SECOND MEDITATION انسانی ز ہن کی فطرت اور ی ہ ک ہ اس ے جسم س ے زیاد ہ اسانی ک ے سات ھ جانا جا سکتا ہے گزشت ہ روز ک ے تفکر ن ے میر ے زہ ن کو ایس ے بہ ت س ے خیالت اور شبہات سے بھر دیا ہے جن کو نظر انداز کر نا میرے بس کی بات نہیں اگرچہ ابھی مجھے اس بات کا علم نہیں کہ میں ان سوالت کو کس طرح حل کر سکتا ہوں اور ابھی مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں اچانک گہرے پانی میں گر گیا ہوں اور یہ خیال میرے لیے بہت پریشان کن ہے کہ میں اپنے پائوں ایک جگہ مضبوطی سے نہیں رکھھ سکتا۔ھ اور نہھ ہ ی میں تیرنا جانتا ہوں کہھ خود کو سطح اب پر ل سکوں۔ میں نے ایک مرتبہ پ ھر اپنے خیالت کو مربوط کیا اور پ ھر سے خیالت کے اس ن تفکر میں دروازے پر دستک دی جس سے گزر کر میں گزشتہ روز اس جہا ِ داخسسل ہوا۔ میسسں اس بات کسسو جاری رکھوں گسسا اور اس طریقسسے سسسے جاری رکھوں گسا کسہ خیالت کسے پہلو بسہ پہلو شسک کسی لہر بھھی موجود ہو۔ ٹھیسک اسسی طرح جس طرح میں نے پہلے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ بالکل غلط ہے۔ اور میں اسی نظریے کی شاہراہ پر اس وقت تک گامزن رہوں گا جب تک مج ھے یقین کی منزل نہ یں مل جاتی۔ یا کم از کم اس وقت تک جب تک میں اس نتیجے تک نہ یں پہ نچ نہ یں جاتا کہ دنیا میں کوئی چیز بھھی "یقینی" نہ یں۔ ارشمیدس نے جس طرح اپنی جگہ پر رہ تے ہوئے دنیا کا نقشہ بنایا اور پ ھر اسے تمام دنیا پر پھیل دیا اور اس بات کا مطالبہ کیا کہ اگر اُسے صرف ایک غیر حرکت پذیر میسں یسہ اعلی امیسد رکسھ نقطسہ دے دیسا جائے اسسی طرح سسے مجھھے یسہ حسق ہے کسہ ٰ
سکوں کہ شاید میں ایک ایسی چیز پا سسکوں جو شک و شبہ سے خالی اور یقینی ہو۔ میں فرض کرتا ہوں کہ میں نے اب تک جو کچھ بھی دیکھا سب غیر یقینسی اور غلط ہے۔ میسں فرض کرتسا ہوں اور خود سسے کہتسا ہوں کسہ کوئی چیسز بھھی لفانسی نہیسں ہے جسو کچسھ بھھی اب تسک میری یاد داشست میسں محفوظ ہے۔ میسں فرض کرتسا ہوں کسہ میرے پاس کسسی قسسم کسی حسسیات نہیسں ہیسں۔ میسں فرض کرتسا ہوں کسہ جسسم ،خدوخال ،حرکات ،اور جگہیسں میرے زہنسی تصسورات کسے علوہ کچسھ بھھی نہیسں ہیسں۔ تسب ایسسی صسورتحال میسں کیسا ہے جسس کسو سسچ مانا جا سکتا ہے۔ شاید کچھ بھھی نہ یں۔ اس وقت تک کچھ ب ھی سچ نہ یں جب تک اس جہان رنگ و بُو میں ہم کسی ایسی چیز کو نہیں پا لیتے جس پر شک کسے دبیسز سسائے نسہ لہرا رہے ہوں اور وہ یقینسی ہو۔ لیکسن کسس طرح میسں یسہ جان سسکتا ہوں کسہ کوئی بھھی چیسز دوسسری چیزوں سسے ٘مختلف نہیسں ہے جیسسا کسہ میسں نسے ابھھی فرض کیسا۔ اور کون سسی چیسز ایسسی ہے جسس پسر ہلکسا سسا بھھی شک نہ کیا جا سکے۔ کیا کوئی خدا نہ یں ہے؟ یا کوئی بھھی ٘ مخلوق جسے ہم خدا کے نام سے پ ُکا ر سکیں۔ کون ہے جو ان عکسوں کو میرے زہن میں ڈالتا ہے۔ ضروری نہیسں ہے کسہ میسں خود اُنہیسں (خیالت) اپنسے زہن میسں پیدا کرنسے کسے قابل ہوں۔ میں بذات خود۔ کیا کچھ نہ یں ہے۔ لیکن میں پہلے ہی اس بات سے انکسا ر کسر چکسا ہوں کسہ میرے پاس حسسیات اور جسسم ہے۔ اگرچسہ میسں ہچکچاتسا ہوں اس بارے میں یقنی طورپر کچھ کہ تے ہوئے کہ کون سے چیز کس چیز کی پیروی کرتی ہے۔ کیا میں جسم اور حسیات پر اس حد تک انحصار رکھ نے پر مجبور ہوں کسہ ان کسے بغیسر میسں باقسی نہیسں رھ سسکتا۔ لیکسن میسں اس بات کسا قائل ہوں کسے دنیسا میسں کوئی بھھی چیسز ایسسی نہیسں ہے نسہ ہی جنست ،نسہ کوئی زمیسن ،نہ کوئی زہن ،نسہ کوئی اجسام ۔ کیا اس بات کو تسسلیم کرنسے کسے بعد میسں ناچاہتسے ہوئے بھھی اس بات کسو تسسلیم نہیسں کسر رھھا کسہ کبھھی میسں بھھی موجود نہیں ہوں۔ بہر حال اب اس لمحہ موجود میں ،میں موجود ہوں اور اپنے وجود کے موجود ہونے کا یقین مجھے اسے بات سے ملتا ہے کہ میں سوچنے کے قابل ہوں۔ قصہ مختصر " میں ہوں ،کیونکہ میں سوچ سکتا ہوں"۔ لیکن کوئی
