شوکت اسلم اردو ترجمہ
اعزاز رایۃ السلم فضیلۃ الشیخ المجاھد ڈاکٹر ایمن الظواھری اردو ترجمہ:ابوعلی السلفی
ناشر:بیت الحمد کراچی پاکستان مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان 1
http://www.muwahideen.tk
[email protected]
موضوع مقدمہ 1 فصل اول:صرف الل ہ کی طرف تحاکم (فیصل ہ کروان ے ک ے لئے 2 جانا)واجب ہے اس کے مختصر شرعی دلئل۔ قرآنی دلئل۔ 3 الم تر الی الذین یزعمون انھ م آمنوا بما انزل الیک وما انزل 4 من قبلک........الیات۔ ان آیا ت سے متعلق ابن جریر الطبری کا کلم۔ 5 ان آیات سے متعلق شیخ السلم ابن تیمیہ کا کلم۔ 6 ان آیات سے متعلق سید قطب شہید کا کلم۔ 7 انا انزلنا التوراة فیھا ھدی ونور....الیات۔ مائدہ 44تا 49 8 ان آیات سے متعلق سید قطب شہید کا کلم۔ 9 10یہ قرآنی سیاق سب سے پہلے کس بات کافیصلہ کرتا ہے۔ 11پہل اعتبار اللہہ کی الوہیت وربوبیت اورانسان پر اس کی حاکمیت کا ہے۔ 12دوسرا اعتبار اللہہ کےہ قانون کےہ دیگر تمام قوانین پر قطعاً افضل ہونے کا ہے۔ 13یاایھا الرسول ل یحزنک الذین یسارعون........الیات (ان آیات سے متعلق سید قطب شہید کے کلم کا تسلسل مع سابق آیات)۔ 14ان آیات سے متصل امام ابن کثیر کاکلم۔ 15ان آیات سے متصل شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ کاکلم۔ رد۔ 16چند شبہ ات کا ّ 17پہل شبہہ کہہ الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے بغیر حکم ایسا کفرنہیں جو دین سے خارج کردے۔ 18اول ً اس شبہے کے دلئل کا رد ّ سند کے اعتبار سے ۔ 19ثانیا ً صحابی کا قول مطلقا ً حجت نہیں ہوتا۔ 20ثالثاً:ان دلئل کا رد ّ بااعتبار علم اصطلح۔ 21کفر اعتقاد کی اقسام اور سابقہ بیانات پر مولف کا کلم۔ 22چند آثار از صحابہ 2
23دوسرا شبہ:کہہ یہہ آیات مسلمانوں کےہ بارےہ میں نازل نہیں ہوئیں۔ 24اس شبہے کارد ّ اس طرح ک ہ مسلمان ان آیات ک ے حکم میں داخل ہیں دلئل کی روشنی میں ۔ 25سنت سے دلئل۔ 26علماءکے اقوال۔ 27دوسری فصل:شریعت کو تبدیل کرنےہ والےہ حکام کا شرعی حکم۔ 28تیسری فصل:مسلمانوں کے حالت حاضرہ پر ایک نظر۔
مقدمہ اس کتاب کا مقصد بندوں کے لئے قانون سازی کا اختیار اور حق صرف رب العباد کا ہی ہے یہ مسئلہ ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے اور ہمارے زمانے کا یہ خطرناک ترین مسئلہ ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ دورحاضر کے اہل حق کو بیان کرتے رہنا چاہئیے تاآنکہ ان کے دل مطمئن ہوجائیں کہ وہ اسی میدان میں برسرپیکار ہیں جن میں انبیاءورسل اور ان کے پیروکار اور ہر دور کے اہل حق مصروف عمل رہے ہیں۔ اور ی ہ ک ہ و ہ حالت حاضر ہ میں رونما ہون ے وال ے حادثات س ے ادراک کرلیں کہ حق وباطل کا یہ معرک ہ روز او ّل س ے ہ ی جاری وساری ہے 3
صرف وقت اور جگ ہ بدلت ے رہت ے ہیں مقاصد واہداف وہ ی رہت ے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ج َت ِنبُوا الطّاغُوتَ َف ِم ْنهُمْ مَنْ هَدَى الُّ َو ِم ْنهُمْ عبُدُوا الَّ وَا ْ َولَقَدْ َب َع ْثنَا فِي كُلّ ُأمّةٍ رَسُول أَنِ ا ْ ظرُوا َك ْيفَ كَانَ عَا ِقبَةُ ا ْل ُمكَ ّذبِينَ (النحل : عَليْهِ الضّللَةُ فَسِيرُوا فِي الرْضِ فَانْ ُ مَنْ حَ ّقتْ َ )٣٦ ہ م ن ے ہرامت میں پیغامبر بھیجا ۔جو کہتا ک ہ لوگوں الل ہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے دور رہو تو ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دےہ دی اور بعض پر گمراہ ی مسلط رہ ی تم زمین پر چل پھ ر کر دیکھ لو جھٹلنے والوں کا کیا انجام رہا ۔ نیز فرمایا: وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمين وکفی بربک ھادیا ونصيرا ہم نےہ مجرمین کو ہر نبی کا دشمن بنایا اور تیرارب ہی ہدایت ونصرت کے لئے کافی ہے ۔ نیز فرمایا: ص ْينَا بِهِ ِإ ْبرَاهِيمَ َومُوسَى ح ْينَا ِإَل ْيكَ َومَا َو ّ شرَعَ َلكُمْ مِنَ الدّینِ مَا وَصّى بِهِ نُوحًا وَالّذِي َأوْ َ َ ج َتبِي ش ِركِينَ مَا تَدْعُوهُمْ ِإَليْهِ الُّ یَ ْ علَى ا ْلمُ ْ وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدّینَ وَل َتتَ َفرّقُوا فِيهِ َك ُبرَ َ ن یَشَا ُء َو َیهْدِي ِإَليْهِ مَنْ ُینِيبُ (الشوری)١٣: ِإَليْهِ مَ ْ تمہار ے لئ ے اسی دین کو شریعت بنایا جس کا تاکیدی حکم نوح کو دیا اور جسے تیری طرف وحی کیا اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم ، موسیٰ وعیسیٰ کو دیا کہ تم دین قائم رکھو اور اس میں اختلف نہ ڈالومشرکین پر تمہاری دعوت گراں ہےہ اللہہ اپنی طرف س ے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے اور جو پلٹے اسے اپنی طرف راہ دکھاتا ہے۔ نیز فرمایا: وکذلک نقص عليک من انباء الرسل ما نثبت بہہ فؤادک وجاءک فی ھذہہ الحق و موعظۃ وذکری للمؤمنين ہم ایسے ہی تجھ پر رسل کے قصے بیان کرتے ہیں جن کے ذریعے ہم تیرا دل بڑھات ے ہیں اور اس میں تیر ے پاس حق ،موعظت آچکا اور اہل ایمان کے لئے نصیحت ۔ نیز فرمایا: تلک من انباء الغيب نوحيھا اليک ما کنت تعلمھا انت ول قومک من قبل ھذا فاصبر ان العاقبۃ للمتقين. ان غیب کی خبروں کو ہ م تیری طرف وحی کرت ے ہیں جنہیں اس سے قبل نہ توجانتا تھا اور نہ ہی تیری قوم توصبر کیے رہ بالخر انجام متقین کے لئے ہے ۔ نیز فرمایا: 4
قالوا یا شعيب اصلتک تامرک ان نترک ما یعبد اباؤنا او ان نفعل فی اموالنا ما نشاء انک لنت الحليم الرشيد. ا ے شعیب کیا تیری نماز تج ھ س ے کہتی ہے ک ہ ہ م اسےہ ترک کردیں جسے ہمارے آباءپوجتے رہے یا یہ کہ ہم اپنے اموال میں جو چاہیں کرتے رہیں تو تو خود ہی عقلمند اور سمجھ دار ہے۔ قرآن کریم اپنےہ وسیع ،واضح اور جامع تناظر میں اس مرکزی مسئلے کے حق وباطل کے اس معرکے کے تمام اطراف پر اظہارکی ترغیب د ے رہ ا ہے جو رسول اللہ ک ے دور میں ہمیش ہ جاری رہ ا اور اسے ایسے ہی دیگر ادوار کے ساتھ مربوط کررہا ہے۔ارشاد فرمایا: وما ارسلنا من رسول ال ليطاع باذن اللہ ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاء وک فاستغفروا اللہہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہہ توابا رحيماً ،فل وربک ل یؤمنون حتی یحکموک فيما شجر بينھم ثم ل یجدوا فی انفسھم حرجاً مما قضيت ویسلموا تسليماً. ہ م نےہ ہ ر رسول کو اسی لئےہ بھیجا کہہ اللہہ کےہ حکم سےہ اس کی اطاعت کی جائے اور جب لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کربیٹھیں پھر وہ الل ہ س ے بخشش مانگیں اور رسول بھ ی ان ک ے لئ ے بخشش مانگے تو وہ ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے وال اور رحم کرنے والپائیں ۔آپ ک ے رب کی قسم ی ہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں جب تک آپ کو اپنےہ اختلف میں فیصل نہہ مانیں پھ ر اپنےہ اپنےہ دلوں میں آپ کے فیصلے پر تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پوری طرح قبول کرلیں۔ نیز فرمایا: ان انزلنا التوراۃ فيھا ھدی ونور یحکم بھا النبيون الذین اسلموا للذین ھادوا والربانيون والحبار بما استحفظوا من کتاب اللہ وکانوا عليہ شھداء فل تخشوا الناس واخشون ول تشتروا بآیاتی ثمناً قليلً ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلئک ھم الکافرون ،وکتبنا عليھم فيھا ان النفس بالنفس والعين بالعين والنف بالنف والذن بالذن والسن بالسن والجروح قصاص فمن تصدق ب ہ فھ و کفار ۃ ل ہ ومن لم یحکم بما انزل الل ہ فاؤلئک ھم الظالمون ،وقفينا علی آثارھ م بعيسی ابن مریم مصدقاً لما بين یدی ہ من التورا ۃ وآتينا النجيل فيہہ ھدی ونور ومصدقا لما بين یدیہہ من التوراۃہ وھدی وموعظۃہ للمتقين، وليحکم اھل النجيل بما انزل اللہ فيہ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلئک ھم الفاسقون ، وانزلنا اليک الکتاب بالحق مصدقاً لما بين یدی ہ من الکتاب ومھيمناً علي ہ فاحکم بينھم بما انزل الل ہ ول تتبع اھواء ھ م عما جاءک من الحق لکل جعلنا منکم شرع ۃ ومنھاجا ولو شاء اللہہ لجعلکم امۃہ واحدۃہ ولکن ليبلوکم فيما آتاکم فاستبقوا الخيرات الی اللہ مرجعکم جميعاً فينبئکم بما کنتم فيہ تختلفون۔ ہم نےہ توراة اتاری جس میں ہدایت ونور تھا اس کےہ مطابق فرمانبردار انبیاءیہود کےہ لئےہ فیصلےہ کرتےہ رہےہ اور رب والےہ اور علماءکیونک ہ ان س ے الل ہ کی کتاب کی حفاظت کا مطالب ہ کیاگیا تھا 5
اور وہ اس پر گواہ تھے تو تم لوگوں کا خوف نہ کرو اور صرف مجھ سے ڈرو اور میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت مت لو اور جو اللہ کے نازل کردہہ (قانون)کےہ مطابق فیصل ے ن ہ کریں تویہ ی لوگ کافر ہیں اور ہم نے ان پر فرض کردیا تھا کہ جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنک ھ ک ے اور ناک بدل ے ناک ک ے اورکان بدل ے کان ک ے اور دانت بدلے دانت ک ے اور زخموں میں قصاص ہے پھ ر جو اس ے صدق ہ کرد ے تو یہ اس کے لئے کفارہ ہے اورجو اللہ کے نازل کردہ (حکم ،دین)کے مطابق فیصلے نہ کریں تویہی لوگ ظالم ہیں اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے وال بناکر بھیجا اور اسے ہم نے انجیل دی جس میں ہدایت اور نور تھا جو اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والی تھی اور متقین کے لئے ہدایت ونصیحت تھ ی اور اہ ل انجیل کو چاہیئےہ کہہ اس کےہ مطابق فیصلےہ کریں جو اللہہ نےہ اس میں اتارا اور جو اللہہ کی نازل کردہ (شریعت )کے مطابق فیصلے نہ کریں تویہی فاسق ہیں اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی جو اپنے سے پہلی کتاب کی تصدیق کرن ے والی ہے اور اس پر نگران ہے سو آپ بھ ی لوگوں کے مابین اللہہ کےہ نازل کردہہ کےہ مطابق حکومت کریں اور ان کی خواہشات پر ن ہ چلیں اس حق کو چھوڑ کر جو آپ کی طرف آچکا تم میں س ے ہرایک ک ے لئ ے ہ م ن ے شریعت اورمنہاج بنایا اور اگر اللہ چاہتاتو تم سب کو ایک ہی امت بنادیتا لیکن (ایسا نہیں کیا)تاکہ تمہیں اس میں آزماسکےہ جو کچھہ اس نےہ تمہیں عطا کیا توتم نیکیوں میں ایک دوسر ے س ے آ گ ے بڑ ھ جاؤ تم سب کو الل ہ ہ ی کی طرف پلٹ جانا ہے پھرو ہ تمہیں تمہار ے آپس ک ے اختلف ک ے متعلق بتائے گا ۔ قارئین پوچھتےہ ہیں کہہ آپ حاکمیت کےہ عنوان پر مزید کیوں لکھنا چاہتےہ ہیں اور متقدمین ومتاخرین علماءودعاۃ کی اس موضوع پر قدیم وجدید مستقل وشامل تالیفات میں مزید اضافہہ کیوں چاہتے ہیں؟یہہ سوال قاری اور کاتب دونوں کےہ لئےہ اہ م ہےہ کیونکہہ اس کا جواب ہ ی اس دور میں اس عنوان پر اس کتاب کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرسکے گا ۔ کاتب ومولف ومصنف کا مقصد ی ہ نہیں ہے ک ہ اس خطرناک مسئلے پر وہ ی باتیں دہراد ے جو اس س ے قبل افاضل علماءلکھت ے رہے اس بنیاد پر کہ یہ ہر دور میں خطرناک مسئلہ رہا ہے یہ عقیدے کے مسائل میں بنیادی مسئلہہ ہےہ اسی کی وجہہ سےہ کتب نازل کی گئیں 6
انبیاءمبعوث کئےہ گئےہ اور اہل حق وباطل کےہ مابین اسی لئے دشمنیاں پیدا ہوئیں اور جہاد شروع ہوا اور یہہ مقصد بھ ی نہیں کہ سابق ہ کتب میں ایک اور کتاب کا اضاف ہ کرد ے بلک ہ مندرج ہ ذیل چند امور کی وضاحت مقصود ہے۔ ہماری امت پر دشمن صلیبی یہودی کا مسلط کردہہ معرکہ 1 (ماضی تاحال)صرف عسکری اور اقتصادی محاذ پر نہیں بلکہ فکری ،تہذیبی اور معاشرتی محاذ پر بھ ی ہے ی ہ عقید ے کی جنگ ہے خاص کر اس مسئل ے پر ک ہ حاکمیت کس کی ہوی ہ اس امت کی شریعت کامعرکہ ہے اور اپنے اثرات ونتائج کے اعتبارسے زیادہ خطرناک ہے جو اس امت کی حالت بدل کررک ھ د ے گا حالنکہ یہ آخری امت ہے ع َلَم توحید کی حامل ہےہ لوگوں پر گواہہ ہےہ امر بالمعروف اورنہ ی عن المنکر ک ے فریض ے سر انجام دین ے والی ہے ی ہ معرکہہ اس امت کی حالت ایسی ٹکڑی میں بدل دے گا جو بہت جلد تباہ وبرباد ہونے والی ہو ۔ اس معرکےہ میں ہمارےہ دشمن ایک دوسرےہ کےہ اس قدر 2 مضبوط حلیف ہیں جو صرف عسکری ٹولیوں ،قرض دینےہ والے بینکوں،لٹیری کمپنیوں پر انحصارنہیں کرتےہ بلکہہ ہمارےہ علقوں اور معاشروں میں ظالم حکام ،رائٹرز،مفکرین ،اور غاصب ججوں کی صور ت میں داخل ہوچکےہ ہیں اور ان سب سےہ بڑھہ کر درباری ملؤں اور جدید مرجئہ کی خطرناک صورت میں ۔ ی ہ کتاب داخلی اور خارجی دشمنوں ک ے رابطوں،ان ک ے مقاصد اور آل ہ کاروں کا انکشاف کر ے گی ”،ی ہ کتاب بندوں پر قانون سازی کا اختیار صرف اللہہ کےہ پاس ہےہ “اس کےہ اطراف میں ہونےہ والی کشمکشوں کا تعین کرےہ گی ،ان لوگوں کوبےہ نقاب کرےہ گی جو اسلم کے دشمن ہیں ان لوگوں کے لبادے اوڑھے ہوئے ہیں جو مسئلہ ن اسلم صلیبیوں ،یہودیوں اور ان کےہ دوست حاکمیت کو دشمنا ِ مسلم علقوں ک ے حکام ک ے مفادات ک ے مطابق پیش کرت ے ہیں اللہ حق سبحانہ نے فرمایا: واذا رایتھم تعجبک اجسامھم وان یقولوا تسمع لقولھم کانھم خشب مسندۃ یحسبون کل صيحۃ عليھم ھم العدو فاحذرھم قاتلھم اللہ انی یؤفکون. اور جب توانہیں (منافقین کو)دیکھےہ تو ان کےہ جسم تجھےہ تعجب میں ڈال دیت ے ہیں اور اگر و ہ کچ ھ کہیں تو تو ان کی بات سنتا ہے گویا و ہ لکڑیاں ہیں گڑی ہوئی و ہ ہ ر چیخ (ناگہانی مصیبت )کو اپنے
7
خلف سمجھتے ہیںیہی تو دشمن ہیں ان سے بچئیے گا اللہ انہیں ہلک کردے کہاں پھیرے جاتے ہیں ۔ یہ ہے اس کتاب کا ہدف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضامندی معرکہ حق وباطل میں اہل حق کو ان کےہ اور ان کےہ دشمنوں کےہ نشانات دکھانا کہ خلق پر حکم صرف رب البشر کا ہی چلنا چاہیئے انہیں انہی کے درمیان رہنے والی دشمنوں کی تیز آنکھوں سے بچانا،اور ان کی صفوں میں رذیل دنیا کی حصول کی خاطر انتشار پیدا کرک ے انہیں صلیبیوں اور یہود کے ہ لشکروں کے ہ لئے ہ لقمہ ہ تر بنانے ہ کی کوششیںکرنے والوں سے باخبرکرنا۔ اس کتاب میں اگر کچھ خیر ہے تووہ سراسرمنجانب اللہ ہے اور کچھ کوتاہی ہے تووہ مؤلف اور شیطان کی طرف سے ہے ۔ میرا مقصد اصلح ہے جس قدر ممکن ہو اور اللہ توفیق دینے وال ہے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمد ّللٰہ رب العالمین وصلی اﷲ علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وسلم ڈاکٹر ایمن الظواہری جمادی الخری 1424ہجری اگست 2003ء
8
فصل اول
صرف اللہ کی طرف تحاکم (فیصلہ کروانے کے لئے جانا)واجب ہے اس کے مختصر شرعی دلئل اللہہ کی طرف فیصلہہ لےہ جانا اور اس کی کتاب میں نازل کردہ شریعت اور اس کےہ نبی کی سنت کی طرف اس امر کےہ عقیدہ توحیدکے بنیادی رکن ہونے اور ہر دور میں حق اور باطل کے معرکے کی بنیاد دین اسلم ک ے اسی بنیادی رکن پرہون ے ک ے شرعی دلئل جو ایک دوسر ے کو مضبوط کرت ے ہیں بہ ت ہیں ک ہ حکم اور قانون سازی کا حق کسےہ ہے؟صرف اللہہ وحدہہ سبحانہہ کو ہے؟یا اس کے سوا دیگر انداد وشرکاءکے پاس ہے؟ دورحاضر کا معرکہہ اسلم اسی مسئلےہ کےہ ارد گرد گھومتا ہےہ ، حامیان ودشمنان اسلم باہ م اسلم ک ے اسی بنیادی رکن پر کشت وگریباں ہیں،ایمان کی اسی اصل بنیاد ک ے متعلق ہ ی عصر حاضر کی اسلمی تحریک اپنےہ ہدف تمک ّن اسلم کی طرف پیش قدمی کرتی ہے یا پیچھے ہٹتی ہے ،ہ م یہاں اسلم ک ے اس بنیادی رکن کے دلئل ذکر کریں گےہ تاکہہ حامیان ودشمنان اسلم کےہ مابین جاری اس معرک ے کی موجود ہ صورتحال کا جائز ہ لیا جاسک ے یعنی اسلم وایمان اور کفر وشرک کا معرک ہ ،الل ہ حق سبحان ہ ک ے لئ ے اس کی مخلوق پر قانون سازی کو تسلیم کرنے اور اس کے سوا بنائے جانے والے وضعی قوانین کا معرکہ ۔
قرآنی دلئل عمُونَ َأ ّنهُمْ آ َمنُوا ِبمَا ُأ ْنزِلَ ِإَل ْيكَ َومَا ُأ ْنزِلَ مِنْ َق ْبِلكَ ُیرِیدُونَ أَنْ َألَمْ َترَ ِإلَى الّذِینَ َیزْ ُ ضّلهُمْ ضَلل َبعِيدًا شيْطَانُ أَنْ ُی ِ َیتَحَا َكمُوا ِإلَى الطّاغُوتِ وَقَدْ ُأ ِمرُوا أَنْ َیكْ ُفرُوا بِهِ َو ُیرِیدُ ال ّ ع ْنكَ (َ )٦٠وإِذَا قِيلَ َلهُمْ َتعَاَلوْا ِإلَى مَا َأ ْنزَلَ الُّ َوِإلَى الرّسُولِ َرَأ ْیتَ ا ْل ُمنَافِقِينَ َیصُدّونَ َ 9
حلِفُونَ بِالِّ إِنْ صُدُودًا (َ )٦١ف َك ْيفَ إِذَا َأصَا َب ْتهُمْ ُمصِيبَةٌ ِبمَا قَ ّد َمتْ َأیْدِیهِمْ ثُ ّم جَاءُوكَ یَ ْ ظهُمْ ع ْنهُمْ وَعِ ْ عرِضْ َ َأرَ ْدنَا إِل إِحْسَانًا َو َتوْفِيقًا ()٦٢أُوَل ِئكَ الّذِینَ َی ْعلَمُ الُّ مَا فِي ُقلُو ِبهِمْ فَأَ ْ س ْلنَا مِنْ رَسُولٍ إِل ِليُطَاعَ بِإِذْنِ الِّ َوَلوْ َأ ّنهُمْ إِذْ سهِمْ َقوْل َبلِيغًا (َ )٦٣ومَا َأرْ َ وَقُلْ َلهُمْ فِي َأنْفُ ِ س َتغْ َفرَ َلهُمُ الرّسُولُ َلوَجَدُوا الَّ َتوّابًا َرحِيمًا ( س َتغْ َفرُوا الَّ وَا ْ سهُمْ جَاءُوكَ فَا ْ ظَلمُوا َأنْفُ َ َ حرَجًا سهِمْ َ جرَ َب ْي َنهُمْ ثُمّ ل یَجِدُوا فِي َأنْفُ ِ ح ّكمُوكَ فِيمَا شَ َ حتّى یُ َ )٦٤فَل َو َر ّبكَ ل ُی ْؤ ِمنُونَ َ سلِيمًا (النساء)٦٥: سّلمُوا تَ ْ ض ْيتَ َویُ َ ِممّا َق َ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا زعم ہے کہ وہ ایمان لے آئے اس پر جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو آپ س ے پہلوں کی طرف نازل کیا گیا وہہ چاہتےہ یہہ ہیںکہہ طاغوت کی طرف فیصلہہ لے جائیں حالنکہہ انہیں حکم دیاگیا ہےہ کہہ اس کےہ ساتھہ کفر کریں اور شیطان چاہتاہے ک ہ انہیں دور کی گمراہ ی میں لپھینک ے اور جب ان س ے کہاجاتا ہے ک ہ آؤ اس کی طرف جو الل ہ ن ے نازل کیا اور رسول کی طرف تو آپ منافقین کو دیکھیں گے کہ وہ آپ سے رک جاتے ہیں پھرکیسے جب انہیں ان کے اعمال کے سبب مصیبت پہنچتی ہے وہ آپ کےہ پا س آتےہ ہیں اللہہ کی قسمیں کھاتےہ ہیں کہہ ہمارا ارادہہ محض احسان اورموافقت کا تھ ا یہ لوگ الل ہ جانتا ہے جو ان ک ے دلوں میں ہے آپ ان سے اعراض کریں اور انہیں نصیحت کریں اور ان سے ان ک ے متعلق کام کی بات کہیں اورہ م ن ے ہ ر رسول اس لئ ے بھیجا کہ اس کی فرمانبرداری کی جائےہ اور وہہ جب اپنےہ نفسوں پر ظلم کربیٹھیں پھر آپ کےہ پاس آئیں پھر اللہہ سےہ استغفار کریں اور رسول بھی ان ک ے لئ ے استغفارکر ے توو ہ الل ہ کو توب ہ قبول کرن ے اور رحم کرن ے وال پائیں گ ے ۔آپ ک ے رب کی قسم و ہ مومن نہیں جب تک آپ کو اپنے اختلفات میں حاکم (فیصلہ کرنے وال)نہ مان لیں پھر آپ کےہ فیصلےہ پر اپنےہ دل میں تنگی بھ ی محسوس نہہ کریں اور پوری طرح قبول کرلیں۔ ابن جریر طبری ان آیات کی تفسیر میں فرماتےہ ہیں :اس 1 سے الل ہ تعالیٰ کی مراد ہے کہ اے محمد( )کیا آپ اپنے دل سے نہیں جانتےہ کہہ یہہ وہہ لوگ ہیں جو یہہ زعم کرتےہ ہیں کہہ وہہ اس کتاب کی تصدیق کرتےہ ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہےہ او رجو آپ سےہ پہلےہ نازل کی گئی اس پر ایمان رکھتےہ ہیں اور اپنےہ جھگڑے طاغوت ک ے پاس فیصل ہ کرن ے لئ ے ل ے جانا چاہت ے ہیں یعنی اس کی 10
