متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
مایوسی س ے نجات کیس ے؟ محمد مبشر نذیر
September 2003
1
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
اگر ہم روزمرہ کے اخبارات کا جائزہ لیں تو ہمیں روزانہ کسی نہ کسی کی خودکشی کی خبر نظر آئے گی۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالنہ دس لکھ افراد خودکشی کرتے ہیں اور ایک سے دو کروڑ انسان اس کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب اور پسماندہ ممالک میں خود کشی کرنے والوں کی شرح نسبتا ً زیادہ ہے۔ اگر ہم خود کشی کی وجوہات کا جائزہ لیںتو صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے جسے ’’مایوسی‘‘ یا Frustrationکہا جاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا شکار تقریبا ً ہر انسان ہوتا ہے۔ بعض افراد میں یہ مایوسی اتنی شدت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے خاتمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ عام طور پر ان مسائل کے حل کی جو تجاویز دی جاتی ہیں ،وہ اجتماعی سطح پر دی جاتی ہیں جن پر عمل حکومت یا بڑے بڑے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری اس تحریر کا مخاطب وہ لوگ ہوں گے جو کسی نہ کسی قسم کی مایوسی کا\ شکار ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ انسانوں میں مایوسی کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس کے تدارک کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا اللہ تعال ٰی نے اپنے دین میں ہمیں اس کے متعلق کچھ تعلیمات دی ہیں ؟ ہم کن طریقوں سے اپنے اندر مایوسی کو کم کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں؟
مایوسی کی تعریف علم نفسیات میں مایوسی کو خیبت بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان ک سے ممتسساز مسساہر نفسسسیات حمیر ہاشمی جن کی تصنیفات امریکہ اور کینیڈا کی یونیوسٹیوں کسے نصسساب میسسں شسسامل ہیں ،مایوسی کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں’’ :مایوسی یا خیبت ہم اس احسسساس کو کہتے ہیں جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسسسوس کرتا ہے ،مثل ً اگر ایک طالب علم امتحان میں پاس ہونسسا چسساہے لیکسسن فیسسل ہو جسسائے تسسو وہ خیبت یا مایوسی سے دوچار ہوگا یا اگر کوئی کھلڑی کھیل کے میسسدان میسسں مقسسابلہ جیتنسسا چاہے ،لیکن ہار جائے تو وہ خیبت کا شکار ہوگا۔‘‘ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں’’ :اب اگسسر ہم اس تعریف میں اپنے آپ کا اور اپنے گرد وپیش کے افراد کا جائزہ لیں تو ہم جان لیں گسسے کہ دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں مایوسی یا خیبت کا شکار رہا ہے اور جب تک کسسسی شخص کے سانس میں سانس ہے ،وہ خیبت سے دوچار ہوتا رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کسسہ کسی بھی شخص کی تمام خواہشات کی تسکین اس کی مرضی کے عین مطابق ممکن ہی نہیں ہوتی ،اس لئے وہ کسی نہ کسی حد تک مایوسی کا شکار رہے گا۔ تاہم کچسھ لسسوگ ایسے بھی ہیں جن میں یہ احساس زیادہ شدید نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہیں ،جن میں یہ احساس شدید حد تک پایا جاتا ہے۔ ‘‘ )حمیر ہاشمی ،نفسیات ،ص ( 773-772 سادہ الفاظ میں اگر کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرے اورکسی وجہ سے وہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل ودمساغ میسں جسو تلسخ احسساس پیدا ہوتا ہے ،اسے مایوسی کہتے ہیں۔
مایوسی کی اقسام مایوسی بنیادی طور پر دو طرح کی ہوتی ہے ،ایک تو وہ جو ہمارے بسسس سسے بسساہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اپنے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ناقابل کنٹرول مایوسی کسسی مثسسال ایسسے 2
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
ہے جیسے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ زندہ رہے اور بڑا ہہہو کسسر اس کسسی خسسدمت کرے۔ کسی وجہ سے اس بچے کی موت واقع ہوجائے اور اس شخص کی یہ خواہش پسسوری نہ ہوسکے تو یہ ناقابل کنٹرول مایوسی کہلتسی ہے۔ اسسی طسرح جسب ہم فطسری حسوادث جیسے سیلب ،زلزلہ اور طوفان میں لوگوں کو ہلک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس س سے ہمسسارے دل میں جو غم ،دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہیں وہ ناقابل کنٹرول ہوتی ہے۔ یہ وہ معاملت ہیں جن میں انسان کچھ نہیں کرسکتا ۔ اس قسم کسی مایوسسسی کسے بارے میں اللہ تعال ٰی نے اپنے دین میں یہ ہدایت دی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ ایسے معاملت میں وہ اللہ کی پناہ پکڑے اور صبر اور نما زکی مدد سے اس مایوسی کو کم کرے۔ چنسسانچہ ارشاد باری تعال ٰی ہے :واسستعینوا بالصسبر و الصسلوۃ ،و ان ھا لکسبیرۃ ال علسی الخاشسعین، الذین یظنون انھم م ٰلقوا ربھم و انھم الیہ راجعون۔ )البقرۃ ’’ (46-2:45صبر اور نمسساز سسے مدد چاہو۔ بے شک یہ )اللسہ سسے( ڈرنسے والسوں کسے علوہ )دوسسرے لوگسسوں کسے لئے (ب ہت مشکل ہے۔ )اللہ سے ڈرنے والے تو وہ ہیں( جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ اس آیت میں یہ حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے کہ یہ آفات کوئی بڑی چیز نہیں ہیں اس لئے کہ ایک دن سب نے ہی اپنے رب سے ملقات کرنے کے لئے اس دنیا سسے جانسسا ہے۔ اگر انسان حقیقت پسند ہو اور کائنات کی اس بڑی حقیقت کو قبول کرلے تسسو پ ھر اسسے صبر آ ہی جاتا ہے اور یوں اس کی مایوسی کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں کیونکہ چنسسد روزہ زندگی کے بعد ایک لمحدود زندگی اس کے سامنے ہوتی ہے جہاں نہ کوئی دکھ ہو گا اور نسہ کوئی غم۔ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ آپ نے ہر ایسے معاملے میں اللہ کی پنسساہ پکسسڑی ہے اور جسسب ب ھی آپ کسسو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے نماز کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع کر کے ذہنی سکون حاصل کیا اور اس مصیبت پسسر صسسبر کیسسا۔ اس کسسا احسسساس ہمیسسں آپ کسسی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ دوسری قسم کی مایوسی وہ ہوتی ہے جو انسانی وجوہات س سے ہوتی ہے اور اگسسر انسان چاہے تو اسے کم سے کم حد تک لے جا سکتا ہے۔ اس قسم کی مایوسی کسسی ب ہت سی وجوہات ہیں۔ ہم ان میں سے ایک ایک پر بحسسث کرکسے ان کسسا حسسل تجسسویز کرنسے کسسی کوشش کریں گے۔
