستہ پوچھا، انہوں نے تفصیل بتائی۔ واپسی پر ہم لوگ طائف رنگ روڈ کے راستے براستہ سیل کبیر واپس ہوئے۔ چونکہ اس وقت مجھے ہدا ک ے راست ے ک ے بار ے میں معلومات ن ہ تھیں اس لئ ے ی ہ سفر خاصا طویل ثابت ہوا ۔ ایک مقام پر جد ہ ک ے لئےے بور ڈ لگا ہوا تھا ۔ میں سمجھ ا شاید یہے جد ہ جانےے کا شارٹ کٹ ہو گا۔ ہم اس پر مڑ گئے۔ یہ ایک تنگ و تاریک پہاڑی روڈ ثابت ہوا۔ ہم مسلسل سفر کرتے رہے اور جدہ مکہ موٹر وے کے انتظار میں رہے۔ تین گھنٹے کے بعد جب ہم بری طرح تھک چکے تھے اور موٹر وے س ے بالکل ہ ی مایوس ہو چکے تھے تو اچانک کہیں سے 128
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جدہ نمودار ہو گیا۔ دراصل ہم لوگ مکہ والے قدیم روڈ کی طرف سے جدہ پہنچے تھے۔ بعد میں ایک اور سفر کےے دوران میں نےے اس راستےے کو دیکھنےے کےے لئےے یہیں سے طائف روان ہ ہوا ۔ ی ہ اونچ ے نیچ ے پہاڑوں س ے گزرتا ہوا راست ہ ہے جو اول ڈ مک ہ رو ڈ کو سیل کبیر س ے ملتا ہے۔ اس راست ے پر جموم نامی قصب ے ک ے قریب ی ہ مک ہ اورمدین ہ کو ملنے والی طریق الھجرہ کے اوپر سے گزرتا ہے۔
129
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
جازان ،فیفا اور اب ہا اگست میں جد ہ میں شدید گرمی پڑ رہ ی تھی ۔ میں ان دنوں دفتر س ے چھٹیاں ل ے کر سعودی عرب میں سیٹل ہونے کی تھکن اتار رہا تھا۔ پاکستان میں عموما ً ہر سال گرمی ک ے موسم میں ہ م شمالی علق ہ جات کی طرف جایا کرت ے تھے۔ اب یہاں شمالی علقہ جات کہاں س ے ل ے کر آت ے چنانچ ہ ہ م ن ے جنوبی علق ہ جات ک ے سفر کا اراد ہ کیا ۔ جزیرہ نمائ ے عرب کا جنوب مغربی حص ہ ،عرب ک ے شمالی علق ے کی نسبت کافی سر سبز ہے۔ زمانہ قدیم میں یمن ،عرب کے سب سے زرخیز اور امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ قدیم یمن کا کافی بڑا حصہ اب سعودی عرب میں شامل ہے۔ یہ علقہ خاصا سر سبز و شاداب ہے۔ے اگرچہے سبزہے ہمارےے شمالی علقہے جات جتنا تو نہیں لیکن باقی عرب کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔ ہم لوگ علی الصبح فجر کی نماز کے فورا ً بعد روانہ ہوئے۔ بچوں کو اس بات کا بہت شوق تھا کہ وہ صحرا میں طلوع آفتاب کا منظر دیکھ سکیں۔ ہم لوگوں نے اکثر ساحل پر غروب آفتاب کا منظر تو دیکھ ا ہ ی تھ ا لیکن موجود ہ شہری زندگی میں طلوع آفتاب کا منظر ایک خواب سا بن گیا ہے۔ے یہے بات درست ہےے کہے جدید شہری سہولیات نےے ہمیں فطرت سے دور کر دیا ہے۔ جدہ رنگ روڈ سے ہم ہراج جانے والی سڑک پر مڑے۔ یہ پرانی گاڑیوں کا مرکز ہےے اور یہاں بہ ت سےے شوروم واقع ہیں ۔ ہراج سےے ایک سڑک سیدھی جازان کی طرف نکلتی ہے۔ ہم اسی پر ہولئے۔
دور قدیم کا تجارتی راست ہ پولیس چوکی س ے ہ م گزر ے تو ”جازان 852کلومیٹر“ کا بور ڈ نظر آیا ۔ اس کا مطلب یہ تھ ا ک ہ ہمیں جازان پہنچن ے ک ے لئ ے کم و بیش سات آٹ ھ گھنٹ ے کی ڈرائیونگ درکار تھی۔ راست ے میں آرام کرن ے کا وقت خود ہ م پرمنحصر تھا ۔ تہام ہ کا وسیع ریتل رمیدان ہمارے سامنے پھیل ہوا تھا۔ ہمارے دائیں جانب بحیرہ احمر کا ساحل تھا جو یہاں سے چند کلومیٹر دور ہونے کے باعث نظر نہ آرہا تھا۔ بائیں جانب صحرائی پہاڑیوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چل رہ ا تھا ۔ ی ہ دور قدیم کا تجارتی راست ہ تھا ۔ یہاں میر ے ذہ ن میں سورة رقریش ک ے الفاظ گونجنے لگے: لیل ٰف قریش۔ے ایلف ھم رحلۃے الشتاء و الصیف۔ے فلیعبدوا رب ھذا البیت ۔ الذی اطعم ھم من جوع و ا ٰمن ھم من خوف ۔ ”چونکہے رقریشر رمانوسر رہوئے۔ے ر(یعنی)ر رگرمیر راورر رسردیر رکےے رموسموںر رمیںر رسفرر رسے مانوس۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔ “ (القریش )106
قدیم زمان ے کی بین القوامی تجارت عرب ک ے راست ے ہوا کرتی تھی ۔ دنیا میں ایک جانبر رہندوستانر راورر رچینر رکےے رممالکر رتھےے رجور راپنیر رزرعیر راورر رصنعتیر رپیداوارر رکےے رلئے مشہور تھے۔ دوسری جانب روم کی عظیم بازنطینی سلطنت ہوا کرتی تھی۔ دنیا کے ان 130
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
دونوں کناروں کے درمیان سمندری راستے ابھی پوری طرح دریافت نہ ہوئے تھے۔ ہندوستان اور چین ک ے ساحلوں س ے بحری جہاز مال بھ ر کر یمن تک آیا کرتے۔ یہاں عرب ان سے مال خرید لیتے۔ یہ مال عرب لے کر شام تک جایا کرتے ،جہاں بحیرہ روم کے راستےے آن ے وال ے رومی تاجروں کو و ہ یہے مال فروخت کرتے۔ے اس کےے بدلےے و ہ کچھے مال رومی تاجروں س ے خریدت ے اور یمن ل کر ہندی اور چینی تاجروں کو بیچ دیتے۔ یمن اور شام ک ے ی ہ سفر بحیر ہ احمر ک ے سات ھ سات ھ تجارتی شاہرا ہ پر ط ے ہوت ے جو اب کوسٹل ہائی وے کہلتی ہے۔ صرف مکہ کے پاس جاکر قافلے سمندر سے کچھ دور ہوتے کیونکہ مکہ پور ے عرب کا مرکز ہوا کرتا تھا۔اس دور میں ایران کی ساسانی سلطنت خلیج فارس ک ے راست ے ہون ے والی تجارت پر اپنا قبض ہ جما چکی تھ ی اس لئ ے بحیر ہ احمر وال راستہ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ اس دور کا عرب بہ ت س ے قبائل پر مشتمل تھا ۔ ان میں س ے کئی قبائل کا پیش ہ ہی لوٹ مار اور راہزنی تھا۔ے یہے قبائل تجارتی قافلوں کو لوٹ لیا کرتےے تھے۔ے قبیلہے قریش رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ وسلم ک ے جد امجد قصی بن کلب ک ے زمان ے تک پور ے حجاز میں منتشر تھا ۔ قصی ن ے انہیں مک ہ میں اکٹھ ا کیا اور اطراف عرب س ے آن ے وال ے حجاج کی خدمت کا بہترین نظام قائم کیا۔مکہے میں حج تو سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوة والسلم ک ے زمان ے س ے ہ ی شروع ہ و چکا تھا ۔ قریش کی ان کاوشوں ک ے نتیجے میں پورے عرب میں ان کی عزت بڑھتی گئی لیکن قریش کی مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔ ان کا گزارا حج کے موقع پر کی جانے والی کمائی پر ہی ہوتا جو پورے سال کے لئے ناکافی تھی۔ ان پر اکثر فاقوں کی نوبت آجاتی اور بعض افراد فاقوں سے جان دے دیتے۔ قصی رکےے رپوتےے اور رحضورر صلیر اللہے رعلیہے وسلمر کےے پردادار ہاشمر رکو ربین رالقوامی تجارت میں حص ہ لین ے کا خیال آیا ۔ انہوں ن ے اپن ے تین بھائیوں کو سات ھ ملیا اور یمن اور شام ک ے درمیان تجارت شروع کی ۔ انہوں ن ے گرمی ک ے موسم میں شام اور سردیوں میں یمن کا سفر کرنا شروع کیا ۔ عرب قبائل ،حرم س ے ان ک ے تعلق ک ے باعث ان کا احترام کرت ے تھے چنانچ ہ ان ک ے قافلوں کو راہزنوں س ے کوئی خطر ہ پیش ن ہ آیا ۔ ان کی تجارت چمکتی گئی اور قریش کی غربت دور ہوگئی۔ مختلف ممالک کی طرف سفر کرنے اور ان کے لوگوں سے ملنے کے باعث ان کا ذہنی افق ( ) Exposureوسیع ہوتا گیا اور معامل ہ فہمی اور فراست میں ان کا کوئی ہ م پل ہ نہ رہا ۔ ی ہ لوگ اس دور کا رسم الخط بھ ی دوسر ے ممالک س ے ل ے آئ ے جو بعد میں قرآن لکھنے کے لئے بھی استعمال ہوا۔ قریش میں تعلیم عام ہوئی اور ان میں پڑھے لکھے لوگ دوسر ے قبائل کی نسبت زیاد ہ ہون ے لگے۔ایک روایت ک ے مطابق ،عرب کی سرداری جو پہلے حمیر والوں کے پاس تھی ،اب قریش کے پاس آگئی۔ اس سورہ میں انہی احسانات کا ذکر کیا گیا ہے اور قریش کو ی ہ تلقین کی گئی ہے کہ انہیں چاہئ ے ک ہ و ہ اپن ے آبا ﺅ اجداد ابراہیم و اسماعیل اور ان کے بنائے ہوئے گھر کے خدا کی عبادت کیا کریں اور شرک کی غلظت سے خود کو بچائیں۔ ٍ انسان بڑا ہ ی ناشکرا واقع ہوا ہے۔ جب اس ے مشکل پیش آتی ہے تو و ہ اپن ے رب کی طرف رجوع کرتا ہے لیکن جب اسے خوشحالی عطا ہوتی ہے تو وہ اس کی نافرمانی پر 131
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اتر آتا ہے۔ ایسا ہ ی قریش ک ے سات ھ ہوا ۔ اس خوشحالی ن ے انہیں الل ہ تعالی ٰ ک ے گھ ر کے خادم ہونے باوجود اس سے غافل کر دیا۔ جب اللہ نے اپنے آخری رسول کو ان کی طرف مبعوث کیا تو ی ہ لوگ مقابلےے پر کھڑ ے ہ و گئے۔ ان ک ے صالح عناصر جب ایمان لئ ے تو انہوں ن ے ان کا جینا حرام کر دیا ۔ بالخر الل ہ تعالی ٰ ن ے ان پر اپنا عذاب مسلمانوں کی تلواروں کی صورت میں مسلط کر دیا ۔
سنگل رو ڈ اور لیفٹ ہین ڈ ڈرائیو مک ہ اور مدین ہ کی طرح جازان جان ے والی سڑک موٹر و ے نہیں تھی ۔ ی ہ ایک کافی چوڑی سنگل روڈ تھی لیکن اس کی کوالٹی بہت بہتر تھی۔ پاکستان میں سنگل روڈز کی کوالٹی عام طور پر خراب ہ ی ہے۔ے ایسی اچھ ی سنگلر روڈے میں نےے پاکستان میں صرفر دو مقامات پر دیکھی ہے :ایک حیدر آباد اور دادو کے درمیان اور دوسری جھنگ اور کبیر وال کے درمیان۔ موٹر ویز پر سفر کے بعد مجھے سنگل روڈ پر گاڑی چلنا عجیب سا لگ رہا تھا۔ اس موقع پر مجھے ی ہ بات سمج ھ میں آئی کہ جن ممالک میں سڑک کے دائیں جانب چلنےے کا اصول ( ) Keep Rightر اپنایا جاتا ہے ،ان میں گاڑیوں ک ے اسٹیرنگ بائیں جانب کیوں ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ( )Keep Leftوالے ممالک میں اسٹیرنگ دائیں جانب ہوتے ہیں ۔ اسٹیرنگ ک ے دائیں بائیں ہون ے س ے ڈبل رو ڈ پر تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن سنگل روڈ پر ی ہ بہ ت نمایاں ہ و جاتا ہے۔ اگلی گاڑی کو اوور ٹیک کرن ے کے لئ ے انسان کو دوسری جانب کے ٹریک پر آنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر اگر ڈرائیور روڈ کے درمیان کی طرف ہو تو اوور ٹیکنگ کافی آسان ہو جاتی ہے ورنہ دوسری سمت سے آنے والی گاڑی صحیح طور پر نظر نہیں آتی۔اس سڑک پر بھی ہم آسانی س ے 120س ے 140کی رفتار پر سفر کر رہے تھے۔ الل ہ تعالیٰ نے جانوروں کی نسبت انسان کو یہ صلحیت دی ہے کہ وہ تجربے س ے سیکھتا ہے اور اپنی بنائی ہوئی چیز کو بہتر بناتا جاتا ہے۔ کاش انسان یہ ی روی ہ اپنے اخلق و کردار کے بارے میں بھی اختیار کر سکے۔
صحرا میں طلوع آفتاب تھوڑی دور جاکر سورج طلوع ہو گیا۔ ہمارے شرقی جانب پہاڑیوں کے درمیان سے سورج آہست ہ آہست ہ بلند ہوا اور پھ ر ہوتا چل رگیا ۔ ی ہ منظر غروب آفتاب س ے بہ ت مشابہ ت رکھتا تھا۔ فرق صرف سورج کے گرنے اور چڑھنے کا تھا۔ انسان کی زندگی میں بھی یہ مراحل آتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی اس پر زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ وہ زندگی کے مسائل سے نمٹتا ہوا کامیابی کا زینہ طے کرکے چڑھتا جاتا ہے۔ پھر اس کا زوال شروع ہوتا ہے اور وہ مسائل کا شکار ہو کر گرتا چل جاتا ہے۔ انسانر کی پوری رزندگیر عروجر و رزوالر کےے فلسفےے رکیر عملی رتعبیرر رنظر رآتیر ہے۔ دراصل ی ہ الل ہ تعالی ٰ کی طرف س ے شکر اور صبر کا امتحان ہوتا ہے۔ کامیابی ک ے وقت شکر اور مصیبت کے وقت صبر ،یہی انسان کی اصل کامیابی کا راستہ ہے جو اسے اس کی اصل زندگی یعنی آخرت میں ملےے گی۔رسول اللہے صلی اللہے علیہے وسلم کی پوری زندگی اسی صبر و شکر کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔
132
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہمار ے دائیں بائیں اونٹوں ک ے بہ ت س ے باڑ ے شروع ہ و گئے۔ سنہری ،سفید اور سرخ رنگ ک ے ہ ر سائز ک ے اونٹ بہ ت خوبصورت نظر آ رہے تھے۔ الل ہ تعالی ٰ ن ے انسان کی ہر ضرورت کی تکمیل کا اہتمام کیا ہے۔ اس ک ے صحرائی سفر ک ے لئ ے اونٹ پیدا کئ ے اور پھر اسے عقل دی کہ وہ اس سے بہتر سواریاں بنا سکے۔ یہ سب چیزیں انسان کو اس کے مالک کا شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اس ترغیب پر اپنے مالک کا واقعی شکر ادا کرتے ہیں۔
شعیب ہ اور ہجرت حبش ہ اب ہمیں سمندر کی جانب بجلی اور پانی کا ایک پلنٹ نظر آنے لگا۔ دور افق پر اس کا سفید دھواں پھیل رہا تھا۔ پورے سعودی عرب میں ساحل کے ساتھ یہ پلنٹ لگے ہوئے ہیں جہاں سے بجلی اور سمندر کا صاف شدہ پانی ملک بھر میں سپلئی کیا جاتا ہے۔ یہ مقام شعیبہ کہلتا ہے۔ اسی مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بندرگاہ ہوا کرتی تھی ۔ اہ ل مکہ کے ظلم کی چکی میں پست ے ہوئ ے مظلوم مسلمانوں کو حضور صلی الل ہ علی ہ وسلم ن ے الل ہ تعالی ٰ کی اجازت س ے حبش ہ ہجرت کی اجازت د ے دی ۔ یہ لوگ مکہ سے نکل کر شعیبہ آئے اور یہاں سے کشتیوں پر بیٹھ کر ایتھوپیا کے ساحل پر جا اترے۔ وہاں سے یہ حضرات دارالحکومت ”اکسوم“ پہنچ کر وہیں آباد ہوگئے۔ قریش ن ے عمرو بن عاص (رضی الل ہ عنہ) ،جو بعد میں اسلم لئے ،کی قیادت میں ایک وفد وہاں کےے بادشاہے نجاشی کےے پاس بھیجا۔ے نجاشی نےے مسلمانوں کو بلیا۔ے اس موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے اپن ے دین کی دعوت نجاشی ک ے سامن ے پیش کی ۔ نجاشی ایک انصاف پسند بادشا ہ تھا۔ اس ن ے مسلمانوں کو واپس کرن ے س ے انکار کردیا ۔ ی ہ لوگ طویل عرص ہ یہیں رہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ بعد میں مدینہ ہجرت کر گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف عالم کے بادشاہوں کو خط لکھ کر اللہ تعالیٰ کی جانب سے الٹی میٹم دیا تو صرف نجاشی ہی تھے جو ایمان لئے۔ جب انہوں نے وفات پائی تو ان کی نماز جنازہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پڑھائی۔ ہجرت حبشہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دین حق کے لئے قربانیوں کی ایک عظیم داستان ہے۔ ہم ان لوگوں کا حق ادا نہیں کر سکتے جنہوں نے اپنی جان پر سختیاں جھیل کر اس دین کو اس کی اصل حالت میں ہم تک پہنچایا۔ بعد میں ایک موقع پر ہ م لوگ شعیبہے کا ساحل دیکھنےے کےے لئےے گئے۔ے پاور پلنٹ کے قریب یہ ساحل نہایت ہی دلفریب نظاروں پر مشتمل تھا۔ اس مقام پر بعض لوگ سمندر میں غوط ہ خوری کا شوق پورا کرت ے ہیں ۔ شعیب ہ ک ے بعد ہمیں ایک عجیب قدرتی منظر دیکھن ے کو مل ۔ ریت پہاڑوں کی چوٹیوں تک پھیلی ہوئی تھ ی اور چوٹیاں دھند میں لپٹی ہوئی تھیں ۔ حقیقت ہے ک ہ الل ہ تعالی ٰ کی صناعی کو دیک ھ کر انسان دنگ ر ہ جاتا ہے اور اس کی زبان پر یہی جاری ہوتا ہے کہ فبای ا ٰلءربکما تکذبان ۔
سمندر س ے ن ہر مک ہ س ے جازان آن ے والی سڑک یہاں ہ م س ے آملی ۔ عین ممکن ہے ک ہ قریش ک ے تجارتی 133
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
قافلے بھی یہیں سے مکہ کے لئے مڑتے ہوں گے۔ اب ہم ”لیث“ کی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا صاف ستھرا ساحلی شہر تھا۔ گاڑی کا میٹر 130کا ہندسہ دکھا رہا تھا۔ے میری گاڑی میںر میل بتانےے وال رمیٹرر نصبر ہے،ر اس لئےے میں یہاںر ان میلوںر کو کلومیٹرز میں تبدیل کرکے لکھ رہ ا ہوں۔ لیث ،جدہ س ے 208کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم یہ فاصلہ دو گھنٹے میں طے کرکے یہاں پہنچے تھے۔ اس لئے آرام ضروری تھا۔ گوگل ارتھ پر میں لیث کو تفصیل سے پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ یہاں ہمارے لئے ایک نئی چیز تھی ۔ یہاں بہ ت س ے زرعی فارمز موجود تھے اور سمندر س ے ایک نہ ر نکال کر ان فارمز تک پہنچائی گئی ہے۔ اس پانی کو ٹریٹ کر کے پودوں کے لئ ے قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔ اس نہر کے باعث لیث ہرا بھرا نظر آرہا تھا۔ ہم سیدھے ساحل تک گئے جہاں ایک خوبصورت پارک بنا ہوا تھا ۔ بچ ے یہاں جھول جھولن ے لگ ے اور ہ م لوگ گھ ر س ے ساتھ لئے ہوئ ے برگر اور پراٹھے کھان ے لگے۔ کچ ھ دیر بعد ہ م نہ ر کی طرف گئ ے ۔یہاں گھن ے ساحلی جنگلت تھے جو بالکل کراچی کے ہاکس بے اور سینڈزپٹ کے جنگلت سے مشابہ تھے۔ ایک بہت بڑی کریک بھی یہاں موجود تھی۔ کچھ دیر یہاں گزار کر ہم نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔
عبرت دلن ے وال ے ڈھانچ ے لیث کے بعد ہمیں ریت کے سمندر نے آلیا۔ ایک طویل میدان میں بس ریت ہی ریت پھیلی ہوئی تھی۔ ایک چھپر جو شدید گرمی سے بچنے کے لئے مقامی لوگوں نے تعمیر کیا تھا ، نصف سے زائد ریت میں دفن ہو چکا تھا۔ شاید اس علقے میں ریت کے طوفان آتے ہوں گے۔سڑک کے ساتھ جابجا گاڑیوں کے ڈھانچے پڑے ہوئے تھے۔ یہ حادثوں میں تباہ شدہ گاڑیاں تھیں۔ شاید انہیں عبرت کے لئے روڈ کے کنارے چھوڑ دیا گیا تھا۔ مجھے اس میں عبرت کے دو پہلو نظر آئے :ایک تو غیر محتاط ڈرائیونگ کا انجام اور دوسرا غیر محتاط زندگی ک ے لئ ے موت کی وارننگ ۔ انسان اگر سفر میں غیر محتاط ڈرائیونگ کرے تو اس کا انجام ایکسیڈنٹ اور پھر موت کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری طرف اگر انسان غیر محتاط زندگی گزار ے تو پھ ر اچانک موت آکر اس ے اس کی اصل زندگیر رکیر رطرفر رلےے رجاتیر رہےے رجور راسر رکےے رغیرر رمحتاطر ررویےے رکےے رباعثر راسر رکےے رلئے خوشگوار نہیں ہوتی۔ے جو لوگر ذمہے داری سےے اپنی زندگی دین اور اخلق کےے مطابق گزارتے ہیں ،ان کی اصل زندگی یعنی آخرت بہت خوشگوار ہو گی۔
مل بانٹ کر ک ھان ے کی برکت ہم اب ”حمدان ہ “سے گزر کر ”مظلئف“ کے قصب ے میں داخل ہورہے تھے۔ یہ سب چھوٹے چھوٹے قصبے تھے۔ میں ان لوگوں کی معیشت کے بارے میں سوچن ے لگا ۔ سعودی عرب کا صرف مشرقی صوب ہ تیل کی دولت س ے مال مال ہے لیکن اس دولت کو بیچ کر جو آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ پورے ملک کے عوام پر خرچ کی جاتی ہے جس سے پورے ملک میں خوشحالی آتی ہے۔ے انسان اگر مل بانٹ کر کھائےے تو سب لوگوں کی ضروریات پوری ہ و سکتی ہیں لیکن قوم پرستی ک ے تنگ نظری ے ن ے انسان کو محدود کر دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گروہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت پر قابض ہیں۔ وہ اسے اپنے مفاد کے لئے
134
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
خرچ کرت ے ہیں اور زمین کے دوسر ے حصوں پر موجود ان کے بھائی اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
مصنوعی کریک اب ہم ”قنفذہ“ کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ یہ بھی ایک خوبصورت چھوٹا سا شہر تھا۔ ہم شہر کے اندر داخل ہوئے۔ یہاں بھی لیث کی طرح ساحلی پارک تھا جو زیادہ خوبصورت نہ تھا ۔ ہلک ے سبز رنگ کابحیر ہ احمر کا پانی نہایت دلفریب منظر پیش کر رہ ا تھا ۔ سمندر سے شہر میں ایک مصنوعی کریک بنائی گئی تھی جو کہ ایک بہت بڑی نہر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ اس کی چوڑائی ہمارے پنجاب اور سندھ کی نہروں سے تین گنا زیادہ تھی۔ دورر سمندرر میں مچھلیوںر کےے ٹرالرر کھڑےے تھے۔ے پورےے کا پورا ساحل بہتر ترتیبر سے مصنوعی طور پر تراشا گیا تھا ۔ ساحل پر مصنوعی دائر ے بنائ ے گئ ے تھے جن میں پانی آکر کھڑا ہوا تھا۔ شہر سے ہم نے کھانے پینے کی اشیا لیں اور آگے روانہ ہو گئے۔
گول ک ھیت اب ہمیں بہ ت سےے فارم ہاﺅسزر نےے آلیا بلکہے زیادہے درستر یہے ہےے کہے ہ م نےے انہیں جا لیا۔ سعودی عرب ک ے فارم ہاﺅسز کی ایک عجیب بات ی ہ ہے ک ہ ی ہ بالکل گول شکل ک ے ہوتے ہیں۔ ایسا ان کے آبپاشی کے نظام کی وجہ سے ہے۔ ہمارے یہاں تو پانی بکثرت پایا جاتا ہے اس لئے اسے ضائع بھی بہت کیا جاتا ہے۔ یہاں چونکہ پانی کی قلت ہے اس لئے آبپاشی کے لئے ایک خاص میکنزم اختیار کیا جاتا ہے۔ پانی کا ایک بہ ت بڑا پائپ ہوتا ہے جس ک ے دونوں جانب پہی ے لگ ے ہوت ے ہیں ۔ درمیان س ے ی ہ پائپ پانی ک ے مرکزی ذخیر ے س ے جڑا ہوتا ہے۔ی ہ پائپ اپن ے مرکز ک ے گرد گردش کرتا ہے۔ موٹر چل کر پانی اس پائپ میں لیا جاتا ہے جو اس میں موجود سوراخوں سے باریک دھاروں کی شکل میں باہر گرتا ہے۔ یہ پائپ اپن ے پہیوں پر حرکت کرت ے ہوئ ے پورے فارم کو سیراب کرتا ہے۔ چونک ہ ی ہ حرکت دائروی ہوتی ہے اس لئ ے فارم کا ڈیزائن بھی دائروی شکل کا ہوتا ہے۔ گوگل ارتھ کی سیٹلئٹ تصاویر میں ی ہ فارم سبز رنگ کے بہت سے گول دائروں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
دائر ے والی کریک سبزے میں سے گزر کر ہم ایک خشک دریا تک جا پہنچے۔ اس کے دونوں کناروں پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد تھے جیسا کہ ہمارے تمام دریاﺅں پر ہے۔ اس کے بعد ریت کی جگہ سرمئی رنگ کے پتھروں نے لے لی۔ یہاں روڈ سمندر کے بالکل قریب آ چکی تھی۔ سمندر کا پانی ایک کریک کی شکل میں موجود تھا جس کے نیلے پانی کو دیکھ کر مجھے اپنے سندھ کی کینجھر جھیل یاد آگئی جہاں ہم کراچی سے تقریبا ً ہر مہینے جایا کرتے تھے۔ اس کریک کے بعد ایک اور کریک تھ ی جو بالکل نصف دائرے کی شکل کی تھی۔ ساحل کا کٹا ﺅ قدرتی طور پر نصف دائر ے کی شکل کا تھ ا اور بہ ت خوبصورت نظر آرہ ا تھا ۔ الل ہ تعالی ٰ کی صناعی واقعی بہت حسین ہے۔ تبارک الل ہ احسن الخالقین ۔ تھوڑی دور جا کر ہمیں ایک جیس ے ب ے شمار مکانات نظر آئ ے جن پر شوخ رنگ کئے 135
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
گئے تھے۔ تیز گلبی ،سرخ ،طوطے وال سبز ،کھلتا ہوا نیل ،یہ تمام رنگ بہت بھلے لگ رہے تھے۔ دیہاتی کہیں ک ے بھ ی ہوں ،ان کا مزاج ملتا جلتا ہے۔ انہیں عموما ًر شوخ رنگ زیادہ پسند ہوت ے ہیں ۔ ان مکانات ک ے سات ھ ایک مسجد بھ ی تھ ی جس پر اسی قسم ک ے رنگ کئے گئے تھے۔ میں نے زندگی بھر اتنی ٹیکنی کلر مسجد نہیں دیکھی۔ اگل شہر ذھبان تھا۔ اس ک ے فورا ً بعد ”القحمہ “ کا قصب ہ تھا۔ ہ م اب 540کلومیٹر کا فاصل ہ ط ے کر چک ے تھے۔ بھوک بھ ی لگ رہ ی تھ ی اور ظہر کا وقت بھ ی ہو رہ ا تھا ۔ ہ م نے ایک اچھ ا سا ریسٹورنٹ دیکھ کر گاڑی روک دی۔ اس ریسٹورنٹ ک ے صحن میں گھنا سبز ہ اور پھول اگ ے ہوئ ے تھے۔ غالبا ً رات کو یہاں بار بی کیو ہوتا ہوگا ۔ ہ م فیملی ہال میں جا بیٹھے۔ ی ہ ایک عرب ہوٹل تھا ۔ ایک شوکیس میں مچھلیاں سجی تھیں ۔ میں نے ’رہو‘ سے ملتی جلتی تین مچھلیاں پسند کیں اور ان ک ے تک ے بنان ے کا آرڈ ر دیا ۔ فش تک ہ ک ے سات ھ چاول بھ ی سات ھ آئے۔ عرب لوگ بکروں کی طرح مچھلی کو بھ ی سالم ہ ی پکاتےے ہیں۔ے میری فیملی کو آنکھوں والی مچھلی سے خاصی کراہت محسوس ہوئی۔ کھانا مزیدار تھا لیکن اسماءکو پسند نہ آیا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ پاکستانی کھانے ملیں۔ میں نے جب اسے یہ بتایا کہ یہاں پاکستانی ہوٹل نہیں ہوتے تو اس نے اسے سخت نا انصافی قرار دیا۔ ہم باہر نکل ے تو سخت لو چل رہ ی تھ ی اور ریت اڑ رہ ی تھی ۔ قریب ہ ی مسجد تھی۔ وہاں جا کر ہم نے نماز ادا کی اور پھر اپنا سفر شروع کیا۔ تھوڑی دور جا کر ہم ”الدرب“ کے قصبے میں داخل ہوئے۔ اب ہ م 627کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ یہاں سے ایک روڈ جازان اور دوسری ابہا کی طرف نکل رہی تھی۔ ہمارا ارادہ چونکہ پہلے جازان جانے کا تھا اس لئے ہم اس طرف روانہ ہوئے۔
ریت کا طوفان تھوڑی دور جاکر ریت کا طوفان شدت اختیار کر گیا۔ے اس وقت وہ ی کیفیت تھ ی جو سردیوں میں لہور میں دھند کے باعث ہوتی ہے۔ چند فٹ کے فاصلے پر بھی کچھ نظر نہ آ رہ ا تھا ۔ تمام گاڑیوں کی لئٹیں جل رہ ی تھیں اور سب لوگ 60کی رفتار س ے سفر کر رہے تھے۔ ریت پوری قوت س ے گاڑی س ے ٹکرا رہ ی تھ ی اور تیز ہوا چل رہ ی تھی ۔ کافی دیر ہم آہستہ آہستہ سفر کرتے رہے۔ پورا علقہ پوٹوہار کی طرح اونچا نیچا تھا لیکن پہاڑیوں کی بلندی کچھ زیادہ نہ تھی۔ روڈ کے دونوں طرف جا بجا فارم ہاﺅس نظر آرہے تھے۔ پہلے ”ام خشب“ کا شہ ر آیا اور اس ک ے بعد ”صبیہ“ ۔ اس ک ے بعد ”ظبی ہ “ کا قصب ہ تھا ۔ یہاں سے کچھ ہی دیر کے بعد ہم جازان میں داخل ہو چکے تھے۔
جازان اپنی منزل پر پہنچ کر سب س ے تکلیف د ہ مرحل ہ ہوٹل کی تلش ہوتا ہے۔ ایسا ہوٹل جو اپنے ماحول اور قیمت کے لحاظ سے مناسب ہو ،تلش کرنا کافی مشکل کام ہے اور وہ بھ ی اس وقت جب آپر 850ر کلومیٹر کا سفر ط ے کرک ے تھکن س ے چور ہوں ۔ سعودی عرب میں ہوٹلوں کےے علوہے فرنشڈے اپارٹمنٹ بھ ی یومیہے کرائےے پر ملتےے ہیں ۔ہمیں بھی بالخر ایک اپارٹمنٹ پسند آ گیا ۔ کچ ھ دیر آرام کرن ے ک ے بعد ہ م ساحل کی جانب روانہ 136
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہوئے تاکہ غروب آفتاب کا منظر دیکھ سکیں۔ یہاں کوئی خاص منظر نہ تھا۔ پانی گرے رنگ کا تھا۔ مغرب کے وقت ہم روانہ ہوئے اور ایک بہت بڑی مسجد میں نماز ادا کی۔ اس کے بعد فیملی کےے لئےے ایک ترک ریسٹورنٹ سےے کھانا پیک کروایا اور اپنےے اپارٹمنٹ میں واپس آگئے۔ جازان جنوب کی جانب سعودی عرب کا آخری شہ ر ہے۔ ی ہ ایک چھوٹا سا جدید شہر ہے۔ ی ہ یمن ک ے بارڈ ر ک ے بالکل قریب ہے۔ یمن کا دارلحکومت صنعاءیہاں س ے محض تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ صنعاءسے سو کلومیٹر کے فاصلے پر ”سد مآرب (Ma'arib “ )Damکے مشہور تاریخی آثار ہیں جو یمن میں سیاحوں کے لئے سب سے زیادہ کشش رکھتے ہیں۔ جازان شہر ،سعودی عرب ک ے صوب ہ جازان کا دارالحکومت بھ ی ہے۔ اس کی آبادی ایک لکھ کے لگ بھگ ہے۔ ی ہ 1934میں سعودی عرب میں شامل ہوا۔ اس شہر کے قریب ہ ی جزائر فراسان ہیں جو سیاحت ک ے لئ ے مشہور ہیں ۔ افسوس ہ م لوگ ان جزائر کی سیر نہ کر سکے۔ صوبہے جازان سعودی عرب کا زرعی علقہے ہے۔ے یہاں کی انجیر اور آم مشہور ہیں۔ سعودی عرب میں آموں کی بہت ورائٹی کھانے کو ملی۔ بغیر کسی تعصب کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ دنیا بھر میں نمبر ون کوالٹی کا آم ،پاکستان کا ہے۔ پاکستانی آم بالخصوص چونسا،ر رانورر رریٹولر راورر ردوسہریر ریہاںر رسبر رسےے رمہنگار ربکتار رہے۔ے راسر رکےے ربعدر رانڈیار رکے الفانسو کا نمبر ہے۔ یمنی یا سعودی آم سستا ملتا ہے لیکن اس کی کوالٹی اور ذائقہ بھی پاکستانی آم کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ جازان کا کلچر سعودی سے زیادہ یمنی ہے۔ ہم لوگ چونکہ غیر عرب ہیں اس لئے اس میں زیادہ فرق محسوس نہیں کرسکے۔ لوگوں کی شکلوں میں یمنی نقوش نمایاں تھے۔ سعودی عرب اور یمن میں سرحدی تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یمن ،جازان ،نجران ،عصیر اور الباحہ کے سعودی صوبوں پر دعویٰ کرتا ہے۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے مابین ایک جنگ بھی ہو چکی ہے۔ پہلی جنگ عظیم ک ے وقت ی ہ علق ے سلطنت عثمانی ہ کا حص ہ تھے۔ جنگ ک ے بعد جب سلطنت عثمانی ہ ک ے حص ے کئ ے گئ ے تور 1918میں شمالی یمن آزاد ملک بن گیا ۔ جنوبی یمن پر برطانی ہ ن ے اپنا قبض ہ رکھ ا جو کہ 1967میں آزاد ہوا۔ے 1970میں جنوبی یمن نے کمیونزم کا نظام اختیار کرلیا۔ے 1990میں ی ہ دونوں ممالک متحد ہ و کر موجود ہ یمن کی شکل اختیار کر گئے۔شاید انہوں نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہو گا کہ اتفاق میں برکت ہے۔
فیفا ماؤنٹین صبح ہم دوبارہ فجر کے بعد روانہ ہوئے۔ اب ہماری منزل ”فیفا ماؤنٹین“ تھی۔ پہلے تو ہمارا ارادہ یہیں کسی پاکستانی ہوٹل سے ناشتہ کرنے کا تھا لیکن اس میں دیر ہو جاتی کیونکہ یہاں اتنی جلدی ہوٹل نہیں کھلتے۔ غلطی سے میں ائر پورٹ میں گھستے گھستے بچا۔ پھر ایک پولیس والےے سےے فیفا کا راستہے پوچھ ا تو اس نےے نہایت خندہے پیشانی سےے تفصیل 137
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بتائی۔ے کچھے دو رجا کر ہ م پھ ر غلط راستےے پر مڑ گئے۔ے میں نےے ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور سے فیفا کا راستہ پوچھا تو اس نے ہمیں صحیح راستے پر ڈال۔ اب ہ م واپس ’صبیہ ‘ کی طرف جار ہے تھے۔ صبی ہ س ے ہ م شرقی جانب مڑ ے اور فیفا کی طرف روان ہ ہوگئے۔ فیفا ک ے بار ے میں میں نے پہلی مرتب ہ ایک ٹورازم بروشر پر پڑھا تھ ا ک ہ ی ہ سعودی عرب ک ے بلند ترین پہاڑ ہیں ۔ اس ک ے بعد میں ن ے انٹر نیٹ پر فیفا کے بار ے میں سرچ کیا تو اس کی کچ ھ تصاویر ہات ھ لگیں جو فیفا کے رہن ے وال ے ایک انجینئر ماجد الفیفی ن ے انٹر نیٹ پر رکھ ی تھیں ۔ میں ن ے ان س ے ای میل پر رابط ہ کیا اور فیفا ک ے بار ے میں معلومات طلب کیں ۔ انہوں ن ے پرجوش طریق ے س ے جواب دیا اور مجھے راستے اور موسم وغیرہ کی تفصیل بتائی۔ ان کے مشورے پر ہ ی میں نے یہ سفر اگست کے مہینے میں رکھا تھا۔ صبیہ سے آگے عیلنی کے مقام پر میں نے ایک پاکستانی سے کسی ہوٹل کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے ایک انڈین ہوٹل کا بتایا جہاں سے ہم نے ناشتہ لیا اور آگے روانہ ہوئے۔ اگل شہ ر ”دائر“ تھا ۔ ی ہ فیفا کا بیس کیمپ تھا ۔ یہاں س ے اصل چڑھائی شروع ہ و رہ ی تھی۔ فیفا کی بلندی 11000فٹ ہے۔ یہاں ایک چیک پوسٹ بھ ی بنی ہوئی تھی ۔ ہ م ن ے اس پر موجود فوجی سے فیفا کا راستہ پوچھا تو جواب مل” ،رح سیدھا“ یعنی سیدھے چلے جاﺅ۔ پتہے نہیں عربی میں یہے ’سیدھا‘ کہاں سےے آگیا۔ے شاید انہوں نےے یہے ہ م پاکستانیوں سےے ہی سیکھا ہے۔
تت ہ پانی چیک پوسٹ کے فورا ً بعد ”عین الحارة“ کا بورڈ لگا ہو اتھا۔ یہاں گرم پانی کے چشمے تھے۔ اس نام کا اگر پنجابی یا کشمیری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو یہ ”تتہ پانی“ بنے گا۔ اس نام ک ے کئی مقامات کشمیر میں موجود ہیں ۔ ایک مرتب ہ راول کوٹ س ے کوٹلی آتے ہوئے راست ے میں ،ہجیر ہ ک ے بعد ہ م تت ہ پانی ک ے مقام س ے گزر ے تھے۔ یہاں بھ ی گرم پانی کے چشمے تھے۔ کراچی میں بھی منگھو پیر کے مقام پر گرم چشمے موجود ہیں۔ عین الحارہ یا تتہ پانی کے فورا ً بعد چڑھائی شروع ہو گئی۔ فیفا ماﺅنٹین کے علقے کو زیاد ہ ترقی نہیں دی گئی ۔ یہاں رو ڈ اچھ ی کوالٹی کا ن ہ تھا ۔ چڑھائی مالم جب ہ یا شوگران جیسی تھ ی لیکن رو ڈ بہ ت گیا گزرا تھا ۔ کوئی بھ ی پہاڑی سڑک بنات ے ہوئ ے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ سڑک کا زاویہ ایک خاص حد سے زیادہ اونچا نہ ہونے پائے لیکن یہاں تو 45ردرج ے ک ے اٹھان بھ ی موجود تھی ۔ اس پر مستزاد ی ہ ک ہ چڑھن ے ک ے فورا ًر بعد ایک اسپیڈ بریکر آ جاتا تھا۔ میں نے گاڑی کو سب سے بڑے گیئر میں ڈال اور چڑھنا شروع کیا۔ پہاڑ کے گرد گھومت ے گھومت ے ہ م بالخر چوٹی پر جا پہنچے۔ چوٹی پر فیفا کا قصب ہ تھ ا جو کافی گنجان آباد تھا۔ فیفا کا پورا پہاڑ بالکل ہمار ے شمالی علق ہ جات وال منظر پیش کر رہ ا تھا ۔ ارد گرد ک ے پہاڑ بھ ی گھن ے سبز ے س ے ڈھک ے ہوئ ے تھے۔ افسوس اس دن بھ ی نیچ ے ڈسٹ اسٹارم ک ے آثار تھے ،اس لئ ے زمین س ے ل ے کر بلندی تک مٹی دھند کی شکل میں پھیلی ہوئی تھ ی جس کی وج ہ س ے منظر بہ ت واضح ن ہ تھا ۔ اوپر س ے نیچ ے تک پہاڑ پر اسٹیپس کی صورت میں کھیت بنائے گئے تھے۔ پورے فیفا میں کوئی باقاعدہ ہوٹل نہ تھا البتہ لوگوں نے 138
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
چھوٹے موٹے کمرے بنا رکھے تھے جنہیں وہ گھنٹوں کے حساب سے کرائے پر دیتے تھے۔ میں ن ے ایس ے ایک دو منی ہوٹل دیکھے لیکن ان ک ے بات ھ روم گند ے اور کرائ ے بہ ت زیاد ہ تھے چنانچہ ہم نے یہاں رکنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