طرف جس کی و ہ واقعی تعظیم کرت ے ہیں اور اس کی بات مانتے ہیں اور اللہہ کےہ فیصلےہ کےہ بغیر اس کےہ فیصلےہ پر راضی ہوجاتے ہیں[وَقَدْ ُأ ِمرُوا أَنْ َیكْ ُفرُوا بِهِ]حالنک ہ انہیں حکم دیاگیا ہے ک ہ اس ک ے ساتھ کفرکریں یعنی اللہہ نےہ انہیں حکم دیا کہہ جس طاغوت کےہ پاس وہ فیصل ے ک ے لئ ے جات ے ہیں وہہ طاغوت جو فیصلہہ ان کےہ پاس لئ ے وہ اس کی تکذیب کریں پس انہوں نے اللہ کے حکم کو چھوڑکر شیطان کے حکم کومان لیا۔(تفسیر طبری)5/152: شیخ السلم ابن تیمیہ فرماتے ہیں:طاغوت طغیان سے مشتق 2 ُ ہےہ فَعلوت کےہ وزن پر جس طرح ملکوت ملک سےہ مشتق ہے فعلوت ک ے وزن پر اور رحموت رحم س ے اور رھبوت رھبۃ س ے اور رغبوت رغبۃ سےہ مشتق ہیں ۔اور طغیان (سرکشی )کہتےہ ہیں حد سےہ گزرجاناظلم وبغاوت کابھی یہی معنی ہےہ چنانچہہ ہروہہ معبود جس کی اللہہ کےہ سوا عبادت کی جاتی ہ و اگر وہہ اسے(یعنی اپنی عبادت) ناپسند نہیں کر ے گا توو ہ بھ ی طاغوت ہے اسی لئ ے نبی نے بتوں کو طواغیت (طواغیت کی جمع)قرار دیا جیسا کہ صحیح حدیث میں ہےہ فرمایا”:ویتبع من یعبدالطواغیت الطواغیت“یعنی طواغیت مطَاع یعنی جس کی اللہ کی کا عابد طواغیت کی اتباع کرتا ہے ۔اور ُ نافرمانی میں اطاعت کی جائ ے یا و ہ مطاع جس کی ہدایت و دین حق میں اطاعت کی جائےہ برابر ہے کہہ اس کی اللہہ کی کتاب کی مخالف خبر مقبول ہ و یا اس ک ے الل ہ ک ے حکم ک ے مخالف حکم کی اطاعت کی جاتی ہووہہ طاغوت ہےہ چنانچہہ جس حاکم کی طرف تحاکم کیا جاتا ہے یعنی فیصلے کے لئے اس کے پاس جایا جاتا ہے اور وہہ اللہہ کی کتاب کےہ بغیر فیصلہہ کرتا ہےہ تو وہہ طاغوت ہے۔ہ (کتب ورسائل وفتاوی ابن تیمیۃ فی الفقہ )28/220،201: استاذ شہید سید قطب ان آیات کی تفسیر میں فرماتے 3 ہیں:ایمان کی شرط ،اسلم کی حد،امت اسلمیہہ کےہ بنیادی نظام اور اس ک ے منہ ج قانون سازی اور اس کے اصول سے متعلق قاعدہ کلیہ کے اختتام پر....اﷲان لوگوں کی طرف متوجہ ہوا جو اس قاعدے سےہ انحراف برتتےہ ہیں پھر اس کےہ بعد بھی مومن ہونےہ کاگمان کرتے ہیں حالنکہ وہ ایمان کی شرط اور اسلم کی حد ہی توڑ ڈالتے ہیں جب وہ اللہ کی شریعت کے سوا طاغوتوں کی طرف فیصلے کے لئے جاتے ہیں حالنک ہ انہیں حکم یہ ہے ک ہ اس کے ساتھ کفر کریں اللہ ان کی طرف اس لئے متوجہ ہوا تاکہ ان کا رد ّ کرسکے اور انہیں اور ان جیسےہ دیگر افراد کو شیطان کےہ ارادہہ گمراہی سےہ ڈرا اور 11
بچاسکےہ جو شیطان ان کےہ سات ھ کرچکا ہے اور تاکہہ ان کی حالت بیان کرسک ے ک ہ جب انہیں اس چیز کی طرف دعوت دی جاتی ہے جو اللہ نے نازل کی اور رسول کی طرف تو وہ رک جاتے ہیںاس رک جانےہ کو نفاق سےہ تعبیر کیا گیا جیسےہ ان کےہ طاغوت کی طرف فیصل ہ ل ے جان ے کو ایمان س ے خروج گردانا گیا بلک ہ اس ے اسلم میں دخول ہ ی نہیں مانا گیا اور عدم سےہ تعبیر کیا گیا ....اور قطعی اختتام الل ہ سبحان ہ ک ے رسولوں کی بعثت س ے متعلق ارادے پر کیاگیا و ہ ی ہ ک ہ ان کی اطاعت کی جائ ے اس ک ے بعد ایک مرتب ہ پھ ر قطعی نص صریح ک ے سات ھ ایمان کی شرط اور اسلم کی حد کو لیا گیا .... عمُونَ َأ ّنهُمْ آ َمنُوا ِبمَا ُأ ْنزِلَ ِإَل ْيكَ َومَا ُأ ْنزِلَ مِنْ َق ْبِلكَ ُیرِیدُونَ أَنْ َألَمْ َترَ ِإلَى الّذِینَ َیزْ ُ ضّلهُمْ ضَلل َبعِيدًا شيْطَانُ أَنْ ُی ِ َیتَحَا َكمُوا ِإلَى الطّاغُوتِ وَقَدْ ُأ ِمرُوا أَنْ َیكْ ُفرُوا بِهِ َو ُیرِیدُ ال ّ (النساء)٦٠: کیا آپ ن ے ان لوگوں کو نہیں دیکھ ا جن کا زعم ہے ک ہ و ہ ایمان لے آئے اس پر جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو آپ سے پہلوں کی طرف نازل کیاگیا وہہ چاہتےہ ہیں کہہ طاغوت کی طرف فیصلہہ لے جائیں حالنکہہ انہیں حکم دیاگیا ہےہ کہہ اس کےہ ساتھہ کفر کریں اور شیطان چاہتاہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں لپھیکے۔ توکیا اس تعجب انگیز بات کی طرف دھیان نہیں دیتا ک ہ ایک قوم ایمان کا گمان رکھتی ہے پھ ر اسی لمح ے اس گمان کو پاش پاش کردیتی ہے؟ایک قوم جن کا زعم ہے ک ہ و ہ اس پر ایمان رکھت ے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیاگیا اور جو آپ سے پہلوں کی طرف نازل کیا گیا اس کی طرف فیصلہ نہیں لے جاتے درحقیقت وہ چاہتے ہیں کہ کسی اور شئے کسی اور منہج کسی اور حاکم کی طرف فیصلہ لے جائیں وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کے پاس فیصلے لے جائیں جونہ تو اس س ے استفاد ہ کر ے گا جو آپ کی طرف اتارا گیا اور ن ہ ہ ی اس سے جو آپ سےہ پہلوں کی طرف اتاراگیا اس کےہ پاس کو ئی ضابطہ ومیزان نہیں جس کا تعلق نازل کرد ہ وحی س ے ہ و آپ کی طرف یا آپ س ے پہلوں کی طرف اسی لئ ے تو و ہ طاغوت ہے ک ہ الوہیت کے صے کامدعی ہے اور کسی مضبوط ضابطے صوں میں سے ایک خا ّ خا ّ کا پابندنہیں ہے یہ وہ جہالت کی بناءپر نہیں کررہے ہیں نہ وہم میں ہیں بلک ہ یقین ومعرفت س ے ایسا کررہے ہیں ک ہ اس طاغوت کی طرف فیصل ہ کروان ے ک ے لئ ے جانا حرام ہے اور انہیں اس ک ے سات ھ کفر کا 12
حکم دیاگیا ہے لہٰذا معاملہ جہالت یا وہم کا نہیں ہے بلکہ قصد وعمد کا ہے اسی لئے یہ زعم کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں جو آپ کی طرف یا آپ سےہ پہلوں کی طرف وحی کی گئی ناپائیدار ہےہ درحقیقت شیطان انہیں ایسی گمراہ ی میں مبتل کرنا چاہتا ہےہ جس سےہ وہ پلٹ نہہ سکیں ....اللہہ کےہ منہ ج وشریعت کی طرف فیصلہہ لےہ جانے سے بیزار لوگوں کا ہمیشہ ہی یہ دعویٰ رہا ہے وہ اس بناءپر پیدا ہونے والی مشکلت ،عتابات اور تنگیوں س ے بچنا چاہت ے ہیں اور مختلف عناصر ،رجحانات وعقائد کےہ مابین اتحاد چاہتےہ ہیں ایمان کا زعم رکھن ے والوں ک ے پاس یہ ی حجت ہوا کرتی ہے حالنک ہ و ہ مومن ہیں ہ ی نہیں ی ہ ایمان کا لباد ہ اوڑھے ہوئ ے منافقین کی دلیل ہے جو و ہ ہر دور میں پیش کرت ے آئ ے ہیں ....لیکن اس سب س ے پہل ے ہ ی بنیادی قاعدے کا تقرر ہوچکا ہے کہ اللہ نے انبیاءورسل اس لئے بھیجے تاکہ ان کی اطاعت کی جائ ے ن ہ کہ ان ک ے حکم کی مخالفت کی اور ن ہ اس لئے کہ وہ محض واعظ اور رہبر ہی ہیں۔ س َتغْ َفرُوا سهُمْ جَاءُوكَ فَا ْ ظَلمُوا َأنْفُ َ س ْلنَا مِنْ رَسُولٍ إِل ِليُطَاعَ بِإِذْنِ الِّ َوَلوْ َأ ّنهُمْ إِذْ َ َومَا َأرْ َ س َتغْ َفرَ َلهُمُ الرّسُولُ َلوَجَدُوا الَّ َتوّابًا رَحِيمًا (النساء)٦٤: لّ وَا ْ ا َ اور ہم نے ہر رسول اسی لئے بھیجاکہ اس کی اطاعت کی جائے اور جب وہ اپن ے نفسوں پر ظلم کر بیٹھیں پھ ر و ہ آپ ک ے پاس آئیں پھر اللہ سے استغفار کریں اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے اور رحم کرنے وال پائیں گے ۔ یہ بڑی وزنی حقیقت ہے کہ رسول صرف واعظ نہیں ہوتا کہا اور چل دی ے ک ہ بلدلیل من مانی کی جائ ے جیسا ک ہ رسل او دینی مزاج کے متعلق دھوک ے باز یہ ی کہت ے ہیں اور دین ک ے اصل معنی س ے ناواقف لوگ یہ ی سمجھتےہ ہیں دین زندگی کا منہ ج ہےہ حقیقتا ً واقعتا اپنی تمام اشکال،انتظامات،حالت،اقدار ،اخلق وآداب اور عبادات ورسوم وغیر ہ میں ۔اس کا تقاضاہے ک ہ رسالت ک ے لئ ے ایسی دلیل ہونی چاہئی ے جو منہ ج کو ثابت کرد ے اور نفوس اس ک ے سامن ے سر تسلیم خم کرلیں اسے نافذ کردیں........اللہ نے رسل اس لئے بھیجے ک ے الل ہ ک ے حکم س ے حدود شریعت میں رہت ے ہوئ ے ان کی اطاعت کی جائے تاکہ دین کو ثابت کیا جاسکے اللہ کے اس منہج کو جس کے ذریعے وہ زندگی کی سمت درست کرنا چاہتا ہے اور اللہ نے ہر رسول اس لئ ے بھیجا ک ہ اس ک ے حکم س ے اس کی اطاعت کی جائ ے اس کی اطاعت اللہہ کی اطاعت ہوجائےہ رسول کو صرف جذباتی تاثر 13
دین ے یاعبادات کا طریق ہ سکھان ے ک ے لئ ے نہیں بھیجا ایسا سوچنا فہم دین میں وہ م ہےہ جو اللہہ کی انبیاءکو بھیجنےہ کی حکمت سےہ میل نہیں کھاتا وہ حکمت یہ ہے کہ واقعتا زندگی کے منہج معین کو کھڑا کیا جائ ے ۔ورن ہ اگر رسول صرف واعظ کی حیثیت س ے آئ ے وعظ کرے اور چل د ے تو دنیا ک ے لئ ے اس س ے بڑ ھ کر اور کیا آسان ہے،فریفتہ ہونےہ والےہ اس پر فریفتہہ ہوجائیں گےہ اور بوسیدہہ کرنےہ والےہ اسے بوسیدہہ کردیں گےہ ۔اسلمی تاریخ میں دعوت وبلغ ہےہ نظام وحکومت ہے رسول اللہ کے بعد ایسی خلفت ہے جو شریعت ونظام اسلم کو بزور قوت قائم ونافذ کرتی تاکہ ہمیشہ رسول کی اطاعت کی جائے اور اللہ نے جس ارادے کے تحت رسول بھیجا اسے پورا کیا جائےہ اس کےہ علوہہ کسی اور صورت کو اسلم یا دین نہیں کہا جاسکتا صرف ایک ہی صورت کہہ اطاعت رسول کی ہو حقیقی اطاعت ہر حالت ونظم میں کیونکہ حالت مختلف ہوتی رہتی ہے مگر اصل بنیاد اور حقیقت جس کے بغیر اس حالت کا وجود ناممکن ہے ثابت رہتی ہے کہ الل ہ ک ے منہ ج کو قبول کرنا اور رسول الل ہ ک ے منہج کو ثابت رکھنا شریعت کی طرف فیصلہہ لےہ جانا ابلغ وحی میں رسول کی اطاعت کرنا،اللہ کو الوہیت میں یکتا ماننا اور اسی بناءپر اس ے حاکمیت میں بھ ی تنہاءماننا ک ہ قانون سازی صرف الل ہ کا حق ہے اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ،چھوٹ ے بڑ ے کسی بھ ی امر میں طاغوت کی طرف فیصلہ نہ لے جانا ........آخر میں ایک قطعی حقیقت کا بیان ہےہ کہہ اللہہ سبحانہہ اپنی ذات ع ُلیا کی قسم کھ ا کر فیصل ہ دیتا ہے ک ہ کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ رسول کو اپنےہ ہ ر امر میں حاکم نہہ مان لےہ پھ ر آپ کےہ حکم پر راضی ن ہ ہوجائ ے اور آپ ک ے فیصل ے کی اطاعت ن ہ کر ے اور اس کے سینے میں کوئی تنگی و تردد بھی نہ رہے کہ اسے قبول کرے یانہیں حرَجًا ِممّا سهِمْ َ جرَ َب ْي َنهُمْ ثُ ّم ل یَجِدُوا فِي َأنْفُ ِ ح ّكمُوكَ فِيمَا شَ َ حتّى یُ َ فَل َو َر ّبكَ ل ُی ْؤ ِمنُونَ َ سلِيمًا (النساء)٦٥: سّلمُوا تَ ْ ض ْيتَ َویُ َ َق َ آپ ک ے رب کی قسم وہہ مومن نہیں ہوسکتےہ جب تک آپ کو اپنے اختلفات میں حاکم نہہ بنالیں پھ ر آپ کےہ فیصلےہ پر اپنےہ دل میں تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پوری طرح مان جائیں ۔ ہم ایک دفعہ پھر خود کو شرط ایمان اور حد اسلم کے سامنے کھڑا پات ے ہیں جس ے خود الل ہ ن ے مقرر کیا اور اس پر اپنی ذات ع ُلیا کی قسم کھائی اس کےبعد کسی کے لئے شرط ایمان اور حداسلم کی 14
تحدید سےہ متعلق کچھہ کہنےہ یا تاویل کرنےہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی سوائ ے منافی احترام جھگڑ ے ک ے اور و ہ ی ہ ک ہ ی ہ قول اپن ے دور ک ے لی ے تھ ا اور مخصوص طبق ے ک ے سات ھ خاص ہے ایسی بات وہی کہتا ہےہ جو اسلم کو بالکل نہہ سمجھتا ہواورنہہ ہ ی قرآن سےہ کچھ شغف رکھتا ہ و دراصل ی ہ اسلمی حقائق کی ایک کلی حقیقت ہے جو تاکیدی قسم کی صورت میں بیان ہوئی ہ ر طرح کی قید سے مکمل آزاد........جب اثبات اسلم ک ے لئ ے کافی ہے ک ہ لوگ الل ہ کی شریعت کی طرف فیصلے لے جائیں اور اس کے رسول کے حکم کی طرف تو ایمان کےہ لئےہ یہہ اس وقت تک کافی نہیں جب تک دلی وابستگی وہ م آہنگی اور قلبی واندرونی اسلم اطمینان کی حد تک حاصل نہہ ہوجائےہ ۔یہہ ہےہ ایمان واسلم ہ ر نفس غور کرےہ کہہ دعویٰ ایمان واسلم سےہ قبل وہہ ایمان واسلم کےہ کس مقام پر ہے۔ (الظلل)697-2/639: سَلمُوا ِللّذِینَ هَادُوا حكُمُ ِبهَا ال ّن ِبيّونَ الّذِینَ أَ ْ ِإنّا َأ ْن َز ْلنَا ال ّت ْورَاةَ فِيهَا هُدًى َونُورٌ یَ ْ 2 شوُا النّاسَ شهَدَاءَ فَل تَخْ َ عَليْهِ ُ س ُتحْفِظُوا مِنْ ِكتَابِ الِّ َوكَانُوا َ حبَارُ ِبمَا ا ْ وَال ّربّا ِنيّونَ وَال ْ حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ َفأُوَل ِئكَ هُمُ ا ْلكَا ِفرُونَ ( ش َترُوا بِآیَاتِي َث َمنًا َقلِيل َومَنْ لَمْ یَ ْ شوْنِ وَل تَ ْ وَاخْ َ ن النّ ْفسَ بِالنّ ْفسِ وَا ْل َعيْنَ بِا ْل َعيْنِ وَال ْنفَ بِال ْنفِ وَالذُنَ بِالذُنِ عَل ْيهِمْ فِيهَا أَ ّ َ )٤٤و َك َتبْنَا َ حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ جرُوحَ ِقصَاصٌ َفمَنْ َتصَدّقَ بِهِ َف ُهوَ كَفّا َرةٌ لَهُ َومَنْ لَمْ َی ْ وَالسّنّ بِالسّنّ وَالْ ُ علَى آثَارِهِمْ ِبعِيسَى ابْنِ َم ْریَمَ ُمصَدّقًا ِلمَا َبيْنَ یَ َدیْهِ مِنَ َفأُوَل ِئكَ هُمُ الظّاِلمُونَ ()٤٥وَقَ ّف ْينَا َ ال ّت ْورَاةِ وَآ َت ْينَاهُ النْجِيلَ فِيهِ هُدًى َونُورٌ َو ُمصَدّقًا ِلمَا َبيْنَ یَ َدیْهِ مِنَ ال ّت ْورَاةِ وَهُدًى َو َموْعِظَةً حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ َفأُوَل ِئكَ هُمُ حكُمْ أَهْلُ النْجِيلِ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ فِيهِ َومَنْ لَمْ یَ ْ ِل ْل ُمتّقِينَ (َ )٤٦و ْليَ ْ عَليْهِ الْفَاسِقُونَ (َ )٤٧وَأ ْن َز ْلنَا ِإَل ْيكَ ا ْل ِكتَابَ بِالْحَقّ ُمصَدّقًا ِلمَا َبيْنَ یَ َدیْهِ مِنَ ا ْل ِكتَابِ َو ُم َه ْي ِمنًا َ شرْعَةً ج َع ْلنَا ِم ْنكُمْ ِ عمّا جَا َءكَ مِنَ الْحَقّ ِلكُلّ َ حكُمْ َب ْي َنهُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ وَل َت ّتبِعْ أَ ْهوَاءَهُمْ َ فَا ْ خ ْيرَاتِ ِإلَى س َتبِقُوا الْ َ ج َعَلكُمْ ُأمّةً وَاحِ َدةً َوَلكِنْ ِل َي ْبُل َوكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَا ْ َو ِم ْنهَاجًا َوَلوْ شَاءَ الُّ لَ َ حكُمْ َب ْي َنهُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ وَل خ َتلِفُونَ (َ )٤٨وأَنِ ا ْ جمِيعًا َف ُي َن ّب ُئكُمْ ِبمَا ُك ْنتُمْ فِيهِ تَ ْ ج ُعكُمْ َ الِّ َمرْ ِ علَمْ َأ ّنمَا ُیرِیدُ َت ّتبِعْ أَ ْهوَاءَهُمْ وَاحْ َذرْهُمْ أَنْ یَ ْف ِتنُوكَ عَنْ َبعْضِ مَا َأ ْنزَلَ الُّ ِإَل ْيكَ َفإِنْ َت َوّلوْا فَا ْ الُّ أَنْ یُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنّ كَثِيرًا مِنَ النّاسِ لَفَاسِقُونَ (المائدۃ)٤٩:
15
ہم نےہ تورات اتاری جس میں ہدایت ونور تھا اس کےہ مطابق فرمانبردار انبیاءیہود کے ہ لئے ہ فیصلے ہ کرتے ہ رہے ہ اوررب والے علماءکیونکہ ان سے اللہ کی کتاب کی حفاظت کا مطالبہ کیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے تو تم لوگوں کا خوف نہ کرو اور صرف مجھ سے ڈرو میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو اور جو اللہ کے نازل کرد ہ (قانون)ک ے مطابق فیصل ہ ن ہ کریں تویہ ی لوگ کافر ہیں اور ہم نے ان پر فرض کردیا تھا کہ جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اورناک بدل ے ناک ک ے اورکان بدل ے کان ک ے اور دانت بدل ے دانت کے اور زخموں میں قصاص ہے پھ ر جو اس ے صدق ہ کرد ے تو ی ہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ( حکم ،دین)کے مطابق فیصلہ ن ہ کریں تویہ ی لوگ ظالم ہیں اور ہ م ن ے ان ک ے پیچھے عیسی ٰ ابن مریم کو اپنےہ سےہ پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنےہ وال بناکر بھیجا اور اسے ہم نے انجیل دی جس میں ہدایت اور نور تھا جو اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والی تھی اور متقین کے لئے ہدایت ونصیحت تھ ی اور اہ ل انجیل کو چاہیئےہ کہہ اس کےہ مطابق فیصلہہ کریں جو اللہہ نےہ اس میں اتارا اور جو اللہہ کی نازل کردہ( شریعت )کے مطابق فیصلہ نہ کریں تویہی لوگ فاسق ہیں اور ہم نے آپ کی طرف حق ک ے سات ھ کتاب نازل کی جو اپن ے س ے پہل ے کتاب کی تصدیق کرن ے والی ہے اور اس پر نگران ہے سوآپ بھ ی لوگوں ک ے درمیان الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکومت کریں اور ان کی خواہشات پر ن ہ چلیں اس حق کو چھوڑ کر آپ کی طرف آچکا تم میں س ے ہ ر ایک ک ے لئ ے ہ م ن ے شریعت اور منہاج بنایا اور اگر اللہ چاہتا توتم سب کو ایک امت بنادیتا لیکن (ایسا نہیں کیا)تاک ہ تمہیں اس میں آزماسکے جو کچھ اس نے تمہیں عطا کیا توتم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں تمہارے آپس کے اختلف کے متعلق بتائے گا اوریہ ک ہ آپ ان ک ے درمیان الل ہ کی نازل کرد ہ (وحی)ک ے مطابق حکومت کریں اور ان کی خواہشات پر مت چلیں اوران س ے اس بات سے ڈرتے رہیں کہ وہ آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں اس بعض کے متعلق جو اللہ نے آپ کی طرف نازل کیا پھر اگر وہ منہ موڑلیں تو یقین کرلیں کہ درحقیقت کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کی سزا دینا چاہتاہے اور اکثر لوگ نافرمان ہوتے ہیں۔ استاذ سید قطب ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں
16
اسی طرح مسئلہ واضح ہوگا ،ایک معبود ،ایک خالق ،ایک مالک اور پھ ر ایک ہ ی حکم ،ایک ہ ی قانون ساز ،ایک ہ ی بااختیار ،اورپھ ر ایک شریعت،ایک منہ ج ،ایک قانون،پھ ر اطاعت،اتباع وحکم الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق ی ہ ہے ایمان واسلم یا نافرمانی بغاوت اور الل ہ کے نازل کرد ہ ک ے بغیر حکم ،ی ہ کفر و ظلم وفسق ہے ....ی ہ و ہ دین ہے جس کاعہدالل ہ ن ے تمام بندوں س ے لیا ،یہ ی ہ ر رسول اس ک ے پاس سے لے کر آیا....امت محمدیہ ہو یا ماقبل کی دیگر امتیں ۔ ضروری ہےہ کہہ دین اللہہ ہ ی اللہہ کےہ نازل کردہہ کےہ مطابق حکم ہو اورکچھہ نہیں ۔یہی سلطان وحاکمیت وکلمہہ توحید لالٰہہ الاللہہ کا حقیقی مظہ ر ہے الل ہ ک ے دین اورالل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم کے مابین یہ تعلق وتلزم حتمی ہے اس کی نشاۃ صرف یہ نہیں کہ جو اللہہ نےہ نازل کیا وہہ انسانوں کےہ بنائےہ ہوئےہ منہ ج وقوانین اورنظام واصول س ے بہتر ہے ی ہ تو اس ضرورت کا صرف ایک سبب ہے پہل بنیادی سبب نہیں اس ضرورت کا پہل اور بنیادی قاعد ہ الل ہ ک ے نازل کردہ کے مطابق حکم ہے اللہ کی الوہیت کااقرار اور اس الوہیت اور اس کی صفات کی اس ک ے سوا ہ ر ایک سےہ نفی ہے ی ہ ہے اسلم لغوی معنی میں فرمانبرداری اصلحی معنی میں جیساکہہ تمام ادیان میں الل ہ ہ ی کی فرمانبرداری ہے اس ک ے سات ھ دعوی الوہیت سے یا الوہیت کی کسی صفت کے دعویٰ سے تجرد سب سے خاص صفت یعنی بادشاہت اور حاکمیت سےہ اور اس کی الوہیت کا اعتراف اور اسےہ اس الوہیت میں ایسا متفرد ماننا جو بندوں کو بادشاہ ت یا حاکمیت ک ے حق س ے دستبردار کرد ے مگر صرف اسے نافذ کرے۔ (الظلل )828-2/827: ایک اور مقام پر سید شہید رقمطراز ہیں :یہ ہ بیان عقیدہ اسلمیہ،منہ ج اسلم اور اسلمی نظام حکومت وحیات کےہ مسائل میں س ے خطرناک ترین مسئل ے پر مشتمل ہے اس مسئل ے کو اس سے قبل سورۃ آل عمران اور سورۃ النساءمیں بھی تفصیل ً بیان کیا جاچکاہے لیکن یہاں اس صورت میں ایک خاص محدود ومؤکد شکل ہے الفاظ وعبارات میں منصوص ہے مفہوم یا اشارے کے طور پر نہیں یہہ حکومت وشریعت اور فیصلےہ اور پھر الوہیت،توحیدوایمان کا مسئلہ ہے اور اس سوال کے جواب کا خلصہ ہے ۔ :کیا حکم وشریعت اور فیصل ہ جات الل ہ ک ے مواثیق ،معاہدات اور ان شرائع کے مطابق ہونے چاہئیں جن کی حفاظت کا مطالبہ اللہ نے آفاقیت کےہ امانت داروں سےہ یکےہ بعد دیگرےہ کیا اور رسولوں پر 17
اسے فرض کردیا اور ان پر بھی جو ان کے بعد اس کے ذمہ دار بنیں تاکہ ان کے نقش قدم پر چل سکیں؟ یا ی ہ سب دلی خواہشات،اور ان مصلحتوں ک ہ جنگل شریعت الٰہی سے کوئی تعلق نہ ہو اور کسی قوم یا اقوام کی طرف یا کسی اور تعبیر کے مطابق ہوناچاہیئے! کیا الوہیت وربوبیت زمین پر اور انسانی زندگی میں الل ہ ک ے لئ ے ہونی چاہیئ ے یا ی ہ سب یا ان میں س ے کچھ اس کی مخلوق ک ے لئ ے بھ ی ہے ک ہ و ہ لوگوں ک ے لئ ے اس ے قانون کا درجہ دے جسے اللہ نے نہ دیا ہو۔
