﷽ یومِِقراردادِپاکستانِِ23مارچِِ1940ءِِ پسِمنظر قوموں کی زندگی میں کچھ دن نہایت اہم ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ ہرسال باربار آتے ہیں لہذا ہر زندہ قوم ان دنوں میں اپنی تاریخ ،اپنے اسالف ،اپنے محسنوں اور اپنے شہیدوں کو یاد کر کے اس جذبے ،اس نظریہ اور اس ولولے کو برقرار ت محرکہ کا کام دیتے ہیں۔ 23مارچ کا دن بھی انہی دنوں میں سے رکھتی ہے جو اس کے اتحاد اور اس کی ترقی میں قو ِ ایک ہے۔ یہ ہی وہ دن ہے جب عملی طور پر پاکستان کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی گئی ۔ یہ ہی وہ اساس ہے جو آگے قیام پاکستان کا باعث بنی۔ چل کر ِ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ڈھاکہ میں عمل میں آیا ۔ اس سیاسی تنظیم کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے سیاسی، سماجی ،ثقافتی اور مذہبی حقوق کا تحفّظ تھا۔ شروع میں یہ ہندوستان میں ہندوؤں کی غالب اکثریت کے مقابلے میں صرف مذکورہ باال حقوق کا تح ّفظ چاہتی تھی اور ایک الگ وطن کا حصول اِس کا مطمع نظر نہ تھا مگر وقت گزرنے برصغیر میں پختہ ہوتا گیا کہ انگریز کے ساتھ ساتھ پہلے فکری اور بعد ازاں عملی طور پر یہ احساس مسلمانان ّ ِ حکمرانوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کو ایک مغلوب اقلیت کے طور پر رہنا پڑے گا۔ اگرچہ بہت سے مسلمان مفکرین اور سیاسی زعماء اِس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود ایک متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق جناح بھی ان ہی لیڈروں میں شمار کئے جا سکتے سرگرم عمل تھے۔ ابتداء میں قائدِاعظم محمد علی کے تحفّظ کے لئے ؒ ِ ہیں جنہیں معاہدۂ لکھنؤ میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے"ہندومسلم اتحاد کا سفیر" بھی قرار دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کی راہ میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب 1937ء میں ہندوستان میں 1935ء کے ایکٹ کے تحت ِ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے ۔ اِن اِنتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو بدترین شکست ہوئی۔ وہ 482مسلم نشستوں میں سے صرف 102نشستیں حاصل کر سکی۔ اِس طرح آل انڈیا کانگریس نے ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے سات صوبوں میں اپنی وزارتیں بنا لیں ۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب کانگریس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا ۔ کیونکہ کانگریس نےاپنی دوسالہ وزارتوں کے دوران کھل کر ہندو راج کو عملی جامہ پہنایا۔ اِن دو سال کی کانگریسی وزارتوں کے دوران مسلمانوں سے جس طرح کا سلوک کیا گیا اور حکومتی سطح پر جو مسلم دشمن اقدامات کئے گئے اس نے یہ واضح کر دیا کہ انگریزوں کی موجودگی میں کانگریس یہ سب کر سکتی ہےتو ان کے چلے جانے کے بعد کیا کچھ نہ کرے گی؟۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب اِن کانگریسی وزارتوں نے جنگِ عظیم دوم کے دوران انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کے "یوم جناح کی ہدایت پر 22دسمبر 1939ء کو لئے اپنی وزارتوں سے استعفے دئیے تو مسلمانوں نے قائدِاعظم محمد علی ؒ ِ نجات" منایا۔ جناح ،مسلم لیگ اور ہندوستان کے عام مسلمانوں کو یہ فیصلہ 1937ء سے 1939ء کے دوران قائدِاعظم محمد علی ؒ کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہندو-مسلم سیاسی تنازع کا اب ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ہندوستان کی تقسیم!۔ پس منظر جس کی موجودگی میں فروری 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی اور کونسل کا یہ ہے وہ ِ اجالس دہلی میں منعقد ہوا ۔ اِس اِجالس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ،آزاد اور خودمختار جناح نے وائسرائے ہند الرڈ ِلن ِلتھگو مملکت کا مطالبہ کیا جائے۔ ورکنگ کمیٹی کے اجالس کے بعد قائدِاعظم محمد علی ؒ مجوزہ اِجالس الہور میں ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ سے مالقات کی اور اس پریہ واضح کردیا کہ مسلم لیگ اپنے ّ کرے گی۔
23مارچِِ1940ءِکاِاجالس جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں یہ فیصلہ کیا کہ الہور کے ِمنٹو پارک (جو کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے قائدِاعظم محمد علی ؒ بعد ازاں اقبال پارک اور اب گریٹر اقبال پارک کہالتا ہے) میں اپنا اِجالس 22مارچ سے 24مارچ 1940ء کو منعقد کرے گی۔
خاکسارِالمیہِ مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مذکورہ اِجالس سے صرف چار روز پہلے الہور میں ایک بڑا المیہ پیش آیا جس ت پنجاب نے نیم فوجی کی وجہ سے اِس تاریخی اِجالس کے ملتوی ہونے کا شدید خدشہ پیدا ہو گیا ۔ ہوا یوں کہ حکوم ِ جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے کرمخصوص وردی پہننے اور پریڈ کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ خاکسار جماعت نے اِن اِحکامات کی خالف ورزی کا فیصلہ کیا اور 19مارچ کو وہ پریڈ کرتے ہوئے الہور کی سڑکوں پر نکل آئے ۔ لیکن پولیس کے ساتھ ایک خونی تصادم میں 50کے قریب خاکسار مارے گئے اور متعددزخمی ہوگئے ۔ الہور شہر میں جناح کو اپنا اِجالس ملتوی صورتِحال بے حد کشیدہ ہو گئی ۔ سر سکندر حیات کی حکومت نے قائدِاعظم محمد علی ؒ کرنے پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ اِس مقصد کے لئے انہوں نے وائسرائے کی انتظامی کونسل کے رکن سر 1
جناح کے پاس بھیجا ۔ لیکن قائدِاعظم نے تمام مشوروں کوسختی سے رد کرتے ظفرہللا خان کو بھی قائدِاعظم محمد علی ؒ جناح 21مارچ مقررہ وقت پر الہور میں ہی ہو گا۔ قائدِاعظم محمد علی ہوئےواضح اعالن کیا کہ مسلم لیگ کا اِجالس ّ ؒ 1940ء کودہلی سے بذریعہ ٹرین الہور تشریف الئے ۔ انہوں نے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا اور الہور کے ریلوے سٹیشن سے سیدھے میو ہسپتال پہنچے جہاں انہوں نے زخمی خاکساروں کی عیادت کی اور بعد ازاں اعالن کیا کہ مسلم لیگ اپنے اِجالس میں اِنقالب آفریں فیصلہ کرے گی۔
اجالسِکاِآغاز الہور کے ِمنٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تاریخی اِجالس 22مارچ 1940ء کو شروع ہوا۔ ہندوستان بھر سے آئے ہوئے مسلم لیگ کے نمائندہ وفود اور سیاسی زعماء نے اِس میں شرکت کی۔ایک محتاط اندازے کے مطابِق تقریبا" 50 ہزار افراد نے اِس اِجالس میں شرکت کی ۔ جو مشہورمسلم لیگی لیڈراس اِجالس میں شریک ہوئے ان میں مولوی اے ۔کے فضل الحق ،شاہنواز ممدوٹ ،چوہدری خلیق ّ الزماں ،موالنا ظفر علی خان ،سر عبدہللا ہارون ،نواب محمد اسمعیل ناظم الدین ،سردار خان ،قاضی محمد عیسی ،آئی آئی چندریگر ،نواب بہادر یار جنگ،سردار عبدالرب نشتر ،خواجہ ِ ّ شامل ہیں۔ اورنگ زیب ،ابوالہا ِشم،میاں بشیر احمد اور ملک برکت علی وغیرہ ِ