مملکت سبا جنوبی جانب یمن کا بارڈ ر تھ ا اور یمنی علق ہ سامنےے نظر آرہ ا تھا ۔ ہ م کافی دیر وہیں گھومتے رہے۔ ہماری طرح کچھ اور ایڈونچر پسند عرب یہاں آئے ہوئے تھے جو ڈیویلپڈ علقہ ن ہ ہون ے ک ے باعث مایوس ہ و کر ادھ ر ادھ ر گھوم رہے تھے۔ اچانک میر ے موبائل پر دو تین SMSآئے۔ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ سعودی عرب کی موبائل کمپنی ”موبائلی“ کے سگنلز ختم ہوگئ ے ہیں اور انٹرنیشنل رومنگ پر یمن ک ے ”سبا نیٹ“ ک ے سگنل آ رہے ہیں ۔ سبا نیٹ کمپنی ہمیں یمن آمد پر خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ فیفا ،سعودی عرب اور یمن کے مابین ایک بفر زون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یمن قدیم عرب کا سب سےے متمدن علقہے رہ ا ہے۔ے بعض روایات کےے مطابق صنعاء سیدنا نوح علیہ السلم کے بیٹے سام نے آباد کیا۔ زمانہ قدیم میں یہاں سبائی تہذیب پروان چڑھی ۔ اس تہذیب کے بارے میں میں یہاں پر سید ابو العلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن اور وکی پیڈیا س ے حاصل کی گئی معلومات کا خلص ہ لک ھ رہ ا ہوں ۔ سبا عرب ک ے ایک قدیم شخص کا نام تھا جس کی اولد سے کندہ ،حمیر ،ازد ،اشعریین ،خثعم ،بجیلہ ،عاملہ، جذام ،لخم اور غسان نامی قبائل پیدا ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک ی ہ تمام قبائل پور ے عرب میں منتشر ہ و چک ے تھے۔ سبائی تہذیب اپن ے وقت کی متمدن دنیا کی امیر ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی تھی۔ے اس کی دولت کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ بائبل میں بھی اس قوم کی خوشحالی کا ذکر ہوا ہے۔ زبور میں ایک دعا ہے: ”اسی کی عمر دراز ہو ۔ سبا کا سونا اس ے دیا جائے۔ لوگ اس ک ے حق میں ہمیش ہ دعا کرتے رہیں۔ اور دن بھر اسے برکت دیتے رہیں۔“ (زبور ) 27:51 ”سبا اور رعم ہ ک ے سوداگر تیر ے سات ھ تجارت کرت ے تھے اور تیر ے سامان ک ے عوض ہر طرح کے نفیس مسالے ،قیمتی پتھر اور سونا دیتے تھے۔ “ (حزقی ایل ) 72:22
سبا کا وطن جزیرہے نمائ ے عرب کا جنوب مغربی کون ہ تھا ۔ ان کی سلطنت موجودہ یمن میں عدن کی بندرگا ہ س ے لے کر سعودی عرب کے صوب ہ جازان ،نجران ،عصیر اور الباح ہ تک پھیلی ہوئی تھی ۔ آغاز میں ی ہ ایک آفتاب پرست قوم تھی ۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوة والسلم کے زمان ے میں یہاں کی ملک ہ بلقیس آپ کے ہاتھ پر ایمان لئی تھی ۔ آپ ن ے اس ملک ہ س ے نکاح کر لیا ۔ قرآن مجید ن ے سورة نمل میں ی ہ واقع ہ پوری تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس زمان ے میں یہ قوم ایک خدا پر ایمان لے آئی ۔ بعد میں ان میں پھ ر شرک کا غلبہ ہوا۔ان کا سب سے بڑا دیوتا المقہ یعنی چاند بن گیا۔ ان کے بادشاہوں نے خود کو خدا اور بندے کے درمیان وسیلہ قرار دینا شروع کیا اور ’مکرب‘ کا لقب اختیار کیا ۔ 650ق م کے بعد ان کے ہاں سیکولر ازم کو فروغ حاصل ہوا ۔ اس زمانے میں انہوں نے مآرب کو اپنا مرکز بنایا۔ غالبا ً اسی زمانے میں مآرب ڈیم بنایا گیا جس سے مملکت سبا کا شمار دنیا 139
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کی امیر ترین اقوام میں ہونے لگا۔ 100ق م کے لگ بھگ ان پر قبیلہ حمیر کے لوگ حکمران ہوئے جنہوں نے چار سو سال حکومت کی۔ 300ء کے بعد ان کا زوال شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک یہ قوم اپنا نام و نشان کھو چکی تھی اور ان کی جگہ قریش کو عرب کے سب سے اہم قبیلے کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ قوم سبا کا عروج دو بنیادوں پر قائم تھا :ایک ان کی زراعت اور دوسرےے ان کی تجارت ۔ اگرچ ہ اس ملک میں کوئی قدرتی دریا نہیں ہے لیکن بارشیں بکثرت ہوتی ہیں۔ انہوں ن ے اس دور میں مآرب جیسا بڑا ڈیم بنا کر پانی کو ذخیر ہ کیا اور اس س ے نہریں نکالیں ۔ آبپاشی ک ے اس نظام ک ے نتیج ے میں ان کی زراعت انتہائی ترقی یافت ہ ہوگئی۔ پورا ملک کسی باغ کا منظر پیش کرنے لگا۔ قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق کسی بھی مقام پر کھڑے ہو کر اگر دائیں بائیں نظر دوڑائی جاتی تو باغ ہی باغ نظر آتے۔ تجارت کے میدان میں عدن کی بندرگاہے کو انتہائی ترقی دی گئی۔ے چین ،ہندوستان ،انڈونیشیااور مشرقی افریقہ سے اشیا اور غلم عدن لئے جاتے ۔ سبا کے لوگ انہیں خرید کر مصر اور شامر رمیںر رفروختر رکرتےے رجہاںر رسےے ریہے ریورپر راورر رمغربیر رافریقہے رکےے رممالکر رتکر ربیچے جاتے۔معاشی اعتبار سے اس قوم کا شمار دنیا کی سپر پاورز میں ہونے لگا۔ 250ق م کے لگ بھگ اہل مصر نے نہر سویز کی طرز پر ایک نہر دریائے نیل سے بحیرہ احمرر رکور رملنےے رکےے رلئےے رکھودیر راورر راسر رکےے رذریعےے ربحیرہے راحمرر رکور رکنٹرولر رکرنےے رکی کوشش کی لیکن ی ہ مہ م ناکام رہی ۔ جب مصر پر روم کا قبض ہ ہوا تو روم ن ے حبش ہ پر بھی اپنا تسلط قائم کرلیا۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ،قیصر روم کا ماتحت بن کر حکومت کرن ے لگا ۔ دوسری طرف سبائیوں میں پھوٹ پڑ گئی اور ان میں آپس میں خان ہ جنگی شروع ہوگئی۔ے اس کا فائدہے اٹھ ا کر یہاں حبشہے کےے ماتحت عیسائی حکومت بھ ی قائم ہوگئی ۔ بعد ازاں یہاں یہودیوں کی حکومت بھ ی کچ ھ عرص ے ک ے لئ ے قائم رہ ی جنہوں نے عیسائیوں پر مذہبی جبر ( )Persecutionکی انتہا کردی اور نجران میں بہت سے اہل ایمان عیسائیوں کو زندہ جل دیا۔ اس ظلم کا ذکر سورة اخدود میں آیا ہے۔ اس قوم کی نافرمانیاں بڑھتی گئیں اور بالخر ان کو بطور تنبی ہ الل ہ تعالی ٰ ن ے ایک سخت سزا دی۔ 450ء میں مآرب ڈیم ٹوٹنے کے نتیجے میں ایسا سیلب آیا جس کی مثال نہیں ملتی۔اس ڈیم کے نتیجے میں ان کی پوری زراعت تباہ ہوگئی۔ ان کی تجارت پر پہلے ہ ی اہ ل حبش اور پھ ر قریش کا قبض ہ ہ و چکا تھا ۔ اس پر مستزاد ان کی خانہے جنگیاں تھیں۔ ان کے بہت سے قبائل عرب کے دوسرے علقوں میں جا کر آباد ہوگئے۔ 570ءر میں ان کےے حبشی حکمران ابرہہے نےے مکہے پرر حملہے کرکےے کعبہے کو ڈھانےے کی کوشش کی لیکن الل ہ تعالی ٰ ک ے عذاب ک ے نتیج ے میں اس کی پوری فوج ہلک ہوگئی۔ 575ء میں یہاں ایران کی ساسانی حکومت کا قبض ہ ہ و گیا جس کا خاتم ہ اس وقت ہوا جب 628ء میں یہاں کے ایرانی گورنر باذان نے اسلم قبول کر لیا۔ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سیدنا معاذ بن جبل اور پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہما کو گورنر مقرر فرمایا ۔ سبا ک ے عروج و زوال کو قرآن مجید ن ے بڑی فصاحت و بلغت س ے اس طرح بیان کیا ہے: 140
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm سبا کے لئے ان کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی( ،جہاں نظر دوڑاؤ تو) دو باغ دائیں اور دو بائیں ۔ اپن ے رب کا دیا ہوا رزق کھا ﺅ اور اس کا شکر ادا کرو ۔ ملک ہے پاکیزہ و عمدہ اور رب ہے بخشش فرمانے وال۔ مگر وہ منہ موڑ گئے۔ آخر کار ہم نے ان پر سیل العرم (بند توڑ سیلب) بھیجا اور ان کے پچھل ے دو باغوں کی جگہ انہیں دو اور باغ دی ے جن میں کڑو ے کسیل ے پھ ل اور جھاﺅ ک ے درخت تھے اور کچ ھ تھوڑی سی بیریاں ۔ یہ تھا ان کے کفران نعمت کا بدلہ جو ہم نے انہیں دیا۔ اور ناشکرے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔ اور ہ م ن ے ان ک ے اور ان کی بستیوں ک ے درمیان ،جنہیں ہ م ن ے برکت دی تھی ،نمایاں بستیاں بسا دی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے سے رکھ دی تھیں۔ چلو پھرو ان راستوں میں رات دن پور ے امن ک ے ساتھ۔ مگر انہوں ن ے کہا’ ،ا ے ہمار ے رب! ہمار ے راستوں کی مسافت لمبی کر دے۔‘انہوں ن ے اپن ے اوپر ظلم کیا ۔ آخر کار ہ م نے انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انہیں بالکل ہی تتر بتر کر ڈال۔ یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو بڑا صابر و شاکر ہو۔ “ (السبا ) 19-34:15
ان آیات س ے ی ہ معلوم ہوتا ہے ک ہ الل ہ تعالی ٰ کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اس کےے بندےے اس کی نعمتوں سےے لطف اندوز ہوں۔ے اس کا مطالبہے صرف نعمتوں پر شکر ادا کرن ے کا ہے۔ سبا ک ے اس عروج و زوال کو بیان کرن ے کا مقصد صرف ی ہ ہے کہ انسان کو بتایا جائے کہ اگر وہ اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنے تو پھر اس کی کامیابی کو ناکامی میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس دنیا میں ایسا نہ ہو لیکن انسان کی اصل زندگی یعنی آخرت میں ایسا ضرور ہو گا۔
اب ہا کچھ دیر ادھ ر ادھ ر گھوم کر ہم واپس ہوئے۔ اترتے ہوئ ے پھ ر گاڑی کو سب س ے بڑ ے گیئر پر رکھنا پڑا ۔ پہاڑی سفر کے دوران ،مسلسل اترائی میں ہمیش ہ بڑا گیئر استعمال کرنا چاہئےے ورنہے بریک کا استعمال زیادہے ہ و جاتا ہےے اور بریکیں گرم ہ و کر کام چھوڑ دیتی ہیں۔واپسی پر چوکی پر ہمیں روکا گیا اور اقامہ چیک کرنے کے علوہ ساتھ گاڑی کی ڈگی بھ ی چیک کی گئی ۔ شاید اس کی وج ہ ی ہ ہے ک ہ یمنی لوگ اس راست ے س ے انسانوں اور اشیاء کی سمگلنگ وغیرہ کرتے ہوں گے۔ اس کے بعد ہم واپس صبیہ کی طرف روانہ ہوئے۔ صبی ہ سے ہ م واپس جدہ کی طرف روان ہ ہوئے۔ ”درب“ کے مقام سے ہ م نے اپنا رخ ”ابہا“ کی طرف کر لیا جو یہاں سے محض ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ درب سے ابہا کا راستہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ ہمارے شمالی علقہ جات کے راستے ہیں۔ روڈ کے ایک طرف اونچے اونچے پہاڑ تھے اور دوسری طرف دریا۔ ہمارے دریاﺅں کے برعکس یہ دریا خشک پڑا تھا۔ ہم نے اسے ”دریائے ابہا“ کا خطاب دیا۔ عرب کے تمام دریا ایسےے ہ ی شدت پسند ہیں۔ے اعتدال سےے بہنا تو انہوں نےے سیکھ ا ہ ی نہیں۔ے یہے سارا سال خشکر پڑےے رہتےے ہیں لیکن جب بارش ہوتی ہےے تور پھرر ان میں سیلب ہ ی آ جاتا ہے۔ مسلسل ڈرائیونگ کے باعث مجھے اب کافی کی طلب ہو رہی تھی۔ ایک پیٹرول پمپ پر شیشوں س ے بنی ہوئی خوب صورت کافی شاپ س ے میں ن ے کافی لی ۔ بچوں کو کولڈ ڈرنک لے کر دیے اور پھر چل پڑا۔ ہمارے پاکستان میں صرف چائے کا رواج ہے۔ گوادر کے ساحلوں سے لے کر کے ٹو کے بیس کیمپ تک ہر مقام پر چائے دستیاب ہو جاتی ہے لیکن کافی بڑے شہروں میں بھی صرف مخصوص مقامات پر دستیاب ہوتی ہے۔ سعودی عرب 141
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
میں کافی ہر جگہ میسر ہے۔ تھوڑیر ردورر رجاکرر رروڈے رٹوٹیر رہوئیر رتھی۔ے رپہاڑوںر رپرر رنئیر رروڈے رکیر رتعمیرر رجاریر رتھی۔ عارضی طور پر ایک رو ڈ دریا ک ے بیچ میں س ے گزاری گئی تھی ۔ ہ م بھ ی اس س ے دریا میں اتر گئے۔ یہاں ڈھیر سار ے بندر ایک غول کی صورت میں بیٹھے تھے۔ ماری ہ کو بندر بہ ت پسند ہیں۔ے وہے انہیں دیکھے کر شور مچانےے لگی۔ے بندر اچھ ل کود رہےے تھے۔ے مجھےے یہ خطر ہ لحق ہوا ک ہ کہیں کوئی سر پھرا ہماری گاڑی میں ن ہ آ گھسے۔ ان میں ایک بزرگ بندر بھ ی تھ ا جو بڑی سنجیدہ صورت بنائے بیٹھ ا تھا ۔ تمام بندر اس کا بڑا احترام کر رہے تھے اور اس کے احکامات پر عمل کر رہے تھے۔ کچھ دیر یہاں رکنے کے بعد ہم روانہ ہوئے۔ اب مسلسل چڑھائی کاسفر تھا۔ے ہ م آہستہے آہستہے بلندی کی طرف جارہےے تھے۔ے ابہ ا اب قریب آتا جارہا تھا۔ مجھے چونکہ مختلف مقامات کو ایک دوسرے سے تشبیہ دینے کا بہت شوق ہے اس لئے یہ چڑھائی مجھے بالکل مال کنڈ کی چڑھائی جیسی لگی۔ درگئی سے نکلتے ہی مال کنڈ کا در ہ آجاتا ہے جس ک ے بیچوں بیچ سرنگ بھ ی بنی ہوئی ہے۔ در ہ ابہ ا پر ایک کی بجائ ے دو سرنگیں تھیں۔ کافی اوپر جاکر پہاڑ کو کاٹ کر سڑک بنانے کی بجائے پہاڑ کے گرد ایک پل بنا دیا گیا تھا۔ اگر ایسا ممکن ہو جائے کہ ہر مقام پر پہاڑ پر گول گھومتے ہوئے پل بنا دیے جائیں تو پہاڑ کو ڈائنامیٹ سےے اڑانےے کی ضرورت ہ ی نہے پیش آئےے گی جس کےے باعث پہاڑوں میں لینڈ سلئیڈنگ ہوتی رہتی ہے۔ مجھے چوں کہ سول انجینئرنگ کی ابجد کا بھی علم نہیں اس لئ ے انجینئر حضرات س ے ان ک ے فن میں اس من ہ ماری پر معذرت کرتا ہوں۔ آخر کار ہ م ابہ ا جا پہنچ ے جو طائف کی طرح انتہائی بلندی پر واقع ایک وسیع وادی میں واقع ہے۔ اس کی سطح سمندر س ے اوسط بلندی تقریبا ً 8000فٹ ہے۔ یہاں موسم خنک تھا۔ے سعودی عرب کی شدید گرمی میں جب شہروں میں درجہے حرارتر 55راور صحراﺅں میں 80درجے سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے ،ابہا کا درجہ حرارت 25سے نہیں بڑھ پاتا۔ ہم ابہا رنگ روڈ پر چل پڑے۔ تھوڑی دورجا کر ہمیں ایک سبز رنگ کی پہاڑی نظر آئی جس پر دائر ے کی صورت میں پود ے لگائ ے گئ ے تھے۔ ی ہ مقام ’جبل اخضر‘ کہلتا ہے اور پہاڑی پر پود ے مصنوعی طور پر ترتیب س ے لگائ ے گئ ے ہیں ۔ ی ہ ایک بڑا پکنک سپاٹ ہے۔ اس وقت ہمیں بہت بھوک لگ رہی تھی ،اس لئے ایک پاکستانی سے ہم نے پاکستانی ہوٹل کے بارے میں پوچھا اور سیدھے وہیں روانہ ہوئے۔ ہوٹل پر پہنچ کر نان پائے کھانے کے بعد ہم واپس جبل اخضر کی طرف روانہ ہوئے۔
جبل اخضر پہاڑ پر انٹری کی ٹکٹر 25رریال تھی۔ے اوپر پہنچےے تو ایک وسیع پارکنگ تھ ی جہاں فٹ پاتھوں پر لوگ قالین بچھائ ے بیٹھے تھے۔ ایک طرف چیئر لفٹ کا پوائنٹ تھ ا جہاں سے چیئر لفٹ پوری وادی ابہا کا چکر لگا رہی تھی۔ آسمان پر گھنے بادل تھے۔ سعودی عرب آکر ہ م لوگ بارش کو ترس ے ہوئ ے تھے۔ ہ م ن ے بارش کی بہ ت دعا کی لیکن سوائ ے چند بوندوں ک ے اور کچ ھ نصیب ن ہ ہوا۔کچ ھ دیر وہاں گزار کر ہ م شہرکا چکر لگان ے نکل ے ۔ یہ چھوٹاسار رجدیدر رشہرر رتھا۔ے رسعودیر رعربر رکےے رتمامر رشہرر رہیر رجدیدر رنظرر رآتےے رہیںر رکیونکہ 142
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
حکومت عوام پر رقم خرچ کرتی ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم واپس آئے۔ اندھیرے میں جبل اخضر بہت خوبصورت نظر آ رہ ا تھ ا جس پر سبز رنگ کی لئٹیں لگائی گئی تھیں ۔ پاکستانی ہوٹل ک ے قریب ہ ی ایک فرنشڈ اپارٹمنٹ میں ہمیں بمشکل جگہ ملی۔ اپارٹمنٹ کی ریسپشن پر ابہا کے بارے میں کئی بروشر ملے۔ ایک بروشر میں پور ے سال میں کئ ے جان ے وال ے ثقافتی پروگرامز کی تفصیل دی گئی تھی۔ رات کو اچھی خاصی سردی تھی اس لئے اے سی کی ضرورت نہ تھی۔ے صبح اٹھے کر ہ م لوگ ناشتےے کےے لئےے روانہے ہوئے۔ے لہوری چنےے کےے ساتھے پراٹھےے بہت مزیدار معلوم ہوئے۔ میں ن ے ہوٹل ک ے مالک س ے ابہ ا ک ے تفریحی مقامات ک ے بار ے میں پوچھا ۔ انہوں ن ے ’وادی سودہ ‘ جان ے کا مشور ہ دیا ۔ میں ن ے نقش ہ نکال کر وادی سود ہ کا مقام رمتعین رکیا۔ے راب رہمارار واپسیر کا رارادہے رتھار اورر سودہے رجانےے سےے رہمیںر 50رکلومیٹر اضافی سفر ط ے کرنا پڑتا ۔ خیر ہ م آئ ے ہ ی اسی مقصد ک ے لئ ے تھے ،چنانچ ہ نکل کھڑے ہوئے۔
نجران ہم لوگ اب ابہا کے رنگ روڈ پر آگئے۔ یہاں سے ایک سڑک ’خمیس مشیط‘ کی طرف نکل رہ ی تھ ی جو ابہ ا س ے آگ ے ایک اور پہاڑی شہ ر ہے۔ ہمار ے پاس اتنا وقت ن ہ تھ ا ک ہ یہاں کا سفر بھی کرتے اس لئے اسے اگلے ٹور کے لئے رکھا اور آگے روانہ ہو گئے۔ خمیس مشیط سےے دوسو کلومیٹر کےے فاصلےے پر نجران ہےے جو عرب کا مشہور تاریخی شہ ر ہے۔ے عہد رسالت میں ی ہ شہ ر عیسائیت کا مرکز تھا ۔ جب حضور صلی الل ہ علی ہ وسلم کی دعوت یہاں پہنچی تو ی ہ لوگ ایک وفد کی صورت میں مدین ہ حاضر ہوئے۔ رسول الل ہ صلی اللہ علی ہ وسلم نے ان س ے بہ ت اچھ ا سلو ک کیا اور ان ک ے رہن ے کا انتظام مسجد نبوی میں کیا ۔ ان کو الل ہ تعالی ٰ ک ے آخری دین کی دعوت دین ے ک ے لئ ے سور ہ آل عمران کی آیات نازل ہوئیں ۔ سیدہ مریم رضی اللہ عنہ ا اور سیدنا عیسی علیہ الصلوة والسلم کی سیرت اور دعوت کو تفصیل س ے بیان کرن ے ک ے بعد ان پر اتمام حجت ک ے لئ ے آیت مباہل ہ نازل ہوئی: اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ (زندہ ) ہ و جا اور وہ ہوگیا۔ ی ہ اصل حقیقت ہے جو تمہیں تمہار ے رب کی جانب سے بتائی جارہی ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ یہ علم آ جانے کے بعد اگر کوئی آپ س ے اس معامل ے میں بحث کر ے تو آپ فرمائیے :آﺅ ہ م اور تم خود بھ ی آ جائیں اور اپن ے بال بچوں کو بھ ی ل ے آئیں اور خدا س ے دعا کریں ک ہ جو جھوٹا ہ و اس پر خدا کی لعنت ہو۔۔۔۔ اے اہل کتاب! آﺅ ایسی بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے مابین مشترک ہے کہ ہم اللہ ک ے سوا کسی کی بندگی ن ہ کریں اور اس ک ے سات ھ کسی کو شریک ن ہ ٹھہرائیں۔اور ہم میں سے کوئی کسی اور اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔ “(اٰل عمران ) 64-3:60