ی ہ قرآنی سیاق سب س ے پہل ے کس بات کا فیصل ہ کرتا ہے! الل ہ کی طرف س ے نازل کرد ہ تمام ادیان حتمی طور پر یہ ی فیصلہ دیتے ہیں کہ حکم اللہ کے نازل کردہ کے مطابق اور زندگی کو اللہ کی شریعت کےہ مطابق ہونا چاہیئےہ اور یہہ کہہ ایمان وکفر اور اسلم وجاہلیت اور شریعت وخواہش کے مابین حد فاصل ہے توراۃ میں اللہ حبَارُ سَلمُوا ِللّذِینَ هَادُوا وَال ّربّا ِنيّونَ وَال ْ حكُمُ ِبهَا ال ّنبِيّونَ الّذِینَ أَ ْ نے نور وہدایت اتارا یَ ْ شهَدَاءَ ...اس ک ے مطابق فرمانبردار عَليْهِ ُ ستُحْفِظُوا مِنْ ِكتَابِ الِّ َوكَانُوا َ ِبمَا ا ْ انبیاء،رب والےہ ،اور علماءفیصلےہ کرتےہ رہےہ کیونکہہ ان سےہ اللہہ کی اسی کتاب کی حفاظت کا مطالب ہ کیا گیاتھ ا اور و ہ اس پر گوا ہ تھے [اور ان ک ے پاس تورات میں الل ہ کا حکم ہے ....اور ہ م ن ے اس میں ان پر فرض کردیا ک ہ نفس کےہ بدل ے نفس....الخ]اور انجیل اللہہ نے عیسیٰہ ابن مریم کودی جو تورات کی تصدیق کرتی اور ہدایت ونصیحت اور نور تھی [اور اہل انجیل کو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق حکم کریں جو اللہہ ن ے اس میں نازل کیا]اور قرآن الل ہ ن ے حق کے سات ھ اپن ے رسول پر اتارا جو پہلی کتاب کی تصدیق کرتا اور ان پر نگران ہے پھر آپ سے فرمایا[....سوآپ ان کے مابین اس کے مطابق حکم کریں جو الل ہ ن ے نازل کیا اور جو حق آپ ک ے پاس آیا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات پر مت چلیں][....اور جو لوگ اللہہ کے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم ن ہ کریں سو یہ ی لوگ کافر ہیں....ظالم ہیں....فاسق ہیں][کیاپس و ہ جاہلیت کا حکم چاہت ے ہیں ؟یقین کرنے والوں کےہ لئےہ اللہہ کےہ حکم سےہ زیادہہ اچھا حکم اور کیا ہوگا؟] ....تمام ادیان اس امر پر متفق ہیں ایمان کو شرط اور اسلم کی حد کو محکوم وحاکم سب ک ے لئے متعین کرتے ہیں ....اور حکام کا وہ حکم جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق ہو اور محکومین اس حکم کو مانتےہ ہوں اوراس کےہ سوا دیگر قوانین اوراحکام کےہ پیچھےہ نہ 18
لگتے ہوں یہ بنیاد ہے تو اس معنی میں یہ مسئلہ پر خطر ہے اور اس میں اسی جہ د س ے تشدد بھ ی خطرناک اسباب کا ذریع ہ ہے آپ کے خیال میں ی ہ اسباب کیاہیں؟اگر ہ م ان نصوص اور سیاق قرآن میں تلش کریں توبڑ ے واضح نظر آئیں گ ے ۔ ا س مسئل ے میں سب سے پہل اعتبار ہونا چاہیئے کہ : یہہ مسئلہہ اللہہ کی الوہیت وربوبیت اوربشر پر اس کی حکومت بلشرکت غیر ے کااقرار ہے اس اقرار س ے مفرنہیں چنانچ ہ ی ہ کفر یا ایمان اور جاہلیت یا اسلم کا مسئلہ ہے ۔
پورا کا پورا قرآن اس حقیقت کو پیش کرتا ہے: پہل اعتباراللہ کی الوہیت وربوبیت اور انسان پر اس کی حاکمیت کا ہے۔الل ہ ہ ی خالق ہے اس ن ے اس کائنات کو تخلیق فرمایا انسان کو پیدا کیا اس انسان ک ے لئ ے و ہ سب مسخر کردیا جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس اکیل ے ن ے ہ ی پیدا کیا الل ہ کا کوئی شریک نہیں نہ قلیل میں ن ہ کثیرمیں اور اللہہ ہ ی مالک ہےہ کیونکہہ اسی نےہ پیدا کیا آسمانوں زمین اور جو کچھہ ان کےہ درمیان ہےہ سب میں اس کی بادشاہ ت ہے و ہ اس ملکیت میں یکتا ہے اس کاکوئی شریک نہیں نہ کم میں نہ زیادہ میں ۔اللہ ہی روزی رساں ہے کوئی بھی اس کے سوا اپن ے یا اپن ے علو ہ ک ے رزق کا مالک نہیں ن ہ معمولی کا ن ہ بہ ت کا اللہ ہ ی کائنات اورانسانوں میں بااختیار صاحب سلطنت ہے کیونک ہ وہی خالق مالک ،رازق ہے اور قدرت وال ہے جس کے بغیر نہ خلق نہ رزق ن ہ نفع ن ہ ضرر ممکن ہے و ہ اکیل ہے اس کائنات کا بادشا ہ ہے اور ان صفات کو اللہہ کےہ لئےہ ثابت کرنےہ کانام ایمان ہےہ الوہیت،ملک ، سلطان وہہ ان میں تنہا ہےہ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسلم فرمانبرداری اور ان صفات کےہ تقاضوں کی اطاعت کانام ہے ....یعنی اللہ کو اس کائنات اور انسانی حیات میں الوہیت ور بوبیت وحکومت کے ساتھ متفرد ماننا اور اس کی بادشاہی اس کی قدرت کا اعتراف کرنا اس کی شریعت کا اعتراف کرنا تو اللہ کی شریعت کی فرمانبرداری کا معنی ہے اس کی الوہیت اور حکومت وسلطنت کا اعتراف کرنا یہہ سب سےہ پہلےہ ہےہ اور اس شریعت کی عدم فرمانبرداری اور زندگی کی کسی بھی جزئی میں اس کی شریعت کےہ سوا کسی اور شریعت کو اختیار کرنےہ کا معنی ہےہ اللہہ کی الوہیت وربوبیت وحکومت وسلطنت کے اعتراف سے کنارہ کش ہونا 19
ی ہ فرمانبرداری یا کنار ہ کشی اگرچ ہ زبانی ہ و عمل ً برابر ہے اس لئے ی ہ مسئل ہ کفر یا ایمان اور جاہلیت یا اسلم کا مسئل ہ ہے اسی لئ ے یہ ن ًّ صا آیا کہ : لّ فَأُوَل ِئكَ هُ ُم ا ْلكَا ِفرُونَ… .الظّاِلمُونَ ....الْفَاسِقُونَ حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ ا ُ َومَنْ لَ ْم یَ ْ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سو یہی لوگ کافر ہیں ....ظالم ہیں ....فاسق ہیں۔ دوسرا اعتبار اللہہ کےہ قانون کےہ تمام دیگر قوانین پر قطعا ً افضل ہونےہ کا ہے:اس افضلیت کی طرف اس درس کی دوسری آیت اشارہ کرتی ہے : أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيّةِ یَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ الِّ حُكْمًا لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ (المائدۃ )٥٠ اور یقین کرنے والوں کے لئے اللہ کا حکم سے بڑھ کر اچھا حکم کس کا ہوگا۔ ہرطور اور ہ ر حالت میں الل ہ کی شریعت کی افضلیت کا اعتراف بھی کفر وایمان کا مسئلہ ہے کسی انسان کے پاس یہ اختیار نہیں کہ و ہ مومن ومسلم ہون ے کا دعوی ٰ کر ے پھ ر کسی بھ ی طرح انسانی قانون کو اللہ کے قانون سے برتر یا برابر قرار دے ........اللہ کاقانون انسانی زندگی کے لئے کامل ومکمل افضل وبرترمنہج ہے جو انسانی زندگی ک ے تمام پہلوؤں اور تمام حالت اور صورتوں اور اشکال کو شامل ہےہ ۔عالم انسانی،انسانی ضروریات اور جس کائنات میں انسان زندگی بسرکررہاہے ان کی حقیقت سے متعلق علم مطلق پر قائم منہ ج ہے اور کائنات انسانی پر حکومت کرن ے وال ے اسرار کے متعلق علم مطلق پر قائم منہ ج ہے اسی لئ ے یہ انسانی زندگی میں کوتاہی نہیں برتتا اورنہ ہی اس سے انسانی زندگی کے متعلق کوتاہی کا امکان ہے ی ہ انسانی نشاط اور اسرار ک ے مابین تصادم پیدا نہیں کرتا بلکہ توازن،اعتدال ،توافق وتناسق پر قائم رہتا ہے یہ وہ امتیاز ہے جو کسی انسانی منہ ج میں ہرگز نہیں پایا جاتا کیونک ہ انسان صرف ظاہری پہلو دیکھتا ہے سوائ ے اس پہلو ک ہ مرور زمان ہ ک ے سات ھ ساتھ جو خود بخود منکشف ہوجائےہ اور ایسا منہج جس میں انسانی نادانی ک ے آثار شامل ہوں کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے جبکہ اس میں تصادم کا بھ ی خطرہہ ہےہ ۔اوّل ً یہہ عدل مطلق پر قائم منہ ج ہے کیونکہ یہ علم صرف اللہ کو ہے کہ عدل مطلق کس طرح ہوسکتا ہے اور ثانیاًیہ اللہ ہی سب کا رب ہے وہی سب کے ساتھ عدل کرسکتا ہے اوراپنا قانون ومنہج ہر طرح کی خواہش اور جانبداری کے بغیر پیش کرسکتا ہےہ کیونکہہ وہہ خود جہالت،کوتاہی اور افراط وتفریط سے 20
مبراءذات ہے۔یہہ امتیاز انسان کےہ بنائےہ ہوئےہ منہ ج میں ممکن نہیں کیونکہہ انسان خواہ ش رکھتا ہےہ جانبدار ہوجاتا ہےہ کمزور ہےہ نفس پرست ہے جو جہالت اور کوتاہی س ے بڑ ھ کر ہیں خواہ یہ منہ ج کسی ایک فرد کا بنایاہوا ہویا کسی طبق ے یا قوم کا ۔ی ہ اسرارکائنات سے مرتب ایک منہج ہے کیونکہ اس منہج کو پیش کرنے وال اس کائنات کا صانع ہے انسان کا صانع ہے۔یہ ی و ہ واحد منہ ج ہے جس میں انسان انسان کی بندگی سے آزاد ہوسکتا ہے اسلمی منہج کے سوا ہر منہج میں انسان انسان کی بندگی کرتا ہے و ہ منہ ج انسان کو انسان کا بندہہ بنادیتا ہےہ صرف اسلمی منہ ج ہ ی ہےہ جوانسان کو انسان کی عبادت سےہ نکال کر اللہہ وحدہہ لشریک لہہ کی عبادت میں داخل کردیتا ہے جیساکہ ذکر کرآئ ے ہیں کہ الوہیت کی سب س ے اہم صفت حاکمیت ہے اورجس قانون کو انسانوں کی جماعت بناتی ہے تو وہ قانون ان میں الوہیت کا درجہہ حاصل کرلیتا ہےہ اور الوہیت کے خصائص استعمال کرتا ہے اس طرح و ہ اس قانون ک ے بند ے ہوئ ے نہ کہ اللہ کے اور اس قانون کے دین کے پیروہوئے نہ کہ اللہ کے دین کے ۔ جبک ہ اسلم جب شریعت کو صرف الل ہ کا حق بتاتا ہے تو و ہ انسان کو انسان کی عبادت سے اکیلے اللہ کی عبادت میں داخل کردیتا ہے اور انسان کو آزاد کردیتا ہے بلکہ انسان کو نئی زندگی عطا کرتا ہے جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کی گردن اپنے جیسے انسان کے حکم سےہ آزاد ہوتی ہےہ اور اسی حالت میں وہہ تمام انسانوں کےہ ساتھ تمام انسانوں کےہ روبرو پیش ہوگا....اس درس کےہ نصوص پر مشتمل یہہ مسئلہہ عقیدےہ کا سب سےہ بڑا اورپرخطر مسئلہہ ہےہ یہ ومساوات،انسانی ،حریت وصلح وعبودیت،عدل الوہیت جل بلکہ ان سب سے بڑھ کر کفر یا ایمان اور جاہلیت آزادی،انسانی ِ یا اسلم کا مسئلہہ ہےہ ۔جاہلیت تاریخ کےہ کسی دورکانام نہیں بلکہ ایسی حالت کا نام ہےہ جو آن موجود ہوتی ہےہ جب بھ ی اس کے اسباب موجودہوں دراصل یہہ انسانی خواہشات کےہ مطابق قانون سازی اور حکومت کرنے کانام ہے نہ کہ اللہ کے قانون اور زندگی کے لئے ا س کے بنائے ہوئے نظام کی طرف رجوع کرنے کا۔ یہ خواہشات خواہ کسی ایک فرد کی ہوں یا کسی طبقے ،جماعت یا قوم کی جب اس کا مرجع اللہ کا قانون نہ ہویہ بہرحال خواہش ہی ہے ۔جب فرد جماعت ک ے لئ ے قانون بنائ ے توی ہ جاہلیت ہے کیونک ہ قانون اس کی خواہ ش کےہ مطابق بنایا یا اس کی رائےہ قانون بنی فرق صرف عبارات کا ہےہ ۔کوئی ایک طبقہہ تمام طبقات کےہ لئےہ قانون 21
بنائ ے ی ہ بھ ی جاہلیت ہے کیونک ہ اس طبق ے ک ے مطابق مصالح قانون بنے یا غالب پارلیمانی رائے قانون بنی فرق صرف الفاظ کا ہے تمام طبقات وجماعات ک ے دانشور قانون بنائیں ی ہ بھی جاہلیت ہے کیونکہ انسان کی آراءخواہشات سےہ خالی نہیں ہوسکتیں اس کا علم جہالت س ے مبراءنہیں ہوسکتا ک ہ جس علم کو قانون بنادیا اور ایک جماعت کی رائے کو قانون بنادیاجائے فرق صرف جملوں کا ہے۔ تمام انسانی امتوں کی ایک جماعت قانون بنائ ے ی ہ بھ ی جاہلیت ہے کیونکہ قومی مفادات کو قانون کا درجہ دیا گیا یاملکی جماعتوں کی رائے کو قانون بنایا گیا فرق صرف عبارات کا ہے۔ اور افراد وجماعات وامم واقوام کاخالق سب ک ے لئ ے قانون بنائے تویہہ اللہہ کا قانون ہےہ اس میں کسی کی کسی پر جانبداری نہیں ہوگی نہ کسی فرد کی نہ جماعت یا قوم کی کیونکہ اللہ سب کا رب ہے سب اس کے لئے برابر ہیں کیونکہ وہ سب کی حقیقت ومصلحت کو جانتا ہےہ یہہ بلمبالغہہ ومقامرہہ ممکن نہیں کہہ اس سےہ کسی کی بھی مصالح وحاجات فوت ہوجائیں ۔ اللہہ تمام انسانوں کےہ لئےہ قانون بناتا ہےہ تو وہہ سب آزاد رہتےہ ہیں برابر رہت ے ہیں وہہ اپنی پیشانیاں صرف الل ہ ک ے حضور جھکائیں گے صرف اسی کی عبادت کریں گےہ یہیں س ے انسانی حیات اور اس پوری کائنات کے نظام میں اس مسئلے کی خطرناکی ظاہر ہوتی ہے اگر حق ان کی خواہشات پر چلنےہ لگےہ توآسمان وزمین کا نظام درہ م برہ م ہوجائ ے اور و ہ سب بھ ی تبا ہ ہوجائیں جوان میں رہت ے ہیں چنانچ ہ الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے بغیر حکم کا معنی ہے ک ہ زمین پر شر وفسادپھیلنا اور ایمان سے کلیۃً خارج ہوجانا جیسا کہ قرآن میں ہے ح ُز ْنكَ الّذِینَ یُسَارِعُونَ فِي ا ْلكُ ْفرِ مِنَ الّذِینَ قَالُوا آ َمنّا ِبأَ ْفوَا ِههِمْ یَا َأ ّیهَا الرّسُولُ ل یَ ْ 3 خرِینَ لَمْ یَ ْأتُوكَ سمّاعُونَ لِ َقوْمٍ آ َ سمّاعُونَ ِل ْلكَ ِذبِ َ َولَمْ ُت ْؤمِنْ ُقلُو ُبهُمْ َومِنَ الّذِینَ هَادُوا َ ضعِهِ یَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ َوإِنْ لَمْ ُت ْؤ َت ْوهُ فَاحْ َذرُوا َومَنْ حرّفُونَ ا ْل َكلِمَ مِنْ َبعْدِ َموَا ِ یُ َ ط ّهرَ ُقلُو َبهُمْ َلهُمْ فِي ش ْيئًا أُوَلئِكَ الّذِینَ لَمْ ُیرِدِ الُّ أَنْ یُ َ ُیرِدِ الُّ ِف ْت َنتَهُ َفلَنْ َت ْمِلكَ لَهُ مِنَ الِّ َ حتِ َفإِنْ سمّاعُونَ ِل ْلكَ ِذبِ َأكّالُونَ لِلسّ ْ خ َرةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (َ )٤١ خ ْزيٌ َوَلهُمْ فِي ال ِ ال ّد ْنيَا ِ ح َك ْمتَ ش ْيئًا َوإِنْ َ ضرّوكَ َ ع ْنهُمْ َفلَنْ َی ُ ع ْنهُمْ َوإِنْ ُت ْعرِضْ َ عرِضْ َ حكُمْ َب ْي َنهُمْ َأوْ أَ ْ جَاءُوكَ فَا ْ عنْدَهُمُ ال ّت ْورَاةُ فِيهَا ح ّكمُو َنكَ وَ ِ ب ا ْلمُقْسِطِينَ (َ )٤٢و َكيْفَ یُ َ ح ّ ن الَّ یُ ِ حكُمْ َب ْي َنهُمْ بِالْقِسْطِ إِ ّ فَا ْ حُكْمُ الِّ ثُمّ یَتَوَلّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ (المائدۃ )٤٣ 22
ا ے رسول آپ کو و ہ لوگ غمزد ہ ن ہ کریں جو کفر میں تیزی دکھاتے ہیں ان کا تعلق ان لوگوں س ے ہے جو اپن ے مونہوں س ے کہت ے ہیں کہ ہ م مومن ہیں حالنک ہ ان ک ے دل ایمان نہیں لئ ے اور ان لوگوں سے جو یہودی ہیں جھوٹ پھیلتےہ ہیں اور ان لوگوں کےہ جاسوس ہیں جواب تک آپ کے پاس نہیں آئے احکامات میں تحریف کرتے ہیں کہتے ہیں اگر تم سےہ یہہ کہاجائےہ تو لےہ لو اور یہہ اگر نہہ کہ ا جائےہ توبچے رہواور الل ہ جس ے فتن ہ میں ڈالنا چاہے تو آپ اس ک ے لئ ے کچ ھ اختیار نہیں رکھتے اللہ ان لوگوں کے دلوں کو پاک کرنا نہیں چاہتا ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہےہ اور ان کےہ لئےہ آخرت میں عذاب عظیم ہے جھوٹ پسند کرتے ہیں حرام کھاتے ہیں اگر آپ کے پاس آئیں تو آپ ان ک ے درمیان فیصل ہ کریں یاان س ے اعراض کریں اور اگر آپ ان سےہ اعراض کرلیں تو وہہ آپ کو کچھہ نقصان نہہ پہنچا سکیں گے اوراگر آپ ان ک ے مابین فیصلہ کریں تو انصاف کا فیصلہ کریں یقینا الل ہ منصفین کو پسند کرتا ہے اور آپ ک ے پاس فیصل ے ک ے لئ ے آتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات ہے اس میں اللہ کا فیصلہ ہے پھر وہ اس کے بعد پھر بھی جاتے ہیں یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ یہہ آیات ایک یہودی قوم کےہ متعلق نازل ہوئیں جنہوں نےہ بہ ت سے جرائم کا ارتکاب کیا تھا مثل ً زنا ،چوری وغیرہ تورات میں جرائم کی حدود موجود تھیں لیکن ان لوگوں ن ے پہل ے تو ان اصلحات کو ہی بدل ڈال تاک ہ ان سزاؤں س ے شرفاءکو بچاسکیں انہوں ن ے سب کے لئے قیاس کوہی متعین کردیا اور ان سزاؤں کو تعزیری سزاؤں میں بدل ڈال (جیسا کہہ عصر حاضر میں مسلمان ہونےہ کےہ بہت سے دعویدار ایسا کرت ے ہیں)پھ ر جب ان س ے جرائم کا عہ د رسالت میں صدور ہوا تو آپس میں مشور ہ کرن ے لگ ے ک ہ ہ م آپ ک ے پاس فیصلے کے لئے جاتے ہیں اگر وہی فیصلہ دیا جس پر ہم عمل پیرا ہیں تومان لیں گے اس طرح ہمارے حق میں اللہ کے ہاں ایک حجت قائم ہوجائے گی ک ہ ایک نبی مرسل ن ے اس طرح فیصل ہ دیا تھااور اگر انہوں نے تورات کے مطابق فیصلہ دیا تب نہیں مانیں گے چنانچہ کچھ لوگوں نے بڑے مکروحیل کے ساتھ آپ سے فیصلہ مانگا........اللہ نے ان کا قول حکایت کیا کہہ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ َوإِنْ لَمْ ُت ْؤ َتوْهُ فَاحْ َذرُوا”اگر تم سےہ یہ کہاجائے تولے لواور اگر تم سے یہ نہ کہا جائے تو بچے رہو“وہ لوگ اللہ اور اس ک ے رسول کےہ سات ھ معامل ہ کرن ے میں اس قدر گراوٹ کا شکارہوچک ے تھے ہ ر اہ ل کتاب قوم کی یہ ی کیفیت ہوجاتی ہے جب وقت گزرتا ہے ان ک ے دل سخت ہونا شروع ہوجات ے ہیں عقید ے کی 23
گرمی ماند پڑجاتی ہے بالخر عقید ے کی آگ ٹھنڈ ی پڑجاتی ہے لوگ شریعت وعقیدہ سے اس قدر اکتاجاتے ہیں کہ تمام وسائل بروئے کار لکر اس بات کو ہدف بنالیت ے ہیں اور اسی ک ے متعلق فتاوی جات پوچھتےہ ہیں کہہ کوئی گنجائش یا حیلہہ نکل آئےہ اور وہہ اس سےہ بچ جائیں کیا آج ک ے نام نہاد مسلمانوں کی یہی کیفیت نہیں ہے کہ زبان س ے تو ایمان کا دعوی ٰ ہے پر دل میں ایمان کی جگ ہ نہیں ہے ۔کیا لوگ فتاوی ٰ حاصل نہیں کرت ے ک ہ گنجائش نکل آئ ے ن ہ دین پر عمل کرنےہ کی خاطر؟ کیا بسا اوقات لوگ دین کو اس قدر سہ ل نہیں بنالیتے کہ ان کی خواہشات پوری ہوتی چلی جائیں اور اگر دین میں کوئی گنجائش کی صورت نہیں نکل پاتی تو انہیں اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی بالکل وہی بات کہ اگر تم سے یوں کہا جائے تومان لووگرن ہ چھوڑ دو شاید یہ ی وج ہ ہے ک ہ الل ہ تعالی ٰ یہود ک ے اس واقعےہ کو اس قدر تفصیل سےہ بیان فرمارہاہےہ تاکہہ اس کو اس پرخطر پگڈنڈ ی سےہ بچایاجاسکےہ ........تویہہ تھ ا اللہہ کےہ حکم کا ان محکومین کے ساتھ معاملہ کی صورت جو اس کی شریعت کے حکم کو اپنی زندگی میں داخل کرن ے کو تیار ن ہ تھے ........اب معامل ہ ہے اللہ کے حکم کا حاکمین کے ساتھ کہ جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہیں کرتے حالنکہ تمام آفاقی مذاہب کا یہی کلّیہ ہے ابتداءتورات سے کی فرمایا: سَلمُوا ِللّذِینَ هَادُوا وَال ّربّا ِنيّونَ حكُمُ ِبهَا ال ّن ِبيّونَ الّذِینَ أَ ْ ِإنّا َأ ْن َز ْلنَا ال ّت ْورَاةَ فِيهَا هُدًى َونُورٌ یَ ْ شوْنِ وَل شوُا النّاسَ وَاخْ َ شهَدَاءَ فَل تَخْ َ عَليْهِ ُ ستُحْفِظُوا مِنْ ِكتَابِ الِّ َوكَانُوا َ حبَارُ ِبمَا ا ْ وَال ْ حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ فَأُوَل ِئكَ هُمُ ا ْلكَا ِفرُونَ (َ )٤٤و َك َتبْنَا ش َترُوا بِآیَاتِي َث َمنًا َقلِيل َومَنْ لَمْ َی ْ تَ ْ ن بِالسّنّ ن النّ ْفسَ بِالنّ ْفسِ وَا ْل َعيْنَ بِا ْل َعيْنِ وَال ْنفَ بِال ْنفِ وَالذُنَ بِالذُنِ وَالسّ ّ عَل ْيهِمْ فِيهَا أَ ّ َ حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ َفأُوَلئِكَ هُمُ جرُوحَ ِقصَاصٌ َفمَنْ َتصَدّقَ بِهِ َف ُهوَ كَفّا َرةٌ لَهُ َومَنْ لَمْ یَ ْ وَالْ ُ الظّاِلمُونَ ()٤٥ ہم نےہ توراۃ اتاری جس میں ہدایت ونور تھا اس کےہ مطابق فرمانبردار انبیاءیہود کےہ لئےہ فیصلےہ کرتےہ رہےہ اور رب والے علماءبھی کیونکہ ان سے اللہ کی کتاب کی حفاظت کا مطالبہ کیاگیا تھااور وہ اس پر گوا ہ تھے توتم لوگوں کا خوف نہ کرو اور مج ھ سے ہ ی ڈرو میری آیات کےہ بدلےہ تھوڑی قیمت ن ہ لو اورجولوگ الل ہ کے نازل کردہ ک ے مطابق فیصلہ نہ کریں تویہی لوگ کافر ہیں اور ہم نے ان پر فرض کردیا تھ ا ک ہ جان بدل ے جان ک ے اور آنک ھ بدل ے آنک ھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور زخموں میں قصاص ہے پھ ر جو اس ے صدق ہ کرد ے تو ی ہ اس کے 24
لئ ے کفار ہ ہے اور جو الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق فیصل ہ نہ کریں تو یہی لوگ ظالم ہیں ۔ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہر دین واقعتا زندگی کے لئے ضابطہ ہے دین اس لئےہ آیا تاکہہ انسانی زندگی ،نظم ،رجحان وحفاظت کی قیادت کرےہ اللہہ کی طرف سےہ کوئی بھی دین محض عقیدےہ یا نظریئ ے ک ے طور پر نہیں آیا ن ہ ہ ی عبادت گاہوں میں محض عبادات کےہ انداز بتانےہ کےہ لئےہ یہہ دونوں بھی اگرچہہ انسانی زندگی کی ضرورت ہیں لیکن یہ دونوں اس وقت تک کافی وافی نہیں جب تک انسانی زندگی کےہ تمام پہلوؤں میں ان دونوں کےہ مطابق منہج وشریعت عملی طور پر قائم نہہ ہوجائےہ اور اسےہ ہی قانون اور حکومت کےہ طور پر اختیار نہہ کرلیں اور لوگوں سےہ اس کی مخالفت پر مؤاخذ ہ ن ہ کیاجائ ے اورانہیں اس پر سزائیں ن ہ دی جائیں اس وقت تک انسانی زندگی کی سمت درست نہیں ہوسکتی جب تک یہ عقائد واعمال اور قوانین کو ایک ہی منبع سے نہ لے ایسا منبع وماخذ جو ظاہ ر وباطن پر پوری طرح حکومت کرسکتاہواور لوگوں کو اپنے قوانین کے ذریعے نہ صرف آخرت بلکہ دنیا میں بھی پورا بدلہ دیتا ہواور جب قوانین مختلف ہوں اور ان کےہ مآخذ ومصادر بھی الگ الگ ہوں تواس وقت انسانی نفس بھی مختلف قوانین ورجحانات میں تقسیم ہوجائےہ گا اور انسانی زندگی میں فساد درآئے گا جیسا کہ قرآن اس بات کی طرف مختلف انداز میں اشارے کرتا ہے ۔فرمایا: لوکان فيھما آلھۃ ال اللہ لفسدتا اگر آسمان وزمین میں بہت سے معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہوجاتے ۔ نیز فرمایا: ولو اتبع الحق اھواء ھم لفسدت السماوات والرض ومن فيھن اور اگر حق ان کی خواہشات کے مطابق ہونے لگے تو آسمان وزمین اور جو ان میں ہیں سب تباہ ہوجائیں ۔ نیز فرمایا: ثم جعلناک علی شریعۃ من المر فاتبعھا ول تتبع اھواء الذین ل یعلمون ہ م نےہ آپ کو حکم کرکےہ ایک شریعت دی ہےہ آپ اس کی پیروی کریں اور جاہلوں کی خواہشات پر نہ چلیں۔ ِإنّا َأ ْن َز ْلنَا ال ّت ْورَاةَ فِيهَا هُدًى َونُورٌ ہم نے توراۃ اتاری جس میں ہدایت ونور تھا ۔
25
