ؔ دیواِن غالب )نسخۂ حمیدیہ(
ؔ مرزا اسدال خان غالب تصحیح و اضافۂ حواشی :جویریہ مسعود
حرفِے چند
جویریہ مسعود
ایک سال پہلے کی بات ہے میں نے اردو گوگل سرچ میں “دیواِن غالب “لکھا اور میں اردو ویب ڈاٹ آرگ کے فورم " محفل" پر موجود تھی۔ یہاں سارا دیواِن غالب لکھا ہوا موجود تھا۔ "محفل" میں دیوان غالب کے ساتھ ساتھ اور بہت سی کتابیں بھی آن لئن تھیں۔ نا صرف کتابیں بلکہ اردو کمپیوٹنگ کے حوالے سے بھی بہت کچھ موجود تھا ،اردو فانٹس ،اردو ،پشتو اور عربی صوتی کی بورڈز ،انگریزی اصطلحات کے اردو تراجم۔ میں متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکی۔ یہ کون لوگ ہیں جو اس نفسانفسی کے دور میں )جہاں نیٹ صرف چیٹینگ اور غیر اخلقی سائٹس کی سرفنگ کا ذریعہ بن کے رہ گیا ہے( اردو کی خدمت کر رہے ہیں ۔ اس محفل کو جوائن کیے بغیر چارہ ہی نہیں تھا اور یوں 19اپریل 2006کو اس محفل کی رکن بن گئی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اسی محفل پر ایک دن دیواِن غالب کی پروف ریڈنگ بلکہ تصحیح اور اضافے کا کاِر گراں مجھے کرنا پڑے گا۔ مجھے یہ کام کیسے سونپا گیا اور میں نے اسے کیسے سرانجام دیا؟ اس تفصیل کا نہ موقع ہے اور نہ آپ کے پاس اس تفصیل کے جاننے کا وقت۔ بہر حال دیواِن غالب )جسے ہم نسخۂ اردو ویب کہتے ہیں( اب نہ صرف محفل کے وکا وکی ،اردو ڈیجیٹل لئبریری بلکہ اردو وکیپیڈیا پر بھی موجود ہے۔ محفل پر ہی میری ملقات ایک غیر معمولی شخصیت جناب اعجاز اختر صاحب سے ّ ہوئی۔ کونسا میدان ہے جس کے وہ شہسوار نہیں۔ ارضیات کے ماہر ،بہترین نثار ،مزاح نگار ،شاعر، علِم عروض کے ماہر ،اردو کمپیوٹنگ کے بانیوں میں سے ایک ،فانٹس اور صوتی "کی بورڈز" بنانے کے ماہر ۔ آن لئن کتابوں کے دو دو سائٹس کے روِح رواں ،انٹرنیٹی ادبی میگزین سہ ماہی " سمت" کے مدیر۔ غرض کونسا شعبہ ہے جس کے وہ ماہر نہیں۔ مجھے فخر ہے کہ غالب پر کام کرنے موقع مجھے ان کی زیر سرپرستی مل۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی سرپرستی اور شفقت کے بغیر میں نہ متداول دیوان پر کام کر سکتی تھی اور نہ میں اس قابل ہوتی کہ اس نسخۂ حمیدیہ کو آن لئن ل سکتی۔ ان ہی کے "ہل من مزید" کے نعرے نے مجھے مجبور کیا کہ اس نادر کتاب کو ٹائپ کروا کر اور اس کی تصحیح کرنے کے بعد آئن لئن ل سکوں۔ میں جانتی ہوں کہ عام قاری کو نہ غالب سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ غالب کے مسترد
کردہ دیوان )نسخۂ حمیدیہ( سے اور نہ ہی مجھے یقین ہے کہ کوئی نیٹ پر کتابیں پڑھنے آتا ہے مگر پھر بھی اس دیوان کو آئن لئن لنے پر میں کوئی غلطی نہیں کر رہی۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے وطن سے میلوں دور غالب کو پڑھنے ،سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ہمہ وقت سرگردان ہیں۔ اس کتاب کو ہم نے بعینہ ویسا ٹائپ کیا ہے جس طرح چھپی ہوئی کتاب تھی۔ البتہ میں نے چند الفاظ و تراکیب کو جدید امل سے ہم آہنگ کرنے کی سعی ضرور کی ہے جیسے " ِدلہا" کو "دل ہا" "غلطیہاے" کو "غلطی ہاۓ" " بوے گل" کو "بوۓ گل" کیا ہے تاکہ پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی رہے۔ جہاں ضروری سمجھا ،کچھ نوٹس میں نے بھی دیے ہیں مگر بقوِل غالب: حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا جویریہ مسعود سوات ،پاکستان 14اپریل 07
دیباچہ از پروفیسر حمید احمد خان مرزا غالب کی وفات کے پچاس سال بعد بھوپال کے کتب خانۂ حمیدیہ میں دیواِن غالب کا ُ سب سے پہل نسخہ(1) 1ایک خوش نما مخطوطے کی صورت میں دستیاب ہوا۔ اس دریافت نے اس ُ زمانے کے ادبی حلقوں میں ایک سنسنی سی پیدا کر دی کیونکہ غالب کا پہل دیوان اس بے دریغ قطع و برید کے باعث ،جس کا ذکر حالی ،آزاد اور خود غالب نے کیا ہے ،محض ایک ادبی حکایت بن کر رہ گیا تھا۔ اب جو یہ پورا دیوان غیر مترقبہ طور پر میسر ہوگیا تو اکثر اہِل ذوق نے اس کی طباعت و اشاعت کا خیر مقدم کیا ،اگر چہ بعض لوگوں کو اعتراض ہوا کہ جو اشعار مرزا غالب نے خود رد ُ کردیے تھے ،انہیں اس طرح نشر کر کے گڑے مردے اکھیڑنا کیا ضرور ہے۔ با ایں ہمہ بھوپال کے ڈائرکٹر سر رشتۂ تعلیم ،ضیاء العلوم مفتی محمد انوار الحق ،کے فہِم سلیم نے صحیح فیصلہ کیا اور دیواِن غالب کا یہ نسخہ جو نواب محمد حمیدال خان(2) 2کے اعزاز میں "نسخۂ حمیدیہ" کہلیا، مفتی صاحب کے اہتمام سے مخطوطے کی کتابت کے ٹھیک ایک صدی بعد 1921ع میں شائع ہوگیا۔ قلمی دیوان کی کتابت نومبر 1821ع میں تکمیل کو پہنچی تھی۔ اس دیوان کے آخری صفحے پر دیوان کی آخری رباعی کی بعد سرخ روشنائی میں یہ خوشخط تحریر ملتی ہے: دیوان من تصنیف مرزا صاحب) 3(3وقبلہ المتخلص بہ اسد و غالب سلمہم ربہم -1 1دوراِن تحریر میں اطلع ملی ہے کہ انہیں دنوں ہندوستان میں ایک قدیم تر مخطوطے کا پتا چل ہے۔ اگر یہ اطلع صحیح ہے تو بھی وہ خصوصیت جو گذشتہ نصف صدی میں بھوپال کے قلمی دیوان کو حاصل رہی ،اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ ُ -2 2اس وقت :نواب زادہ محمد حمید ال خان ،چیف سیکرٹری ،ریاست بھوپال۔ 3 3۔ کذا
ٰ علی ید العبد المذنب حافظ معین الدین بتاریخ پنجم شہر صفر المظفر 1237 من الہجرت النوبیہ 4صورِت اتمام یافت ُ دیوان کے آغاز سے پہلے جلد کے اندر حسب دستور جو سادہ اوراق لگائے گئے ہیں ،ان میں سے دو پر مولوی محمد فضل حق کے نام مرزا غالب کے فارسی مکتوب بہ صنعِت تعطیل )مشمولۂ پنج آہنگ( کی بدخط نقل ہے۔ دیوان کے مندرجات کی ترتیب یوں ہے :پہلے 4قصائد ہیں ،پہر 275غزلیات اور ان کے بعد 11رباعیات۔ آخری رباعی ہے" :مشکل ہے زبس کلم میرا اے دل"۔ چونکہ صرف یہی رباعی اور اس کے نیچے حافظ معین الدین کی مندرجۂ بال اختتامی تحریر آخری ً صفحے پر آئی ہے ،اس لیے صفحے کا تقریبا دوتہائی حصہ خالی رہ گیا ہے۔ خالی جگہ میں فوجدار ُ محمد خاں) 5(5کی 1648ھ کی مہرثبت ہے جس سے کم از کم یہ واضح ہوتا ہے کہ فوجدار محمدخاں کے کتب خانے میں یہ دیوان تاریخ کتابت کے گیارہ بارہ برس بعد پہنچا۔ اسی بنا پر مفتی ِ ً انوار الحق کا یہ قیاس محل نظر ہے کہ قلمی دیوان"غالبا رئیس وقت نواب غوث محمد خاں صاحب کے بیٹے میاں فوجدار محمد خاں صاحب کے لیے لکھا گیا تھا"۔) 6 (6یہ امر بھی مشتبہ ،بلکہ ض بعید از قیاس ہے کہ دیوان کے حاشیے کے اضافے اور متن کی اصلحیں 1648ھ کے بعد معر ِ تحریر میں آئیں ،یا دیوان کا یہ نسخہ بھوپال پہنچنے کے بعد مزید اندراجات کے لیے پھر کبھی دہلی بھیجا گیا۔ گماِن غالب ہے کہ قلمی دیوان میں حاشیے کے اضافے اور متن کی ترمیمات 1237ھ اور 1248ھ کے درمیان درج ہوچکی تھیں اور دیوان ان ترمیمات و حواشی کے ساتھ ہی بھوپال پہنچا۔ بھوپال کے نسخے اور دیوان غالب کے اس مخطوطے کو ،جو حافظ محمود خاں شیرانی مرحوم کے مجموعۂ کتب میں شامل ہے) ،7(7اگر مل کر پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھوپال کے قلمی نسخے میں حاشیے کے اضافے غالب کے سفِر کلکتہ پر روانہ ہونے سے پہلے ،یعنی ۱1826ع تک ،تصنیف ہوچکے تھے۔ معنوی طور پر بھی ان میں بہت سے اشعار ایسے ملتے ہیں جو غالب کی پختگئ فکر ً کے کسی دور ) مثل 33-1832ع کے بعد ( سے منسوب نہیں کیے جاسکتے۔ مفتی انوارالحق کا نسخہ شائع ہوا تو یہ حقیقت مخفی نہ رہی کہ مطبوعہ نسخہ قلمی نسخے کی صحیح نقل نہیں ہے۔ اس بارے میں شاید سب سے بڑی قباحت یہ ہوئی کہ مفتی صاحب کے نسخے میں کئ جگہ حاشیے کے اندراجات اور متن کے درمیان ضروری امتیاز قائم نہ رہ سکا۔ چنانچہ صحیح صورت حال کی دریافت کے لیے قلمی نسخے کا معائنہ ضروری ہوگیا۔ اواخِر اگست 1937ع میں حیدرآباد دکن کے ایک سفر سے واپس لہور آتے ہوۓ میں بھوپال گیا اور سرکاری کتب خانے میں بیٹھ کر مطبوعہ نسخے اور قلمی نسخے کے اندراجات کا مقابلہ کرتارہا۔ اس موقع پر مجھے اندازہ ہوا کہ حواشی اور متن کا فرق ملحوظ نہ رہنے سے قطع نظر ،مطبوعہ نسخے میں ایک بڑا فتور یہ پیدا ہوا ہے کہ قلمی نسخے میں غزلیات کی ترتیب مطبوعہ نسخے تک پہنچتے ً پہنچتے کچھ کی کچھ ہوگئ ہے۔ مثل مخطوطے کی پچیسویں غزل)بسکہ جوِش گریہ سے زیر و زبر ویرانہ تھا( مطبوعہ نسخے کے صفحہ 33پر شروع ہوتی ہے اور اس غزل سے اگلی ،یعنی چھبیسویں ،غزل )نہ ہو حسن تماشا دوست رسوا بے وفائ کا( مطبوعہ نسخے کے صفحہ 12پر۔ یہ 4 4۔مطابق یکم نومبر 1821ع. 5 5۔فوجدار محمد خاں ،بھوپال کے نواب غوث محمد خاں کے بیٹے تھے۔ 6 6۔دیکھیے مفتی انوار الحق کے شائع کردہ نسخے کا صفحہ 5۔ 7 7۔اس قلمی دیوان کی تاریخ کتابت معلوم نہیں ہے لیکن بھوپال کے مخطوطے کے حاشیے کے اندراجات اس کے متن میں ملتے ہیں۔ خود اس قلمی دیوان کے حاشیے پر ایسی غزلیں درج ہیں جو غالب نے دہلی سے کلکتے جاتے ہوئیے لکھیں۔ بالفاظ دیگر اس دیوان کے متن کی کتابت غالب کے کلکتے روانہ ہونے سے پہلے مکمل ہو چکی تھی۔
صورت حال دیکھ کر میرے لیے لزم ہوا کہ میں اپنی پوری توجہ دو باتوں پر مرکوز رکھوں :اول یہ کہ قلمی نسخے کے مندرجات کی صحیح ترتیب معین کروں اور دوم یہ کہ حاشیے اور متن کے اندراج ُ کے معاملے میں قلمی اور مطبوعہ نسخوں کے درمیان جہاں جہاں اختلف ہے ،اس کے متعلق مفصل یاد داشتیں لے لوں۔ افسوس ہے کہ وقت کی کوتاہی کے باعث میرے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ مخطوطے کے ہر شعر اور مصرع کو لفظ بلفظ دیکھ لیتا۔ تاہم یہ واقعہ ہے کہ ترتیِب منظومات کی تصحیح اور حواشی کی تشخیص کرتے ہوۓ مطبوعہ نسخے کے کاتب کی لفظی فروگذاشتوں پر جابجا نظر پڑی۔ ان کا ذکر قارئین کو حسِب موقع دیوان کے متعلقہ صفحات پر حاشیے کے اشارات میں ملےگا۔ 1921ع کا نسخۂ حمیدیہ بھوپال کے قلمی دیوان کی پہلی مطبوعہ نقل ہے۔ افسوس ہے کہ قلمی دیوان سے انحراف کی جتنی مختلف قسمیں تصور میں آسکتی ہیں وہ مفتی صاحب کے مطبوعہ نسخے میں موجود ہیں ،بجز اس ایک صورت کے کہ قلمی دیوان کاشاید کوئی شعر ش نظر نہ ہوتے ہوۓ مفتی صاحب مطبوعہ نسخے سے حذف نہیں ہوا۔ تاہم قلمی دیوان کے پی ِ کے مطبوعہ نسخے پر تکیہ ناگزیر ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے نسخے کی تیاری میں مفتی انوارالحق کے مطبوعہ نسخے کے متن کو بنیادی متن قرار دیا ہے لیکن قلمی نسخے سے لی ہوئی یاد داشتوں کی روشنی میں یا کسی دوسری قابل اعتماد شہادت کے سہارے مطبوعہ نسخے سے جابجا انحراف کیا ہے۔ اس قسم کے انحراف کے حوالے قارئین کو آیندہ صفحات میں بکثرت ملیں گے۔ ان حوالوں کی موجودگی سے در گزر کیجیے تو اس زیر نظر نسخے کا متن بھوپال کے مخطوطے کی ہو بہو نقل قرار دیا جاسکتا ہے۔ مفتی صاحب کے مطبوعہ نسخے میں نہ صرف بعد کی سب اصلحیں بلکہ وہ پوری کی پوری غزلیں بھی شامل ہیں جن کا بھوپال کے مخطوطے میں سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ اس طرح گو قارئین کو متدوال دیوان کا الگ نسخہ مقابلے کے لیے پاس رکھنے کی ضرورت نہ رہی لیکن ابتدائی اور آخری دور کے کلم کے ساتھ ساتھ چھپنے کی وجہ سے بھوپال کے مخطوطے کے علیحدہ وجود کا تصور وضاحت سے قائم نہ رہ سکا۔ میں نے آئندہ اوراق میں بھوپال کے مخطوطے کی نقل پیش کرنے پر اکتفا کیا ہے اور متداول دیوان سے اس ابتدائی متن کا مقابلہ خود قارئین کی بینش و دانش پر چھوڑا ہے۔ اس نسخے کی تیاری کے کام میں مجھے اپنی 1938ع کی یاد داشتوں کے ناکافی ہونے کا بار بار احساس ہوا۔ بعض موقعوں پر مجھے مولنا امتیاز علی عرشی کے مرتبہ دیوان )علی گڑھ، 1958ع( اور پروفیسر محمود شیرانی کے دریافت کردہ قلمی دیوان سے گراں قدر مدد ملی ،جس کا میں بصد شکریہ اعتراف کرتا ہوں۔ قارئین کو آئندہ صفحات میں"نسخۂ عرشی" اور "نسخۂ شیرانی" کے جو حوالے ملیں گے ،ان سے علی الترتیب یہی مطبوعہ اور قلمی دیوان مراد ہیں۔ ُ آج سے تیس برس قبل جب میں غالب کے پہلے اردو دیوان کو ایک نظر دیکھنے کے لیے بھوپال پہنچا تو یہ بات میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہ گزری تھی کہ اس مخطوطے کی صحیح نقل مرتب کرنے کی ذمہ داری کبھی مجھ پر آ پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ 1938ع میں قلمی دیوان کے معائنے کے بعد جو یاداشتیں میں نے قلم بند کیں ،ان کی اصل حیثیت ذاتی حوالے کے اشارات سے ُ زیادہ نہ تھی۔ ان اشارات کا مصرف اس وقت میرے نزدیک محض یہ تھا کہ میں اپنی اطلع کے لیے کبھی کبھی حسِب ضرورت انہیں دیکھ سکتا تھا۔ سالہا سال میں اسی خیال میں رہا مگر کچھ عرصہ ہوا ہندوستان کے بعض غالب شناس احباب نے مجھے لکھاکہ بھوپال کا مخطوطہ کتب خالۂ حمیدید سے غائب ہوگیا ہے۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ جن یادداشتوں کو میں نے ذاتی ذخیرۂ معلومات کی حیثیت دے رکھی تھی ،وہ دوسروں کے لیے بھی موجِب دل چسپی ہوں گی ،کم از کم ُ اس وقت تک کہ بھوپال کا گم شدہ مخطوطہ دوبارہ ہاتھ نہ آجاۓ۔ یہ نسخہ جو اب شائع ہو رہا ہے۔ اس لحاظ سے بھوپال کے مخطوطے کی صحیح نقل ہے کہ اس کے متن میں صرف وہی مضمون
آیا ہے جو حافظ معین الدین کے لکھے ہوۓ دیوان کے متن میں ملتا ہے اور قلمی دیوان کے حاشیے کے اندارجات یہاں بھی حواشی کی صورت میں دیے گئے ہیں۔ قصائد ،غزلیات اور رباعیات کی ترتیب اور پھر ہر رباعی ،غزل اور قصیدے میں اشعار کی ترتیب بعینہ بھوپال کے قلمی نسخے کے اندراجات کے مطابق ہے۔ ۔ امل میں البتہ قلمی نسخے کے بجاۓ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے کا تتبع کیا گیا ہے۔ قلمی نسخے کے کاتب یا کاتبوں کے ڈیڑھ سو برس پرانے امل کا بجنسہ اختیار کرنا مجھے مناسب معلوم نہیں ہوا ،اگر چہ کہیں کہیں میں نے حسب ضرورت ان کاتبوں کی خصوصیاِت تحریر کا ذکر کیا ہے۔ مفتی صاحب کے مطبوعہ نسخے میں بڑی حدتک جدید اصوِل کتابت ملحوظ رکھے گئے ہیں اور جا بجا اضافت کا استعمال ہوا ہے جو بجاۓ خود قلمی نسخے کے امل سے انحراف ہے۔ مگر بحالِت موجودہ انحراف کی یہ صورت قبول کیے بغیر چارہ نہ تھا۔ تجدیِد امل سے قطع نظر ،میں نے لفظی اختلف کے معاملے میں ہر موقع پر قلمی نسخے کے اندراج ً کا لحاظ کیا ہے۔ مثل متداول دیوان کی مشہور غزل" :آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک" کے اکثر اشعار قلمی دیوان کے متن میں موجود ہیں ،مگر قلمی دیوان میں اس غزل کی ردیف "ہوتے تک"ہے۔ میں نے مطبوعہ نسخے سے اختلف کر کے یہی آخرالذکر صورت اختیار کی ہے ،کیونکہ گو اکثر قارئیِن غالب کے لیے اب "ہونےتک" کے بجاۓ "ہوتے تک" کہنا ناگواِر خاطر ہے لیکن بآثارظاہر اس ردیف کی اصلی صورِت وہی تھی جو بھوپال کے قلمی دیوان میں ملتی ہے۔ بھوپال کے مخطوطے کے مطالعے سے قاری کے ذہن میں متعدد سوالت پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ً سلسلۂ سوالت قدرۃ مخطوطے کی اس مطبوعہ نقل میں بھی منتقل ہوگیا ہے۔ ان سوالت میں ُ ً سے بعض کی نوعیت محض ادبی ہے اور بعض کی خالصۃ تحقیقی۔ ادبی نوعیت کے سوالت ان ً مغلق فارسی ترکیبوں )مثل "ہوس گستاخئ آئینہ" یا "وادئ جوہر غبار"( کے متعلق پیدا ہوتے ہیں جن کی ابتدائی کلم میں بتدریج غالب کے نۓ انداِز بیان کو ملنے لگتی ہے۔ ان ادبی سوالت سے قطع نظر ،کچھ اور سوالت ذہن میں آتے ہیں جن کے جواب مل جاۓ تو ممکن ہے کچھ نئے نتائج ً مستنبط ہوں۔ مثل دیوان کے متن میں کتنی غزلیں "اسد" تخلص کی ہیں اور کتنی "غالب" تخلص کی)8(8؟ حاشیے کے اندراجات میں غالب یا اسد تخلص کتنی بار استعمال ہوا ہے؟ اس قسم کے سوالت کا جواب قلمی نسخے ہی میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ مگر بعض اور مسائل ہیں جن کی تفتیش کے لیے یاراِن نکتہ داں کو صلئے عام دیے بغیر چارہ نظر نہیں آتا۔ "عبدالعلی"" ،عبدالصمد مظہر" اور "آغا علی" ،جنہوں نے گاہ بگاہ دیوان کے کسی شعر پر صاد کیا ہے ،کون حضرات ہیں؟ اور پھر حافظ معین الدین ،جنہوں نے پورا دیوان خوش خط لکھا ،کون تھے؟ ان لوگوں سے غالب کو دوِر شباب میں کیا اور کسی قسم کا تعلق رہا؟ غالب نے بعض مقطعوں میں اپنے آپ کو دہلی کا باشندہ ظاہر کیا ہے ،لیکن کسی جگہ دہلی میں اپنے قیام کو عارضی اور مسافرانہ بھی قرار دیا ہے۔ سوال یہ ُ ہے کہ نسخۂ حمیدیہ کی کون سی غزلیں قیاِم آگرہ کے دوران میں لکھی گئیں اور کون سی اس زمانے میں جب مرزا غالب بالخر آگرہ چھوڑ کر مستقل طور پر دہلی چلے آۓ؟ اس قسم کے کئ پیچیدہ مسائل ابھی تک حل طلب ہیں اور عجب نہیں کہ ہمیشہ حل طلب رہیں۔ میری راۓ میں یہ دیباچہ ،جس کا مقصد بھوپال کے قلمی نسخے کا تعارف ہے ،ان دقیق مسائل اور تفصیل طلب مباحث کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ گتھیاں سلجھانے کے لیے تنقید و تحقیق کے علیحدہ باب کھولنے کی ضرورت ہے۔ دیوان کے مطبوعہ اوراق سامنے آۓ تو اندازہ ہوا کہ صحِت طباعت کے لیے پوری کوشش کے باوجود متن میں ،اور خود اپنے لکھے ہوۓ حواشی میں ،جابجا غلطیاں رہ گئ ہیں۔ ایک "صحت 8 8۔ میرے شمار کے مطابق 235غزلوں میں تخلص "اسد" آیا ہے اور 38میں "غالب"۔ ایک غزل )غزل (157میں بجاۓ تخلص کے پورا نام "اسدال خاں" آیا ہے اور ایک غزل )غزل (224تخلص کے بغیر ہے۔