مایوسی کی وجوہات ناممکن خواہشات مایوسی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کسہ ہم لسسوگ ایسسسی خواہشسسات کرتسے ہیسسں جسسن کسسی تسکین ممکن ہی نہیں ہوتی مثل ً کوئی شخص اگر یہ خواہش کرے کہ اس کی جھولی میں سورج اور چاند آ جائیں اور وہ ان سے کھیلے یا پھر کوئی یہ سوچے کہ وہ گنسسدم کسسی فصسسل سے چاول حاصل کرے۔ ظاہر ہے اس قسم کی مضحکہ خیز خواہشات پسسوری ہو ہی نہیسسں سکتیں۔ اگر ہم اپنے باطن کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہم خود یہ محسوس کریں گے کسہ ہم سسے ہر ایک اس قسم کی بہت سی خواہشات ضرور رکھتا ہوگا۔ اس قسسسم کسسی مایوسسسی کسسا علج صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اپنی خیالی دنیا میں رہنے کی بجائے حقیقت پسند بنیسسں اور حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرن سے وال سے بنیسسں۔ ایس سے ب ھائی اور بہنیسسں ،جسسو اکسسثر 3
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
مایوسی اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہوں ،کے لئے ایک مناسب حل یہ ہے کہ وہ کچھ دیر ک سے لئے کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ جائیں اور ایک کاغسذ پسر اپنسی تمسام ایسسی خواہشسات کسو لکھیں جو پوری نہ ہوئی ہوں۔ اس کے بعد ان میں سے ان خواہشات پر نشان لگاتے جائیں جو غیر حقیقت پسندانہ ہوں ۔ ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہماری خواہشات کی اکسسثریت ایسسسی ہے جو غیر حقیقت پسندانہ ہے جنہیں پڑھ کسو کسوئی بھ ہی شسسخص ہ ہم پسر ہنسسے گسا۔ جسسس شخص کی جتنی زیادہ خواہشات غیر حقیقت پسندانہ ہوں گسسی وہ اتنسسا ہی زیسسادہ مسسایوس ہوگا۔ کوشش کرکے ان تمام خواہشات سے نجات حاصل کسسر لیجئے۔ انشسساء الل سہ آپ خسسود محسوس کریں گے کہ اس کے بعد آپ کی مایوسی اور ڈپریشن میں واضح کمسسی ہوگی۔ جو خواہش پوری ہی نہ ہوسکتی ہو ،اس کے غم میں گھلتے رہنے سے کیا حاصل؟
خواہشات کی شدت مایوسی کی دوسری بڑی وجہ کسی خواہش کی بہت زیادہ شدت ہے۔ جسسو خسسواہش جتنسسی زیادہ شدید ہو گی ،اس کی تسکین اتنی ہی زیادہ خوشی کا باعث بنے گی ،لیکسسن اگسسر یسہ پوری نہ ہوسکے تو پھر مایوسی بھی اتنی ہی زیادہ شدید ہوگی۔ ہمارے لسسوک قصسسوں میسسں ہیر رانجھا ،سسی پنوں اور شیریں فرہاد اس کی مثالیں ہیں۔ انہوں نے ایسسک دوسسسرے کسے حصول کی خواہش کو بہت زیادہ شدید کرلیا ،جب یہ خواہش پسسوری نسہ ہوئی تسسو وہ اتنسے مایوس ہوئے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بے چارے ہمارے لئے عبرت کسسا نشسسان ہیسسں لیکسسن بدقسسسمتی سسے ہمارے قدیم اور جدید میڈیا نے ان سے عبرت حاصل کرنسے کسسی بجسسائے انہیسسں ہیسسرو بنسسا کسسر پیش کیا جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں محبت میسسں ناکسسامی پسسر انت ہا درج سے کسسی مایوسی اور بالخر خود کشی کی وبا پھیلتی چلی گئی۔ اس کسسا شسسکار زیسسادہ تسسر خسسواتین نظر آتی ہیں کیونکہ ان میں خواہشات کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ہر اس حقیقت پسند کو ،جو مایوسی سے نجات حاصل کرنا چاہتسسا ہہہے ،چسساہئے کسہ اپنی خواہشات میں شدت کو کم سے کم کرے۔ کسی سے محبت کا معاملہ ہو ،یا امتحسسان میں پاس ہونے کا ،اچھا کھلڑی بننے کی خواہش ہو یا بڑا افسر بننے کی ،اس حقیقت کسسو جان لیجئے کہ دنیا میں ہر چیز اور ہر انسان ہمارا پابند نہیں ہے۔ اس لئے اپنی کامیسسابی اور ناکامی دونوں امکانات کو مدنظر رکھئے۔ جب انسان اپنسسی ناکسسامی ک سے امکسسان کسسو ب ھی مدنظر رکھے گا تو اس کی خواہش کی شدت میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ محبت کے معاملے میں یہ جان لیجئے کہ شسسادی س سے پہل سے معسساملہ محسسض پسسسند یسسا ناپسند تک محدود رہنا چاہئے اور اسے عشق یا محبت میسں تبسدیل نہیسں ہونسا چساہئے۔ جسب شادی ہو جائے اور بات کنفرم ہو جسسائے تسسو پ ھر اپنسے شسسریک حیسسات سسے دل و جسسان سسے محبت کیجئے۔ جو کوئی بھی اس کا الٹ کرے گا ،اسے مایوسی سے دوچار ہونسسا ہی پسسڑے گا۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ عشق کیا نہیں جاتابلکہ ہو جاتا ہے ،کوئی اچھی چیسسز نہیسسں بلکسہ ایسسک نفسیاتی بیماری ہے جس کا مناسب نفسیاتی علج ضروری ہے۔انسان کے تمام جذبے اس کے اپنے کنٹرول میں رہیں تو وہ خوش رہتا ہے ورنہ مایوسیاں اور پریشانیاں اس کسسا مقسسدر بنتی ہیں۔
4
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
دوسروں سے بے جا توقعات وابستہ کرنا مایوسی کی ایک بڑی وجہ دوسروں سے بے جسا توقعسات وابسستہ کرنسا ہے۔ ہم لسوگ اپنسے دوستوں ،رشتہ داروں ،عزیزوں ،منتخب نمائندوں اور حکومت سسے بسڑی بسڑی توقعسات وابستہ کرلیتے ہیں۔ مثل ً ہمارا خیال ہوتا ہے کہ جیسے ہی ہم اظہار محبت کریں تسسو محبسسوب فورا ً ہمارے قدموں میں سر رکھ دے۔ جب ہم پر کوئی آفت آئے تو ہمارا دوست ب ھی اس مصیبت کو اپنے سر پر لے لے۔ اگر ہمیں رقم کی ضرورت ہو تو تمام رشتے دار اور ملنسسے والے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ہماری ضرورت کسسو پسسورا کریسسں۔ اگسسر ہمسساری کسسسی سسے لڑائی ہو جسائے تسو ہر دوسست ہمساری طسرف سسے مردانسہ وار لسڑے۔ منتخسب نمائنسدے اور حکومت ہماری غربت کو ختم کردے۔ ہمارے کام کرنے کی جگہ ایسی ہو ج ہاں تنخسسواہ تسسو اچھی ملے لیکن کام زیادہ نہ کرنا پڑے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہر شخص کے حالت ایسے نہیں ہوتے کہ وہ ہمسساری ان توقعسسات پسسر پسسورا اتسسر سسسکے۔ اگرچہ بعض لوگ تو جان بوجھ کر کسی کے کام نہیں آنا چاہتے لیکن زیسسادہ تسسر دوسسست اور رشتے دار اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ہماری مدد نہیں کرسسسکتے۔ محبسست کسسا معسساملہ اس سے بھی مختلف ہے۔ اگر مجھے جس سے محبت ہے وہ بھی ایک آزاد انسان ہے۔ میری طرح اسے بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی پسند کرلے۔ اسے بہت سی نفسسسیاتی و سماجی مجبوریاں بھی لحق ہوسکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ اگر وہ مج ھے پسسسند ہے تسسو میں بھی اسے پسند آؤں۔ بالعموم محبت کرنے والسے تسو ب ہت ہی بسڑے بسڑے ہوائی قلعسے تعمیر کرتے ہیں اور جب حقیقی دنیا میں ان قلعوں کے بکھرتے دیکھتے ہیں تو مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ا س طرح کے معاملت میں ہر انسان کو چساہئے کسہ وہ دوسسروں سسے بالکل کوئی توقع وابستہ نہ کرے اور ہر کام کو اپنے زور بازو سے کرنے کی کوشش کسسرے۔ حقیقی زندگی میں اسے دوسروں سے کچھ نہ کچھ مدد تومسل ہی جسائے گسی۔ جسب ایسسا توقع کے بالکل خلف ہو گا تو یہ امر اس کے لئے مایوسی نہیں بلکہ خوشسسی کسسا پیغسسام لئے گا۔