نسہ کوئی دھوکسا دینسے وال ہے جسو کسہ بہت طاقتور ہے اور بہت چالک ہے۔ جسو اپنسی طاقت کو مجھھے دھوکا دینے کے لیے صرف کرتا ہے۔ اگرچہ وہ مجھھے شک اور وہم کسے ہتھیاروں سسے ہرانسے کسی کوشسش کرتسا ہے تسب بھھی بل شسک وشبسہ میسں اس بات کا قائل ہوں کہ میں موجو دہوں۔ اور ا ُسے مجھھے اس قدر دھوکا دے لینسے دو جتنسا قدر وہ دے سسکتا ہے۔ اس وقست تسک وہ میرے وجود اور میرے ہونسے کو شک اور وہم کے دبیز پردوں میں نہ یں چھ پا سکتا جب تک مج ھے یقین ہے کہ میں ہوں۔ اچھھی طرح سے غورو فکر کرنے کے بعد اور احتیاط سے تجزیہ کرنسے کسے بعسد ہمیسں اس نتیجسے پسر پہنسچ جانسا چاہیسے جیسسا کسہ میسں پہنچسا ہوں کسہ میسں ہوں ۔ یسہ اسسی طرح سسچ ہے اور اس سسچ کسا یقیسن بڑھتسا جائے گسا جیسسے جیسسے میسں اس بات کسو دھرائوں گسا یہاں تسک کسہ میرا زہن بھھی اس بات کسو قبول کر لے۔ لیکسن اگرچسہ میسں واضسح طور پسر نہیسں جانتسا کسہ میسں کیسا ہوں ،میسں کون ہوں۔ اگرچسہ میسں یقینسی طور پسر یسہ بات جانتسا ہوں کسہ میسں ہوں۔ مجھھے اس امسر میسں احتیاط سے کام لینا چاہ یے کہ میں اپنے وجود کی جگہ کسی اور چیز کو نہ یں دے سسکتا۔ اور میسں اس لحاظ سسے علمسی طور پسر گمراہی کسا شکار نہیسں ہوں کہ وہ علم اور ثبوت و شواہد جو میرے زہن میں ہ یں پہلے کے مقابلے میں زیادہ پختسہ اور زیادہ منطقسسی ہیسسں۔ اسسسی لیسے میسسں اب یسہ فرض کروں گسسا ایسسک نئے طریقسے سسے کسہ کیا میسں خود پسر یقین رکھتسا ہوں اور میرا موجودہ یقیسن علمسی لحاظ سسے اس قابسل ہے کسہ میسں اس کسو کسسی حسد تسک یقینسی جان سسکوں اور اس کی بنیاد پر اپنے گزشتہ عقاہد و نظریات سے دست بردار ہو سکوں یا کم از کسسم ان پسسر نظسسر ثانسسی کسسر سسسکوں۔ کیسسا تعقلت اس ممکنسہ حسسد تسسک میری رہنمائی کسر سسکتے ہیسں کسہ میسں ان کسی روشنسی میسں اگسے کسی راہ متعیسن کسر سکوں ۔ اس لحاظ سے کہ شاید کوئی ب ھی چیز ایسی نہ ہو جو ہر لحاظ سے یقنیی اور شک و شبہ سے بالتر ہو۔ تب کیا تھا جب پہلے میرا یقین ت ھا کہ میں ہوں ،یقینیسی طور پسر میرا اس بات پسر یقیسن تھھا کسہ میسں ایسک ادمسی ہوں لیکسن سسوال یسہ ہے کسہ ادمسی کیسا ہے۔ کیسا اس کسے جواب میسں مجھھے یسہ کہنسا چاہیسے کسہ
ادمسی ایسک معقول جانور ہے۔ یقینسی طورپسر نہیسں اس سسوال کسا جواب یسہ نہیسں ہے۔ تسب کیسا مجھھے اس بات کسی جسستجو کرنسی چاہیسے کسہ ایسک جانور کیسا ہے اور معقول ہونسا کیسا ہے۔ اپ نسے دیکھ ھا کسہ ایسک سسادہ اور اسسان سسے سسوال سسے سوالت کا وہ پنڈورا باکس کھھل جاتا ہے جس سے پیچیدہ اور مشکل سوالت برامد ہوتے ہ یں۔ لیکن یقینی طور پر میں اپنا قیمتی وقت اور فرصت کے یہ انمول لمحات ایسسے فضول اور پیسچ در پیسچ سسوالت کسو حسل کرنسے میسں ضائع نہیں کر سکتا۔ لیکن میں اپنے خیالت کو یہ یں پر روک دوں گا یہ فرض کرتے ہوئے کہ خیالت خود بخود میرے زہن میسں در اتسے ہیسں۔ اور وہ سسوالت جسو فطرت نسے مجھھھے عطا نہ یں کیے لیکن مجھھے اس لیے اُن کا سامنا کرنا پڑا ،چونکہ میں نے اپنے ہونے پر غور کیا تھا۔ شروع سسے شروع کرتسے ہیسں۔سسب سسے پہلے نقطسہ اغاز جسب میسں نسے خود پسر غور شروع کیا میں نے فرض کیا کہ میرا ایک چہرہ ہے ،ہاتھ ہ یں ،بازو ہ یں ،اور وہ سسارا نظام ہے جسو ہڈیوں ،ماس ،اور ریشوں سسے بنسا ہوا ہے۔ جسس کسو میسں جسم کے نام سے جانتا ہوں۔ اس میں مذید اس امر کا اضافہ کر لیجیے میں نے فرض کیا کہ میں چلتا ہوں ،محسوس کرتا ہوں اور سوچتا ہوں اور میں نے مذکورہ بال تمام امور کسو روح سسے موسسوم کیسا۔ لیکسن میسں خود کسو یسہ فرض کرنے سے باز نہ رکھ سکا کہ روح کیا ہے؟ اور اگر میں خود کو سوچنے سے باز رکھنے پر قادر ہوتا تو میں فرض کر لیتا کہ روح کوئی انتہائی نایاب اور ہوا کی طرح کی کوئی چیز ہے یا کوئی شعلہ جو میرے پورے جسم میں اور اعضا میں پھیل دیا گیا ہے۔ جہاں تک جسم کا تعلق ہے مج ھے اس کی اصلیت میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے ،کیونکہ اس کے بارے میں میرا علم بہت واضح ہے۔ اور اگسر میسں اس کسو بیان کرنسا چاہوں ،اس کسی سساخت اور افعال کسے لحاظ سسے ،تسو میسں بہت اسسانی سسے واضسح طور پسر بیان کسر سسکتا ہوں ۔ میسں یسہ سمجھتا ہوں کہ جسم ایک ایسی چیز ہے جس کے مخصوص خدوخال ہوتے ہیں اور جسم کو اُن خدوخال کے لحاظ سے واضح طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔
اگسر میسں اسسان زبان میسں کہوں تسو جسسم ایسک ایسسی چیسز ہے جسو کسسی خاص جگہ پر موجود ہوتی ہے اور جو اپنی کمیت کے لحاظ سے خل کو ب ھر دیتی ہے۔ اور اس طرح سسے بھھر تسی ہے کسہ جسس خل میسں کوئی جسسم موجسو دہو گسا اُس خل سے دوسرے ہر جسم کو نکلنا پڑے گا۔ اور جسم کو چھونے سے محسوس کیا جا سکتا ہے اور انکھ سے دیکھھا جا سکتا ہے اور کان سے سنا جا سکتا ہے اور چکھھا جسا سسکتا ہے اور خوشبسو سسے محسسوس کیسا جا سسکتا ہے اور جسو بہت سے طریقوں سے حرکت پذیر ہو سکتا ہے اور یہ اپنے اپ میں ایک سچ ہے۔ یہ ایسک علیحدہ بحسث ہے کسہ اس کسو کیسسے چھوا جسا تسا ہے اور چھونسے کسا احسساس کہاں سسے پیدا ہو کسر کہاں تسک جاتسا ہے۔ چونکسہ یسہ خود حرکست پذیسر ہونسے کسی قوت رکھتا ہے اور اسی طرح محسوس کرنے اور سوچنے کی قوت رکھتا ہے۔ میسں نہیسں سسمجھتا کسہ میسں جسسم کسی فطری اصسلیت سسے منسسلک ہوں مذیسد اختلفسی پہلو یسہ کسہ میسں یسہ پسا کسر حیران ہوا کسہ میرے جسسم کسی خصسوصیات دوسسرے بہت سسے اجسسام میسں بھھی موجسو د ہیسں۔ لیکسن سسوال پھھر وہی ہے کسہ میں کون ہوں؟ اب جبکہ میں نے یہ فرض کیا کہ کہ یں کوئی ایسا نابغہ موجود ہے جو بہت طاقتور ہے پر اگر مج ھے کہ نے دیا جائے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ شاید وہ اپنی ساری قوتوں کو مج ھے دھوکا دینے کے لیے صرف کر رہا ہے۔ کیا میں اس بات پر اسرار کر سکتا ہوں کہ میرے پاس واقعی وہ تمام چیزیں موجود ہیسں جسن کسو میسں نسے ابھھی اپنسے جسسم کسی اصسلیت کسو بیان کرتسے ہوئے گنوایسا ہے۔ مجھھے یسہ فرض کرنسا پڑے گسا یسہ تمام چیزیسں میرے زہن میسں گھومتسی ہیں اور ان میں کوئی بھی چیز مجھ سے منسلک نہیں ہے۔ یہ اکتا دینے وال امر ہو گسا کسہ میسں ان چیزوں کسو پھھر ایسک ایسک کرکسے بیان کروں ۔ ائیسے اب ہم روح کسی طرف چلتسے ہیسں اور دیکھتسے ہیسں کسہ کیسا روح نام کسی کوئی چیسز مجسھ میسں موجود ہے۔ حرکیات کی اصل ماہیت کیا ہے؟ لیکن اگر یہ واقعی ایسا ہے جیسا کسہ میسں نسے پہلے بیان کیسا کسہ میسں کچسھ نہیسں ہوں اور اگسر یسہ بھھی سسچ ہے کسہ میسں چسل نہیسں سسکتا اور اسسی طرح ایسک اور پہلو یسہ ہے جسسے ہم احسساس کسے نام
سسے جانتسے ہیسں ،لیکسن یسہ بات بھھی قابسل غور ہے کسہ کوئی بھھی جسسم کسے بغیسر "احساس" کے ہونے کا دعوہ دار نہیں ہو سکتا۔ اور اسی طرح میں نے یہ سوچا کسہ میسں ایسسی بہت سسی چیزوں کسو وصسول کرتسا ہوں ،سسونے کسے دوران ،مثال کے طور پر جب میں خواب میں چلتا ہوں ،تو میں حقیقت میں ایسا نہیں کر رہا ہوتا۔ سوچنے کا عمل کیا ہے۔ یہاں پر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ خیالت جزوی طور پسر رد نہیسں کیسا جسا خالصستا ً مجسھ سسے ہیسں ان کسو مجسھ سسے کُلی یسا ُ سکتا۔ میرا ہونا اور میرا موجود ہونا یقینی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس قدر یقینسی ہے۔ ٹھیسک اسسی لمحسے جسب میسں سسوچتا ہوں یسہ ممکسن ہے کسہ اگسر میسں سسوچنا چھوڑ دوں تسو کیسا اُس لمحسے میرا وجود بھھی ختسم ہو جائے گسا۔ کیسا یسہ دونوں ایسک دوسسرے کسے لیسے لزم وملزوم ہیسں۔ اور اب میسں ایسسی کسسی بھھی چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں جو یقینی طور پر سچ نہ ہو۔ اور اگر میں ٹھ یک ٹھ یک بیان کروں تو میں سمجھتا ہوں کہ میں ایک ایسی چیز سے زیادہ کچھ نہ یں ہوں جو سوچتی ہو ،ایسی سوچنے والی چیز جس کو ہم زہن یا روح کہتے ہیں اور تفہیم اور تعقلت کہتے ہیں۔ یہ ایسی اصطلحات ہ یں جن کے مفہوم سے میں ابھھی تک نا اشنا ہوں ،میں ہوں ،تاہم ایسک حقیقسی چیسز اور حقیقسی وجود ،لیکسن کیسا چیسز ،میسں جواب دے چکا ہوں۔ ایک ایسی چیز جو سوچتی ہے۔ اور علوہ ازیں کیا؟ میسں اپنسے خیالت اور تصسورات کسو بروئے کار لئوں گسا (ایسا کسہ میسں اس سسے زیادہ کچسھ ہوں کسہ نہیسں ہوں) میسں ایسسے اجسسام کا مجموعسہ نہیسں ہوں جسس کسو انسانی جسم کہا جاتا ہے۔ میں قید کی ہوئی ہوا اور اعضاء کے درمیان تقسیم کیسا گیسا شعلہ بھھی نہیسں ہوں ،میسں ہوا اور اگ نہیسں ہوں ،میسں قطرہ اور جھونکسا نہ یں ہوں ،میں ایسا کچھ نہ یں ہوں ،جو میں سمجھتا ہوں ،تصور کرتا ہوں اور مانتا ہوں۔ کیونکہ میں فرض کر چکا ہوں کہ یہ تمام چیزیں کچھ نہ یں ہ یں۔ اور میری اس فرضیت کو تحلیل کیے بغیر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں ان تمام چیزوں کسے علوہ (جسسم اور روح) ان سسے دُور ،ان سسے ماوراء کچسھ اور ہوں۔
