مسائلِ حنّان برلاس (مزاح)

  • Uploaded by: Muhammad Shemyal Nisar
  • 0
  • 0
  • June 2020
  • PDF

This document was uploaded by user and they confirmed that they have the permission to share it. If you are author or own the copyright of this book, please report to us by using this DMCA report form. Report DMCA


Overview

Download & View مسائلِ حنّان برلاس (مزاح) as PDF for free.

More details

  • Words: 1,175
  • Pages: 2
‫مسائ حّناح برالس ( زاح)‬ ‫ِل‬ ‫چند ماہ پہلے میرے احباب میں ایک نہایت ہی معزذ شخص جناب ح ّنان برّالس صاحب کا اضافہ ہواە حضرت گزشتہ‬ ‫چند سال سے انگستان میں بوج ِہ اعلی تعلیم مقام پزیر ہیںە ان کا پاکستان کے ایک صعنتکار خاندان سے تعلق ہے‬ ‫اور خود بھی اقتصادیات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیںە اقتصادیات جوکہ ایک وسیع مضمون ہے‪ ،‬اس میں ح ّنان‬ ‫علم سیاست المدن کی جانب ہےە‬ ‫صاحب کا خاص رُجحان ِ‬ ‫ت مبارکہ سے تئیس برس منہا ہوۓ تب میرے حلق ِہ احباب میں انکا انداج کیا گیاە ان سے پہلی‬ ‫جیسے ہی میری حیّا ِ‬ ‫اسم گرامی ہے ناکہ‬ ‫مالقات شادی کے کمرے میں ہوئیە یہاں یہ نکتہ واضح کرتا چلوں کہ شادی ایک دوست کا ِ‬ ‫میری اور انکی شادی ہونے کی طرف کوئی اشارہ ہےە گوکہ ہم دونوں ہی چند برس سے انگلستان میں مقیم تھے‪،‬‬ ‫لیکن اسالمی اخالقیات و روایات سے اتنے دستبردار نہیں ہو گئے تھے کہ اس قسم کا کوئی رجحان پیدا ہوتاە خیر‬ ‫پہلی نظر میں تو مجھے یہ تقریبًه پونے دو گز کا ایک بے ہنگم سا گوشت کا انبار معلوم ہوا تھا جس پر بے تہاشہ‬ ‫بال لگے ہوںە کچھ دیر بعد یہ راز بھی عیاں ہوا کے جناب بول چال میں طنز و مزاح میں ایک نئے مکتبہ فکر کے‬ ‫بانی تھےە ان کے تمسخر کا چند ایک با ر نشانہ بنے کے بعد تدری نے خاموشی اختیار کرنے کو ہی بہتر گرداناە‬ ‫کچھ دیر یہیں بیٹھنے کے بعد تمام احباب اٹھے اور ہم ح ّنان صاحب کے حجرے میں تشریف لے گئےە اس حجرے‬ ‫پای اور ہر شے نفاست کے ساتھ اپنی جگہ پر پڑی تھیە یہ دیکھ کر دل میں اپنے‬ ‫کو تو نہایت ہی صاف ستھرا ا‬ ‫کمرے کا خیال بھی آیا اور دل ہی دل میں ہم شرمندہ بھی ہو گئےە اس کمرہ میں ایک چھوٹی سی الئبریری بھی تھی‬ ‫جس پر جب نگاہ گئی تو آنکھیں دنگ رہ گئیںە ایک طاق پر اقبال کی شاعری و فلسفے کے مجموعے‪ ،‬ساتھ ہی‬ ‫تفسیر قران کا پورا مجموعہە بندہ کیونکہ خود بھی فلسفہ اور‬ ‫ب غالب کو تکلیف دی گئی تھی اور انکے پہلومیں‬ ‫جنا ِ‬ ‫ِ‬ ‫ادب سے کافی رغبت رکھتا ہے‪ ،‬اس لی۔ اس علمی ورثے کی اصل قیمت جانتے ہوۓ کبھی ان کتب کی جانب‬ ‫دیکھتا اور کبھی اس مسخرے کی جانب نظر ڈالتاە اثر اسکا یہ ہوا کہ ہم اور بھی سہم گئےە‬ ‫نماز ظہر کے وقت یا الئبریری میں‬ ‫اس دن کے بعد پھر روز ہی م القاتوں کا سلسلہ چل پڑاە روز ہی مسجد میں ِ‬ ‫ٹاکراہ ہوتاە وقت کے ساتھ ساتھ الفت بتدریج بڑھتی گئی اور اسی دوران ان مال قاتوں میں ہمیں فلسفے‪ ،‬ادب اور‬ ‫دوسرے بہت سے موضوعات پر گفت و شنید اور بحث و تمحیص کا موقع مالە اس طرح ہمارے دل میں اُس‬ ‫مسخرے کے لی۔ عزت بڑھتی گئیە ان کی شخصیت کا یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ وہ اپنے آپ کو وقت کا افالطون‬ ‫سمجھتےہیںە اگرچہ خود پسندی ہر شخص میں کسی نہ کسی حد تک ہوتی ہے‪ ،‬مگر اس سقراط میں یہ اسمان کی‬ ‫بلندیوں کو چھو رہی ہےە مذہبی رجحان رکھتے تھے لیکن یہ بھی ا یک اپنی الگ ہی طرز کے مولوی تھےە ایک‬ ‫اور نقطہ جوکہ کافی شدّت سے محسوس ہوا وہ یہ تھا کہ حضرت سننے کے زیادہ اقئل تھے اور اپنی راۓ سے‬ ‫بہت کم ہی نوازتے تھےە ایک بار ہم اس انوکھی وضع کی وجہ پوچھ ہی بیٹھے تو ہمیں آگاہی بخشی گئی کہ "‬ ‫میری آراء کوئی اتنی سستی ہیں کہ ہر کسی کو دیتا پھروں؟"ە یہ سن کر ہمارے دل میں خیال آیا کہ گویا کیا کوئی‬ ‫چ ّال کاٹے تو ہی اُس پر جناب یہ مہربانی کریں گے؟ لیکن ان خیاالت کو لب پر النے کی ہمت نا کر پاۓ کے کہیں‬ ‫ِ‬ ‫ن ادا کرنا پڑےە‬ ‫اس کے لی۔ بھی کوئی لگان ہمیں ہ‬

