اسلم اور نسلی و قومی امتیاز محمد مبشر نذیر
September 2003
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ ،اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرورآگے چل کر نفرتوں ،چپقلشوں ،مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جن کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیے ،ابھی پچاس سال پہلے ہی اسی نسلی غرور کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کو یاد کیجئے جس کے نتیجے میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ صرف یہ خیال نہ کیجئے کہ یہ غرور صرف غیرمسلموں کے ہاں ہی پایا جاتا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بھی اس باطل تصور کا اتنا ہی شکار ہوئے ہیں جتنا کہ دوسری اقوام۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے ہمارے معاشروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ اس سے بچاؤ کی کیا تدابیر ہیں؟ ہم یہاں پر دوسری اقوام کی بجائے صرف مسلمانوں ہی پر فوکس کرتے ہوئے ان سوالت کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کے ہاں یہ غرور خود ان کے دین نے پیدا کیا ہے یا یہ کہیں اور سے آیا ہے۔ جب ہم اس موضوع پر قرآن کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں صاف لکھا ہوا نظر آتا ہے: یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منہا زوجہا و بث منہما رجال کثیرا و نسآء ۔ )النساء ’’ (4:1اے انسانو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک انسان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔ )اس کے بعد( ان دونوں کی نسل سے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں پھیل دیں ۔‘‘
پھر ارشاد ہوتا ہے:
یا ایھا الناس! انا خلق ٰنکم من ذکر و انثی وجعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ۔ ان اکرمکم عندالل ّٰہٰ اتقکم ۔ )الحجرات ’’ (49:13اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں ٰ گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک عزت وال وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘
اسی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشہور خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’تمام لوگ آدم کی اولد ہیں اور اللہ تعال ٰی نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ اے لوگو! سنو تمہارا رب ایک رب ہے ،کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے ۔ نہ کوئی کال کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے س ے ۔ فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے۔‘‘
قرآن و حدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلم کسی ذات پات ،رنگ ،نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیادنہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقوی اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی اپنی نیکیوں کی بنیاد پر دوسروں کو حقیر تو سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہی اسے کمتر قرار دے سکتا ہے ورنہ اس کا اپنا تقوی خطرے میں پڑ جائے گا۔ دنیا کی دوسری اقوام اگر اپنے قومی و نسلی غرور میں مبتل ہوتی ہیں تو یہ ان کے باطل نظریات کا قصور ہے لیکن حیرت ان مسلمانوں پر ہے جو قرآن کی ان آیات کی تلوت کرتے ہیں اور پھر بھی اس تکبر میں مبتل ہیں۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں قومی و نسلی تفاخر کے اثرات دوسری اقوام سے آئے۔ اس میں ان کے دین کا ہرگز ہرگز کوئی قصور نہیں ہے۔ 2
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
ہمیں سب سے پہلے یہ تعین کرنا چاہئے کہ ہمارے اندر نسلی تفاخر کی کیا کیا صورتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ یہ صورتیں کس طرح سے مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئیں اور ان کے مسلم معاشروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ ہمارے یہاں نسلی و قومی امتیاز کی یہ صورتیں رواج پذیر ہیں: • ہمارے ذات پات کے نظام میں بعض ذاتوں کو اعل ٰی اور بعض کو ادن ٰی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے بہت سے لوگ دوسری ذات میں شادی کرنا پسند نہیں کرتے۔ بعض حضرات اپنے بیٹوں کی شادیاں تو دوسری ذاتوں میں کر دیتے ہیں لیکن بیٹیوں کی شادیاں صرف اپنی ہی ذات میں رکھتے ہیں۔ مختلف پیشوں کے بارے میں ہمارے یہاں گھٹیا ہونے کا تصور موجود ہے۔ • ہمارے ہاں عام طور پر محنت کشوں اور ہاتھ سے کام کرنے والے پیشوں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ دیہی معاشرے میں جاگیر دار اور زمیندار اپنے ملزمین کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ غلموں کا سا سلوک کرتے ہیں۔ شہری معاشرے میں اگرچہ ملزمین کے ساتھ اتنا حقارت آمیز سلوک نہیں ہوتا لیکن انہیں بہرحال مالکوں اور اعل ٰی افسران سے کمتر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ہم لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی خود سے حقیر سمجھ کر ان • کی توہین کرتے ہیں اور بسا اوقات ان سے تحقیر آمیز رویہ رکھتے ہیں۔ بالکل اسی قسم کا سلوک مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ رنگ کی بنیاد پر بھی امتیاز رکھا جاتا ہے اور سیاہی مائل جلد رکھنے والوں • کو طعنے دیے جاتے ہیں۔ اس بنیاد پر امتیاز ہماری نسبت مغربی اقوام میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ زبان اور صوبے یا علقے کی بنیاد پر بھی ہمارے ہاں خاصا تعصب پایا جاتا ہے • اور ایک علقے یا صوبے کا فرد دوسروں کا مذاق اڑاتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمارے بعض شہروں جیسے کراچی میں تو یہ تعصب ایک زمانے میں اتنے عروج پر پہنچ گیا کہ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد لسانی فسادات کا شکار بنے۔
نسلی امتیاز )(Race Discrimination برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلم کو اختیار کیا۔ قدیم ہند کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریہ اور راجپوت قبائل ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبو رکیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔ اس نظام کے تحت مذہبی رہنما یعنی برہمن سب سے بلند و برتر ،سیاسی رہنما یعنی کھشتری دوسرے نمبر پر ،محنت کش اور تاجر یعنی ویش تیسرے نمبر پر اور ادن ٰی درجے کے کام 3
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
کرنے والے شودر چوتھے درجے کی ذات قرار پائے۔ ایک مشہور روایت کے مطابق برہما یعنی خدا نے برہمن کو اپنے سر سے ،کھشتری کو اپنے بازوؤں سے ،ویش کو اپنی ٹانگوں سے اور شودر کو پاؤں سے پیدا کیا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں پہلی دو ذاتیں اعلی ترین اور آخری دو ذاتیں ادن ٰی ترین قرار پائیں۔ جب برصغیر میں اسلم کی کرنیں داخل ہوئیں تو سب سے پہلے نچلی ذات کہلنے والوں نے اسلم قبول کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے حسن سلوک اور اسلم کے آفاقی پیغام سے متاثر ہوکر یا پھر اپنے مفادات کے تحت اعل ٰی کہلنے والی ذاتوں کے افراد نے بھی اسلم قبول کرلیا۔ اگرچہ ان نومسلموں نے اسلم کے بہت سے احکام کو اپنا تو لیا لیکن اپنی بعض پرانی عادات و خصائل سے نجات حاصل نہ کر سکے۔ ان میں سے ایک عادت ذات پات کی تفریق کی تھی۔ اگر ہم پنجاب اور سندھ کی مختلف ذاتوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ان میں سے زیادہ تر دراصل قبائل ہی کے نام ہیں۔ بلوچستان اور سرحد تو خیر اب بھی قبائلی علقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سکھوں کے دور حکومت سے قبل پنجاب اور سندھ بھی قبائلی علقوں پر مشتمل تھے۔ بعد کی سیاسی اور عمرانی تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ قبائل تو ختم ہوگئے لیکن ان کے نام ذات ) (Casteکی صورت میں باقی رہ گئے۔ چونکہ ان میں ذات پات کی تفریق کی عادتیں موجود تھیں لہٰذا اس کی باقیات اب تک پائی جاتی ہیں۔ جدید شہری معاشروں میں بعض سماجی و معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں ذات پات کا نظام زوال پذیر ہے البتہ دیہی معاشروں میں اس میں ابھی بھی کچھ دم خم باقی ہے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک تو ان بنیادوں پر لڑائی جھگڑے اور فساد بھی ہوجایا کرتے تھے لیکن ہمارے دور میں ذات پات کی تفریق عام طور پر صرف رشتے ناتے اور شادی بیاہ کرتے ہوئے یا پھر الیکشن میں ووٹ دیتے ہوئے سامنے آتی ہے ۔ بہت سے لوگ اپنی ذات اور برادری سے باہر شادی کرنا پسند نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ وہی تصورات ہیں۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ حساس کردار سادات ادا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی وجہ سے آپ کی اولد ، مسلمانوں کے لئے قابل صد احترام ہے۔ بعض سید حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں سے بہتر ہیں اور ان کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق اپنے عالی نسب میں اختلط پیدا کرنے کے مساوی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی بیٹیاں بوڑھی ہوجاتی ہیں لیکن سید کا رشتہ نہ ملنے کے باعث ان کی شادیاں نہیں ہوپاتیں۔ جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت اطہار کی سیرت طیبہ کا ہم نے مطالعہ کیا ہے ،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ طرز عمل تمام مسلمانوں کے امام اور اپنے جد امجد ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ،ارشادات اور عمل کے خلف ہے۔ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معمولی سی واقفیت بھی رکھتا ہے ،وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ آپ نے اپنی چار میں سے تین صاحبزادیوں کا نکاح غیر سید حضرات میں کیا۔ آپ کی بڑی صاحبزادی سیدۃ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے ہوا جو بنو امیہ کے چشم و چراغ تھے۔ اسی طرح سیدۃ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح یکے بعد دیگرے