اللہ نے تورات محض اس لئے نہیں اتاری کہ وہ محض عقائد وعبادات کے لئے ہدایت ونور ثابت ہوبلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کےہ منہج کےہ مطابق حقیقی زندگی پر حکومت کرنےہ والی اپنی شریعت کےہ بھی ہدایت ونور ثابت ہوقبل اس کےہ کہہ تورات سے متعلق گفتگو اختتام کو پہنچتی اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کی طرف متوجہ ہوا تاکہ اسے کتاب اللہ کے مطابق عمومی حکم ،اس حکم کو درپیش لوگوں کی خواہشات ،عناد،مخالفت ،اس طرح کےہ موقف میں ان لوگوں پر جن س ے کتاب الل ہ کی حفاظت کا مطالب ہ کیا گیا کیا واجب ہےہ ۔اور اس کی مخالفت کی سزاءکی طرف توجہ دلسکے : حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ ش َترُوا بِآیَاتِي َث َمنًا َقلِيل َومَنْ لَمْ یَ ْ شوْنِ وَل تَ ْ شوُا النّاسَ وَاخْ َ فَل َتخْ َ َفأُوَل ِئكَ هُمُ ا ْلكَا ِفرُونَ ()٤٤ تم لوگوں سےہ نہہ ڈرو صرف مجھہ سےہ ڈرو اورمیری آیات کےہ بدلے تھوڑی قیمت نہ لو اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں تویہی لوگ کافر ہیں ۔ الل ہ جانتا تھ ا ک ہ الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم کرنا اس مسئلے کی طرف ہرزمانےہ اور ہر امت میں کچھہ مخالفین ضرور متوجہ ہوںگےہ اور اسےہ ہرگز قبول نہہ کریں گےہ یہہ متکبرین ،سرکش ،اور موروثی حکمران ایسا اس لئ ے کرت ے ہیں ک ہ ان س ے الوہیت کی وہ چادر جس کای ہ دعوی ٰ کرت ے ہیں چھین لی جائ ے گی اور الوہیت کو صرف اللہ ک ے لئ ے خاص کرلیا جائ ے گا جب ان س ے حاکمیت ،قانون سازی جو و ہ الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے بغیر لوگوں ک ے لئ ے کرت ے ہیں کا حق چھین لیاجائ ے گا اور ایس ے ہ ی اس طرف خیانت ،ظلم وحرام پر کاربند مصلحت پرست ماد ّی لوگ بھ ی متوج ہ ہوں گ ے کیونک ہ اللہ کی مبنی برعدل شریعت ان کی ظالم مصلحتوں کو ختم کردیتی ہےہ کچھہ نفس اور خواہش پرست بھی اس کی مخالفت میں دلچسپی لیں گ ے کیونک ہ الل ہ کا دین یا توانہیں ان برائیوں سےہ پاک کرد ے گا یا انہیں اس کی سزائیں د ے گا الغرض ہ ر جانب س ے اس کی مخالفت کی جائ ے گی خاص طور پر و ہ لوگ جو زمین پر خیر وعدل اور اصلح کی حکمرانی نہیں چاہت ے ۔الل ہ سب جانتا تھ ا اسی لئےہ کچھہ ایسےہ لوگوںکاہونا ضروری ہےہ جن سےہ اللہہ کےہ دین کی حفاظت کا مطالبہ کیاجائے اور وہ اس پر گواہ رہیں اور ا س مخالفت کا ڈ ٹ کر مقابل ہ کریں اس ے مضبوط کریں اور اس ک ے خاطر جانی ومالی نقصانات برداشت کرسکیں جن لوگوں کو اللہ پکارتا ہے کہ : 26
شوْ ِ ن شوُا النّاسَ وَاخْ َ فَل تَخْ َ تم لوگوں کا کچھ خوف نہ کرو بس میرا ڈر رکھو۔ ایس ے ہ ی الل ہ جانتا تھ ا ک ہ ان لوگوں میں جن س ے اس ک ے دین کی حفاظت وشہادت کا مطالب ہ ہے کچ ھ ایس ے لوگ بھ ی ضرور ہوں گ ے جو دنیاوی زندگی کے حریص بن جائیں گے تو اللہ ایسے لوگوں کو پکارتا ہے : ش َترُوا بِآیَاتِي َث َمنًا َقلِيل وَل تَ ْ اور میری آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو۔ ی ہ خاموش ر ہ کر یا تحریف اور رد ّ وبدل کرک ے اور غلط فتاوی ٰ دے کر ہ ی ممکن ہےہ اور قیمت خواہہ کچھہ بھ ی ہوبہرحال کم ہ ی ہوگی اگرچہ معمولی وظیفوں ،القابات اور معمولی مفادات کی خاطر اللہ ک ے دین کو بیچ کر جہنم کا سوداکررہاہوتا ہے اس س ے بڑ ھ کر کسی امین کی خیانت اورکسی محافظ کی غفلت اور کسی گواہہ کی جھوٹی گواہ ی اورکیا ہوگی ک ہ جن لوگوں کو ”دیندار “کہ ا جائ ے وہی خیانت اور غفلت اور جھوٹ کامظاہر ہ کریں اللہہ ک ے نازل کردہہ کے مطابق عمل تحکیم س ے خاموش رہیں احکامات میں ردوبدل کریں تاک ہ حکمرانوں کی خواہشات کو الل ہ کی کتاب ک ے مطابق قرار دے سکیں ۔ لّ فَأُوَل ِئكَ هُ ُم ا ْلكَا ِفرُونَ ()٤٤ حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ ا ُ َومَنْ لَ ْم یَ ْ اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کریں تویہی لوگ کافر ہیں۔ ی ہ حکم قطعی ہے عام ہے جواب شرط ک ے طور پر ہے زمان ،مکان کی تمامتر قیود س ے مبراءہے اور بالکل عام ہے ہ ر اس شخص کے لئے جو الل ہ ک ے نازل کرد ہ کے مطابق فیصلہ نہ کر ے خواہ کسی قبیلے قوم سے ہو۔ شریعت تورات کا یہ حصہ جو قرآن کا حصہ بن چکاہے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ عام حکم فرماتا ہے کہ : لّ فَأُوَل ِئكَ هُ ُم الظّاِلمُونَ ()٤٥ حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ ا ُ َومَنْ لَ ْم یَ ْ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سو یہی لوگ ظالم ہیں ۔ انداز تعبیر اسی طرح عام ہے کوئی تخصیص نہیں ہے لیکن وصف نیا ہے اور و ہ ہے ”الظالمون“اس نئ ے وصف کا یہ معنی نہیں ک ہ یہ پچھلے وصف یعنی”الکافرون“سے الگ ہے بلکہ یہ اسی کا ہی ایک اور وصف ہےہ یعنی جو اللہہ کےہ نازل کردہہ کےہ مطابق حکم نہہ کرےہ تو وہہ اس 27
اعتبار سے کافر ہے کہ الوہیت کا انکار کررہا ہے اس کے بندوں کے لئے شریعت سازی کررہ ا ہے بالفاظ دیگر حق الوہیت اور حق شریعت سازی کا دعویٰ کررہا ہے اور اس اعتبار سے ظالم ہے کہ لوگوں کو اللہ کی شریعت کے سوا اپنی شریعت پر چلنے کا پابند کرتا ہے جس میں اس کےہ اپنےہ مفادات پوشیدہہ ہیں اس سےہ بھی بڑھہ کرظلم خوداپنی جان پر کررہاہےہ کہہ اسےہ ہلکت کا لقمہہ بنان ے جارہ ا ہے اور کفر کی سزا کےہ لئےہ پیش کررہا ہےہ اور لوگوں کی زندگی میں فساد کا سبب بنارہ ا ہےہ ۔تفسیر کی اس صورت کا تقاضا مندرجہ ذیل امور کرتے ہیں: مسند الیہہ کاایک ہونا یعنی کفر اور ظلم کی نسبت ایک ہی 1 قسم کے افراد کی طرف ہے۔ فعل شرط کا ایک ہونا یعنی کفر وظلم کو جس فعل سے 2 مشروط کیا گیا وہ فعل ایک ہے یعنی اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرنا ۔ لہٰذای ہ مطلق ہےہ عام ہے۔پھ ر اسی سیاق میں رہتےہ ہوئ ے تورات کے تذکرے کے بعداسی عام حکم کا بیان ہے کہ : علَى آثَارِهِمْ ِبعِيسَى ابْنِ َم ْریَمَ ُمصَدّقًا ِلمَا َبيْنَ یَ َدیْهِ مِنَ ال ّت ْورَاةِ وَآ َت ْينَاهُ النْجِيلَ فِيهِ وَقَ ّف ْينَا َ حكُمْ أَهْلُ هُدًى َونُورٌ َو ُمصَدّقًا ِلمَا َبيْنَ یَ َدیْهِ مِنَ ال ّت ْورَاةِ وَهُدًى َو َموْعِظَةً ِل ْل ُمتّقِينَ (َ )٤٦و ْليَ ْ لّ فَأُوَل ِئكَ هُ ُم الْفَاسِقُونَ ()٤٧ حكُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ ا ُ ل ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ فِيهِ َومَنْ لَ ْم یَ ْ النْجِي ِ اور ان کےہ بعد ہم نےہ عیسیٰہ ابن مریم کو اپنےہ سےہ پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرن ے وال بناکر بھیجا اور اس ے ہ م ن ے انجیل دی جس میں ہدایت ونور تھ ا اور وہہ اپنےہ سےہ پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرن ے والی تھ ی اور متقین ک ے لئ ے ہدایت ونصیحت بھ ی اور اہل انجیل کو چاہیئے کہ وہ اس میں نازل کردہ کے مطابق حکم کریں اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سو یہی لوگ فاسق ہیں ۔ یہاں بھ ی نص اپنےہ عموم واطلق پر ثابت ہےہ اور صفت فسق ہے سابقہہ صفات کفر وظلم کی طرف ہ ی منسوب ہےہ یعنی نہہ تونئی صفت ہے اور نہ حالت نئی ہے جو پہلی حالت سے الگ ہو بلکہ ماقبل دوصفات پر ایک زائد صفت ہے اور اسی شخص ک ے متعلق ہے جو الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم ن ہ کر ے خوا ہ کسی قوم قبیل ے کا ہو۔یعنی ی ہ کفر ہے اللہ کی الوہیت وشریعت ک ے انکار کی بناءپرظلم ہے لوگوں کوغیر الل ہ کی شریعت کا پابند بناکر اور ان کی زندگی میں فساد بپا کرک ے چلن ے کی بناءپر فسق ہے اللہ ک ے منہ ج س ے نکل 28
کر اس ک ے علو ہ کسی اور راست ے پر چلن ے کی بناءپر گویا ی ہ تمام صفات فعل اول کو متضمن ہیں اس فعل کے مرتکب کے متعلق ہیں اور بلتفریق یہہ تمام اسی سےہ تعلق رکھتی ہیں ۔آخر میں سیاق قرآنی آخری رسالت اور آخری شریعت سےہ متصل ہوجاتا ہےہ وہ رسالت جس ن ے اسلم کو اس کی مکمل اور آخری صور ت میں پیش کیا تاکہ تمام انسانیت کا دین شریعت ثابت ہو۔ حكُمْ َب ْي َنهُمْ ِبمَا عَليْهِ فَا ْ َوَأ ْن َز ْلنَا ِإَل ْيكَ ا ْل ِكتَابَ بِالْحَقّ ُمصَدّقًا ِلمَا َبيْنَ یَ َدیْهِ مِنَ ا ْل ِكتَابِ َو ُم َه ْي ِمنًا َ شرْعَةً َو ِم ْنهَاجًا َوَلوْ شَاءَ ج َع ْلنَا ِم ْنكُ ْم ِ ن الْحَقّ ِلكُلّ َ عمّا جَا َءكَ مِ َ َأ ْنزَلَ الُّ وَل َت ّتبِعْ أَ ْهوَاءَهُمْ َ ج ُعكُمْ خ ْيرَاتِ ِإلَى الِّ َمرْ ِ س َتبِقُوا الْ َ ج َعَلكُمْ ُأمّةً وَاحِ َدةً َوَلكِنْ ِل َي ْبُل َوكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَا ْ الُّ لَ َ حكُمْ َب ْي َنهُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ الُّ وَل َت ّتبِعْ أَ ْهوَاءَهُمْ خ َتلِفُونَ (َ )٤٨وأَنِ ا ْ جمِيعًا َف ُي َن ّب ُئكُمْ ِبمَا ُك ْنتُمْ فِيهِ َت ْ َ علَمْ َأ ّنمَا ُیرِیدُ الُّ أَنْ وَاحْ َذرْهُمْ أَنْ یَ ْف ِتنُوكَ عَنْ َبعْضِ مَا َأ ْنزَلَ الُّ ِإَل ْيكَ فَإِنْ َت َوّلوْا فَا ْ حكْمَ الْجَا ِهِليّةِ َی ْبغُونَ َومَنْ ن َكثِيرًا مِنَ النّاسِ لَفَاسِقُونَ ()٤٩أَفَ ُ ُیصِي َبهُمْ ِب َب ْعضِ ُذنُو ِبهِمْ َوإِ ّ ح ْكمًا لِ َقوْمٍ یُو ِقنُونَ ()٥٠ ن مِنَ الِّ ُ أَحْسَ ُ اور ہ م ن ے آپ کی طرف حق ک ے سات ھ کتاب نازل کی جو اپن ے سے پہلے کتاب کی تصدیق کرتی ہے اور اس پر نگران ہے سو آپ ان کے مابین اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور جوحق آپ ک ے پاس آیاہے اس ے چھوڑ کر ان کی خواہشات پر ن ہ چلیں تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے شریعت ومنہاج بنایا اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنادیتالیکن (ایسا نہیں کیا)تاکہہ تمہیں اپنی عطاءمیں آزماسکے سو تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ جاؤ تم سب کو اللہہ کی طرف پلٹ جانا ہےہ پھ ر وہہ تمہیں تمہار ے اختلفات کی خبر دےہ گا اور یہہ کہہ آپ ان کےہ مابین اللہہ کےہ نازل کردہہ کے مطابق حکومت کریں اور ان کی خواہشات پر مت چلیں اور اس بات سے ڈرتے رہیں کہیں وہ اس بعض سے متعلق آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں جو اللہہ نےہ آپ کی طرف نازل کیا پھ ر اگر وہہ پھ ر جائیں تویقین کرلیں ک ہ الل ہ انہیں ان ک ے گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے اور اکثر لوگ نافرمان ہوت ے ہیں کیا و ہ جاہلیت کا حکم پسند کرت ے ہیں جبکہہ یقین رکھنےہ والوں کےہ لئےہ اللہہ سےہ بڑھہ کر کس کاحکم اچھا ہوسکتا ہے۔ انسان اس واضح عبارت ،قطعی تقریراور بعض احوال وظروف میں شریعت ک ے کسی حص ے کو ترک کرن ے کو جائز قرار دین ے سے 29
متعلق دل میں آن ے وال ے خیالت س ے مکمل احتیاط ک ے سامن ے کھڑا ہوکر انگشت بداں رہ جاتا ہے کہ ایک مسلم جو اسلم کا دعویدار ہو اس ک ے لئ ے ی ہ کیونکر جائز ہوسکتا ہے ک ہ و ہ محض احوال وظروف کی خاطر الل ہ کی شریعت کو ترک کرد ے اور اس انحراف ک ے بعد بھ ی مسلمان ہون ے کا دعوی ٰ کرتا رہے اسلم س ے آزاد ہون ے اور اللہ کی شریعت سے کنارہ کش ہونے کے بعد بھی لوگ آخر کیوں کر اپنے آپ کو مسلمان کہلوانا پسند کرتےہ ہیں جبکہہ اس کی شریعت کا انکار کرکے اس کی الوہیت کا انکار کرچکے اور اس امر کابھی انکار کردیا کہہ شریعت الٰہ ی ہ ی موجودہہ احوال وظروف کےہ لئےہ موزوں ترین ہے ؟ لّ وَل َت ّتبِعْ أَ ْهوَاءَهُمْ حكُ ْم َب ْي َنهُمْ ِبمَا َأ ْنزَلَ ا ُ َوأَنِ ا ْ ان ک ے درمیان الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکومت کریں اور آپ ک ے پاس جو حق آیا ہے اس ے چھوڑ کر لوگوں کی خواہشات پر مت چلیں۔ اصل ً ی ہ حکم آپ س ے ان اہ ل کتاب ک ے متعلق ہے جو نبی ک ے پاس فیصلےہ کی غرض سےہ آئےہ لیکن اس بناءپر یہہ محض ان کےہ ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر دور کے لئے عام ہے کہ اب نہ تو رسول آئے گا اورنہ ہی رسالت جو اس ے منسوخ کرسک ے الل ہ جانتا تھ ا ک ہ بہ ت س ے اعذار قائم ہوجائیں گےہ کہہ اللہہ نےہ جو نازل کیا اس میں سےہ کچھہ سے اعراض کرکے محکوم ومتحاکم کی خواہشات پر عمل پیر اہونا جائز ہے اور الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مکمل مطابق ضرورت حکم س ے ذرا بھی اعراض نہ کرنے سے متعلق بعض احوال وظروف میں اس سے اعراض کےہ جائز ہونےہ سےہ متعلق نت نئےہ خیالت پیدا ہوجائیں گے چنانچہہ اللہہ نےہ اپنےہ نبی کو ان آیا ت میں دومرتبہہ خبردار کردیا کہ متحاکمین (فیصلہ چاہنے والے )کی خواہشات پر نہ چلنا یہی ان کا فتنہ ہےہ کہہ وہہ اللہہ کےہ نازل کردہہ کےہ بعض حصےہ سےہ اعراض کرنےہ کا مطالبہہ کردیں۔ان پراگندہہ افکار کےہ حاملین وہہ لوگ ہیں جن کی خواہش ہےہ کہہ مختلف گروہوں کےہ مابین موافقت کا کوئی راستہ نکالجائےہ اور جن کےہ رجحانات ومتفقہہ نظریات اور ان کی بعض خواہشات اور بعض آسان امور سےہ ان کا تساہل برتنا ایسےہ ہی دیگر شرعی خلف ورزیاں احکام شریعت سے ٹکراتی ہیں ۔ مروی ہے کہ یہود نے رسول اللہ کو یہ پیشکش کی کہ وہ آپ پر ایمان ل ے آئیں گ ے بشرطیک ہ اس ک ے بعض احکام کو بعین ہ برقرار ن ہ رکھیں اور کچ ھ ڈھیل دیں انہیں میں حکم رجم بھی تھا کہ ا جاتا ہے کہ اسی 30
وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو خبردار کیا گیا ہے جبکہ یہ حکم عام ہے جس س ے اس امت کا مختلف اوقات میں سابق ہ پڑتا رہتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا اور انسان کے اندر چھپی یہ خواہ ش کہہ تساہ ل کا راستہہ اختیار کرکےہ تمام انسانی گروہوں کے مابین اتفاق رائےہ قائم ہوجائےہ اگرچہہ سب کی خواہشات اور ترجیحات الگ الگ ہی رہیں اس کی جڑ کاٹ دی کہ آپ نے نبی سے ج َعَلكُمْ ُأمّةً وَاحِ َدةً َوَلكِنْ ِل َي ْبُل َوكُمْ اگر اللہ چاہتا ارشاد فرمایاَ :و ِم ْنهَاجًا َوَلوْ شَاءَ الُّ لَ َ تو سب کو ایک ہ ی امت بنادیتا لیکن اس نےہ ہ ر ایک کےہ لئےہ الگ طریقہہ ومنہ ج بنایا اور جو دین اور شریعت اس نےہ انہیں عطا کی اس میں ان کی آزمائش کا اراد ہ کیا ....اس طرح الل ہ ن ے شیطان کےہ تمام راستےہ بند کردیئےہ خاص طور پر اللہہ کی شریعت میں تساہ ل کرکےہ تمام طبقات کی یکجا صف بندی سےہ متعلق راستہ جس میں سب کی خواہشات کی تکمیل ممکن ہوجاتی اور جسے لوگ وحدت صفوف یا وحدت ادیان کانام دیتے ہیں ۔ اب صرف دو راست ے باقی ہیں یا تو الل ہ کا حکم یا جاہلیت کا حکم ان دونوں کےہ درمیان کوئی تیسرا راستہہ نہیں اورنہہ ہی کوئی متبادل ۔ ح ْكمًا لِ َقوْمٍ یُو ِقنُونَ ()٥٠ ن أَحْسَنُ مِنَ الِّ ُ حكْ َم الْجَا ِهِليّةِ َی ْبغُونَ َومَ ْ أَفَ ُ کیا وہ جاہلیت کا حکم پسندکرت ے ہیں جبکہ یقین کرن ے والوں کے لئے اللہ کے حکم سے بڑھ کر اچھا حکم کیا ہوگا؟۔ اس نص سےہ جاہلیت کا معنی متعین ہوتا ہےہ اس نص کےہ مطابق جاہلیت کہتے ہیں بشر کی حکومت بشر پر کیونکہ یہ دراصل بشر کی بندگی وعبادت ہے بشر ہ ی ک ے لئ ے ........اس نص کی روشنی میں جاہلیت تاریخ کاکوئی دور نہیں بلکہ ایک حالت ہے جو کل بھی تھی آج بھی کل بھی ہوگی جاہلیت کی یہہ صفت اسلم کےہ مدمقابل ہے اسلم کا اعتبار ساقط کردیتی ے اور لوگ ہرزمان ومکان میں یا تو ذرہ بھی پس وپیش کئے بغیر اللہ کی شریعت کو حاکم مانتے ہیں اور اسے مکمل طور پر قبول وتسلیم کرتے ہیں یہ لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں یا پھر وہ کسی بھی صورت میں انسانی شریعت کو حاکم مانتے ہیں اور اسے قبول کرتے ہیں ان کا اللہ کے دین سے کچھ تعلق نہیں اور جواللہ کے حکم میں دلچسپی نہیں رکھتا وہ جاہلیت کے حکم کو پسند کرتا ہے اور جو الل ہ کی شریعت کو چھوڑ دیتا ہے وہ جاہلیت کی شریعت اختیار کرکے جاہلیت کی زندگی جیتا ہے ۔یہ ہے وہ دوراہا جہاں اللہ بندوں کوکھڑا کرنے کے بعد اختیار دے دیتا ہے ۔پھر ان 31
س ے ی ہ مطالب ہ کرتا ہے ک ہ و ہ جاہلیت ک ے حکم کا انکار کردیں اور اللہ کے حکم کی برتری تسلیم کرلیں اور یقین رکھنے والوں کے لئے اللہ کے حکم سے بڑھ کر اچھا حکم اور کس کاہوسکتا ہے؟ یہہ وہہ دوراہاہےہ جس میں ایک کو اختیار کرنا لزمی ہےہ اور اختلف وجھگڑ ے کایہاں کوئی فائد ہ نہیں ۔اسلم یا جہالت ۔ایمان یا کفر۔اللہ کاحکم یا جاہلیت کا حکم ۔ (الظلل )905-2/887: امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ح ْكمًا لِ َقوْمٍ یُو ِقنُونَ ()٥٠ ن أَحْسَنُ مِنَ الِّ ُ حكْ َم الْجَا ِهِليّةِ َی ْبغُونَ َومَ ْ أَفَ ُ کیا و ہ جاہلیت کا حکم پسند کرت ے ہیں جبکہہ اللہہ ک ے حکم سےہ اچھا حکم کس کا ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس شخص کا رد ّ کررہا ہے جو اس کے ہر خیر پر مشتمل اور ہ ر شر س ے روکن ے وال ے حکم س ے نکل کر انسانوں کی بلدلیل شرعی بنائی ہوئی اصطلحات اور ان کی آراءوخواہشات اختیار کرلیتا ہے جیسا ک ہ اہ ل جاہلیت ان گمراہیوں اور جہالتوں ک ے ذریعے حکم کیا کرتےہ تھےہ جنہیں وہہ اپنی آراءوخواہشات کےہ ذریعےہ وضع کرتے اور جیسا کہ تاتاری اپنی ملکی سیاست میں اپنے بادشاہ چنگیز خان ک ے بنائ ے ہوئ ے یاسق ک ے مطابق حکومت کرت ے ی ہ یاسق قانون کی ایک کتاب کا نام ہےہ جسےہ چنگیز خان نےہ مختلف شریعتوں یہودیت،نصرانیت اور اسلم وغیر ہ س ے ل ے کر مرتب کیا تھ ا اس کے اکثر احکام اس کی اپنی رائ ے اور خواہش کے مطابق تھے تو یہ اس کی نسل ک ے لئ ے قابل اتباع شریعت کادرج ہ اختیار کرگئی جس ے وہ الل ہ کی کتاب اور اس ک ے رسول کی سنت پر مقدم رکھت ے ۔تو جو بھ ی ایسا کر ے و ہ کافر ہے اس س ے قتال فرض ہے تاآنک ہ و ہ الل ہ اور اس ک ے رسول ک ے حکم کی طرف رجوع کرل ے اس ک ے سوا کوئی حکم نہ مانے نہ کم نہ زیادہ ۔ (تفسیر ابن کثیر )2/68: الشیخ علمہ محمد بن ابراہیم آل شیخ فرماتے ہیں :یہ بڑا واضح کفر اکبر ہےہ کہہ ملعون قانون کو اس کےہ قائم مقام قرار دیا جائےہ جو جبریل امین نے محمد کے دل پر نازل کیا تاکہ آپ واضح عربی زبان میں اس کے حکم کے ذریعے تمام جہان والوں کو ڈرا سکیں؟اس کے بعد حضرت ان لوگوں پر رد ّ کرتے ہوئے فرماتے ہیںجو وضعی قوانین کےہ مطابق حکومت کرت ے ہیں اور اس کی طرف دعوت دیتےہ ہیں ”:اللہہ تعالیٰہ اس قسم کےہ لوگوں کا رد ّ کرتےہ ہوئےہ اور ان کی احکامات جاہلیت کی پسندیدگی کو بیان کرتےہ ہوئےہ اور یہہ واضح کرتے ہوئے کہ اس کے حکم سے کوئی حکم اچھا نہیں فرماتا ہے : 32
ح ْكمًا لِ َقوْمٍ یُو ِقنُونَ ()٥٠ ن أَحْسَنُ مِنَ الِّ ُ حكْ َم الْجَا ِهِليّةِ َی ْبغُونَ َومَ ْ أَفَ ُ کیا وہ جاہلیت کا حکم پسند کرتے ہیں جبکہ اللہ کے حکم سے کس کا حکم اچھا ہوسکتا ہے ۔ اس آیت کریمہہ میں غور کریں کہہ اس میں یہہ دلیل ہےہ حکم کو تقسیم کرنا ثنانیت یعنی بت پرستی ہے اور الل ہ ک ے حکم ک ے بعد ہر حکم جاہلیت کا حکم ہے ۔ (سابق مفتی اعظم سعودی عرب ”رسالۃ تحکیم القوانین“ صفحہ)1،3:
چند شبہات کاردّ
شریعت اسلمیہہ کےہ بجائےہ قوانین وضع کرنےہ والےہ حکام کا دفاع کرنے والوں نے کچھ شبہات پیش کئے ہیں:
پہل شبہہ:اللہہ کےہ نازل کردہہ کےہ بغیر حکم ایسا کفرنہیں جو دین سے خارج کردے