نامۂ اغلط" دیوان کے آخر میں دیا جارہا ہے9۔ قارئین سے درخواست ہے کہ صحت نامہ سامنے رکھ کر غلطیوں کی تصحیح فرمالیں۔ اس نسخے کی ترتیب و اہتمام میں عزیزم گوہر نوشاہی جس طرح میرا ہاتھ بٹاتے رہے اس سے کام کی ہر منزل میرے لیے آسان اور خوش گوار بن گئ۔ نسخۂ شیرانی اور نسخۂ عرشی میں سے اکثر حوالے میرے لیے گوہر نوشاہی صاحب نے تلش کیے اور شروع سے آخر تک سب پروف بڑی احتیاط سے دیکھے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مشکل اشعار کے معنی سمجھنے کی پرلطف کوشش میں وہ برابر میرے ساتھ شریک رہے۔ محِب مکرم سید امتیاز علی تاج کا شکریہ بھی واجب ہے جن کی تحریک اور ترغیب واصرار کے بغیر یہ کام تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ )فروری ۱۹۶۹ع( )حمید احمد خان( مزید: اوپر میں نے کتاب کے غلط نامے کا ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں میری ایک خطا ایسی ہے جسے منجملۂ اغلِط فواحش قرار دیے بغیر چارہ نہیں۔ بھوپال کے قلمی نسخے میں بعض غزلیں ایسی ہیں جو متن میں شامل ہونے کے باوجود کسی مغالطے کے باعث حاشیے پر بھی نقل کی گئ ہیں۔ ً مثل یہ غزل" :نہ بھول اضطراب دم شماری انتطار اپنا" متن میں یہ چونتیسویں غزل ہے۔ اسے غزل ) 33کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا( اور غزل ) 35زبس خوں گشتۂ رشک وفا تھا وہم بسمل کا( کے درمیان آنا چاہیے تھا مگر اس غزل کے ساتوں شعر اس سے پہلے غزل ) 20نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا( کے حاشیے میں بھی درج ملتے ہیں۔ میں نے اس صورِت حال سے دھوکہ کھا کر اس غزل کو )کسی عالم سرگشتگی میں( متن سے حذف کردیا۔ اب دیوان کے طبع ہو جانے کے بعد اس پر پھر نظر ڈالی تو یہ غلطی علم میں آئی۔ حضرات قارئین میری اس لغزش سے درگزر فرما کر صفحہ 47کے حاشیے کے ساتوں اشعار صفحہ 59پر متن میں بھی درج فرمالیں۔ ان سب کوششوں کے باوجود )داِم ہر موج میں ہے حلقۂ صد کاِم نہنگ( دیوان کی عبارت غلطیوں سے پاک نہیں ہوسکی۔ حقیقِت حال یہ ہے کہ قلمی دیوان کے متن میں حافظ معین ً الدین نے جو اغلط کتابت ابتداء داخل کیں اور دیوان کے حواشی پر موٹے قلم والے بد خط کاتب ُ ً )غالبا عبدالصمد مظہر( نے اپنی بے بضاعتی اور بے احتیاطی کے باعث جو گل کھلۓ ،ان سب پر مفتی انوار الحق کے نسخے کے کاتب نے دہ چند اضافے کیے۔ باایں ہمہ ،میں نے بدرجۂ مجبوری اس اصول کی پابندی کی ہے کہ جب تک بھوپال کا مخطوطہ دوبارہ دستیاب نہ ہو ،مفتی انوارالحق ّ کے شائع کردہ نسخے کی عبارت سے بلوجِہ موجہ انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ ح۔ ا۔ خ
)۔ اس نسخے میں ان اغلط کی تصحیح متن ہی میں کی ہے ) جویریہ مسعود 9
9
بسم ال الرحمن الرحیم
قصائد 1 بہِر ترویح) 10(10جناِب والئِی یوم الحساب ِ ضامِن تعمیِر قصرستاِن دل ہاۓ خراب جرم بخشاۓ کہ گر جوشد بہاِر رحمتش برفناۓ خویش لرزد چوں دِل مجرم عذاب رافتش اعداۓ او را در شماِر ساِل عمر نعِل واژوں بندد از ناخن بر انگشِت حساب نوح عمرے ماند طوفانی بہ بحِر وحدتش تا سر و زانو بہ موجے باخت ماننِد حباب نغمہ چوں خوں در رِگ ابریشِم ساز افسرد ہیبِت نہیش اگر جوشد بوضع احتساب ِ بارگاہش را ز خورشید است خشِت آستاں شمع بزمش را ست گلگیر از دو لخِت ماہتاب ِ ہم چمن زاِر ازل را قدرتش رنگ آفریں ہم گلستاِن ابد را خوۓ جاں بخشش سحاب بہِر ترویح جناِب اقدسے کز حکِم او ِ صیقِل آئینہ بر نوِر نظر ریزد حجاب آستائش بر نشان گاِہ جللے کز ادب حلقۂ بیروِن در گردیدہ چشِم آفتاب ّ در پناِہ عفتش حوراِن جنت را ہنوز پنبہ روزن بود چشِم سفیِد ماہتاب سایہ اش جز درحریِم قدس نتواں یافتن گ امکاں عصمتش دارد نقاب کز شکسِت رن ِ بہِر ترویح خداۓ از دو عالم رستگاں ِ عابِد ال و معبوِد خلئق بو تراب مہرباں پیرے کہ بہِر دیدِن ماِہ صیام درکِف مستاِن او تیغے ست از موِج شراب بادۂ خم خانۂ او پرتِو نوِر جمال پنبۂ میناۓ او چشِم سفیِد ماہتاب شہسواِر قدرتے کز فرِط تعظیم و جلل 10 10۔ مفتی انوار الحق کے شائع کردہ نسخے میں "بہِر ترویح" سہِو کتابت سے "بہِر ترویج" ہو گیا ہے ،چنانچہ یہاں )اور بعد کے اشعار میں بھی جا بجا( اس غلطی کی تصحیح کر دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس قصیدے کے اکثر اشعار کلیاِت فارسی ،مطبوعہ نول کشور ،کے قطعہ نمبر 20میں ملتے ہیں۔
سرمہ در چشِم رکابش می کشد گرِد کتاب ذوالفقارش شاہدے کاندر تماشا گاِہ قتل میکشد در شوِق او از موج الف بر سینہ آب در خیاِل صدمۂ جاں دادگاِن ضربتش ٰ می جہد از دیدۂ عیسی چراِغ آفتاب ُ دلدِل برق آفرینش را رمے کاندر خیال می جہد ہمچوں نگاہ از حلقۂ چشِم رکاب بسکہ شد ویراِن شوخی خانۂ نظارہ اش ک پیِر فلک گردیدہ ماہ و آفتاب عین ِ َ بہِر ترویح حسن ،فرماں دِہ اقلیِم دیں ِ خسرِو عرش آستاں ،شاہنشِہ قدرت مآب ناظِم حسن آفرینی ،کز براۓخدمتش از شفق بندد حنا برشام دسِت آفتاب جلوہ ریز آید اگر لطفش بہ ہنگاِم غضب دوِد آتش می شود باراِن رحمت را سحاب بشکند شاِن تغافل گر بہ دلدارئئِی ناز لذِت قنِد محبت جوشد از زہِر عتاب توسِن قدرش کہ عرش و خلد جولن گاِہ اوست از خِم زانوۓ جبریِل امیں دارد رکاب ُ َ ؓ بہِر ترویح شفیع عاصیاں ،یعنی حسین ِ ِ ک عزاداریش آب اش از راست جنت آنکہ ِ بادشاِہ صابرے ،دریا دلے ،تشنہ لبے کز غمش از لعل خون بار است چشِم آفتاب شاِہ غیرت آفرینے ،کز پۓ تعلیِم صبر ش قدم زد بر لِب موِج سراب بخیۂ نق ِ عاشِق ال و معشوِق وفاداِر رسول ؓ َ قبلۂ عشق وپناِہ حسن و جاِن بوتراب درگہش را مخمِل خواِب زلیخا فرِش راہ خیمہ گاہش رانگاِہ ماِہ کنعانی طناب بہِر ترویح امام ابِن امام ابِن امام ِ آدِم آِل عبا ،شاہنشِہ عالی جناب استانش عالی و منزل گِہ قدرش رفیع بارگاہش عرش سامان و جنابش مستطاب للہ راہم رنگئئِی چشِم بخوں آلودہ اش میزند بر فرق از از داِغ غلمی انتخاب ؓ ؓ بہِر ترویح محمد باقِر حیدر نژاد ِ کز خیاِل آستاں بوسیش می رقصد ثواب ؓ بہِر ترویح محمد جعفر صدق آفرین ِ ّ عالِم علِم نبیﷺ و واقِف سِر کتاب
ؓ بہِر ترویح شِہ کاظم کہ در ہر عالم ست ِ چوں قضا حکمش روان وچوں قدر رایش صواب ؒ بہِر ترویح رضا شاِہ خراساں ،کز کرم ِ بہِر تعمیِر جہاں ،از کہکشاں دارد طناب ؒ بہِر ترویح تقی کاندر تماشا گاِہ اوست ِ طاِق ایواں آسماں ،آئینۂ او آفتاب ؒ بہِر ترویح نقی کز بہر تقریِب نیاز ِ تحفہ آورد است نر گسداں بہ بزمش ماہتاب ؓ بہِر ترویح حسن پشت و پناِہ خافقین شاِہ کیواں بارگاہ و خسرِو جنت جناب ؓ بعد ازیں ،بہِر ظہوِر مہدئِی صاحب زماں ظلمت آباِد شِب کفر و حسد را آفتاب ش دوزخ ببالید بہشت ابِر ّلطفش ز آت ِ حبذا معماِر خلقے کز پۓ تعمیِر دیں در کف از سر رشتۂ شرِع نبی دارد طناب ّ َ میکند از ہم جدا صراِف حکِم قدرتش در سیاست گاِہ نصفت مس ز سیِم ماہتاب بعد ازیں بہِر شہیدانے کہ خوش جاں دادہ اند در شہادت گاہ ،شاِہ کربل را در رکاب ؓ َ ّ سئِیما از بہِر ترویح علم داِر حسین ِ ّ پیشواۓ لشکِر شبیر ابِن بو تراب ؓ س عالی رتبہ کز چوگاِن او حضرِت عبا ِ می رود ماننِد گوۓ بے سر وپا آفتاب بعد ازیں تاثیِر دلجوئی دعاۓ زمرہ ایست کز قلق دارند در دل آتش و درچشم آب بادشاہاں ،مومناں ،جنت نصیباں ،عاشقاں بے دلں ،یعنی عزاداراِن آِل بوتراب راقِم بے چارہ پژمردہ دل یعنی اسد کز فسردن ہاۓ دل گردیدہ پابنِد جلب بر زباں مہِر خموشی و بہ دل جوِش جنوں درہوس آباِد نادانی اسیِر پیچ و تاب نقِد آگاہی بہ وہِم فرصتے در یاختہ دسِت خالی برسر و دل پایماِل اضطراب غافل از رفتاِر عمر و فارغ از تکمیِل عشق کردہ آغوِش وداِع دل نشیمن گاِہ خواب بسکہ در صحراۓ وحشت عقل و دیں درباختہ لذِت قنِد محبت جوید از زہِر عتاب خود تو میدانی کہ گم گردیدہ دشِت امید تشنہ تر میگردد از بے آبئئِی موِج سراب
دل ز کار آفتاد وپا و امند و دست ازہم شکست قطع منزل کے تواں کردن بہ ایں حاِل خراب ِ مدعا را بر زباں آوردن از بیگانگی است جز نگاہت شاہِد ما را کفن بادا نقاب ذوِق مطلب از تو و من از تو و مطلب ز تو خود تومی بخشی و می فہی زباِن اضطراب شعلۂ شوِق ہوس دارم ز سوداۓ جنوں ش افسردہ را بخشد بہاِر التہاب کات ِ دین و دنیا را بل گرداِن نازت کردہ ام جلوۂ رنگیں تر از صد گلشِن خلد انتخاب ؐ حرمِت جاِن محمد یک نظر کن سوۓ من ٰؓ ؓ ؓ ؓ یاعلی یا مرتضی یا بوالحسن یا بوتراب
قصیدۂ حیدری تمہیِد بہار مغفرت ّ ض چمن سے بے کار فی نہیں ہ ساِز یک ذر ِ سایۂ للۂ بے داغ ،سویداۓ بہار ض سبزہ مستئئِی باِد صبا سے ہے بعر ِ ُ ریزۂ شیشۂ مے جوہِر تیغ کہسار ِ سنگ یہ کارگِہ ربِط نزاکت ہے کہ ہے خندۂ بے خودئئِی کبک بہ دنداِن شرار سبز جوں جاِم زمرد ،نہ ہو گر داِغ پلنگ نشہ نشو و نماکو سمجھ افسوِن بہار کشتۂ افعئئِی زلِف سیِہ شیریں کو گ زمرد کامزار بے ستوں سبزے سے ہے سن ِ حسرِت جلوۂ ساقی ہے کہ ہر پارۂ ابر ُ سینہ بیتابی سے ملتا ہے بہ تیغ کہسار دشمِن حسرِت عاشق ہے رِگ ابِر سیاہ جس نے برباد کیا ریشۂ چندیں شِب تار مستئئِی ابر سے گلچیِن طرب ہے حسرت کہ اس آغوش میں ممکن ہے دو عالم کا فشار کوہ و صحرا ہمہ معمورئِی شوِق بلبل راِہ خوابیدہ ہوئی خندۂ گل سے بیدار چشم بر چشم چنے ہے بہ تماشا مجنوں ہر دو سو خانۂ زنجیِر نگہ کا بازار خانۂ تنگ ہجوِم دو جہاں کیفیت جاِم جمشید ہے یاں قالِب خشِت دیوار ض ہوا صورت مژگاِن یتیم سونپے ہے فی ِ سرنوشِت دو جہاں ابر بہ یک سطِر غبار کِف ہر خاِک چمن آئنہ قمری صیقل داِم ہر کاغِذ آتش زدہ طاؤس شکار سنبل و دام کمیں خانۂ خواِب صیاد نرگس و جام سیہ مستئِی چشِم بیدار طرہ ہا بسکہ گرفتاِر صبا ہیں ،شانہ زانوۓ آئنہ پر مارے ہے دسِت بے کار بسکہ یکرنگ ہیں دل ،کرتی ہے ایجاد نسیم للے کے داغ سے جوں نقطہ و خط سنبِل زار ض ہواۓ چمِن نشو و نما اے ُخوشا فی ِ بادہ پر زور و نفس مست و مسیحا بیمار ّ جوہِر ناخِن بریدہ بہ انداِز ہلل ریشۂ عجز کو کرتا ہے نمو سے سرشار
ہمِت نشو ونما میں یہ بلندی ہے کہ سرو پِر قمری سے کرے صیقِل تیغ کہسار ِ گ ظہور ہر کِف خاک جگر تشنۂ صد رن ِ غنچے کے میکدے میں مسِت تامل ہے بہار کس قدر عرض کروں ساغِر شبنم یا رب موجۂ سبزۂ نوخیز ہے لبریِز خمار غنچۂ للہ سیہ مسِت جوانی ہے ہنوز شبنِم صبح ہوئی رعشۂ اعضاۓ بہار بے دماغئِی تپش) 11 (11سے ہوئی عریاں آخر شاِخ گلبن پہ صبا چھوڑ کے پیراہِن خار ساِز عریانئِی کیفیِت دل ہے لیکن یہ مئے تند نہیں موِج خراِم اظہار موِج مے پر ہے براِت نگرانی امید گلشن و میکدہ سیلبئِی یک موِج خیال نشہ و جلوۂ گل برسِر ہم فتنہ عیار میکدے میں ہو اگر آرزوۓ گل چینی بھول جا یک قدِح بادہ بطاِق گلزار موِج گل ڈھونڈ بہ طوفاں کدۂ غنچۂ باغ گم کرے گوشۂ میخانہ میں گر تو دستار پشِت لب تہمِت خط کھینچے ہے بے جا معنی سبز ہے موِج تبسم بہ ہواۓ گفتار کھینچے گر مانئِی اندیشہ چمن کی تصویر سبز مثِل خِط نوخیز ہو خِط پرکار جاۓ حیرت ہے کہ گلبازئی اندیشۂ شوق اس زمیں میں نہ کرے سبز قلم کا ) 12(12رفتار
مطلع ثانی ِ لعل سے کی ہے بہ مدِح چمن آراۓ بہار ُ طوطئِی سبزۂ کہسار نے پیدا منقار کسوِت تاک میں ہے نشۂ ایجاِد ازل ض دو عالم بہ کِف آبلہ دار سبحۂ عر ِ بہ نظر گاِہ گلستاِن خیاِل ساقی بے خودی داِم رِگ گل سے ہے پیمانہ شکار بہ ہواۓ چمِن جلوہ ہے طاؤس پرست ّ باندھے ہے پیِر فلک موِج شفق سے زنار 11 11۔ بدل کر"جوِش بیداِد تپش" کیا گیا۔ ملحظہ ہو مفتی انوار الحق کا نوٹ ان کے نسخے کے صفحہ 225پر۔ 12 12۔ مولنا عرشی نے اسے سہو۔ کاتب قرار دے کر اپنے نسخے میں "کی" شائع کیا ہے۔
یک چمن جلوۂ یوسف ہے بہ چشِم یعقوب للہ ہا داغ برافگندہ وگل ہا بے خار بیضۂ قمری کے آئینے میں پنہاں صیقل س خیاِل قِد یار سرِو بیدل سے عیاں عک ِ س موِج گل و سرشارئِی انداِز حباب عک ِ نگہ آئینۂ کیفیِت دل سے ہے دوچار کس قدر ساِز دو عالم کو ملی جرأِت ناز کہ ہوا ساغِر بے حوصلۂ دل سرشار ورنہ وہ ناز ہے جس گلشِن بیداد سے تھا طور مشعل بہ کف از جلوۂ تنزیہِہ بہار ُ سایۂ تیغ کو دیکھ اس کے بذوِق یک زخم سینۂ سنگ پہ کھینچے ہے الف باِل شرار بت کدہ بہِر پرستش گرئِی قبلۂ ناز ُ باندھے زناِر رِگ میاِن کہسار سبحہ گرداں ہے آسی کے کِف امید کا ابر بیم سے جس کے صبا توڑے ہے صد جا زنار رنگریِز گل و جاِم دو جہاں ناز و نیاز اولیں دوِر امامت طرب ایجاِد بہار جوِش طوفاِن کرم ساقئِی کوثر ساغر ّ ن۔ہ فلک آئنہ ایجاِد کِف گوہر بار پہنے ہے پیرہِن کاغِذ ابری نیساں ُ یہ تنک مایہ ہے فریادئِی جوِش ایثار وہ شہنشاہ کہ جس کے پۓ تعمیِر سرا چشِم جبریل ہوئی قالِب خشِت دیوار فلک العرش ہجوِم خِم دوِش مزدور ض ازل ساِز طناِب معمار رشتۂ فی ِ ُ سبزۂ ن۔ہ چمن ویک خِط پشِت لِب بام رفعِت ہمِت صد عارف ویک اوِج حصار واں کی خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پِر کاہ وہ رہے ِمروحۂ باِل پری سے بیزار پر یہ دولت تھی نصیِب نگِہ معنئِی ناز کہ ہوا صورِت آئینہ میں جوہر بیدار ذرہ آس گرد کا خورشید کو آئینۂ ناز ُ گرد اس دشت کی امید کو احراِم بہار ُ خاِک صحراۓ نجف جوہِر سیِر عرفا ش قدم آئینۂ بخِت بیدار چشِم نق ِ اے خوشا مکتِب شوق و بلدستاِن مراد سبِق نازکی ہے عجز کو صد جا تکرار ش قدم نسخہ آِب حیواں مشقئِی نق ِ
جادۂ دشِت نجف عمِر خضر کا طومار جلوہ تمثال ہے ہر ذرۂ نیرنگ سولد بزِم آئینۂ تصویر نما مشِت غبار دو جہاں طالِب دیدار تھا یا رب کہ ہنوز ک ذرہ سے ہے گرم نگہ کا بازار چشم ِ گ رواں ہے نفس مایہ شوِق دو جہاں ری ِ پاۓ رفتار کم و حسرِت جولں بسیار آفرینش کوہے واں سے طلِب مستئِی ناز ض خمیازۂ ایجاد ہے ہر موِج غبار عر ِ دشِت الفت چمن و آبلہ مہماں پرور دِل جبریل کِف پا پہ ملے ہے رخسار یاں تک انصاف نوازی کہ اگر ریزۂ سنگ بے خبر دے بہ کِف پاۓ مسافر آزار ش باِل شرر سے صحرا یک ُ بیاباں تپ ِ مغِز کہسار میں کرتا ہے فرو نشتِر خار فرش ِاس دشِت تمنا میں نہ ہوتا گر عدل گرمئِی شعلۂ رفتار سے جلتے خس و خار ُ ابِر نیساں سے ملے موِج گہر کا تاواں خلوِت آبلہ میں گم کرے گر تو رفتار یک جہاں بسمِل انداِز پر افشانی ہے ُ دام سے اس کے فضا کو ہے رہائی دشوار ُ موِج طوفاِن غضب چشمۂ ن۔ہ چرِخ حباب ذوالفقاِر شِہ مرداں خِط قدرت آثار موِج ابروۓ قضا جس کے تصور سے دونیم بیم سے جس کے دِل شحنۂ تقدیر فگار ُ ک قضا کل ہے کی ق بر اس شعلہ تحریر سے ِ ش سطِر زنہار باِل جبریل سے مسطر ک ِ موِج طوفاں ہو اگر خوِن دو عالِم ہستی ہے حنا کو سِر ناخن سے گزرنا دشوار ُ دشِت تسخیر ہو گر گرِد خراِم دلدل ش ہر ذرہ ہے تیغ کہسار لعل در آت ِ ِ باِل رعنائئِی دم موجۂ گل بنِد قبا گردِش کاسۂ سم چشِم پری آئنہ دار گرِد راہ اس کی بھریں شیشۂ ساعت میں اگر س لیل و نہار ہر نفس راہ میں ٹوٹے نف ِ نرم رفتار ہو جس کوہ پہ وہ برق گداز ش باِل شرار گ حنا ہے تپ رفتِن رن ِ ِ ُ ہے سراسر روئِی عالِم ایجاد اسے َ جیِب خلوت کدۂ غنچہ میں جولِن بہار
ش قدم میں مانی جس کے حیرت کدۂ نق ِ خوِن صد برق سے باندھے بکِف دست نگار ذوِق تسلیِم تمنا سے بہ گلزاِر حضور ض تسخیِر تماشا سے بہ داِم اظہار عر ِ مطلع تازہ ہوا موجۂ کیفیِت دل ِ جاِم سرشاِر مے و غنچۂ لبریِز بہار