چونکہ یہ لوگ اھل کتاب تھے اور اللہ تعالی کے اس قانون سے واقف تھے کہ وہ اپنے رسول ک ے مقابل ے میں کسی کو کامیاب نہیں ہون ے دیتا اس ل ۓ ی ہ مقابل ے پر ن ہ آۓ اور جزیہ دینا قبول کیا۔
143
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
وادی سود ہ آد ھ گھنٹ ے میں ہ م سود ہ میں داخل ہوگئے۔ بلمبالغ ہ ی ہ مقام ہمار ے سفر کی معراج تھی۔ اتنی خوبصورت وادی میں ن ے اب تک سعودی عرب میں ن ہ دیکھ ی تھی ۔ حقیقی معنوں میں اگر عرب ک ے مقامات کی بلحاظ قدرتی حسن درج ہ بندی کی جائ ے تو وادی سودہ پہلے نمبر پر آئے گی۔ وادی کے دونوں جانب سبزے سے ڈھکے ہوئے پہاڑ تھے جو چوٹی سے لے کر نشیب تک آر ہا تھا۔ ایک جانب ابہا انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل تھا۔ وادی میں انسانی قد ک ے برابر بہ ت س ے پود ے تھے۔ مجھے ان پودوں ک ے درمیان ہل چل محسوس ہوئی ۔ غور کرن ے پر معلوم ہوا ک ہ ان ک ے درمیان بہ ت سی فیملیاں بیٹھی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے یہاں کیمپ لگائے ہوئے تھے اور ان میں بیٹھے انجوائے کر رہے تھے۔ وادی میں فرنشڈ اپارٹمنٹ بھی تھے۔ ہمیں افسوس ہوا کہ ہم نے خواہ مخواہ ہی رات ابہا میں گزاری ۔ اگر اس جگ ہ کا پہل ے علم ہوتا تو رات یہیں گزارتے۔ موسم میں دھوپ کی تمازت اور ہوا کی خنکی دونوں موجود تھیں۔ میں سوچن ے لگا ک ہ انسان اتنی کثیر تعداد میں ایس ے مقامات پر کیوں آت ے ہیں ۔ دنیا میںر رکسیر ربھیر رحسینر رمقامر رکور ردیکھے رلیجئے،ر رسیاحوںر رکےے رغولر رکےے رغولر رسفرر رکی صعوبتیں برداشت کرک ے پہنچ رہے ہوت ے ہیں ۔ سبزہ ،پانی ،موسم کی خنکی ،دھوپ کی تمازت انسان کو اپنی طرف متوج ہ کرتی ہیں ۔ ہمار ے پاکستان میں لوگ جوق در جوق شمالی علق ہ جات کا سفر کرت ے ہیں۔اہ ل مغرب اس معامل ے میں بہ ت باذوق واقع ہوئے ہیں۔ یہ لوگ سارا سال بچت کرتے ہیں اور سالنہ چھٹیوں میں کسی نہ کسی حسین مقام کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ کافی غور کرن ے پر مجھے معلوم ہوا ک ہ انسان میں فطری طور پر جنت کی شدید خواہ ش ہے۔اگر کسی بھ ی انسان س ے ی ہ پوچھ ا جائ ے ک ہ جناب اگر آپ کو ایس ے مقام پر رکھ ا جائےے جہاں بہترین باغات ہوں ،ان میں نہریں رواں دواں ہوں ،آپ کو بہ ت اچھے ساتھ ی میسر ہوں ،نیک شریک حیات ہو ،پیارےے پیارےے بچےے ہوں ،مزیدار کھانےے اور پھل ہوں ،کوئی غم نہ ہو ،کوئی بیماری نہ ہو ،ہر طرف خوشی ہی خوشی ہو اور موت بھی نہ ہ و تو کیا آپ وہاں رہنا پسند کریں گے ؟ ہ ر نارمل انسان کا جواب اثبات میں ہ ی ہ و گا۔ اسی جذب ے ک ے تحت ہ ر شخص اپنی دنیا کو جنت بنانا چاہتا ہے اور اس ک ے لئ ے بھرپور محنت کرنے کو تیار نظر آتا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اس دنیا کا ڈیزائن ایسا ہے کہ اس کو جنت نہیں بنایا جاسکتا۔ یہاں آرام ک ے ساتھ دک ھ بھ ی ہوں گے۔ نعمتوں کے سات ھ تکالیف بھ ی ملیں گی ۔ پھول ک ے ساتھ کانٹ ے بھ ی ہوں گے۔ ی ہ دنیا جنت کی بعض نعمتوں اور جہنم ک ے بعض مسائل کا مجموعہ ہے۔اس دنیا ک ے خالق ن ے انسان کو ہمیش ہ س ے بتا دیا ہےے ک ہ ان نعمتوں اور مسائل کو انسان کی اصل زندگی میں الگ کیا جائے گا۔ اگر انسان نعمتوں والی زندگی چاہتا ہے تو اس کے لئے کوئی کڑی شرط نہیں ہے۔ اسے صرف اتنا کرنا پڑے گا کہ وہ خالق کائنات کا نافرمان اور سرکش بند ہ بن کر ن ہ رہے۔ ایسا نہیں ہے ک ہ و ہ ہ ر عیب س ے بالکل پاک ہو جائے۔ اس سے غلطیاں بھی ہوں گی ،کوتاہیاں بھی ہوں گی لیکن اس کے بعد کیا وہ اپنے معبود کےے سامنےے سرکشی پر اترتا ہےے یا توبہے کےے ذریعےے اپنی کوتاہیوں کو دھونےے کی 144
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کوشش کرتا ہے؟ یہ اصل امتحان ہے جس کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا میں جنت کے یہ نمونے انسان کو یہی درس دیتے ہیں۔ لوگوں ک ے لئ ے مرغوبات نفس یعنی عورتیں ،اولد ،سون ے چاندی ک ے ڈھیر ،چید ہ گھوڑے (سواریاں) ،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں۔ مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے مال و اسباب ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانہ ہے ،وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ آپ کہیے’ ،میں تمہیں ایسی چیز ن ہ بتا دوں کہ اس سے زیادہ اچھ ی چیز کیا ہے۔ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں ،ان کے لئے ان کے رب کے پاس باغ ہیں ،جن کے نیچ ے نہریں بہتی ہیں ،وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی نصیب ہ و گی ،پاکیزہ شریک حیات ان کے رفیق ہوں گے اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔“ (اٰل عمران ) 16-3:14
کافی دیر یہاں کے موسم اور ماحول سے لطف اندوز ہو کر ہم روانہ ہوئے۔ اب ہماری منزل جدہ تھ ی لیکن واپسی کے لئے ہم نے کوسٹل ہائی وے کی بجائے پہاڑی راستہ اختیار کیا۔ے یہے راستہے پہاڑوں میں سےے گزرتا ہوا تنوما ،الجرشی ،الباحہ ،اور حبوب کےے راستے طائف آ نکلتا ہے۔ طائف تک کا ی ہ سفر تقریبا ً 650کلومیٹر طویل ہے۔ اگر یہاں موٹر وے ہوتی تو یہے محض چار پانچ گھنٹےے کی ڈرائیو تھ ی لیکن یہے ایک اچھ ی کوالٹی کی پہاڑی سڑک تھی۔ے یہے فاصلہے شاہراہے قراقرم کےے راستےے اسلم آباد سےے گلگت کےے مساوی تھا۔ پاکستان میں یہ سفر بارہ تیرہ گھنٹے میں طے ہوتا ہے جبکہ اس راستے سے ابہا سے طائف کا سفر ہم نے آٹھ گھنٹے میں طے کیا۔ ہ م لوگ سود ہ س ے روان ہ ہوئے۔ تھوڑی دور جاکر رو ڈ ک ے قریب ایک گہری کھائی تھی۔ ہ م وہیں رک گئ ے اور کھائی کا نظار ہ کرن ے لگے۔ ی ہ اتنی گہری جگ ہ تھ ی ک ہ کھائی کی تہہ صاف نظر نہ آ رہی تھی۔ یہاں ایک افریقی عرب رنگ برنگے ڈبوں میں کوئی رنگ برنگی چیز بیچ رہ ا تھا ۔ میں ن ے اس س ے طائف کا راست ہ کنفرم کیا اور اس چیز ک ے بار ے میں پوچھا۔ معلوم ہوا کہ یہ حلوے ہیں۔
چار پٹ ھان تھوڑا سا آگے چلے۔ اب ہم ایک سر سبز وادی میں تھے۔ اچانک ایک جانب سے چار پٹھان نمودار ہوئے۔ بھاری بھرکم شلوار قمیص پر انہوں نے بڑی بڑی پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں۔ ایک لمحے کو ایسا محسوس ہوا کہ ہم شاید دیر یا سوات کی کسی وادی میں ہیں کیونکہ منظر بالکل وہ ی تھا ۔ ایک بور ڈ س ے معلوم ہوا ک ہ ی ہ وادی زبن ہ ہے۔ ی ہ ایک سر سبز وادی تھی اور مخصوص پہاڑی انداز میں سٹیپ بائی سٹیپ کھیت نظر آر ہے تھے۔ یہاں پتھروں کا بنا ہوا ایک مینار بھی تھا۔
عرب ٹورازم کچھ ہ ی دیر میں ہ م ابہ ا طائف ہائی و ے پر جا نکلے۔ راست ے میں ہمیں ایک عجیب منظر دیکھنے کو مل۔ بے شمار لوگ اپنی جی ایم سی جیپوں کی چھت پر خیمے باندھے ابہا کی طرف جارہے تھے۔ اس علقے میں جی ایم سی سب سے مقبول جیپ تھی۔ اس کے بعد ٹویوٹا پراڈ و کا نمبر تھا۔ے پورےے عرب سےے کثیر تعداد میں لوگ گرمیوں میں ابہ ا کا رخ کرتے ہیں اور کیمپنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب ٹورسٹ ویزا جاری نہیں کرتا لیکن متحد ہ عرب امارات ،کویت ،قطر ،بحرین اور عمان سےے ہزاروں سیاح 145
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
اس مقام پر آتے ہیں۔ ان چھ ممالک کے رہائشیوں کے لئے دوسرے ملک جانے پر ویزا کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر سارک ممالک بھ ی عقل س ے کام لیں اور آپس میں بغیر ویزا انٹری کردیں تو یہاں ٹورازم کو بہت فروغ مل سکتا ہے کیونکہ پاکستان ،بھارت ،نیپال اور سری لنکا میں جتن ے مقامات سیاحوں کی کشش ک ے لئ ے موجود ہیں اتن ے شاید پوری دنیا میں ن ہ ہوں۔ ٹور ازم کو فروغ صرف امن سے ملتا ہے۔ امن کا فائدہ صرف ایک ملک کو نہیں بلکہ سب کو ملتا ہے۔ افسوس ہمارے خطے میں اختلفات کو امن سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ اب ہمارے ایک جانب عمودی چٹانیں نظر آ رہی تھیں۔ تھوڑی دور جا کر ایک چڑھائی آئیر جور بالکل رسیدھ ی رتھی۔ے یہے رعجیبر و رغریبر رچڑھائی رتھ ی رجور بالکلر سیدھ ی رتھی۔ عموما ً پہاڑوں پر چڑھنے والی روڈ زگ زیگ انداز میں گھومتی ہوئی اوپر جاتی ہے۔ لیکن یہ تو بالکل سیدھی سڑک تھی جو کئی کلومیٹر تک بس اوپر ہی اوپر جارہی تھی۔ بلندی پر پہنچ کر بندروں ن ے ہمارا استقبال کیا ۔ بچوں کی خواہ ش ک ے مطابق میں ن ے گاڑی روک دی۔ یہاں اور لوگ بھی رکے ہوئے تھے۔ حسب روایت یہ اپنے بزرگ بندر کے ساتھ تھے جو ایک نوجوان کو کسی بات پر سرزنش کر رہ ا تھا ۔ نوجوان بندر بڑی فرمانبردارسے سر جھکائے اس کی کھری کھری باتیں سن رہا تھا۔ ایک بندر گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا تھا۔ کئی بندریاﺅں کے بچے ان کے سینے سے لٹکے دودھ پی رہے تھے۔ لوگ انہیں کھانے پینے کے لئے دیتے ہیں ،اسی لئے یہ سارا دن سڑک کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں۔
الباح ہ آگے تنوما اور جرشی کے شہر آئے۔ یہ دونوں شہر وادیوں کے عین درمیان واقع تھے۔ یہاں کے لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہی تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پورے سفر میں ہم جس شہر یا قصبے سے گزرے وہاں ہم نے پاکستانی ضرور دیکھے۔ 450کلومیٹر کا طویل سفر طے کرنے کے بعد ہم الباحہ پہنچے۔ بچوں کو اب بھوک لگ رہی تھی لیکن شہر میں عصر کی اذان ہ و رہ ی تھ ی جس ک ے باعث تمام ہوٹل بند ہ و رہے تھے۔ ی ہ شہ ر صوب ہ الباح ہ کا دارلحکومت ہے۔ شہر خاصا ترقی یافتہ نظر آ رہا تھا۔ الباحہ سے طائف جانے کے دو راستے ہیں۔ ہم نے وہاں چند پاکستانیوں سے بہتر اور مختصر راستے کے بارے میں پوچھا تو انہوں ن ے ہمیں ایک راست ے ک ے بار ے میں بتایا ۔ وقت بچان ے ک ے لئ ے ہ م یہاں ن ہ رک ے اور سیدھے چلت ے رہے۔ پندر ہ منٹ کی ڈرائیو ک ے بعد ہ م ہائی و ے پر ایک مسجد ک ے قریب جا پہنچے۔ وہاں عصر کی نماز ادا کی ۔ مسجد کے ساتھ واقع ایک ہوٹل سے برگر اور کولڈ ڈرنک لئے اور پھر چل پڑے۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ مغرب تک ہم طائف پہنچ جائیں۔ اب ہمارا گزر وادی بوا س ے ہوا ۔ ی ہ مقام مجھے کریم آباد سے آگے درہ خنجراب جیسا لگا۔ کمی صرف دریا کی تھی۔ میری اہلیہ کہنے لگیں” ،آپ ہر مقام کو پاکستان کے کسی مقام سے تشبیہ دیتے ہیں ،اگر کوئی اور یہ سفر کرے اور اسے اس کے برعکس احساس ہو تو وہ آپ کو کیا کہے گا۔“ میں نے کہا ” ،میں محض اپنا احساس بیان کرتا ہوں۔قارئین میں سےے اگر بالفرض کوئی ایسا ایڈونچر پسند پیدا ہوجائےے جو پاکستان کےے ان تمام مقامات کا سفر بھ ی کرےے اور پھ ر سعودی عرب آکر یہے مقامات بھ ی دیکھےے تو میری کوئی ذمہ داری نہیں کہ اسے بھی بالکل یہی احساس ہوگا۔“ وادی بوا سے آگے کھجوروں 146
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
کے باغات اور کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ اب ہم لمحہ بہ لمحہ طائف کے قریب ہوتے جارہے تھے۔
خیبات بنو سعد طائف س ے ذرا پہل ے خیبات بنو سعد کا علق ہ تھا ۔ ی ہ و ہ مقام ہے جہاں شحط ہ نامی گاﺅں تھا ۔ یہ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا گاﺅ ں تھا ۔ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علی ہ وسلم کی پرورش اسی علق ے میں کی تھی ۔ میں ان پہاڑوں کو دیکھن ے لگا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں اپنی رضاعی والدہ کی بکریاں چرائی ہوں گی۔ جب بنو سعد ن ے اسلم قبول کیا تو سید ہ حلیم ہ اپنی بیٹی ک ے سات ھ مدین ہ پہنچ کر ایمان لئیں ۔ حضور صلی الل ہ علی ہ وسلم ن ے اپنی رضاعی والد ہ اور بہ ن کا بھرپور استقبال کیا اور اپنی چادر بچھا کر انہیں بٹھایا۔ بعد میں انہیں بہت سے تحائف دے کر رخصت کیا۔ طائف ک ے قریب پہنچ کر ٹریفک بہ ت زیاد ہ ہ و گئی اور گاڑیوں کی طویل قطار چلنے لگی ۔ ی ہ بھ ی شکر ہے ک ہ ہ م سبر 70-60کی رفتار س ے جا رہے تھے۔ سنگل رو ڈ کی وجہ سے اوور ٹیک کا کوئی موقع ن ہ تھا۔یہاں کچھ دیر لگی ۔ بالخر ہم طائف جا پہنچے۔ طائف میں ہمارا رکنے کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ شہر سے گزر کر ہم وادی ہدا جا پہنچے اور وہاں س ے نیچ ے اترن ے لگے۔ اب اندھیرا ہ و چکا تھا ۔ اس دن جمع ہ تھ ا اور بہ ت س ے لوگ طائف میں دن گزار کر واپس مکہ اور جدہ جارہے تھے۔ اس وقت ی ہ 4000فٹ گہری اترائی بہت خوبصورت منظر پیش کر رہ ی تھی۔پہاڑ کی چوٹی سے لے کر نیچے تک لئٹوں کی ایک حرکت کرتی ہوئی قطار تھی۔یہ بالکل ایسا ہی منظر تھ ا جیسا ک ہ ہمار ے ہاں تقریبات وغیر ہ پر عمارتوں پر متحرک لئٹیں لگائی جاتی ہیں۔بل کھاتی ہوئی سڑک پر لئٹیں حرکت کر رہی تھیں۔ میں نے گاڑی کو بڑے گیئر میں ڈال تاکہ یہ زیادہ اسپیڈ نہ پکڑ سکے اور بریکوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ آخر کار ہم نیچے جاپہنچے۔ کچھ ہی دیر میں ہم مکہ میں تھے۔ شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے ہم جدہ ہائی وے پر آگئے اور دس گھنٹے کے طویل سفر کے بعد بالخر جدہ پہنچ گئے۔
147
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
دمام ،الخبر اور بحرین کاز و ے نومبر ک ے مہین ے میں مجھے ایک دفتری کام س ے "الخبر" جانا پڑا جو سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں واقع ہے۔ خبر اور دمام دونوں جڑواں شہر ہیں جن کے درمیان محض بیس کلومیٹر کا فاصلہے ہے۔ے ان کےے قریب ہ ی "ظہران" کا علقہے بھ ی ہےے جہاں سعودی آرامکو کے ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ یہ خطہ اور اس کا سمندر تیل کی دولت سے مال مال ہے اور دنیا کا تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی اسی علقے میں واقع ہے۔ اس سفر میں میرے ساتھ ایک کولیگ محمد فوزی سلم بھی الخبر جا رہے تھے۔ ہمیں وہاں تین کمپنیوں کا انفارمیشن سسٹمز آڈ ٹ کرنا تھا ۔ میرا پروگرام صرف ایک دن کا تھا ۔ میں کام شروع کروا کے شام کو واپس جد ہ آ جاتا جبک ہ فوزی ن ے وہاں تین دن رک کر تفصیلی آڈٹ کرنا تھا۔ فوزی کا تعلق مصر سے ہے اور کمپیوٹر سافٹ وئیر سے انہیں جنون کی حد تک عشق ہے۔ وہ ہر طرح کے سافٹ وئیر کی معلومات کا چلتا پھرتا ذخیرہ ہیں اور ہمیں جب بھ ی کسی بھ ی سافٹ وئیر کی ضرورت پڑتی ہے ،ہ م انہ ی س ے پوچھ لیتے ہیں اور نوے فیصد معاملت میں وہ ہمارا مسئلہ حل کر دیتے ہیں۔ ہماری فلئیٹ صبح سات بج ے کی تھ ی چنانچ ہ میں پانچ بج ے بیدار ہوا ،اس ک ے بعد فوزی کے موبائل پر فون کر کے انہیں جگایا ،غسل کیا ،سوٹ پہنا ،تہجد کی تین رکعتیں ادا کیں ،کافی کا ایک کپ پیا ،اہلی ہ کو خدا حافظ کہ ا اور روان ہ ہ و گیا ۔ مجھے ٹیکسی کا سفر نجانےے کیوں ناپسند ہے۔ے پھ ر اس پر مستزاد صبح صبح کہاں سےے ٹیکسی ڈھونڈتا، چنانچہ میں اپنی ہی گاڑی پر ائر پورٹ روانہ ہو گیا۔ ابھی فجر کی جماعت ہونے میں کچھ وقت تھا اور میرا ارادہ تھا کہ فجر کی نماز ائر پورٹ پر ادا کروں۔ ائر پورٹ پہنچ کر میں عام پارکنگ کی بجائےے غلطی سےے ایک اور پارکنگ میں جا گھسا ۔ وہاں پہنچ کر انداز ہ ہوا ک ہ ی ہ پہلی پارکنگ س ے بہتر ہےکیونک ہ یہاں سارا دن گاڑی چھت کے اندر محفوظ طریقے سے کھڑی رہتی۔ لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے علوہ کوئی سامان میر ے پاس ن ہ تھا۔ ائر پورٹ میں داخل ہوت ے ہ ی میں سیدھ ا آٹو میٹک چیک ان مشین کے پاس گیا اور اس سے بورڈنگ پاس کیا۔ اگر آپ کے پاس اضافی سامان نہ ہو تو چیک ان کاؤنٹر پر جان ے کی بجائ ے آپ مشین س ے بھ ی بورڈنگ پاس حاصل کر سکت ے ہیں ۔ میں واپسی کا بورڈنگ پاس بھی اسی وقت حاصل کر چکا تھا۔ تھوڑی دیر میں محمد فوزی بھ ی جھومت ے جھامت ے آ پہنچے۔ عام مصریوں کی طرح فوزی بھ ی وسیع و عریض وجود اور چہرےے کےے مالک ہیں۔ے جدہے ائر پورٹ پر ٹنل کی سہولت نہ تھی چنانچہ بس کے ذریعے ہم لوگ جہاز تک پہنچے۔ کثیر تعداد میں مصری اور سعودی ایگزیکٹوز دمام جا رہے تھے۔ سعودی تو زیاد ہ تر اپن ے قومی لباس "توپ" میں ملبوس تھے جبک ہ مصریوں ن ے ایک س ے بڑ ھ کر ایک سوٹ پہ ن رکھے تھے۔ بلشب ہ مصری نہایت ہی خوش لباس قوم ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کے لوگ اپنے کلچر کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اپنے لباس اور زبان پر اصرار کرتے ہیں ۔ عربوں کے بارے میں ہمارے 148