ابن عباس س ے مروی ہےہ کہہ اللہہ کےہ نازل کردہہ کےہ بغیر حکم کرنا ایساکفرنہیں جو ملت سےہ خارج کردےہ ہم ان آثار کو نقل کرکے درباری ملؤں کے شبہات کا جواب دیتے ہیں بعون اللہ وتوفیقہ۔ امام طبری فرماتےہ ہیں :ہمیں حدیث بیان کی ھناد نےہ ہمیں بیان کیا وکیع نے اور ہمیں بیان کیا وکیع کے بیٹے نے کہا ہمیں بیان کیا میر ے باپ ن ے و ہ سفیان س ے و ہ معمر بن راشد س ے و ہ طاؤس کے بیٹے سے وہ اپنے باپ سے وہ ابن عباس سے ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سویہ ی کافر ہیں ۔فرمایا:ی ہ اس ک ے سات ھ کفر ہے اور الل ہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفرنہیں ۔ ہمیں حدیث بیان کی حسن ن ے کہ ا ہمیں بیان کیا ابواسام ہ نے سفیان سے وہ معمر سے وہ طاؤس کے بیٹے سے وہ اپنے باپ سے کہا ایک شخص نے ان آیات ومن لم یحکم بما انزل اﷲ کے متعلق کہا جو ایسا نہ کرے اس نے کفر کیا؟ابن عباس نے کہا جب وہ ایسا کرے تویہ اس ک ے ساتھ کفر ہے اور و ہ اس شخص کی طرح نہیں جس نے اللہ اوریوم آخرت اور فلں فلں کے ساتھ کفر کیا۔ ہمیں حدیث بیان کی حسن بن یحییٰہ نےہ کہا ہمیں خبر دی عبدالرزاق نے کہا ہمیں خبر دی معمر نے طاؤس کے بیٹے سے وہ اپنے باپ سے کہا ابن عباس سے اللہ کے فرمان :ومن لم یحکم بما انزل 33
اﷲہ فاولئک ہ م الکافرون کےہ متعلق پوچھاگیا آپ نےہ کہ ا یہہ اس کے ساتھ کفر ہے ۔طاؤس کے بیٹے نے کہا اس کے ساتھ کفر ہے اور وہ اس شخص کی طرح نہیں ہے جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابو ں اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔ (تفسیر طبری : )6/256 امام طبری مزید فرمات ے ہیں:مجھے حدیث بیان کی مثنی نے کہ ا ہمیں بیان کیا عبدالل ہ بن صالح ن ے کہ ا مجھے بیان کیا معاوی ہ بن صالح نےہ علی بن ابی طلحہہ سےہ وہہ ابن عباس سےہ فرمان باری تعالی ٰ :ومن لم یحکم بما انزل ا ﷲ فاولئک ہ م الکافرون فرمایاجس ن ے جحود (انکار )کیا اس کا جو اللہ نے نازل کیا اس ن ے کفر کیا اور جس نے اقرار کیا اور حکم نہ کیا تو وہ ظالم فاسق ہے۔ ابن کثیر فرمات ے ہیں:اور فرمایا ابن ابی حاتم ن ے ہمیں حدیث بیان کی محمد بن عبداللہ بن یزید المقری ن ے ہمیں بیان کیا سفیان ابن عیین ہ ن ے ہشام بن حجیر س ے و ہ طاؤس س ے و ہ ابن عباس سے فرمان باری تعالیٰ :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون کےہ بارےہ میں فرمایا:یہہ وہہ کفرنہیں جس کی طرف وہہ جاتےہ ہیں ۔ روایت کیا اس ے حاکم ن ے اپنی مستدرک میں 2313سفیان ابن عیینہ کی حدیث سےہ اور فرمایا صحیح ہےہ شیخین کی شرط پر اور ان دونوں نے اس کی تخریج نہیں کی ۔ (تفسیر ابن کثیر)2/62: ہم اس شبہے کا چند طریقوں سے جواب دیں گے بعون اللہ وقدرتہ:
سند کے اعتبار سے :
و ہ روایت جو ”طاؤس“ ک ے بیٹ ے س ے و ہ اپن ے باپ س ے وہ (الف): ابن عباس س ے “وارد ہے اس میں ظاہ ر ہے کہ یہ عبارت ”یہ اس کے ساتھ کفر ہے اور وہ اس شخص کی طرح نہیں جس نے اللہ اور اس کےہ فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کےہ رسولوں کےہ ساتھ کفرکیا“طاؤس ک ے بیٹ ے کا قول ہے جیسا ک ہ اس بات کی صراحت اس روایت میں بھ ی ہےہ جو امام طبری نےہ حسن بن یحییٰہ سے روایت کی ہےہ واللہہ اعلم ۔ہ (ملحظہہ ہو تفسیر ابن کثیر،2/62:نیز تعظیم قدر الصلۃ از محمد بن حسن المروزی)2/521: (ب) :وہ اثر جس ے علی بن ابی طلحہ ن ے ابن عباس س ے روایت کیا ہے تو علی بن ابی طلح ہ ابن عباس س ے روایت نہیں کرت ے اور ان کی ان س ے خبر مرسل ہوتی ہے لہٰذا اس کی سند میں انقطاع ہے جیسا کہ عطاءنے ثابت کیا ہے ایسے ہی اس کی توثیق مختلف فیہ ہے اور جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے جیسا کے آگے آئے گا ان شاءاللہ۔ 34
ابن حجر فرماتےہ ہیں :علی بن ابی طلحہہ کانام سالم بن مخارق الہاشمی ہےہ کنیت ابوالحسن ہےہ اصل میں جزیرہہ کاہےہ پھ ر حمص میں منتقل ہوگیا ابن عباس س ے روایت کی ہے ان س ے سنا نہیں ان دونوں ک ے درمیان مجاہد،ابوالوداک جبر بن نوف اور راشد بن سعد المقرئی اور قاسم بن محمد بن ابوبکر وغیرہم ہیں ۔ میمونی امام احمد س ے نقل کرتا ہے ،اس کی کچ ھ چیزیں منکرات ہیں اور وہہ حمص کا رہنےہ وال ہےہ اور امام آجری ابوداؤد سےہ نقل کرتے ہیں:وہ ان شاءاللہ مستقیم الحدیث ہے لیکن اس کی رائے بری ہے تلوار کا قائل ہے اور حجاج بن محمد نے اسے دیکھا ہے ۔اور امام نسائی فرماتےہ ہیں :اس میں کوئی برائی نہیں ۔اور دحیم کہتے ہیں:اس نے ابن عباس سے تفسیر نہیں سنی۔اور صالح بن محمد نے کہا:کوفیوں اور شامیوں وغیرہ نے اس سے روایت کی ہے اور یعقوب بن سفیان ن ے کہ ا :ضعیف الحدیث ہے منکر ہے اچھے مذہ ب وال نہیں اور ایک جگہ فرمایا:شامی ہے نہ تومتروک ہے نہ ہی حجت ہے اور ابن حبان ن ے اس ے ثقات میں ذکر کیا ہے اور کہ ا ابن عباس س ے روایت کرتا ہےہ اور آپ کو دیکھا نہیں ہے۔اور اسےہ عجلی نےہ ثقہہ کہا ہے۔(تہذیب التھذیب)7/298: ابوالحجاج المزی فرمات ے ہیں :یعقوب بن اسحاق بن محمود ن ے کہا صالح بن محمد سے علی بن ابی طلحہ کے متعلق پوچھاگیا کہ کیاان لوگوں سےہ ہےہ جنہوں نےہ تفسیر کا سماع کیا فرمانےہ لگے:میں ان لوگوں میں نہیں پاتا (تہذیب الکمال 20/490:نیز المغنی فی الضعفاء،2/41:میزان العتدال فی نقد الرجال ،15/163:الکاشف 2/41ی ہ تینوں امام ذہبی کی تالیفات ہیں نیز تحفۃ التحصیل فی ذکر رواۃ المراسیل 1/234:از احمد بن عبدالرحیم الکردی ،نیزالضعفاء: 3/34از ابوجعفر العقیلی نیز تقریب التھذیب 1/402:از ابن حجر عسقلنی،نیزرجال مسلم 2/56:از ابوبکر بن منجویہہ الصبہانی نیز تاریخ بغداد 11/428:از خطیب بغدادی،نیز کتاب بحرالدم 1/304:از احمد بن محمد بن حنبل،نیز المراسیل 1/140:از ابن ابی حاتم ،نیز تحفۃ الطالب 1/380:از ابن کثیر )۔ (ج) :وہ اثر جسے ہشام بن حجیر نے طاؤس سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا اللہ کے اس فرمان ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہ م الکافرون ک ے متعلق ک ہ ابن عباس ن ے فرمایا:ی ہ و ہ کفرنہیں جس کی طرف وہ جاتے ہیں۔اس اثر کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں ()2/342نقل کیا ہےہ ۔ہشام بن حجیر کو بعض نےہ ثقہہ ودیگر نے 35
مجروح قرار دیا ہےہ ابوالحجاج المزی اس کےہ متعلق فرماتے ہیں:ابن شبرمہہ نےہ فرمایا:مکہہ میں اس کی طرح کوئی نہیں اورعبداللہ بن احمد بن حنبل نے فرمایا:میں نے اپنے والد سے اس کے متعلق پوچھا تو فرمانے لگے وہ قوی نہیں،میں نے کہا ضعیف ہے کہنے لگے ایسا بھی نہیں کہتے ہیں میں یحییٰ بن معین سے اس کے متعلق پوچھ ا توانہوں ن ے اس ے بہ ت ضعیف قرار دیا اور اسحاق بن منصور یحییٰ بن معین سے روایت کرتے ہیں کہ ”صالح“ہے اور عجلی نے کہا ثقہہ ہےہ صاحب سنت ہےہ او رابوحاتم نےہ کہ ا اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور علی بن مدینی ن ے کہ ا میں ن ے یحیی ٰ بن سعید پر پڑھا کہ ہمیں ابن جریج نے بیان کیا ہشام بن حجیر سے تو یحییٰ بن سعید فرمان ے لگ ے مناسب ہ و ک ہ میں اس ے چھوڑ دوں میں ن ے کہ ا اس کی حدیث لک ھ دوں فرمان ے لگ ے ہاں اور ابوعبید ہ الجری ن ے کہ ا ک ہ میں ن ے ابوداؤد س ے سنا کہہ رہے تھے ک ہ ہشام بن حجیر کو مک ہ میں حد لگائی گئی میں نے کہا کس لئے کہنے لگے جس سلسلے میں اہل مکہ پر حد لگائی جاتی رہتی ہے اور ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے بخاری ومسلم اور نسائی اس کی روایت لئے ہیں ۔ (تھذیب الکمال)30/179،180: ابن حجر فرماتے ہیں :ہشام بن حجیر المکی کو عجلی اور سعد نے ثقہ قرار دیا ہے اور ابن یحییٰ القطان اور یحییٰ بن معین نے ضعیف قرار دیاہے اور امام احمدنے کہا کہ قوی نہیں ہے اور ابوجعفر نے اسے ضعفاءمیں ذکرکیا ہے سفیان بن عیینہ سے مروی ہے کہ نہیں لی جاتی ا س س ے مگر صرف و ہ روایت جو ہ م اس ک ے سوا اور کسی کے پاس ن ہ پات ے اور ابوحاتم ن ے کہ ا اس کی حدیث لکھ ی جاتی ہے میں کہتا ہوں بخاری میں اس س ے سوائ ے طاؤس عن ابی ہریر ہ ک ے اور کوئی حدیث نہیں بخاری میں یہ ہے کہ :سلیمان بن داؤد نے کہا کہ آج میں 90عورتوں کے پاس ضرور جاؤں گا ....الحدیث۔ امام بخاری نے اس ے قسموں ک ے کفار ے میں اسی ک ے طرق س ے اور کتاب النکاح میں عبدالل ہ بن طاؤس کی اس ک ے باپ س ے متابعت میں وارد کیا ہےہ ۔(مقدمۃ فتح الباری الفصل التاسع فی سیاق اسماءمن طعن فیہ ،حرف الھاءھشام بن حجیر )448-1/447: میں کہتاہوں:صحیح مسلم میں بھی اس کی دوحدیثیں ہیں ایک تویہی اللہ کے نبی سلیمان کی حدیث باب الستثناءمیں امام مسلم نے یہ حدیث چار طریق سے روایت کی ہے ایک طریق میں ہشام بن حجیر بھی ہے دوسری حدیث عمرہ میں تقصیر سے متعلق ہے امام 36
مسلم نے یہ حدیث حسن بن مسلم کی متابعت میں روایت کی ہیں جیسا کہ سفیان ابن عیینہ کا بھی یہی قول ہے ۔ (ملحظہہ ہو:زاد المعاد2/137:لبن قیم،الجرح والتعدیل ،6/259نیز ،9/53لبن ابی حاتم ،من تکلم فی ہ 1/187:نیز میزان العتدال فی نقد الرجال ،7/77:نیزالکاشف2/335:للمام ذہبی ،معرفۃ الثقات: 2/327از ابولحسن العجلنی ،الثقات 7/567:ازمحمد بن حبان،الضعفاءوالمتروکین 3/174:از ابن الجوزی ،لسان المیزان : 7/417نیزتھذیب التھذیب 8/92:نیزتقریب التھذیب،1/572:الکامل فی ضعفاءالرجال5/119:نیز 7/111ازابن عدی الجرجانی،جامع التحصیل : 1/58ازابوسعید العلئی،الضعفاءالکبیر4/337:ازامام عقیلی ،التعدیل الکبری5/448:نیز والتجریح3/1169:ازابوالولیدالباجی،الطبقات 1/385نیز 1/401،402نیز ،3/30ابن سعد ،حجۃ الوداع1/442:ازابن حزم ) خلص ہ ی ہ ک ہ بعض علماءن ے ہشام بن حجیر کی توثیق کی ہے توبعض ن ے اس ے مجروح قراردیا ہے اور اصول میں ی ہ بات ثابت ہے ک ہ جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہےہ (ملحظہہ ہو نخبة الفکر ، 1/232:الحکام 2/99از امام آمدی ،الکفایۃ فی علم الروایۃ از خطیب بغدادی ) اگر ہ م ابن عباس سےہ مروی روایات کی صحت کو تسلیم 2 کرلیں تب بھی حجت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہہ صحیح قول کے مطابق صحابی کا قول حجت نہیں بن سکتا امام آمدی فرماتے ہیں : نوع ثانی صحابی کا مذہ ب :اس میں دومسئلےہ ہیں ایک یہہ کہہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ صحابی کاقول اجتہادی مسائل میں دیگر صحاب ہ ک ے لئ ے حجت نہیں بن سکتا خوا ہ و ہ امام ہ و یا حاکم یا مفتی البت ہ تابعین اور دیگر مابعد مجتہدین ک ے لئ ے حجت ہون ے س ے متعلق اختلف ہے معتزلہ ،اشاعرہ اور امام شافعی کے دومیں سے ایک قول کےہ مطابق اور امام احمد بن حنبل سےہ دوروایات میں سےہ ایک روایت ک ے مطابق وہہ حجت نہیں اور امام مالک بن انس اور امام ابوحنیفہ ک ے شاگردان امام رازی اور امام بردیجی اور امام شافعی ک ے ایک قول اور امام احمد کی ایک روایت کےہ مطابق قیاس کے مقابلے میں حجت ہوسکتا ہے ایک قوم کا مذہب یہی ہے کہ قیاس کے مقابل ے میں حجت ہے وگرن ہ نہیں ایک اور طبق ے کا کہنا ہے ک ہ ابوبکر وعمر کا قول حجت ہےہ اور کسی کا نہیں صحیح بات یہی ہےہ کہ صحابی کا قول مطلق حجت نہیں ہوتا۔(الحکام4/155:للمدی)
37
ان دلئل کارد ّ باعتبار علم اصطلح:اگر ہم ابن عباس سے 3 مروی روایات کی صحت بھی تسلیم کرلیں اور صحابی کے قول کی حجیت بھی پھر بھی ابن عباس کی روایات علی الطلق قبول نہیں کی جاسکتیں کیونکہ بعض روایات مطلق ہیں جبکہ بعض مفصل ابن طاؤس کی طاؤس سے مروی ایک روایت میں ہے کہ ابن عباس نے فرمایا ک ہ ”یہ اس ک ے ساتھ کفر ہے “ابن طاؤ س ن ے کہ ا ک ہ یہ اس کے سات ھ کفرہے و ہ اس شخص کی طرح نہیں جس ن ے الل ہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔ ابن طاؤس کی دوسری روایت میں ہے کہ ابن عباس نے فرمایا:اگر وہ ایسا کرے تو یہ اس کے ساتھ کفر ہے اور وہ اس شخص کی طرح نہیں جس نے اللہ اور روز آخرت اور ایسا ایسا کے ساتھ کفر کیا۔ علی بن ابی طلحہ کی ابن عباس سے مروی تیسری روایت میں ہے کہہ :فرمان باری تعالیٰہ :ومن لم یحکم بما انزل اﷲہ فاولئک ہم الکافرون ابن عباس ن ے کہ ا ک ہ جس ن ے جحود (انکار)کیااس کا جو اللہ نے نازل کیا تو اس نے کفر کیا اور جس نے اقرار توکیا مگرحکم نہ کیا تووہ ظالم فاسق ہے(تفسیر طبری )257-6/256:۔چنانچہ تفضیل ہ ی مذہ ب مختار ہے ابن جریر ابن قیم اور محمد بن ابراہیم کایہی قول ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں :ان اقوال میں میرے نزدیک صحیح ترین قول اس شخص کاہےہ جو کہتا ہےہ کہہ یہہ آیات اہل کتاب کفارکےہ متعلق اتریں کیونکہ ان آیات کاماقبل ومابعد انہی کے بارے میں نازل ہوا اور وہ ی مراد ہیں اور یہہ آیات انہ ی کےہ متعلق خبرکا سیاق ہیں تو ان آیات کاان ک ے متعلق خبرہونا ہ ی زیاد ہ صحیح ہے ۔پھ ر اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ خبر عام ہے ہر اس شخص کے متعلق جو اللہ کے نازل کرد ہ ک ے متعلق حکم نہ کر ے تو آپ اس ے خاص کیس ے قرار دے سکت ے ہیں ؟اس س ے کہ ا جائ ے گا ک ہ الل ہ تعالی ٰ کی ی ہ خبر اس قوم ک ے بار ے میں عام ہے جو الل ہ ک ے اپنی کتاب میں ذکر کرد ہ حکم کا انکار کرتے تھے تو اللہ نے ان کے بارے میں خبردی کہ وہ اللہ کے حکم کو اس طریقے سے چھوڑنے کی وجہ سے کافر ہیں ۔یہی بات ہر اس شخص کے بارے میں کہی جائے گی جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے اس کا انکار کردے تو وہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے وال ہے جیسا ک ہ ابن عباس ن ے اس ے فرمایاکیونک ہ اس ن ے اس بات ک ے علم ک ے باوجود ک ے الل ہ ن ے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے الل ہ کےہ حکم کا انکار کردیا یہہ ایسےہ ہی ہےہ کہہ جس نےہ اس بات کاعلم ہونےہ کے 38
باوجود کہہ آپ اللہہ کےہ نبی ہیں آپ کی نبوت کو ماننےہ سے انکارکردیا۔(تفسیرطبری)6/257:
کفر اعتقاد کی اقسام اور سابقہ بیانات پر مؤلف کا کلم: میں کہتا ہوں کہ سیکولر حکمرانوں اور ان کے تابعدار ججوں قانون سازوں ،مفکرین اور مددگاروں کا بھ ی یہ ی حال ہے و ہ بھ ی الل ہ کے حکم کی حجیت وحقیقت کا انکار کرتے ہیں حالنکہ انہیں اس بات کا علم بھ ی ہے ک ہ ی ہ الل ہ کا نازل کرد ہ حکم ہے او رکہت ے ہیں ک ہ حکم کا اختیار پارلیمنٹ کی غالب اکثریت یا حکمران جماعت ک ے پاس ہوتا ہے یا حاکم کی مرضی کے مطابق اور اب مسئلہ صرف ایک حاکم کا ہی نہیں کہ وہ اللہ کے نازل کردہ حکم سے انحراف کرکے علنیہ متبادل وضعی قوانین اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو ان کا پابند بناتاہے اور اس ے عدل وحریت قرار دیتا ہے اور علی العلن کہتا ہے ک ہ سیادت صرف ایک ہ ی جماعت کا حق ہے اورکسی کا نہیں بلک ہ ایک مکمل نظام کا ہے جودستور قانون کو ہ ر حاکم ومحکوم اور پارلیمنٹ کے اسپیکر اور سیکیورٹی فورسز اور وکلءوغیرہہ سب کےہ لئےہ فرض قرار دیتا ہے کہ وہ شریعت کے حکم کا التزام نہ کرے اور شریعت کے علوہ حکم کے آگے سرنگوں ہواور سیکولرقوانین ودساتیر کا احترام کرے اور ان کا دفاع کرے ۔ ی ہ خلف شریعت حکم کفر کا ایک مکمل نظام ہے جو ان سیکولر قوانین کو نہیں مانتا اسے مجرم قرار دیتا ہے اپنی دستوری ،اساس ، فکری سیادت ،قانونی احکامات ،سیاسی سرگرمیوں اور اجتماعی نظم سےہ اسلم کی مکمل مخالفت کرتا ہےہ اگر اس کتاب میں اختصار مطلوب نہ ہوتا توہم اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے لیکن یہاں اسلم اور اس وضعی نظام ک ے مابین چند فروق کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاءکرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے لئے ان پر حکومت کرنے والےہ نظاموں کاانحراف اور اس کا دفاع کرنےہ والےہ گمراہہ کن رجسٹرڈہ ملؤں ،مصنفین ،صحافیوں اور گمراہہ داعیان وغیرہہ کی گمراہی کاپول کھل کر سامنے آجائے ۔واللہ المستعان۔ علمہہ محمد بن ابراہیم فرماتےہ ہیں:اللہہ تعالیٰہ اپنےہ نبی محمد کو یہود کےہ مابین حکم کرنےہ یا ان سےہ اعراض کرنےہ کےہ متعلق خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ :
39
ش ْيئًا َوإِنْ ضرّوكَ َ ع ْنهُمْ َفلَنْ َی ُ ع ْنهُمْ َوإِنْ ُت ْعرِضْ َ عرِضْ َ حكُمْ َب ْي َنهُمْ َأوْ أَ ْ َفإِنْ جَاءُوكَ فَا ْ حبّ ا ْلمُقْسِطِينَ ()٤٢ لّ یُ ِ ط إِنّ ا َ حكُ ْم َب ْي َنهُمْ بِالْقِسْ ِ ت فَا ْ ح َك ْم َ َ پس اگر و ہ آپ ک ے پاس فیصل ہ کروان ے آئیں تو آپ چاہیں تو ان کے درمیان حکم کردیں یاان سےہ اعراض کرلیں اور اگر آپ ان سے اعراض کریں گے تو وہ ہرگز آپ کو نقصان نہ پہنچاسکیں گے اوراگر آپ حکم کریںتوعدل ک ے سات ھ حکم کریں یقیناالل ہ قسط(عدل)کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ قسط عدل کو کہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے بڑھ کر عدل نہیں ہوسکتا اور اس کے برعکس حکم ظلم وجور ،گمراہی، کفر اور فسق ہے اسی لئے اس کے بعد اللہ نے فرمایا:ومن لم یحکم بما انزل اﷲہ فاولئک ہم الکافرون....الظالمون....الفاسقون اورجو لوگ الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم ن ہ کریں سویہ ی لوگ کافر ہیں....ظالم ہیں....فاسق ہیں۔غور کریں اللہ تعالیٰ نے کس طرح اللہ ک ے نازل کرد ہ ک ے بغیر حکومت کرن ے والوں پر کفر ظلم وفسق کا انطباق کیا یہہ ممکن ہ ی نہیں کہہ اللہہ اپنےہ نازل کردہہ کےہ بغیر حکم کرنے والے کو کافر کہے پھربھی وہ کافر نہ ہو بلکہ وہ مطلق کافر ہے یا تو کفر عملی یا کفر اعتقاد اور اس آیت کی تفسیر میں طاؤس کی ابن عباس سےہ مروی روایت وغیرہہ میں دلیل ہےہ کہہ اللہہ کےہ نازل کرد ہ ک ے بغیر حکم کرن ے وال ے کافر ہیں یا کفر اعتقاد جو دین سے نکال دے یاکفر عملی جو دین سے نہیں نکالتا ۔کفر اعتقاد چند قسم پر ہے : الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے بغیر حکومت کرن ے وال الل ہ اور اس کے 1 رسول کے حکم کے ”احق“یعنی حق تر اور مستحق تر ہونے کا انکار کردےہ ابن عباس سےہ یہ ی معنی مروی ہےہ ابن جریر نےہ اسےہ ہی اختیار کیا ہے کہ یہ اللہ کے نازل کردہ حکم شرعی کا انکار ہے س میں اہ ل علم کا بالکل اختلف نہیں ان ک ے مابین ی ہ اصول متفق ہ ومقررہ ہے کہ جو اصول دین میں سے کسی بھی ایک اصل یا کسی بھی ایک متفقہ فرع یا رسول اللہ کے لئے ہوئے کسی بھی ایک حرف قطعی کا انکار کردے وہ کافر ہے اس کا کفر دین سے خارج کردیتا ہے۔ الل ہ ک ے نازل کرد ہ کےہ بغیر حکومت کرنےہ والالل ہ اور اس کے 2 رسول کےہ حکم کےہ حق ہون ے کا انکارنہہ کرےہ لیکن غیر رسول کے حکم کو آپ کےہ حکم سےہ اچھ ا ہونےہ کا اعتقاد رکھےہ اس کےہ کفر میں بھی کچھہ شک نہیں کیونکہہ یہہ مخلوق کےہ احکام محض ذہنی اختراعات اور پراگندہ افکار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔ 40
یہ اعتقاد رکھے کہ وہ حکم اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے 3 زیادہ اچھا ہے لیکن یہ اعتقاد رکھے کہ اس کے ہم پلہ ہے تویہ بھی سابقہ دوافراد کی طرح کافر ہے جس کا کفر دین س ے نکال دیتاہے کیونکہ اس اعتقاد کے ذریعے وہ خالق اور مخلوق کو برابرقرار دے رہا ہے۔ اللہہ کےہ نازل کردہہ کےہ بغیر حکومت کرنےہ والےہ کےہ حکم کے 4 متعلق ی ہ اعتقاد بھ ی ن ہ رکھے ک ہ و ہ الل ہ اور اس ک ے رسول ک ے حکم ک ے برابر ہے چ ہ جائیک ہ اس س ے اچھ ا ہون ے کا اعتقاد رکھے لیکن اللہ اور اس کے رسول کے مخالف حکم کے ساتھ حکومت کے جائز ہونے کااعتقاد رکھتا ہے جس ک ے متعلق اس ے علم ہے ک ہ و ہ صحیح ،صریح اور قاطع نصوص کی روشنی میں حرام ہے۔ یہ شریعت کی سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر مخالفت ہے 5 اور شرعی عدالتوں کی مشابہ ت ہےہ :جس طرح شرعی عدالتوں کے مراجع ومآخذ ہوتے ہیں جن کا مرجع مکمل طور پر کتاب وسنت ہوت ے ہیں ایس ے ہی ان عدالتوں ک ے بھی مراجع ومختلف قوانین سے مل کر بنائے گئے قوانین ہوتے ہیں۔بہت سے اسلمی ممالک میں اس طرح کی عدالتیں موجود ہیں جن ک ے ججز لوگوں ک ے مابین کتاب وسنت کےہ احکام کےہ مخالف ان قوانین سےہ ثابت شدہہ احکام کے مطابق فیصل ے کرت ے ہیں اور انہیں ان کا پابند قراردیت ے ہیں تو اس کفر سے بڑھ کر کون ساکفر ہوگا؟ اہل عقل کو چاہیئےہ کہہ وہہ ان سےہ ویسےہ ہی دور رہیں کیونکہہ یہ عدالتیں انہیں اپنا عابد بنالیں گی اور ان ک ے متعلق اپنی خواہشات اورمفادات،اغلط و اخطاءکے مطابق فیصلے کریں گی چہ جائیکہ ان ک ے کفر ہون ے کی وج ہ س ے ایسا کریںجیسا ک ہ فرمایا:ومن لم یحکم بما انزل اﷲہ فاولئک ہم الکافرون اور جو اللہہ کےہ نازل کردہہ کے مطابق حکم نہہ کریں سو یہی لوگ کافر ہیں ۔وہہ حکم جس کے مطابق دیہاتوں میں رہنےہ والےہ اکثر قبائل وخاندان اپنےہ آباءواجداد کے طور وطریقے اپناتے ہیں ۔ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرنے والے کے کفر کی دوسری 6 قسم جو اسےہ دین سےہ خارج نہیں کرتی :ابن عباس کی آیت مذکور سے متعلق تفسیر اس قسم کو بھی شامل ہے وہ یہ کہ انہوں نےہ اس آیت کےہ متعلق فرمایا”:کفر دون کفر“نیز ”یہہ وہہ کفرنہیں جس کی طرف تم لوگ جاتے ہو“اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے ہ رسول کے ہ حکم کے ہ برحق ہونے ہ کا اعتقاد رکھنے ہ کے باوجودمعاملے خواہش وشہوت کے مطابق فیصلہ کرنا اور ساتھ ساتھ 41