مطلع ثالث فی المدح الحاضر ِ فیض سے تیرے ہے اے شمع شبستاِن بہار ِ ُ دِل پروانہ چراغاں پِر بلبل گلزار شکِل طاؤس کرے آئنہ خانہ پرواز جلوے میں تیرے ہے تسخیِر ہوائے دیدار گرِد جولں سے ہے تیری بگریباِن خرام جلوۂ طور نمک سودۂ زخِم تکرار جس چمن میں ہو ترا جلوۂ محروم نواز پِر طاؤس کرے گرم نگہ کا بازار جس ادب گاہ میں تو آئنۂ شوخی ہو جلوہ ہے ساقئِی مخمورئِی تاِب دیوار تو وہ ساقی ہے کہ ہر موِج محیِط تنزیہہ کھینچے خمیازہ میں تیرے لِب ساغر کا خمار گرد باد آئنہ فتراِک دماِغ دلہا تیرا صحرائے طلب محفِل پیمانہ شکار ذوِق بیتابئِی دیدار سے تیرے ہے ہنوز جوِش جوہر سے دِل آئنہ گلدستۂ خار تیری اولد کے غم میں ہے بروئے گردوں ک اختر میں مِہ نو مژۂ گوہر بار سل ِ ؐ مدح میں تیری نہاں زمزمۂ نعت نبی جام سے تیرے عیاں بادۂ جوِش اسرار ُ ش قدم مہِر نماز ہم عبادت کو ترا نق ِ ہم ریاضت کو ترے حوصلے سے استظہار تیرا پیمانۂ مے نسخۂ ادواِر ظہور ش قدم آئینۂ شاِن اظہار تیرا نق ِ آیِت رحمِت حق بسملۂ مصحِف ناز س اسرار مسطِر موجۂ دیباچۂ در ِ قبلۂ نوِر نظر ،کعبۂ ایجاِد مسیح ض بیمار مژۂ دیدۂ نخچیر سے نب ِ تہمِت بے خودئِی کفر نہ کھینچے یارب کمئِی ربِط نیاز و حِظ ناِز بسیار گ تمنا ہوں ،ولے ناز پروردۂ صد رن ِ
پرورش پائی ہے جوں غنچہ بہ خوِن اظہار تنگئِی حوصلہ گرداِب دو عالم آداب دیِد یک غنچہ سے ہوں بسمِل نقصاِن بہار ک نظارہ تھی یک برِق تجلی کہ ہنوز رش ِ ض تکرار تشنۂ خوِن دو عالم ہوں بہ عر ِ وحشِت فرصِت یک جیِب کشش نے کھویا گ حنا ہاتھ سے داماِن بہار صورِت رن ِ شعلہ آغاز ولے حیرِت داِغ انجام موِج مے لیک زسر تا قدم آغوِش خمار ش داِم وفا ہے اسیِر ستِم کشمک ِ دِل وارستۂ ہفتاد و دو ملت بیزار ش درد مژۂ خواب سے کرتا ہوں بہ آسائ ِ بخیۂ زخِم دِل چاک بہ یک دستہ شرار محرِم درِد گرفتارئِی مستی معلوم ہوں نفس سے صفِت نغمہ بہ بنِد رِگ تار تھا سِر سلسلہ جنبانئِی صد عمِر ابد ساز ہا مفت بریشم کدۂ نالۂ زار لیکن اس رشتۂ تحریر میں سرتا سِر فکر ؓ ہوں بقدِر عدِد حرِف علی سجہ شمار جوہِر دسِت دعا آئنہ ،یعنی تاثیر یک طرف نازِش مژگاں بہ دگر سو غِم خار مردمک سے ہو عزاخانۂ یک شِر نگاہ خاِک درکی تری جو چشم نہ ہو آئنہ دار دشمِن آل نبی کو بہ طرب خانۂ دہر ض خمیازۂ سیلب ہو ،طاِق دیوار عر ِ دوست اس سلسلۂ ناز کے جوں سنبل و گل ابِر میخانہ کریں ساغِر خورشید شکار لنگِر عیش پہ سر شاِر تماشاۓ دوام کہ ہے خوِن خزاں سے بہ حنا پاۓ بہار زلِف معشوق کشش سلسلۂ وحشِت ناز دِل عاشق شکن آموِز خِم طرۂ یار مئے تمثاِل پری نشۂ مینا آزاد دِل آئینہ طرب شاغِر بخِت بیدار دیدہ تا دل اسد آئینۂ یک سجدۂ شوق ُ ض الفت سے رقم تا دِل معنی سر شار فی ِ
ً ایضا فی المنقب ُ توڑے ہے عجِز تنک حوصلہ بر روئے زمیں سجدہ تمثال وہ آئینہ ،کہیں جس کو جبیں س انفاس توڑے ہے نالہ سِر رشتۂ پا ِ سر کرے ہے دِل حیرت زدہ شغِل تسکین بیدلی ہاۓہاۓ تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بیکسی ہاۓہاۓ تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں ہر زہ ہے نغمۂ زیر و بِم ہستی و عدم لغو ہے آئنۂ فرِق جنون و تمکیں یاس ،تمثاِل بہار آئنۂ استغنا وہم ،آئینۂ پیدائِی تمثاِل یقیں خوں ہوا درِد دو عالم سے تمنا کا دماغ بزِم یاس آں سوئے پیدائِی و اخفا رنگیں مثِل مضموِن وفا باد بہ دسِت تسلیم ش قدم خاک بفرِق تمکیں صورِت نق ِ خانہ ویرانئِی امید و پریشانئِی بیم جوِش دوزخ ہے خواِن چمِن خلِد بریں لِف دانش غلط و نفع عبادت معلوم ِ ُ درِد یک ساغِر غفلت ہے چہ دنیا وچہ دیں ٰ باِد افسانۂ بیمار ہے عیسی کا نفس استخواں ریزۂ موارں ہے سلیماں کا نگیں ض صورت ش معنی ہمہ خیمازۂ عر ِ نق ِ سخِن حق ہمہ پیمانۂ ذوِق تحسیں عشق بے ربطئِی شیرازۂ اجزاۓ حواس وصل افسانۂ اطفاِل پریشاں بالیں کوہ کن گرسنہ مزدوِر طرب گاِہ رقیب بیستوں ساِز گراں بارئِی خواِب شیریں ّ موِج خمیازۂ یک نشہ چہ اسلم و چہ کفر ّ کجئِی یک خِط مسطر چہ توہم چہ یقیں قبلہ و ابروۓ بت ،یک رِہ خوابیدۂ شوق کعبہ و بتکدہ ،یک محمِل خواِب سنگیں کس نے دیکھا جگِر اہِل جنوں نالہ فروش کس نے پایا اثِر نالۂ دل ہاۓ خزیں ش بسمل کدۂ عیِد حریفاں معلوم عی ِ خوں ہو آئینہ کہ ہو جامۂ طفلں رنگیں سامع زمزمۂ اہِل جہاں ہوں ،لیکن ِ
نہ سر و برِگ ستائش ،نہ دماِغ نفریں ُ نزِع مخمور ہوں اس دید کی دھن میں کہ مجھے رشتۂ ساِز ازل ہے نگِہ بازپسیں ض دو عالم نیرنگ حیرت آفت زدۂ عر ِ موِم آئینۂ ایجاد ہے مغِز تمکیں وحشِت دل سے پریشاں ہیں چراغاِن خیال باندھوں ہوں آئنے پر چشِم پری سے آئیں کوچہ دیتا ہے پریشاں نظری پر صحرا رِم آہوکو ہے ہر ذرے کی چشمک میں کمیں چشِم امید سے گرتے ہیں دوعالم جوں اشک 13 ش گریۂ مستانہ نہیں پاس ) (13پیمانہ ک ِ کس قدر فکر کو ہے ناِل قلم موۓ دماغ ش تمکیں کہ ہوا خوِن نگہ شوق میں نق ِ عذِر لنگ آفِت جولِن ہوس ہے یارب ُ جل اٹھے گرمئِی رفتار سے پائے چوبیں نہ تمنا ،نہ تماشا ،نہ تحیر ،نہ نگاہ گرِد جوہر میں ہے آئینۂ دل پردہ نشیں کھینچوں ہوں آئنے پر خندۂ گل سے مسطر نامہ عنواِن بیاِن دِل آزردہ نہیں ُ رنج تعظیم مسیحا نہیں اٹھتا مجھ سے ِ درد ہوتا ہے مرے دل میں جو توڑوں بالیں بسکہ گشتاخئِی ارباِب جہاں سے ہوں ملول پِر پرواز مری بزم میں ہے خنجِر کیں س نیرنگ اے عبارت تجھے کس خط سے ہے در ِ اے نگہ تجھ کو ہے کس نقطے میں مشِق تسکیں ً کس قدر نالہ پریشاں ہے عیاذا بال یک قلم خارِج آداِب جنون و تمکیں گ رواں دیکھ کہ گردوں ہر صبح جلوۂ ری ِ خاک پر توڑے ہے آئینۂ ناِز پرویں شوِر اوہام سے مت ہو شِب خوِن انصاف گفتگو بے مزہ و زخِم تمنا نمکیں ختم کر ایک اشارت میں عباراِت نیاز جوں مِہ نو ہے نہاں گوشۂ ابرو میں جبیں ش لحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر نق ِ "یا علی" عرض کر اے فطرِت وسواس قریں معنئِی لفِظ کرم بسملۂ نسخۂ حسن قبلۂ اہِل نظر کعبۂ ارباِب یقیں جلوہ رفتاِر سِر جادۂ شرِع تسلیم 13
13۔ یہ لفظ شاید "یاس" ہے جو سہِو کاتب سے "پاس" ہوگیا ہے۔
ش پا جس کا ہے توحید کو معراِج جبیں نق ِ ُ کس سے ہوسکتی ہے مدح اس کی بغیر ازہمہ او شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں ناز خرام ہر کِف خاک ہے واں گردۂ تصویِر زمیں ض خدا جان و دِل ختِم رسل مظہِر فی ِ قبلۂ آِل نبی ،کعبۂ ایجاِد یقیں نسبِت نام سے اس کی ہے یہ رقبہ کہ رہے ً ابدا پشِت فلک خم شدۂ ناِز زمیں ُ ش قدم اس کا جس جا جلوہ تحریر ہو نق ِ س دو عالم کی امیں وہ کِف ُخاک ہے نامو ِ ض خلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا فی ِ س باِد صبا عطر آگیں ُ ّبوۓ گل ُسے نف ِ برِش تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا قطع ہو جائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں ُ کوہ کو بیم سے اس کے ہے جگر باختگی نہ کرے نذِر صدا ورنہ متاِع تمکیں ُ کفر سوز اس کا یہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے گ عاشق کی طرح رونِق بت خانۂ چیں رن ِ ُ ُ وصِف دلدل ہے مرے مطلع ثانی کی بہار ِ ش قدم سے ہوں میں اس کے گلچیں جنِت نق ِ
مطلع ثانی ش دیدۂ ارباِب یقیں گرِد رہ سرمہ ک ِ ش ہر گام دو عالم صفہاں زیِر نگیں نق ِ برِگ گل کا ہو جو طرفاِن ہوا میں عالم ُ اس کے جولں میں نظر آئے ہے یوں دامِن دیں ُ ش خیال نق کدۂ حسرت بہ سے شوخی کی اس ِ فکر کو حوصلۂ فرصِت ادراک نہیں جلوۂ برق سے ہو جائے نگہ عکس پذیر اگر آئینہ بنے حیرِت صورت گِر چیں جاں پناہا! دل و جاں فیض رساں بادشہا! اے کہ تجھ سے ہے بہاِر چمنستاِن یقیں ش کِف پاسے تیرے ذوِق گل چینئِی نق ِ عرش چاہے ہے کہ ہو در پہ ترے خاک نشیں تجھ میں اور غیر میں نسبت ہے ولیکن بہ تضاد وصئِی ختِم رسل تو ہے بہ اثباِت یقیں
جسِم اطہر کو ترے دوِش پیمبر منبر ناِم نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں تیری مدحت کے لیے ہیں دل وجاں کام و زباں تیری تسلیم کو ہیں لوح و قلم دست و جبیں آستاں پر ترے ہے ) 14(14جوہِر آئینۂ سنگ رقِم بندگئِی حضرِت جبریِل امیں تیرے در کے لیے اسباِب نثار آمادہ خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں داد! دیوانگئِی دل کہ ترا مدحت گر ّ ذرے سے باندھے ہے خورشیِد فلک پر آئیں کس سے ہو سکتی ہے مداحئِی ممدوِح خدا س بریں ش فردو ِ کس سے ؓ ہوسکتی ہے آرائ ِ س معاصی اسد ال اسد یا علی! جن ِ ُ کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں شوخئی عرض مطالب میں ہے گستاخ طلب ہے ترے حوصلۂ فضل پہ از بسکہ یقیں ُ دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسِن قبول کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں ؓ غِم شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز کہ رہیں خوِن جگر سے مری آنکھیں رنگیں ُ طبع کو الفِت دلدل میں یہ سرگرمئِی شوق ُ کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں ُ دِل الفت نسب و سینۂ توحید فضا س صدق گزیں نگِہ جلوہ پرست و نف ِ صرِف اعدا اثِر شعلۂ دوِد دوزخ س بریں وقِف احباب گل و سنبِل فردو ِ
ً ایضا فی المنقبت جو نہ نقِد داِغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی تو فسردگی نہاں ہے بہ کمیِن بے زبانی بہ گماِن قطع زحمت نہ دو چاِر خامشی ہو ِ کہ زباِن سرمہ آلود نہیں تیغ اصفہانی ِ بہ فریِب آشنائی بہ خیاِل بے وفائی نہ رکھ آپ سے تعلق مگر ایک بدگمانی 14
ً 14۔ "ترے" اور "ہے" میں غالبا سہوِر کاتب سے تقدم و تاخسر ہوا ہے۔
نظرے سوۓ کہستان نہیں غیِر شیشہ ساماں جو گداِز دل ہو مطلب تو چمن ہے سنگجانی ُ بہ فراز گاِہ عبرت چہ بہار و کو تماشا کہ نگاہ ہے سیہ پوش بہ عزاۓ زندگانی پہ فراِق رفتہ یاراں خط و حرف مو پریشاں ّ دِل غافل از حقیقت ہمہ ذوِق قصہ خوانی ش دِل شکستہ پۓ عبرت آگہی ہے تپ ِ ش زبانی کہ نہ دے عناِن فرصت بہ کشاک ِ نہ وفا کو آبرو ہے ،نہ جفا تمیز جو ہے چہ حساِب جانفشانی ،چہ غروِر دلستانی بہ شکنج جستجو ہا ،بہ سراِب گفتگو ہا ِ تگ و تاِز آرزو ہا بہ فریِب شادمانی نہیں شاہراِہ او ہام ،بجز آں سوئے رسیدن تری سادگی ہے غافل دِر دل پہ پاسبانی چی امید و نا امیدی ،چہ نگاہ و بے نگاہی ض ناشکیبی ،ہمہ ساِز جانستانی ہمہ عر ِ 15 اگر آرزو ہے راحت تو عبث بخوں طپیدن )(15 کہ خیال ہو تعب کش بہ ہواۓ کامرانی شر و شوِر آرزو سے ،تب و تاِب عجز بہتر نہ کرے اگر ہوس پر غِم بے دلی گرانی س فروختن ہا ،تب و تاِب سوختن ہا ہو ِ س ناتوانی ش پا ہے ،بہ سپا ِ سِر شمع نق ِ ض اظہار شرِر اسیِر دل کو ملے اوِج عر ِ جو بہ صورِت چراغاں کرے شعلہ نردبانی ہوئی مشِق جرأت ناز رہ و رسِم طرِح آداب خِم پشت خوش نما تھا بہ گذارِش جوانی اگر آرزو رسا ہو ،پئے درِد دل دوا ہو وہ اجل کہ خوں بہا ہو بہ شہیِد ناتوانی غِم عجز کا سفینہ بہ کناِر بیدلی ہے مگر ایک شہپِر مور کرے ساِز بادبانی ض حال بخشی مجھے انتعاِش غم نے پئے عر ِ ش فسانہ خوانی س غزل سرائی ،تپ ِ ہو ِ
مطلع ثانی ِ
ُ مجھے اس سے کیا توقع بہ زمانۂ جوانی 16 کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی)(16 15 15۔ اس کا ایک امل تپیدن بھی ہے )جویریہ مسعود( 16 16۔ یہ شعر دیوان غالب متداول )نسخۂ اردو ویب ڈاٹ آرگ( کے غزل نمبر 199میں بہ حیثیت مطلع ثانی درج ہے۔ )جویریہ ِ مسعود(
ُ دِل نا امید کیونکر ،بہ تسلی آشنا ہو جو امیدوار رہیے نہ بہ مرگ نا گہانی مجھے بادۂ طرب سے بہ خمار گاِہ قسمت جو ملی تو تلخ کامی ،جو ہوئی تو سر گرانی نہ ستم کراب تو مجھ پر کہ وہ دن گئے کہ ہاں تھی ُ مجھے طاقت آزمانی ،تجھے الفت آزمانی 17 یو ہیں دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا)(17 کہ مرے عدو کو یار ب ملے میری زندگانی ُ بہ ہزار امید واری رہی ایک اشک باری نہ ہوا حصوِل زاری بجز آستیں فشانی کروں عذِر ترِک صحبت سو کہاں وہ بے دماغی نہ غروِر میرزائی ،نہ فریِب ناتوانی ہمہ یک نفس تپش سے تب و تاِب ہجر مت پوچھ ش جنوں ہوں ،نہ بقدِر زندگانی کہ ستم ک ِ ض مطلب کِف موجۂ حیا ہوں بہ گذاِر عر ِ کہ سرشک قطرہ زن ہے بہ پیاِم دل رسانی یہی بار بار جی میں مرے آۓ ہے کہ غالب کروں خواِن گفتگو پر دل و جاں کی میہانی
17 17۔ یہ شعر بھی دیوان غالب متداول )نسخۂ اردو ویب ڈاٹ آرگ( کے غزل نمبر 199میں معمولی فرق کے ساتھ درج ہے کہ "یو ہیں" کے جگہ "یوں ہی" ہے )جویریہ مسعود (
غزلیات بسم ال الرحمن الرحیم
ردیِف الف غزل نمبر 1 (18)18نقش فریادی ہے کس کی شوخئِی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکِر تصریر کا (19)19آتشیں پا ہوں ،گداِز و حشِت زنداں نہ پوچھ موۓ آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیرکا شوخِئ نیرنگ صیِد وحشت طاؤس ہے دام سبزے میں ہے پرواِز چمن تسخیر کا ض ذوِق قتل لذِت ایجاِد ناز افسوِن عر ِ نعل آتش میں ہے ،تیغ یار سے نخچیر کا ِ کاوکاِو سخت جانی ہاۓ تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا ،لنا ہے جوۓ شیر کا خشت پشِت دسِت عجز و قالب آغوِش وداع ُ پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا وحشِت خواِب عدم شوِر تماشا ہے اسد جو مزہ) 20(20جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
غزل نمبر 2 جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا سویدا تا بلب زنجیر سے 21دوِد سپند آیا (22)22بہ استقباِل تمثاِل ز ماہ اختر فشاں شوخی 18 18۔ اس غزل کے حاشیے پر حسب ذیل دو شعر باریک قلم سے خوش خط لکھے ہیں: جذبۂ بے اختیاِر شوق دیکھا چاہیے سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا آگہی داِم شیدن جس قدر چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے اپنے عالِم تقریرکا 19
19۔ اس شعر کے مصرع اول کے حاشیے پر یہ تحریر ہے" :عبدالعلے"
20
20۔ عرشی :مژہ 21۔ عرشی :زنجیری ،عرشی صاحب نے زنجیر سے ،کوسہِو مرتب لکھا ہے۔ 22۔ مصرع اول کو حاشیے پریوں بدل کر لکھا ہے )باریک قلم ،خوش خط(۔
21 22
تماشا کشوِر آئینہ میں آئینہ بند آیا تغافل ،بدگمانی ،بلکہ میری سخت جانی سے نگاِہ بے حجاِب ناز کو بیِم گزند آیا فضاۓ خندۂ گل تنگ و ذوِق عیش بے پروا فراغت گاِہ آغوِش و داِع دل ،پسند آیا عدم ہے خیر خواِہ جلوہ کو زنداِن بیتابی خراِم ناز برِق خرمِن سعئِی پسند آیا جراحت تحفہ ،الماس ارمغاں ،نادیدنی دعوت مبارک باد اسد غمخواِر جاِن درد مند آیا
غزل نمبر 3 ض بساِط وجود تھا عالم جہاں بہ عر ِ جوں صبح چاِک جیب مجھے تار و پود تھا جز قیس اور کو نہ مل عرصۂ طپش صحرا مگر بہ تنگئِی چشِم حسود تھا ش سویدا کیا ہے عرض آشفتگی نے نق ِ ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ مژگاں جو وا ہوئی ،نہ زیاں تھا ،نہ سود تھا بازی خوِر فریب ہے اہِل نظر کا ذوق ہنگامہ گرِم حیرِت بود و نبود تھا تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد سر گشتۂ خماِر رسوم و قیود تھا
غزل نمبر 4 شماِر سبحہ مرغوِب بِت مشکل پسند آیا تماشاۓ بیک کف بردِن صد دل پسند آیا ض بیدلی نو میدئِی جاوید آساں ہے بہ فی ِ کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا حجاِب سیِر گل آئینۂ بے مہرئِی قاتل کہ انداِز بہ خوں غلطیدِن بسمل پسند آیا ہوئی جس کو بہاِر فرصِت ہستی سے آگاہی گ للہ جاِم بادہ برمحمل پسند آیا بہ رن ِ (23)23سودِا چشِم انتخاِب نقطہ آرائی مِہ اختر فشاں کی بہر استقبال آنکھوں سے
24۔ مفتی انوار الحق صحیح فرماتے ہیں کہ متن میں اس شعر پر "لل" لکھا ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر بڑھایا گیا ہے۔
23
خراِم ناِز بے پروائئِی قاتل پسند آیا اسد ہر جا سخن نے طرِح باِغ تازہ ڈالی ہے گ بہار ایجادئِی بیدل پسند آیا مجھے رن ِ
غزل نمبر 5 تنگی رفیِق رہ تھی ،عدم یا وجود تھا میرا سفر بہ طالع چشِم حسود تھا ِ تویک جہاں قماِش ہوس جمع کر کہ میں حیرت متاِع عالِم نقصان و سود تھا 24 گردش محیِط ظلم رہا جس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلک)(24 میں پائماِل غمزۂ چشِم کبود تھا پوچھا تھا گر چہ یار نے احواِل دل ،مگر کس کو دماِغ منِت گفت و شنود تھا ڈھانپا کفن نے داِغ عیوِب برہنگی گ وجود تھا میں ورنہ ہر لباس میں نن ِ لیتا ہوں مکتِب غِم دل میں سبق ہنوز لیکن یہی کہ "رفت" گیا اور "بود" تھا خور شبنم آشنا نہ ہوا ،ورنہ میں اسد سر تا قدم گزارِش ذوِق سجود تھا