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہاں "عیاش" لوگوں کا تصور ہے جو بالکل غلط ہے۔ میر ے انداز ے ک ے مطابق عربوں کے عیاش لوگوں کا تناسب ہماری قوم کی نسبت کافی کم ہے۔ دراصل لوگوں نے دولتمندی کے ساتھ عیاشی کا تصور منسوب کر لیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ بہت سے دولتمند ایسے ہیں جو اللہ تعالی کو نہیں بھولتے اور اس کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہماریر رقسمتر رمیںر رایکر رچھوٹار ربوئنگر 737رجہازر رتھا۔ے رپیر رآئیر راےے رکےے رایسےے رجہازوں دونوں طرف تین تین نشستیں ہوتی ہیں لیکن یہاں ایک لئن میں پانچ نشستیں تھیں جس کی بدولت جہاز کھل کھل لگ رہا تھا۔ میں حسب عادت کھڑکی والی طرف بیٹھ گیا۔ فوزی کی سیٹ پیچھے تھی ۔ دور مکہ کی جانب سے پہاڑیوں کے درمیان سورج طلوع ہو رہ ا تھا ۔ تھوڑی دیر میں ی ہ سورج بادلوں کے درمیان چھ پ گیا ۔ صبح کے سفر میں ایسے بہت سے خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں جہاز کی فاصل ہ اور رفتار بتان ے والی اسکرین آن ہ و گئی ۔ دمام 1205 کلومیٹر ک ے فاصل ے پر تھا ۔ بذریع ہ سڑک ی ہ فاصلہے 1400ر کلومیٹر ک ے قریب ہے۔ جد ہ سے دمام تک موٹر وے بنی ہوئی ہے جس کی بدولت یہ فاصلہ بارہ گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے۔ ہم چونکہ زیاد ہ رقم خرچ کرکے جہاز پر جا رہے تھے اس لئے ی ہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں ط ے ہونا تھا ۔ اس دنیا کا یہ اصول ہے کہ زیاد ہ رقم خرچ کرو تو زیاد ہ سہولیات ملتی ہیں۔ یہی اصول اصلی دنیا یعنی آخرت میں بھی کار فرما ہے کہ زیادہ نیکیاں کرو تو جنت میں زیادہ سہولیات دستیاب ہوں گی۔ جہاز میں فلئیٹر سیفٹی کا حسب معمول بور کر دینےے وال رلیکچرر شروع ہور گیا۔ سعودی ائر لئنز کی فلئیٹوں میں ی ہ لیکچر بذریع ہ اسکرین دیا جا رہ ا تھا ۔ ہ م لوگ دنیا میں اپنی حفاظت ک ے بار ے میں کس قدر فکر مند ہیں لیکن اصل زندگی یعنی آخرت میں جہنم س ے حفاظت سے اکثر اوقات غفلت برت جاتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی سیفٹی کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جہاز ٹیک آف کر گیا ۔ اب ہمار ے بائیں جانب ابحر کریک نظر آ رہی تھی۔ یہ واٹر اسپورٹس کا مقام ہے جہاں لوگ پانی میں واٹر اسکوٹرز اور چھوٹی لنچوں ک ے ذریع ے لطف اندوز ہوت ے ہیں ۔ انشاء الل ہ جنت میں ایس ے مقام بکثرت ہوں گ ے جہاں لوگ دودھ ،شہد اور جنت کے پانی کے دریاؤں میں لطف اندوز ہوا کریں گے۔ در ۃ العروس ک ے مقام ک ے اوپر س ے گزرت ے ہوئ ے ہ م دمام کی طرف مڑ گئے۔ ہمارے نیچےے س ے پہل ے جدہے مدینہے رو ڈ گزرا اور پھ ر مکہے مدینہے ہائی وے۔ اب نیچےے سیل کبیر کے سیلبی پانی کا راستہ نظر آ رہا تھا جس میں لوگوں نے کھیت اگائے ہوئے تھے۔ بادل گہرے ہوت ے جا رہے تھے جو جہاز سے چند سو فٹ نیچ ے ہوں گے۔ مجھے اپنا اسکردو س ے اسلم آباد کا سفر یاد آیا جب ایسا ہی منظر تھا لیکن چند سو فٹ نیچے بادلوں کی جگہ برف پوش چوٹیاں اور گلیشیر نظر آ رہے تھے۔ ہم لوگ نانگا پربت کے پاس سے گزرے تھے جو جہاز کی نسبت بلند تھی اور ہمیں جہاز سے بھی اسے دیکھنے کے لئے اوپر دیکھنا پڑا تھا۔ بادلوں کی کثرت دیک ھ کر میر ے ذہ ن الل ہ تعالی کی تخلیقی قوت کی طرف چل گیا۔ اللہ تعالی جب کوئی چیز تخلیق کرتا ہے تو اس کے جلل کی بدولت وہ چیز بنتی ہی چلی جاتی ہے۔ دور بادلوں میں ایک جھیل سی نظر آ رہ ی تھ ی جو ک ہ یقینا ًر ایک سراب تھا۔ 149
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ایس ے ہ ی سراب صحراؤں میں بھ ی نظر آت ے ہیں ۔ ی ہ دنیا بھ ی اسی قسم کا سراب ہے جسے بعض لوگ اصل زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اب ہ م ریاض ک ے علق ے س ے گزر رہے تھے جہاں زمین پر گول کھیت نظر آ رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ہ م ریاض دمام ہائی وے کے اوپر س ے گزرتے ہوئے دمام ائر پورٹ پر لینڈ کر گئے جو شہر سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصل ے پر تھا ۔ لینڈ کرتے ہ ی ایک خوشگوار حیرت نے ہمارا استقبال کیا۔ ائر پورٹ پر موسل دھار بارش ہو رہی تھی۔ جدہ میں رہتے ہوئے ہم لوگ بارش کو ترس گئےے تھےے جو یہاں ہمیں دستیاب ہ و رہ ی تھی۔ے عرب کےے مشرقی علقوں میں نومبر سے لے کر جنوری تک اچھی خاصی بارش ہو جاتی ہے۔ ائر پورٹ پر فوزی سے دوبارہ ملقات ہوئی ۔ میں نے انہیں کہ ا کہ وہ اپنا سامان لے کر رینٹ ا ے کار ک ے کاؤنٹرز پر آ جائیں ۔ سعودی عرب ک ے اکثر شہروں میں ائر پورٹ شہر سے کافی دور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسی والے بہت زیادہ رقم وصول کرتے ہیں۔ اگر آپ کرائے پر گاڑی لے لیں تو یہ کافی سستی پڑتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے ک ہ آپ ٹیکسی والوں ک ے نخروں س ے بھ ی بچ جات ے ہیں اور اپنی آزادی س ے جہاں چاہے جا سکتے ہیں۔ رینٹ اے کار والے سب سے پہلے بڑی اور مہنگی گاڑیاں کرائے پر اٹھاتے ہیں اور سب س ے آخر میں چھوٹی گاڑیاں نکالت ے ہیں ۔ میں چونک ہ تین دن پہل ے ہ ی ایک چھوٹی کار بک کر چکا تھا اس لئے مجھے ایک ننھی منی سی ہونڈا سوک دستیاب ہو گئی۔ ظاہر ہے جہاں شیور لیٹ کیپریس کا شمار بھ ی درمیانی گاڑیوں میں کیا جائ ے وہاں سوک تو چھوٹی گاڑی ہی کہلئے گی۔ میں دمام اور الخبر میں پہلی مرتب ہ آیا تھا ۔ چونک ہ میں گوگل ارت ھ ک ے ذریع ے شہ ر کا تفصیلی مطالعہ کر چکا تھا اس لئے راستے کا تعین کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور ہم باآسانی خبر کی کورنیش پر جا پہنچے جہاں گلف میریڈین ہوٹل تلش کرنے میں ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا جو ہمار ے دفتر کے قریب ہ ی تھا ۔ پہنچ ے سے قبل میں ن ے یہاں ک ے کولیگ محمد علی صاحب کو موبائل ک ے ذریعےے اطلع دےے دی تھی ،وہے بھ ی یہیں آ پہنچ ے اور ہمیں اپنی گاڑی ک ے پیچھے لگا کر دفتر ل ے گئے۔ دفتر میں اختر صاحب سے ملقات ہوئی جن کا تعلق راولپنڈ ی س ے تھا ۔ اختر صاحب ہمیں کلئنٹ ک ے دفاتر میں لے گئے۔ دوپہر میں ہم نے چائنا ٹاؤن کا رخ کیا جو خبر کا سب سے بہترین چائینز ریسٹورنٹ ہے۔ے فوزی کےے لئےے چائینیز کھانا کھانےے کا یہے پہل رموقع تھا۔ے انہیں یہے کافی پسند آیا البتہ جھینگ ے کھان ے ک ے باعث انہیں متلی کی سی کیفیت پیدا ہ و گئی کیونک ہ و ہ سی فو ڈ کے عادی نہ تھے۔ شام میں کام س ے فارغ ہوت ے ہ ی ہ م بحرین کاز و ے کی طرف روان ہ ہوئے۔ بحرین کاز وے دراصل ایک پل ہے جو خبر اور بحرین کے جزیروں کے درمیان تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پل کی لمبائی تقریبا ً تیس کلومیٹر ہے۔ یہ پل سمندر پر تعمیر کیا گیا ہے۔ خبر کے اوقات بھی عجیب و غریب ہیں۔ خبر اور جدہ کے سورج کے طلوع و غروب کے اوقات میں ایک گھنٹے کا فرق ہے۔ اس حساب سے یہاں ساڑھے چار بجے ہی مغرب کی اذان ہو گئی۔ یہی وجہ ہے چند کلومیٹر دور بحرین میں وقت ایک گھنٹہ آگے ہے۔ 150
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بحرین سعودی عرب ک ے مشرقی ساحل س ے پینتیس کلومیٹر ک ے فاصل ے پر ایک بڑا جزیرہ ہے جو کہ آزاد ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ارد گرد کے چھوٹے موٹے جزائر بھی بحرین کی ملکیت ہیں۔ یہ عرب ممالک میں پہل ملک ہے جس نے مغربی کلچر کو اپنایا ۔ بحرین کے جزائر اپنے فطری حسن کے باعث سیاحوں کے لئے بہت کشش رکھتے ہیں۔ بحرین کاز وے پر داخل ہونے کے بیس ریال وصول کئے گئے۔ فوزی نے امریکن سسٹم کے تحت مجھے دس ریال دینا چاہے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا کہ میں یہ رقم آپ کےے موبائل سےے کال کر کےے وصول کر لوں گا۔ے بحرین سےے پہلےے دو چھوٹےے چھوٹے مصنوعی جزیر ے آت ے ہیں جو ک ہ سعودی عرب اور بحرین کا بارڈ ر ہے۔ ان میں س ے ایک جزیر ہ بحرین میں اور دوسرا سعودی عرب میں واقع ہے۔ دونوں جزائر پر ایک جیسے ٹاور تعمیر کی ے گئ ے تھے جن میں س ے سعودی ٹاور سبز اور بحرینی ٹاور سرخ رنگ کا تھا۔ مغرب کی اذان ہوئ ے پندر ہ منٹ گزر چک ے تھے چنانچ ہ ہ م ن ے جزیر ے کی مسجد میں جلدی جلدی نماز ادا کی ۔ اب اندھیرا چھ ا چکا تھا ۔ ہ م ن ے گاڑی ایک جگ ہ کھڑی کی اور پیدل ہ ی جزیر ے کے طول و عرض کی پیمائش کرنے لگے۔ ان جزائر پر سبزہ بالخصوص اگایا گیا تھا ۔ بارش س ے دھ ل کر ی ہ سبز ہ نکھرآیا تھا ۔ ہ م ساحل پر جا پہنچے۔ آسمان پر چودھویں کا چاند چمک رہا تھا جس کا عکس سمندر کے پرسکون پانی میں پڑ کر جھلمل رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر فوزی پر رومانٹک موڈ طاری ہونے لگا۔ مجھے کہنے لگے" ،مسٹر مبشر! آپ جانتے ہیں کہ یہ منظر خواتین کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے اور وہ اس ماحول میں بہت رومانٹک ہو جاتی ہیں۔" میں چونکہ اس معاملے میں بالکل ہی نابلد تھا اس لئے یہ میری معلومات میں اضافہ تھا۔ ان جزائر کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا سکون تھا۔ ہمارے پاس چونکہ پاسپورٹ نہ تھے اس لئے ہم بحرین میں داخل ہونے سے قاصر تھے۔ گاڑیاں امیگریشن پلزا سے لگی ہوئی تھیں ۔ لوگ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے امیگریشن آفیسر کو اپن ے اور گاڑی ک ے کاغذات پکڑات ے جو ان پر مہ ر وغیر ہ لگا کر واپس کر دیتا ۔ یہ ی عمل بحرینی پلزا پر دوہرایا جاتا جس کے بعد مملکت بحرین کا آغاز ہو جاتا ۔ بحرین کا دارلحکومت مانامہ یہاں سے پندرہ کلومیٹر ک ے فاصل ے پر تھا ۔ بہ ت س ے لوگ جنہیں دمام کی فلئیٹ نہیں ملتی ،و ہ بحرین میں آ اترتے ہیں اور بذریعہ کاز وے خبر یا دمام پہنچ جاتے ہیں۔ کافی دیر یہاں گزار کر ہم واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ کچھ وقت خبر کی کورنیش پر بھ ی گزارا جائے۔ یہاں س ے کاز و ے کی لئٹس نہایت ہ ی دلفریب منظر پیش کر رہی تھیں۔ میں نے پکا ارادہ کیا کہ کبھی کھلے وقت میں فیملی کے ساتھ یہاں کا سفر کروں گا۔ عشا کی نماز ،جو ک ہ سوا چھ بج ے ہ ی ہ و گئی ،ادا کرن ے ک ے بعد میں نے فوزی کو ان کے ہوٹل پر اتارا۔ اسی دوران موبائل پر میری بات یونی لیور کے ایک سابقہ کولیگ نوید س ے ہ و گئی جو یہیں مقیم تھے۔ ان کی پرزور دعوت پر میں ائر پورٹ جاتے ہوئ ے ان کی طرف گیا جہاں دس منٹ گپ شپ کرک ے اور جوس پی کے میں ائر پورٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔ لیٹ ہونے کے باوجود میں جہاز میں وقت پر داخل ہوا کیونکہ میں اپنا بورڈنگ پاس صبح ہی جدہ سے حاصل کر چکا تھا۔ رات گیارہ بجے کے قریب میں اپنے گھر واپس آ پہنچا۔ 151
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
خیبر ،مدائن صالح اور تبوک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے متعلق مقامات کا سفر میں کر ہی چکا تھا۔ اہم مقامات میں اب خیبر اور تبوک کے مقامات ہی باقی رہ گئے تھے۔ قوم ثمود کا مقام ،مدائن صالح ان دونوں کے درمیان پڑتا ہے اس لئے ہم نے ان کا ایک ساتھ سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ یہ علقے دیکھتے ہوئے ہم اردن اور پھر مصر کی طرف نکل جائیں گے۔ جدہے میں رہنےے والی پاکستانی و ہندوستانی کمیونٹی کو بالعموم سیر و تفریح اور ایڈونچر س ے کوئی خاص دلچسپی نہیں ۔ ان کی اکثریت کو ی ہ بھ ی معلوم ن ہ تھ ا ک ہ مدائن صالح کیا چیز ہے۔ ایسا ذوق صرف اہ ل امریک ہ و یورپ یا پھ ر جاپانیوں میں پایا جاتا ہے اور یہ لوگ جوق در جوق تاریخی مقامات دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔ میں ان دنوں جدہ کے بیکر انسٹی ٹیوٹ میں سرٹیفائیڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس ( )CMAکی کلس میں لیکچر دے رہا تھا۔ یہ کلس زیادہ تر مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے سینئر ایگزیکٹوز پر مشتمل تھی ۔ اسی کلس میں ایک سوئس نو مسلم پال بام گارٹنر بھ ی تھے جو سیر و سیاحت ک ے شوقین تھے۔ میں ن ے جب ان س ے مدائن صالح جان ے کا ذکر کیا تو انہوں ن ے ڈھیروں لٹریچر ل کر میرے حوالے کر دیا۔ پال کے ٹورازم کے شوق کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے ک ہ اسی سال انہوں ن ے سعودی عرب س ے ل ے کر سوئٹرز لین ڈ تک سفر اپنی کار میں کیا تھا۔
مدائن صالح کا اجازت نام ہ مدائن صالح کو دیکھن ے ک ے لئ ے وزارت آثار قدیم ہ س ے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔ میں نے پال کی دی ہوئی معلومات کے مطابق اپنی کمپنی سے ایک درخواست لکھوا کر، چیمبر آف کامرس س ے اس کی تصدیق کروان ے ک ے بعد وزارت آثار کو فیکس کر دیا۔ ایک ہفتے کے بعد انہوں نے جواب میں اجازت نامہ مجھے فیکس کیا جس پر نام ،قومیت اور تاریخیں غلط درج تھیں ۔ میں ن ے ان تفصیلت کو درست کرن ے کی درخواست انہیں بھیجی تو ایک ہی دن میں درست نام ،قومیت اور تاریخ کے ساتھ اجازت نامہ آ گیا۔ چونک ہ ہمیں ایک طویل سفر درپیش تھ ا اس لئ ے اس سفر کی بہ ت سی تیاریاں کیں اور جولئی کے آخری ہفتے میں ہم جدہ سے صبح نو بجے روانہ ہوئے۔ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ ظہر کی نماز مسجد نبوی میں ادا کر کے آگے کا سفر کیا جائے۔ جب ہم مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ظہر کی اذان ہو چکی تھی۔ وضو کرنے کے بعد جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور پر حاضری دی اور ایک طرف بیٹھ کر میں ذکر و درود میں مشغول ہو گیا۔ ان دنوں کراچی سے میرے یونی لیور کے ایک دوست اور سابق کولیگ عامر اوصاف مدین ہ آئ ے ہوئ ے تھے۔ ہ م موبائل پر ایک دوسر ے س ے ملن ے کا مقام اور وقت ط ے کر چکے تھے۔ طویل عرصے بعد یہ ملقات خاصی یادگار رہی۔ میں انہیں البیک پر لے گیا جس کے کھانےے کو انہوں نےے بہ ت پسند کیا۔ے کافی دیر پرانی یادیں تازہے کرنےے کےے بعد وہے رخصت 152
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہوئے۔ اسی اثنا میں میری اہلیہ بھی مسجد کی پارکنگ میں پہنچ چکی تھیں۔ سفر پر روانگی سے پہلے ہمیں کچھ شاپنگ کرنا تھی۔ ہم لوگ مسجد نبوی کے پاس ہی واقع شاپنگ سینٹر میں چلے گئے جہاں اہلیہ نے اپنے لئے ایک اضافی برقعہ خریدا ،میں نے ایک چھتری خریدی اور ایک منی چینجر س ے اردنی دینار ،مصری پاؤن ڈ اور امریکی ڈالر حاصل کئ ے جن کی ضرورت ہمیں سعودی عرب سے نکل کر پڑ سکتی تھی۔