ی ہ اعتراف بھ ی کرناکہ غلطی پر ہے حق ک ے مخالف ہے اگرچہ یہ کفر دین س ے خارج نہیں کرتا لیکن بہ ت بڑی نافرمانی ہے حتی ک ہ کبائر جیسےہ زناء،شراب نوشی ،چوری،جھوٹی قسم وغیرہہ سےہ بھ ی بڑا گناہ کیونکہ جس نافرمانی کا نام اللہ کفر رکھے وہ اس نافرمانی سے بڑ ھ کر ہوتی ہے جس کانام و ہ کفر ن ہ رکھے ۔(شیخ محمد ابراہیم آل شیخ سابق مفتی اعظم سعودیۃ ۔ رسالۃ تحکیم القوانین ص )21-13 امام ابن قیم ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں :صحیح بات یہ ہے ک ہ الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے بغیر حکم کرنا حکم کرن ے وال ے کی حالت کے اعتبار سے کفر اصغر اورکفر اکبر دونوں کو شامل ہے ۔اگر اس کا اعتقاد ہوکہ اس واقعہ میں اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم کرنا واجب ہے مگر اس کی نافرمانی کرتا ہے اور یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ اس طرح وہ سزا کا مستحق بن جائے گا تویہ کفر اصغر ہے اوراگر یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ یہ واجب نہیں ہے اور اسے اس میں اختیارہے اور اس ے ی ہ یقین بھ ی ہے ک ہ ی ہ الل ہ کا حکم ہے توی ہ کفر اکبر ہے اور اگر اس سے بے خبر ہے یا اسے سمجھنے میں غلطی کررہا ہے تو اس کا حکم وہی ہے جو مخطی کا ہوتا ہے ۔(مدارج السالکین)337-1/336: میں کہتا ہوں کہہ :ان سیکولر نظاموں کےہ دساتیر اس بات کی صراحت کرتےہ ہیں کہہ سیادت اور حکومت صرف ایک ہ ی گروہہ کا حق ہے اور دستور ہی تمام قوانین کا سرچشمہ ہے اس کی مخالفت جائزنہیں اور عدالتوں میں بھی اسی قانون کےہ مطابق حکم ہوگااس کےہ بغیر حکم ناجائز ہےہ اور اس کےہ حکم کی دلیل بھی دستور او رقانون س ے لی جائ ے گی اور سیکولر جج ی ہ اختیار نہیں رکھتا ک ہ اس قانون کی خلف ورزی کرےہ اور شریعت ک ے مطابق فیصلہ دے اور اس قانون پر باطل ہونے کا حکم لگائے اگر ایسا کرے گا تو اسے اس کے منصب سے فارغ کردیا جائے گا انہیں اس بات کا اچھ ی طرح علم ہے ک ہ و ہ ی ہ سب جو کہت ے ہیں و ہ اسلمی عقید ہ اور شریعت اسلمیہ کی ضد ہے۔ چند آثار از صحابہ :اگر ہ م ابن عباس س ے مروی روایات کی 7 صحت کو تسلیم کرلیں پھ ر بھ ی و ہ عصر حاضر ک ے مرجئ ہ ک ے حق میں دلیل نہیں بن سکتیں جن کا مذہ ب ودعویٰہ ہےہ کہہ جو اللہہ کے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم ن ہ کر ے و ہ کافرنہیں اگرچ ہ تمام شہروں کےہ قوانین کو سیکولر اور نصرانی قوانین سےہ بدل ڈالیں اور شریعت کی حاکمیت کا انکار کردیں اور اس کےہ بدلےہ کسی ایک جماعت ،گروہ یاغالب اکثریت اور ذاتی خواہشات کی حاکمیت مان 42
لیں کیونک ہ صحابی کاقو ل اکیل ے ہی حجت نہیں بن سکتا بلکہ قطعاً حجت نہیں بن سکتا جبکہ دیگر صحابہ کے اقوال اس کے مخالف ہوں عمرفاروق،اور عبدالل ہ بن مسعود س ے ایس ے اقوال مروی ہیں جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کے کفر ہونے پر تاکید ہیں ۔ 1۔ عبدالعلیٰہ بن حماد روایت کرتےہ ہیں ہمیں حدیث بیان کی حماد ن ے ابان بن ابی عیاش سےہ وہہ مسلم سےہ کہہ مسروق نےہ کہا میں نے عمر سے کہااے امیرالمومنین کیا آپ حکم (یعنی فیصلہ جات )میں رشوت دینےہ کو سحت (یعنی حرام)سےہ شمار کرتےہ ہیں۔ فرمایا:نہیں لیکن کفر سےہ درحقیقت سحت (حرام)یہہ ہےہ کہہ کسی شخص کاحاکم کے ہاں جاہ ومرتبہ ہو اور کسی دوسرے کو حاکم سے کوئی ضرورت آن پڑ ے تو و ہ اس وقت تک اس کی حاجت پوری نہ کر ے جب تک کہہ و ہ اسےہ (پہلےہ شخص کو)ہدی ہ ن ہ دے۔(احکام القرآن للجصاص)4/85: 2۔ اسلم بن سہل الواسطی بشر بن محمد بن ابان بن مسلم کے ترجم ہ میں فرمات ے ہیں ہمیں حدیث بیان کی اسلم نےکہ ا ہمیں بیان کیا محمد بن عبدالل ہ بن سعید ن ے کہ ا ہمیں بیان کیا بشر بن محمد بن ابان بن مسلم الواسطی نے کہا ہمیں بیان کیا حماد بن سلمۃ نے ابان بن ابی عیاش سےہ وہہ مسلم بن ابی عمران سےہ وہہ مسروق سے انہوں نے کہا میں نے عمر بن خطاب سے کہا آپ بتائیے کیا حکم (یعنی فیصل ہ جات)میں رشوت دینا سحت (یعنی حرام )ہے؟فرمانے لگ ے نہیں لیکن کفران (ناشکری)ہے ۔سحت ی ہ ہے ک ہ کسی آدمی کا حاکم ک ے نزدیک مرتب ہ ہواور کسی دوسر ے کو اس س ے کام پڑجائے تو وہہ اسےہ تحفہہ پیش کرےہ تاکہہ وہہ اس کی ضرورت پوری کروادے۔(تاریخ واسط)1/181: میں کہتا ہوں:ان دونوں آثار کی علت ابان بن ابی عیاش میں ہے ۔ (ملحظہہ ہو:التاریخ الکبیر ، 1/454:نیز التاریخ الصغیر ، 2/53:للمام البخاری،الضعفاءوالمتروکین1/16:للمام نسائی،المقتفی فی سرد الکنی 1/77:للذھبی ،احوال الرجال 1/103:للسحاق الجوزجانی ، حلیۃ الولیاء 7/50:ابونعیم الصبہانی ،الجرح والتعدیل 1/77:للمام ابن ابی حاتم )
عبداللہ بن مسعود کے اقوال : 1۔ امام ہیثمی فرمات ے ہیں :مسروق س ے مروی ہے کہت ے ہیں میں عبدالل ہ بن مسعود ک ے پاس بیٹھاتھا کہ ایک شخص آپ س ے کہن ے لگا سحت (حرام )کیاہےہ کیا حکم (یعنی فیصلہہ جات)میں رشوت 43
دیناہے ؟فرمایا:یہ کفر ہے پھر یہ آیت پڑھی :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون جو الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم نہ کریں سو یہ لوگ کافر ہیں۔اسے ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اور ابویعلیٰ کے شیخ محمد بن عثمان بن عمر کو میں نہیں جانتا (مسند ابی یعلیٰ : ،174-9/173سنن البھیقی الکبریٰ)10/139:۔اور عبداللہ بن مسعود س ے مروی ہے فرمایا:حکم (یعنی فیصل ہ جات)میں رشوت دینا تحفہ ہےہ اورلوگوں کےہ نزدیک یہہ سحت(حرام)ہےہ ۔اسےہ طبرانی نےہ کبیر میں روایت کیا اور اس کےہ رجال صحیح کےہ رجال ہیں ۔(مجمع الزوائد ، 200-4/199:المعجم الکبیر ، 9/226:سنن سعید بن منصور جلد )4 2۔ امام ہیثمی فرماتےہہ ہیں :فرمان باری تعالیٰہہ ”واکلھم السحت“اوران کا سحت کھانا۔عبدالل ہ بن مسعود س ے مروی ہے کہ ان سےہہ سحت(حرام)کےہہ متعلق پوچھاگیا فرمایاکہہہ ”:رشوت ہے“کہاگیا حکم (یعنی فیصل ہ جات )میں بھ ی ؟فرمایا:ی ہ کفر ہے۔اسے طبرانی نےہ شریک کےہ واسطےہ سےہ روایت کیاہےہ وہہ سدّى¸ سےہ وہ ابوالضحیٰ سے اور سدّی کو میں نہیں جانتا اور اس کے باقی روات ثقہ ہیں ۔ میں کہتاہوں:میں نےہ اس روایت کو طبرانی معجم الکبیر حدیث نمبر 9098میں شریک سےہ وہہ سد ّ ی سےہ وہہ ابوالضحیٰہ سےہ وہ مسروق س ے و ہ عبدالل ہ بن مسعود س ے الحدیث اس سندس ے بھی پایاہے ۔(مجمع الزوائد ،7/15:المعجم الکبیر)19/252: 3۔ ابن جریر الطبری فرمات ے ہیں :مجھے حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم ن ے کہ ا ہمیں بیان کیا ہشیم ن ے کہ ا ہمیں خبردی عبدالملک بن ابی سلیمان نے سلمہ بن کہیل سے وہ علقمہ اور مسروق سے ان دونوں نےہ عبداللہہ بن مسعود سےہ پوچھا کیا حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دینا حرام ہے ۔فرمانے لگے :کیا فیصلہ جات میں ؟ یہ تو کفر ہے۔(تفسیر الطبری ،4/257،239،240:المعجم الکبیر)9/422: میں کہتا ہوں:اس سند کےہ تمام روات اللہہ کےہ فضل سےہ ثقہہ ہیں (ملحظہہ ہویعقوب بن ابراہیم کا ترجمہہ :الجرح والتعدیل 9/202:از ابن ابی حاتم،نیز سیر اعلم النبلء،12/144:اور ہشیم بن بشیر کا ترجمہہ :الکنی والسماء 1/759:از امام مسلم نیز التاریخ الکبیر: 1/311،8/242از امام بخاری ،نیزالجرح والتعدیل 1/155،9/115:۔نیز تذکرة الحفاظ 1/248،249:از طاہ ر بن محمد القیسرانی۔عبدالملک بن ابی سلیمان کا ترجمہ:تذکرة الحفاظ 1/155:۔اورسلمہ بن کہیل کا 44
ترجمہ:التاریخ الکبیر4/74:نیز الجرح والتعدیل 1/143،4/170:۔علقمہ بن قیس کا ترجمہ:حلیة الولیائ2/98،99:۔اور مسروق بن اجدع کا ترجمہ:التاریخ الکبیر 8/35:نیز الجرح والتعدیل )8/396:۔ ابن جریر الطبری فرماتے ہیں:ہمیں حدیث بیان کی ھناد نے کہا ہمیں بیان کیا عبید ہ ن ے عمار س ے وہ مسلم بن صبیح س ے وہ مسروق سے کہ ا میں نےہ عبداللہہ بن مسعود سےہ پوچھا کیا حکم (یعنی :فیصلہ جات )میں رشوت لینا حرام ہے؟فرمان ے لگ ے نہیں جو الل ہ ک ے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافر ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ ظالم ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کر ے و ہ فاسق ہے لیکن حرام یہ ہے ک ہ کوئی شخص تج ھ سے ظلم پر مدد مانگےہ اور تو اس کی مدد کردےہ پھر وہہ تجھےہ تحفہ (بطور رشوت )د ے جس ے توقبول کرلے۔(تفسیر طبری،6/240،241: نیز احکام القرآن 4/84:از ابوبکر الجصاص نیز سنن بن سعید منصور جلد 4نیز سنن البھیقی الکبریٰ،10/139:شعب الیمان: )4/390 ابوبکر الجصاص فرمات ے ہیں:شعبہ نے منصور س ے و ہ سالم بن 5 ابی الجعد سے وہ مسروق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے عبدالل ہ بن مسعود س ے پوچھ ا :مبنی برظلم حکم یعنی فیصل ہ کرنے ک ے متعلق ؟فرمان ے لگ ے ”ی ہ کفر ہے“اور میں ن ے آپ س ے حرام کو (سحت)ک ے متعلق پوچھ ا فرمان ے لگ ے رشوت ۔(احکام القرآن4/84،: 85نیزسنن البھیقی الکبریٰ)10/139:
دوسرا شبہہ:کہ یہ آیات مسلمانوں کے بارے میں نازل نہیں ہوئیں
اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والے حکام کے مددگار عصر حاضر کے بعض مرجئہ براءبن عازب سے مروی روایت سے استدلل کرتے ہیں کہ مذکورہ آیات مسلمانوں سے متعلق نہیں ہیں ۔ براءبن عازب کہتےہ ہیں کہہ :رسول اللہ کےہ پاس سےہ ایک یہودی گزاراگیا جس کا چہرہ سیاہ کیاگیا تھا اور اسے کوڑے مارے جارہے تھے 45
رسول اللہ ن ے انہیں بلیااور کہ ا کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد ایس ے ہ ی پات ے ہ و و ہ کہن ے لگ ے ہاں پھ ر آپ ن ے ان ک ے علماءمیں سے ایک شخص کوبلوایا اور فرمایا:میں تجھے اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس ن ے تورات کو موسی ٰ پر نازل کیا کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہ ی حد پات ے ہواس ن ے کہ ا نہیں اور اگر آپ مجھے قسم ن ہ دیتے تومیں بھی آپ کو نہ بتاتا ہم حد رجم پاتے ہیں لیکن زنا ہمارے معزز لوگوں میں کثرت سےہ ہون ے لگا توہ م جب کسی شریف اور معزز شخص کو اس جرم میں پکڑت ے تو اس ے چھوڑ دیت ے اور جب کسی کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد قائم کرتے پھر ہم نے آپس میں کہا کہ آؤ ہ م کسی ایسی بات پر متفق ہوجائیں جو ہ م شریف اور ضعیف دونوں پر جاری کرسکیں چنانچہ ہم نے چہرہ سیاہ کرنا اورکوڑے مارنا اختیار کرلیا رجم کی جگہ،رسول اللہ نے فرمایا:یااللہ میں پہل شخص ہوں جس نے تیرا حکم زند ہ کیا جبکہ لوگ اس ے مارچکے تھے پھر آپ نے اس کے متعلق حکم کیا اسے رجم کردیا گیا پھر اللہ عزوجل نے یہ ح ُز ْنكَ الّذِینَ یُسَارِعُونَ فِي ا ْلكُ ْفرِ]اس ے رسول آیات اتاریں [:یَا َأ ّیهَا الرّسُولُ ل یَ ْ تجھےہ وہہ لوگ غمزدہہ نہہ کریں جو کفرمیں تیزی دکھاتےہ ہیں ....إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُاگر تمہیں دیا جائے تولے لو۔اس نے کہا محمد کے پاس جاؤاگر وہ چہرے سیاہ کرنے اور کوڑے مارنے کا حکم دیں تومان لواور اگر رجم کا حکم کریں تو چھوڑ دو اللہ نے یہ آیات نازل کردیں:ومن لم یحکم بما انزل اﷲہ فاولئک ہ م الکافرون یعنی جو اللہہ کےہ نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں تویہ لوگ کافر ہیں ۔ومن لم یحکم بما انزل ا ﷲ فاولئک ہ م الظالمون یعنی جو لوگ الل ہ ک ے نازل کرد ہ کے مطابق حکم نہ کریں تویہ لوگ ظالم ہیں۔ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الفاسقون یعنی جو اللہ کے ناز ل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں تویہی لوگ فاسق ہیں۔(صحیح مسلم)3/1327: اس شبہ کارد ّ اس طرح کہ مسلمان ان آیات کے حکم میں داخل ہیں دلئل کی روشنی میں اس کا رد ّ یہہ ہےہ کہہ دیگر صحابہہ سےہ مروی روایات میں یہ صراحت ہے ک ہ مسلمان ان آیات ک ے حکم میں داخل ہیں :
حذیفہ سے یہ بات مروی ہے : امام طبری فرماتے ہیں :ہمیں حدیث بیان کی ابن بشار نے کہا 1 ہمیں بیان کیا عبدالرحمن ن ے کہ ا ہمیں بیان کیا سفیان ن ے اور ہمیں بیان کیا ابن وکیع ن ے کہ ا ہمیں بیان کیا میر ے باپ ن ے و ہ سفیان سے و ہ حبیب بن ابی ثابت س ے و ہ ابوالبختری س ے و ہ حذیف ہ س ے الل ہ کے 46
اس فرمان:ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون یعنی جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں تویہی لوگ کافر ہیں ۔کے بار ے میں انہوں ن ے فرمایا:بنو اسرائیل تمہار ے اچھے بھائی ہوئ ے اگر تمہارے لئے ہر شیریں بات ہو اور ان کے لئے ہر کڑوی بات اور تم ان کے راستے پرضرور چلوگے تسمے کے برابر۔ نیز امام طبری نے فرمایا:ہمیں حدیث بیان کی ھناد بن سری 2 نے کہا ہمیں بیان کیا وکیع نے سفیان سے وہ حبیب بن ابی ثابت سے وہ ابو البختری سے کہا:حذیفہ سے کہا گیا :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون پھر اس نے ذکر کی ابن بشار کی طرح حدیث عبدالرحمن سےہ کہ ا ہمیں حدیث بیان کی حسن بن یحییٰہ نےہ کہا ہمیں خبر دی عبدالرزاق نے کہا ہمیں خبردی ثوری نے حبیب بن ابی ثابت سےہ وہہ ابوالبختری سےہ اس نےہ کہ ا سوال کیا ایک شخص نے حذیفہ سے ان آیات کے بارے میں :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون،ہم الظالمون،ہم الفاسقون اس نےہ کہا کہہ یہہ بنی اسرائیل کےہ متعلق کہ ا گیا فرمانےہ لگےہ بنی اسرائیل تمہارےہ اچھے بھائی ہوئ ے ک ہ ان ک ے لئ ے ہ ر کڑوی بات ہ و اور تمہار ے لئ ے ہ ر میٹھی بات ہ و ۔ہرگز نہیں الل ہ کی قسم تم ان ک ے راست ے پر ضرور چلوگے تسمے ک ے برابر(یعنی جس طرح ایک تسم ہ دوسر ے تسمے کے برابر ہوتا ہے تم اور وہ برابر ہوجاؤگے راستے میں )۔(تفسیر طبری)6/253: عبداللہہ بن مسعود س ے بھ ی یہ ی بات مروی ہے:امام طبری فرماتے ہیں :ہمیں حدیث بیان کی قاسم نے کہا ہمیں بیان کیا حسین نےہ کہ ا ہمیں بیان کیا ھشیم نےہ کہ ا ہمیں خبردی عبدالملک بن ابی سلیمان نےہ سلمہہ بن کہیل سےہ وہہ مسروق سےہ وہہ علقمہہ سے:ان دونوں ن ے عبدالل ہ بن مسعود س ے رشوت ک ے متعلق پوچھ ا فرمانے لگ ے یہ سحت(یعنی حرام )ہے ان دونوں ن ے کہ ا ک ہ حکم (یعنی فیصلہ جات )میں بھ ی ؟فرمایا:یہہ کفر ہےہ پھ ر یہہ آیت تلوت کی ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون۔(تفسیر الطبری)6/240:
سنت سے دلئل : عدی بن حاتم کہت ے ہیں میں رسول اللہ ک ے پاس آیا اورمیرے گلے میں سونے کی صلیب تھی آپ نے فرمایا:اے عدی توخود کو اس 47
بت سے الگ کرلے اور میں نے آپ کو سورۃ براءت کی یہ آیت پڑھتے سنا :اتخذوا احبارھ م ورھبانھ م اربابا من دون اﷲ(یہود ونصاری ٰ ) نے اپنے علماءاور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا ۔ پھ ر فرمایا:خبردار و ہ ان کی عبادت نہیں کرت ے تھے لیکن جب و ہ ان کے لئے کسی چیز کو حلل قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلل مان لیتے اور جب وہہ ان پر کسی چیز کو حرام قرار دیتےہ تو وہہ بھ ی اسے حرام کرلیتے۔ (ترمذی،5/27:سنن سعید بن منصور،5/245:سنن الکبری ٰ للبھیقی: ،10/16مصنف ابن ابی شیبۃ،7/156:المعجم الکبیر للطبرانی: ،71/92شعب الیمان للبھیقی،7/45:فتح القدیر للشوکانی)2/355:۔ اس حدیث میں رسول اللہ ن ے عدی بن حاتم ک ے سامنے یہ وضاحت فرمائی ک ہ الل ہ تعالی ٰ ن ے عیسائیوں کو مشرک قرار دیا اس بناءپر نہیں کہ وہ اپنے علماءاور درویشوں کی اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے بلک ہ اس بناءپر ک ہ و ہ ان ک ے حرام کرد ہ کی اتباع کرت ے اگرچ ہ الل ہ نے اسے حلل کیا ہواور وہ ان کے حلل کردہ کی اتباع کرتے اگرچہ اللہ نے اسے حرام قرار دیاہو۔عدی بن حاتم یہ سمجھتے تھے کہ عبادت صرف رسوم وشعائر کانام ہےہ جیسےہ نماز ،روزہہ وغیرہہ اور نصاریٰہ اپنے علماءاور درویشوں ک ے لئ ے ن ہ تو نماز یں پڑھت ے تھے ن ہ روز ے رکھتے تھے توو ہ سمجھے ک ہ نصاری ٰ ان کی عبادت نہیں کرت ے تھے ک ہ انہیں رب بنالیت ے مگر رسول اللہ نے ان س ے اس اشتبا ہ کو دور کردیا اور ان ک ے سامن ے وضاحت کی ک ہ انہوں ن ے انہیں رب اس طرح بنایا کہ خلف شرع حلّت وحرمت میں ان کی اطاعت کرنے لگے یہی تفسیر منقول ہے۔ امام طبری فرماتے ہیں :ابوالبختری سے مروی ہے کہتے ہیں کہ حذیفہ سےہ پوچھاگیا اللہہ کےہ اس فرمان:اتخذوا احبارھ م ورھبانھم اربابا من دون اﷲانہوں ن ے اپن ے علماءاور درویشوں کو الل ہ ک ے سوا رب بنالیا۔کے متعلق فرمانے لگے کہ وہ نہ تو ان کے لئے نمازیں پڑھتے تھےہ اورنہہ روزےہ رکھتےہ تھےہ لیکن جب وہہ ان کےہ لئےہ کسی چیز کوحلل قرار دیتےہ تو وہہ اسےہ حلل کرلیتےہ اور جب وہہ ان کےہ لئے کسی ایسی چیز کو حرام قرار دیت ے جس ے الل ہ ن ے حلل کیا ہوتو وہ اسے حرام کرلیتے تویہ ہے ان کو رب بنانا۔ سدّی س ے مروی ہے ابن عباس ن ے اس آیت :اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اﷲہ کےہ متعلق فرمایاکہہ وہہ انہیں اپنےہ لئے سجد ہ کرن ے کا حکم ن ہ دیت ے تھے البت ہ انہیں الل ہ کی نافرمانی کاحکم 48
دیتے تھے اور لوگ ان کی اس امر میں اطاعت کرتے تو اللہ نے انہیں اسی بناءپر رب قرار دیا۔(تفسیر طبری،115-10/114:فتح القدیر: ،2/335تفسیر ابن کثیر)2/350:
علماءکے اقوال: اس معنی پر سلف صالحین اور ائم ہ اسلم کا اجماع ہے یہاں ہم ان کے بعض اقوال نقل کررہے ہیں : امام طبری فرماتےہ ہیں:اللہہ کا فرمان:اربابا من دون اﷲیعنی الل ہ ک ے سوا اپن ے سردار و ہ ان کی الل ہ کی نافرمانیوں میں اطاعت کرتےہ تھےہ جسےہ وہہ ان کےہ لئےہ حلل کہتےہ اسےہ حلل کرلیتےہ اگرچہ جسےہ اللہہ نےحرام کیا ہواور جسےہ وہہ حرام کہتےہ وہہ حرام کرلیتے اگرچ ہ الل ہ ن ے اس ے حلل کیا ہو....اور الل ہ کا ی ہ فرمان :وما امروا ال لیعبدوا الھاواحدا(یعنی)انہیں نہیں حکم دیا گیامگر اس بات کا ک ہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ۔اس سے اللہ کی مراد یہ ہے کہ علماءاور درویشوں اور مسیح کو رب کا درج ہ دین ے وال ے ان یہود ونصاری ٰ کا ایک معبود کی عبادت کا حکم دیاگیا اور ایک رب کی اطاعت کا حکم دیا گیا مختلف ارباب ک ے سوا اور وہ اللہ ہی ہے کہ ہ ر شئ ے کی عبادت اور ہ ر مخلوق کی اطاعت اسی ک ے لئ ے خاص ہے اپنی تمام حقیر مخلوق پر وحدانیت وربوبیت میں وہ اکیل ہی مستحق ہے (لالٰہ ال ھو)یعنی الل ہ جل ذکر ہ فرماتا ہے:ک ہ ربوبیت اس اکیل ے کا ہ ی حق ہے جس ن ے مخلوق کو اپنی عبادت کا حکم دیا اور تمام مخلوق پر اپنی اطاعت فرض کردی (سبحان ہ عما یشرکون)و ہ پاک ہے ان سے جنہیں وہ شریک کرتے ہیں۔یعنی فرمایاکہ اللہ منزہ ومطہر ہے اس سے جو اس کی اطاعت میں شرک کیا جائے۔(تفسیر طبری-10/114: )115 امام قرطبی فرمات ے ہیں:فرمان باری تعالی ٰ :ول یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اﷲ(یعنی)اور نہ بنائے ہمارا بعض بعض کو اللہ کے سوا رب۔یعنی ہ م اس کی کسی حلت میں اطاعت نہہ کریں مگر جب الل ہ اس ے حلل قرار دے یہ الل ہ تعالی ٰ ک ے فرمان:اتخذوا احبارھم ورھبانھ م اربابا من دون اﷲ(یعنی)انہوں ن ے اپن ے علماءاور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا۔کی مانند ہوا اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے ان کواپنےہ رب کےہ قائم مقام کردیاکہہ ان کی اس حلت یا حرمت میںاطاعت کرن ے لگ ے جس ے الل ہ ن ے حلل یا حرام نہیں کیا ۔(تفسیر قرطبی)4/106: 49