غزل نمبر 6 خود آرا وحشِت چشِم پری سے شب وہ بدخو تھا کہ موم آئینۂ تمثال کو تعویِذ بازو تھا بہ شیرینئِی خواب آلودہ مژگان نشتِر زنبور خود آرائی سے آئینہ طلسِم موِم جادو تھا نہیں ہے باز گشِت سیل غیر از جانِب دریا ہمیشہ دیدۂ گریاں کو آِب رفتہ در جو تھا رہا نظارہ وقِت بے نقابی ہا بخود لرزاں سرشک آگیں مژہ سے دست از جاں شیشہ ابروتھا غِم مجنوں عزاداراِن لیلی کا پرستش گر روانی ہاۓ موِج خوِن بسمل سے ٹپکتا ہے کہ لطِف بے تحاشا رفتِن قاتل پسند آیا اس سلسلے میں صرف اتنا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حاشیے پر یہ اندراج اس غزل کے دوسرے اور تیسرے شعر کے ساتھ کیا گیا ہے۔ )پانچویں شعر کے ساتھ نہیں(۔ نیز حاشیے پر یہ اندراج باریک قلم میں خوش خط نہیں ہے بلکہ موٹے قلم کے شکستہ خط میں ہے۔ تاہم اس خاص اضافے کو دیکھ کر یہ گمان ضرور ہوتا ہے کہ یہ اندراج غالب کی تحریر سے بہت مشابہ ہے ۔ 24
24۔ کتاب کے متن میں "جس" اور " فلک" کے بیچ کوئی لفظ چھپنے سے رہ گیا ہے )جویریہ مسعود (
25 گ سیہ از حلقہ ہاۓ چشِم آہو تھا )(25خِم رن ِ رکھا غفلت نے دور افتادۂ ذوِق فنا ورنہ ّ اشارت فہم کو ہر ناخِن بریدہ ابرو تھا اسد) 26(26خاِک دِر میخانہ ہا بر فرق پاشیدن خوشا روزیکہ آب از ساغِر مے تا بہ زانو تھا
25 25۔ اس مصرع میں "از حلقہ ہا" تینوں لفظوں کے اوپر "ل" لکھا ہے۔ یوں :ل لل پھر "از حلقہ" کے نیچے ً "پیمانہ" تحریر کیا ہے اور "با" کے نیچے "ہر"۔ اس مصرع کو غالبا یوں بدلنا مقصود تھا: گ سیہ پیمانۂ ہر چشِم آہو تھا خِم رن ِ 26 26۔ اس مقطع کے بجائے حاشیے پر یہ شعر تحریر کیا ہے ُ اسد خاِک دِر میخانہ اب سر پر اڑاتا ہوں گئے وہ دن کہ پانی جاِم مے کا تا بہ زانو تھا
غزل نمبر 7 کہتے)27 (27ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا دل کہاں کہ گم کیجے ،ہم نے مدعا پایا شوِر پنِد ناصح نے زخم پر نمک باندھا آپ سے کوئی پوچھے ،تم نے کیا مزا پایا ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ش پا پایا ہم نے دشِت امکاں کو ایک نق ِ ک امتحاں تاکے بے دماِغ خجلت ہوں ،رش ِ ایک بیکسی تجھ کو عام آشنا پایا سادگی و پرکاری ،بے خودی و ہشیاری ُ حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا ُ خاکبازئِی امید ،کارخانۂ طفل یاس کو دو عالم سے اب بخندہ واپایا کیوں نہ وحشِت غالب باج خواۂ تسکیں ہو کشتۂ تغافل کو خصِم خوں بہا پایا
غزل نمبر 8 کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکل میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکل ساغِر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرۂ خاک شوِق دیدار بل آئنہ ساماں نکل ُ عشرت)28 (28ایجاد چہ بوئے گل و کو دوِد چراغ 27
27۔ اس غزل اور اس سے اگلی غزل کے حاشیے پر حسب ذیل سات شعر تحریر کیے ہیں:
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا بے نیازی حد سے گزری ،بندہ پرور کب تلک ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا حضرت ناصح گر آئیں ،دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لئیں گے کیا گر کیا ناصح نے ہم کو قید ،اچھا یوں سہی یہ جنوِن عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا خانہ زاِد زلف ہیں ،زنجیر سے بھا گیں گے کیوں ہیں گرفتاِر بل ،زنداں سے گھبرائیں گے کیا ہے اب اس معمورے میں قحِط غِم الفت اسد ہم نے یہ مانا کہ دہلی میں رہیں ،کھائیں گے کیا؟ 28
28۔ اس مصرع پر "ل" لکھ کر ِاسے )باریک قلم ،خوش خط( یوں بدل ہے :
جو تری بزم سے نکل سو پریشاں نکل زخم نے داد نہ دی تنگئِی دل کی یا رب تیر بھی سینۂ بسمل سے پرافشاں نکل کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں ،لیکن آخر جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکل کس قدر خاک ہوا ہے دِل مجنوں یا رب ش ہر ذرہ سویداۓ بیاباں نکل نق ِ ُ دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب آہ جو قطرہ نہ نکل تھا ،سو طوفاں نکل
غزل نمبر 9 عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی پائی ،درِد بے دوا پایا غنچہ پھر لگا کھلنے ،آج ہم نے اپنا دل ُ خوں کیا ہوا دیکھا ،گم کیا ہوا پایا فکِر نالہ میں گویا ،حلقہ ہوں ز سر تا پا عضو عضو جوں زنجیر ،یک دِل صدا پایا حاِل دل نہیں معلوم ،لیکن اس قدر یعنی ہم نے بارہا ڈھونڈا ،تم نے بارہا پایا ُ شب نظارہ پرور تھا ،خواب میں خیال اس کا ُ صبح موجۂ گل کو وقِف) 29(29بوریا پایا جس قدر جگر خوں ہو ،کوچہ دادِن دل ہے زخِم تیغ قاتل کو طرفہ دلکشا پایا ِ ہے) 30(30نگیں کی پا داری ،ناِم صاحِب خانہ ش مدعا پایا ہم سے تیرے کوچے نے نق ِ دوست داِر دشمن ہے ،اعتماِد دل معلوم آہ بے اثر دیکھی ،نالہ نارسا پایا
بوئے گل ،نالۂ دل ،دوِد چراِغ محفل 29 29۔حاشیے پر "نقش" بجاۓ "وقف" بنایا ہے۔ مفتی انوار الحق۔ " یہ ترمیم بین السطور ہے" :مولنا عرشی۔ اس شعر کے مصرِع اول جزِو ثانی عرشی صاحب نے " خواب میں خران" شائع کیا ہے۔ نسخۂ شیرانی " :خواب میں خرام اس کا۔" 30 30۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں یہ شعر اس طرح چھپا ہے: ہے مکیں کی پا داری نام صاحِب خانہ ش مدعا پایا ہم نے تیرے کوچے نے نق ِ بھوپال کے مخطوطے میں "مکیں" کے بجائے "نگیں" ہے اور دوسرا مصرع" :ہم سے تیرے کوچے نے۔۔۔" )بصورِت ً بال( لکھا ہے۔ مخطوطے کے کاتب نے شاید "سے" اور "نے" کو سہوا بدل دیا ہے۔ تاہم نسخۂ شیرانی میں یہ مصرع بجنسہ بصورت بال دیا ہے۔
نے اسد جفا سائل ،نے سِم جنوں مائل)(31 ُ تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزما پایا
31
31۔ عرشی" :نے ستم جنوں مائل"۔
31
غزل نمبر 10 شوق ہر رنگ رقیِب سرو ساماں نکل قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکل دِل حسرت زدہ تھا)32 (32مائدۂ لذِت درد کام یاروں کا بہ قدِر لب و دنداں نکل شوِر رسوائئِی دل دیکھ کہ یک نالۂ شوق لکھ پردے میں چھپا ،پھر وہی عریاں نکل گ حنا خوِن وفا سے کب تک شوخئِی رن ِ آخر اے عہد شکن ،تو بھی پشیماں نکل جوہر ایجاِد خِط سبز ہے خود بینئِی حسن جو نہ دیکھا تھا ،سو آئینے میں پنہاں نکل تھی نو آموِز فنا ہمِت دشوارئِی شوق سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکل میں بھی معذوِر جنوں ہوں اسد اے خانہ خراب پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکل
غزل نمبر 11 دمیدن)33 (33کے کمیں جوں ریشۂ زیِر زمیں پایا بہ گرد سرمہ انداِز نگاِہ شرمگیں پایا اگے)34 (34اک پنبۂ روزن سے بھی چشِم سفید آخر حیا کو انتظاِر جلوہ ریزی کے کمیں پایا بہ حسرت گاِہ ناِز کشتۂ جاں بخشئِی خوباں 32
32۔ اس غزل کے حاشیے پر حسب ذیل سات شعر تحریر کیے ہیں:
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا عشِق نبرد پیشہ طلب گاِر مرد تھا تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا ُ اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا تالیف نسخہ ہاۓ وفا کر رہا تھا میں مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا دل تاجگر کہ ساحِل دریاۓ خوں ہے اب اس رہگذر میں جلوۂ گل ،آگے گرد تھا جاتی ہے کوئی کشمکش اندوِہ عشق کی دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا احباب چارہ سازئِی وحشت نہ کرسکے زنداں میں بھی خیال ،بیاباں نور د تھا یہ لِش بے کفن اسِد خستہ جاں کی ہے حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا 33 34
33۔ عرشی :دویدن۔ ُ 34۔ عرشی" :اگی"۔
خضر کو چشمۂ آِب بقا سے تر جبیں پایا پریشانی سے مغِز سر ہوا ہے پنبۂ بالش خیاِل شوخئِی خوباں کو راحت آفریں پایا نفس حیرت پرسِت طرز نا گیرائئِی مژگاں مگر یک دست داماِن نگاِہ واپسیں پایا اسد کو پیچتاِب طبع برق آہنگ مسکن سے ّ ِ حصاِر شعلۂ ج۔۔والہ میں عزلت گزیں پایا
غزل نمبر 12 نزاکت سے) 35(35فسوِن دعوئ طاقت شکستن ہا شراِر سنگ انداِز چراغ از جسِم خستن ہا سیہ مستئئِی چشِم شوخ سے ہیں جوہِر مژگاں گ سرمہ یکسر مار)36 (36جستن ہا شرار آسا زسن ِ ہوانے ابر سے کی موسِم گل میں نمد بافی کہ تھا آئینۂ خورے نقاِب رنگ بستن ہا دِل از اضطراب آسودہ طاعت گاِہ داغ آیا گ شعلہ ہے مہِر نماز از پانشستن ہا برن ِ تکلف عافیت میں ہے دل بنِد قبا وا کر نفس ہا بعِد وصِل دوست تاواِن گستن ہا اسد ہر اشک ہے یک حلقہ بر زنجیر افزودن ش ہر آب امید رستن ہا بہ بنِد گریہ ہے نق ِ
غزل نمبر 13 بساِن جوہِر آئینہ از ویرانئِی دل ہا غباِر کوچہ ہاۓ موج ہے خاشاِک ساحل ہا نگہ کی ہم نے پیدا رشتۂ ربِط علئق سے ہوئے ہیں پردہ ہاۓ چشِم عبرت جلوہ حائل ہا نہیں ہے باوجوِد ضعف سیِر بے خودی آساں رِہ خوابیدہ میں افگندنی ہے طرِح منزل ہا غریبی بہِر تسکیِن ہوس درکار ہے ورنہ بہ وہِم زرگرہ میں باندھتے ہیں برِق حاصل ہا تماشا کردنی ہے انتظار آباِد حیرانی نہیں غیر از نگہ جوں نرگسستاں فرِش محفل ہا اسد تاِر نفس ہے نا گزیِر عقدہ پیرائی بہ نوِک ناخِن شمشیر کیجے حِل مشکل ہا 35 36
35۔ عرشی" :ہے" 36۔ عرشی" :بار"
غزل نمبر 14 بہ شغِل انتظاِر مہ وشاں در خلوِت شب ہا سِر تاِر نظر ہے رشتۂ تسبیح کوکب ہا ِ کرے گر فکر تعمیِر خرابی ہاۓ دل گردوں نہ نکلے خشت مثِل استخواں بیروِن قالب ہا عیادت ہاۓ طعن آلوِد یاراں زہِر قاتل ہے ش عقرب ہا رفوۓ زخم کرتی ہے بہ نوِک نی ِ کرے ہے حسِن خوباں پردے میں مشاطگی اپنی کہ ہے تہ بندئِی خط سبزۂ خط در تِہ لب ہا فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں نہیں رفتاِر عمِر تیز رو پابنِد مطلب ہا اسد کوبت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں در پردہ "یارب" ہا
غزل نمبر 15 ش وفا وجِہ تسلی نہ ہوا دہر میں نق ِ ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا سبزۂ خط سے ترا کاکِل سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریِف دِم افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوِہ وفا سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا نہ ہوئی ہم سے رقم حیرِت خِط رِخ یار صفحہ)37 (37آئینہ ہوا ،آئنہ طوطی نہ ہوا ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پہ بھی راضی کہ کبھی گ تسلی نہ ہوا ش گل بان ِ گوش منت ک ِ کس سے محرومئِی قسمت کی شکایت کیجے ہم نے چا ہا تھا کہ مرجائیں سو وہ بھی نہ ہوا وسعِت رحمِت حق دیکھ کہ بخشا جاوے مجھ سا کافر کہ جو ممنوِن معاصی نہ ہوا ُ مرگیا صدمۂ آواز سے "قم" کے غالب ناتوانی سے حریِف دِم عیسی نہ ہوا
غزل نمبر 16 37 37۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر تحریر ہے )باریک قلم ،خوش خط( دل گزر گاِہ خیال مے و ساغر ہی سہی ٰ گر نفس جادۂ سر منزِل تقوی نہ ہوا
بہ رہِن شرم ہے با وصِف شہرت اہتمام اس کا ُ نگیں میں جوں شراِر سنگ ناپیدا ہے نام اس کا سرو کاِر تواضع تا خِم گیسو رسانیدن ُ بساِن شانہ زینت ریز ہے دسِت سلم اس کا مسی آلودہ ہے مہِر نوازش نامہ ،پیدا ہے ُ کہ داِغ آرزوۓ بوسہ لیا ہے) 38(38پیام اس کا ش حسرت بہ امیِد نگاِہ خاص ہوں محمل ک ِ ُ مبادا ہو عناں گیِر تغافل لطِف عام اس کا لڑاوے گر وہ بزِم میکشی میں قہر و شفقت کو ُ بھرے پیمانۂ صد زندگانی ایک جام اس کا اسد سوداۓ سر سبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر ُ ُ کہ کشِت خشک اس کا ابِر بے پروا خرام اس کا
غزل نمبر 17 شِب اختر قدِح عیش نے محمل باندھا باریک قافلۂ آبلہ منزل باندھا سبحہ واماندگئِی شوق و تماشا منظور جادے پر زیوِر صد آئنہ منزل باندھا ُ ضبِط گریہ گہِر آبلہ لیا آخر پاۓ صد موج بہ طوفان کدۂ دل باندھا داغ) 39(39اے حاجِت بے درد کہ در عرض حیا یک عرق آئنہ بر جبہۂ سائل باندھا ض اعجاز حسن آشفتگئِی جلوہ سے عر ِ ٰ دسِت موسی بہ سِر دعوئ باطل باندھا ش آئینہ پرواِز تمنا لئی تپ ِ نامۂ شوق بہ باِل پِر بسمل باندھا دیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں کس نے خلوِت ناز پہ پیرایۂ محفل باندھا ُ نا امیدی نے بہ تقریِب مضامیِن خمار کوچۂ موج کو خمیازۂ ساحل باندھا مطرِب دل نے مرے تاِر نفس سے غالب ساز پر رشتہ پئے نغمۂ بیدل باندھا
غزل نمبر 18 38 38۔ حاشیے پر " :دیوے گا" 39 39۔ یہ مصرع حاشیے پریوں بدل ہے )باریک قلم ،خوش خط( ض حیا حیف اے زن ِ گ تمنا کہ پئے عر ِ
شب کہ ذوِق گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا شوخئِی وحشت سے افسانہ فسوِن خواب تھا گرمئِی برِق تپش سے زہرۂ دل آب تھا شعلۂ جوالہ ہر یک حلقۂ گرداب تھا واں کرم کو عذِر بارش تھا عناں گیِر خرام گریے سے یاں پنبۂ بالش کِف سیلب تھا واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال یاں ہجوِم اشک سے تاِر نظر نایاب تھا لے زمیں سے آسماں تک فرش تھیں بے تابیاں شوخئِی بارش سے مہ فوارۂ سیلب تھا )(40جوِش 40یاِد نغمۂ دمساِز مطرب سے اسد ناخِن غم بر سِر تاِر نفس مضراب تھا
غزل نمبر 19 جب بہ تقریِب سفر یار نے محمل باندھا ش شوق نے ہر ذرے پہ اک دل باندھا تپ ِ ناتوانی ہے تماشائئِی عمِر رفتہ رنگ نے آئنہ آنکھوں کے مقابل باندھا اہِل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخئِی ناز جوہِر آئنہ کو طوطئِی بسمل باندھا اصطلحاِت اسیراِن تغافل مت پوچھ ُ جو گرہ آپ نہ کھولی ،اسے مشکل باندھا ُ یاس و امید نے یک عربدہ میداں مانگا عجِز ہمت نے طلسِم دِل سائل باندھا یار نے تشنگئِی شوق کے مضموں چاہے ہم نے دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا نوِک ہر خار سے تھا بسکہ سِر دزدئِی زخم جوں نمد ہم نے کِف پا پہ اسد دل باندھا
40 40۔ حاشیے پر یوں بدل کر لکھا ہے: واں ہجوِم نغمہ ہائے ساِز عشرت تھا اسد ناخِن غم یاں سِر تاِر نفس مضراب تھا
غزل نمبر 20 )(41نالۂ 41دل میں شب انداِز اثر نایاب تھا تھا سپنِد بزِم وصِل غیر گو بیتاب تھا دیکھتے تھے ہم بچشِم خود وہ طوفاِن بل آسماِن سفلہ جس میں یک کِف سیلب تھا موج سے پیدا ہوۓ پیراہِن دریا میں خار گریہ وحشت بے قراِر جلوۂ مہتاب تھا جوِش تکلیِف تماشا محشر آباِد نگاہ فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مشِت آب تھا بے خبر مت کہہ ہمیں بیدرد! خو د بینی سے پوچھ قلزِم ذوِق نظر میں آئنہ پایاب تھا
41 41۔ اس غزل کے حاشیے پر حسب ذیل سات شعر )باریک قلم ،شکستہ خط میں( تحریر کیے ہیں۔ محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہاے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا گ شکستہ صبح بہاِر نظارہ ہے رن ِ ِ یہ وقت ہے شگفتِن گل ہاے ناز کا تو اور سوۓ غیر نظر ہاۓ تیز تیز میں اور دکھ تری مژہ ہاۓ دراز کا صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا ،وگر نہ میں س جاں گداز کا طعمہ ہوں ایک ہی نف ِ ہیں بسکہ جوِش بادہ سے شیشے اچھل رہے ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز ناخن پہ قرض اس گرِہ نیم باز کا تاراِج کاوش غم ہجراں ہوا اسد سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہاۓ راز کا اس صفحے پر مذکورۂ بال حاشیے کے بالمقابل حسب ذیل پانچ شعر حاشیے میں)باریک قلم ،شکستہ خط( درج کیے گئے ہیں: نازِش ایاِم خاکستر نشینی کیا کہوں پہلوۓ اندیشہ وقِف بستِر سنجاب تھا مقدِم سیلب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے خانۂ عاشق مگر ساِز صداۓ آب تھا کچھ نہ کی اپنے جنوِن نارسا نے ورنہ یاں ش خورشیِد عالم تاب تھا ذرہ ذرہ روک ِ آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا انتظاِر صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا
بیدلی ہاۓ اسد افسردگی آہنگ تر ّ 42 یاِد ای۔ّ۔امے کہ ذوِق صحبِت احباب تھا)(42