4
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا گیا جو آپ کے خاندان سے باہر بنو امیہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی حیات طیبہ میں اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا مقداد بن اسود سے اور پھوپھی زاد بہن زینب بنت جحش کا نکاح سیدنا زید بن حارثہ )رضی اللہ عنہم( سے فرمایا۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ حضر موت کے رہنے والے نوجوان تھے جو مکہ میں پلے بڑھے تھے۔ اسی طرح حضرت زید رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلم تھے۔ اس کے بعد انہی زید کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہما کا نکاح قریش کی عالی نسب خاتون فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کردیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب نسب پر فخر و غرور کے ان تمام بتوں کو پاش پاش کردیا جو لوگوں نے اپنی طرف سے قائم کر لئے تھے۔ آپ کی پیروی میں آپ کے صحابہ میں یہی رجحان پھیلتا چل گیا اور حسب و نسب سے ہٹ کر شادیاں ہونے لگیں۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ایک آزاد کردہ غلم سالم رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ یہ وہی سالم ہیں جن کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے کہ اگر سالم زندہ ہوتے تو میں انہیں خلفت کے لئے اپنا جانشین نامزد کردیتا۔ حسب و نسب کے غرور کو توڑنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد نے بھی پوری طرح حصہ لیا۔ چنانچہ سیدنا علی المرتض ٰی رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا جو کہ سید نہ تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے ہو جو کہ سادات کے دائرے میں داخل نہیں۔ آپ کی دوسری صاحبزادی سکینہ رضی اللہ عنہا کی شادی مصعب بن زبیراور ان کی شہادت کے بعد عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم بن حزام سے ہوئی۔ یہ دونوں حضرات بھی سید نہ تھے۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی متعدد پوتیوں کا نکاح غیر سادات میں ہوا جن میں سیدتنا زینب ،ام کلثوم ،فاطمہ ،ملیکہ ،ام قاسم شامل ہیں۔ )رضوان اللہ علیہم اجمعین( ان مقدس ہستیوں کے طرز عمل سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلم میں نکاح کے وقت کسی حسب نسب اور ذات برادری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسلم میں فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقو ٰی ہے۔ اگر کوئی ان ہستیوں کے طرز عمل کے خلف نسلی غرور میں مبتل ہے تو وہ اس بنیاد ہی کو ڈھا رہا ہے جو اس کے اپنے آباؤ اجداد قائم کرکے گئے۔ اگر انبیاء اور صالحین کی اولد ہونا شرف کا باعث ہے تو پھر تمام انسان ہی اللہ تعال ٰی کے کم ازکم تین نبیوں آدم ،شیث اور نوح علیہم الصلوۃ والسلم کی اولد ہیں۔ اسی طرح اگر کسی برے شخص کی اولد ہونا معاذ اللہ عار اور ذلت کا باعث ہے تو پھر سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلم کی ولدت باسعادت بھی ایک بت فروش ہی کے گھر ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعال ٰی کے نزدیک نہ تو کسی کو اپنے آباؤ اجداد کے نیک اعمال کے سبب جنت میں داخل کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے برے اعمال کے سبب اسے کوئی سزا یا ذلت دی جائے گی۔ ہر کسی کے عزت و مرتبہ اور درجات میں ترقی اس کی اپنی کاوشوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تقو ٰی کے سبب ہوگا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ
5
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہم نے اپنی کاوشوں کو چھوڑ کر اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں ہی پر فخر کرنا شروع کردیا ہے۔ شادی بیاہ سے ہٹ کر ذات پات اور خاندان کا غرور ہمیں دوسرے معاملت میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طرز عمل کے بالکل برعکس حکومتوں کو نسل پرستی کا شکار بنایا گیا۔ خلفائے راشدین میں حضرات ابوبکر ،عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے اپنی اولد کو حکومت میں کوئی عہدہ نہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخلص ساتھیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے آپ نے اپنے بیٹوں کو ساتھ رکھا۔ آپ کی شہادت کے بعد عام مسلمانوں نے اتفاق رائے سے آپ کے صاحبزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا لیکن وہ بھی چھ ماہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بعض وقتی مسائل کے پیش نظر اگرچہ اپنے بیٹے یزید کے لئے وصیت کی تھی لیکن آپ نے بھی حکومت کو ہمیشہ اپنے خاندان میں رکھنے پر کبھی اصرار نہیں کیا تھا۔ بعد میں عبدالملک بن مروان کے دور سے صحیح معنوں میں ملوکیت کا آغاز ہوااور امت مسلمہ نسلی بادشاہت کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ بنو عباس اور دیگر بادشاہتوں کی صورت میں چلتا رہا۔ ہمارے ہاں نام نہاد جمہوریتوں میں بھی یہی رجحان ہے کہ چند ہی خاندان میدان سیاست کے شہسوار بنے ہوئے ہیں جہاں باپ کے بعد بیٹا ہی اپنے حلقے کا بے تاج بادشاہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے علوہ مغربی معاشروں میں بھی یہ امتیاز کافی حد تک پایا جاتا ہے اگرچہ اب اس میں کمی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہمارے اخلقی انحطاط کے باعث بہت سے دینی حلقوں میں بھی نسل پرستی کا رواج داخل ہوچکا ہے۔ ایک پیر کے وفات پانے کے بعد اس کے لئق ترین مرید کو حلقہ ارادت کا سربراہ بنانے کی بجائے بیٹے ہی کو سجادہ نشین کے طور پر چنا جاتا ہے۔ ایک مدرسے کے مہتمم کے انتقال کے بعد ،اس کے کسی لئق ترین شاگرد کی بجائے اس کا بیٹا ہی مدرسے کے امور کو سنبھالتا ہے۔ یہی رجحان اب دینی جماعتوں میں داخل ہوچکا ہے اور اکثر جماعتوں کے قائدین اپنی زندگیوں ہی میں اپنے بیٹوں کو بطور خاص اپنی خالی ہونے والی مسند کے لئے تیار کرتے ہیں۔ لوگوں میں بطور خاص اپنی اولد کی محبت و عقیدت پیدا کی جاتی ہے۔ انہیں خاص طور پر اسٹیج پر لکر پروجیکشن دی جاتی ہے۔ ان سے زیادہ صلحیتوں کے حامل افراد کو دبایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اگر جماعت کے لئے ساری ساری عمر کی قربانی دینے والوں کو بھی قربانی کا بکرا بنانا پڑے تو اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ اس نسل پرستی کے خلف اٹھنے والی ہر آواز کو جماعت سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اگر آپ ملک کی بڑی دینی جماعتوں کے اندرونی اختلفات اور جھگڑوں کا جائزہ لیں تو ان اختلفات کی بنیادی وجہ اسی نسل پرستی کو پائیں گے۔ اس اصول سے استثنا شاید صرف ایک یا دو جماعتوں ہی کو حاصل ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کار خیر میں وہ جماعتیں بھی شریک ہیں جن کی پوری جدوجہد ہی آمریت اور نسل پرستی کے خلف آواز اٹھانے پر مبنی تھی۔ اگر کوئی ان سب چیزوں کو اسلم اور مساوات کے خلف سمجھتا ہے تو اسے کھل کر ان چیزوں کے بارے میں آواز اٹھانا چاہئے تاکہ ہم نسل پرستی کی اس وبا سے 6
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
محفوظ رہ سکیں۔ اگر غلطی سے ہم خود اس میں مبتل ہوں تو توبہ کرکے اپنی اصلح کریں۔
معاشی تفاوت کی بنیاد پر امتیاز)(Economic Discrimination ہمارے نظام معیشت میں دور قدیم ہی سے محنت کشوں کو برا سمجھا جاتا ہے اور ان کی تحقیر کی جاتی ہے۔ اس بات کا کسی کو کوئی خیال نہیں آتا کہ انہی محنت کشوں کے طفیل ہمیں دنیا بھر کی اشیا ملتی ہیں۔ معاشرے میں اس حوالے سے دو طبقات بنانے کے لئے بنیادی کردار جاگیردارانہ نظام ) (Feudal Systemنے ادا کیا۔ یہ نظام دراصل ملوکیت اور بادشاہت کے سیاسی نظام ہی کی معاشی شاخ ہے۔ بادشاہ جب کسی ملک کو فتح کرتے تو اس کے نظم و نسق کو سنبھالنے کے لئے جاگیردارانہ نظام کو فروغ دیتے۔ فوج کے فاتح جرنیلوں ،بادشاہ کے رشتے داروں، دوستوں ،درباریوں ،بیوروکریسی کے عہدے داروں اور مفتوح اقوام کے غداروں کو نوازنے کے لئے انہیں زمین کے بڑے بڑے قطعات مع اس پر کام کرنے والے انسانوں کے ان کی خدمات کے عوض میں دے دیے جاتے۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنی جاگیر کو تقسیم ہونے سے بچاتے اور اپنے رشتے داروں کو اس کے مختلف حصوں کا نظم و نسق سنبھالنے کے لئے متعین کرتے۔ اہل یورپ میں وراثت تقسیم نہ ہونے کا اصول اسی وجہ سے اپنایا گیا۔ یہ جاگیر دار طبقہ اپنی قوت کے بل بوتے پر اپنی زیر انتظام علقوں میں حکومت کرتا اور اپنی آمدن کا ایک حصہ بادشاہ کی خدمت میں روانہ کردیتا۔ جاگیردارانہ علقوں میں عام لوگوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سا سلوک کیا جاتا۔ انہیں بسا اوقات پابند سلسل کرکے رکھا جاتا ،زمینوں پر جبری مشقت لی جاتی اور بدلے میں کھانے کے لئے اتنا ہی دیا جاتا جس سے یہ زندہ رہ سکیں۔ انہیں ایک علقہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کی اجازت نہ ہوتی۔ اگر ایک جاگیر دار اپنی زمین فروخت کرتا تو اس کی رعایا بھی ساتھ ہی بک جاتی۔ جو بھی اس ناانصافی کے خلف آواز اٹھاتا ،اسے اس کے پورے خاندان سمیت موت کی سزا سنا دی جاتی۔ جاگیردار طبقہ اپنی رعایا کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا اور ان کی جائیداد اور خاندان میں پوری طرح تصرف کرتا۔ اس نظام کا سب سے غلیظ ،مکروہ اور قابل نفرت پہلو یہ بھی ہے کہ جاگیردار اور اس کے پورے خاندان کو اپنے محنت کشوں کے بیوی بچوں پر بھی پورا اختیار ہوتا اور وہ جب چاہتا ،کسی محنت کش کی بیوی یا بیٹی کو اپنے بستر کی زینت بنا لیتا۔ ظلم و جبر کا یہ نظام یورپ اور عالم اسلم میں یکساں رائج تھا۔ اہل یورپ کی نسبت مسلمانوں کے علقوں میں صورتحال تھوڑی سی بہتر تھی۔ جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو یہاں اسی نظام کو فروغ دیا۔ انہوں نے اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو بڑی بڑی ریاستیں اور جاگیریں عطا کیں۔ ان نوابوں اور جاگیر داروں نے اپنے عوام کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہمیشہ سے جاگیر دار کرتے چلے آئے ہیں۔ جب انہوں نے اپنے مفتوحہ علقوں کو خالی کیا ،اس وقت تک یورپ میں صنعتی انقلب اور انقلب فرانس کے نتیجے میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہوچکا تھا اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام لے چکا تھا۔ برصغیر میں بھارت نے اسی رجحان کی پیروی کرتے ہوئے کسی حد تک جاگیردارانہ نظام سے نجات حاصل کرلی لیکن اہل پاکستان ایسا نہ کرسکے۔
7
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
جاگیر دارانہ نظام کی بنیاد اسی پر تھی کہ محنت کشوں کو عزت نہ دی جائے اور انہیں کسی صورت میں بھی سر اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس نفسیات کو ہم آج بھی اپنے ملک کے جاگیر داروں میں دیکھ سکتے ہیں جو اپنے کسی ہاری یا مزارع کو اپنے سامنے بٹھانا بھی پسند نہیں کرتے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں کمیونزم نے اس طبقاتی تقسیم کے خلف آواز اٹھائی لیکن جہاں جہاں کمیونزم رائج ہوا وہاں حکمران طبقے نے جاگیرداروں کی جگہ لے لی اور اپنے عوام کے ساتھ وہی کرنے لگے جو ان کے ساتھ جاگیردار کیا کرتے تھے۔ یورپ ،امریکہ اور دنیا کے بڑے حصے میں جاگیردارانہ نظام کو زوال آتا گیا اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی۔ اس نظام نے محنت کشوں کو خاصی حد تک آزادی عطا کی ہے ۔ اب یہ محنت کش سرمایہ دار کے ساتھ اپنے معاوضوں پربات چیت ) (Negotiationکر سکتے ہیں ،اپنی مرضی سے ایک سرمایہ دار کی فیکٹری کو چھوڑ کر دوسرے کے پاس جا سکتے ہیں ،ایک شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہر میں رزق کی تلش میں جاسکتے ہیں ،بہت مرتبہ سرمایہ دار بھی ان سے احترام کے ساتھ مخاطب ہوتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں انہیں وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں ہوسکا جس کے یہ مستحق ہیں۔ اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھولیں ،اسے سلیوٹ کریںاور اس کے سامنے کرسی پر نہ بیٹھیں۔ کالونیل دور کی مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اب بھی اسی امتیاز کی باقیات دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو ہمیں اس کے بالکل متضاد صورتحال نظر آتی ہے۔ اللہ تعال ٰی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محنت کرنے والوں کو اللہ کا دوست ہونے کا مژدہ سناتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مالی اعتبار سے مستحکم ہونے کے باوجود بکریاں چراتے رہے۔ جوانی میں آپ نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ نہایت جلیل القدر صحابہ محنت مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے۔ کوئی باغوں اور کھیتوں میں کام کرتے ،کوئی زمینوں کو پانی لگاتے ،کوئی لوہے کا کام کرتے اور تلواریں اور زرہیں بناتے ،کوئی اونٹوں اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے ،کوئی مکان تعمیر کرتے۔ یہ وہ حضرات تھے جنہیں وقت کے خلیفہ بھی نہایت عزت اور احترام سے سیدنا یعنی ہمارے سردار کہہ کر مخاطب کرتے۔ یہ قرآن ہی تھا جس نے جاگیر دارانہ نظام اور چند ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کے خاتمے کے لئے سود کی حرمت ،زکوۃ کی فرضیت اور وراثت کی تقسیم کے قوانین دنیا کو عطا کئے تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور آپ کے جلیل القدر مشیروں نے قرآن کی آیت کی ل یکون دولۃ بین الغنیا منکم )کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دولت کہیں تمہارے امیروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے (سے استدلل کرتے ہوئے تمام نئی فتح ہونے والی زمینوں کو سرکاری تحویل میں لے کر جاگیر دارانہ نظام پر ضرب لگائی تھی۔ ہم میں سے جو بھی دین کو اپنی زندگیوں میں اہمیت دیتے ہوںان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ محنت کش طبقے کو اس کا صحیح اور جائز مقام دیں۔ گھر کے ملزمین ہوں یا فیکٹری کے ،دفتر کے چپراسی ہوں یا ڈرائیور ،موٹر مکینک ہوں یا راج مزدور ،ہر ایک سے عزت ،شفقت اور محبت سے پیش آئیںاور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا خیال رکھیںکہ جو خود کھاؤ انہیں بھی کھانے کے لئے دو اور جو خود پہنو ،انہیں بھی پہناؤ۔
8
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