ابوبکر الجصاص ن ے فرمایا:الل ہ تعالی ٰ ن ے ان ک ے بار ے میں کہا ک ہ انہوں ن ے انہیں رب بنالیا کیونک ہ انہوں ن ے اپن ے رب اور خالق کے قائم مقام قرار دیا اس چیز کی حلت یا حرمت میں جس ے الل ہ نے حلل یا حرام نہیں کیا۔اور کوئی اس بات کا حق دار نہیں کہ اس کے جیسی اطاعت کسی اور کی کی جائ ے سوائ ے الل ہ تعالی ٰ ک ے جوان کا خالق ہے اور مکلفین سارے اس کی عبادت کی فرضیت اور اس کےہ حکم کی اطاعت اور ہر ایک کو چھوڑ کر صرف اسی کی عبادت کرنے میں برابر ہیں ۔(احکام القرآن للجصاص)2/297: ابن حزم فرمات ے ہیں:الل ہ کا فرمان :اتخذوا احبارھ م ورھبانھم اربابا من دون اﷲجب یہود ونصاری ٰ ن ے اپن ے علماءاور درویشوں کی حلت وحرمت کو مان لیا تویہہ عمل درست ربوبیت اور درست عبادت بن گئی جس ک ے و ہ قریب ہوئ ے اور الل ہ تعالی ٰ ن ے اس عمل کو الل ہ ک ے سوا رب بنالینا اور اس کی عبادت کرنا قراردیا اور یہی بلاختلف شرک ہے ۔(الفصل)3/66: شیخ السلم ابن تیمیہ عدی بن حاتم کی سابقہہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:نبی نے وضاحت کردی کہ ان کی ان کے لئے عبادت ان کی خلف شرع حلت وحرمت میں اطاعت ہے جبکہ انہوں نے نہ تو ان کے لئے نمازیں پڑھیں نہ روزے رکھے نہ ہی انہیں پکارا تویہ بندوں کی عبادت کرنا ہوا۔اللہہ تعالیٰہ نےہ اپنےہ فرمان:لالٰہہ الھو سبحان ہ وتعالی ٰ عما یشرکون(یعنی )اس ک ے سوا کوئی معبود نہیں و ہ پاک ہے ان س ے جنہیں و ہ شریک کرت ے ہیں ،میں اس ے شرک قرار دیا۔(الفتاویٰ)7/67: ابن کثیر نےہ فرمایا:وان اطعتموھ م انکم لمشرکون(یعنی)اگر تم ن ے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوئے۔یعنی اگر تم الل ہ کے حکم اور اس کی شریعت س ے اس ک ے سوا قول کی طرف رجوع کروگے تو تم نے اسے مقدم کردیا یہی شرک ہے جیسے فرمان تعالیٰ :اتخذوا احبارھ م ورھبانھ م اربابا من دون اﷲامام ترمذی) (3095نے عدی بن حاتم سے نقل کیا ہے انہوں نے کہا یارسول اللہ انہوں نے ان کےہ لئےہ حلل کیا اورحرام کیا اورانہوں نےہ مان لیا یہہ ہی ان کی عبادت ہے ان ک ے لئے(تفسیر ابن کثیر)2/172:۔نیز دوسری جگ ہ اس آیت اتخذوا احبارھم ورھبانھم کی تفسیر میں فرماتے ہیں :سدّی نے کہا انہوں نے رجال کو اپن ے خیر خواہ سمج ھ لیا اور اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا اسی لئےہ اللہہ نےہ فرمایا:وما امروا ال لیعبدوا الھاواحدا(یعنی)انہیں ایک ہ ی معبود کی عبادت کاحکم دیاگیا ۔یعنی 50
وہ معبود جب کسی شئے کو حرام کردے تو وہ حرام ٹھہری اور جب حلل کرد ے تو و ہ حل ل ٹھہری اور جس ے و ہ شریعت کہہ د ے تو اس کی اتباع ہو اور جو حکم کرے نافذ ہو:لالٰہ الھ و سبحانہ وتعالیٰ عما یشرکونیعنی وہہ شرکاء،نظیروں ،مددگاروں ،اضداد اور اولد سے بلند وبزرگ وپاک ہے اس ک ے سواکوئی معبود ہے نہ رب۔(تفسیر ابن کثیر)2/350: امام شوکانی فرماتے ہیں :اس آیت کا معنی ہے کہ جب انہوں ن ے ان کی امر ونہ ی میں اطاعت کی توو ہ انہیں رب بنان ے وال ے ہی ہوئ ے کیونک ہ انہوں ن ے ان کی اس طرح اطاعت شروع کردی جس طرح اطاعت رب کی ہوتی ہے ۔(فتح القدیر)2/353: امام محمد بن عبدالوہاب عدی کی حدیث سابق پر باب باندھت ے ہوئ ے لکھت ے ہیں :جس ن ے الل ہ ک ے مقابل حلت وحرمت میں علماءاور امراءکی اطاعت کی گویا اس ن ے انہیں رب بنالیا۔(حاشیہ کتاب التوحید:ص )146 مذکورہہ آیت اور حدیث عدی کی شرح میں علماءکےہ چند اقوال نقل کرنےہ کےہ بعد مناسب ہےہ کہہ ہ م اللہہ کےہ نازل کردہہ کےہ مطابق حکم کرنےہ کا اور اس کی مخالفت کی سزا س ے متعلق علماءکے اقوال بھی نقل کردیں: شیخ السلم ابن تیمیہ نےہ فرمایا:مسلمانوں کےہ دین واتفاق سے حتمی طورپر معلوم ہے کہ جو شخص اسلم کے سوا کسی اور دین یا شریعت محمدی کےہ سوا کسی اور شریعت کی اتباع کو جائز سمجھتا ہو وہ کافر ہے اور اس کا کفر ایسے ہی ہے جیسے کتاب کے بعض حصے پر ایمان لے آنا اور بعض کے ساتھ کفر کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان الذین یکفرون باللہ ورسلہ ویریدون ان یفرقوا بين اللہ ورسلہ ویقولون نؤمن ببعض ونکفرببعض ویریدون ان یتخذوا بين ذلک سبيل اولئک ھم الکافرون حقا واعتدنا للکافرین عذاباً مھينا یقینا اللہ اور ا س کے رسولوں کے ساتھ کفر کرنے والے چاہتے ہیں کہ الل ہ اور اس کےہ رسولوں میں (باعتبار ایمان )فرق کریں اور کہتے ہیں ک ہ ہ م بعض پر ایمان لت ے ہیں اور بعض ک ے سات ھ کفر کرت ے ہیں اور چاہتےہ ہیں کہہ اس کےہ درمیان کوئی راہہ نکالیں یہہ لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے ۔ الفتاویٰ: (مجموع )4/341 51
شیخ محمدبن ابراہیم سابق مفتی سعودی ہ اپن ے وقت ک ے امیر ریاض کی طرف تجارتی عدالتوں سےہ متعلق ایک رسالےہ میں فرماتے ہیں :ہمارے پاس ایک نسخہ پہنچا جس کا عنوان ہے ”مملکت عربیہ سعودیہ کی تجارتی عدالت کا نظام“اور ہم نے اسے تقریبا ً آدھا پڑھا ہم نےہ اس میں موجود نظام کو وضعی قانون پایا ہےہ نہہ کہ شرعی نظام اور ان قوانین ک ے کسی بھ ی ایک حکم کاعتبار کرنا اگرچہہ بالکل ہ ی کم ہوبلشبہہ اللہہ اور اس کےہ رسول کےہ حکم سے عدم رضامندی ہےہ اور ایسا اعتقاد کفر ہےہ جو ملت سےہ خارج کردے۔(فتاویٰ الشیخ محمد بن ابراہیم)21/251: نیز لیبر اور ورکرز ک ے نظام س ے متعلق قانون ک ے بار ے میں سپریم کورٹ ریاض کی طرف لکھے گئ ے اپن ے خط میں فرمات ے ہیں (:واضح رہےہ کہہ اس نظام کو لیبر آفس کنٹرول کرتا ہےہ شرعی عدالت کو اس میں دخل اندازی کی اجازت نہیں): محمد بن ابراہیم کی طرف سے سپریم کورٹ ریاض کے رئیس کی طرف ،السلم علیکم ورحمۃ الل ہ وبرکات ہ وبعد !ہمیں لیبر آفس سے جاری کردہ معاملت کے متعلق آپ کے خطاب کاپتہ چل اور یہ بھی کہ لیبر آفس کی طرف س ے سپریم کورٹ ک ے لئ ے جو کچ ھ ارسال کیا جائے گا وہ حتمی و دوٹوک ہوگاتو سپریم کورٹ کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیئ ے کیونک ہ یہ عمل تو خالص سپریم کورٹ کا ہوتا ہے البتہ جب کوئی معاملہ لیبر آفس کی جانب سے سپریم کورٹ کی طرف اس غرض س ے ارسال کیا جائ ے ک ہ و ہ اس کی تنفیذ کے احکامات جاری کر ے اور پھ ر اس ے واپس لیبر آفس کی طرف بھیج دیاجائےہ تاکہہ وہہ اسےہ اپنی منشاءاور ان قوانین کےہ مطابق جاری کردےہ جس پر اللہہ نےہ کوئی دلیل نہیں اتاری تو سپریم کورٹ کو ایسےہ امور کی طرف متوجہہ نہیں ہوناچاہیئےہ کیونکہہ یہہ اللہہ کےہ نازل کردہ حکم کے بغیر فیصلہ شمار ہوگا۔ رئیس القضاۃ 23/10/1379:ھ (فتاویٰہ الشیخ محمد بن ابراھیم سابق مفتی سعودیہ )۱۲/۱۵۲ : وضعی قوانین کو حاکم قرار دینےہ کےہ بارےہ میں شیخ احمد شاکر فرماتےہ ہیں :یہہ عمل اللہہ کےہ حکم سےہ اعراض دین سےہ بے رغبتی اور احکام کفر کو الل ہ ک ے احکام پر ترجیح دینا کہلئ ے گا اور مسلمانوں میں س ے کوئی ایک شخص بھی اس قائل اور داعی کے کفر میں شک نہیں کرتا۔(عمدة التفسیر)4/157: 52
شیخ محمد حامد الفقی کتاب التوحید کی تعلیقات میں وضعی قوانین کو حاکم قرار دینے والے کے متعلق فرماتے ہیں :اگر یہ اس پر صر اور الل ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم کی طرف رجوع نہیں م ّ کرتا توبلشبہ کافر ومرتد ہے خواہ اپنا نام کچھ بھی رکھ لے اورنماز ، روزہہ ،حج جیسےہ اعمال بجالئےہ ۔(فتح المجید شرح کتاب التوحید ھامش )3/396: علم ہ محمد امین شنقیطی فرمات ے ہیں:خالق ارض وسماءکی شریعت کے مخالف نظام کو لوگوں کی جان ،مال ،عزت میں حاکم قرار دینا خالق ارض وسماءک ے سات ھ کفر ہے اس آفاقی نظام سے بغاوت ہےہ جس کا بنانےہ وال تمام خلئق کا خالق ہےہ ان کی مصلحتوں سے آگاہ ہے وہ اس بات سے برتر وپاک ہے کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی شریک قانون ساز (شارع)ہو ۔ کیا ان کے ایسے شرکاءہیں جو ان کے لئے اس بات کو دین وشریعت قرار دیتے ہیں جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا ۔ دوسری فصل
شریعت کو تبدیل کرنے والے حکام کا شرعی حکم جنادہ بن امیہ کہتے ہیں ہم عبادہ بن صامت کے پاس آئے وہ بیمار تھے ہم نے کہا اللہ آپ کو صحت دے کوئی ایک حدیث بیان کردیں اللہ آپ کو اس ک ے ذریع ے نفع د ے جس ے آپ ن ے نبی س ے سنا ہ و کہن ے لگے نبی نے ہمیں دعوت دی سو ہم نے آپ کی بیعت کی توجن باتوں پر آپ نے ہم سے بیعت لی ان میں تھا کہ ہم سنیں ،اطاعت کریں پسند وناپسند ،تنگی وآسانی میں ،ہ م پر خود غرضی ہ ی ہ و اور ی ہ ک ہ ہم َ اہ ل امر س ے اختلف ن ہ کریں ا ِ ّل ی ہ ک ہ تم کفر بواح دیک ھ لو جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔ (بخاری،6/2588:مسلم،3/1470:مسند ابی عوانۃ،4/408:بھیقی للکبریٰ،8/245:مسند احمد،5/314:الترغیب والترھیب)3/157: ابن حجر عسقلنی فرمات ے ہیں:ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے کہتے ہیں:ظالم امراءسے متعلق علماءکااس پر اتفاق ہے کہ اگر اسے معزول کرنےہ پر کسی فتنےہ یا ظلم کا اندیشہہ نہہ ہ و تو ایسا کرنا 53
واجب ہےہ وگرن ہ صبر واجب ہےہ ۔بعض علماءکہت ے ہیں ک ہ فاسق کی ابتداء ً بیعت ہ ی جائز نہیں پھ ر اگر اسک ے بعد ک ہ عادل تھاظلم کرنے لگے تو اس کے خلف بغاوت میں علماءکا اختلف ہے صحیح یہ ہے کہ َ بغاوت منع ہے ا ِ ّل ی ہ ک ہ و ہ کفر کر ے پھ ر اس ک ے خلف خروج واجب ہے ۔(فتح الباری)13/8: نیز ابن حجر فرماتےہ ہیں:کتاب الفتن میں ماسوا کفر بواح سمع وطاعت کے واجب ہونے سے متعلق حدیث عبادہ پر گفتگو کرتے ہوئے اس کلم پر بحث ہوچکی ہے جس ے لوٹان ے کی حاجت نہیں خلص ہ یہ ہےہ کہہ امام کفرکےہ ارتکاب کی صورت میں بالتفاق معزول کردیاجائ ے اور اس مقصد کو حاصل کرنا ہ ر مسلمان پر واجب ہے جو ا س میں سر توڑ کوشش کرےہ اس کےہ لئےہ اجر ہےہ اور جو سستی کرے اس کے لئے گناہ ہے اور جو کچھ نہ کرسکتا ہو اس پر یہ علقہ چھوڑدینا واجب ہے ۔(فتح الباری)13/123: امام نووی فرماتےہ ہیں:قاضی عیاض نےہ فرمایا:اگر حاکم پر کفر طاری ہو یا شریعت تبدیل کرتا ہو یا بدعتی ہو تو وہ ولیت کے حکم س ے خارج ہے اس کی اطاعت ساقط ہے تمام مسلمانوں پر واجب ہےہ کہہ اس کےہ خلف اٹھہ کھڑےہ ہوں اور اسےہ معزول کرکےہ عادل حاکم منتخب کریں بشرطیکہ ان کے لئے یہ ممکن ہو اگر صرف ایک جماعت ک ے لئ ے ایسا ممکن ہوتو ان پر واجب ہے ک ہ کافر حاکم کو ہٹادیں البتہہ بدعتی کو ہٹانا اسی وقت واجب ہےہ جب لوگ یقین کرلیں ک ہ و ہ ایسا کرسکت ے ہیں اور اگر انہیں ی ہ یقین ہ و ک ہ و ہ ایسا کرن ے س ے عاجز ہیں تو پھ ر ایسا کرنا واجب نہیں البت ہ مسلمان اس سرزمین سےہ کسی اور جگہہ ہجرت کرجائےہ اور اپنےہ دین کی حفاظت کرے ۔ (شرح النووی صحیح مسلم )12/229: ابن حجر عسقلنی حدیث نبوی ”جو جماعت س ے ایک بالشت بھی جدا ہوا گویا اس نے اسلم کا بار اپنے گردن سے اتار پھینکا کی شرح میں فرماتےہ ہیں:فقہاءکا اجماع ہےہ کہہ زبردستی غلبہہ حاصل کرنے والے حاکم کی اطاعت اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا واجب ہے اور اس کی اطاعت اس کےہ خلف بغاوت سےہ بہتر ہےہ کیونکہ ایساکرن ے میں کشت وخون اور دشمن کو خوشی ہے ۔ان فقہاءکی دلیل یہہ اور اس کی ہم معنی دیگر احادیث ہیں وہہ اس میں استثناءصرف اسی صورت میں کرتے ہیں جب حاکم سے صریح کفر صادر ہو پھر اس کی اطاعت جائز نہیں بلکہ ہر صاحب استطاعت پر اس کے خلف جہاد فرض ہے۔(فتح الباری)13/7: 54
تیسری فصل
مسلمانوں کے حالت حاضرہ پر ایک نظر الل ہ سبحان ہ ک ے نازل کرد ہ ک ے مطابق حکم کو ترک کردین ے اور اس کےہ بدلےہ وضعی قوانین اپنانےہ والےہ لوگوں کاکیاحکم ہےہ اور اس سلسلہہ میں مسلمانوں پر کیا ذمہہ داری عائد ہوتی ہےہ اس کے شرعی دلئل ذکر کرنے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم اس خطرناک سے متعلق مسلمانوں کےہ حالت حاضرہہ کا مختصر جائزہہ لےہ لیں سب س ے پہل ے جس طرف توج ہ جاتی ہے و ہ ی ہ ہے ک ہ مسلمانوں کا کوئی بھ ی ملک اس فتن ے س ے محفوظ نہیں ہے ہرجانب ایسی حکومت ہے جو اللہ کے ناز ل کردہ کے بغیر حکومت کرتی ہے او رلوگوں کو پابند ومجبور کرتی ہے ک ہ و ہ اس ے ہ ی حاکم مانیں اور اپن ے فیصل ے ل ے کر جائیں جب آپ اس صورت حال کو جماعتوں اور اقوام کی تقدیروں پر مسلط وقابض بعض بڑی کفریہہ طاقتوں سےہ مربوط کریں گے تو آپ پر واضح ہوجائے گا کہ عالم اسلم کو اس فتنے میں مبتل کرنا ان اکابر مجرمین کا ہدف اور سیاسی مقصود ہےہ جو اسلمی ممالک پرکنٹرول اور تسلط چاہت ے ہیں آپ پر واضح ہوجائے گا کہ آخر کیوں یہ متکبرو سرکش لوگ صرف عسکری اوراقتصادی کنٹرول پر اکتفاءنہیں کرتےہ کہہ صرف ممالک اور اموال پر قبضہ رکھیں اور اس بات کےہ لئےہ آزاد چھوڑ دیں کہہ مسلمان آپس میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلے کرتے رہیں؟یہ لوگ اس بات پر مصر کیوں ہیں کہہ مسلمانوں کا نہہ صرف قانونی بلکہہ فکری،سلوکی ، معاشرتی نظام بھ ی تبدیل ہوناچاہیئے؟اس سوال کا جواب اب خود اسلمی مزاج دیتا ہے اسلم اس لئے نازل ہوا تاکہ لوگوں کی زندگی کی تمام حالتوں میں ان کی نگرانی ورہنمائی کرے : حكُمْ َب ْي َنهُمْ ِبمَا عَليْهِ فَا ْ َوَأ ْن َز ْلنَا ِإَل ْيكَ ا ْل ِكتَابَ بِالْحَقّ ُمصَدّقًا ِلمَا َبيْنَ یَ َدیْهِ مِنَ ا ْل ِكتَابِ َو ُم َه ْي ِمنًا َ َأ ْنزَلَ الُّ وَل َت ّتبِعْ أَ ْهوَاءَهُمْ اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب اتاری جو اپنے سے پہلی کتاب کی تصدیق کرن ے والی ہے اور اس پر نگران ہے سو آپ کے پاس جو حق آیا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات پر نہ چلیں۔ 55
اللہ نے اسلم کو محض عقیدے کے طور پر نہیں اتارا کہ عبادت گاہوں سےہ باہ ر نہہ نکلےہ اورنہہ ہ ی محض ذاتی سلوک کےہ طور پر جو حق وعدل کے لیے عمل وجہاد سے خالی ہو۔اسلم کی یہی خاصیت اسے مجرمین کےہ لئےہ خطرناک قرار دیتی ہےہ کیونکہہ یہہ اپنےہ متبعین کی منحرف زندگی چھوڑ کر اللہہ کا صحیح منہج اور صراط مستقیم اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے : کنتم خير امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون باللہ تم بہترین لوگ ہو جسے لوگوں ک ے لئے لیاگیا ہے تم اچھائی کا حکم دیتے ہوبرائی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ نیز : وقاتلوا ھم حتی لتکون فتنہ ویکون الدین کلہ للہ اور لڑو ان سےہ تاآنکہہ فتنہہ نہہ رہےہ اور دین سارا کا سارا اللہہ کا ہوجائے۔ نیز: الذین آمنوا یقاتلون فی سبيل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبيل الطاغوت فقاتلوا اولياء الشيطان ان کيد الشيطان کان ضعيفاً اہل ایمان فی سبیل اللہہ قتال کرتےہ ہیں اور اہل کفر فی سبیل الطاغوت سو تم شیطان کے دوستوں سے لڑو یقینا شیطان کا مکر کمزور ہے۔ اسلم خطرہہ ہےہ کیونکہہ یہہ فقط قومی یا علقائی دعوت نہیں بلکہ عالمگیر دعوت ہےہ کہہ انسان بندوں کی عبادت سےہ نکل کر رب العباد کی عبادت میں مصروف ہوجائے ۔ انّا ارسلنٰک کافۃ للناس بشيرا ونذیرا ا ے نبی ہ م ن ے آپ کو تمام انسانوں ک ے لئ ے رسول بناکر بھیجا اس حال میں کہ خوشخبری دینے وال اور ڈرانے وال۔ دشمن روز او ّل س ے ہ ی جانتا ہے ک ہ اسلم کی اصل قوت اس کے عقائد واحکام میں ہے جو حق کا اثبات اور باطل کی نفی کرتے ہیں چنانچہ اسلم اور اہل اسلم پر مکمل قبضے وکنٹرول کے لئے صرف عسکری یا اقتصادی یا سیاسی شکست کافی نہہ ہوگی ی ہ سب تو ایک اہم ترین مرحلےہ کی ابتداءہےہ وہہ اہم مرحلہہ یہہ ہےہ اسلم کی محبت اور اسلم کو مسلمانوں کےہ دلوں سےہ نکال کر پھینک دیا جائ ے انہیں ان کی تاریخ س ے کاٹ دیاجائ ے ان کی تاریخ کوایک ایسا غیر مؤثر باب بنادیا جائ ے جو ن ہ تو شعور وضمیر میں حرارت پیدا کرےہ اورنہہ ہی فکر اور طرزعمل اسےہ قبول کرےہ اس خط کو 56
ن اسلم کی اسلم کے فیصلے اور اہل اسلم کو کھینچے بغیر دشمنا ِ شکست دینےہ کی تمام تر کوششیں کاوشیں رائیگاں ہیں یہہ وہ حقیقت ہے جسے ہم بیان کرنا اور اس کا انکشاف کرنا چاہتے ہیں کہ وہہ چاہتےہ ہیں کہہ شرعی حکم ختم کرکےہ سیکولر قوانین کی حکمرانی ہو خواہہ اس کےہ لئےہ سیاسی،فکری اور امن وامان کے کتنے ہی ڈھنڈورے پیٹنے پڑیں مغربی صلیبی اور اس کے حلیف یہودی ناپاک کا اسلم اور اہل اسلم کےہ خلف یہہ اصل ٹارگٹ ہےہ ۔اس حقیقت کی معرفت سے کچھ اور خطرناک تفاصیل بھی اجاگر ہوتی ہیں مثل ً ہمارےہ ممالک میں حکام ،مؤلفین ،مفکرین ،ججز،امن مشنریز،سیکولر مل،عصر حاضر کےہ مرجئہہ ،فتویٰہ فروش مفتیان اور جاہہ وحشمت کےہ امیدواران کی صورت میں موجود دشمنان شریعت اوران دشمنان اسلم صلیبیوں یہودیوں کے مابین تعلقات کا خوشگوار ہونادرحقیقت یہ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اوراپنی صفوں کو مضبوط کررہےہ ہیں اور اسلم کےہ خلف ان کی قیادت صلیبی اور یہودی کررہے ہیں ی ہ سب واشنگٹن اور تل ابیب ک ے بڑے بڑ ے مجرموں کےہ پیچھے اس وقت تک کھڑےہ رہیں گےہ جب تک ہم عسکری اعتبار سےہ اس قدر کمزور نہہ ہوجائیں کہہ ایمان اور اہل ایمان ک ے دشمن ،اسرائیلی ،سیکولر نظام س ے اپنا دفاع کرن ے کے قابل نہ رہیں۔ ایک دوسری بڑی حقیقت ی ہ ہے ک ہ دشمنان اسلم جدید صلیبی اور یہودی شریعت مخالف جنگ میں بہ ت س ے محاذوں پر نبردآزما ہیں ان میں سب سےہ خطرناک محاذ فکری یلغار کا ہےہ اس محاذ پر لڑن ے وال ے ان ک ے حامی شرعی حقائق کو چھپات ے ہیں تاک ہ اسلمی ممالک پر حکومت کرنےہ والےہ ان کےہ مقرر کردہہ لوگوں کا قانون ثابت کیا جاسک ے ان لوگوں ک ے سرپرست و ہ لوگ ہیں جو علم اور دعوت سے نسبت رکھتے ہیں وہ ان مرتد حکام کو شرعی حکام اور واجب الطاعت قرار دیتےہ ہیں اوران خائن حکمرانوں اور ہمارے دشمنوں کےہ مابین ہونےہ والےہ تمام معاہدوں کو شرعی قرار دیتے ہیں جبکہ یہی معاہدے ہمارے ممالک ان کے زیر تسلط لنے اور ہمارے ممالک میں ان کی عسکری قوتوں ک ے اڈے بنان ے کا سبب ہیں اس س ے بھ ی بڑ ھ کر یہ کہ و ہ بہ ت س ے جوشیل ے مجاہ د جوانوں کو دعوت دیت ے ہیں ک ہ امریک ہ اور یہودی ک ے خلف جہاد ان حکام کی مرضی ومنشاء،ماتحتی اور اجازت س ے کرنا چاہیئے۔اس طرح اس گرو ہ نے بہت سی شناعتوں کا ارتکاب کیا : 57