4242۔ اس مقام پر وہ اشارات جو میں نے برسوں پہلے کتب خانۂ بھوپال میں قلمی نسخے کو دیکھ کر لکھے، کسی قدر پریشاں کن ثابت ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حسب ذیل سات اشعار میں سے پہلے چھ شعر اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں لکھے گئے۔ اس کے بعد حاشیے پر دوسری جگہ میں اشعار باریک قلم سے شکستہ خط میں نقل ہوئے ہیں اور ساتویں شعر کا )جو مقطع ہے( اضافہ کیا گیا ہے: جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو یاں رواں مژگاِن چشِم تر سے خوِن ناب تھا دیکھتے تھے ہم بہ چشِم خود وہ طوفاِن بل آسماِن سفلہ جس میں یک کِف سیلب تھا موج سے پیدا ہوئے پیراہِن دریا میں خار گریہ وحشت بے قراِر جلوۂ مہتاب تھا ُ ُ یاں سر پر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو ُ ش کمخواب تھا واں وہ فرِق ناز محِو بال ِ یاں نفس کرتا تھا روشن شمع بزِم بے خودی ِ جلوۂ گل واں بساِط صحبِت احباب تھا فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موِج رنگ کا یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا واں ہجوِم نغمہ ہائے ساِز عشرت تھا اسد ناخِن غم یاں سِر تاِر نفس مضراب تھا اسی )مذکورۂ بال( انداج کے نیچے حاشیے ہی پر سات شعر کی یہ غزل باریک قلم سے خوش خط تحریر کی ہے۔ )مفتی انوار الحق نے اس غزل کو اپنے مطبوعہ نسخے کے متن میں جگہ دی ہے مگر حاشیے کے اس اندراج کا ذکر نہیں کیا(۔ نہ بھول اضطراِب دم شماری انتظار اپنا کہ آخر شیشۂ ساعت کے کام آیا غبار اپنا گ دگر پایا ز بس آتش نے فصِل رنگ میں رن ِ چراِغ گل سے ڈھونڈے ہے چمن میں شمع خار اپنا اسیِر بے زباں ہوں کاشکے صیاِد بے پروا بہ داِم جوہِر آئینہ ہو جائے شکار اپنا مگر ہو مانع دامن کشی ذوِق خود آرائی ِ گ مزار اپنا سن آئنہ د بن نقش ہوا ہے ِ ِ دریغ اے ناتوانی ورنہ ہم ضبط آشنایاں نے طلسِم رنگ میں باندھا تھا عہِد استوار اپنا اگر آسودگی ہے مدعاۓ رنج بے تابی ِ نثاِر گردِش پیمانۂ مے روزگار اپنا اسد ہم وہ جنون جولں گداۓ بے سر وپا ہیں کہ ہے سر پنجۂ مژگاِن آہو پشت خار اپنا
غزل نمبر 21 )(43نہ 43ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا ش قدم میرا حباِب موجۂ رفتار ہے نق ِ س آگاہی رِہ خوابیدہ تھی ش یک در ِ گردن ک ِ ُ ش قدم میرا زمیں کو سیلئِی استاد سے نق ِ محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بد دماغی ہے کہ موِج بوۓ گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا ض دو عالم شوِر محشر ہوں سراغ آوارۂ عر ِ پر افشاں ہے غبار آں سوۓ صحراۓ عدم میرا س سراِب سطِر آگاہی ش در ِ نہ ہو وحشت ک ِ میں گرِد راہ ہوں بے مدعا ہے پیچ و خم میرا ہواۓ صبح یک عالم گریباں چاکئِی گل ہے دہاِن زخم پیدا کر اگر کھاتا ہے غم میرا اسد وحشت پرسِت گوشۂ تنہائِی دل ہے گ موِج مے خمیازۂ ساغر ہے رم میرا برن ِ
غزل نمبر 22 یاِد روزے کہ نفس در گرِہ) 44(44یارب تھا نالۂ دل بہ کمر دامِن قطع شب تھا ِ ّ ش وصل آرائ ت فرص کدۂ یر بہ تح ِ ِ 45 ش کوکب تھا دِل شب) (45آئنہ داِر تپ ِ بہ تمنا کدۂ حسرِت ذوِق دیدار دیدہ گو خوں ہو ،تماشاۓ چمن مطلب تھا گ خیال جوہِر فکر پر افشانئِی نیرن ِ حسن آئینہ و آئینہ چمن مشرب تھا گ نشاط پردۂ درِد دل آئینۂ صد رن ِ بخیۂ زخِم جگر خندۂ زیِر لب تھا نالہ ہا حاصِل اندیشہ کہ جوں گشِت سپند دِل ناسوختہ آتش کدۂ صد تب تھا باِب ابرام نہ تھا دل ہی ہمارا غالب 43 44 45
43۔ اس مصرع کے ساتھ حاشیے میں یہ تحریر ہے" :عبدالعلے" 44۔ حاشیے پر در گرہ کی جگہ "سلسہ" بنایا ہے۔ مفتی انوار الحق کا نوٹ 45۔ حاشیے پر اسے یوں بدل ہے "غبار راہ ہوں"
46
ورنہ جو چاہیے اسباِب تمنا سب تھا)(46
غزل نمبر 23 رات دل گرِم خیاِل جلوۂ جانانہ تھا گ روۓ شمع برِق خرمِن پروانہ تھا رن ِ شب کہ تھی کیفیِت محفل بیاِد روۓ یار ہر نظر داِغ مۓ خاِل لِب پیمانہ تھا 47 شب کہ باندھا خواب میں آنے کا غافل نے جناح)(47 وہ فسوِن وعدہ میرے واسطے افسانہ تھا ُ دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی وہ دِل سوزاں کہ کل تک شمع ماتم خانہ تھا ِ ساتھ جنبش کے بہ یک برخاستن طے ہوگیا تو کہے) 48(48صحرا غباِر دامِن دیوانہ تھا ُ دیکھ اس کے ساعِد سیمین و دسِت پر نگار شاِخ گل جلتی تھی مثِل شمع گل پروانہ تھا اے اسد رویا جو دشِت غم میں میں حیرت زدہ آئنہ خانہ ہجوِم اشک سے ویرانہ تھا
غزل نمبر 24 پۓ نذِر کرم تحفہ ہے شرِم نارسائی کا ٰ بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ دعوی پرسائی کا جہاں مٹ جاۓ سعئِی دید خضر آباِد آسائش بہ جیِب ہر نگہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا بہ عجز آباِد وہِم مدعا تسلیم شوخی ہے تغافل کو نہ کر مصروف) 49 (49تمکیں آزمائی کا ٰ زکوِت حسن دے اۓ جلوۂ بینش کہ مہر آسا چراِغ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا نہ مارا جان کر بے جرم ،غافل ،تیری گردن پر رہا ماننِد خوِن بے گنہ حق آشنائی کا 46 46۔ اس سلسلے میں ملحظہ ہو "نسخۂ حمیدیہ" مؤلفہ مفتی انوارالحق )حاشیۂ صفحہ (32۔ یہ مقطع متن میں کاٹ کر اس کے بجائے حسب ذیل تین شعر )باریک قلم سے شکستہ خط میں( درج حاشیہ ہیں: عشق میں ہم نے ہی ابرام سے پرہیز کیا ورنہ جو چاہیے اسباِب تمنا سب تھا آخِر کار گرفتاِر سِر زلف ہوا دِل دیوانہ کہ وارستۂ ہر مذہب تھا شوق ساماِن فضولی ہے ،وگرنہ غالب ہم میں سرمایۂ ایجاِد تمنا کب تھا 47 47۔ شیرانی" :قاتل نے جناغٰ" 48 48۔ "متن میں "توکہے" کے نیچے پہلے "گوئیا" لکھا ہے پھر کاٹ دیا ہے 49 49۔ "حاشیے پر "مصروف" کی جگہ "معزول" لکھا ہے"۔ )مفتی انوار الحق کا نوٹ(
دہاِن ہر بت پیغارہ جو زنجیِر رسوائی عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا اسد کا قصہ طولنی ہے لیکن مختصر یہ ہے ض ستم ہاۓ جدائی کا کہ حسرت کش رہا عر ِ
غزل نمبر 25 بسکہ جوِش گریہ سے زیرو زبر ویرانہ تھا چاِک موِج سیل تا پیراہِن دیوانہ تھا داِغ مہِر ضبِط بے جا مستئِی سعئِی پسند ُ دوِد مجمر للہ ساں درِد تِہ پیمانہ تھا وصل میں بخِت رسا نے سنبلستاں گل کیا گ شب تہ بندئِی دوِد چراِغ خانہ تھا رن ِ شب تری تاثیِر سحِر شعلۂ آواز سے گ مضراِب پِر پروانہ تھا تاِر شمع آہن ِ انتظاِر 50زلف میں شمشاد ہم دسِت چنار نقشبنِد شکِل مژگاں از نموِد شانہ تھا موسِم گل میں مئے گلگوں حلِل مے کشاں عقِد وصِل دخِت رز انگور کا ہر دانہ تھا حیرت اپنی نالۂ بے درد سےغفلت بنی راِہ خوابیدہ کو غوغاۓ جرس افسانہ تھا ُ کو بہ وقِت قتل حِق آشنائی اے نگاہ خنجِر زہراب دادہ سبزۂ بیگانہ تھا جوِش بے کیفیتی ہے اضطراب آرا اسد ورنہ بسمل کاطپیدن) 51(51لغزِش مستانہ تھا
50 51
51۔ "متن میں پہلے اس جگہ "طپیدن" تھا۔ پھر اسے کاٹ کر "تڑپنا" بنایا گیا" )مفتی انوار الحق کا نوٹ(
غزل نمبر 26 )(52نہ 52ہو حسِن تماشا دوست رسوا بے وفائی کا ٰ بہ مہِر صد نظر ثابت ہے دعوی پارسائی کا ہوس گستاخئِی آئینہ تکلیِف نظر بازی بہ جیِب آرزو پنہاں ہے حاصل دلربائی کا نظر بازی طلسِم وحشت آباِد پرستاں) 53(53ہے رہا بیگانۂ تاثیر افسوں آشنائی کا نہ پایا درد منِد دورئِی یاراِن یک دل نے سواِد خِط پیشانی سے نسخہ مومیائی کا س بے زبانی ہے تمناۓ زباں محِو سپا ِ مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا اسد یہ عجز و بے سامانئِی فرعون توام ہے ٰ جسے تو بندگی کہتا ہے دعوی ہے خدائی کا
غزل نمبر 27 شب خماِر شوِق ساقی رستخیز اندازہ تھا تا محیِط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا ُ س دفتِر امکاں کھل یک قدم وحشت سے در ِ جادہ اجزاۓ دو عالم دشت کا شیرازہ تھا ہوں چراغاِن ہوس جوں کاغِذ آتش زدہ ش ایجاِد داِغ تازہ تھا داغ گرِم کوش ِ ٰ مانع وحشت خرامی ہاۓ لیلی کون ہے ِ خانۂ مجنوِن صحرا گرد بے دروازہ تھا پوچھ مت رسوائِی انداِز استغناۓ حسن دست پابنِد حنا ،رخسار رہِن غازہ تھا دیدۂ ترنے دیے اوراِق لخِت دل بہ آب یاد گاِر نالہ اک دیواِن بے شیرازہ تھا بے نوائی تر صداۓ نغمۂ شہرت اسد بوریا یک نیستاں عالم بلند آوازہ تھا
52 52۔ اس غزل کے حاشیے پر حسب ذیل دو شعر باریک قلم سے شکستہ خط میں درج کیے ہیں۔ وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہِت گل ہے چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا نہ دے نامے کو اتنا طول غالب مختصر لکھ دے ض ستم ہاۓ جدائی کا کہ حسرت سنج ہوں عر ِ 53 53۔ عرشی" :پریشاں" )بجاۓ "پرستان"(۔
غزل نمبر 28 کرے گر حیرِت نظارہ طوفاں نکتہ گوئی کا حباِب چشمۂ آئینہ ہو وۓ بیضہ طوطی کا بروۓ قیس دسِت شرم ہے مژگاِن آہو سے مگر روِز عروسی گم ہوا تھا شانہ لیلی کا گ جراحت ہے فساِن تیِغ نازک قاتلں سن ِ دِل گرِم تپش قاصد ہے پیغاِم تسلی کا نہیں گرداب جز سر گشتگی ہائے طلب ہرگز حباِب بحر کے ہے آبلوں میں خار ماہی کا نیاِز جلوہ ریزی طاقِت بالیں شکستن ہا تکلف کو خیال آیا ہو گر بیمار پرسی کا نہ بخشی فرصِت یک شبنمستاں جلوۂ خور نے تصور نے کیا ساماں ہزار آئینہ بندی کا اسد تاثیِر صافی ہاۓ حیرت جلوہ پرور ہو گر آِب چشمۂ آئینہ ہو وۓ عکس زنگی کا
غزل نمبر 29 یک گاِم بے خودی سے لوٹیں بہاِر صحرا ش پا میں کیجے فشاِر صحرا آغوِش نق ِ وحشت اگر رسا ہے بے حاصلی ادا ہے پیمانۂ ہوا ہے مشِت غباِر صحرا اے آبلہ کرم کر ،یاں رنجہ اک قدم کر اے نوِر چشِم وحشت ،اے یادگاِر صحرا دل در رکاِب صحرا ،خانہ خراِب صحرا ض خماِر صحرا موِج سراِب صحرا ،عر ِ ہر ذرہ یک دِل پاک ،آئینہ خانۂ خاک تمثاِل شوِق بیباک ،صدجا دو چاِر صحرا ش طرب ہے دیوانگی اسد کی حسرت ک ِ در سر ہواۓ گلشن ،در دل غباِر صحرا
غزل نمبر 30 وحشی بن صیاد نے ہم رم خور دوں کو کیا رام کیا رشتۂ چاِک جیِب دریدہ صرِف قماِش دام کیا س رِخ افروختہ تھا تصویر بہ پشِت آئینہ عک ِ ُ شوخ نے وقِت حسن طرازی تمکیں سے آرام کیا ساقی نے ازبہِر گریباں چاکئِی موِج بادۂ ناب تاِر نگاِہ سوزِن مینا رشتۂ خِط جام کیا ک نامہ رساں مہر بجاۓ نامہ لگائی بر لِب پی ِ قاتِل تمکیں سنج نے یوں خاموشی کا پیغام کیا شاِم فراِق یار میں جوِش خیرہ سری سے ہم نے اسد ماہ کو درتسبیح کواکب جاۓ نشیِن امام کیا ِ
غزل نمبر 31 وہ مری چیِن جبیں سے غِم پنہاں سمجھا راِز مکتوب بہ بے ربطئِی عنواں سمجھا یک الف بیش نہیں صیقِل آئینہ ہنوز چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا شرِح اسباِب گرفتارئِی خاطر مت پوچھ اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا ہم نے وحشت کدۂ بزِم جہاں میں جوں شمع شعلۂ عشق کو اپنا سرو ساماں سمجھا تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دِم مرگ دفع پیکاِن قضا اس قدر آساں سمجھا ِ عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بدخو ہوگا ش شعلۂ سوزاں سمجھا نب ِ ض خس سے تپ ِ سفِر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی ہر قدم سایے کو میں اپنے شبستان سمجھا ُ بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرِم خرام ُ رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا ُ دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار اسد غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
غزل نمبر 32 )(54گلہ 54ہے شوق کو دل میں بھی تنگئِی جا کا ُ گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا یہ جانتا ہوں کہ تو اور جواِب نامۂ شوق مگر ستم زدہ) 55(55ہوں ذوِق خامہ فرسا کا غِم فراق میں تکلیِف سیِر گل مت دو مجھے دماغ نہیں خندہ ہاۓ بے جا کا )(56نہ 56پائی وسعِت جولِن یک جنوں ہم نے عدم کولے گئے دل میں غبار صحرا کا مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے میں مدعا ہوں تپش نامۂ تمنا کا نہ کہہ کہ گریہ بہ مقداِر حسرِت دل ہے مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا فلک) 57(57کو دیکھ کے کرتا ہے تجھ کو یاد اسد اگر چہ گم شدہ ہے کاروبار دنیا کا
54
54۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ چار شعر درج ہیں )باریک قلم ،شکستہ خط(:
حناۓ پاۓ خزاں ہے بہار اگر ہے یہی دواِم کلفت خاطر ہے عیش دنیا کا ملی نہ وسعِت جولِن یک جنوں ہم کو عدم کولے گئے دل میں غبار صحرا کا ہنوز محرمئِی حسن کو ترستا ہوں ُ ُ کرے ہے ہر بِن مو کام چشِم بینا کا ُ دل اس کو پہلے ہی ناز و ادا سے دے بیٹھے ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا 55
55۔ عرشی صاحب فرماتے ہیں کہ قلمی نسخے میں " جنون زدہ" ہے۔
56حاشیے پر اس مصرع کو یوں لکھا ہے: ملی نہ وسعِت جولِن یک جنون ہم کو )مفتی انوار الحق کا نوٹ( 57
57۔ یہ شعر متن میں موٹے قلم سے شکستہ خط میں یوں بدل ہے:
ُ فلک کو دیکھ کے کرتا ہے اس کو یاد اسد ُ جفا میں اس کی ہے انداز کار فرما کا
غزل نمبر 33 )(58کس 58کا خیال آئنۂ انتظار تھا ہر برِگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا س کا جنوِن دید تمنا شکار تھا ک ِ آئینہ خانہ وادئِی جوہر غبار تھا )(59چوں 59غنچہ و گل آفِت فاِل نظر نہ پوچھ پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا اب میں ہوں اور خوِن دو عالم معاملہ توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا دیکھی وفاۓ فرصِت رنج و نشاِط دہر خمیازہ یک درازئِی عمِر خمار تہا موِج سراِب دشِت وفا کا بیاں نہ پوچھ ہر ذرہ مثِل جوہِر تیغ آب دار تھا ُ صبح قیامت ایک دِم گرگ تھی اسد ِ جس دشت میں وہ شوِخ دو عالم شکار تھا
غزل نمبر 34 ک وفا تھا وہم بسمل کا ز بس خوں گشتۂ رش ِ چرایا زخم ہاۓ دل نے پانی تیغ قاتل کا ِ نگاِہ چشِم حاسد وام لے اے ذوِق خود بینی تماشائی ہوں وحدت خانۂ آئینۂ دل کا سراپا رہِن عشق و ناگزیِر الفِت ہستی عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا 58 58۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ تین شعر درج ہیں )باریک قلم ،شکستہ خط(۔ واضح رہے کہ مفتی انوار الحق کے ُ نسخے میں )ملحظہ ہو اس نسخے کا صفحہ (16ان اشعار کی ترتیب وہ نہیں رہی جو قلمی نسخے میں بطریق ذیل موجود ہے: ایک ایک قطرے کا مجہے دنیا پڑا حساب خوِن جگر ودیعِت مژگاِن یار تھا کم جانتے تھے ہم بھی غِم عشق کو ،پر اب دیکھا تو کم ہوۓ پہ غِم روزگار تھا گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں جاں دادۂ ہواۓ سِر رہگزار تھا 59
59۔ عرشی" :جوں"۔
شرر فرصت نگہ ،ساماِن یک عالم چراغاں ہے بقدِر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا بہ قدِر ظرف ہے ساقی خماِر تشنہ کامی بھی جو تو دریاۓ مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا سراسر تاختن کو شش جہت یک عرصہ جولں تھا ہوا واماندگی سے رہرواں کی فرق منزل کا مجھے اس قطع)60 (60رہ میں خوف گمراہی نہیں غالب ِ عصاۓ خضِر صحراۓ سخن ہے خامہ بیدل کا
غزل نمبر 35 )(61کیا 61کس شوخ نے ناز از سِر تمکیں نشستن کا کہ شاِخ گل کا خم انداز ہے بالیں شکستن کا نہاں ہے مردمک میں شوِق رخساِر فروزاں سے سپنِد شعلہ نادیدہ صفت انداز جستن کا گداِز دل کو کرتی ہے کشوِد چشم شب پیما نمک ہے شمع میں جوں موِم جادو خواب بستن کا نفس در سینہ ہاۓ ہمد گر رہتا ہے پیوستہ نہیں ہے رشتۂ الفت کو اندیشہ گسستن کا عیادت سے اسد میں بیشتر بیمار رہتا ہوں سبب ہے ناخِن دخِل عزیزاں سینہ خستن کا
غزل نمبر 36 )(62لِب 62خشک در تشنگی مردگاں کا زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا شگفتن کمیں داِر تقریب جوئی تصور ہوں بیموجب آزردگاں کا )(63غریِب 63بدر جستۂ باز گشتن 60
60۔ "اس قطع رہ" کو حاشیے پر "راِہ سخن میں" لکھا ہے۔ تحریر موٹے قلم سے شکستہ اور بد خط ہے۔
61
61۔ اس غزل کے حاشیے پر ان تین اشعار کا اضافہ کیا ہے۔ )باریک قلم ،شکستہ(۔
ہوا نے ابر سے کی موسم گل میں نمدبانی کہ تھا آئینۂ خور پر تصور رنگ بستن کا تکلف عافیت میں ہے دل بند قبا واکر نفس بعد از وصاِل دوست تاواں ہے گسستن کا ک چشم سے یک حلقۂ زنجیر بڑھتا ہے ہر اش ِ ش بر آب اندیشہ رستن کا بہ بنِد گریہ ہے نق ِ 62 63
ُ 62اس غزل سے نیا صفحہ شروع ہو تاہے۔ غزل کے اوپر لکھا ہے )موٹا قلم ،بد خط شکستہ(" :معاملہ کردہ شے"۔ 63۔ اس شعر کے حاشیے پر لکھا ہے" :ستم دیدہ" یہ تحریر موٹے قلم کی ہے مگر کچھ ایسی بد خط نہیں۔
سخن ہوں سخن برلب آوردگاں کا سراپا یک آئینہ داِر شکستن ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا ہمہ نا امیدی ،ہمہ بدگمانی میں دل ہوں فریِب وفا خوردگاں کا بہ صورت تکلف ،بہ معنی تاسف اسد میں تبسم ہوں پژمردگاں کا
غزل نمبر 37 ض دو جہاں تیر آیا شب کہ دل زخمئِی عر ِ نالہ بر خود غلِط شوخئِی تاثیر آیا ش دل مت پوچھ وسعِت جیِب جنوِن تپ ِ محمِل دشت بدوِش رِم نخچیر آیا گ تماشا ہستی ہے گرفتارئِی نیرن ِ پِر طاؤس سے دل پاۓ بہ زنجیر آیا دید حیرت کش و خورشید چراغاِن خیال ض شبنم سے چمن آئنہ تعمیر آیا عر ِ عشِق ترسا بچہ و ناِز شہادت مت پوچھ کہ کلہ گوشہ بہ پرواِز پِر تیر آیا اۓ خوشا ذوِق تمناۓ شہادت کہ اسد بے تکلف بہ سجوِد خِم شمشیر آیا