لیکن یہ سچ ہے کہ یہ تمام ایک جیسی چیزیں جن کے متعلق میں نے فرض کیا کہ یہ موجود نہ یں ہ یں ،کیونکہ میں ان کے متعق کچھ نہ یں جانتا ،یقنیی طور پر اس سسے مختلف نہیسں ہیسں ،جسو میسں جانتسا ہوں۔ میسں اس کسے متعلق پ ُسر یقیسن نہیں ہوں اور نہ ہی میں ان کے متعلق بحث میں پڑوں گا۔ میں صرف اُن اشیا کسے متعلق اپنسی رائے دے سسکتا ہوں جسن کسے متعلق میسں جانتسا ہوں۔ جیسسا کسہ میسں جانتسا ہوں کسہ میسں ہوں اور میسں سسوال کرتسا ہوں کسہ میسں ہوں ،اور میسں جانتسا ہوں کسہ میسں ہوں ،اور میسں جانتسا ہوں کسہ ہونسا کیسا ہے۔ لیکسن یسہ امسر نہایست یقینی ہے کہ میرے ہونے کے متعلق میرا علم اُن چیزوں پر منحصر اور بہت حد تسک ٹھیسک نہیسں ہے ،جسن چیزوں کسے متعلق اور جسن چیزوں کسا ہونسا میرے یقینسی علم کے احاطے سے باہر ہے۔ نتیجیتا ً میرا ہونا کسی ایسی چیز پر منحصر نہیں ہے ،جسس کسو میسں اپنسے احاطسہ خیال میسں جذباتسی طور پسر محسسوس کسر سسکتا ہوں اور حقیقت میں جذبات کی یہ اصطلح یہ ثابت کرتی ہے کہ میں غلطی پر ہوں۔ اگسر میسں واقعسی سسمجھتا ہوں کسہ میسں کچسھ ہوں۔ یہاں تسک کسہ تصسور کچسھ نہیسسں ہے اس س سے زیادہ ک سہ میسسں کسسسی خدوخال یسسا کسسسی جسسسم ک سے متعلق سسوچوں۔ لیکسن یسہ بات میسں پہلے ہی جانتسا ہوں کسہ میسں ہوں اور مذیسد یسہ کسہ یسہ تمام تشبہیں ،اور اگر میں عام فہم زبان میں کہوں تو میرے جسم کے متعلق تما م خیالت حقیقت میں خوابوں سے زیادہ کچھ اہمیت نہ یں رکھ تے۔ یہی وجہ ہے کہ میں سوچتا ہوں تا کہ میں واضح طور پر سمجھ سکوں کہ میں کیا ہوں۔ اور جیسسا کسہ میسں یسہ کہنسا چاہتسا ہوں کسہ میسں اب جاگسا ہوں ،اور میسں نسے کسسی ایسی چیز کو پا لیا ہے جو حقیقی اور سچ ہے۔ لیکن چونکہ اب ھی میں نے اس حقیقست اور سسچ کسو واضسح اور ادراکی سسطح پر نہیسں پایا۔ میں اپنسے بستر پسر سونے کے لیے چل جائوں گا ،شاید کے میرے خواب اُن حقائق و شواہد کو بیان کر سکیں جن کی تشبیہات میرے زہن میں ہیں۔ اور چنانچہ میں یقینی طور پر جانتا ہوں کہ ان تمام حقائق و شواہدات کو اپنے خیالت اور تفکرات سے جان سکتا ہوں جو اس علم سے متعلق ہیں ،جو علم میرے اپنے بارے میں ہے۔
اور زہن کی لیے یہ یاد دہانی اشد ضروری ہے کہ ،فکر کے اسی پہلو سے یقین اور علم کی وہ منزل پانا ضروری ہے ،جس سے مجھے میرے ہونے اور سچ کی یقینی منزل مل سکے۔ لیکن اس تمام گفتگو کے بعد سوال پ ھر وہی ہے ،میں کیا ہوں؟ کیا ایسی چیز جو سوچ سکتی ہے ،لیکن پھھر سوال یہ ہے کہ سوچنا کیا ہے؟ وہ چیز کیا ہے جو سوچ سکتی ہے۔ کیا ایسی چیز جو شک کرتی ہے، سسسمجھتی ہے ،اصسسرار کرتسسی ہے ،انکار کرتسسی ہے ،خواہش رکھتسسی ہے ،تردیسسد رکھ تی ہے ،جو تصور کرتی ہے اور محسوس ب ھی کرتی ہے۔ یقینی طور پر یہ کوئی چھوٹسا معاملہ نہیسں ہے کسہ اگسر یسہ تمسا م چیزیسں واقعسی میری اصسلیت سسے منسسلک ہیسں ،لیکسن یسہ تمام چیزیسں مربوط کیوں نہیں ہیں ۔ کیا میں ایک ایسا شخص نہیں بنتا جا رہ ا ہوں ،جو تقریبا ً تقریبا ً ہ ر چیز ک ے بار ے میں شک میں مبتل ہے ،اور جو یقینی اشیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اور جو یہ دعوہ کرتا ہے کہ سچائی صرف ایک ہے اور جو باقی تمام باتوں سے انکار کرتا ہے اور جو زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا ہے۔ اور جو بہت سے چیزوں کے بارے میں تصور کرتا ہے اور کبھ ی کھبی اپن ے اراد ے س ے بھ ی کنار ہ کر لیتا ہے۔ س اور جو بہ ت سی چیزوں کو ایک طرح سے ادراکی سطح پر پرکھتا ہے ،جیسا کہ وہ کسی جسم ک ے اعضاء ہوں ۔ کیا ان سب چیزوں میں س ے کوئی بھ ی ایسی چیز نیں ہے، جو یقینی ہو ،جو سچ ہو ،جیسا کہ یہ بات یقینی اور سچ ہے کہ میں ہوں۔ حتٰی کہھ میں ہمیشہھ یہھ سوچتےھ ہوئےھ سوتا ہوں کہھ وہھ کون ہے ،جو اپنےھ اختیار اور قدرت کو مجھے دھوکا دینے کے لیے استعمال کر رہ ا ہے۔ کیا کوئی ایسی ایک ہی طرح کی چیزیں اور رویے ہیں ،جو میرے خیالت سے جدا ہوں ،اور جنہیں مج ھ س ے الگ فرض کیا جا سکتا ہے ،ی ہ اپن ے اپ میں بجائ ے خود ایک واضح ثبوت ہےھ کہھ یہھ وہ ی ہےھ جسس کےھ بارےھ میں،س میں شک میں مبتل سہوں۔۔ھ جو سمجھتا ہے ،جو خواہش رکھتا ہے کہ کہیں کسی ایسے تعقلت کا وجود نہیں ہے جن کو اس چیز کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور میر ے اندر متشابہات کو سوچن ے کی ایک یقینی قوت موجود ہے۔ اگرچہ ایسا ہوتا ہے کہ (جیسا کہ میں نے پہل ے فرض کیا) کہ جو بھ ی چیز میں سوچتا