منفی ذہنیت بعض لوگ منفی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر زندگی میں انہیسسں چنسسد ناکسسامیوں کسسا من سہ دیکھنا پڑے تو وہ اسے پوری زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں۔ اس ک سے بعسسد ان کسسی زنسسدگی کسسا واحد مقصد اپنی مایوسی کو دوسروں تک منتقل کرنا ہی رہ جاتا ہے۔ یہ جب کسی محفل میں بیٹھتے ہیں تو مایوسی ہی کی بات کرتے ہیں ،کسی ک 0و خوش دیکھتے ہیں تو اس سے اداس کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،ہر چیز کے منفی پہلو کو نمایاں کرت سے ہیسسں اور 0ایسسک مفکر کی دی گئی مثال کے مطابق مکھی کی طرح جسم کے اسی حصے پسسر بیٹھتسے ہیسسں جو گل سڑا ہو اور اس میں پیپ پڑی ہوئی ہو۔ اگر اپنی خوش قسمتی اور دوسروں کسسی بدقسمتی سے یہ شاعر ،ادیب ،کالم نگار ،صحافی ،ڈرامہ نگار ،مصور ،موسسسیقار ،گلوکسسار یا اداکار بن جائیں تو اپنی اس مایوسی کو پورے معاشرے میں پھیلنے کی کوشش کرتسسے ہیں۔ اگر انہیں کسی فن میں نقاد کی حیثیت حاصل ہو جائے تو پھہہر مایوسسسی پیسسدا کرن سے والی ہر تحریر ،ہر نظم ،ہر نغمے ،ہر تصویر اور ہر ڈرامے کو شاہکار اور شہ پارے کا درجسسہ بھی مل جاتا ہے۔ جو لوگ بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں ،ان کی زندگی پھر غم اور مایوسی کی تصویر بن جاتی ہے۔ جو کوئی بھی مایوسی ہی کو اپنا مقصد حیات بنانا چاہے اس کسسا تو کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن جو اس مایوسی سے نجات حاصل کرنا چسساہے اس کسسے 5
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
لئے لزم ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے مکمل طور پر اجتنسساب کسسرے۔ اگسسر انہیسسں دور س سے آتسسا دیکھے تو فورا ً راستہ بدل لے۔ اگر کسی محفل میں انہیں بیٹھا دیکھ لے تو اس میسسں جسسانے ہی سے گریز کرے۔ اگر وہ گھر آ جائیں تو انہیں مایوسی پھیلنے والے موضسسوعات پسسر بسسات کرنے سے روکنے کے لئے کوئی اور موضوع چھیڑ کسسر ان سسے جسسان چھڑانسے کسسی کوشسسش کرے۔ ان کی تحریروں ،نظموں ،نغموں اور ڈراموں کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے معاشرے میں سے ایسے لوگوں کو باآسانی بلیک لسٹ کر سکتے ہیں۔
فکری جمود اور فکر و عمل میں تضاد مایوسی کی شاید سب سے بڑی وجہ ہماری سوچ میں جمود ) (Rigidityاور ہماری فکر اور عمل میں تضاد ہے۔ سوچ میں جمود اس وقت پیسسدا ہوتسسا ہے جسسب انسسسان تجربسے اور مشاہدے کے روشنی میں اپنے فکر و عمل کا تنقیدی جائزہ لینے زحمت نہ کرے۔ وہ اپنی ہر سوچ اور عمل کو درست سمجھے اور دوسروں کو غلط سمجھے ۔ اپنسسی غلطیسسوں س سے سبق سیکھنے کی بجائے ان کا الزام دوسروں کو دے اور اپنی ڈگر پر چلتا رہے۔ اس کی عام مثال یہ ہے کہ ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ کرکٹ کا بہت بڑا کھلڑی بن جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ کوئی زیادہ محنت نہ کرتا اور نسہ ہی کرکسسٹ کسسی کسسوئی زیسسادہ پریکٹس کرتا ہے۔ وہ قومی ٹیم میں خود کو شامل نہ کئے جانے کا الزام خود کو دینے کسسی بجائے سلیکٹرز اور نظام ہی کو دیتا رہتا ہے۔ اسے اپنی خامیوں کسسا کسسوئی احسسساس نہیسسں ہوتا بلکہ وہ دوسروں ہی کو مورد الزام ٹھہراتا رہتسسا ہہہے۔ یسہ درسسست ہہہے کسہ اس طسسرح کسے معاملت میں بسا اوقات دوسرے بھی جانبداری اور تعصب سے کام لیتسے ہیسں لیکسن اگسر انسان اپنے رویے میں لچک پیدا کرے اور فکر اور عمل کے تضاد کو دور کرتے ہوئے محنت کرے اور اپنی خامیوں کو دور کرے تو کچھ عرصے کی ناکامیوں کے بعد وہ کامیابی حاصل کر ہی لیتا ہے۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو گی کہ یہ مایوسی صسسرف ہمسساری ذات تسسک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بحیثیت ایک قوم کے ہم اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم ی سہ سسسمجھتے ہیں کہ ہمارے قومی زوال کی وجہ صرف اور صرف بیرونی ممالک کی سازشیں ہیں۔ اگر میدان جنگ میں ہمیں شکست ہوتی ہے تسسو اس کسسا السسزام ہم بسسراہ راسسست دشسسمن کسسی سازش اور اندرونی غداروں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ کیا اسباب ہیں جسسن کی وجہ سے یہ غدار صرف ہماری طرف ہی پیدا ہوتے ہیں اور ہمارے دشمن کے ہاں کسسوئی غدار کیوں جنم نہیں لیتا؟ ہمسساری افسسواج اور انسسٹیلی جنسسس ایجنسسسیاں ب ھی دشسسمنوں کسے خلف سازشیں کرتی ہیں لیکن کامیاب صرف ان دشمنوں ہی کی سازشیں کیسسوں ہوتی ہیں اور ہمارے منصوبے اور چالیں خاک میں کیوں مل جاتے ہیں؟ ہمارا ہر حملسسہ ناکسسام اور ان کا ہر حملہ کامیاب ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم الل سہ تعسسال ٰی اور اس ک سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہو کسسر ب ھی دنیسسا میسسں مغلسسوب ہیسسں اور ہمسسارا دشمن انہیں نہ مان کر بھی فاتح ہے؟ یہ مایوسی اس حقیقت کو نہ جاننے کی وجہ سے ہے کہ جسسس طسسرح الل سہ تعسسال ٰی اس کائنات کا نظام کو چند سائنسی قوانین کے ذریعے چل رہا ہے اسی طرح اس ن سے قومسسوں کے عروج و زوال کے بھی کچھ قوانین بنائے ہیں۔ جو حضرات اس موضوع س سے دلچسسسپی رکھتے ہوں ان کے لئے محترم دوست ریحان احمد یوسفی کی کتاب ’’قوموں کے عروج و 6
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