غزل نمبر 38 سیر آں سوۓ تماشا ہے طلب گاروں کا خضر مشتاق ہے اس دشت کے آواروں کا سرخِط بند ہوا نامہ گنہگاروں کا خوِن ہدہد سے لکھا نقش گرفتاروں کا فرِد آئینہ میں بخشیں شکِن خندۂ گل دِل آزردہ پسند آئنہ رخساروں کا داد خواِہ تپش و مہِر خموشی برلب کاغِذ سرمہ ہے جامہ ترے بیماروں کا وحشِت نالہ بہ واماندگئِی وحشت ہے س قافلہ یاں دل ہے گراں باروں کا جر ِ پھر وہ سوۓ چمن آتا ہے ،خدا خیر کرے ُ رنگ اڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا جلوہ مایوس نہیں دل نگرانی غافل چشِم امید ہے روزن تری دیواروں کا
اسد اے ہرزہ دارا ! نالہ بہ غوغا تا چند حوصلہ تنگ نہ کر بے سبب آزاروں کا
غزل نمبر 39 )(64ضعِف 64جنوں کو وقِت تپش در بھی دور تھا اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا اے واۓ غفلِت نگِہ شوق ورنہ یاں ہر پارہ سنگ لخِت دِل کوِہ طور تھا ُ س تپش ہے برق کو اب اس کے نام سے در ِ وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا شاید کہ) 65(65مرگیا ترے رخسار دیکھ کر پیمانہ رات ماہ کا لبریِز نور تھا آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے ہاں اس معاملے میں تو میرا قصور تھا ہر رنگ میں جل اسِد فتنہ انتظار پروانۂ تجلئِی شمع ظہور تھا ِ
غزل نمبر 40 گ خوِن گل ہے ساماں اشک باری کا بہاِر رن ِ جنوِن برق نشتر ہے رِگ ابِر بہاری کا )(66براۓ 66حِل مشکل ہوں زپا افتادۂ حسرت بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا ش دریا نہیں خود دارئِی ساحل حریِف جوش ِ ٰ جہاں ساقی ہے تو باطل ہے دعوی ہوشیاری کا بہ وقِت سرنگونی ہے تصور انتظارستاں نگہ کو آبلوں سے شغل ہے اختر شماری کا 64
64۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر لکھا ہے )باریک قلم ،شکستہ(:
جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر جوہر سواد جلوۂ مژگاِن حور تھا 65 65۔ شاید کتابت کی غلطی نے یہاں "بھر" کو "مر" بنا دیا ہے مگر اس سلسلے میں نسخۂ حمیدیہ کا یہ مقطع بھی قابِل لحاظ ہے: شب کہ تھا نظارگی روۓ بتان کا اے اسد گر گیا باِم فلک سے صبح طشِت ماہتاب 66 66۔ اس مصرع کے ساتھ حاشیے پر یہ الفاظ ملتے ہیں":محررہ عبدالصمد مظہر"۔
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینۂ باِد بہاری کا ش تسلیم ہو گردش سے گردوں کی اسد ساغر ک ِ گ فہِم مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا کہ نن ِ
غزل نمبر 41 )(67طاؤس 67در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا یارب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا عزلت گزیِن بزم ہیں واماندگاِن دید میناۓ مے ہے آبلہ پاۓ نگاہ کا ہر گام آبلے سے ہے دل در تِہ قدم کیا بیم اہِل درد کو سختئِی راہ کا غافل بہ وہِم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں بے شانۂ صبا نہیں طرہ گیاہ کا جیِب نیاِز عشق نشاں داِر ناز ہے آئینہ ہوں شکستِن طرِف کلم کا بزِم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ صیِد ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا جاں در ہواۓ یک نگِہ گرم ہے اسد پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا
غزل نمبر 42 )(68خود پرستی 68سے رہے باہم دگر نا آشنا 67
67۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ دو شعر لکھے ہیں )باریک قلم ،شکستہ(:
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے ُ ُ پر گل خیاِل زخم سے دامن نگاہ کا 68
68۔ سات شعروں کی اس غزل کے حاشیے پر یہ تین شعر لکھے ہیں )باریک قلم ،شکستہ(: ُ رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلص حیف عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا شوق ہے ساماں طراِز نازِش ارباِب عجز
بیکسی میری شریک آئینہ تیرا آشنا ش موۓ دماِغ شوق ہے تیرا تپاک آت ِ ورنہ ہم کس کے ہیں اے داِغ تمنا آشنا ک ہم دیگر نہیں بے دماغی شکوہ سنِج رش ِ یار تیرا جاِم مے ،خمیازہ میرا آشنا جوہِر آئینہ جز رمِز سِر مژگاں نہیں آشنا کی ہم دگر سمجھے ہے ایما آشنا ربِط یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزاۓ بہار سبزہ بیگانہ ،صبا آوارہ ،گل نا آشنا ذرہ ذرہ ساغِر میخانۂ نیرنگ ہے ٰ گردِش مجنوں بہ چشمک ہاۓ لیلی آشنا کوہکن نقاِش یک تمثاِل شیریں تھا اسد سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
غزل نمبر 43 ّ یک ذرہ زمیں نہیں بیکار باغ کا )(69یاں جادہ 69بھی فتیلہ ہے للے کے داغ کا بے مے کسے ہے طاقِت آشوِب آگہی کھینچا ہے عجِز حوصلہ نے خط ایاغ کا تازہ نہیں ہے نشۂ فکِر سخن مجھے تریاکئِی قدیم ہوں دوِد چراغ کا بے خوِن دل ہے چشِم جنوں میں نگہ غبار یہ میکدہ خراب ہے مے کے سراغ کا باِغ شگفتہ تیرا بساِط ہواۓ دل ابِر بہار خم کدہ کس کے دماغ کا جوِش بہار کلفِت نظارہ ہے اسد ہے ابر پنبہ روزِن دیواِر باغ کا
غزل نمبر 44 عیادت سے زبس ٹوٹا ہے دل یاراِن غمگیں کا ذرہ صحرا دستگاہ و قطرہ دریا آشنا میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دِل وحشی کہ ہے عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا 69 69۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ دو شعر تحریر ہیں )باریک قلم ،شکستہ خط(: بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہاۓ گل کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا سو بار بنِد عشق سے آزاد ہم ہوۓ پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
نظر آتا ہے موۓ شیشہ رشتہ شمع بالیں کا ِ صدا ہے کوہ میں حشر آفریں اے غفلت اندیشاں پئے سنجیدِن یاراں ہو حامل خواِب سنگیں کا بجاۓ غنچہ و گل ہے ہجوِم خار و خس یاں تک کہ صرِف بخیۂ دامن ہوا ہے خندہ گلچیں کا نصیِب آستیں ہے حاصِل روۓ عرق آگیں چنے ہے کہکشاں خرمن سے مہ کے خوشہ پرویں کا بہ وقِت کعبہ جوئی ہا جرس کرتا ہے ناقوسی کہ صحرا فصِل گل میں رشک ہے بتخانۂ چیں کا طپیدن دل کو سوِز عشق میں خواِب فرامش ہے رکھا اسپند نے مجمر میں پہلو گرم تمکیں کا )(70اسد 70طرز آشنایاں قدرداِن نکتہ سنجی ہیں سخن کا بندہ ہوں لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا
غزل نمبر 45 بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا واۓ دیوانگئِی شوق کہ ہر دم مجھ کو ُ آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا جلوہ ازبسکہ تقاضاۓ نگہ کرتا ہے جوہِر آئنہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا عشرِت قتل گِہ اہِل تمنا مت پوچھ عیِد نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا لے گئے خاک میں ہم داِغ تمناۓ نشاط تو ہو اور آپ بصد رنگ گلستاں ہونا عشرِت پارۂ دل زخِم تمنا کھانا ش جگر غرِق نمکداں ہونا لذِت ری ِ ُ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ُ ہاۓ اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ُ حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
غزل نمبر 46 70
70۔ یہ مصرع حاشیے پر )موٹے قلم سے ،بدخط( یوں لکھا ہے:
اسد ارباِب فطرت قدرداِن لفظ و معنی ہیں
ورِد اسِم حق سے دیداِر صنم حاصل ہوا رشتۂ تسبیح تاِر جادۂ منزل ہوا محتسب سے تنگ ہے از بسکہ کاِر مے کشاں رز میں جو انگور نکل ،عقدۂ مشکل ہوا قیس نے از بسکہ کی سیِر گریباِن نفس یک دو چیں داماِن صحرا پردۂ محمل ہوا ُ وقِت شب اس شمع رو کے شعلۂ آواز پر گوِش نسریں عارضاں پروانۂ محفل ہوا عیب کا دریافت کرنا ہے ہنر مندی اسد ّ نقص پر اپنے ہوا جو مطلع ،کامل ہوا
غزل نمبر 47 گر نہ 71احواِل شِب فرقت بیاں ہو جاۓ گا ُ بے تکلف داِغ مہ مہِر دہاں ہو جاۓ گا زہرہ گر ایسا ہی شاِم ہجر میں ہوتا ہے آب پرتِو مہتاب سیِل خانماں ہو جاۓ گا ض حال گر وہ مسِت ناِز تمکیں دے صلۓ عر ِ ُ )(72خاِر 72گلبن درد ہاِن گل زباں ہو جاۓ گا ُ لے تو لوں سوتے میں اس کے بوسہ ہاۓ پا مگر ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جاۓ گا گر نگاِہ گرم فرماتی رہی تعلیِم ضبط شعلہ خس میں جیسے خوں در رگ نہاں ہو جاۓ گا )(73گر 73شہادت آرزو ہے ،نشے میں گستاخ ہو گ فساں ہو جاۓ گا بال شیشے کا رِگ سن ِ
71 71۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ تین شعر لکھے ہیں۔ )باریک قلم سے ،شکستہ خط میں( دوسرے اورتیسرے شعر میں لکھنے وال صرف قافیے تک پہنچا ہے۔ ردیف دونوں شعروں میں بہ نظر سہولت حذف کی گئی ہے: دل کو ہم صرِف وفا سمجھے تھے کیا معلوم تھا یعنی یہ پہلے ہی نذِر امتحاں ہو جاۓ گا باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر پر گِل تر ایک چشِم خوں فشاں ہو جاۓ گا واۓ گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جاۓ گا 72
72۔ یہ مصرع کاٹ کر )شکستہ ،بد خط تحریر میں( یوں لکھا ہے:
ُ ُ خاِر گل بہِر دہاِن گل زباں ہو جاۓ گا 73 73۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں اس غزل کا پانچواں اور چھٹا شعر آپس میں بدل گۓ ہیں لیکن قلمی دیوان میں ترتیب اشعار وہ ہے جو یہاں دی گئی ہے۔
فائدہ کیا 74سونچ) (74آخر تو بھی ہے دانا اسد دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جاۓ گا
غزل نمبر 48 قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا خِط جاِم بادہ یکسر رشتۂ گوہر ہوا گرمئِی دولت ہوئی آتش زِن ناِم نکو خانۂ خاتم میں یاقوِت نگیں اختر 75ہوا نشے میں گم کردہ رہ آیا وہ مسِت فتنہ خو گ رفتہ دوِر گردِش ساغر ہوا آج رن ِ درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا )(76اے 76بہ ضبِط حاِل) 77 (77انافسردگاں جوِش جنوں نشۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا )(78زہد 78گر دیدن ہے گرِد خانہ اۓہاۓ منعماں دانۂ تسبیح سے میں مہرہ درششدر ہوا اس چمن میں )79 (79ریشہ داری جس نے سر کھینچا اسد تر زباِن لطِف عاِم ساقِئ کوثر ہوا
74 75
74۔ قلمی دیوان میں اسی طرح ہے" ،سوچ" نہیں ہے۔ 75۔ شیرانی و عرشی" :اخگر" بجاۓ "اختر"۔
76 76۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں اس غزل کا پانچواں اور چھٹا شعر آپ میں بدل گۓ ہیں لیکن یہاں قلمی دیوان ہی کی ترتیب اشعار کا لحاظ کیا گیا ہے۔ 77 77۔ شیرانی وعرشی" :خونا کردگاں" بجاۓ "نا افسردگاں"۔ 78
78۔ قلمی دیوان میں چھٹے شعر پر "لل" لکھ کر حاشیے پر یہ شعر درج کیا ہے )موٹے قلم سے ،شکستہ ،بد خط تحریر(:
اعتباِر عشق کی خانہ خرابی دیکھنا غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا 79
79۔ شیرانی و عرشی" :ریشہ واری" بجاۓ "ریشہ داری"۔
غزل نمبر 49 ُ )(80اف 80نہ کی ،گو سوِز دل سے بے محابا جل گیا ش خاموش کی مانند گویا جل گیا آت ِ دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسری ُ ش گل سے سراپا جل گیا بسکہ شوِق آت ِ شمع رویاں کی سر انگشِت حنائی دیکھ کر غنچۂ گل پرفشاں پروانہ آسا جل گیا خانماِن عاشقاں دوکاِن آتش باز ہے شعلہ رویاں جب ہوۓ گرِم تماشا جل گیا س گرمی ہاۓ صحبت اے خیال تا کجا افسو ِ دل ز آتش)81 (81خیزئِی داِغ تمنا جل گیا ہے اسد بیگانۂ افسردگی اے بے کسی دل ز انداِز تپاِک اہِل دنیا جل گیا
غزل نمبر 50 )(82پھر 82مجھے دیدۂ تر یاد آیا دل جگر تشنۂ فریاد آیا دم لیا تھا نہ قامت نے ہنوز پھر ترا وقِت سفر یاد آیا 80 80۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ پانچ شعر )باریک قلم سے خوش خط( بہ ترتیب ذیل لکھے ہیں: دل میں ذوِق وصل و یاِد یار تک باقی نہیں آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا میری آِہ آتشیں سے باِل عنقا جل گیا دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار اس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا عرض کیجے جوہِر اندیشہ کی گرمی کہاں کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل دیکھ کر طرِز تپاِک اہِل دنیا جل گیا 81
81۔ حاشیے پر "آتش خیزی" کے بجاۓ "سوز آتش" بنایا ہے۔ )مفتی انوار الحق کا نوٹ(۔
82
82۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ ایک شعر درج ہے )باریک قلم ،شکستہ(۔
پھر )ترے( کوچے کو جاتا ہے خیال دِل گم گشتہ مگر یاد آیا مصرع اول میں حاشیہ نگار "ترے" لکھنا بھول گیا ہے۔
عذِر واماندگی ،اے حسرِت دل نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا سادگی ہاۓ تمنا ،یعنی گ نظر یاد آیا پھر وہ نیرن ِ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا آہ وہ جرأِت فریاد کہاں دل کے پردے میں جگر یاد آیا میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد ُ سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
غزل نمبر 51 تو دوست کسو کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا اوروں پہ ہے وہ ظلم جو) 83(83مجھ پر نہ ہوا تھا چھوڑا مِہ نخشب کی طرح دسِت قضا نے ُ خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا جب تک کہ نہ دیکھا تھا قِد یار کا عالم میں معتقِد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا میں سادہ دل آزردگئِی یار سے خوش ہوں یعنی سبِق شوق مکرر نہ ہوا تھا دریاۓ معاصی تنگ آبی سے ہوا خشک میرا سِر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا )(84جاری 84تھی اسد داِغ جگر سے مرے) 85(85تحصیل آتش کدہ جاگیِر سمندر نہ ہوا تھا
غزل نمبر 52 ہے تنگ ز واماندہ شدن حوصلۂ پا جو اشک گرا خاک میں ،ہے آبلۂ پا سرمنزِل ہستی سے ہے صحر اۓ طلب دور جو خط ہے کِف پا پہ سو ہے سلسلۂ پا 83
83۔ شیرانی" :کہ"۔
84 84۔ اس مقطع کے سامنے حاشیے پر 1248ھ کی مہر لگی ہے۔ 85
شیرانی" :مری"۔
دیدار طلب ہے دِل واماندہ کہ آخر نوِک سِر مژگاں سے رقم ہو گلۂ پا 86 آیا نہ بیاباِن طلب کام زباں تک) (86 تبخالۂ لب ہو نہ سکا آبلۂ پا فریاد سے پیدا ہے اسد گرمئِی وحشت س آبلۂ پا تبخانۂ لب ہے جر ِ
غزل نمبر 53 ض 87نیاِز عشق کے قابل نہیں رہا )(87عر ِ جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے یاں عرصۂ طپیدِن بسمل نہیں رہا ہوں قطرہ زن بہ وادئِی حسرت شبانہ روز جز تاِر اشک جادۂ منزل نہیں رہا بر روۓ شش جہت دِر آئینہ باز ہے یاں امتیاِز ناقص و کامل نہیں رہا اے آہ میری خاطِر وابستہ کے سوا دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا ہر چند ہوں میں طوطئِی شیریں سخن ولے آئینہ ،آہ ،میرے مقابل نہیں رہا انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسد جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
غزل نمبر 54 86
86۔ عرشی" :گاِم زباں تک" )کام زباں تک کے بجاۓ(
87
87۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ چھ شعر بہ ترتیب ذیل لکھے ہیں )باریک قلم ،شکستہ خط(:
جاتا ہوں داِغ حسرِت ہستی لیے ہوئے ہوں شمع کشتہ در خوِر محفل نہیں رہا ِ مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں شایاِن دست و بازوۓ قاتل نہیں رہا گو میں رہا رہیِن ستم ہاۓ روزگار لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا وا کر دیے ہیں شوق نے ہنِد نقاِب حسن غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا دل سے ہواۓ کشِت وفا مٹ گئی کہ واں حاصل سواۓ حسرِت حاصل نہیں رہا بیداِد عشق سے نہیں ڈرتا ہوں پر اسد جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا واضح رہے کہ حاشیے میں لکھے ہوۓ مقطع کا مصرع اول )بصورت بال( متداول دیوان میں اختیار کردہ مصرع )بیداد عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسد( سے مختلف ہے۔
بسکہ عاجز نارسائی سے کبوتر ہوگیا ش پر ہوگیا صفحۂ نامہ غلِف بال ِ صورِت دیبا تپش سے میری غرِق خوں ہے آج خاِر پیراہن رِگ نستر) 88(88کو نشتر ہو گیا بسکہ آئینے نے پایا گرمئِی رخ سے گداز دامِن تمثال مثِل برِگ گل تر ہو گیا شعلہ رخسارا! تحیر سے تری رفتار کے خاِر شمع آئنہ ،آتش میں جوہر ہو گیا ِ بسکہ وقِت گریہ نکل تیرہ کاری کا غبار دامِن آلودۂ عصیاں گراں تر ہوگیا حیرِت انداِز رہبر ہے عناں گیر اۓ اسد ّ ش پاۓ خضر یاں س ِد سکندر ہوگیا نق ِ