اللہہ اور اس کےہ رسول سےہ مصروف جنگ مرتد حکام کی 1 شریعت کا اعتراف ۔ اسلم اور اہ ل اسلم ک ے خلف ان ک ے جرائم کی مشروعیت 2 کا اعتراف جبکہ یہی جرائم ہمارے ممالک ان زیر تسلط لنے کا سبب ہیں خواہہ عسکری قبضےہ کی صورت میں ہو یا پھر انہیں یہود وصلیبیوں کی جانب سےہ امت مسلمہہ پر اپنا تسلط برقرار اور مضبوط معاہدوں اور اپنےہ حقوق سےہ دستبردار ہونےہ کی صورت میں ان کا مقصد ہےہ کہہ جہاد کو ناکام کردیا جائےہ اس طرح کہ 3 مجاہدین کو مس گائیڈ کریں اور ان سے مطالبہ کریں کہ اپنی قیادت اعداءاسلم کے غلموں (مسلم ممالک کے حکام )کے ہاتھوں میں دے دیں۔ ان اسلم دشمن عناصر میں ایک عنصر اور بھ ی ہے اس کی یلغار بھی فکری ہے ان کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے یہ لوگ جمہوریت کےہ داعی ہیں حقیقت میں یہہ لوگ ل دینیت ،وطنیت وعوامیت پر مشتمل ایک نئے دین کے داعی ہیں جو اسلم کی ضد میںہے وہ اسلم جس کی بنیاد سراسر سلمتی باہمی ایمانی اخوت اور شریعت کو حاکم مانن ے پر ہے یہاں ہ م صرف دشمنان اسلم ک ے نفاق کو ثابت کریں گے کہ وہ انہیں جس جمہوریت کی طرف بلتے ہیں وہ ظالم اور دھاندلی پر مبنی انتخابات اور مسلح قبضے کی جمہوریت ہے ۔امریکہ نواز کسے جمہوریت سمجھتے ہیں اس کا اندازہ آپ عالم اسلم کی ریاستوں پر ایک نگا ہ ڈال کر ہ ی لگاسکت ے ہیں کیا الجزائر میں یہی جمہوریت ممکن ہےہ جہاں ٹینکوں کےہ ذریعےہ مظاہروں کو روکا گیا اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنےہ والوں سےہ جیل بھ ر دیئے گئے ؟ کیا مصر میں اس جمہوریت کا تصور کیا جاسکتا ہے ک ہ جہاں سیکورٹی فورسز کی قوت کےہ ذریعےہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور بڑ ے پیمان ے پر تشدد کیاگیا اور طویل المیعاد معاہد ے کرکے ایمرجنسی لگادی گئی ،کیا کویت میں جمہوریت ہے جو امریکی اڈا مانا جاتا ہے کیا افغانستان میں جمہوریت ہے ک ہ جہاں کابل حکومت ک ے مخالف کی بستیاں،گھ ر اور اہ ل خان ہ کو نذر آتش کردیا جاتا ہے کیا عراق میں جمہوریت ہے جو ڈھائی لکھ صلیبیوں ان کے بمبار جہاز اور توپوں ک ے تسلط میں ہے جمہوریت ک ے دعویدار ہمیش ہ یہ ی کہتے ہیں ک ہ جو اپنی قوت کامالک نہیں و ہ اپنی آواز کابھ ی مالک نہیں تو آپ کی کیا حیثیت ہے جو اپنی روح کا مالک نہیں یہ ہے جمہوریت جو 58
امریکہہ کو بڑی عزیز ہےہ ۔عقیدےہ کاانحراف اور مبنی برنفاق طرز عمل ۔سب واضح ہے ک ہ اگر امت مسلم ہ کو اظہار رائ ے کی چھوٹ مل جائےہ تویہہ ان زرخریدحکام اور ان کےہ مالکان دشمنان اسلم صلیبیوں یہودیوں کا صریح انکار کرد ے گی اور اپن ے حکام س ے اپنے علقوں کی واپسی ک ے لئ ے جہاد کامطالب ہ کرد ے گی چنانچ ہ امریکی اور صلیبی اوریہودی کا جمہوریت کی دعوت دینا اس لئےہ نہیں کہ تمام جماعتوں کو اس قدر فرصت مل جائےہ کہہ وہہ آزادی حاصل کرلیں بلک ہ اس کا اصل مقصد شریعت کی حاکمیت کو روکناہے کہ جس شریعت کی طرف یہہ امت منسوب ہےہ جو شریعت اس کا مدار ہے جس پری ہ اپنا ہ ر مسئل ہ پیش کرتی ہے تاک ہ و ہ اس پر حکم کر ے ی ہ درحقیقت ایسی آلود ہ جنگ ہے جس میں جھوٹ ،دھوک ہ اپنی تمام انواع سمیت جائز ہے۔ ایک اور حقیقت کی طرف سرسری اشارہ کردیں ک ہ وضعی قوانین ہی اسلمی ممالک میں شرعی حکم کے عدم نفاذ کا سبب ہیں یہی وجہہ ہےہ کہہ اقوام متحدہہ اور بین القوامی ادارےہ ملکوں کےہ باہم تعلقات میں انہیں ہی ترجیح دیتےہ ہیں دوسری جنگ عظیم میں وسط یورپ ک ے مشہور ملک جرمنی کی شکست اقوام متحد ہ نے دنیا پر مضبوط کنٹرول حاصل کرن ے کی ٹھان لی اور اس ک ے ساتھ ہی یہودیت کی عالمی طور پر مددکرنے کی ٹھان لی جس نے یورپی اتحاد کو اپنا حلیف بناکر اسرائیل کے قیام کا اعلن کردیا نیز روسی اتحاد کو بھی سراہنے لگی اقوام متحدہ کا (حق وباطل کی تمیز کئے بغیر )اکثریت کی رائے پر فیصلہ دینا ہی منہج اسلم سے انحراف کے لئے کافی عیب ہے جبکہ وہ پانچ بڑے مجرموں کی مکمل فرما نبردار بھی ہےہ اقوام متحدہہ کی حریت وحقوق انسانیت سےہ بھری تمام قراردادوں پر اس کےہ صرف اراکین کا مکمل کنٹرول ہےہ جو اس دنیا پر حکومت کررہے ہیں وہی جس پر چاہتے ہیں سزائیں ،محاصرے بلکہ جنگیں مسلط کرتے ہیں،اور بقیہ ارکان ان کے فیصلے نافذ کرتے ہیں یہ مغربی فکر وعمل کا خالص نفاق ہے ان کے پیمانے دوہرے ہیں اپنے لئے کچھ دیگر کے لئے کچھ اور بلکہ یہ نفاق اس سے بھی زیادہ ہے جب عالمی مجلس امن کی قراردادیں اسرائیل ،ہند یا امریکا کے مفادات ک ے خلف ہوتی ہیں تو ناقابل عمل قرار پاتی ہیں اور اگر کسی عربی یا مسلمان ملک کے خلف ہوتی ہیں تو فورا ً نافذ العمل ہوجاتی ہیں اس س ے بڑا نفاق ی ہ ہے ک ہ امریکا ن ے اعلن کردیا ک ہ وہ اقوام متحدہہ کی ان قراردادوں کونہیں مانےہ گا جو اس کےہ امن 59
ومفادات ک ے حوال ے س ے ہوں گی جبک ہ کوئی اور ایسا کہے یاکر ے تو اقوام متحدہہ اس پر پابندیاں لگادیتی ہےہ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہمارامقصد صرف یہ تھاکہ ہم اسلمی عقیدہ وعمل سے انحراف اور مجرمین کی خدمات ک ہ جیس ے بین القوامی قوانین کا نام دیا جاتا ہے کی طرف اشارہ کردیں ۔ اس کے بعد کہ جب شریعت کے خلف قائم محاذ اور اس کے پیچھے پیچھے خبیث مقاصد کا پول کھل چکا ہے یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال میں کیا کیا جائ ے ؟کیا حل ہوسکتا ہے؟حل یہ ہے کہ صلیبی اور اس ک ے حلیفوں کےہ مدمقابل اسلمی ممالک سےہ اس کی قوتوں کو نکال کر ،اس کے زرخرید حکام کو معزول کرکے ایک اسلمی مملکت قائم کرکےہ وہاں اسلمی حکومت قائم کی جائے اور اس کا بھرپور دفاع کیا جائے۔ہ ر ذی شعور اس حقیقت سے آگاہ ہے ک ہ اس صورت میں کوئی پرامن متبادل حل اس ظالم حکومت جو توپوں اور جعلسازی کےہ زور پر حکومت کرتےہ ہیں اور اس صلیبی قوت کےہ سامنےہ کچھہ نہیں کہہہ سکتا کہہ جو ہمارےہ بہ ت سے ممالک پر فی الوقت قابض ہے چنانچہ صرف ایک راستہ بچا ہے اور وہ ہے دشمنان اسلم کے استیصال اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے ہاتھ اور زبان کے ذریعے جہاد شروع ہواگرچہ یہ طویل راستہ ہے لیکن یہ طویل راستہ انبیاءاور ان کے فرمانبرداروں کا راستہ ہے نبی نےہ فرمایا:میری امت کاایک گروہہ ہمیشہہ حق پر جہاد کرےہ گا روز قیامت تک غالب رہے گا (صحیح مسلم)3/1524:۔غالب یعنی باعتبار دلیل وعلم۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سنت یہی رہی ہے کہ وہ حق اورباطل کو ٹکراتا ہے : ولول دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الرض ولکن اللہ ذو فضل علی العالمين اور اگر الل ہ لوگوں کو باہ م ٹکراتا ن ہ تو زمین پر فساد مچ جاتا اور لیکن اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل کرنے وال ہے۔ چنانچہ جب باطل سر اٹھائے تو ضروری ہے کہ حق اس کے مدمقابل آجائے اگرچہ وہ آہستہ آہستہ پھیل چکا ہو۔دورحاضر حق کے ظاہر ہونے اور عالمی کفریہ طاقتوں کی ماتحتی سے بغاوت کا مرحلہ ہے پھر ا س ک ے بعد لڑائی اور قتل کرکےہ غلبہہ حاصل کرن ے کا اور پھ ر آخر میں جو درحقیقت آخرنہیں امت سے بدعہدی کرتے ہوئے اسے جہادی افق کے کنارے اکھٹا کرکے جہادی ثمرات حاصل کرنے اور رنگ ونسل اوروطنیت ک ے سار ے بت توڑ کر دشمنان اسلم ک ے مدمقابل علم جہاد کے نتیجے میں متحد ہوجانے کا ہے۔ 60
عالمی کفریہہ کنٹرول کےہ مدمقابل جہادی ماحول سےہ مایوس بہت سےہ لوگ اسےہ ناپسند کریں گےہ یہہ وہہ لوگ ہیں جنہیں نہہ دین سے دلچسپی ہےہ نہہ دنیا میں رغبت ہےہ نہہ ہ ی وہہ تاریخ سےہ اور انسانی ادوار واحوال س ے واقف ہیں اورن ہ ہ ی عصر ِ حاضر ک ے صلیبی اتحاد اوراس کے ضعف وزوال سے ہی واقف ہیں بلکہ اسلمی عقیدے میں پوشیدہہ تباہہ کن قوت جن سےہ امت مسلمہہ فیضیاب ہونےہ کوہےہ تک سےہ واقف نہیں اورامت مسلمہہ سےہ درپیش جن خطرات کاادراک دشمنان اسلم کرچکےہ ی ہ ان کا ادراک کرنےہ س ے تاحال قاصر ہیں حقیقت ی ہ ہے ک ہ جونہ ی انہوں ن ے پیش قدمی روک دی بصیرت سے محروم ہوگئے اور اپنی رذیل حالت میں گرفتار ہوگئ ے اپنی دنیا میں مگن ہوگئے اپنے ہی ہاتھوں خود کو بیڑیوں میں جکڑلیا کہ کہیں کسی قسم کی قربانی نہ پیش کرنی پڑجائے : یری الجبناءان العجز عقل وتلک خدیعۃ الطبع اللئیم حب السلمۃ یثنی عزم صاحبہ فان جنحت الیہ فاتخذ نفقا فی الرض او سلّما فی الجو فاعتزل بزدل عاجزی کو ،عقلمندی سمجھتا ہےہ جبکہہ یہہ معیوب طبیعت کا فریب ہےہ ،سلمتی پسندی اپنےہ صاحب کو بلند مقاصد کےہ حصول سےہ روکےہ رکھتی ہےہ اور اسےہ سستی وآرام کےہ دھوکےہ میں ڈال دیتی ہے ،اگر تیرا بھی یہی رجحان ہے تو زمین پر خرچ کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر الگ ہوجا۔ مجاہدین اپنےہ رب کےہ وعدوں پر یقین رکھتےہ ہیں اپنےہ رسول کی پیشینگوئیوں کو سچا جانتےہ ہیں اپنےہ آپ کو اپنےہ دشمنوں سے مقابلے کے لئے تیار کرت ے ہیں اور اپن ے ماحول اور احوال س ے حقیقتاً واقف ہوت ے ہیں ی ہ سب دل وتحریک وجماعت میں عقید ہ توحید کی برکتوں کے ثمرات ہیں : والذین جاھدوا فينا لنھدینھم سبلنا جو لوگ ہمارےہ لئےہ کوششیں کرتےہ ہیں ہ م انہیں ضرور راہہ دکھاتے ہیں ۔ اللہ کی شریعت کو حاکم ماننے سے متعلق یہ چند جہادی راستے اور خیالت تھے جو آدم س ے چل ے تاآنک ہ ان ک ے جانشین زمین پر آبسے ان میں جو خیر ہے وہ اللہ کی توفیق واحسان سے ہے اور جو اس کے سوا ہے وہ کاتب اور شیطان کے نفس سے ہے ۔ 61
ان ارید ال الصلح مااستطعت وما توفیقی ال با ﷲ علی ہ توکلت والیہ انیب ّ ّ وآخر دعوانا ان الحمد للٰہہ رب العالمین وصلی اللٰہہ علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وسلم
حوالہ جات میں نےہ طباعت کا تذکرہہ بھ ی کردیا ہےہ تاکہہ حوالہہ جات چیک کرنے میں آسانی رہے اورکمی کوتاہی پر قاری سے معذرت خواہ ہوں ۔ ّ واللٰہ یھدی من وراءالقصد وھو یھدی السبیل احکام القرآن لحمد بن علی الرازی ابوبکر الجصاص داراحیاءالتراث العربی بیروت 1405ھ الحکام فی اصول الحکام لعلی بن محمد المدی ابی الحسن رحمہ اﷲ دار احیاءالتراث العربی،بیروت ،سنۃ 1404ھ احوال الرجال لبراھیم بن یعقوب الجوزجانی ابی اسحاق رحمہ اﷲ ،موسسۃ الرسالۃ ،بیروت ،سنۃ 1405ھ اضواءالبیان للشیخ محمد المین الشنقیطی رحمہ اﷲ بحرم الدم فیمن تکلم فی ہ المام احمد بمدح او ذم لحمد بن حنبل بن ادریس بن عبداﷲہ بن حیان بن عبداﷲہ بن انس رحمہہ اﷲ، دارالرایۃ ،الریاض ،سنۃ 1979م،الطبعۃ الولی تاریخ بغداد لحمد بن علی ابی بکر الخطیب البغدادی رحمہ اﷲ، دارالکتب العلمیۃ ،بیروت التاریخ الکبیر لحمد بن اسماعیل ابی عبدا ﷲ البخاری الجعفی رحمہ اﷲ دارالفکر التاریخ الصغیر (الوسط) لمحمد بن ابراہیم بن اسماعیل ابی عبدا ﷲ البخاری الجعفی رحم ہ اﷲ ،دارالوعی -مکتبۃ دارالتراث ،حلب القاھرة ،سنۃ 1397ھ 1977-م ،الطبعۃ الولیتحفۃ التحصیل فی ذکر رواۃ المراسیل لحمد بن ابراہیم بن الحسین بن عبدالرحمن بن ابی بکر بن ابراھیم الکردی رحمہہ اﷲ، مکتبۃ الرشید ،الریاض ،سنۃ 1999م،الطبعۃ الولی تحفۃ الطالب بمعرفۃ احادیث مختصر ابن الحاجب لسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی ابی الفداءرحمہہ اﷲ ،دار حراء،مکۃ المکرمۃ سنۃ 1406ھ ،الطبعۃ الولی
62
تذکرۃ الحفاظ(اطراف احادیث کتاب المجروحین لبن حبان)لمحمد بن طاھر القیسرانی رحمہ اﷲ۔ دار الصمیعی ،الریاض ، سنۃ 1415ھ،الطبعۃ الولی الترغیب والترھیب من الحدیث الشریف لعبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری ابی محمد رحمہہ اﷲ ،دارلکتب العلمیۃ ،بیروت، سنۃ 1417ھ ،الطبعۃ الولی التعدیل والتجریح لمن خرج لہہ البخاری فی الجامع الصحیح لسلیمان بن خلف بن سعد ابی الولید الباجی رحمہہ اﷲ ،دار اللواءللنشر والتوزیع ،الریاض ،سنۃ 1406ھ1986-م الطبعۃ الولی تعظیم قدر الصلة لمحمد بن نصر بن الحجاج المروزی ابی عبداﷲہ رحمہہ اﷲ ،مکتبۃ الدار ،المدینۃ المنورة ،سنۃ 1406ھ ،الطبعۃ الولی تفسیر القرآن العظیم لسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی ابی الفداء ،رحمہ اﷲ ،دارالفکر،بیروت ،سنۃ 1401ھ تقریب التھذیب لحمد بن علی بن حجر ابی الفضل العسقلنی الشافعی رحمہہ اﷲ ،دارالرشید ،سوریا ،سنۃ 1406ھ1986-م ،الطبعۃ الولی تھذیب التھذیب لحمد بن علی بن حجر ابی الفضل العسقلنی الشافعی رحمہہ اﷲ ،موسسۃ الرسالۃ ،بیروت ،سنۃ 1404ھہ ،1984 - الطبعۃ الولی تھذیب الکمال لیوسف ابن الزکی عبدالرحمن ابی الحجاج المزی رحمہہ اﷲ ،موسسۃ الرسالۃ ،بیروت،سنۃ 1400ھہ ،1980 -۔ الطبعۃ الولی التوحید الذی ھو حق علی العبید محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ الثقات لمحمد بن حبان بن احمد ابی حاتم التمیمی البستی رحمہ اﷲ ،دارالفکر ،سنة 1395ھ 1975 -م ،الطبعۃ الولی جامع البیان عن تاویل آيۃ¸ القرآن لمحمد جریر بن یزید بن خالد الطبری ابی جعفر رحمہ اﷲ ،دارالفکر ،بیروت ،سنۃ 1405ھ جامع التحصیل فی احکام المراسیل لبی سعید بن خلیل بن کیکلدی العلئی رحمہ اﷲ ،عالم الکتب ،بیروت ،سنۃ 1407ھ 1986 -م، الطبعۃ الثانیۃ الجامع لحکام القرآن لمحمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح القرطبی ابی عبداﷲہ رحمہہ اﷲ ،دارالشعب ،القاھرة ،سنۃ ،1372 الطبعة الثانیۃ 63
الجامع الصحیح سنن الترمذی لمحمد بن عیسی ابی عیسی الترمذی السلمی ،دار احیاءالتراث العربی ،بیروت الجماع الصحیح المختصر لمحمد بن اسماعیل ابی عبداﷲ البخاری الجعفی رحمہ اﷲ ،دار ابن کثیر -الیمامۃ ،بیروت ،سنۃ 1407ھ- 1987م ،الطبعۃ الثالثۃ الجرح والتعدیل لعبدالرحمن بن ابی حاتم محمد بن ادریس ابی محمد الرازی التمیمی رحمہہ اﷲ ،دار احیاءالتراث العربی، بیروت ،سنۃ 1371ھ 1925 -م ،الطبعۃالولی حجۃ الوداع لبی محمد علی بن احمد بن سعید ابن حزم الندلسی رحمہ اﷲ۔ بیت الفکار الدولیۃ للنشر والتوزیع ،الریاض ،سنۃ 1998ھ ،الطبعۃ الولی حلیۃ الولیاءوطبقات الصفیاءالبی نعیم احمد بن عبداﷲ الصبھانی رحم ہ اﷲ ،دارالکتاب العربی ،بیروت ،سنۃ 1405ھ ،الطبعۃ الولی رجال صحیح مسلم الحمد بن علی بن منجویہہ الصبھانی ابی بکر رحمہ اﷲ ،دارالمعرفۃ۔ بیروت سنۃ 1407ھ ،الطبعۃ الولی رسالۃ تحکیم القوانین لمحمد بن ابراھیم آل شیخ رحم ہ اﷲ ،الطبعۃ الولی سنۃ 1411ھ ،دارالمسلم ،الریاض زاد المعاد فی ھدی خیر العباد لمحمد بن ابی بکر ایوب الزرعی ابی عبداﷲہ المعروف بابن قیم الجوزیۃ رحمہہ اﷲ ،موسسۃ الرسالۃ -مکتبۃ المنار السلمیۃ،بیروت -الکویت ،سنۃ 1407ھہ - 1886م ،الطبعۃ الرابعۃ عشر سنن البھیقی الکبری لحمد بن حسین بن علی بن موسی ابی بکر البھیقی رحمہہ اﷲ ،مکتبۃ دارالباز ،مکۃ المکرمۃ ،سنۃ 1414ھہ - 1994م سنن سعید بن منصور لسعید بن منصور رحمہہہ اﷲ، دارالعصیمی ،الریاض ،سنۃ 1414ھ ،الطبعۃ الولی سیر اعلم النبلءلمحمد بن احمد بن عثمان بن قایماز الذھبی ابی عبداﷲہ رحمہہ اﷲ ،موسسۃ الرسالۃ بیروت ،سنۃ 1413ھ ،الطبعۃ التاسعۃ شعب الیمان لبی بکر احمد بن الحسین البھیقی رحمہہ اﷲ، دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،سنۃ 1410ھ ،الطبعۃ الولی صحیح مسلم لمسلم بن الحجاج ابی الحسین القشیری النیسابوری رحمہ اﷲ ،داراحیاءالتراث العربی ،بیروت 64
صحیح مسلم بشرح النووی لبی زکریا یحیی بن شرف من مری النووی رحمہہ اﷲ ،دار احیاءالتراث العربہ ،بیروت ،سنۃ 1392ھ، الطبعۃ الثانیۃ الضعفاءالکبیر لبی جعفر بن محمد بن عمر بن موسی العقیلی رحمہہ اﷲ ،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت ،سنۃ 1404ھہ 1984 -م، الطبعۃ الولی الضعفاءوالمتروکین لحمد بن شعیب النسائی رحمہہ اﷲ ،دار الوعی ،حلب ،سنۃ 1369ھ،الطبعۃ :الولی الضعفاءوالمتروکین لعبدالرحمن بن علی بن محمد بن الجوزی ابی الفرج رحمہ اﷲ ،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت1406 ،ھ ،الطبعۃ الولی الطبقات الکبری لمحمد بن سعد بن منیع ابی عبدا ﷲ البصری الزھری رحمہ اﷲ ،دار صادر ،بیروت العلل ومعرفۃ الرجال اسم الکتاب لحمد بن حنبل ابی عبداﷲ الشیبانی رحمہ اﷲ ،المکتب السلمی -دار الخانی ،بیروت ،الریاض، سنۃ 1408ھ 1988 -م ،الطبعۃ الولی عمدة التفسیر مختصر تفسیر ابن کثیر للشیخ احمد محمد شاکر رحمہ اﷲ فتاوی الشیخ محمد بن ابراھیم -رحمہہ اﷲہ -مفتی السعودیۃ السابق فتح الباری شرح صحیح البخاری لحمد بن علی بن حجر ابی الفضل العسقلنی الشافعی رحمہہ اﷲ ،دارالمعرفۃ ،بیروت ،سنۃ 1379ھ فیض القدیر الجامع بین فی الروایۃ والدرایۃ من علم التفسیر لمحمد بن علی الشوکانی رحمہ اﷲ ،دارالفکر بیروت فتح المجید شرح کتاب التوحید للشیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ رحمہ اﷲ فی ظلل القرآن للستاذ الشھید -کما نحسبہہ -سید قطب رحمہ اﷲ الکاشف فی معرفۃ من لہہ روایۃ فی الکتب الستۃ لمحمد بن احمد ابی عبداﷲہ الذھبی الدمشقی رحمہہ اﷲ ،دارالقبلۃ للثقافۃ السلمیۃ ،جدۃ ،سنۃ 1413ھ 1992 -م ،الطبعۃ الولی الکامل فی ضعفاءالرجال لعبد اﷲہ بن عدی بن عبداﷲہ بن محمد ابی احمد الجرجانی رحمہ اﷲ ،دارالفکر ،بیروت ،سنۃ 1409ھ - 1988م ،الطبعۃ الثانیۃ 65
الکفایۃ فی علم الروای لحمد بن علی بن ثابت بن ابی بکر الخطیب البغدادی رحمہ اﷲ ،المکتبۃ العلمیۃ ،مدینۃ المنورۃ کتب ورسائل وفتاوی ابن تیمیۃ فی الفقۃ لحمد عبدالحلیم بن تیمیۃ الحرانی ابی العباس رحمہ اﷲ ،مکتبۃ ابن تیمیۃ الکنی والسماءلمسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری ابی الحسین رحمہہ اﷲ ،الجامعۃ السلمیۃ ،المدینۃ المنورۃ ،سنۃ 1404ھہ ، الطبعۃ الولی لسان المیزان لحمد بن علی بن حجر ابی الفضل العسقلنی الشافعی رحمہہ اﷲ ،موسسۃ العلمی للمطبوعات ،بیروت ،سنۃ 1406ھ 1986 -م ،الطبعۃ الثالثۃ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد لعلی بن ابی بکر الھیثمی رحمہ اﷲ ،دار الریان للتراث ،دارالکتب العربی ،القاھرة -بیروت ،سنۃ 1407ھ مدارج السالکین بین منازل ایاک نعبد وایاک نستعین لمحمد بن ابی بکر ایوب الزرعی ابی عبداﷲہ المعروف بابن قیم الجوزیۃ، رحمہ اﷲ المراسیل لعبدالرحمن بن محمد بن ادریس الرازی رحم ہ اﷲ، موسسۃ الرسالۃ ،بیروت ،سنۃ 1397ھ ،الطبعۃ الولی المستدرک علی الصحیحین لمحمد بن عبداﷲہ ابی عبداﷲ الحاکم النیسابوری رحمہ اﷲ ،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت ،سنۃ 1411ھ - 1990م ،الطبعۃ الولی مسند ابی عوانۃ لبی عوانۃ یعقوب بن اسحاق السفرائینی رحمہ اﷲ ،دارالمعرفۃ ،بیروت ،سنۃ 1998م ،الطبعۃ الولی مسند ابی یعلی لحمد بن علی بن المثنی ابی یعلی الموصلی التمیمی رحمہہ اﷲ ،دارالمامون ،للتراث ،دمشق ،سنۃ 1404ھہ - 1984م ،الطبعۃ الولی مسند المام احمد بن حنبل ابی عبداﷲہ الشیبانی رحمہہ اﷲ، موسسۃ قرطبۃ ،مصر المصنف فی الحادیث والثار لبی بکر عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبۃ الکوفی رحمہہ اﷲ ،مکتبۃ الرشد ،الریاض ،سنۃ 1409ھ ،الطبعۃ الولی المعجم الکبیر لسلیمان بن احمد بن ایوب ابی القاسم الطبرانی رحمہہ اﷲ ،مکتبۃ العلوم والحکم ،الموصل ،سنۃ 1404ھ- ، 1983م ،الطبعۃ الثانیۃ 66
معرفۃ الثقافۃ لحمد بن عبداﷲہ بن صالح ابی الحسن العجلی الکوفی رحمہہ اﷲ ،مکتبۃ الدار ،الموینۃ المنورۃ ،سنۃ1405 ،ھ- ، 1985م ،الطبعۃ الولی المغنی فی الضعفاءلشمس الدین محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز الذھبی رحمہ اﷲ المقتنی فی سرد الکنی لشمس الدین محمد بن احمد الذھبی رحمہ اﷲ ،مطابع الجامعة السلمیۃ ،المدینۃ المنورۃ ،سنۃ 1408ھ من کلم احمد بن حنبل فی علل الحدیث ومعرفة الرجال لحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی ابی عبداﷲہ رحمہہ اﷲ ،مکتبۃ المعارف ،الریاض ،سنۃ 1409ھ ،الطبعۃ الولی میزان العتدال فی نقد الرجال لشمس الدین محمد بن احمد الذھبی رحمہہ اﷲ ،دارالکتب العلمیۃ بیروت ،سنۃ 1995م ،الطبعۃ الولی نخبة الفکر فی مصطلح اھل الثر لحمد بن علی بن حجر العسقلنی رحمہ اﷲ ،دار احیاءالتراث العربی ،بیروت ھدی الساری مقدمۃ فتح الباری شرح صحیح البخاری لحمد بن علی بن حجر ابی الفضل العسقلنی الشافعی رحمہ اﷲ ،بیروت ،سنۃ 1379ھ Muslim Word Data Processing Pakistan
67