خیبر کا راست ہ اب ہ م مدین ہ س ے تبوک جان ے والی سڑک پر روان ہ ہوئے۔ ایک پیٹرول پمپ س ے ٹینکی فل کروا کر جب ہ م شہ ر س ے باہ ر نکل ے تو پہل ربور ڈ نظر آیا :خیبرر 170رکلومیٹر ۔ مدین ہ سے خیبر تک روڈ ،سنگل لیکن اچھی کوالٹی کی تھی۔ راستے میں کئی مقامات پر ساتھ چلنے والے پہاڑ قریب آ کر راستے کو تنگ کر دیتے۔ اس جگہ جب قریب سے کوئی ٹرک گزرتا تو اس کی ہوا کا پریشر مجھے اسٹیرنگ پر محسوس ہوتا۔ ایسی جگہ پر چھوٹی گاڑی الٹ بھی سکتی ہے۔
گمشد ہ اونٹ اور گواچی گاں راست ے میں کئی جگ ہ بور ڈ لگ ے ہوئ ے تھے جن پر گمشد ہ اونٹوں کی اطلع ک ے لئ ے ہیلپ لئن دی ہوئی تھی ۔ جانور خوا ہ کوئی بھ ی ہ و اس ک ے مسائل ایک س ے ہوت ے ہیں ۔ مجھے اس س ے پنجابی کا "گواچی گاں" کا محاور ہ یاد آ گیا ۔ ہمار ے دیہات میں جب کسی کی گائے بھینس کھل کر غائب ہو جاتی ہے تو ایک کہرام برپا ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب چونکہ ہماری نسبت کافی ترقی یافتہ ملک ہے اس لئے اس مسئلے کے حل کے لئے انہوں نے ایک محکمہ بنا دیا ہے۔ جس کسی کا اونٹ گم ہو جائے وہ اس نمبر پر اطلع کرے اور جو بھی کسی شتر بے مہار کو دیکھے وہ بھی اسی نمبر پر اطلع کرے۔ اس محکمے کے لوگ آ ّ کر اونٹ کو پکڑ لیں گے اور اس کے مالک کے حوالے کر دیں گے۔ دوسرے سعودی محکموں کی طرح اس محکمے کی سروس کیسی ہے ،اس کا کوئی تجربہ مجھے نہ ہو سکا کیونکہ میں نے اونٹ پالنے کا شوق کبھی نہیں پال۔ ڈیڑ ھ گھنٹےے میں ہ م لوگ خیبر جا پہنچے۔ خیبر کا پورا علق ہ آتش فشانی چٹانوں پر مشتمل ہےے جسےے عربی میں "حرات خیبر" کہ ا جاتا ہے۔ے پانی کی موجودگی اور آتش فشانی مادے کے باعث یہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ جب ہ م لوگ شہ ر میں داخل ہوئے تو عصر کی نماز کا وقت تھا ۔ ہائی و ے پر ایک مسجد ک ے قریب گاڑی کھڑی کی ۔ یہاں ایک بس رکی ہوئی تھ ی جس میں شامی زائرین کا ایک قافلہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد اپنے وطن واپس جا رہا تھا۔ ایک شامی اماں ،مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھی ،دنیا و مافیہا سے بے خبر ،سوٹے لگا رہی تھیں۔ وضو کر کے میں مردوں کی جانب اور میری اہلیہ ماریہ سمیت خواتین کی جانب چلی گئیں۔ مسجد کی پہلی جماعت تو چکی تھی۔ اب ہم لوگ دوسری جماعت میں نماز ادا کر رہے تھے۔ شام کے ایک صاحب نے امامت کی ۔ ان لوگوں کے ہاں رواج ہے کہ نماز کے بعد سب لوگ ایک دوسر ے س ے مصافح ہ کرت ے ہیں ۔ مج ھ س ے مل کر ی ہ لوگ بہ ت خوش ہوئ ے کیونک ہ میں ان میں واحد پاکستانی تھا ۔ میں ن ے ان لوگوں س ے خیبر ک ے قلع ے کے 153
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بار ے میں پوچھ ا لیکن انہیں اس کا علم ن ہ تھا ۔ باہ ر ایک صفائی کرن ے وال ے بنگالی بھائی سے میں نے اس کا راستہ دریافت کیا تو انہوں نے راستہ سمجھا دیا۔ خیبر ایک چھوٹا سا قصب ہ تھا ۔ بازار ہمار ے چھوٹ ے شہروں ک ے بازاروں جیسا تھا ۔ شہر کے مرکزی چوک میں صراحیوں کا ڈیزائن بنایا گیا تھا۔ یہاں بدوؤں کی آبادی تھی۔ یہ لوگ عموما ً بہ ت خوش اخلق ہوت ے ہیں ۔ میں ن ے راست ے میں ایک بدو س ے قلع ے ک ے بار ے میں معلوم کیا تو وہ اپنی گاڑی آگے لگا کر ہمیں وہاں تک چھوڑ کر آئے۔
خیبر کا قلع ہ خیبر کی قدیم آبادی کچ ے مکانات ک ے کھنڈرات پر مشتمل تھی ۔ ہموار کئ ے گئ ے پتھروں کو مٹی اور گار ے کی مدد س ے ایک دوسر ے ک ے اوپر جوڑا گیا تھ ا اور ان پر کھجور کے تنوں اور پتوں کی مدد س ے چھ ت ڈالی گئی تھی۔ پورے علق ے میں کھجور کے درخت ہر جانب پھیل ے ہوئ ے تھے جن پر اد ھ پکی کھجوروں ک ے خوش ے لٹک رہے تھے۔ کھنڈرات کی گلیوں میں بعض مقامات پر ہمار ے دیہات اور کچی آبادیوں کی طرح چھتیں بنا دی گئی تھیں جن ک ے اوپر س ے مکانات ک ے بال رخان ے مل ے ہوئ ے تھے۔ اکثر مکانات کی چھتیں گر چکی تھیں مگر ان کی دیواریں سلمت تھیں۔ مکانات ایک پہاڑی کے دامن میں واقع تھے۔ پوری پہاڑی ک ے گرد محکم ہ آثار قدیم ہ والوں ن ے باڑ لگا کر اس ے محفوظ کر دیا تھ ا اور یہاں داخلہ ممنوع تھا۔ پہاڑی کی چوٹی پر مرحب کا قلعہ نظر آ رہا تھا۔ قدیم دور میں جب بنی اسرائیل پر الل ہ تعالی ٰ کے دو عذاب ،پہل ے نبو کد نضر اور پھر ٹائٹس جیسے ظالم فاتحین کی صورت میں نازل ہوئے تو یہ لوگ جلوطنی پر مجبور ہوئے۔ ان مواقع پر یہود ک ے بعض قبائل فلسطین س ے نکل کر شمالی عرب ک ے مختلف حصوں میں پھیل گئے۔ ان لوگوں نے عبرانی تہذیب اور ثقافت کو چھوڑ کر عربی تہذیب اور زبان اختیار کر لی ۔ متمدن دنیا س ے تعلق رکھن ے ک ے باعث انہیں بہ ت س ے ایس ے ہنر آت ے تھے جن کی بدولت ان کی معیشت مضبوط ہوئی اور آہست ہ آہست ہ ی ہ اس مقام پر آ گئے کہ انہوں نے عرب قبائل کو سودی قرضوں کے جال میں پھنسا لیا۔ بنی اسرائیل میں اپنی نسلی مفاخرت کے باعث ایک غلط نظری ہ پروان چڑھ گیا تھا۔ یہ لوگ خود کو متمدن اور دوسروں کو وحشی ( )Gentilesقرار دینے لگے۔ ان کے نزدیک اپن ے لوگوں س ے سود لینا گنا ہ اور دوسروں س ے سود لینا جائز ٹھہرا ۔ سود ک ے علو ہ ان میں دوسری برائی ی ہ در آئی ک ہ ان لوگوں ن ے جادو ٹون ے کا کاروبار بھ ی شروع کر لیا۔ خداوند واحد کی توحید سے وابستہ ہونے کے باوجود ان میں طرح طرح کے شرکیہ عقائد و افعال سرایت کرن ے لگے۔ ان ک ے نیک لوگوں ن ے اصلح کی کافی کوشش کی لیکن ان کی بات پر کسی نے کان نہ دھرا۔ عرب ک ے یہود اس بات سےے آگا ہ تھےے کہے ان کی معیشت اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہےے جب عرب ک ے دیگر قبائل ایک دوسرےے سےے محاذ آرائی کا راستہے اختیار کئے رکھیں۔ے یہود کےے مختلف قبائل ،مختلف عرب قبیلوں کےے حلیف بن گئےے اور انہیں ایک دوسر ے س ے جنگ پر اکسان ے لگے۔ ان جنگوں میں یہود ک ے قبائل ایک دوسر ے س ے بھی لڑتے رہے۔ یثرب کے مشہور قبائل اوس و خزرج کی جنگ میں یہودی قبیلے بنو قینقاع نے خزرج اور بنو نضیر اور بنو قریظہ نے اوس کا ساتھ دیا تھا۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم کی مدین ہ تشریف آوری ک ے بعد میثاق مدین ہ کے 154
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
تحت تمام یہودی قبائل نے آپ کو مدینہ کا حکمران تسلیم کر لیا تھا۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی تھی ۔ اسی معاہد ے ک ے مطابق ان پر ی ہ لزم تھ ا ک ہ مدین ہ پر کسی حملے کی صورت میں یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدینہ کا دفاع کریں گے۔ ان لوگوں نے اس معاہدے کی بارہا خلف ورزی کی اور بدر و احد کی جنگوں کے دوران مسلمانوں کے خلف سازشوں میں مصروف رہے۔ے کئی مرتبہے ان کےے اوباشوں نےے مسلم خواتین سے چھیڑ چھاڑ کا سلسل ہ جاری رکھ ا جس پر نوبت قتل و خون تک پہنچ گئی ۔ ان کی انہی حرکتوں کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے دو قبائل بنو قینقاع اور پھر بنو نضیر کو جل وطن کر دیا تھا۔ بنو نضیر نے اپنی جلوطنی سے قبل رسول اللہ کو شہید کرنے کی سازش بھی کی تھی۔ مدینہ سے جلوطن ہو کر ان لوگوں کی اکثریت خیبر میں آباد ہو گئی۔ یہاں پر بھی یہ لوگ سازشوں سے باز نہ آئے اور مدینہ پر حملے کی تیاری کرنے لگے۔ انہوں نے خیبر میں سات قلعے بنائے جن میں مرحب پہلوان کا قلعہ سب سے بڑا اور مضبوط تھا۔ 6ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد ،مسلمانوں اور مشرکین مکہ میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوا ۔ اب یہود کی شرپسندی کافی بڑھ چکی تھی ۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے پندرہ سو کے لشکر جرار کے ساتھ خیبر پر حملہ کیا اور سوائے مرحب کے قلعے کے ،ان کے تمام قلعے بھی فتح ہو گئے۔ قلعہ مرحب جو کو پہاڑی پر بنا ہوا تھا اور اس کے گرد پتھروں کی فصیل تھی ،فتح کرنا ایک مشکل کام تھا۔ مسلمانوں کی کئی جماعتوں نے اسے فتح کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب ن ہ ہ و سکے۔ بالخر رسول اللہ صلی اللہ علی ہ واٰل ہ وسلم ن ے فرمایا" ،کل میں اس شخص کو جھنڈ ا دوں گا جو الل ہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔" سب صحاب ہ اسی اشتیاق میں رہے ک ہ شاید و ہ خوش نصیب میں ہ ی ہوں ۔ اگلےے دن لشکر کا جھنڈا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا گیا۔ آپ نے اپنی بے مثال شجاعت کے ذریعے یہ قلعہ ایک ہی دن میں فتح کر لیا اور مرحب پہلوان جو جنگی امور کا مانا ہوا ماہر تھا ،آپ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ میں اس قلعےے کو دیکھنےے لگا۔ے زمین سےے تقریبا ًر سومیٹر بلند پہاڑی پر واقع یہے قلعہ دیکھنے ہ ی میں ناقابل تسخیر لگ رہ ا تھا۔ اس کے ہر جانب س ے پہاڑی کا سلوپ 60سے 75ڈگری کے زاویے پر تھا۔ اگر کوئی فوج اس پر حملہ کرتی تو قلعے سے اس پر پتھروں اور تیروں کی بارش کی جاسکتی تھی۔ اس قلعے کو فتح کرنا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی ذہانت اور جنگی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہود انبیا کرام ک ے سات ھ تعلق کی ایک طویل تاریخ رکھتےے ہیں ۔ انہیں یہے اچھ ی طرح معلوم تھا کہ وہ اللہ کے رسول کے مقابلے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن ان کی سرکشی اس حد تک بڑ ھ چکی تھ ی ک ہ انہوں ن ے الل ہ ک ے رسول کا مقابل ہ کیا اور مغلوب ہوئے۔ اس کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ ان پر مغلوبیت اور مسلمانوں کے ماتحت رہنے کا عذاب مسلط کیا گیا۔ ارد گرد کے یہود نے فتح خیبر سے مرعوب ہو کر صلح کر لی۔ ان علقوں میں موجودہ حائل ،العُل اور تیماء کے علقے شامل ہیں۔ ی ہ لوگ اس علق ے میں سیدنا عمر فاروق رضی الل ہ عن ہ ک ے دور تک آباد رہے۔ معاہدے ک ے تحت ان پر لزم تھ ا ک ہ اپنی فصلوں کا نصف اسلمی حکومت کو بطور خراج دیں گے۔ مسلمانوں نے ان سے عدل و انصاف کا ایسا سلوک کیا کہ جو صاحب بھ ی ان سے 155
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
خراج وصول کرنے جاتے ،وہ فصل کے بالکل برابر دو حصے کر کے انہیں کہتے کہ جو پسند ہو ،وہ رکھ لو۔ یہود کے معقول لوگ اس پر کہتے کہ اسی انصاف پر زمین و آسمان قائم ہیں ۔ اس حسن سلوک ک ے باوجود ی ہ لوگ یہاں پر بھ ی اپنی سازشوں اور مکاریوں سے باز ن ہ آئ ے جس کی پاداش میں انہیں خیبر س ے بھ ی سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ ک ے زمانے میں جل وطن کیا گیا۔
عل کا راست ہ ال ُ خیبر س ے نکل کر ہ م لوگوں ن ے ایک بدو صاحب س ے "العُل" جان ے والی سڑک کا پوچھا۔ اپنی مہمان نوازی کے باعث وہ کافی دیر ہمیں اپنے پیچھے لگا کر اس روڈ تک چھوڑ آئے۔ یہاں سے العُل شہر اب 150کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جسے سوا گھنٹے میں طے کر کے ہم لوگ العُل شہر جا پہنچے۔ یہ سڑک اب سیدھی ساحلی شہر "الوجہ" کی طرف جا رہی تھی۔ "العل" جانے کے لئے ایک سڑک شہر کے اندر جا رہی تھی ۔ یہاں چند پولیس والے قالین بچھائے آرام فرما رہے تھے۔ یکایک انہیں اپنی ڈیوٹی کا خیال آیا اور انہوں ن ے ہمیں روک کر کاغذات طلب کئے۔ میر ے پاس اقام ہ ن ہ تھ ا کیونک ہ و ہ میں ن ے اپنی کمپنی کو د ے کر ان س ے پاسپورٹ ل ے لیا تھا ۔ اس پر انہوں ن ے کافی غور و خوض کیا اور میرا پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لئسنس دیکھ کر جانے کی اجازت دے دی۔ یہ پہل موقع تھا جب فیملی کی موجودگی میں پولیس والوں نے چیکنگ کی ہو۔
مدائن صالح ہوٹل العل شہر میں دو ہی اچھے ہوٹل ہیں :العرق ہوٹل اور مدائن صالح ہوٹل۔ میں جدہ ہی سے مدائن صالح ہوٹل میں بکنگ کروا چکا تھا۔ راستے میں ایک خان صاحب سے مدائن صالح ہوٹل کا راستہے پوچھ ا اور شہ ر کی گلیوں سےے گھوم کر ہ م ہوٹل تک پہنچ گئے۔ے پہلےے ہم غلطی س ے ہوٹل ک ے سامن ے ایک شادی ہال میں جا گھس ے اور پھ ر درست راست ے سے ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ی ہ ایک منزل ہ خوبصورت اور صاف ستھرا ہوٹل تھا ۔ چیک ان کرنے کے بعد ہ م کمر ے میں داخل ہوئے۔ ہوٹل والوں س ے گپ شپ پر معلوم ہوا ک ہ غیر ملکی زیادہ تر یہاں سردیوں کے موسم میں آتے ہیں جبکہ گرمیوں میں سعودی فیملیاں ہی یہاں کا رخ کرتی ہیں۔ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوٹل کے چیف کک پاکستانی ہیں لیکن یہاں ہمیں کوئی پاکستانی یا چائینز کھان ے دستیاب ن ہ ہ و سک ے چنانچ ہ بخاری چاولوں پر گزارا کیا اور جلد ہی سو گئے۔ صبح اٹھ کر نماز کے بعد کانٹی نینٹل ناشتہ کر کے ہم لوگ ہوٹل سے نکلنے کے لئے تیار ہوگئے۔ ہوٹل کے باہر کا منظر نہایت ہی دلفریب تھا۔ سامنے کھلی وادی میں دور دور تک سبزہے اور کھجور کےے درختر نظر آ رہےے تھے۔ے ان کےے بیکر گراؤنڈے میں عجیبر و غریب شکلوں وال ے پہاڑ نمایاں تھے۔ ہوٹل ک ے دوستان ہ اسٹاف س ے میں ن ے شیر ک ے مقبروں ( )Lion Tombsر راورر رمدائنر رصالحر رکےے رراستےے رمعلومر رکرر رلیےے رتھے۔ے راسر راسٹافر رمیںر رایک لہوریے صاحب بھی تھے۔ ہوٹل سے نکل کر ہم لوگ لئن ٹامبز کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ ہوٹل سے دو کلومیٹر کے فاصل ے پر تھے اور راست ہ کچا تھا ۔ سامن ے عجیب و غریب انداز میں کٹ ے ہوئ ے پہاڑ نظر آ 156
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
رہے تھے۔ کچ ھ انگلی نما چٹانیں تھیں تو کچھ ایسی چٹانیں تھیں جیس ے بہ ت س ے بھوتوں نے سر اٹھا رکھے ہوں۔ ایک چٹان کی شکل تو بالکل اونٹ کے سر جیسی تھی۔ یہاں کچے مکانات کے کھنڈرات تھے جیسے ہم خیبر میں دیکھ آئے تھے۔ لئن ٹامبز کے گرد باڑ لگا دی گئی تھی جس کے باعث اندر جانا ممکن نہ تھا۔ ابھی ہم واپس آ ہی رہے تھے کہ میرے موبائل پر مدائن صالح ہوٹل والوں کا فون آ گیا۔ وہ بڑی معذرت سے یہ بتا رہے تھے کہ غلطی سے انہوں نے ناشتے کی رقم بل میں شامل نہیں کی ۔ ہ م ہوٹل واپس ہوئ ے اور انہیں ناشت ے کی رقم ادا کر ک ے العل شہ ر کی طرف روانہ ہو گئے۔ شہر سے ہم نے پیٹرول کی ٹنکی فل کروائی۔ پمپ پر ایک پاکستانی صاحب تھے جو کھاریاں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں سے ہم لوگ مدائن صالح کی جانب روانہ ہوئے جو صرف بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ سید مودودی صاحب ک ے 1959کے سفر نامے میں مدائن صالح کا فاصلہ العل سے تیس میل بتایا گیا ہے جو کسی طور پر بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ ان کے سفر کے وقت کوئی اور طویل راستہ ہ و لیکن اب یہ محض بیس کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔
مدائن صالح مدائن صالح کا پورا راست ہ عجیب و غریب چٹانوں س ے بھرا ہوا تھا ۔ ایسا منظر میں نے اپنے طویل سفروں میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایک وسیع صحرا تھا اور اس میں جا بجا پتھریلی چٹانیں گویا رکھ ی ہوئی تھیں ۔ انہ ی چٹانوں کو اندر س ے کھود کر قوم ثمود نے اپنے گھر تیار کیے تھے۔ آثار کے گیٹ پر ایک چوکی بنی ہوئی تھی جس میں خلف توقع ایک نہایت ہی خوش اخلق پولیس مین موجود تھے۔ انہوں ن ے بڑی خوش اخلقی س ے ہمارا استقبال کیا اور اجازت نام ہ طلب کیا ۔ اس ک ے علو ہ پاسپورٹ اور گاڑی ک ے کاغذات طلب کر ک ے ان کا اندراج کیا اور ہمار ے لئ ے گیٹ کھول دیا ۔ گیٹ پر آثار کا ایک نقش ہ بھ ی بنا ہوا تھا ۔ ان پتھریلی چٹانوں کے بیچ میں جہاں جہاں قوم ثمود اور نبطی قوم کے آثار تھے ،اس کے ارد گرد باڑ لگا کر پورے علقے کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔ مدائن صالح کے پورا علقے پر ایک کچا رنگ روڈ بنایا گیا جس پر کار آسانی سے چل سکتی تھی۔ اس رنگ روڈ کو قوم ثمود اور نبطی قوم کی مختلف عمارتوں کے درمیان س ے گزارا گیا تھا ۔ گاڑی کو رو ڈ پر کھڑا کر ک ے پیدل ان عمارتوں تک جایا جا سکتا تھا۔ ان عمارتوں میں قصر االصانع ،قصر الفرید اور قصر البنت زیادہ مشہور تھیں۔ یہ محلت بھ ی عام عمارتوں کی طرح تھے لیکن ان س ے بڑ ے تھے۔ باقی عام لوگوں کی رہائشی عمارتیں ہوں گی۔ وہاں لکھے گئے کتبوں کے مطابق یہ نام ماہرین آثار قدیمہ کے دیے ہوئے ہیں۔ اس علقے کا قدیم نام "الحجر" ہے۔ ان گھروں کی سب س ے اہ م خصوصیت ی ہ ہے ک ہ ی ہ گھ ر پہاڑوں کو کھود کر بنائ ے گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کی انجینئرنگ کتنی ترقی یافتہ تھی۔ ہر گھر کے دروازے پر نہایت ہی خوبصورت گیٹ بنایا گیا تھا جو کہ دراصل پہاڑ ہی میں کھودا گیا تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ قوم ثمود نے یہ گھر کھودے ہوں گے اور ان کے کئی ہزار سال بعد جب یہ علق ہ نبطی قوم ک ے زیر اثر آیا تو انہوں ن ے اپن ے دارالحکومت پیٹرا کی طرح یہاں بھی گیٹ بنا کر اپن ے فن کا مظاہر ہ کیا ہ و گا ۔ بعض دروازوں پر مختلف شکلوں کے مجسمے 157