غزل نمبر 55 گرفتاری میں فرماِن خِط تقدیر ہے پیدا کہ طوِق قمری از ہر حلقۂ زنجیر ہے پیدا زمیں کو صفحۂ گلشن بنایا خوں چکانی نے چمن بالیدنی ہا از رِم نخچیر ہے پیدا مگر وہ شوخ ہے طوفاں طراِز شوِق خو نریزی کہ در بحِر کہاں بالیدہ موِج تیر ہے پیدا نہیں ہے کف لِب نازک پہ فرِط نشۂ مے سے لطافت ہاۓ جوِش حسن کا سر شیر ہے پیدا ُ عروِج امیدی چشم زخِم چرخ کیا جانے بہاِر بے خزاں از آِہ بے تاثیر ہے پیدا اسد جس شوق سے ذرے تپش فرساہوں روزن میں جراحت ہاۓ دل سے جوہِر شمشیر ہے پیدا
88
88۔ عرشی "بستر"۔
غزل نمبر 56 بہ مہِر نامہ جو بوسہ گِل پیام رہا 89 ہمارا کام ہوا اور تمہارا نام ہو)(89ا ہوا نہ مجھ سے بجز درد حاصِل صیاد بساِن اشک گرفتاِر چشِم دام رہا دل و جگر تِف) 90(90فرقت سے جل کے خاک ہوۓ ولے ہنوز خیاِل وصال خام رہا شکسِت رنگ کی لئی سحر شِب سنبل پہ زلِف یار کا افسانہ ناتمام رہا دہاِن تنگ مجھے کس کا یاد آیا تھا کہ شب خیال میں بوسوں کا ازدحام رہا نہ پوچھ حال شب و روِز ہجر کا غالب خیاِل زلف و رِخ دوست صبح و شام رہا
غزل نمبر 57 سحر گہ باغ میں وہ حیرِت گلزار ہو پیدا ُ گ گل اور آئینۂ دیوار ہو پیدا رن اڑے ِ بتاں! زہر آب اس شدت سے دوپیکاِن ناوک کو کہ خِط سبز تا پشِت لِب سوفار ہو پیدا لگے گرسنگ سر پر یار کے دست نگاریں سے بجاۓ زخم گل بر گوشۂ دستار ہو پیدا )(91کروں 91گر عرض سنگینئِی کہسار اپنی بے تابی ض دِل بیمار ہو پیدا رِگ ہر سنگ سے نب ِ گ شیشہ توڑوں ساقیا پیمانۂ پیماں بہ سن ِ اگر ابِر سیہ مست از سوۓ کہسار ہو پیدا اسد مایوس مت ہو گرچہ رونے میں اثر کم ہے کہ غالب ہے کہ بعد از زارئِی بسیار ہو پیدا
89" 89۔ متن میں یہ مصرع یونہی درج ہے لیکن اس غزل کی ردیف کی رعایت آخر میں "رہا" کی متقاضی ہے اس لیے شاید یہ مصرع یوں ہو کہ":ہمارا کام ہوا اور تمہارا نام رہا" )مفتی انوار الحق کا نوٹ( 90 90۔ جدید امل " :تپ" جویریہ مسعود 91
91۔ "کرے"؟
غزل نمبر 58 )(92خلوِت 92آبلۂ پا میں ہے جولں میرا خوں ہے دل تنگئِی وحشت سے بیاباں میرا ش بازی کدۂ حسرِت جاوید رسا عی ِ خوِن آدینہ سے رنگیں ہے دبستاں میرا حسرِت نشۂ وحشت نہ بسعئِی دل ہے ض خمیازۂ مجنوں ہے گریباں میرا عر ِ سرمۂ مفت نظر ہوں ،مری قیمت یہ ہے کہ رہے چشِم خریدار پہ احساں میرا عالِم بے سروسامانئِی فرصت مت پوچھ لنگِر وحشِت مجنوں ہے بیاباں میرا 93 ش رشک ہوں اے جلوۂ حسن )(93بے دماِغ تپ ِ تشنۂ خوِن دل و دیدہ ہے پیماں میرا فہم زنجیرئِی بے ربطئِی دل ہے یارب 92
92۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ دو شعر درج ہیں )باریک قلم ،شکستہ(۔ پہلے شعر کے اوپر حاشیے ہی میں "مطلع ثانی" لکھا ہے:
ذوِق سرشار سے بے پردہ ہے طوفاں میرا موِج خمیازہ ہے ہر زخِم نمایاں میرا رخصِت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے جہرے سے ہو ظاہر غِم پنہاں میرا 93
93۔ یہاں حاشیے پر متداول دیوان کی حسب ذیل غزل کے پہلے سات شعر درج ہیں اور آخری تین شعر اگلے صفحے کے حاشیے
پر: عشرِت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا تجھ سے قسمت میں مری صورِت قفِل ابجد تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا ش چارۂ زحمت میں تمام دل ہؤا کشمک ِ مٹ گیا گھسنے میں اس عدے کا وا ہو جانا اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم ال ال اس قدر دشمِن ارباِب وفا ہو جانا ضعف سے گریہ مبدل بہ دِم سر دہوا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا دل سے مٹنا تری انگشِت حنائی کا خیال ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا ہے مجھے ابِر بہاری کا برس کر کھلنا روتے روتے غِم فرقت میں فنا ہو جانا گر نہیں نکہِت گل کو ترے کوچے کی ہوس کیوں ہے گرِد رِہ جولِن صبا ہو جانا تا کہ تجھ پر کھلے اعجاِز ہواۓ صیقل دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا بخشے ہے جلوۂ گل ذوِق تماشا غالب چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
کس زباں میں ہے لقب خواِب پریشاں میرا بہ ہوس درِد سِر اہِل سلمت تا چند مشکِل عشق ہوں مطلب نہیں آساں میرا بوۓ یوسف مجھے گلزار سے آتی تھی اسد َ دے نے برباد کیا پیرہنستاں میرا
غزل نمبر 59 شب کہ وہ مجلس فروِز خلوِت ناموس تھا )(94شمع 94سے یک خار در پیراہِن فانوس تھا حاصِل الفت نہ دیکھا جز شکسِت آرزو دل بہ دل پیوستہ گویا یک لِب افسوس تھا بت پرستی ہے بہاِر نقش بندی ہاۓ دہر ہر صریِر خامہ میں یک نالۂ ناقوس تھا 95 گ صد گلستاں گل کیا )(95غنچۂ خاطر نے رن ِ گردۂ تصویِر گلشن بیضۂ طاؤس تھا پوچھ مت بیمارئِی غم کی فراغت کا بیاں جوکہ کھایا خوِن دل بے منِت کیموس تھا کل اسد کو ہم نے دیکھا گوشۂ غم خانہ میں دست برسر ،سربہ زانوئِی دِل مایوس تھا
94
94۔ یہ مصرع بصورت بال لکھنے کے بعد یوں بدل دیا ہے:
رشتۂ ہر شمع خاِر کسوِت فانوس تھا 9595۔ حاشیے پر )باریک قلم ،شکستہ( پہ دو شعر لکھے ہیں: گ یک گلستان گل کیا طبع کے واشد نے رن ِ یہ دِل وابستہ گویا بیضۂ طاؤس تھا ُ مشہِد عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا کس قدر یا رب ہلِک حسرِت پابوس تھا
@@ردیف ب غزل نمبر 60 بس کہ ہے میخانہ ویراں جوں بیاباِن خراب س چشِم آہوۓ رمخوردہ ہے داِغ شراب عک ِ تیرگئِی ظاہری ہے طبع موزوں کا نشاں ِ س سواِد صفحہ ہے گرِد کتاب غافلں عک ِ یک نگاِہ صاف صد آئینۂ تاثیر ہے س خِط جاِم آفتاب ہے رِگ یاقوت عک ِ ہے عرق افشاں مشی سے ادہِم مشکیِن یار وقِت شب اختر کنی ہے چشِم بیداِر رکاب ہے شفق سوز جگر کی آگ کی بالیدگی 96 ک کباب ہر یک اختر سے) (96فلک پر قطرۂ اش ِ ض رنگیں سے حیرت جلوہ ہے بسکہ شرِم عار ِ گ گل آئینہ پرداِز نقاب ہے شکسِت رن ِ شب کہ تھا نظارگی روۓ بتاں کا اے اسد گر گیا باِم فلک سے صبح طشِت ماہتاب
96
96۔ عرشی" :ہے"۔
غزل نمبر 61 )(97ہے 97بہاراں میں خزاں پرور خیال عندلیب گ گل آتش کدہ ہے زیِر باِل عندلیب رن ِ عشق کو ہر رنگ شاِن حسن ہے مِد نظر مصرِع سرِو چمن ہے حسِب حاِل عندلیب گ گل حیرِت حسِن چمن پیرا سے تیرے رن ِ گ)98 (98پریدن ہے بہ باِل عندلیب بسمل آہن ِ عمر میری ہوگئی صرِف بہاِر حسِن یاد گ چمن ہے ماہ و ساِل عندلیب گردِش رن ِ منع مت کر حسن کی ہم کو پرستش سے کہ ہے بادۂ نظارۂ گلشن حلِل عندلیب ہے مگر موقوف بر وقِت دگر کاِر اسد اے شِب پروانہ و)99 (99صبح وصاِل عندلیب@@ ِ 97 97۔ اس غزل کے حاشیے پر بارہ شعر کی حسب ذیل غزل موٹے قلم سے شکستہ خط میں لکھی ہے۔ واضح رہے کہ دسویں شعر کے پہلے مصرع میں "ایک عالم میں ہے طوفانئی کیفیِت فصل" قلمی نسخے کی عبارت کے مطابق ہے۔ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے میں یہ مصرع "ایک عالم پہ ہے۔۔۔" ہو گیا ہے۔ پھر ہؤا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب دے بِط مے کو دل و دسِت شنا موج شراب پوچھ مت وجِہ سیہ مستئ ارباِب چمن سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہوا موِج شراب جو ہوا غرقۂ مے بخِت رسا رکھتا ہے سر سے گزرے پہ بھی ہے باِل ہما موِج شراب ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر ض ہوا موِج شراب موِج ہستی کو کرے فی ِ چار موج اٹھتی ہے طوفان طرب سے ہر سو موِج گل ،موِج شفق ،موِج صبا ،موِج شراب جس قدر روح بناتی ہے جگر تشنۂ ناز دے ہے تسکیں ،بدِم آِب بقا ،موِج شراب بسکہ دوڑے ہے رِگ تاک میں خوں ہو ہو کر شہپِر رنگ سے ہے بال کشا موِج شراب موجۂ گل سے چراغاں ہے گزرگاِہ خیال ہے تصور میں زبس جلوہ نما موِج شراب نشے کے پردے میں ہے محِو تماشاۓ دماغ بسکہ رکھتی ہے سِر نشو و نما موِج شراب ایک عالم میں ہے طوفانئِی کیفیت فصل موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا موِج شراب شرِح ہنگامۂ ہستی ہے زہے موسِم گل ہے تصور میں زبس جلوہ نما موِج شراب ُ ہوش اڑتے ہیں مرے جلوۂ گل دیکھ اسد پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موِج شراب 98
98۔ اس مصرع میں لفظ "آہنگ" کاٹ کر لفظ "ذوق" لکھا گیا ہے۔ مصرع کی صورت اصلح کے بعد یہ ہے۔ بسمِل ذوِق پریدن ہے بہ باِل عندلیب 99 ب پرانہ و روِز وصاِل عندلیب(۔ 99۔ اس لفظ کو بدل کو موٹے قلم سے شکستہ خط میں "روز" لکھا ہے۔ )اے ش ِ
ردیف ت غزل نمبر 62 ُ ُ )(100جاتا 100ہوں جدھر سب کی اٹھے ہے ادھر انگشت یکدست جہاں مجھ سے پھرا ہے مگر انگشت مژگاں کی محبت میں جو انگشت نما ہوں لگتی ہے مجھے تیر کے مانند ہر انگشت ہر غنچۂ گل صورِت یک قطرۂ خوں ہے )(101خوباں 101کا جو دیکھا ہے حنا بستہ سر انگشت گرمی ہے زباں کی سبِب سوختِن جاں ہے شمع شہادت کے لیے سر بسر انگشت لکھتا ہوں اسد سوزِش دل سے سخِن گرم تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
100
100۔ اس غزل کے حاشیے پر حسب ذیل پانچ شعر بہ ترتیِب ذیل درج ہیں )موٹا قلم ،شکستہ خط(:
ّ کافی ہے نشانی تری چھلے کا نہ دینا خالی مجھے دکھل کے بہ وقت سفر انگشت خوں دل میں جو میر ے نہیں باقی تو عجب کیا جوں ماہئِی بے آب تڑپتی ہے ہر انگشت شوخی تری کہہ دیتی ہے احوال ہمارا راِز دِل صد پارہ کی ہے پردہ در انگشت کس رتبے میں باریکی و نرمی ہے کہ جوں گل آتی نہیں پنجے میں بس اس کے نظر انگشت افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے جن لوگوں کی تھی درخوِر عقِد گہر انگشت 101
101۔ یہ مصرع یوں بدل گیا ہے )موٹا قلم ،بد خط تحریر(:
دیکھا ہے کسی کا جو حنا بستہ سر انگشت
غزل نمبر 63 )(102نیم 102رنگی جلوہ ہے بزِم تجلی زاِر دوست دوِد شمع کشتہ تھا شاید خِط رخساِر دوست چشم بنِد خلق جز تمثال خود بینی نہیں آئنہ ہے قالِب خشِت در و دیواِر دوست برِق خرمن زاِر گوہر ہے نگاِہ تیزیاں اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمئِی رفتاِر دوست ہے سوا نیزے پہ اس کے قامِت نوخیز سے آفتاِب صبح محشر ہے گِل دستاِر دوست ِ 103 اے عدوۓ مصلحت) (103چندے بہ ضبط افسردہ رہ کردنی ہے جمع تاِب شوخئِی دیداِر دوست لغزِش مستانہ و جوش تماشا ہے اسد ش مے سے بہاِر گرمئِی بازار دوست آت ِ
102
102۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ تحریر میں حسب ذیل غزل درج ہے:
رہا گر کوئی تا قیامت سلمت پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلمت جگر کو مرے عشِق خوننابہ مشرب لکھے ہے خداونِد نعمت سلمت دو عالم کی ہستی پہ خِط وفا کھینچ دل و دسِت ارباِب ہمت سلمت علی الرغم دشمن شہیِد وفا ہوں مبارک مبارک سلمت سلمت نہیں گر بہ کاِم دِل خستہ گردوں جگر خواہیے جوِش حسرت سلمت نہیں گر سر و برِگ سوداۓ معنی گ صورت سلمت تماشاے نیرن ِ نہ اوروں کی سنتا ،نہ کہتا ہوں اپنی سِر خستہ دشوار وحشت سلمت وفوِر بل ہے ہجوِم وفا ہے سلمت سلمت ،سلمت سلمت نہ فکر سلمت ،نہ بیم سلمت ز خود رفتگی ہاۓ حیرت سلمت رہے غالِب خستہ مغلوِب گردوں یہ کیا بے نیازی ہے حضرت سلمت 103
103۔ عرشی" :سرخستہ و شوِر وحشت۔۔۔"۔
ردیف ث غزل نمبر 64 دوِد شمع کشتۂ گل بزم سامانی عبث ِ یک شبہ آشفتہ ناِز سنبلستانی عبث ہے ہوس محمل بہ دوِش شوخئِی ساقئِی مست نشۂ مے کے تصور میں نگہبانی عبث باز ماندن ہاۓ مژگاں ہے یک آغوِش وداع عید در حیرت سواِد چشِم قربانی عبث ُ جز غباِر کردہ سیر آہنگئِی پرواز کو ؟ بلبِل تصویر و دعواۓ پرافشانی عبث سر نوشِت خلق ہے طغراۓ عجِز اختیار آرزوہا خار خاِر چیِن پیشانی عبث ش مدعا ہووے نہ جز موِج سراب جب کہ نق ِ وادئِی حسرت میں پھر آشفتہ جولنی عبث دست برہم سودہ ہے مژگاِن خوابیدہ اسد اے دل از کف دادۂ غفلت پیشمانی عبث
غزل نمبر 65 )(104ناِز 104لطِف عشق با وصِف توانائی عبث گ محک دعواۓ مینائی عبث رنگ ہے سن ِ ناخِن دخِل عزیزاں یک قلم ہے نقب زن پاسبانئِی طلسِم کنج) 105(105تنہائی عبث ِ محمِل پیمانۂ فرصت ہے بر دوِش حباب دعوئ دریا کشی و نشہ پیمائی عبث )(106طبع 106نالں حامِل صد غلبۂ تاثیر ہے ِ دل کو اے عاشق کشاں تعلیِم خارائی عبث
104 104۔ اس غزل کے حاشیے پر اس شعر کا اضافہ کیا ہے )موٹا قلم ،شکستہ(: قیس بھاگا شہر سے شرمندہ ہو کر سوۓ دشت بن گیا تقلید سے میری یہ سودائی عبث 105
105۔ عرشی" :گنج"
106 106۔ حاشیے پر یہ شعر موٹے قلم سے شکستہ خط میں یوں بدل ہے: طبع عاشق حامِل صد غلبۂ تاثیر ہے ِ دل کو اے بیداد خو تعلیِم خارائی عبث
ردیف ج غزل نمبر 66 )(107گلشن 107میں بندوبست بہ ضبِط دگر ہے آج قمری کا طوق حلقۂ بیروِن در ہے آج معزولئِی تپش ہوئی افراِط انتظار چشِم کشادہ حلقۂ بیروِن در ہے آج حیرت فروِش صد نگرانی ہے اضطرار )(108سر 108رشتہ چاِک جیب کا تاِر نظر ہے آج اے عافیت کنارہ کر ،اے انتظام چل سیلِب گریہ دشمِن دیوار و در ہے آج ہوں داِغ نیِم رنگئِی شاِم وصاِل یار نوِر چراِغ بزم سے جوِش سحر ہے آج )(109بیتابی 109نے کیا سفِر سوختن تمام پیراہِن خسک میں غباِر شرر ہے آج تا صبح ہے بہ منزِل مقصد رسیدنی دوِد چراِغ خانہ غباِر سفر ہے آج دور اوفتادۂ چمِن فکر ہے اسد مرِغ خیال بلبِل بے بال و پر ہے آج
غزل نمبر 67 ش گلبرگ سے ہے گل کے لب کو اختلج جنب ّ ِ َ ح ِب شبنم سے صبا ہر صبح کرتی ہے علج شاِخ گل جنبش میں ہے گہوارہ آسا ہر نفس طفِل شوِخ غنچۂ گل بسکہ ہے وحشت مزاج ک حسن کر ،میخانہا نذِر خمار سیِر مل ِ چشِم مسِت یار سے ہے گردِن مینا پہ باج گریہ ہاۓ بیدلں گنج شرر در آستیں ِ 107 107۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر تحریر ہے۔ )موٹا قلم ،شکستہ خط(: آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ تاِر نفس کمنِد شکاِر اثر ہے آج 108
108۔ شیرانی" :ہر رشتہ"۔
109
109۔ اسے بدل کر یوں لکھا ہے )موٹا قلم ،شکستہ خط(" :کرتی ہے عاجزی۔۔۔"
قہرماِن عشق میں حسرت سے لیتے ہیں خراج ہے سواِد چشِم قربانی میں یک عالم مقیم حسرِت فرصت نے بخشا بسکہ حیرت کو رواج اے اسد ہے مستعِد شانہ گشتن) 110(110بہِر زلف پنجۂ مژگاں بخود بالیدنی رکھتا ہے آج
110 110۔ اس مقطع کے دو لفظوں "شانہ گشتن" کے نیچے موٹے قلم سے شکستہ خط میں دو لفظ "گیسو شدن" لکھے ہیں۔ اگر یہ تحریر غالب کی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس مصرع کو بدلنے کا خیال کیا اور پھر ترک کر دیا ،بصورت دیگر نقل کرنے والے نے ترمیم کی صحیح نقل نہیں کی۔
ردیف چ غزل نمبر 68 بے دل نہ ناِز وحشِت جیِب دریدہ کھینچ س آرمیدہ کھینچ جوں بوۓ غنچہ یک نف ِ یک مشِت خوں ہے پرتِو خور سے تمام دشت درِد طلب بہ آبلۂ نادمیدہ کھینچ پیچیدگی ہے حامِل طوماِر انتظار پاۓ نظر بہ دامِن شوِق دویدہ کھینچ برِق بہار سے ہوں میں پادر حنا ہنوز اے خاِر دشت دامِن شوِق رسیدہ کھینچ ک عبرت ہے چشِم صید بیخود بہ لطِف چشم ِ س ناکشیدہ کھینچ یک داِغ حسرِت نف ِ بزِم نظر ہیں بیضۂ طاؤس خلوتاں فرِش طرب بہ گلشِن نا آفریدہ کھینچ دریا بساِط دعوِت سیلب ہے اسد ساغر بہ بارگاِہ دماِغ رسیدہ کھینچ
غزل نمبر 69 قطع سفِر ہستی و آراِم فنا ہیچ ِ رفتار نہیں بیشتر از لغزِش پا ہیچ حیرت ہمہ اسرار پہ مجبوِر خموشی ہستی نہیں جز بستِن پیماِن وفا ہیچ تمثال گداز آئنہ ہے عبرِت بینش نظارہ تحیر چمنساِن بقا ہیچ گلزاِر دمیدن ،شررستاِن رمیدن فرصت تپش و حوصلۂ نشو و نما ہیچ گ عدم نالہ بہ کہسار گرو ہے آہن ِ ہستی میں نہیں شوخئِی ایجاِد صدا ہیچ کس بات پہ مغرور ہے اے عجِز تمنا ساماِن دعا وحشت و تاثیِر دعا ہیچ گ اسد میں نہیں جز نغمۂ بیدل آہن ِ عالم ہمہ افسانۂ ما دارد و ما ہیچ
غزل نمبر 70 نفس نہ انجمِن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں ،انتظاِر ساغر کھینچ کماِل گرمئِی سعئِی تلِش جلوہ) 111(111نہ پوچھ گ خار مرے آئنے سے جوہر کھینچ برن ِ نہ کہہ کہ طاقِت رسوائِی وصال نہیں اگر یہی عرِق فتنہ ہے مکرر کھینچ تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل کیا ہے کس نے اشارہ کہ ناِز بستر کھینچ جنوِن آئنہ مشتاِق یک تماشا ہے ہمارے صفحے پہ باِل پری سے مسطر کھینچ بہ نیم غمزہ ادا کر حِق ودیعِت ناز نیاِم پردۂ زخِم جگر سے خنجر کھینچ ش پنہان مرے قدح میں ہے صہباۓ آت ِ بروۓ سفرہ کباِب دِل سمندر کھینچ تری طرف ہے بہ حسرت نظارۂ نرگس بکورئِی دل و چشِم رقیب ساغر کھینچ خماِر منِت ساقی اگر یہی ہے اسد دِل گداختہ کے میکدے میں ساغر کھینچ
111
111۔ متداول دیوان میں اس لفظ کے بجاۓ "دید" ہے مگر قلمی دیوان میں "جلوہ" ہی ہے۔