قائداعظمِمحمدِعلیِجناحِِکاِخطبہِصدارت پہلے دن یعنی 22مارچ 1940ء کو چونکہ مولوی اے ۔کے فضل الحق اِجالس میں بوجوہ نہ پہنچ سکے تھے اِس لئے جناح کا صدارتی خطاب اس دن قرارداد پیش نہ کی جاسکی۔ لیکن 22مارچ کے دن کی خاص بات قائدِاعظم محمد علی ؒ تھا ۔ اپنے اِس تاریخی خطاب میں انہوں نے دوقومی نظریہ اور ہندومسلم سیاسی تنازعے پر فی البدیہہ تفصیل سے روشنی ڈالی۔ جناح نے اپنے خطاب میں فرمایا: قائدِاعظم محمد علی ؒ ٭ "ہندوستان کا مسئلہ فرقہ ورانہ نہیں بلکہ بین االقوامی ہے اور اِس مسئلہ کو بین االقوامی مان کر ہی حل کرنا چاہیے ۔ اگر برطانوی حکومت ہندوستان میں امن و سکون چاہتی ہے تو اس کی صرف ایک صورت ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کر کے جداگانہ قومی وطن قائم کئے جائیں ۔" ٭ ہندوؤں اور مسلمانون کے درمیان تہذیبی ،مذہبی اور ثقافتی اِختالفات کی نشاندہی کرتے ہوئے قائدِاعظم محمد علی جناح نے فرمایا: ؒ "ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم نہیں بنے ۔ نہ دونوں قوموں کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں ،نہ ہی وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ دونوں ایسی تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیاد متصادم افکار اورتصورات پر ہے۔ اِن کے کارنامے مختلف ہیں۔ اکثراوقات ایک کا ہیرو ،دوسرے کا دشمن ہوتا ہے۔ ایک کی فتح ،دوسرے کی شکست ہے۔ ایسی متضاد قوموں کو ایسے نظام میں باندھنا جس میں ایک اقلّیت اور دوسری اکثریت میں ہو ،اِس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ اِن میں بے چینی بڑھے گی اور وہ نظام باآلخر تباہ وبرباد ہو کر رہ جائے گا۔" جناح نے اپنے اِس صدارتی خطاب میں اِس مفروضے کو سختی سے َرد کر دیا کہ مسلمان ایک ٭ قائدِاعظم محمد علی ؒ اقلّیت ہیں ۔ آپ نے فرمایا: " مسلمان ایک اقلّیت نہیں بلکہ وہ قومیت کی ہر تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں لہذا ان کا ایک علیحدہ وطن ہونا چاہئے ۔ "
قراردادِالہورِِ23مارچِِ1940ء شیر ِِبنگال مولوی اے ۔کے فضل آل انڈیا مسلم لیگ کے اِس تاریخی اِجالس کے دوسرے دن یعنی 23مارچ 1940ء کو ِ الحق نے "قراردا ِد الہور" پیش کی ۔ جس کی تائید ،چوہدری خلیق ّ الزماں ،موالنا ظفر علی خان ،سر عبدہللا ہارون، نواب محمد اسمعیل خان ،قاضی محمد عیسی ،سردار اورنگ زیب اور بیگم موالنا محمد علی جوہر نے کی۔ چار سو الفاظ اور چار مختصر پیراگراف پر مشتمل قراردا ِد الہورمیں کہا گیا کہ: ٭ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجالس گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہندوستان میں قائم کی گئی فیڈریشن کو مسترد کرتا ہے۔ ٭اِس اِجالس کی یہ مسلّمہ رائے ہے کہ کوئی بھی آئینی منصوبہ اِس ملک میں قاب ِل عمل اور مسلمانوں کے لئے قاب ِل قبول نہیں ہو گا تا وقتیکہ وہ مندرجہ ذیل بنیادی اصول پر نہ وضع کیا گیا ہو یعنی جغرافیائی طور پر متصلہ عالقوں کی حد بندی ایسے ِخطوں میں کی جائے (مناسب عالقائی ردوبدل کے ساتھ) کہ جن عالقون میں مسلمانوں کی اکثریت ہے صے۔ اِن کی تشکیل ایسی "آزاد ریاستوں" کی صورت میں کی جائے جن مثال" ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی ح ّ شامل وحدتیں خودمختار اور مقتدر ہوں۔ اِن ریاستوں میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستوری ضمانتیں فراہم کی میں ِ جائیں ۔
2
٭یہ اِجالس مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اِس اصول کی روشنی میں ایک دستور کا خاکہ تجویز کرے۔ جناح اپنی نشست سے اٹھ کر آگے تشریف الئے اور انہوں نے عالمہ یہ قرار داد پیش ہونے کے بعدقائدِاعظم محمد علی ؒ اقبال ؒ کے مزار کی طرف دیکھ کر کہا: "اقبال آج اگر زندہ ہوتے تو وہ خوش ہوتے کہ ہم نے وہی کچھ کر دکھایا کہ جو وہ چاہتے تھے ۔"