زوال کا قانون اور پاکستان‘‘ کا مطالعہ بہت مفیسسد ہو گسسا۔ میسسں ی ہاں صسسرف اتنسسا عسسرض کردوں کہ اللہ تعال ٰی صرف اسی قوم کو اس دنیا میں عروج عطسا کرتسا ہے جسو دوسسری قوموں کی نسسسبت اخلقسسی اعتبسسار سسے ب ہتر ہو؛ جسسو اپنسے دور کسے علسسوم ،سسسائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنی معاصر اقوام پر برتری رک ھتی ہو؛ جسسس میسسں دوسسسری اقسسوام کسسی نسبت بہترتنظیم پائی جاتی ہو ؛ اور جو اپنے وسائل کو بہتر طریق سے س سے اسسستعمال کرنسسا جانتی ہو۔ تاریخ میں اس اصول سے استثنا صرف اور صرف اللہ تعال ٰی ک سے رسسسولوں اور ان کے ساتھیوں کو حاصل ہوتا رہا ہے جن کو غالب کرنے کے لئے اللہ تعال ٰی غیب سے مسسدد فرماتا رہا۔ختم نبوت و رسالت کے بعد یہ مدد آ ب ھی سسسکتی ہے اور نہیسسں ب ھی۔ اس کسسی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ہر معاملے میں ہم جو مرضسسی آئے غلطیسساں کرتسے پھریسسں اور اللسہ تعال ٰی ہماری مدد کے لئے فرشتے نازل کرتا رہے۔ اللہ تعال ٰی سے بے جا امیدیں اور توقعسسات وابستہ کرکے اس کا امتحان لینے والے ہمیشہ ناکام ہی رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اپنی معاصر اقسسوام کسسی نسسسبت اخلقسسی اعتبسسار سسے ب ھی کمزور ہیں ،علمی اعتبار سے ہمارا شمار جاہل ترین اقوام میں ہوتا ہے ،دوسسسری اقسسوام کی تنظیم ) (Organisationکے مقابلے میں ہمیں ایک منتشر ہجوم ) (Crowdہی قرار دیا جاسکتا ہے اور وسائل کا استعمال شاید ہم ہی سب سے زیادہ برے طریقے سے کرتے ہیں۔ ان سب کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قوموں کے درمیان جب مقابلہ ہو تو ہم ہی غالب ہوں اور دنیا پر ہمارا ہی جھنڈا لہرائے۔ ہماری دعاؤں کے نتیجے میں دشمن ک سے میزائلسسوں، بموں اور توپوں میں کیڑے پڑ جائیں۔ ہم پتھر بھی ماریں تو وہ ان پر ایٹم بم بن کسسر گسسرے اور وہ ہمیں ہائیڈروجن بم بھی مار دیں تو وہ ہمیں پھول کسسی طسسرح لگ سے۔ ی سہ ہوائی قلعسے ذہنوں کو بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن جب ہمیں کوئی تلخ حقیقتوں سے آشنا کرنسسا چسساہے تسسو ہم اسے رجعت پسند ،دشمن کا ایجنٹ ،ففتھ کالمسٹ اور نسہ جسسانے کیسسا کیسسا خطابسسات دے ڈالتے ہیں۔حقیقسسی دنیسسا میسسں جسسب معسساملہ ہمسسارے ان تصسسوراتی ) (Fantansticخیسسالت کسے برعکس پیش آتا ہے تو ہم ایک قومی مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم دوسروں کی سازشوں کا رونا رونے اور انہیں طعنے اور کوسسسنے دین سے کسسی بجائے اپنے اخلق اور علم کو بہتر بنانے کی کوشش کسسر لیتسے تسسو اقسسوام عسسالم میسسں ہمسسارا مقام پہلے سے بہت بہتر ہوتا اور ہم ہر سازش کا مقابلہ بھی با آسانی کرلیتسسے۔ اس ضسسمن میں جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں ،انہیں اللہ تعال ٰی نے کامیسسابی س سے نسسوازا ہے۔ اس کسسی واضح مثال پاکستان کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پاکسسستان ک سے مسسسلمانوں کسسی عملی ،علمی ،معاشی اوراخلقی اعتبار سے قرآن کے آئیڈیل ک سے مطسسابق تسسو نہیسسں لیکسسن 1930کے مسلمانوں کی نسبت ان کی حالت بہرحال بہت بہترہے۔
معاشی وجوہات مایوسی کی یہ وجوہات جو ہم نے اوپر بیان کیں زیادہ تر ایسی تھیں جسسن پسسر اگسسر انسسسان چاہے تو اپنے ذہن اور کردار میں مناسب تبدیلیاں کرکے قابو پاسکتا ہے۔ ان سب ک سے علوہ ہمارے معاشرے میں مایوسی کی ایک او رقسم پھیلی ہوئی ہے جو سب سے زیسسادہ شسسدید ہے اور اس کے اثرات اتنے واضح ہیں کہ انہیں ہر شخص محسوس کسسر سسسکتا ہہہے۔ یسہ ذرائع معاش کی کمی اور بے روزگاری سے پیدا ہونے والی مایوسی ہے۔ ملک بھر میں زیسسادہ تسسر خود کشیوں کی بنیاد یہی مایوسی ہے۔
7
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
چونکہ ہمارے معاشروں میں معاش کی ذمہ داری بالعموم مرد ہی سنبھالتا ہے اس لئے اس قسم کی مایوسی کا شکار زیادہ تر مرد حضرات ہی ہیسسں اور خسسود کشسسی ب ھی زیادہ یہی کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ پورے خاندان سمیت خود کشی کر لیتے ہیں۔ ہمارے مفکرین اور دانش ور اس مایوسی کے خاتمے کے لئے جو تجاویز پیش کرت سے ہیسسں ،ان پسسر عمل درآمد حکومت ہی کرسکتی ہے۔ ہم اس تحریر میں ان لوگسسوں کسے لئے چنسسد تجسساویز پیش کر رہے ہیں جو اس قسم کی مایوسی کا شکار ہیں۔ اگر ہم بے روزگاروں اور اس کی بنیاد پر خود کشی کرنے والوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو چند حیرت انگیز نتائج ہمیں معلوم ہوتے ہیں۔ معاشی مسئلے کی وجہ سے پر خود کشی کرنے والوں میں بل تفریق مذہب چند کمیونیٹیز سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان کمیونیسٹیز میسں قبسائلی پٹ ھان ،میمسن بسرادری ،بسوہری برادری ،اسماعیلی برادری ،قادیانی مسسذہب اور پارسسسی مسسذہب سسے تعلسق رکھنسے والسے افراد ہیں۔راقم الحروف نے ان کمیونیٹیز سے تعلق رکھنے والے چند افراد سے مسسل کسسر ی سہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان میں خود کشی کرنے کی شرح اتنی کسسم کیسسوں ہے؟ اس سلسلے میں مجھے جو معلومات مل سکیں وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ میمن برادری زیادہ تر پاکستان اور ہندوستان کے مغربی ساحلی شہروں میسسں آبسساد ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر کاروبار سے منسلک ہوتے ہیں جو بالعموم ان کے آباؤ اجداد کسے زمسانے سے ہی مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے اس برادری کے زیادہ تر افسسراد کسسو کوئی معاشی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ ان کی ایک بہت ہی قلیل تعداد کو اگر کسسسی وجسسہ سے معاشی مسائل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے تب ان کے اپنے رشسستے دار ہی ان کسسی مسسدد کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ رشتے داروں کے علوہ ان کے بہت سے کمیونٹی سنٹر اور جماعت خانے بھی ہوتے ہیں جہاں فلحی مراکز قائم کئے جاتے ہیں۔ ان مراکسسز میسسں اپنسسی بسسرادری کے علوہ دوسرے انسانوں کو بھی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کے ہاں ایسے لوگ شاید بالکل ہی نہیں پائے جاتے جو معاشی مسئلے کی وجہ سے خسود کشسی پسر مجبور ہو جائیں۔ بوہری برادری کے ہاں بھی اسی سے ملتا جلتا نظام پایا جاتا ہے۔ اسماعیلی برادری کا نظام کچھ مختلف ہے۔ ان کے ہاں ہر شخص کو اپنی آمدن کا کچھ حصہ اپنے امام ،آغسسا خان کے پاس جمع کروانا پڑتا ہے۔ پاکستان کے اسماعیلیوں کسسی زیسسادہ تسسر تعسسداد شسسمالی علقوں گلگت ،ہنزہ وغیرہ میں آباد ہے۔ اس کے علوہ ان کی بڑی تعداد کراچی ش سہر میسسں بھی رہتی ہے۔ کراچی میں رہنے والے زیادہ تر کاروبار یا اعل ٰی ملزمتوں سسے متعلسسق ہیسسں۔ ان لوگوں کو کوئی بڑا معاشی مسئلہ درپیش نہیں۔ جماعتی سسسطح پسسر شسسمالی علقسسوں میں انہوں نے بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں جن سے وہاں کے لوگوں کسسے مسائل کو حل بھی کیاجاتا ہے اور انہیں روایتی ٹور ازم انڈسسسٹری ک سے علوہ روزگسسار ب ھی فراہم کیا جاتاہے ۔ اس کا اندازہ شمالی علقوں کے دیہات میں جا کر ہوتا ہے۔ ان علقسسوں میں جو نوجوان تعلیم حاصل کر لیتے ہیں ،انہیں کراچی میں ل کر سیٹل کر دیسسا جاتسسا ہے اور اس سلسلے میں برادری کا ہر شخص اپنا مذہبی فرض سمجھ کر کوشسش کرتسا ہے۔ قادیانی حضرات کے ہاں بھی اس طرز کا نظام رائج ہے اور وہ اس نظسسام کسسی مسسدد س سے اپنے مذہب کی تبلیغ اور فروغ کے لئے بھی بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عام مسلمانوں میں اس طرز کی کوششوں کی بہت کم مثسسالیں مسسل سکتی ہیں۔ اس کی ایک مثال لہور کے اندرون شہر اور شمالی لہور ہیں جہاں کسی حد