ہوں ،سچ نہیں ہوتی۔ اگرچہ سوچنے اور سمجھنے کی اس قوت کو میں پوری طرح استعمال میں نہیں ل سسکتا۔ھ اور یہھ میرےھ خیالت کا صرف ایک حصہ تشکیل دیتی ہے۔ اخر کار ،میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ میں ایسا ہی ہوں جو سوچتا ہے۔ اور اگر کہا جائے تو ایسا ہوں جو اشیاء کو ادراکی سطح پر وصول کرتا ہوں۔ چنانچہ سچ یہ ہے کہ میں روشنی کو دیکھتا ہوں ،اواز کو سنتا ہوں،س اور سحرارت سکو سمحسوسس کرتا سہوں۔ھ لیکن سیہھ کہ ا سجائےھ سگا،س کہھ یہھ تمام اعمال غلط ہیں ،اور یہ ایسا ہی ہے جیسا میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ ائیے اسی پیرائےھ میں بات کو اگےھ بڑھاتےھ ہیں۔ھ کم از کم یہھ بات مجھےھ یقینی دکھائی دیتی ہےھ کہھ میں روشنی کو دیکھتا ہوں ،اواز کو سنتا ہوں اور حرارت کو محسوس کرتاہوں۔ کم از کم یہ باتیں غلط نہیں ہو سکتیں۔ اور اگر میں خاص طور پر کہوں ،تو ان کو احساسات کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر میں کسی خاص حس کو استعمال میں لئوں ،تو یہ میری سوچ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس وقت س ے میں ن ے ی ہ جاننا شروع کیا ہے کہ ،ک ہ میں اب پہل ے کے مقابلے میں زیادہ پُر یقین اور ارام دہ حالت میں ہوں۔ لیکن میں اب بھی خود کو سوچنے کے عمل سے نہیں روک سکتا ،ایک ایسی سوچ جس کا عکس میر ے زہ ن میں خیالت س ے بنتا ہے۔ جن کو ادراک سے جانچا جا سکتا ہے۔ یہ خیالت کا وہ حصہ ہے جن کو ہم تصورات کے زمرے میں نہیں ل سکتے۔ اگر چہ یہ کہنا کسی حد تک احمقانہ ہو گا کہ میں ان چیزوں کو بہتر طور پر سمجھتا ہوں جن کے موجود ہونے پر مجھے شک ہے ،جو میرے لیے اجنبی ہیں ،اور جو مجھ سے نہیں ہیں۔ سچ اس کے علوہ ہے جو میں سمجھتا ہوں ،جو میں جانتا ہوں اور جو میر ے اصلیت س ے منسلک ہے۔ اگر ایک لفظ میں کہوں " ،میرا اپنا اپ" ۔ لیکن میں واضح طورپر دیکھ سکتا ہوں کہ حالت کیا صورت اختیار کرتے ہیں ۔ میرا زہ ن اوارگی کو پسند کرتا ہے اور میں اس کو سچ کی حدود میں قید نہیں کر سکتا۔ھ بہ ت اچھے ،مجھےھ اسےھ ایک اور رسی پہنا لینے دیجیے تا کہ بعد میں جب ہمیں خیالت کی باگ کھینچنی پڑے تو ہ م اسانی ک ے سات ھ اس سےعہد ہ برا ہ و سکیں ۔ ائی ے ہ م مشترکات س ے اغاز
کرت ے ہیں۔ جن کے بار ے میں ہ م پُر یقین ہیں ک ہ ی ہ چیزیں موجود ہیں ،جن کو ہم اجسام کے نام سے جانتے ہیں ،جن کو چھو سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں۔ جن ک ے بار ے میں ہمار ے نظریات و افکار عام طور پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں ۔ صورتحال کو سلجھانےھ کےلیےھ اور اپنےھ خیالت کو صحیح سمت میں رکھن ے ک ے لی ے ہ م اغاز میں صرف ایک جسم ک ے بار ے میں فرض کرتے ہیں ۔ مثال ک ے طور پر موم کا ایک ٹکڑا ۔ اس کو ابھ ی ابھ ی اپن ے چھت ے سے جدا کیا گیا ہے ،اور ی ہ ابھی تک گیل سہے ،اور ابھ ی تک میٹھ ا ہے ،اور اس ے کے اندر شہد کی مٹھاس ہے وہ شہد جو اس کے اندر ہے۔ اور اس کے اندر ابھی تک ان پھولوں کی مہک ہے جن کے رس سے یہ تشکیل پایا ہے ،اس کا رنگ ،اس کے خدوخال اور اس کا حجم ظاہر ی چیزیں ہیں۔ یہ سخت ہے ،ٹھنڈ ا ہے اور اسانی ک ے سات ھ چھوا جا سکتا ہے ،اور اگر اپ انگلی سےھ اس کو ضرب لگاتےھ ہیں ،اس ک ے اندر سےھ اواز نکلےھ گی۔ھ یعنی ک ہ وہ تمام باتیں اور تجزیے جن کی مدد سے ہم کسی چیز کو ایک جسم کے لحاظ سےھ شناخت کر سکتےھ ہیں ،وہھ تمام خصوصیات اس کےھ اندر موجو د ہیں۔ لیکن خیال رہے ک ہ جب ہ م اس کو اگ پر رکھت ے ہیں ،اس کا زائق ہ بدل جا تا ہے ،اس ک ے اندر س ے مہ ک نکل جاتی ہے ،اس کا رنگ تبدیل ہ و جا تاہے ،اس کے خدوخال تبا ہ ہو جاتے ہیں ،اس کا حجم بڑھ جاتا ہے اور ی ہ مائع میں تبدیل ہو جا تا ہے۔ اب اسے اسانی کے ساتھ برتا نہیں جا سکتا۔ اسے انگلی کے ساتھ ضرب لگائیے۔ کیا اب بھی اسے کے اندر سے اواز نکلے گی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ موم کا ٹکڑا گرم کرنے کے بعد بھ ی وہی پہلے وال موم کا ٹکڑا ہے ۔ اس میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اور وقوع پذیر ہون ے والی تبدیلی اصل میں کیا ہے۔ کیا اس حالت میں اس موم کے ٹکڑے کو دیکھنے وال شخص اس کو گرم کرن ے س ے پہل ے والی حالت میں تصور کر سکتا ہے ،یا اس ک ے خدوخال زہن میں ل سکتا ہے یا ی ہ مان سکتا ہے ک ہ ی ہ وہ ی پہل ے وال موم کا ٹکڑا ہے۔ اگرچہ میں اپنی حسیات کو بروئ ے کار لت ے ہوئ ے ی ہ جان سکتا ہوں ک ہ اس ک ے اندر وہ ی زائق ہ ،خوشبو ،رنگ موجود ہے لیکن بہرحال ی ہ ماننا پڑ ے گا ،ک ہ ی ہ پہلے
وال موم کا ٹکڑا نہیں ہے۔ شاید یہ وہ ی ہے جو میں اب سوچتا ہوں۔ کہ یہ موم کا ٹکڑا اصل میں شہ د ک ے اس چھت ے کا حص ہ نہیں ہے ،کیونک ہ اس میں شہد کی و ہ مٹھاس باقی نہیں ہے ،اور ن ہ ہ ی پھولوں کی و ہ مہ ک ہے ن ہ ہ ی اس کے اندر وہ مخصوص سفیدی ہے ،نہ اس کے وہ خدوخال ہیں ،اور نہ ہی انگلی سے ضرب لگانے پر اس کے اندر سے وہ پہلے والی اواز نکلتی ہے۔ لیکن سادہ سی بات ی ہ ہے اس ک ے اندر ی ہ تمام خصوصیات تھوڑی دیر پہل ے ( گرم کرن ے سے پہلے) موجود تھیں۔ اور یہ خصوصیات ،کچھ دوسری خصوصیات کے نیچے دب گئیں ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اگر درست طور پر کہا جائے تو میں سوچتا ہوں کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ میں کس طرح اپنے خیالت کو تشکیل دیتا ہوں۔ اب غور سے اس کا تجزیہ کیجیے اور تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ اس ک ے اندر و ہ تما م خصوصیات موجود نہیں ہیں ،جو موم ک ے اندر موجود ہونی چاہیں ۔ ائی ے دیکھت ے ہیں ک ہ باقی کیا بچا ۔ یقینی طور پر باقی ر ھ جانے والی چیز ایک مائع اور بہہھ جانےھ والی چیز ہے۔ھ لیکن اصل میں بہنےھ والی ، کھینچ جانے والی چیز کا مفہوم کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے ک ہ میں ی ہ سوچتا ہوں ک ہ موم کا ی ہ ٹکڑا گول ہ و گیا ہے ،یا مربع نما شکل اختیار کر گیا ہے یا یہ انگلیوں کے مثلث کے درمیان سے گزر سکتا ہے ۔ نہیں یقیینا ً ایسا نہیں ہے۔ اب میں فرض کرتا ہوں یہ ایسی بہت سی تبدیلیوں سے گزرتا ہے ۔ اور یہ بات میرے خیالت سے ماوراء ہے کہ ان بےشمار تبدیلیوں جن سے موم کا یہ ٹکڑا گزرا ہے ان تبدیلیوں کی حقیقی سمت کون سی ہے۔ اور تتینیجتا ً یہ سوچ کہ موم کا ٹکڑا محض تصوراتی نہیں ہے اگر اس کو مذید سوچا جائ ے تو ی ہ ہمار ے لی ے اجنبی بھ ی نہیں ہے۔ ی ہ ہجم میں بڑ ھ جاتا ہے جب اس کو گرم کیا جاتا ہے ،اس کا ہجم اس وقت مذید بڑھ جائے گا جب اس کو اُبال سجائےھ گا اور جیسےھ جیسےھ حرارت کی مقدار بڑھاتےھ جائیں گےھ اس کا ہجم بھ ی بڑھتا جائ ے گا ۔ اور ان تمام تجزیات ک ے پیش نظر میں اب یقینی طور پر نہیں جانتا س ک ہ موم کیا ہے۔ سچ تو ی ہ ہے ک ہ موم کا ی ہ ٹکڑا اپن ے اندر
تبدیلیوں کو قبول کرکے اپنے خواص کے بدلنے کی اس قدر صلحیت رکھتا ہے کہ جو میرے حواس سے بھی باہر ہے۔ مذکورہ بال تما م بحث کے بعدہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ میرے حواس اس قدر بھی قابل یقین نہیں ہیں کہ ان کی مدد سے میں محض یہ جان سکوں کہ موم کا ٹکڑا حقیقت میں کیا ہے اور کیسا ہے۔ اور میرا دماغ اکیل ہے جو اس کو ادراکی سطح پر وصول کرتا ہے۔ اگر میں کہوں "یہھ موم کا ٹکڑا" تو یہ موم ک ے ایک خاص ٹکڑ ے کی طرف اشار ہ ہے۔ اگر میں کہوں ک ہ ی ہ موم تب بھی یہ بات کسی قدر واضح ہے ۔ لیکن اس صورتحال میں موم کے ایک ٹکڑے کو دماغ کا استعمال کیے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا ،یہ اس صورت حال کے لیے مخصوص ہے جب ہم موم کی ماہیت پر غور کرتے ہیں یعنی موم کے اس خاص ٹکڑ ے کا بار ے میں جس کا ہ م تجزی ہ کر رہے ہیں ،کیا واقعی ایسا نہیں ہے۔ یہ واضح طور پر ایسا ہے جس کو میں دیکھتا ہوں ،چھوتا ہوں ،محسوس کرتا ہوں اور جس کے بارے میں شروع سے جانتا ہوں کہ یہ کیسا ہے۔ لیکن ان تبدیلیوں کے بعد اس کے بار ے میں میرے خیالت محض تصورات نہیں ہیں ۔ نہ میں اس کو دیکھھ سکتا ہوں ( پہلےھ والی حالت میں) نہھ چھ و سکتا ہوں ،نہ تصور کر سکتا ہوں ،ی ہ پہل ے کبھ ی بھ ی ایس نہیں تھا ،جیسا ک ہ میں اس کے بار ے میں جانتا ہوں ۔ کیا اب ی ہ محض میر ے دماغ کی توقعات نہیں ہیں ،جو ادھوری اور پریشان کن تھیں۔ جب کہ اب میں اس کے بارے میں زیادہ واضح طور پر جانتا ہوں۔ اگرچہ میرے سوچنے اور سمجھنے کی صلحیتوں کی سمت کم یا زیاد ہ اس ک ے عناصر کے بار ے میں ہے ،جن س ے مل کر یہ بنا ہے۔ اگرچہ اسی اثناء میں میں ا ُس وقت چونک گیا جب میں نے فرض کیا کہ (اپنے زہن کی کمزوری کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے) میں کس قدر غلطی پر ہو سکتا ہوں۔ اگر چہ میں یہ تمام باتیں ظاہر کیے بغیر اپنے زہن میں رکھتا ہوں ،یہ تصور کیے بغیر ،الفاظ اکثر مجھے اپنے مفاہیم کے لحاظ سے پریشان کرتے ہیں اور میں عام زبان کی اصطاحات سے عام طورپر دھوکا کھا جاتا ہوں۔
جیسا کہ ہ م کہیں کہ ہ م مو م کا وہ ی ٹکڑا دیک ھ رہے ہیں جو ی ہ گرم کرن ے سے پہل ے تھا ،جس کو ہ م چھ و سکت ے تھے اور جس کی خوشبو کو محسوس کر سکت ے تھے ،اور اس کا وہ ی رنگ ہے اور وہ ی خدوخال ۔ اس س ے میں ی ہ تتیجہ نکالوں گا کہ میں موم کے اس ٹکڑے کو اپنی بصارت کے یقینی (کسی حد تک یقینی) لحاظ سے جانتا ہوں اور یہ صرف میرے زہن کا تصور نہیں ہے۔ جیسا کہ میں کھڑکی سے باہر دیکھتےہوئے یہ کہوں کہ میں نے سڑک پر سے گزرتے ہوئے ادی کو دیکھا ہے ،اگرچہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے ان کو حقیقی طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا ،لیکن میں اپن ے زہنی اعتقادات کو بروئے کار لت ے ہوئ ے یہی کہوں گا کہھ میں نےھ سٹرک پر سےھ ادمی گزرتےھ ہوئےھ دیکھ ا ہے ،ٹھیک اسی طرح تبدیل شدہ موم کو بھی جو بہت سی تبدیلیوں کو اپنے اندر سمو چکا ہے (گرم کرنے کے بعد) میں اپنے سابقہ زہنی اعتقاد کو بروئے کار لتے ہوئے کہوں گا کہ یہ موم ہے۔ جب میں کھڑکی س ے باہر دیکھتا ہوئ ے یہ کہتا ہوں کہ میں نے ادمیوں کو دیکھ ا ہےھ کیا حقیقت میں س میں واقعی ادمیوں کو دیکھھ رہ ا ہوتا ہوں ،یا میں ایسی خود کا رمشینوں کو دیکھ رہا ہوتا ہوں جنہوں نے کوٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں؟ لیکن میں ان کو حقیقت سے قطع نظر ادمیوں کے طور پر پہنچانتا اور جانتا ہوں اور اس عمل میں میرا دماغ خود کار طریقے سے میری مدد کرتا ہے اور میں اس بات کو سچ مانتا ہوں جو میں اپنی انکھوں س ے دیک ھ رہ ا ہوتا ہوں۔ ایک ادمی جو اپنی زندگی کا مقصد یہ بنا لے ،کہ اس نے اپنے علم کو بڑھانا ہے، اب اس کو فضول گو لوگوں کی باتوں سے اپنے زہن کو شک سے الودہ ہونے سےھ بچانا چاہیےھ اور اس بات سےھ شرمسار ہونا چاہیے۔ھ میں اس بات سے سرسری طور پر قطع نظر کروں گا اور ی ہ فرض کرتا ہوں ک ہ جب میں نے موم کو پہلی بار دیکھ ا تھ ا اور اپن ے زہ ن میں موجود خیالت کی مدد س ے ، بطور موم اس کو پہچانا تھا ،وہ ی کسی حد تک سچ تھا ،اور جب مجھے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے تب میں اسے اپنی بیرونی حسیات کی مدد سے پہچانتا ہوں یا کم ازکم اپنی عام فہم کی مدد سے ۔
اب یہ کہنا پڑے گا کہ اپنے تصوراتی نظام کی مدد سے میری موجودہ فہ م کی سطح جو بھ ی ہ و ی ہ اب بہ ت حد تک واضع ہے ک ہ میں موم ک ے ٹکڑ ے کو بہت احتیاط کے ساتھ تجزیاتی عمل سے گزار چکا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ یہ کیا ہے ،اور یہ جانتا ہوں کہ کس طرح اس کی اصل ماہیت کو پہچانا جا سکتا ہے۔ موم کے ٹکڑ ے کا میر ے زہ ن مین پہل تاثر کیا تھا؟ وہ ایک شک الود بات تھی۔ و ہ تاثر (ظاہری تاثر) کوئی بھ ی جانور اپن ے زہ ن میں قائم کر سکتا ہے۔ لیکن اب اس سارے تجزیے کے بعد میں اپنے علم میں پختہ اور پُر یقین ہوں ،میں نے صرف اپنی حسیات پر بھروس ہ کرکے غلط تاثر کو حقیقت نہیں مانا ،میں ن ے اس کی ماہیت پر غور کیا ،تبدییلیوں س ے وقوع پذیر ہون ے والی حقیقتوں کو مد ِ نظر رکھ ا اور اب میں کسی یقینی حد تک جانتا ہوں ک ہ موم کا ٹکڑا اصل میں کیا ہے ،اگرچہ اس بات کے امکانات واضع ہیں کہ اب بھی میرے نتائج میں کئی قسم کی غلطیاں موجود ہ و سکتی ہیں اور میں اسرار بھ ی نہیں کرتا کہ میرے اخذ کردہ نتائج حتمی اور درست ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اب میں اپنے تصور میں اور نتائج میں زیادہ پُر یقین ہوں۔ ایک اور چیز کا اضاف ہ کرنا چاہوں گا ،ک ہ میں زہ ن ک ے بغیر کسی قسم کے نتائج پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور اخر میں میں زہن کے متعلق کچھ کہنا چاہوں گا۔ زہن کیا ہے؟ کیا میرا اپنا اپ محض زہن ہے۔ زہن میرے اندر موجود ہے ،کیا زہن ک ے بغیر میں کچ ھ نہیں ہوں ۔ میں موم ک ے اس ٹکڑ ے کو زہ ن ک ے بغیر صحیح انداز میں کیسےھ سمجھھ سکتا تھا۔ھ یقیننا ًس زہ ن کےھ بغیر میں موم کےھ متعلق زیادہ واضح اور سچے نتائج تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیا میں اپنے اپ کو نہیں جانتا ہوں۔ کیا میں اپنے اپ کو زیادہ سچائی اور یقین کے ساتھ نہیں جانتا ہوں۔ اگر میں ی ہ کہوں ک ہ میں موم کو جانتا ہوں کیونک ہ میں اس ے دیک ھ سکتا ہوں ،تب دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے ،کہ میں موم کو دیکھ سکتا ہوں اس لیے میں اسے جانتا ہوں۔ لیکن اس سے یہ شبعہ پیدا ہوتا ہے ،کہ جس چیز کو میں دیکھ رہا ہوں ،کیا یہ واقعی موم ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے میرے پاس انکھیں ن ہ ہوں جن س ے میں کسی چیز کو دیک ھ سکوں ۔ لیکن ایسی صورتحال میں
جب میں دیکھتا ہوں یا میں سوچتا ہوں ک ہ میں دیکھتا ہوں ،اور اسی طرح چھ و سکتا ہوں ۔ لیکن اگر اگر میں کہوں ک ہ موم موجود ہے کیونک ہ میں اس ے ُ کسی وج ہ س ے میں موم کو چھ و ن ہ سکوں تو کیا موم کا وجود نہیں رہے گا۔ یقیننا ً ایس نہیں ہے۔ موم کی یہ ی مثال دوسری تما م چیزوں پر لگو کی جا سکتی ہے جو مجھ سے باہر موجو د ہیں۔ اور موم کے متعلق میرے یہ خیالت و بحثس سدوسریس ستمامس سچیزوںس سپرس سلگوس سکیےھ سجاس سسکتےھ سہیں،س سجوس سمجھھ سسےھ سباہر موجود ہیں اور مذید ی ہ ک ہ موم ک ے متعلق میرا علم محض دیکھن ے یا چھونے کی حد تک نہیں ہے ،بلک ہ ی ہ کچ ھ دوسری وجوہات ک ے بناء پر زیاد ہ واضح اور سچ ہے کہ موم موجود ہےاب میں یہ بات کس قدر پُر یقین انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اپنے اپ کو جانتا ہوں۔ وہ تمام وجوہات ،اعضاء اور دوسرے امور جو موم کے متعلق میرا علم پخت ہ کرنے میں میرا ساتھ دیتے ہیں اور دوسری کوئی بھ ی چیز جس ک ے متعلق میں نہیں جانتا ،ی ہ اس بات ک ے بہترین ثبوت ہیں جو میر ے زہ ن کی فطرت کو واضع کرت ے ہیں ۔ اور اسی طرح زہ ن میں بھی بہت سی باتیں موجود ہو سکتی ہیں ،جو کسی نہ کسی انداز میں جاننے ک ے اس عمل میں مددگار ثابت ہوتی ہیں ،جب ہ م کسی جسم رکھن ے والی چیزس کاس تجزیہھ سکرتےھ ہیںس ،س سجیساس سکہھ ابھیس اوپرس دیس سگئیس سمثالوںس میںس سہمس سنے انسانوں اور موم کا تذکرہ کیا۔ ان چیزوں کو ہمیں احتیاط سے گنتی میں لنا چاہیے۔ھ لیکن یہاں پر نہھ سمجھنےھ والےھ انداز میں میں پہلےھ نقطےھ کی طرف جائو ں گا جیسا ک ہ میں ن ے شروع میں کہ ا تھ ا ک ہ اجسام کو صرف حسیات کی مدد س ے نہیں جانا جا سکتا اور ن ہ ہ ی صرف تصورات کی مدد س ے بلکہ یہاں پر ہم ایک بہتر اصطلح لئیں گے ،جس کو ہم "فہم" کا نام دیں گے۔ اور چونک ہ و ہ صرف چھون ے اور دیکھن ے کی وج ہ س ے نہیں پہچان ے اور جان ے جاتے، بلک ہ ہ م ا ُن کو سمجھت ے ہیں ،اور اسی سمج ھ کی وج ہ س ے ا ُن کی پہچان اور ا ُن کی ماہیت ،اور ا ُن کی اصلیت کا راز ہ م پر ُکھلسستا ہے۔ میں ی ہ واضح طور پر دیکھتا ہوں ک ہ اپن ے زہ ن س ے زیاد ہ اسان سمجھن ے ک ے لی ے میر ے پاس اور کوئی چیز نہیں ،لیکن ی ہ کسی بھ ی شخص ک ے لی ے بہ ت مشکل ہوتا ہے ،ک ہ وہ
ان عقائد سےھ چھٹکارا پا سکے ،جن کو وہھ لمبےھ عرصےھ سےھ اپنےھ زہ ن میں رکھے ہوئے ہے۔ یہ بہتر ہو گا اگر میں اس نقطے پر زرا دیر کے لیے ٹھہر جائوں اور میں اپن ے تفکر س ے اپن ے زہ ن میں اپن ے اس نئ ے اخذ کرد ہ علم کو اچھی طرح سے رقم کر لوں۔