قراردادِالہورِ–ِایکِریاستِیاِدوِریاستیںِ قرادا ِد الہور سے متعلق ایک مخصوص مکتبۂ فکر کے حامل لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرارداد میں ضمن میں مندرجہ ذیل نکات قاب ِل تو ّجہ ہیں: ایک کی بجائے دو ریاستوں کا تصور موجود ہے ۔ اِس ِ ٭ اِس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ بالشبہ قردا ِد الہور میں سٹیٹس (ریاستوں) کا لفظ موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ریاستیں ایک دوسرے سے جدا ہوں گی یا ایک مسلم مملکت کی دو ریاستیں ہوں گی؟ ٭1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اِجالس منعقدہ مدراس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ: "ہر شخص کو یہ بات غور سے سن لینی چاہئے کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں۔ " جناح نے پاکستان کے بارے میں ہر قسم کے ٭1944ء میں گاندھی-جناح مذاکرات کے موقع پر قائدِاعظم محمد علی ؒ شکوک و شبہات کو دور کر دیاکہ یہ دونوں ایک مملکت کے صوبے ہوں گے نہ کہ علیحد ہ مملکتیں ۔ ٭ 7اپریل 1946ء کو دہلی کنونشن میں جہاں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل ،ورکنگ کمیٹی ،صوبائی اسمبلیوں ،کونسل آف جناح کی اسٹیٹ اور مرکزی اسمبلی کے منتخب شدہ 700سے زائد ارکان موجود تھے ،قائدِاعظم محمد علی ؒ وزیراعظم بھی بنے) نے ایک قرارداد زیرصدارت بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی (جو بعدازاں پاکستان کے پانچویں ِ ِ کے ذریعے تمام شبہات دور کرکے "ایک مملکت" کے حصول کا اعالن کیا۔
قراردادِالہورِیاِِقراردادِپاکستان قراردادِالہور 23مارچ کو پیش کی گئی اور 24مارچ 1940ء کو منظور کی گئی۔ قراردادِالہور کا منظور ہونا تھاکہ ہندو لیڈروں اور اخبارات نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ پرتاب ،مالپ ،ٹریبیون ،ہندوستان ٹائمز ،ماڈرن ریویو اور دیگر ہندو اخبارات نے اگلے ہے روز " قراردادِالہور" کو " قراردا ِدپاکستان" کا نام دے دیا۔ حاالنکہ اِس قرارداد میں کسی بھی جگہ لفظ "پاکستان" استعمال نہیں کیا گیا۔ شاید مسلم لیگ اپنی کوششوں سے قراردادِالہور کو اِس قدر مقبول نہ بنا سکتی جس قدر ہندو پریس اور لیڈروں نے اِس کے خالف زہر اگل کر اِس کو مقبول بنا دیا ۔ ٭مسٹرگاندھی نے 6اپریل 1940ء کو اپنے اخبار "ہریجن" میں لکھا: "میرا خیال ہے کہ مسلمان اِس تقسیم کو قبول نہیں کریں گے ۔ ان کا مفادخود ان کو اِس تقسیم سے روکے گا۔ ان کا مذہب ان کو اِس قسم کی واضح خودکشی کی اجازت نہیں دے گا۔ دو قومی نظریہ ایک جھوٹ ہے ۔چونکہ میں اہمسا پر یقین مجوزہ تقسیم کو نہیں روک سکتا۔ لیکن میں اِس چیرپھاڑ مین فریق نہیں بنوں رکھتا ہوں اِس لئے میں تشدّدکے بَل پر ّ گاکیونکہ تقسیم کا مطلب ان بے شمار ہندوؤں اور مسلمانوں کے کام کو تباہ وبرباد کرنا ہے جنہوں نے صدیوں سے ایک قوم کی حیثیت سے ہندوستان میں رہنے کی کوشش کی ۔تقسیم ایک جھوٹ ہے۔ میری روح اِس نکتہ نظر کے خالف بغاوت کرتی ہے کہ ہندومت اور اِسالم دو مختلف عقیدوں اور متضاد تہذیبوں کا نام ہے ۔ ہم سب ایک ہی خدا کے بندےہیں۔ یقینا" میں اِس خیال سے بغاوت کروں گا کہ کروڑوں ہندوستانی جو کل تک ہندو تھے اپنا مذہب تبدیل کرنے کی وجہ سے اپنی قومیت بھی بدل سکتے ہیں ۔" ٭راج گوپال اچاریہ نے کہا: "تقسیم ہندوستان سے متعلق مسٹر جناح کا یہ قدم اِس طرح کا ہے جیسے دو بھائیوں میں ایک گائے کی ملکیت پرجھگڑا ِ ہو اور وہ اِس گائے کو دو ٹکڑوں میں بانٹ لیں۔"