8
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
تک اس طرز کی اجتماعی خدمات انجام دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میسسں شسہر کسے ان علقوں میں غربت اور مالی مسائل کی وجہ سے خود کشسسی کرن سے کسسی شسسرح شسہر کسے دوسرے علقوں کی نسبت بہت کم ہے۔ یہ سب طریق ہائے کار ایسے ہیں جو ایک پوری برادری یا کمیونٹی کی مدد سے ہی چل سکتے ہیں۔ اگر کوئی کمیونٹی اس طرز کا نظام اپن سے ہاں رائج کسسر ل سے تسسو غربسست ، مہنگائی اور دوسرے معاشی مسائل کے اس جن کو اپنی حد تک قابوکر سسسکتی ہے۔ اس نظام کو قائم کرنے کے لئے ان کمیونیٹیز کے نظاموں کا تفصیلی مطالعہ کیسسا جاسسسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص کو ایسی کمیونٹی میسر نہ ہو تسسو اس ک سے لئے ب ہترین مثال صوبہ سرحد اور بلوچستان کے قبائلی علقوں سے تعلق رکھنے والے ان پٹھانوں کسسی ہے جو بڑے شہروں بالخصوص کراچی میں آباد ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق ان کے ہاں میمن برادری کی طرح کوئی بڑا اجتماعی نظام تو قائم نہیسسں ہے لیکسسن ان لوگسسوں نسے اپنسے سسسادہ طسسرز زنسسدگی اور چ ھوٹے چ ھوٹے گروپس کی مدد سے جس طرح ان مسائل پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے ،اس کی کسسوئی اور مثال کسی پاکستانی کمیونٹی میں نہیں ملسستی۔ شسساید پاکسسستان س سے بسساہر کسسسی اور ملک میں رہنے والے پاکستانی اس طریقے سے اپنے مسائل پر قابو پاتے ہوں۔ قبائلی علقوں میں معاش اور روزگار کے مواقع نسبتا ً کم ہیں۔ بعض علقوں میسسں کسی حد تک زراعت اور کہیں کہیں گھریلوصنعت ہی ذریعہ معاش ہے۔ چنسسد لسسوگ تجسسارت کرتے ہیں جس میں بالعموم بڑے شسہروں سسے مختلسسف چیزیسسں ل کسسر اپنسے علقسسوں میسسں فروخت کرتے ہیں۔ ان کے بہت سے نوجوان روزگار کی تلش میں پاکستان کے تمام بسسڑے شہروں بالخصوص کراچی میں آتے ہیں ۔ جب بھی کوئی نوجوان کراچی میسسں آتسسا ہے تسسو اسے اپنے رشتے داروں ،قبیلے کے دوسرے افراد اور دوستوں کا ایک مستحکم نیسسٹ ورک پخیر راغلے کہتا ہے۔ اس کے یہ ساتھی بالعموم کوئی ب ہت امیسسر نہیسسں ہوتے ۔ ان کسسا ذریعسہ معاش بھی محض محنت مزدوری ،چائے کے ہوٹلوں میں کسسام ،بنگلسسوں میسسں چوکیسسداری ، بسوں میں ڈرائیوری یا کنڈیکٹری ،ٹیکسی یا رکشہ چلنا یا پھر ٹھیلوں وغیرہ پسسر ہونے وال کام ہوتا ہے۔ یہ لوگ محنت کا کوئی بھی کام کرنے میں بالکل شرم محسوس نہیں کرت سے۔ نئے آنے والے ساتھی کے لئے انہوں نے کسی نہ کسی روزگار کا بندوبست کر رکھاہوتسسا ہے۔ اس طرح یہ لوگ کچھ نہ کچھ کما ہی لیتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی آمدنی بالعموم چار پانچ ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن اپنے سادہ طرز زندگی کی وجہ سسے ان کسے اخراجات بہت کم ہوتے ہیں۔ اس رقم میں سے یہ خود پر ہزار بارہ سسسو روپ سے خسسرچ کرکسے باقی رقم اپنے گھر میں بھیج دیتے ہیں ۔ ان کی خواتین ب ھی ان ہی کسسی طسسرح محنسستی اور جفاکش ہوتی ہیں۔ وہ بھی اپنے گھر میں کوئی نہ کوئی کام کرکسے ت ھوڑی ب ہت رقسسم کمسسا رہی ہوتی ہیں۔ ہر گھرانہ اپنی کل آمدنی کو خرچ نہیں کرتا بلکہ اس میں سے بھی کچھ نسسہ کچھ بچا لیتا ہے۔ کچھ رقم جمع کرکے کچھ عرصے بعد یہ لوگ زمین یا کسسوئی جائیسسداد ب ھی خریدلیتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو کوئی حادثہ پیش آجائے یا پھر وہ بیمار ہوجسائے تسسو اس کا پورا گروپ اپنی آمدنی میں سے تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرکے ایک معقول رقسسم اسسے مہیا کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ باری باری کچھ عرصے بعسسد دو دو تیسسن تیسسن مسساہ کے لئے اپنے گھر بھی چلے جاتے ہیں اور اس دوران اس کے دوسرے سسساتھی اس ک سے کسسام کی دیکھ بھال بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ اسی نظام کی برکات ہیں کہ ان لوگسسوں میسسں بھیسسک
9
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
مانگنے والوں کی تعداد بہت کم ملتی ہے اور مالی مسائل کی وجہ سے خود کشسسی کرن سے والوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے لوگ جو غربت اور مالی مسائل کسا شسکار ہوں ،وہ دوسسروں کسے آگسے ہاتھ پھیلنے کی بجائے محض چند افراد کا گروپ بناکر اپنے مالی مسائل کو کسی حد تک کسسم کر سکتے ہیں۔ مثل ً ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک جگہ کام کرنے والسے چنسسد مسسزدور ،یسسا پ ھر ایک دفتر میں کام کرنے والے افراد مل کر یہ طے کریں کہ ایک دوسرے کے مسسالی مسسسائل کو کم کرنے میں وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گ سے۔ ایسسک مسسزدور کسسی ما ہانہ آمسسدنی تیسسن ساڑھے تین ہزار کے قریب ہوتی ہے۔ اگر دس مزدور مل کر یسہ طسے کسر لیسں کسہ وہ روزانسہ صرف پانچ روپے اپنے کسی قابل اعتماد ساتھی کے پاس جمع کروائیں گے تسسو ایسسک مہین سے میں یہ لوگ باآسانی پندرہ سوروپے اور چھ ماہ میں نو ہزار روپے کی رقم جمع کسسر سسسکتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو اگر کسی دن مزدوری نہ ملے یا وہ بیمار ہو جائے یسسا پھہہر اس سے کوئی اور مسئلہ درپیش ہو تو اس اجتماعی فنسڈ سسے ممکسسن حسسد تسسک اس کسسی مسسدد کسسی جاسکتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ معمولی سی رقم ادا کرکے اپنے مسائل کو کسی حد تسسک کم کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں ضرورت صرف قابل اعتماد ساتھیوں کی ہے۔ مغربسسی ممالک میں اسی نظام کو ب ہت وسسسیع پیمسسانے پسسر پھیل کسسر Employment Insuranceکسسا نظام وضع کیا گیا ہے۔ اس میں ہر شخص کو اپنی آمدنی کا ایسسک معمسسولی سسسا حصسہ مثل ً %0.5فنڈ میں جمع کروانا لزم ہوتا ہے۔ ان فنڈز کسسا انتظسسام فیسڈرل یسسا سسسٹیٹ گسسورنمنٹ کرتی ہے۔ جب بھی کوئی بے روزگار ہوتا ہے تو اسے اسی فنسڈ سسے اتنسسی رقسسم ادا کسسر دی جاتی ہے جو اس کی کم از کم بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے۔ شہری علقوں میں رہنے والے ہمارے عام پاکستانی بھائیوں ک سے مسسالی مسسسائل کسسی ایک اور بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہر شخص دفتر میں بیٹھ کر آرام و سسسکون س سے کسسام کرنسسا ہی پسند کرتا ہے۔ تعلیم کو صرف اور صرف روزگار کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا ہہہہے۔ شروع ہی سے ہر بچے کے ذہن میں یہ بٹھایا جاتا ہے کہ اسے بڑا ہوکر افسر ہی بننا ہے۔ ی ہی وجہ ہے کہ ہمارے عام پڑھے لکھے نوجوان محنت کے کاموں سے جسسی چرات سے ہیسسں اور بسسس افسری ہی کا خواب سجاتے ہیں۔ اہل مغرب کی ایک خوبی ی سہ ہے ک سہ ان ک سے ہاں کسسسی پیشے کو حقیر نہیں سمجھا جاتا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے وال سے طسسالب علسسم عسسام طور پر تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی پیٹرول پمپ پر کام کرنے ،گاڑیاں دھونے ،ہوٹلوں میسسں برتن دھونے یا اخبار بیچنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس طسسرح وہ باآسسسانی اتنی رقم کما لیتے ہیں جسو ان کسے تعلیمسسی اخراجسات پسسورے کرنسے کسے لئے کسافی ہو۔ ہر شخص ائر کنڈیشنڈ دفتر ،بنگلہ ،گاڑی اور خوبصورت سیکرٹری کے خواب نہیں سجاتا۔ اگر ہم اپنے رویے کو اس حد تک ہی تبدیل کرنے کے لئے تیار ہوں کہ کسسسی کسسام کسسو حقیر نہ سمجھیں اور جو کام ب ھی ملسے اسسے کرنسے پسسر تیسسار ہوں تسسو کسسافی حسسد تسسک بسے روزگاری کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اعل ٰی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی جسسب تسسک ان کی پسند کی جاب نہ ملے ،اور وہ جی کڑا کرکے اور طعنے دین سے والسسوں کسسی پسسرواہ نسہ کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا پارٹ ٹائم کام کرکے اپنے ذاتی اخراجات ہی پورے کر لیں تو یہ بے روزگاررہ کر ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہونے س سے ب ہتر ہے کیسسونکہ under- employmentبہرحال unemploymentسے تو بہتر ہے۔
گناہوں میں مبتل ہونا 10
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
مایوسی کی ایک اور قسم ان لوگوں میں پیدا ہوتی ہے جو بہت سے گناہ کرلیتسسے ہیسسں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ اتنے گناہ گار ہوگئے ہیں کسہ ان کسسی بخشسسش ممکسسن نہیسسں۔ یسہ طرز فکر بالکل غلط ہے۔ اللہ تعال ٰی کی رحمت کے دروازے آپ کے لئے موت کے وقت تسسک کھلے ہیں۔ اللہ تعال ٰی نے آپ کے لئے یہ اعلن کر دیا ہے :قل یا عبادی الذین اسسسرفوا علس ٰی ٰہ۔ ان الل ّٰہٰیغفر الذنوب جمیعا۔ ’’ اے نسسبی آپ میسسری طسسرف انفسھم ل تقنطوا من رحمۃ الل ّٰ سے فرما دیجئے کہ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنسسی جسسانوں پسسر زیسسادتی کسسی ہے ،اللسہ کسسی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔‘‘
مایوسی دور کرنے کے لئے چند تجاویز
اس تحریر میں ہم نے مایوسی کسے خساتمے کسی جسو تجساویز پیسش کسی ہیسں ،ان کسسو ی ہاں مختصرا ً بیان کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ کچھ نئی تجاویز بھی پیش کی جارہی ہیں۔ جو بھائی یا بہنیں مایوسی اور ڈپریشن کا شکارہوں ،ان سے گذارش ہے کہ وہ تحریسسر کسے اس حصے کو اپنے سامنے والی دیوار پر چسپاں کرلیں یا پھر اپنے پرس میں رکھ لیں اور جب بھی مایوسی حملہ آور ہو تو محض ان تجاویز کو ایک نظر دیکھ ہی لیںتسسو انہیسسں مایوسسسی سے نجات کا کوئی نہ کوئی طریقہ سمجھ میں آ ہی جائے گا۔ سب سے پہلے یہ طے کر لیجئے کہ آپ مایوسی اور ڈپریشن سے ہر قیمت پسسر • نکلنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اپنی خواہشات کا جائزہ لیجئے اور ان میں سے جو بھی غیر حقیقسست پسسسندانہ • خواہش ہو ،اسے ذہن سے نکال دیجئے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پرسسسکون ہو کسسر خود کو suggestionدیجئے کہ یہ خواہش کتنی احمقانہ ہے۔ اپنسسی سسسوچ میسسں ایسسسی خواہشات کا خود ہی مذاق اڑائی سے۔اس طسسرح ہزاروں خواہشسسیں ایسسسی کسہ ہر اک خواہش پہ دم نکلے کو غلط ثابت کیجئے۔ اپنسسی خواہشسسات کسسی شسسدت کسسو کنسسٹرول کیجئے۔ اپنسسی شسسدت کسسی ایسسک • controllable limitمقرر کر لیجئے۔ جیسے ہی یہ محسسسوس ہو کسہ کسسوئی خسسواہش شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور اس حد سے گزرنے والی ہے ،فورا ً الرٹ ہو جائیے اور اس شدت کو کم کرنے کے اقدامات کیجئے۔ اس کا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس خواہش کی معقولیت پر غور کیجئے اور اس کے پورا نہ ہو سکنے کے نقصسسانات کا انسدازہ لگسائیے۔ خسواہش پسورا نسہ ہونے کسی provisionذ ہن میسں رکھئے اور اس صورت میں متبادل لئحہ عمل پر غسسور کیجئے۔ اس طسسرح کسسی سسسوچ خسسواہش کسسی شدت کو خسسود بخسسود کسسم کسسردے گسسی۔ آپ ب ہت سسسی خواہشسسات کسے بسسارے میسں یسہ محسوس کریں گے کہ اگر یہ پوری نہ بھی ہوئی تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ی سہ بھی خیال رہے کہ خواہش کی شدت اتنی کم بھی نہ ہوجائے کہ آپ کسسی قسسوت عمسسل ہی جاتی رہے۔ خواہش کا ایک مناسب حد تک شدید ہونسسا ہہہی انسسسان کسسو عمسسل پسسر متحرک کرتا ہے۔ دوسروں سے زیادہ توقعات وابستہ مت کیجئے۔ یہ فرض کر لیجئے ک سہ دوسسسرا • آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ اس مفروضے کو ذہن میسسں رکھتسے ہوئے دوسسسروں 11
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