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
بھ ی کھدے ہوئ ے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں بنا کچھ بھ ی نہیں تھ ا بلک ہ سب کچھ کھود کر بنایا گیا تھا۔ میں نبطیوں کے آرٹ کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک عام سے گھر میں داخل ہونے کے بعد میں نے قصر البنت کا رخ کیا۔ دروازے زمین س ے کافی بلند تھے۔ غالبا ً اتنی بلندی پر گھ ر بارش اور سیلب ک ے باعث بنائ ے گئ ے ہوں گے۔ اس دور میں لکڑی کی سیڑھ ی استعمال کی جاتی ہ و گی جس کی جگ ہ اب لوہے کی سیڑھی لگا دی گئی تھی۔ دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی ان کا ڈرائنگ روم تھا۔ بعض گھروں میں یہ ڈرائنگ روم دروازے سے ایک فٹ گہرا کھودا گیا تھا اور بعض گھروں میں یہ ایک چبوترےے کی شکل میں ایک فٹ بلند تھا۔ے دیواروں میں جا بجا مختلف سائز کے طاقچے کھودے گئے تھے جو سامان رکھنے کے کام آتے ہوں گے۔ ڈرائنگ روم کے اندر دو مزید کمرے کھودے گئے تھے۔ شاید ایک بیڈ روم کے طور پر اور دوسرا سامان کے کمرے کے طور پر استعمال ہوتا ہو گا۔ دیواریں ،فرش اور چھت کسی آل ے س ے رگڑ کر بالکل ہموار کر دی گئی تھیں ۔ ایسا ہ ی آرکی ٹیکچر تمام عمارتوں کا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بعض جگہ طاقچوں کی تعداد زیادہ اور بعض عمارتوں میں کم تھی۔ ظاہر ہے ہر عمارت کے مکین نے اپنی ضرورت کے مطابق طاقچے بنائے ہوں گے۔ قصر البنت سے باہر بہت سی بھوت نما چٹانیں نظر آ رہی تھیں جو آثار کی حدود سے باہر تھیں۔ ان میں انگلی نما اور سر نما چٹانیں نمایاں تھیں۔ اب ہم نبطیوں کے کنویں ( ) Nabatean Wellکے قریب پہنچ چک ے تھے۔ اس کے گرد گرل لگا کر اس ے محفوظ کر دیا گیار تھا۔ے ریہاں رلکھےے ہوئےے ایکر کتبےے رکےے رمطابقر اس رعلقےے میں رساٹھے رکےے رقریبر رکنویں دریافت ہوئے ہیں۔ میں ن ے کنویں ک ے اندر جھانکا تو حیران ر ہ گیا ۔ ہمار ے پنجاب میں کنویں زمین کھود کر نکالے جاتے ہیں اور کنویں کی تکمیل کے بعد اس میں اینٹیں لگا کر انہیں پختہ کر لیا جاتا ہے۔ یہاں صورتحال الٹ تھی۔ یہ کنواں چٹان کو بالکل گولئی میں کاٹ کر کھودا گیا تھا ۔ اس کنویں کو دیک ھ کر معلوم ہوتا تھ ا ک ہ یہاں زمین میں شاید پانی ن ہ ہ و بلک ہ اس کنویں میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہو گا ۔ عین ممکن ہے کہ دونوں طرح کے پانیوں س ے فصلوں کو سیراب کیا جاتا ہو ۔ قریب ہ ی علق ے میں ہمیں کھیت اور کھجوروں کے باغات بھی نظر آ رہے تھے۔
قوم ثمود پر عذاب اب مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہونے لگی ۔ اکبر الہ آبادی کے ایک شعر کے مطابق ان آثار کی کھدائی سے کلچر تو منوں کے حساب سے دریافت کیا جا رہا ہے لیکن عبرت کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا ۔ اس علق ے میں دنیا کی دو متمدن قومیں یک ے بعد دیگرےے آباد رہیں اور پھ ر نیست و نابود ہ و گئیں۔ے افسوس اس سےے کوئی عبرت نہیں پکڑتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب تبوک کے سفر کے دوران یہاں سے گزرے تو آپ ن ے صحاب ہ کرام کو ثمود ک ے انجام پر عبرت دلئی اور فرمایا ک ہ یہاں س ے جلدی گزر جاؤ کیونکہ یہ سیر گاہ نہیں بلکہ عبرت کا مقام ہے۔ میرے ذہن میں قرآن مجید کی ان آیات کا مفہوم گردش کرنے لگا جو قوم ثمود سے متعلق ہیں: اور ثمود کی طرف ہ م ن ے ان ک ے بھائی صالح کو بھیجا ۔ انہوں ن ے کہا' ،ا ے میری قوم! الل ہ کی بندگی کرو ،اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آ گئی ہے۔
158
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm ی ہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے ایک نشانی کے طور پر ہے۔ لہذا اسے چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے۔ اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک درد ناک عذاب تمہیں آ لے گا۔ یاد کرو اس وقت کو جب الل ہ ن ے تمہیں قوم عاد ک ے بعد اس کا جانشین بنایا ۔ تمہیں زمین میں یہ مرتبہ دیا کہ تم اس کے وسیع میدانوں میں عالیشان محل بناتے ہو اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی صورت میں تراشتے ہو۔ اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔' اس کی قوم ک ے سرداروں ن ے جو بڑ ے بن ے ہوئ ے تھے ،کمزور طبق ے ک ے ان لوگوں سے ،جو ایمان لے آئے تھے ،کہا' ،کیا تم واقعی جانتے ہو کہ صالح اللہ کا پیغمبر ہے؟' انہوں نے جواب دیا' ،بے شک! جس پیغام ک ے سات ھ انہیں بھیجا گیا ہے ہ م اس پر ایمان رکھت ے ہیں۔ ' ان بڑائی ک ے دعوے داروں نے کہا' ،جس چیز پر تم ایمان رکھتے ہو ،ہم اس کے منکر ہیں۔' پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈال اور پوری سرکشی کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلف ورزی کر بیٹھے اور بولے ' ،ا ے صالح! ل ے آؤ و ہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دیت ے ہ و اگر تم واقعی رسول ہو۔' آخر کار انہیں ایک دہل دینے والی آفت نے آ لیا۔ اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے اور صالح یہ کہتے ہوئے ان کی بستیوں سے نکل گئے کہ' ،اے میری قوم! میں نے تو اپنے رب کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تمہاری بہت خیر خواہی کی۔ مگر میں کیا کروں کہ تمہیں اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں۔' (العراف )79-7:73
قوم ثمود دراصل قوم عاد کےے ان لوگوں کی نسل میں سےے تھ ی جو سیدنا ہود علیہ الصلو ۃ والسلم پر ایمان لئ ے تھے۔ ی ہ لوگ اس علق ے میں آ کر آباد ہوئ ے جو اب مدائن صالح یا الحجر کہلتا ہے۔ ان کا زمانہ اب سے تقریبا ً چھ ہزار سال قبل کا تھا۔ قوم ثمود بھ ی دوسری اقوام کی طرح شرک کا شکار ہ و گئی تھی۔ے جب ان کے رسول سیدنا صالح علیہ الصلو ۃ والسلم نے انہیں الل ہ کے دین کی دعوت دی تو انہوں نے آپ سے اس کی کوئی نشانی طلب کی ۔ آپ ن ے ان کی فرمائش پر الل ہ کی طرف سے ایک اونٹنی بطور نشانی پیش کی جو کہ پتھریلی چٹان سے نمودار ہوئی تھی۔ اس کھلی نشانی کے بعد بھی انہوں نے آپ کو جھٹلیا جس کے نتیجے میں اس قوم کو تباہ کر دیا گیا کیونک ہ رسول کی آمد کسی قوم ک ے لئ ے روئ ے زمین پر قیامت صغری برپا کر دین ے کے مترادف ہوا کرتی ہے۔ ان لوگوں ن ے اپن ے رسول کا انکار کیا جس کی پاداش میں انہیں اسی دنیا میں سزا دے کر قیامت تک کے لئے آنے والی نسلوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا گیا۔ ان کی اس داستان عبرت کو دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتب بائبل اور پھ ر قرآن کا حصہے بنا کر ہمیشہے کےے لیےے محفوظ کر دیا گیا۔ے اب یہے ہ ر انسان کی اپنی مرضی ہے ک ہ و ہ انہیں محض قص ے کہانیاں سمج ھ کر نظر انداز کرے ،یا ان س ے تاریخی معلومات کشید کر ے یا پھ ر عبرت حاصل کر ک ے ان س ے اپنی موجود ہ زندگی کو اصل زندگی کے لیے سنوارنے کی کوشش کرے۔ قوم ثمود کے تقریبا ً ساڑھے تین ہزار سال بعد بعد اس علقے پر نبطیوں کی حکومت قائمر رہوئی۔ے ریہے رلوگر رسیدنار راسماعیلر رعلیہے رالصلوۃے روالسلمر رکیر راولدر رسےے رتھے۔ے رانر رکا دارالحکومت موجود ہ اردن ک ے علق ے میں واقع تھ ا جس کا نام "پیٹرا ( ")Petraتھا ۔ ان کا دوسرا بڑا شہر یہ ی مدائن صالح تھا۔ ان کی تاریخ کو کسی قدر تفصیل سے میں نے پیٹرا کے باب میں بیان کیا ہے۔
159
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
حجاز ریلو ے اب ہم لوگ آثار کے شمال کی طرف ہو لیے۔ یہاں کی قابل دید چیز مدائن صالح کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ انیسویں صدی میں ریل کی ایجاد کے بعد ترکی کی عثمانی حکومت کی یہ خواہ ش تھ ی ک ہ ایک ریلو ے لئن دمشق س ے ل ے کر مدین ہ تک بچھائی جائ ے جس ے آگ ے مکہ تک لےے جایا جائے۔ے بالخر بیسویں صدی کےے آغاز میں یہے ریلوےے لئن بچھائی گئی۔ے اس ریلو ے کو "حجاز ریلوے " کا خطاب دیا گیا ۔ اس لئن کو بچھان ے ک ے لئ ے ترک حکومت نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے چندے کی اپیل کی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر اس چند ے میں حص ہ لیا کیونک ہ ی ہ حرمین شریفین ک ے نام پر مانگا گیا تھا ۔ صرف پنجاب س ے ہ ی پیر جماعت علی شا ہ صاحب ن ے لکھوں روپ ے کا چند ہ اکٹھ ا کر ک ے بھیجا جو آج کے اربوں روپے کے برابر ہے۔ حجاز ریلو ے کا پہل فیزر 1907میں مکمل ہوا جس ک ے نتیج ے میں دمشق س ے مدینہ تک کا فاصل ہ جو ڈیڑ ھ مہین ے میں ط ے ہوتا تھا ،اب محض چار دن کا ر ہ گیا ۔ ی ہ ریلو ے لئن دمشق سے عمان ،تبوک اور مدائن صالح کے راستے مدینہ پہنچتی تھی۔ مدینہ سے مکہ تک کار ردوسرار رفیزر کبھیر رمکملر نہے ہور سکا۔ے راسر کےے رٹھیکر رایکر رسور رسالر بعدر 2007رمیں سعودی حکومت نے مکہ سے مدینہ تک ریلوے لئن بچھانے کا اعلن کیا ہے۔ عربوں میں ترکوں کے خلف ایک عمومی نفرت پائی جاتی تھی۔ اس کی وجہ ترکوں کا عربوں سے امتیازی سلوک تھا۔ عثمانی ترکوں نے عربوں کی عباسی سلطنت کو ختم کرر رکےے راپنیر رحکومتر رکیر ربنیادر ررکھیر رتھی۔ے رسلطنتر رعثمانیہ،ر رجور رسولہویںر رصدیر رسے انیسویں صدی تک تقریبا ً چار سو سال تک دنیا کی سپر پاور ک ے رتب ے پر فائز ر ہ چکی تھی ،بیسویں صدی ک ے اوائل میں یورپ ک ے مرد بیمار کا خطاب حاصل کر چکی تھی۔ اسر رریلوےے رلئنر رکےے رنتیجےے رمیںر ردمشقر رسےے رمدینہے رتکر رہزاروںر رعربوںر رکےے رہوٹلوںر راور سراؤں کا کاروبار بھی ختم ہوا جو حجاج کی وجہ سے قائم تھا۔ ان تمام عوامل ک ے سات ھ سات ھ برطانوی حکومت ن ے بھ ی اس علق ے میں ترکی کی حکومت ک ے خلف سازشوں کا جال بچھ ا دیا تھا ۔ لرنس آف عریبیا کا کردار بھ ی اسی سےے متعلق ہے۔ے کرنلر لرنسر نےے اس علقےے میں ایکر عظیم بغاوت منظمر کی جسے "عرب بغاوت ( ")Arab Revoltکا نام دیا گیا جس کی قیادت اس وقت کےے مکہے کے گورنر شریف حسین کر رہے تھے۔ اس موضوع پر ایک فلم بھی بنی ہے۔ ترکی کی حکومت ن ے اپن ے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری جب انہوں ن ے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا۔ جرمنی کی شکست کے بعد انگریزوں نے ترکی کے حصے بخرے کرنے شروع کیے جس کے نتیج ے میں سعودی عرب ،اردن ،شام اور لبنان کی حکومتیں وجود پذیر ہوئیں ۔ اسی دور میں دور دراز س ے یہودیوں کو بھ ی ل کر فلسطین میں آباد کیا گیا اور اسرائیل کی بنیاد بھ ی رکھ ی گئی جس ے دوسری جنگ عظیم ک ے بعد باقاعدہ آزاد ملک کا درجہ دیا گیا۔ نجد کے سعودی حکمرانوں اور حجاز کے ہاشمی خاندان کے درمیان بھی اس دور میں جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ہاشمی خاندان کی حکومت صرف اردن تک محدود ہو گئی اور نجد کے ساتھ ساتھ حجاز کا علقہ بھی سعودی خاندان کے زیر نگیں آ گیا۔ اردن کے موجودہ شاہ عبداللہ ،شریف حسین کے پڑپوتے ہیں۔
160
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
ہندوستان کے مسلمان بڑے ہی خوش فہم واقع ہوئے ہیں۔ انہوں ن ے 1919میں ترکی کی ملوکیت کو بچانے کے لئے تحریک شروع کی جس پر خلفت کا لیبل لگا ہوا تھا۔ اس تحریک ک ے سات ھ سات ھ بعض عاقبت نا اندیشوں ک ے زیر اثر تحریک ہجرت شروع ہوئی۔ لکھوں مسلمان اپنا گھ ر بار اون ے پون ے بیچ کر افغانستان ہجرت کر گئ ے جس ن ے انہیں قبول کرن ے س ے انکار کر دیا ۔ ی ہ ب ے چار ے لٹ ے پٹ ے واپس آئ ے اور طویل عرص ے تک اپنے پاؤ ں پر کھڑےے نہے ہ و سکے۔ے ہندوستانی مسلمانوں کی پوری تاریخ ایسی ہ ی عاقبت نا اندیشیوں سے بھری پڑی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہم اپنی بے وقوفیوں کو بھی دوسروں کی سازش سے تعبیر کرتے ہیں۔ عرب بغاوت میں حجاز ریلو ے کی پٹریوں کو اکھاڑ دیا گیا تھا ۔ اب اس ک ے نشانات صرف ریلوے اسٹیشنز کی صورت میں موجود ہیں جنہیں سعودی حکومت نے آثار قدیمہ ک ے طور پر محفوظ کر لیا ہے۔ مدائن صالح ک ے ریلوےے اسٹیشن کا ڈیزائن ہمار ے قدیم اسٹیشنز جیسا تھا ۔ ی ہ تنگ گیج کی پٹری تھ ی جس پر ریلو ے کی تین ویگنز کی باقیات اب بھ ی موجود تھیں ۔ ایک طرف ریلو ے ورکشاپ بھ ی تھ ی جس میں ایک صحیح سالم انجن کھڑا ہوا تھ ا جو بالکل ہمارے قدیم سیاہ کوئلے کے انجنز جیسا تھا ۔ اس پر اس کی تاریخ پیدائش 1906بھی لکھی ہوئی تھی۔ ایک طرف کوئلے کا ذخیرہ کرنے والے ڈرم بھی پڑے ہوئے تھے۔ اس انجن کا سائز ہمارے سیاہ انجنز سے چھوٹا تھا۔ کچھے دیر پلیٹ فارم پر گھومنےے کےے بعد ہ م واپس ہوئے۔ے اب ہ م قصر الخریمات کے قریب سے گزر رہے تھے۔ یہ بھی قوم ثمود اور نبطیوں کے آّثار تھے۔ کچھ آگے جا کر ہمیں دو عظیم الشان اژدھے نظر آئے۔ ی ہ ایک جیسی دو چٹانیں تھیں جن ک ے من ہ اژدھے کی مانند تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ دو اژدھے منہ بند ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ گیٹ سے باہر نکلے تو دائیں جانب ایک فارم ہاؤس پر نظر پڑی۔ گیٹ کے پولیس والے ہمار ے قریب آئ ے اور عربی میں کہن ے لگ ے کہ آپ فارم میں چل ے جائیں ،یہاں اچھ ی قسم کی انجیر دستیاب ہو جائے گی۔ چونکہ وہاں کوئی ذی روح ہمیں نظر نہ آ رہا تھا چنانچہ ہم نےے رواپسیر رکیر رٹھانی۔ے رباہرر رمینر رروڈے رپرر رنکلےے رتور رایکر ربقالےے رپرر رنظرر رپڑیر رجسر رمیں وزیرستان کے ایک خان صاحب براجمان تھے۔ خان صاحب سے کچھ دیر گپ شپ کر کے اور پانی کی بوتل خرید کر ہم مدائن صالح سے روانہ ہو گئے۔
کچ ھو ے اور ہات ھی والی چٹانیں مین رو ڈ پر ایک چٹان بالکل کچھو ے کی مانند نظر آ رہ ی تھی ۔ مشہور زمان ہ ہاتھ ی والی چٹان بھ ی اس ک ے قریب ہ ی واقع تھی ۔ چٹانوں وال ے علق ے س ے نکل کر ہ م ایک کھلی وادی میں جا نکلے۔ اس دن جمعہ تھا۔ میں کسی مسجد کی تلش میں تھ ا جو مین روڈ پر ہی مل جائے تاکہ جمعہ کی نماز ادا کر کے سفر آگے جاری رکھا جائے۔ اب رو ڈ تھ ا اور ہ م تھے۔ے 160رکلومیٹر فی گھنٹہے کی رفتار سےے سفر طےے کرتےے ہوئے چالیس منٹ میں ہ م مدین ہ تبوک ہائی و ے پر جا نکلے۔ یہاں س ے العل رس ے آن ے والی روڈ سیدھ ی حائل کی طرف جا رہی تھی ۔ ہم نے ایگزٹ پکڑا اور تبوک کی جانب اپنا رخ کر لیا۔ ساتھ ہی ایک مسجد نظر آ رہی تھی۔ میں نے وہاں گاڑی روک دی۔ جمعہ کی نماز کا وقت ہ و رہ ا تھ ا لیکن اس مسجد میں شاید جمع ہ ن ہ ہوتا تھا ۔ اس لئ ے ظہ ر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لوگ آگے روانہ ہوئے۔ 161
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