افسوس کا مقام یہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک میں نسلی ،جنسی اور مذہبی امتیازات کے خلف Anti-discrimination lawsپاس ہو چکے ہیں لیکن مسلم ممالک اس معاملے میں اب بھی بہت پیچھے ہیں۔
مذہب کی بنیاد پر امتیاز)(Religious Discrimination امتیاز کی جو سب سے شدید اور نازک قسم ہمارے ہاں پائی جاتی ہے ،وہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے۔ ہمارے ہاں مذہب اور دین کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا ہم نے غور و فکر کرکے انتخاب کیا ہو۔ ذات پات کی طرح مذہب بھی ہمارے لئے ایک نسلی چیز بن گیا ہے۔ ہم اسی لئے مسلمان ہیں کہ ہمارے والدین مسلمان تھے۔ ہمارے پڑوس میں رہنے وال اس لئے عیسائی ہے کہ اس کے والدین عیسائی تھے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں کے طرزعمل میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارے بہت سے لوگ مذہب کے فرق کی بنا پر دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ کھانا پینا پسند نہیں کرتے اور انہیں حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اسی قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعینہ یہی صورتحال فرقوں اور مسالک میں بھی پیدا ہو چکی ہے۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسرے مسلک کے کسی فرد سے ہاتھ ہی ملنے پر نکاح کے ٹوٹ جانے کا فتو ٰی دیتے ہیں۔ یال رکھئے کہ دین اسلم کسی نسلی مذہب کا نام نہیں۔ یہ اللہ تعال ٰی اس بات کا خ کا پیغام ہدایت ہے جو آفاقی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص اگر اپنے رب کی طرف خلوص نیت سے مائل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے کھلی دعوت ہے کہ وہ اس دین کا انتخاب کرلے۔ قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرکے کوئی بھی شخص ہر مسلمان کے برابر درجہ پاسکتا ہے اور اس میں کسی ذات پات یا رنگ و نسل کی قید نہیں۔ اسلم اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے طرز عمل سے اللہ کی حجت تمام کریں اور انہیں اس کے دین کا پیغام پہنچائیں۔ دعوت دین کے لئے محبت ،شفقت ،نرمی اور عدل و احسان مطلوب ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اس معاملے میں قرآن کی چند آیتوں کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر ان سے استدلل کرکے غیر مسلموں سے بدسلوکی کرتے ہیں حالنکہ قرآن مجید میں واضح طور پر ان غیرمسلموں ،جنہوں نے کبھی مسلمانوں سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی ان کے خلف معاندانہ رویہ رکھا ہو ،کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے :ل ینھکم الل ّٰہٰعن الذین لم یقاتلونکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیھم ۔ ان الل ّٰہٰیحب المقسطین۔ )الممتحنہ ’’ (60:8جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں کوئی لڑائی نہیں کی اور نہ ہی تمہیں جلوطن کیا ،ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور منصفانہ رویہ اختیار کرنے سے اللہ تمہیں منع نہیں کرتا بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ زیادتی کرنی چاہئے اور ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا چاہئے۔ یاد رکھئے کہ قرآن کی ان آیتوں میں صرف ان غیر مسلموں کے ساتھ سختی کا حکم دیا گیا ہے جنہوں نے ہم سے جنگ کی ہو۔ اسلمی
9
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
ریاست میں رہنے والے ہر غیر مسلم کو پوری طرح تمام انسانی حقوق فراہم کرنا اسلمی حکومت اور مسلم معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنا اور ان کے حقوق انہیں پہنچانا ،یہ مسلمانوں پر لزم ہے اور جو اس سے روگردانی کرتا ومین لل ّٰہٰشھدآء بالقسط۔ ول ہے ،اللہ اس سے باخبر ہے۔ یا ایھا الذین ٰامنوا کونوا ق ٰ ّ ٰہ۔ ان الل ّٰہٰخبیر یجرمنکم شن ٰان قوم علی اّل تعدلوا۔ اعدلوا۔ ھو اقرب للتق ٰوی ۔ و اتقوا الل ّٰ بما تعملون۔ )المائدہ ’’ (5:8اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ اور سچائی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ یہ )عدل( تقو ٰی کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعال ٰی سے ڈرتے رہو ۔ بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ ‘‘ خیبر کی فتح کے بعد مسلمانوں کا یہودیوں سے معاہدہ ہوا کہ وہ زمینوں میں کاشت کاری کریں گے اور پیداوار کا نصف حکومت اسلمیہ کو بطور خراج دیں گے۔ مسلمانوں کی حکومت کے جو اہل کار ان سے فصل کا حصہ وصول کرنے جاتے ،وہ کل پیداوار کے دو برابر حصے کرتے اور ان یہودیوں کو کہتے کہ ان میں سے جو چاہو لے لو۔ کئی یہودی بزرگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اسی انصاف پر زمین و آسمان قائم ہیں۔ اسی طرح شام کے شہر حمص کی فتح کے بعد وہاں کے یہودی اور عیسائی عوام کے ساتھ مسلمانوں کا یہ معاہدہ ہوا کہ جزیے کے بدلے مسلمان ان کی حفاظت کریں گے۔ ایک جنگی حکمت عملی کے تحت مسلم افواج کو وہ شہر خالی کرنا پڑا۔ اسلمی لشکر کے سپہ سالر سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جزیہ واپس کردیا جائے کیونکہ ہم معاہدے کے مطابق ان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ وہ منظر بڑا ہی رقت آمیز تھا جب یہودی اور عیسائی روتے ہوئے اپنا جزیہ واپس لے رہے تھے اور یہ دعا کررہے تھے کہ خداوند تمہیں دوبارہ واپس لئے۔ ہمارے ہم مذہب حکمران تو بس ہم سے وصول کرنا ہی جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسلمی لشکروں کے لئے راستے ہموار کرنے ،ان کے گزرنے کے لئے پل بنانے ،شہروں کی فصیلوں میں سرنگیں کھود کر ان کے لئے خفیہ راستے بنانے اور انہیں کھانا فراہم کرنے کی خدمت یہی غیر مسلم بڑے شوق سے انجام دیتے۔ امریکہ کے ایک ممتاز مصنف اور تجزیہ نگار جان ایل ایسپوزیٹو اپنی کتاب The Islamic Threatمیں لکھتے ہیں: مسلمانوں کے مفتوحہ علقوں کی مقامی آبادی عیسائی ،یہودی اور مجوسیوں پر مشتمل تھی جو آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے تھے۔ سلطنت روم اور ایران کے اکثر علقوں میں غیر ملکی حکومتیں قائم تھیں۔ ان مقامی لوگوں کے لئے اسلمی حکومت صرف حکمرانوں کی تبدیلی تھی ۔ نئے حکمران ان کی آزادی کو سلب کرنے والے نہیں بلکہ پہلوں سے کہیں زیادہ رواداری کے حامل تھے۔اب ان آبادیوں کی اکثریت پہلے سے زیادہ خود مختار تھی اور پہلے سے کہیں کم ٹیکس اداکرتی تھی۔عرب علقوں میں نئے حکمران مقامی آبادی کے ہم زبان بھی تھے۔مذہبی اعتبارسے اسلم ایک زیادہ روادار دین ثابت ہوا ،جس نے مقامی یہود و نصار ٰی کو زیادہ مذہبی آزادی دی جبکہ بازنطینی سلطنت میں بہت سے عیسائی چرچ ایسے تھے جن پر غیر ملکی چرچ )مرکزی چرچ ،روم( نے بدعتی اور گمراہ ہونے کا فتو ٰی لگا کر ان پر پابندی لگا دی تھی۔انہی وجوہات کی بنیاد پرکئی یہود اور عیسائی کمیونیٹیز نے مسلمان افواج کی مدد کی تھی۔جیسا کہ فرانسس پیٹرز کہتے ہیں۔ ’مسلمانوں نے عیسائیت کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا لیکن انہوں نے اس کی حکومت ختم کردی۔ عیسائی زندگی ،عقائد ،رسومات اور سیاست اب ایک پبلک کی بجائے پرائیویٹ معاملہ بن گئی۔اسلم نے عیسائیوں کے مرتبے کو پہلے سے ایک درجہ گرا دیا جیسا کہ 10
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm عیسائیوں نے ایسا یہودیوں کے ساتھ کیا تھا لیکن اس میں ایک فرق تھا :وہ یہ کہ عیسائیوں کا درجہ کم کرنا محض قانونی تھا ۔ اس میں persecutionیا مذہبی جبر شامل نہ تھا۔اور یہ سب کچھ، اگرچہ ہمیشہ نہیں ،نفرت کے رویے سے پاک تھا‘ ۔ ‘‘)Francis E. Peters, The Early Muslim (Empires: Umayyads, Abbasids, Fatimids. p. 79
افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب معاملہ بالکل الٹ ہو چکا ہے۔ بہت سے غیر مسلم ممالک میں تو مسلمان آزادی سے اپنے دین پر عمل کرتے ہیں لیکن یہ سہولت بعض مسلم ممالک میں انہیں حاصل نہیں۔
رنگ کی بنیاد پر امتیاز)(Colour Discrimination خوش قسمتی سے ہمارے ہاں اہل مغرب کی نسبت رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے کا رجحان خاصا کم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملکوں میں جلد کی رنگت میں بہت زیادہ فرق نہیں پایا جاتا۔ ہمارے یہاں یہ برائی ہنسی مذاق میں کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ بعض خواتین دوسری خواتین کو اس سلسلے میں طعنے بھی دیتی ہیں۔ ہم یہاں قرآن مجید کے ایک آیت نقل کرنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں:
یا ایھا الذین امنوا ل یسخر قوم من قوم عس ٰی ان یکونوا خیرا منھم و ل نسآء من نسآء عس ٰی ان یکن خیرا منہن ۔ ول تلمزوا انفسکم ،ول تنابزوا باللقاب ،بئس السم الفسوق بعد الیمان ۔ و من الظلمون ۔ )الحجرات ’’ (49:11اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق ٰ لم یتب فاولئک ھم نہ اڑائے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی )بالخصوص( خواتین ،دوسری خواتین کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان کے بعد فسق و فجور کے نام بہت بری چیز ہیں ۔ جو لوگ )ان گناہوں پر (توبہ نہ کریں ،وہی ظالموں میں سے ہیں ۔ ‘‘
زبان اور علقے کی بنیاد پر امتیاز )(Geograhpic & Ethnic Discrimination چونکہ ہمارے ملک میں مختلف صوبے لسانی بنیادوں پر قائم ہیں اس لئے ہمارے ہاں لسانی اور صوبائی تعصب ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے بادشاہ نیشنلزم کے جذبے کو فروغ دیتے آرہے ہیں لیکن اس تعصب کو صحیح معنوں میں اہل مغرب ہی نے عروج بخشا ہے۔ اہل حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے علقائیت پرستی اور لسانیت پرستی کو فروغ دیتے آئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی تھی کہ ان بنیادوں پر قوم میں کٹ مرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ یہ لوگ حکمرانوں کے اقتدار کی حفاظت دل وجان سے کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی تبدیلی سے غریب طبقے کو عموما ً کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہی وہ طبقہ ہے جو قوم پرستی کے جذبے کے تحت اپنے حاکم کے لئے جان لڑا دیتا ہے۔ اہل مغرب کے ہاں قوم پرستی کا یہ جذبہ اس قدر ترقی پا گیا کہ اس کی بنیاد پر پچھلی صدی نے دو ایسی جنگوں کا سامنا کیا جن کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ انگریزوں سے دوسرے نظریات کی طرح قوم پرستی کا نظریہ بھی ہندوؤں میں منتقل ہوا۔ 1930کے عشرے تک یہ قوم پرستی جنون کی صورت اختیار کرچکی تھی۔ اگرچہ شیوا جی مرہٹہ کے دور میں بھی ہندو قوم پرستی کو فروغ حاصل ہوا تھا لیکن احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں مرہٹوں کی شکست کے نتیجے میں اس کے اثرات خاصے زائل ہوچکے تھے۔
11
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
اس کے رد عمل میں مسلمانوں میں بھی ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کے نظریے نے جنم لیا۔ حقیقتا ً اس مسلم قوم پرستی کی بنیاد اسلم پر نہ تھی بلکہ اس بات پر تھی کہ نسلی مسلمان ایک قوم ہیں۔ اس قوم پرستی کی تحریک پر ان لیڈروں نے قبضہ کرلیا جا کا اسلم سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ اسلم کا نعرہ محض نمائشی طور پر لگایا گیا تھا۔ اس بات کا اندازہ مسلمانوں کے ایک رہنما کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے مسلمان رئیسوں کو اس بات کی ترغیب دی تھی کہ وہ صرف مسلمان طوائفوں کے پاس ہی جایا کریں تاکہ ان کی دولت سے ہندو طوائفیں فیض یاب نہ ہوسکیں اور مسلم دولت ،مسلم ہاتھوں ہی میں رہے۔ مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لئے ہمارا ہر فعل اسلمی ہے خواہ اس کا دین کے اصل ماخذوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اسلم کے حکم اور مقصد کے عین خلف سودی ادارے قائم کئے گئے جنہیں مسلم بینکوں کا نام دیا گیا ،اسلمی تعلیما ت کے برعکس مرد وزن کے بے حجابانہ اختلط کو فروغ دیا گیا اور بقول سید ابو العلی مودودی صاحب کے بس اسلمی قحبہ خانوں او ر اسلمی جوئے خانوں کی کسر ہی باقی رہ گئی تھی۔ )تفصیل کے لئے دیکھئے مسلمان او رموجودہ سیاسی کشمکش( یہ قوم پرستی صرف مسلم تک ہی محدود نہ رہی بلکہ مسلمانوں کے مختلف لسانی گروہ اس کا شکار ہوئے۔ مسلمانوں نے اسلم کا نام استعمال کرکے پاکستان حاصل تو کرلیا لیکن جیسے ہی ہندو قوم پرستی کا خطرہ ٹل ،مسلم قوم پرستی ، صوبائیت اور لسانیت میں تحلیل ہوگئی۔ صرف چوبیس سال کے عرصے میں اس قوم پرستی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرڈال۔ اس کے بعد سے وطن عزیز پنجابی، سندھی ،پٹھان ،بلوچ اور مہاجر کی قوم پرستیوں میں گھرا ہوا ہے۔ انہی قوم پرستیوں کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی دو عشرے تک خون اور آگ کی ہولی کا شکار رہا ہے۔ یہ قوم پرستیاں مفاد پرست طبقے کی پھیلئی ہوئی ہیں ،ورنہ سندھ و پنجاب کا محکوم طبقہ یکساں طور پر اس طبقے کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے۔ ستم یہ ہے کہیہ مفاد پرست طبقہ اپنی طرف اٹھنے والے ہر قدم کا رخ مظلوم طبقے کو آپس میں لڑا کر یک دوسرے کی طرف موڑنے میں کامیاب رہا ہے۔ دین اسلم اپنے ماننے والوں کو علقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلئی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے لیڈر اور عوام صحیح اسلمی روح کے ساتھ ایک امت مسلمہ بننے کی کوشش کرتے اور انہی بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کی کوشش کرتے تو نہ بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی کوئی اور لسانی جھگڑا کھڑا ہوتا۔ ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو خالصتا ً اخلقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق و صداقت کا پرچار کرے۔ دین اسلم کی تمام تعلیمات ہمیں ہر قسم کے امتیاز سے بچ کر خالصتا ً اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہے کہ ہمارے پاس ہدایت کا نور ہوتے ہوئے بھی اہل مغرب ان نسلی ،علقائی ،مذہبی ،اور لسانی تعصبات سے نجات حاصل کرنے میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ وہاں امتیاز کے خلف )(Anti-Discrimination قوانین بنائے جاچکے ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام الناس میں اس کا شعور بھی بیدار کیا جارہا ہے۔ 12
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20 %20Religion.htm
اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے ہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کے خلف دین اسلم کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلمی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے۔
13
http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20& متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے %20Religion.htm
14