سے اپنی خواہش کا اظہار کیجئے۔ اگر اس نے تھوڑی سی مسدد ب ھی کسسردی تسسو آپ کو ڈپریشن کی بجائے خوشی ملے گی۔ بڑی بڑی توقعسسات رکھن سے س سے انسسسان کسسو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور دوسرے نے کچھ قربانی دے کر آپ کے لئے جو کچھ کیا ہوتا ہے وہ بھی ضائع جاتا ہے۔ مایوسی پھیلنے والے افراد ،کہانیوں ،ڈراموں ،کتابوں ،خبروں ،نظموں اور • نغموں سے مکمل طور پر اجتناب کیجئے اور ہمیشہ امنگ پیدا کرنے والے افسسراد اور ان کی تخلیقات ہی کسسو قابسل اعتنسسا سسسمجھئے۔ اگسر آپ مایوسسسی اور ڈپریشسن کسے مریض نہیں بھی ہیں ،تب بھی ایسی چیسسزوں س سے بچئے۔ اس بسسات کسسا خیسسال ب ھی رکھئے کہ امنگ پیدا کرنے والے افراد اور چیزوں کے زیر اثسسر کہیسسں کسسسی سسے ب ہت زیادہ توقعات بھی وابستہ نہ کرلیں ورنہ یہی مایوسی بعد میں زیادہ شدت سے حملسسہ آور ہوگی۔ گندگی پھیلنے والی مکھی ہمیشہ گندی چیزوں کا ہی انتخاب کرتی ہے۔ اس • کی طرح ہمیشہ دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوں پسسر نظسسر ن سہ رکھئے ۔ اس ک سے برعکس شہد کی مکھی ،جو پھولوں ہی پسسر بیٹ ھتی ہے کسسی طسسرح دوسسسروں کسسی خوبیوں اور اچھائیوں کو اپنی سوچ میں زیادہ جگہ دیجئے۔ ان دوسروں میں خسساص طور پر وہ لوگ ہونے چاہئیں جو آپ کے زیادہ قریب ہیں۔ اپنی خواہش اور عمل میسسں تضسساد کسسو دور کیجئے۔ اپنسسی ناکسسامیوں کسسا السسزام • دوسروں پر دھرنے کی بجائے اپنی کمزوریوں پر زیادہ سوچئے اور ان کو دور کرن سے کی کوشش کیجئے۔ ہر معاملے میں دوسروں کی سازش تلش کرنے س سے اجتنسساب کیجئے اور بدگمانی سے بچئے۔ یہ طرز فکر آپ میں جینے کی امنگ اور مثبت طسسرز فکر پیدا کرے گا۔ اس ضمن میں سورۃ الحجرات کا بار بار مطالعہ بہت مفید ہے۔ اگر آپ بے روزگاری اور غربت کے مسائل کے حل ک سے لئے کسسوئی بسسڑا سسسیٹ • اپ تشکیل دے سکتے ہوں تو ضرور کیجئے ورنہ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کسسی حد تک کوئی چھوٹا موٹا گروپ بنا کر اپنے مسائل کو کم کرنے کی کوشش کیجئے۔ اس ضمن میں حکومت یا کسی بڑے ادارے کے اقدامات کسسا انتظسسار ن سہ کیجئے۔ اگسسر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کی مایوسی انشاء اللہ شسسکرکے احسسساس میں بدل جائے گی۔ خوشی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونا سیکھئے اور بڑے سے بڑے غم • کا سامنا مردانہ وار کرنے کی عادت ڈالئے۔ اپنے حلقسہ احبسساب میسسں زیسسادہ تسسر خسسوش مزاج لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے اور سڑیل سے لوگوں سے پرہیز کیجئے۔ اگر کوئی چیز آپ کو مسلسل پریشان کر ر ہی ہواور اس مسسسئلے کسسو حسسل • کرنا آپ کے بس میں نہ ہو تو اس سے دور ہونے کسسی کوشسسش کیجئے۔ مثل ً اگسسر آپ کے دوست آپ کو پریشان کر رہے ہوں تو ان سے چھٹکسسارا حاصسسل کیجئے۔ اگسسر آپ کی جاب آپ کے لئے مسائل کا باعث بنسسی ہو تسسو دوسسسری جسساب کسسی تلش جسساری رکھئے۔ اگر آپ کے شہر میں آپ کے لئے زمین تنگ ہوگئی ہے تو کسی دوسرے شہر کا قصد کیجئے۔ 12
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
اگر آپ کو کسی بہت بڑی مصیبت کا سسسامنا کرنسسا پسسڑے اور آپ کسے لئے اس • سے جسمانی فرار بھی ممکن نہ ہو تو ایک خاص حد تک ذہنی فرار بھی تکلیف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ اس کو علم نفسیات کی اصطلح میں بیدار خسسوابی )Day (Dreamingکہا جاتا ہے۔ اس میں انسان خیالی پلؤ پکاتا ہے اور خود کو خیسسال ہی خیال میں اپنی مرضی کے ماحول میں موجود پاتا ہے جہاں وہ اپنی ہر خسسواہش کسسی تکمیل کر رہا ہوتا ہے۔ جیل میں بہت سے قیدی اسی طریقسے سسے اپنسسی آزادی کسسی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ہر شسسخص کسسسی ن سہ کسسسی حد تک بیدار خوابی کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مسائل کی شدت کو کسسم کرتسسا ہے۔ مثل ً موجودہ دور میں جو لوگ معاشرے کی خرابیوں پر بہت زیادہ جلت سے کڑھت سے ہیں ،وہ خود کو کسی آئیڈیل معاشرے میں موجود پا کر اپنی مایوسی کے احسسساس کو کم کرسکتے ہیں۔ اسی طرز پر افلطون نے Utopiaکسا تصسور ایجساد کیسا۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ بیدار خسسوابی اگسسر ب ہت زیسادہ شسسدت اختیسار کسسر جائے تو یہ بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا بسساعث بنسستی ہے۔ شسسیخ چلسسی بھی اسی طرز کا ایک کردار تھا جو بہت زیادہ خیالی پلؤ پکایا کرتا تھا۔ اس لئے یسسہ ضروری ہے کہ اس طریقے کو مناسب حد تک ہی استعمال کیا جائے۔ آپ کو جو بھی مصیبت پہنچی ہو ،اس کے بارے میسسں ی سہ جسسان لیجئے کسہ اپنسسی • زندگی کا خاتمہ کرکے آپ کو کسی طرح بھی اس مصیبت سے نجات نہیں ملے گی بلکہ مشہور حدیث کے مطابق موت کے بعد وہی حالت خود کشسسی کرن سے وال سے پسسر مسلط کئے جائیں گے اور وہ بار بار خود کو ہلک کرکے اسی تکلیف سے گزرے گسسا۔ اس سزا کی طوالت کا انحصار اس کے قصسسور کسسی نسسوعیت اور شسسدت پسسر ہوگسسا۔ ہمارے یہاں خود کشی کرنے والے صرف ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ایسسساکرتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جن مصیبتوں سے بچنے کے لئے وہ ایسا کرتے ہیں ،اس سے بڑی مصیبتیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔ آپ نے ایسا بہت کم دیکھا ہو گا ک سہ مصسسائب سے تنگ آ کر کسی دین دار شخص نے خود کشی کی ہو کیونکہ اسسے اس بسسات کسسا یقین ہوتا ہے کہ زندگی اللہ تعال ٰی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مصیبت کا کیسا ہے ،آج ہے کل ٹل جائے گی اور درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان تمام طریقوں سے بڑھ کر سب سے زیادہ اہم رویہ جسسو ہمیسسں اختیسسار کرنسسا • ﷺے اسوہ حسنہ کے مطابق اللہ تعال ٰی کی ذات پر کامل توکل چاہئے وہ رسول اللہ ک اور قناعت ہے۔ توکل کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعال ٰی کی رضا پر راضسسی ر ہا جسسائے۔ اس کا انتہائی معیار یہ ہے کہ انسان کسی بھی مصیبت پر دکھی نہ ہو بلکہ جسسو ب ھی الل سہ تعال ٰی کی طرف سے ہو ،اسسے دل و جسان سسے قبسسول کرلسے۔ ظسساہر ہے عمل ً اس معیار کو اپنانا ناممکن ہے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اس کے جتنسسا ب ھی قریسسب ہو سکتا ہو ،ہو جائے۔ قناعت کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعال ٰی نے جتنا عطسسا کسسر دیسسا ہہہے ، اسی پر خوش رہا جائے۔ اس سے زیادہ کی کوشش اگر چہ انسسسان ضسسرورکرتا ر ہے لیکن جو بھی اسے مل جائے اسے اپنے رب کی اعل س ٰی تریسسن نعمسست سسسمجھتے ہوئے خوش رہے اور جو اسے نہیں مل ،اس پر غمگیسسن نسہ ہو۔ وہ آد ھے گلس میسں پسانی دیکھ کر شکر کرے کہ آدھا گلس پانی تو ہے ،اس غم میں نہ گھلتا رہے کہ باقی آد ھا خالی کیوں ہے؟ اگر ہم ہمیشہ دنیا میں اپنے سے اوپر والوں کسسو دیکھنسے کسسی بجسسائے 13