قراردادِالہورکیِاہمیت قراردادِالہورکی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے اس کے ذریعے مسلمانوں نے ایک واضح نصب العین متعین کر لیا اور وہ تھا ــــ پاکستان۔ باآلخر سات برس کے مختصر عرصے میں مسلمان اپنی آزاد اور خودمختار مملکت کے حصول میں جناح کی ولولہ انگیز کامیاب ہو گئے ۔ اگرچہ اِس دوران سیاسی لحاظ سے کئی اتار چڑھاؤ آئے مگر قائدِاعظم محمد علی ؒ قیادت میں ہندوستان کے مسلمان اپنی راہ سے نہ بھٹکے ۔ جناح کی ایک تقریر کے اقتباس پر ختم کرتا ہوں۔ میں اپنی معروضات قائدِاعظم محمد علی ؒ "کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 3جون پالن کو قبول کر لینا مسلم لیگ کی غلطی تھی ۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی دوسرے راستے کا انتخاب انتہائی نقصان دہ ہوتا۔ معصوم اور بے یارومددگار لوگوں کا اِس طرح سے من ّ ظم قت ِل عام 3
کیا گیا کہ تاریخ کا جابر ترین حکمران بھی اِس ظلم وستم کو دیکھ کر شرما جائے۔ ہم خدا کا شکرادا کرتے ہیں کہ اس یقین محکم اور بہادری سے اِن ظالم طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی توفیق دی۔ میں آپ سے پھر کہ رہا ہوں کہ اگر نے ہمیں ِ ہم قرآن کریم سے رہنمائی اور ہدایت لیں تو آخری فتح ہماری ہوگی۔ ایک لمحے کے لیے بھی مت سوچئے گا کہ ہمارے ت حال کو معمولی نہیں سمجھنا دشمن اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس صور ِ ت حال کا سامنا کرنا ہو گا۔ اِس بھاری ذمہ داری سے مت چاہئے کیوں کہ آپ کو بہت سنگین اور خطرناک صور ِ گھبرائیے۔ آپ ان نایاب لوگوں میں سے ہیں ِجن کا کوئی ثانی نہیں ہے ،تو پھر آپ بھی اپنے اِسالف کی طرح کامیاب کیوں نہیں ہو سکتے؟ ۔ آپ وہ قوم ہیں جس کی تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو باکردار ،جرات مند اور بہادر تھے۔ اپنی اِن روایات کو قائم رکھیں اور اس میں ایک نئے شاندار باب کااِضافہ کریں۔ میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ سب لوگ جن تک میرا یہ پیغام پہنچ رہا ہے اِس بات کا عہد کریں کہ پاکستان کو اِسالم کا قلعہ بنانے کی خاطر اگر آپ کو اپنا سب کچھ قربان بھی کرنا پڑےتو اِس کے لئے تیار رہیں گے۔ پاکستان کو ایک ایسی عظیم ریاست بنائیں گے جس میں اندرونی اور بیرونی امن و امان ہو۔ اپنا حوصلہ بلند رکھیں ۔ موت سے نہ ڈریں۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر وقت موت کے لئے تیار رہیں۔ اِسالم اور پاکستان کے وقار کی خاطر ہمیں موت کا مردانہ وار سامنا کرنا ہے۔ مسلمان کے لئے ایک نیک مقصد کی خاطر شہادت حاصل کرنے سے بہتر انجام اور کوئی نہیں ۔ اگر ہم حق پر ہیں تو ہم ناکام نہیں ہوں گے۔ ہم امر ہوں گےاور مریں گےنہیں۔ اپنا فرض پورا کریں اور ہللا پر ایمان رکھیں۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔ انشاءہللا پاکستان ـ زندہ باد پاکستان ـ زندہ باد پاکستان ـ زندہ باد " ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حوالہ جات https://sekho.com.pk/college-essays/23-march-1940-pakistan-day-essay-speech-in-urdu/ https://hamariweb.com/articles/20758 https://www.youtube.com/watch?v=Rib49SzxxrY https://www.youtube.com/watch?v=cQns8BsGXtg تخلیص وتدوین: ڈاکٹر خالد نسیم اسسٹنٹ پروفیسرتاریخ گورنمنٹ فقیر محمدفقیر پوسٹ گریجویٹ کالج ،پیپلز کالونی گوجرانوالہ
4