صحرا میں دھوپ بہت تیز تھی اور روشنی ریت سے ٹکرا کر آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ میں نے اپنی اہلیہ سے سن گلسز کا پوچھا تو انہوں نے کہیں سے چشمہ برآمد کر کے میریر رآنکھوںر رپرر رٹکار ردیا۔ے ریہے راسیر رڈیزائنر رکار رچشمہے رتھار رجور رہمارےے رلڑکےے رلگار رکرر رموٹر سائیکلوں پر ہیرو بنےے پھرتےے ہیں۔ے عام حالت میں تو میں اسےے قطعا ًر استعمال نہے کرتا لیکن اب مجبوری تھ ی چنانچ ہ میں ن ے خود کو ایسا ہ ی چھچھورا ہیرو فرض کر لیا اور چشم ہ لگا لیا ۔ ناک پر ی ہ چشم ہ عجیب سی سرسراہ ٹ پیدا کر رہ ا تھ ا جس کی مجھے بالکل عادت ن ہ تھی ۔ میرا دل چا ہ رہ ا تھ ا ک ہ گاڑی کی چھ ت میں کوئی کنڈ ا ہ و جس سے دھاگا باند ھ کر اس چشم ے کو ناک س ے کچ ھ اوپر اٹھ ا دیا جائ ے تاک ہ ی ہ ناک پر عجیب و غریب سرسراہٹ پیدا نہ کرے لیکن بھل ہو ٹویوٹا کمپنی کا جنہوں نے گاڑی کی چھت میں ایسی کوئی چیز نہ لگائی تھی۔ اب ایک بالکل سفید رنگ کا صحرا شروع ہو چکا تھا۔
تیماء منزلوں پر منزلیں مارتے ایک گھنٹے میں ہم تیماء جا پہنچے۔ اس نام سے نجانے کیوں قیمہ کھان ے کو دل چا ہ رہ ا تھ ا لیکن جس ہوٹل پر ہ م رک ے وہاں سوائ ے عرب کھانوں ک ے کچھ دستیاب ن ہ تھ ا چنانچ ہ ہمیں رز بخاری یا بخاری پلؤ پر ہ ی گزارا کرنا پڑا ۔ ی ہ پلؤ ہمارے تڑکے وال ے چاولوں کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اگر تڑکے وال ے چاولوں سے نمک ،مرچ اور دوسرے مصالحے غائب کر دیے جائیں تو باقی یہ بخاری پلؤ بچتا ہے۔ میں تو بخاری پلؤ کے نام ہی سے الرجک تھا اس لئے اپنے لئے پھل وغیرہ خریدنے کے لئ ے میں سات ھ واقع منی سپر مارکیٹ میں جا گھسا جہاں ایک عرب ،عربی لباس زیب تن کیے نہایت ہی فصیح و بلیغ پنجابی میں فون پر تقریر فرما رہے تھے۔ میں نے کیلے اور سیب خریدے۔ انہوں ن ے مجھے نجان ے کیا سمجھ ا ک ہ مج ھ س ے عربی بولن ے لگے۔ میں نے جب ٹھیٹھ پنجابی میں جواب دیا تو وہ بڑے خوش ہوئے۔ تیماء ایک صاف ستھرا چھوٹا سا شہ ر تھا ۔ یہاں کی خاص بات "مشکیزہے چوک" تھا جہاں ایک مشکیز ے کی شکل کا فوار ہ لگایا گیا تھا ۔ اس ک ے علو ہ ایک گلوب چوک بھی تھا جہاں زمین کا ایک گلوب بنا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد خوبصورت پارک بنایا گیا تھا۔ میرار رمشاہدہے رہےے رکہے رسعودیر رعربر رکےے رچھوٹےے رشہرر رکافیر رخوبصورتر ربنائےے رجاتےے رہیں۔ مشکیز ے چوک پر ایک پاکستانی صاحب کھڑ ے تھے اور ٹرکوں س ے لفٹ ک ے طالب تھے۔ میں نے اہلیہ سے مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ انہیں ساتھ بٹھا لیاجائے لیکن اس سے قبل کہ ہم ان تک پہنچتے ،ایک ٹرک رک گیا اور انہیں اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ تاریخی اعتبار سے عہد رسالت میں تیماء میں بھی یہودی آباد تھے جنہوں نے فتح خیبر ک ے بعد خود ہ ی سرنڈ ر کر دیا تھ ا اور رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ اب ہمارا رخ مغرب کی جانب ہو چکا تھا اور ہم تبوک کی جانب رواں دواں تھے۔ ال ُعل سے اگر ایک روڈ حجاز ریلوے کے ساتھ ساتھ بنا دی جاتی تو تبوک تک کا فاصلہ تقریبا ً ڈیڑھ سو کلومیٹر کم ہو جاتا لیکن اب ہمیں انگریزی حرف Uکی طرح سفر کرنا پڑا تھا۔ ایک سفید کریسیڈ ا ہمار ے پیچھے آ رہ ی تھ ی جس کا فاصل ہ ن ہ تو ہ م س ے کم ہ و رہ ا تھا اور نہ ہی زیادہ۔ کچھ دیر کے بعد ان صاحب کو جوش آیا اور وہ ہمیں کراس کر گئے۔ کچھ دیر کے بعد ہم نے انہیں کراس کر لیا۔ وہ شاید یہ سمجھے کہ ہم ان سے ریس لگا رہے ہیں، 162
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
چنانچ ہ وہ پھ ر ہمیں کراس کر گئے۔ میں ن ے جان بوج ھ کر رفتار آہست ہ کر لی تاک ہ ان کی غلط فہمی دور ہ و سکے۔ کافی دیر بعد ہ م انہیں کراس کرن ے لگ ے تو انہوں ن ے بریک لگا کر اور فلیش جل کر ہمیں خبردار کیا۔ دراصل ان کے آگے ایک پولیس کی گاڑی جا رہی تھی۔ میں نے بھی رفتار کم کر لی۔ تھوڑی دور جا کر "عرعر" کا ایگزٹ آ گیا۔ یہاں سے ایک روڈ "دومۃ الجندل" اور عرعر کی طرف جا رہ ی تھی ۔ عرعر ایک سرحدی شہ ر ہے جو اردن اور عراق کی سرحد پر واقع ہے۔ دوم ۃ الجندل ایک قدیم تاریخی شہ ر ہے۔ عہ د رسالت میں یہاں ایک بڑا تجارتی میل ہ لگا کرتا تھ ا جس میں یمن ،مک ہ اور شام س ے آن ے وال ے تجارتی قافلوں کا مال بکا کرتا تھا۔ یہی سڑک اردن اور عراق کی سرحد کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہوئی کویت اور پھر آگے قطر ،عرب امارات اور عمان تک جاتی ہے۔
تبوک عصر ک ے بعد ہ م تبوک ک ے قریب جا پہنچے۔ اب رو ڈ ک ے دونوں طرف گول کھیت نظر آ رہے تھے۔ اس وقت انہیں پانی دیا جا رہا تھا۔ آبپاشی کے اس نظام کو دیکھنے کا یہ میرے لئ ے پہل رموقع تھا ۔ لوہے کی ایک طویل گرل تھ ی جس پر پائپ لگ ے ہوئ ے تھے اور پانی فوار ے کی صورت میں دونوں طرف گر رہ ا تھا ۔ اس گرل ک ے نیچ ے پہی ے لگ ے ہوئ ے تھے۔ جب یہ گرل گردش کرتی ہے تو گولئی کی صورت میں پورے کھیت کو سیراب کر دیتی ہے۔ے یہ ی وجہے ہےے کہے سعودی عرب میں کھیت گول شکل کےے ہوتےے ہیں۔ے یہے نظام ہمارے آبپاشی ک ے نظام س ے بدرجہ ا بہتر ہے۔ اس میں پانی کا درست استعمال کیا جاتا ہے اور اسے بلوجہ ضائع نہیں کیا جاتا۔ ہمارے پاکستان میں ایک بڑی برائی یہ ہے کہ پانی کو نہایت ہی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ہے۔ لوگ نل کھل ے چھوڑ کر بند کرنا بھول جات ے ہیں ۔ اس کا نتیج ہ ی ہ نکل رہ ا ہے کہ ہمارےے رزیرر رزمینر رپانیر رکےے رذخائرر ردنر ربدنر رکمر رہوتےے رجار ررہےے رہیں۔ے ردریاؤںر رکےے رپانیر رکی مینجمنٹ کا نظام ایسا ہے ک ہ کبھ ی تو ہ م خشک سالی کا شکار ہ و جات ے ہیں اور کبھی سیلب کا۔ اگر ہم نے مناسب تعداد میں ڈیم نہ بنائے تو باقی پاکستان کا انجام بھی وہی ہو گا جو دریائ ے ہاکڑ ہ کے خشک ہون ے کے بعد چولستان کا ہوا تھا۔ ہمارے کھیت صحراؤں میں تبدیل ہو جائیں گے اور ہم پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے۔ پانی دین ے ک ے باعث اب ہماری ناک س ے گیلی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو ٹکرا رہی تھی۔ دونوں طرف کھیت اور سبزہ اور روڈ پر چارہ لے جانے والی گاڑیوں کے باعث ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ہم پنجاب کے کسی دیہاتی روڈ پر سفر کر رہے ہیں۔ انہی کھیتوں کے درمیان سفر کرتے ہوئے ہم تبوک شہر میں داخل ہوگئے۔ ایک پیٹرول پمپ سے ہم نے ٹنکی دوبارہ فل کروائی۔ پمپ والے صاحب پاکستانی تھے۔ ان سے میں نے اس مقام کا دریافت کیا جہاں غزوہ تبوک کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علی ہ واٰل ہ وسلم ن ے قیام فرمایا تھا ۔ اس مقام پر بعد میں مسجد بنا دی گئی تھ ی جو مسجد رسول کہلتی تھی ۔ انہوں ن ے مجھے راست ہ سمجھ ا دیا ۔ اب ہ م ان ک ے بتائ ے ہوئے راستے پر ہو لیے۔ پہلے مسجد ابوبکر آئی۔ روایت ہے کہ یہاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قیام فرمایا تھا۔ اس کے بعد ہم مسجد رسول پر پہنچ گئے۔ سادہ سی مسجد تھی اور اس پر محکمہ اوقاف کا بورڈ لگا ہوا تھا جس میں اس مسجد کو آثار قدیمہ میں شامل قرار 163
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
دیا گیا تھا ۔ مسجد کی موجود ہ تعمیر 1409ھ یا 1989ء کی تھی ۔ مسجد ک ے قریب ہ ی وہ چشمہ تھا جسےاللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی دعا پر جاری فرمایا تھا۔ آپ نے تبوک اور اس کے گرد و نواح کے لئے پانی کی دعا فرمائی تھی۔ یہ دعا پوری ہوئی اور اب تبوک ایک زرعی علقہ ہے۔
غزو ہ تبوک ہجرت کے نویں سال جب مکہ ،طائف اور عرب کا بیشتر حصہ اسلمی حکومت کے زیر نگیں آ چکا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خطوط لکھ کر صحابہ کرام رضی اللہے عنہ م کےے لئےے ان علقوں کو متعین فرما دیا تھ ا جہاں انہوں نےے فوجی کاروائی کے ذریعےے رشرکر رکیر رحکومتر رکار رخاتمہے رکرنار رتھا۔ے رانہیر رسلطنتوںر رمیںر رشمالر رکیر رغسانی سلطنت بھ ی تھی ۔ ی ہ سلطنت موجود ہ اردن ک ے علقوں ک ے علو ہ تبوک تک پھیلی ہوئی تھیر راورر رقیصرر ررومر رکیر رباجگزارر رتھی۔ے راسر رکار رحکمرانر رشرحبیلر راگرچہے راہلر رکتاب عیسائیوں سے تعلق رکھتا تھا مگر نہایت ہ ی بدتمیز شخص تھا ۔ اس نے رسول اللہ صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم کے قاصد کو شہید کروا دیا تھ ا جس پر جنگ موت ہ ہوئی جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ رومی افواج قبیل ہ بنو غسان کو مل کر مدین ہ پر حمل ہ کرن ے ک ے تیاریاں کر رہ ی تھیں۔ شدیدر رگرمیر راورر رخشکر رسالیر رکےے ردنر رتھےے راورر راہلر رمدینہے رکیر رپورےے رسالر رکیر رمحنت کھجوروں کی فصل کی صورت میں تیار تھی ۔ اس موقع پر رسول الل ہ صلی الل ہ علیہ واٰل ہ وسلم ن ے آگ ے بڑ ھ کر رومی افواج کا مقابل ہ کرن ے کا اراد ہ فرمایا ۔ اس مقابل ے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رومی افواج کی تعداد لکھوں میں تھی اور اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتیں تو حق کی وہ شمع جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے 22برس کی جدوجہد سے روشن کی تھی ،بجھنے کا امکان تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے جانثاروں کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ اس موقع پرر رصحابہے رکرامر ررضیر راللہے رعنہمر رنےے ربڑھے رچڑھے رکرر رایثارر رکیا۔ے رسیدنار رعثمانر رغنیر راور عبدالرحمٰ ن بن عوف رضی اللہے عنہما نےے بڑی بڑی رقمیں اور اونٹ پیش کیے۔ے سیدنا عمر رضی الل ہ عن ہ اپن ے گھ ر کا آدھ ا سامان ل ے آئے۔ انہیں امید تھ ی ک ہ شاید آج و ہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نیکی میں آگے بڑھ جائیں لیکن جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا پورا سامان اٹھا لئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں کبھ ی ابوبکر سے نیکی میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ خواتین نے اپنے زیور اتار کر دے دیے ،غریب صحابہ نے محنت مزدوری سے جو کمایا ل کر پیش کر دیا اور بہت سے جانثار صحابہ اپنی پکی ہوئی فصل چھوڑ کر شدید گرمی کے موسم میں مدینہ آ پہنچے۔ ان میں بہ ت س ے ایس ے بھ ی تھے جن ک ے پاس سواری تک نہیں تھی ۔ انہوں ن ے حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم س ے عرض کی ک ہ اگر اسلح ہ اور سواری کا انتظام ہ و جائ ے تو ہماری جانیں قربان ہونے کے لئے حاضر ہیں۔ جن کو سواریاں نہ مل سکیں وہ اس پر روتے تھے کہ ہم اس سعادت سے محروم رہ گئے۔ اس موقع پر منافقین بھی تھے جو حیلے بہانے سے پیچھے رہنا چاہتے تھے۔ تیس ہزار کا لشکر جرار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم روانہ ہوئے۔ سامان کی اس قدر قلت تھ ی کہ صرف دس ہزار کو سواری میسر آ سکی تھ ی اور لوگ باری 164
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm
باری اونٹوں پر سوار ہوتے تھے۔ قیصر روم ،اہل کتاب ہونے کے ناطے ،یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اللہ کے رسول کا مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ رسول کے ساتھ مقابلے میں اس ے کبھ ی غلب ہ نصیب ن ہ ہ و گا ۔ اس ن ے جب سنا ک ہ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ واٰلہ وسلم خود مقابلے کے لئے تشریف ل رہے ہیں تو اس نے اپنی فوجیں ہٹا لیں۔ اس فتح بلجنگ کا نتیج ہ یہے نکل رک ہ عربوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں جو روم اور مدین ہ کی سلطنتوں ک ے درمیان بفر اسٹیٹس کی حیثیت رکھتی تھیں ،اسلمی حکومت کی مطیع ہو گئیں۔ دومۃ الجندل ،ایلہ اور موجودہ اردن کے عیسائی حکمرانوں نے جزیہ دے کر اسلمی حکومت کے تحت رہنا قبول کر لیا۔ اس فتح کے بعد منافقین کو بھی بے نقاب کر دیا گیا اور ان کی اکثریت نے سچے دل سے اسلم قبول کر لیا۔ اس غزوہے میں منافقین کےے علوہے تینر صاحبر ایمانر صحابہے اپنیر سستی کےے باعث شریک ن ہ ہ و سک ے تھے۔ حضور صلی الل ہ علی ہ واٰل ہ وسلم نے منافقین کا عذر تو قبول کر لیا لیکن الل ہ تعالی ٰ ک ے حکم س ے ان تین اصحاب کو ی ہ سزا دی گئی ک ہ ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا گیا ۔ ان حضرات س ے دشمن بادشاہوں ن ے رابط ہ کیا ک ہ تم ہ م س ے آ ملو لیکن ان کا اخلص ایسا تھا کہ انہوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اس نے ان کی توبہ قبول کر کے ان کی سزا معاف کر دی۔ مسجد سےے نکل کر ہ م لوگ مین روڈے پر آئے۔ے یہاں حجاز ریلوےے کا تبوک کا ریلوے اسٹیشن ہمارے سامن ے تھا۔ شہ ر س ے نکل کر ہ م لوگ اردن کی طرف جان ے والی سڑک پر آئے۔ے مجھےے سعودی عرب ک ے سرحدی قصب ے ک ے نام کا علم نہیں تھ ا البتہے اردن کے سرحدی قصبے کا علم تھا۔ پولیس چوکی پر میں نے ایک پولیس والے سے اس کا پوچھا تو انہوں نے خندہ پیشانی سے راستے کی تفصیلت کا بتا دیا۔ قرآن مجیدر اور رسولر اللہے صلی اللہے علیہے واٰلہے وسلمر کیر سیرتر طیبہے سےے متعلق مقامات ،کا سفر میں اب مکمل کر چکا تھا۔ اب ہمارے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہو رہ ا تھ ا جس میں اردن اور مصر ک ے مقامات شامل تھے۔ اس کی تفصیلت اس سفر نامے کے دوسرے حصے میں ملحظہ فرمائیے۔
مزید مطالعے کے لئے قرآن اور بائبل ک ے دیس میں | کائنات :خدا کی ایک نشانی | Quranic Concept of | الحا د جدید کےے مغربی اور مسلم Human Life Cycle | A Dialogue with Atheism | کیا عقل ک ے ذریع ے خدا کی پ ہچان ممکن ہے؟ | کیا آخرت کا معاشروں پر اثرات عقید ہ معقولیت رک ھتا ہے؟ | خدا ک ے جسم س ے کیا مراد ہے؟ | خدا نظر کیوں ن ہیں ٓاتا؟ | تقدیر کا مسئل ہ؟ بعض لوگ خدا ک ے منکر کیوں ہیں؟ | محمد رسول الل ہ کی رسالت کا ثبوت کیا ہے؟ | اسلم اور نسلی و قومی امتیاز | دین دار افراد ک ے لئ ے معاش اور روزگار ک ے مسائل | موٹر و ے کی ٹریفک | جنریشن گیپ | ساس اور | مایوسی کا ب ہ و کا مسئل ہ | اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیس ے کی جائ ے؟ | بزرگوں کی کرامات یا ان کا کردار سبز یا نیل | علج کیوں کر ممکن ہے؟ مشکل پسندی | اختلف رائ ے کی صورت میں ہمارا روی ہ | سیکس ک ے بار ے میں متضاد روی ے | تکبر ک ے اسٹائل | انسان کا اپنی شخصیت پر کنٹرول | علماء کی 165
قرآن اور بائبل کے دیس میں متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20&%20Religion.htm زبان | جذب ہ حسد اور جدید امتحانی طریق ہ | فرشت ے ،جانور اور انسان | شیطانی | ای ڈورٹائزنگ کا اخلقی پ ہلو س ے جائز ہ | دین کا قوتوں کا مقابل ہ کیس ے کیا جائ ے؟ | فارم اور اسپرٹ مطالع ہ معروضی طریق ے پر کیجی ے | ر ہبانیت | دو ہر ے معیارات | | صوفیاء کی دعوتی حکمت عملی | گنیش جی کا جلوس | دین میں اضاف ے | سور ہ توب ہ ک ے | اسلم ن ے غلمی کو ایک دم ختم کیوں ن ہ کیا؟ عقل اور عشق شروع میں بسم الل ہ کیوں ن ہیں ہ ے ؟ | کیا رسولوں پر ایمان ضروری ہے؟ | مک ہ اور | متشاب ہات | مرد کا وراثت میں حص ہ دوگنا کیوں ہے؟ مدین ہ حرم کیوں ک ہلت ے ہیں؟ کیا ہیں؟ | دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار | اسلم کا خطر ہ :محض ایک و ہم | دور جدید کی سازش | یا حقیقت | مسلم دنیا میں علمی و تحقیقی رجحانات ہم اسلم نافذ کیوں ن ہ کر سک ے؟ | امت مسلم ہ زوال پذیر کیوں ہے؟ | اقوام عالم کو | مذ ہ ب کی دعوت ک ے لئ ے کرن ے کا سب س ے بڑا مسلمانوں س ے ہمدردی کیوں ن ہیں؟ کام؟ |
166