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
خود سے نیچے والوں کو ہی دیکھتے رہیں تسو ہمساری ب ہت سسی پریشسانیاں ختسم ہو جائیں۔ گناہوں کی وجہ سے کبھی مایوس نہ ہوں بلکہ ہمیشہ اللہ کی رحمت سے امیسسد • رکھتے ہوئے اپنے گناہوں سے توبہ کیجئے اور آئیندہ یہ گناہ نہ کرنے کا عزم کیجئے۔ اگر آپ اس تحریر کو پڑھ کر کوئی فائدہ محسو س کریں تو مصنف کے لئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے فیڈ بیک سے بھی مطلع فرمائیے تاکہ آپ کے تجربات کو شامل کرکسسے اس تحریر کو اور بہتر بنایا جاسکے۔ اگر کوئی تجویز آپ کو نامعقول محسوس ہو تو اس سے بھی ضرور آگاہ فرمائیے تاکہ کسی تک غلط بات پہنچانے سے بچا جاسکے۔ اگر ہوسکے تو اس تحریر کے مندرجات کو اپنے انداز میں ان بھائیوں اور بہنوں تک ب ھی پہنچسسائیے جسسو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تاکہ امید کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ اللہ تعسسال ٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح مایوسیوں اور پریشانیوں سے بچا کر ہر مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور ہم پر اپنی رحمتیں نازل کرتا رہے۔
مزید مطالعے کے لئے سفر نامے قرآن اور بائبل ک ے دیس میں مکہ کے دیگر تاریخی جبل نور اور غار حرا مکہ جدہ روانگی برائے سعودی عرب احد بدر مدینہ کے تاریخی مقامات مدینہ سفر ہجرت سفر حج مقامات خیبر ،مدائن دمام ،الخبر اور بحرین کاز وے جازان ،ابہا اور فیفا طائف خندق مادبہ ،جبل نیبو جنگ موتہ اور ڈیڈ سی روانگی برائے اردن پیٹرا صالح اور تبوک قاہرہ جزیرہ نما سینا مصر کا بحری سفر عقبہ اور بپتسمہ سائٹ مصر سے سعودی عرب براستہ اردن اسکندریہ
مذہبی معاملت کتاب الرسالہ :امام شافعی کی اصول فقہ پر پہلی کتاب کا اردو ترجمہ و تلخیص دیباچہ مقدمہ حصہ اول :تعارف باب :1تعارف باب :2البیان باب :3اسلمی قانون کا باب :6ناسخ و باب :5خاص اور عام باب :4قرآن کی زبان علم حصہ دوم :کتاب اللہ باب :7اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو قبول کرنے منسوخ احکامات حصہ سوم :سنت باب باب :9روایات باب :8اللہ اور اس کے رسول کی بیان کردہ ممانعتیں کی ذمہ داری باب :12 باب :11اجماع :10خبر واحد حصہ چہارم :اجماع ،قیاس ،اجتہاد اور اختلف رائے باب :14اختلف رائے باب : 13اجتہاد قیاس
ای ڈورٹائزنگ کا اخلقی پ ہلو س ے جائز ہ | دین کا مطالع ہ معروضی طریق ے پر کیجی ے | ر ہبانیت | دو ہر ے معیارات | فارم اور اسپرٹ | دین میں اضاف ے | گنیش جی کا جلوس | صوفیاء کی دعوتی حکمت عملی | عقل اور عشق | اسلم ن ے غلمی کو ایک دم ختم کیوں ن ہ کیا؟ | سور ہ توب ہ ک ے شروع میں بسم الل ہ کیوں ن ہیں ہے ؟ | کیا رسولوں پر ایمان ضروری ہے؟ | مک ہ اور مدین ہ حرم کیوں ک ہلت ے ہیں؟ | مرد کا وراثت میں حص ہ دوگنا کیوں ہے؟ | متشاب ہات کیا ہیں؟ |
14
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
عقائد و نظریات الحاد جدید ک ے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات مسلم معاشروں میں الحاد کا فروغ
یورپ میں الحاد کی تحریک الحاد کی تعریف مغربی اور مسلم معاشروں پر الحاد کے اثرات الحاد ،اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں الحاد کی سائنسی بنیادوں کا انہدام
کائنات :خدا کی ایک نشانی | Quranic Concept of Human Life Cycle | A | Dialogue with Atheismکیا عقل ک ے ذریع ے خدا کی پ ہچان ممکن ہے؟ | کیا ٓاخرت کا عقید ہ معقولیت رک ھتا ہے؟ | خدا ک ے جسم س ے کیا مراد ہے؟ | خدا ٓتا؟ | تقدیر کا مسئل ہ؟ بعض لوگ خدا ک ے منکر کیوں ہیں؟ نظر کیوں ن ہیں ا | محمد رسول الل ہ کی رسالت کا ثبوت کیا ہے؟ | Empirical Evidence of God’s | Accountability
معاشرتی معاملت اسلم اور نسلی و قومی امتیاز | دین دار افراد ک ے لئ ے معاش اور روزگار ک ے مسائل | موٹر و ے کی ٹریفک | جنریشن گیپ | ساس اور ب ہو کا مسئل ہ |
ہماری شخصیت اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیس ے کی جائ ے؟ تخلیقی
فطری رجحان
ذہانت ذہنی پختگی علمی سطح طرز فکر اور مکتب فکر قوت ارادی اور خود اعتمادی احساس ذمہ داری صلحتیں للچ اور قناعت شجاعت و بہادری انصاف پسندی کامیابی کی لگن بخل و سخاوت مایوسی و غصہ و جارحیت جنسی جذبہ عادات و خصائل فنی اور پیشہ ورانہ مہارت محبت و نفرت خوشی و غمی تشویش کی صورت میں رویہ ٹیم اسپرٹ صبر و شکر قوت برداشت ترجیحات حیرت و تجسس خوف اخلص قانون کی پاسداری عصبیت قائدانہ صلحیتیں خود غرضی خود انحصاری خوش احساس کمتری و برتری چستی ایثار جسمانی صحت ظاہری شکل و شباہت خطرات کے بارے میں رویہ ابلغ کی صلحیتیں اخلقی معاملہ فہمی انتہا پسندی جوش و ولولہ غیبت جذبات و احساسات کا طریق اظہار پسندیدگی اور ناپسندیدگی خود آگہی
مایوسی کا علج کیوں کر ممکن ہے؟ مایوسی کی تعریف مایوسی کی اقسام کرن ے ک ے لئ ے چند تجاویز
مایوسی کی وجو ہات
مایوسی دور
بزرگوں کی کرامات یا ان کا کردار سبز یا نیل | مشکل پسندی | اختلف رائ ے کی صورت میں ہمارا روی ہ | سیکس ک ے بار ے میں متضاد روی ے | تکبر ک ے اسٹائل | انسان کا اپنی شخصیت پر کنٹرول | علماء کی زبان | جذب ہ حسد اور جدید امتحانی طریق ہ | فرشت ے ،جانور اور انسان | شیطانی قوتوں کا مقابل ہ کیس ے کیا جائ ے؟ |
اسلم اور دور جدید اسلم اور دور حاضر میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں دیباچہ
معاشرے میں تبدیلی کا عمل
انسانی نفسیات اور طرز فکر میں تبدیلی
معاشرتی اور
15
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm ثقافتی تبدیلی عمل
سیاسی تبدیلی
معاشی اور تکنیکی تبدیلی
دور جدید کی تبدیلیاں اور ہمارا رد
دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار دعوت دین کی ا ہمیت دعوتی پیغام کی تیاری
داعی اور اس کی صفات
دعوت دین کی منصوب ہ بندی
اسلم کا خطر ہ :محض ایک و ہم یا حقیقت | مسلم دنیا میں علمی و | دور جدید کی سازش | ہم اسلم نافذ کیوں ن ہ کر تحقیقی رجحانات سک ے؟ | امت مسلم ہ زوال پذیر کیوں ہے؟ | اقوام عالم کو مسلمانوں س ے ہمدردی کیوں ن ہیں؟ | مذ ہب کی دعوت ک ے لئ ے کرن ے کا سب س ے بڑا کام؟ | مولوی اور دور جدید
16