‫ت طعام دیە اگرچہ ہم کھانا‬ ‫خیر اسی طرح کچھ بے تکلفی اور بڑھی تو تدری نے جناب کو غریب خانے پر دعو ِ‬ ‫بنانے کے کوئی بہت ماہر نہیں تھے لیکن خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کے اس کے بعد روز ہی ہم اکٹھے مل بیٹھتے‬ ‫تھے اور طعام اکٹھے نوش فرماتے تھے کبھی ہمارے گھر پر اور کبھی جناب کے حجرے میںە اسی طرح مختلف‬ ‫موضوعات پر غور و فکر اور تبادل ِہ خیال کا موقع نکالتےە اسی دوران ہم پر یہ بھی عیاں ہوا کہ حضرت پر آجکل‬ ‫وزن گھٹانے کا بھوت سوار ہےە جس کی م د میں روز کے تقریبًا تین سے چار گھنٹے اسکوائش اور ورزش کی‬ ‫نظر ہو جاتے تھےە ایک روز انکو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ جناب محنت تو بہت کر رہے تھے لیکن‬ ‫ف تماشا یہ کہ انکو کھیلتے دیکھا تو‬ ‫کورٹ میں اتر کر اپنے آپ کو جان شیر خان سے کم نہیں سمجھتے تھےە طر ِ‬ ‫ہمارے اندر کا جہانگیر خان بھی جاگ اٹھا اور تو اور ہم نے بھی جوش میں آ کر اگلے ہی دن اکیس پاؤنڈ نقد ادا‬ ‫کی۔ اور کھیلنا شروع کر دیاە مگر افسوس کہ انکا جان شیر ہمارے جہانگیر پر پوری طرح سے بھاری رہا اور‬ ‫نتیجہ یہ نکال کہ دو ہی ہفتے میں ہمارا جوش ٹھنڈا ہو گیاە برالس صاحب کچھ روز کہ لی۔ یورپ کو چلے گئے‬ ‫سیر و تفریح کہ لی۔ اور ہماری را ن کا پٹھا ہل گیاە اس موقع پر ہمارا اور اسکواش کا رابطع غیر معینہ مدت کے‬ ‫لی۔ منقطع ہو گیاە حتہ کہ ان کی واپسی تک ہم اس کھیل سے مکمل دستبردار ہو چکے تھےە جہاں تک حنّان‬ ‫صاحب کا تعلق ہے تو انہون نے جتنا وزن گھٹایا تھا وہ واپسی تک پورا ہو چکا تھاە‬ ‫دو ہفتے بعد جب حنّان صاحب کی واپسی ہوئی ہم ایک اور مصاحب کے ہمراہ ان کے استقبال کے لی۔ بھی پہنچ‬ ‫گئےە کچھ دیربعد معلوم پڑا کے جناب کا مقص ِد سفر صرف سیر کرنا نہیں تھا بلکے چونکہ وہ شاعری سے خاص‬ ‫رغبت رکھتے ہیں اس لی۔ ایک مشاعرہ آڑے آیا ہوا تھا ناروے کے دارلحکومت اسلو میںە ساتھ ہی ایک ہفتے میں‬ ‫جناب فرانس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں‪ ،‬کہ پیرس میں ایک اور مشاعرہ آ رہا تھاە اسی طرح وقت کے ساتھ تہ در‬ ‫تہ بلکل پیازکی مانند حنّان صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے رہےە بہت سی باتوں میں ایک یہ بات‬ ‫واضح تھی کہ فوج سے کافی نفرت کرتے تھےە عالوہ ازیں صو فیانہ کالم و شاعری کے بہت شیدائی تھے لیکن‬ ‫شاید شراب کو حالل گردانتے تھےە گوکہ انکو کبھی شراب پیتے دیکھا تو نہیں تھا لیکن انکے منہ سے تعریف سن‬ ‫صفعات کوئی ہزار بار بتا ُ کے تھے ە ایک روز بازار‬ ‫سن کر کان پک گئے تھے بندے کو مختلف شرابوں کے ِ‬ ‫سے گزرتے انہوں نے آگاہی بخشی کہ جو فالں کھوکھے سے شراب کی بوتل ملتی ہے اس میں شراب کی مقدار‬ ‫صرف پانچ فی صد ہے اور پانچ فی صد سے کیا ہوتا ہے پوری بوتل اتار لو شاید پتا بھی نا چلے ە ہم نے دل میں‬ ‫سوچا کے ووُ عالم شاید اتنے تک حالل ہوتی ہوە‬

‫مصنف‪:‬‬ ‫محمد شمائیل نثار‬ ‫ماجد بشیر‬

More Documents from "Muhammad Shemyal Nisar"