ردیف ح غزل نمبر 71 دعوئ عشِق بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح ساِق گلرنگ سے اور آئنۂ زانو سے جامہ زیبوں کے سدا ہیں تِہ داماں گل و صبح س یک دیگر وصِل آئینہ رخاں ہم نف ِ ہیں دعا ہاۓ سحرگاہ سے خواہاں گل وصبح 112 آئنہ خانہ ہے صحِن چمنستاں تجھ سے)(112 بسکہ ہیں بے خود و وارفتہ و حیراں گل و صبح س چند اسد زندگانی نہیں بیش از نف ِ غفلت آرامئِی یاراں پہ ہیں خنداں گل و صبح
112
112۔ یہاں متن میں "تجھ سے" کو کاٹ کر موٹے قلم سے شکستہ خط میں "یکسر" تحریر کیا ہے۔
ردیف د غزل نمبر 72 بسکہ وہ پا کوبیاں در پردۂ وحشت ہیں یاد ہے غلِف دفچۂ خورشید بر یک گرد باد طرفہ موزونی ہے صرِف جنگجوئی باۓ یار ہے سِر مصراِع صاِف تیغ خنجر مستزاد ہاتھ آیا زخِم تیغ یار سا پہلو نشیں ِ کیوں نہ ہو وے آج کے دن بیکسی کی روح شاد کیجے آہوۓ ختن کو خضِر صحراۓ طلب مشک ہے سنبلستاِن زلف میں گرِد سواد ہم نے سو زخِم جگر پر بھی زباں پیدا نہ کی گل ہوا ہے ایک زخِم سینہ پر خواہاِن داد بسکہ ہیں در پردہ مصروِف سیہ کاری تمام آستر ہے خرقۂ زہاد کا صوِف مداد تیغ درکف ،کف بلب ،آتا ہے قاتل اس طرف مژدہ باد اے آرزوۓ مرِگ غالب مژدہ باد
غزل نمبر 73 تو پست فطرت اور خیاِل بسا بلند اے طفِل خود معاملہ قد سے عصا بلند ویرانئِی جز آمد و رفِت نفس نہیں َ ہے کوچہ ہاۓ نے میں غبار صدا بلند رکھتا ہے انتظاِر تماشاۓ حسِن دوست مژگاِن باز ماندہ سے دسِت دعا بلند موقوف کیجیے یہ تکلف نگاریاں گ حنا بلند ہوتا ہے ورنہ شعلۂ رن ِ قرباِن اوج ریزئِی چشِم حیا پرست یک آسماں ہے مرتبۂ پشِت پا بلند ہے دلبری کمینگر ایجاِد یک نگاہ کاِر بہانہ جوئی چشِم حیا بلند بالیدگی نیاِز قِد جاں فزا اسد در ہر نفس ،بقدِر نفس ،ہے قبا بلند
غزل نمبر 74 حسرِت دستگہ و پاۓ تحمل تا چند ُ رِگ گردن ،خِط پیمانۂ بے مل تا چند ہے گلیِم سیِہ بخِت پریشاں کاکل موئنہ بافتِن ریشۂ سنبل تاچند کوکِب بخت بجز روزِن پر دود نہیں ک چشِم جنوں حلقۂ کاکل تا چند عین ِ چشم بے خوِن دل و دل تہی از جوِش نگاہ ُ س گل تا چند ض فسوِن ہو ِ بزباں عر ِ بزم داِغ طرب و باغ کشاِد پِر رنگ شمع و گل تاکے و پروانہ و بلبل تا چند نالہ داِم ہوس و درِد اسیری معلوم شرِح بر خود غلطی ہائے تحمل تا چند جوہِر آئنہ فکِر سخِن موۓ دماغ س زانوۓ تامل تا چند ض حسرت پ ِ عر ِ سادگی ہے عدِم قدرِت ایجاِد غنا ناکسی! آئنۂ ناِز توکل تاچند اسِد خستہ گرفتاِر دو عالم اوہام مشکل آساں کِن یک خلق! تغافل تاچند
غزل نمبر 75 بہ کاِم دل کریں کس طرح گمرہاں فریاد ہوئی ہے لغزِش پا لکنِت زباں فریاد کماِل بندگئِی گل ہے رہِن آزادی ز دسِت مشِت پر و خاِر آشیاں فریاد س آشنا کہاں ،ورنہ نواز ِش نف ِ َ گ نے ہے نہاں در ہر استخواں فریاد برن ِ تغافل آئنہ داِر خموشئِی دل ہے ہوئی ہے محو بہ تقریِب امتحاں فریاد ہلِک بے خبری نغمۂ وجود و عدم جہاں و اہِل جہاں سے جہاں جہاں فریاد جواِب سنگدلی ہائے دشمناں ،ہمت )(113از دسِت 113شیشگئِی طبع دوستاں فریاد ِ ہزار آفت و یک جاِن بے نوائے اسد 113یہ مصرع کاٹ کر یوں بدل ہے: "ز دست شیشۂ دلہاۓ دوستاں فریاد"
خدا کے واسطے اے شاِہ بے کساں فریاد
غزل نمبر 76 ُ ُ )(114حسن 114غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد بارے آرام سے ہیں اہِل جفا میرے بعد منصِب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا ہوئی معزولئِی انداز و ادا میرے بعد ُ ُ ُ شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد خوں ہے دل خاک میں احواِل بتاں پر یعنی ُ ان کے ناخن ہوۓ محتاِج حنا میرے بعد در خوِر عرض نہیں جوہِر بیداد کو جا ُ نگِہ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد ہے جنوں اہِل جنوں کے لیے آغوِش وداع چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد کون ہوتا ہے حریِف مۓ مرد افگِن عشق ہے مکرر لِب ساقی پہ صل میرے بعد غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی کہ کرے تعزیِت مہر و وفا میر ے بعد 115 تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ متفرق ہوۓ میرے رفقا میرے بعد آۓ ہے بیکسئِی عشق پہ رونا غالب کس کے گھر جاۓ گا سیلِب بل میرے بعد
114 114۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر درج کیا ہے )موٹے قلم سے ،شکستہ مگر بدخط نہیں ہے(: ّ تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی ن۔ق۔ات بے خطر جیتے ہیں ارباِب ریا میرے بعد 115
115۔ متداول دیوان میں یہ شعر نہیں ہے۔ جویریہ مسعود
ردیف ر غزل نمبر 77 ش نظر در و دیوار بل سے ہیں جو یہ پی ِ نگاِہ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار جنوِن اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ کہ ہوگئے مرے دیوار و در ،در و دیوار ُ نہیں ہے سایہ کہ سن کر نویِد مقدِم یار گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار کیا ہے تو نے مۓ جلوہ کس قدر ارزاں کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار جو ہے تجھے سِر سوداۓ انتظار تو آ کہ ہیں دکاِن متاِع نظر در و دیوار ہجوِم گریہ کا سامان کب کیا میں نے کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار وہ آرہا مرے ہمسایے میں تو سایے سے ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار ش مقدِم سیلب نہ پوچھ بے خودئِی عی ِ کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار نہ کہہ کسو سے کہ غالب نہیں زمانے میں حریِف راِز محبت مگر در و دیوار
غزل نمبر 78 ُ )(116شیشۂ 116آتشیں رِخ پر نور عرق از خط چکیدہ روغِن مور بسکہ ہوں بعِد مرگ بھی نگراں مردمک سے ہے خال برلِب گور بار لتی ہے دانہاۓ سرشک 116
116۔ اس غزل پر متن میں موٹے قلم سے بد خط "غلط" لکھا ہے۔
مژے سے)117 (117ریشۂ رِز انگور ظلم کرنا گداۓ عاشق پر ُ نہیں شاہاِن حسن کا دستور دوستو مجھ ستم رسیدہ سے دشمنی ہے وصال کا مذکور زندگانی پہ اعتماد غلط ہے کہاں قیصر اور کہاں فغفور کیجے جوں اشک اور قطرہ زنی اے اسد ہے ہنوز دلی دور
غزل نمبر 79 118 ک ماہتاب آئینے پر )(118بسکہ مائل ہے وہ رش ِ ہے نفس تاِر شعاِع آفتاب آئینے پر بازگشِت جادہ پیماۓ رِہ حیرت کہاں غافلں غش جان کر چھڑکے ہیں آب آئینے پر بدگماں کرتی ہے عاشق کو خود آرائی تری بے دلوں کو ہے براِت اضطراب آئینے پر ناِز خودبینی کے باعث خونئِی صد بے گناہ جوہِر شمشیر کو ہے پیچ و تاب آئینے پر ُ ّ 119 س ِد اسکندر ہو از بہِر نگاِہ گل رخاں)(119 گر کرے یوں امر نہئِی بو تراب آئینے پر دل کو توڑا جوِش بیتابی سے غالب کیا کیا؟ رکھ دیا پہلو بہ وقِت اضطراب آئینے پر
غزل نمبر 80 نہیں بنِد زلیخا بے تکلف ماِہ کنعاں پر سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں) 120(120پر لرزتا ہے مرا دل زحمِت مہِر درخشاں پر میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خاِر بیاباں پر 117 118
117۔ عرشی" :مژہ ہے"۔ 118۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ شعر تحریر ہے:
مدعی میرے صفاۓ دل سے ہوتا ہے خجل ہے تماشا زشت رویوں کا عتاب آئینے پر 119
119۔ عرشی" :سد اسکندر بنے بہِر نگاہ گلرخاں"۔
120
120۔ متن میں زندں درج ہے جو کہ یقینی طور پر کتابت /ٹائپنگ کی غلطی ہے۔ جویریہ مسعود
ض عشق مستغنی دل خونیں جگر بے صبر و فی ِ ِ ٰ الہی یک قیامت خاور آٹوٹے بدخشاں پر ُ س بیخودی ہوں اس زمانے سے فنا تعلیِم در ِ کہ مجنوں لم الف لکھتا تھا دیواِر دبستاں پر ش مرہم سے فراغت کس قدر رہتی مجھے تشوی ِ بہم گر صلح کرتے پارہ ہاۓ دل نمکداں پر نہیں اقلیِم الفت میں کوئی طوماِر ناز ایسا ُ کہ پشِت چشم سے جس کے نہ ہووے مہر عنواں پر مجھے اب دیکھ کر ابِر شفق آلودہ یاد آیا کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر بجز پرواِز شوِق ناز کیا باقی رہا ہوگا قیامت اک ہواۓ تند ہے خاِک شہیداں پر اسد! اے بے تحمل ،عربدہ بے جا ہے ناصح سے کہ آخر بے کسوں کا زور چلتا ہے گریباں پر
غزل نمبر 81 صفاۓ حیرِت آئینہ ہے ساماِن زنگ آخر تغیر آِب برجا ماندہ کا پاتاہے رنگ آخر خِط نوخیز نیِل چشم زخِم صافئِی عارض لیا آئینے نے حرِز پِر طوطی بچنگ آخر ہلل آسا تہی رہ ،گر کشادن ہاۓ دل چاہے ہوا مہ کثرِت سرمایہ اندوزی سے تنگ آخر تڑپ کر مرگیا وہ صیِد بال افشاں کہ مضطر تھا ہوا ناسوِر چشِم تعزیت چشِم خدنگ آخر لکھی یاروں کی بدمستی نے میخانے کی پامالی ہوئی قطرہ فشانی ہاۓ مے باراِن سنگ آخر گ شوِق یار قائم ہے اسد پردے میں بھی آہن ِ نہیں ہے نغمے سے خالی خمیدن ہاۓ چنگ آخر
غزل نمبر 82 )(121بینش 121بسعئِی ضبِط جنوں نو بہار تر دل درگداِز نالہ بہ کاہ آبیار تر قاتل بہ عزِم ناز و دل از زخم در گداز شمشیر آب دار و نگاہ آب دار تر ہے کسوِت عروِج تغافل کماِل حسن 121 121۔
اس غزل پر متن میں موٹے قلم سے شکستہ خط میں "غلط" لکھا ہے اور لکھنے کے بعد کاٹ دیا ہے۔
چشِم سیہ بہ مرِگ نگہ سوگوار تر سعئِی خرام کاوِش ایجاِد جلوہ ہے جوِش چکیدِن عرق آئینہ کار تر ہر گرد باد حلقۂ فتراِک بے خودی مجنوِن دشِت عشق تحیر شکار تر اے چرخ! خاک برسِر تعمیِر کائنات لیکن بناۓ عہِد وفا استوار تر آئینہ داِغ حیرت و حیرت شکنج یاس ِ سیماب بے قرار و اسد بے قرار تر
غزل نمبر 83 دیا یاروں نے بیہوشی میں درماں کا فریب آخر ُ ہوا سکتے سے میں آئینۂ دسِت طبیب آخر ستمکش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں تکلف برطرف ،مل جاۓ گا تجھ سا رقیب آخر رِگ گل جادۂ تاِر نگہ سے حد موافق ہے ملیں گے منزِل الفت میں ہم اور عندلیب آخر غروِر ضبط وقِت نزع ٹوٹا بے قرارانہ نیاز بال افشانی ہوا صبر و شکب آخر اسد کی طرح میری بھی بغیر از صبح رخساراں ہوئی شاِم جوانی اے دِل حسرت نصیب آخر
غزل نمبر 84 )(122فسوِن 122یک دلی ہے لذِت بیداد دشمن پر کہ وجِد برق چوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر س بے قراری ہے تکلف خار خاِر التما ِ کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشِت سوزن پر گ بے تابی گ کاغِذ آتش زدہ ،نیرن ِ برن ِ ہزار آئینہ دل باندھا ہے باِل یک تپیدن پر میں اور وہ بے سبب رنج ،آشنا دشمن کہ رکھتا ہے شعاِع مہر سے تہمت نگہ کی چشِم روزن پر یہ کیا وحشت ہے؟ اے دیوانہ پیش از مرگ واویل 122
122۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں پہ تین شعر لکھے ہیں:
جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر ش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے فلک سے ہم کو عی ِ متاِع بردہ کو سمجھے ہوۓ ہیں قرض رہزن پر فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا فروِغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر ِ
رکھی بے جا بناۓ خانۂ زنجیر شیون پر اسد بسمل ہے کس انداز کا؟ قاتل سے کہتاہے کہ مشِق ناز کر ،خوِن تمنا) 123(123میری گردن پر
123
123۔ یہاں لفظ "تمنا" کے بجاۓ موٹے قلم سے شکستہ خط "دو عالم" لکھا ہے۔
ردیف ز غزل نمبر 85 حسِن خود آرا کو ہے مشِق تغافل ہنوز ہے کِف مشاطہ میں آئنۂ گل ہنوز سادگئِی یک خیال ،شوخئِی صد رنگ نقش حیرِت آئینہ ہے جیِب تامل ہنوز سادہ و پرکار تر ،غافل و ہشیار تر مانگے ہے شمشاد سے شانۂ سنبل ہنوز ساقی و تعلیِم رنج ،محفل و تمکیں گراں ُ سیلئِی استاد ہے ساغِر بے مل ہنوز شغِل ہوس در نظر ،لیک حیا بے خبر شاِخ گِل نغمہ ہے نالۂ بلبل ہنوز دل کی صداۓ شکست ،ساِز طرب ہے اسد شیشۂ بے بادہ سے چاہے ہے قلقل ہنوز
غزل نمبر 86 بیگانۂ 124وفا ہے ہواۓ چمن ہنوز ُ وہ سبزہ سنگ پر نہ اگا کوہ کن ہنوز یارب! یہ دردمند ہے کس کی نگاہ کا ہے ربِط مشک و داِغ سواِد ختن ہنوز جوں جادہ سر بکوۓ تمناۓ بے دلی زنجیِر پا ہے رشتۂ حب الوطن ہنوز ہے ناِز مفلساں زِر از دست رفتہ پر ہوں گل فروِش شوخئِی داِغ کہن ہنوز 124 124۔ اس غزل کے حاشیے پر ذیل کے تین شعر موٹے قلم سے شکستہ خط میں لکھے ہیں۔ پہلے شعر کا مصرِع اول متداول دیوان کے اسی مصرع سے ذرا سا مختلف ہے: فارغ مجھے نہ جان کہ جوں صبح و آفتاب ہے داِغ عشق زینِت جیب کفن ہنوز اے شعلہ فرصتے کہ سویداۓ دل سے ہوں کشِت سپنِد صد جگر اندوختن ہنوز میخانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں خمیازہ کھینچے ہے بت بیداد فن ہنوز ان اشعار میں شعر 2اس سے آگے تیسری غزل کے متن میں پھر موجود ہے۔ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ یہاں اشارہ نویسی میں مجھ سے غلطی ہوئی یا حاشیے میں لکھے ہوئے اس شعر کی تکرار آگے آنے والی ایک غزل کے متن میں فی الواقع ہوئی ہے۔
میں دور گرِد قرِب بساِط نگاہ تھا ش انجمن ہنوز بیروِن دل نہ تھی تپ ِ تھا مجھ کو خار خاِر جنوِن وفا اسد سوزن میں تھا نہفتہ گِل پیرہن ہنوز
غزل نمبر 87 چاِک گریباں کو ہے ربِط تامل ہنوز غنچے میں دل تنگ ہے حوصلۂ گل ہنوز دل میں ہے سوداۓ زلف مسِت تغافل ہنوز ہے مژۂ خواب ناک ریشۂ سنبل ہنوز پرورِش نالہ ہے وحشِت پرواز سے ہے تِہ باِل پری بیضۂ بلبل ہنوز عشق کمیں گاِہ درد ،وحشِت دل دور گرد داِم تِہ سبزہ ہے حلقۂ کاکل ہنوز لذِت تقریِر عشق پردگئِی گوِش دل ض تحمل ہنوز جوہِر افسانہ ہے عر ِ آئنۂ امتحاں نذِر تغافل اسد شش جہت اسباب ہے وہِم توکل ہنوز
غزل نمبر 88 )(125میں 125ہوں سراِب یک تپش آموختن ہنوز زخِم جگر ہے تشنۂ لب دوختن ہنوز اے شعلہ فرصتے کہ سویداۓ دل سے ہوں کشِت سپنِد صد جگر اندوختن ہنوز س شمع ہے کفِن کشتگاِن شوق فانو ِ در پردہ ہے معاملۂ سوختن ہنوز مجنوں! فسوِن شعلہ خرامی فسانہ ہے ہے شمع جادہ داِغ نیفروختن ہنوز ِ ُ کویک شرر؟ کہ ساِز چراغاں کروں اسد بزِم طرب ہے پردگئِی سوختن ہنوز
125
125۔ متن میں اس غزل کے اوپر "غلط" لکھا ہے۔
غزل نمبر 89 )(126حریِف 126مطلِب مشکل نہیں فسوِن نیاز دعا قبول ہو یارب کہ عمِر خضر دراز ! نہ ہو بہ ہرزہ بیاباں نورِد وہِم وجود ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز فریِب صنعِت ایجاد کا تماشا دیکھ نگاہ عکس فروش و خیال آئنہ ساز وصال ،جلوہ تماشا ہے ،پھر دماغ کہاں کہ دیجے آئنۂ انتظار کو پرواز 127 گ رسوائی ہنوز اے اثِر دید) (127نن ِ نگاہ فتنہ خرام و دِر دو عالم باز اسد سے ترِک وفا کا گماں وہ معنی ہے کہ کھینچیے پِر طائر سے صورِت پرواز
غزل نمبر 90 نہ گِل نغمہ ہوں ،نہ پردۂ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز 128 ش خِم گیسو)(128 تو اور آرائ ِ میں اور اندیشہ ہاۓ) 129(129دور و دراز لِف تمکیں فریِب سادہ دلی 126 126۔ اس غزل کے حاشیے پر مندرجہ ذیل چار شعر موٹے قلم سے شکستہ خط میں لکھے ہیں۔ مقطع میں یہ نکتہ قابل لحاظ ہے کہ یہاں تخلص اسد نہیں ،غالب رکھا ہے اور متن میں اسد والے مقطع پر "لل" لکھ دیا ہے: ز بس کہ جلوۂ صیاد حیرت آرا ہے اڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورِت پرواز ہجوِم فکر سے دل مثِل موج لرزے ہے کہ شیشہ نازک وصہباۓ آبگینہ گداز ہر ایک ذرۂ عاشق ہے آفتاب پرست گئ نہ خاک ہوۓ پر ،ہواۓ جلوۂ ناز نہ پوچھ وسعِت میخانۂ جنوں غالب جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز 127
127۔ عرشی" :دیدہ" بجاۓ "دید"۔
128128۔ قلمی دیوان میں مروجہ "خِم کاکل" کے بجاۓ "خِم گیسو" ہے۔
129
129۔ کتاب کے اصل متن میں "اندیشہاے" ہے ،اسے جدید امل کے مطابق " اندیشہ ہاۓ" سے بدل دیا ہے ،جویریہ مسعود
ہم ہیں اور راز ہاۓ سینہ گداز ُ ہوں گرفتاِر الفِت صیاد ورنہ باقی ہے طاقِت پرواز ُ وہ بھی دن ہو کہ اس ستمگر سے ناز کھینچوں بجاۓ حسرِت ناز نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گلباز اے ترا غمزہ ،یک قلم انگیز اے ترا ظلم سربسر انداز ُ تو ہوا جلوہ گر ،مبارک ہو 130 ریزِش سجادۂ جبیِن نیاز) (130 )(131یا 131علی! یک نگاہ سوۓ اسد میں غریب اور تو غریب نواز
غزل نمبر 91 ُ کو بیاباِن تمنا و کجا جولِن عجز آبلے پا کے ہیں یاں رفتار کو دنداِن عجز ہو قبوِل کم نگاہی تحفۂ اہِل نیاز اے دل واۓ جاِن ناز اے دین واۓ ایماِن عجز حسن کو غنچوں سے ہے پوشیدہ چشمیہاۓناز عشق نے وا کی ہے ہر ایک خار سے مژگاِن عجز اضطراِب نارسائی موجِد) 132(132شرمندگی ش طوفاِن عجز ہے عرق ریزئِی خجلت جوش ِ وہ جہاں مسند نشیِن بارگاِہ ناز ہو قامِت خوباں ہو محراِب نیازستاِن عجز بسکہ بے پایاں ہے صحراۓ محبت اے اسد گردباد اس راہ کا ہے عقدۂ پیماِن عجز
غزل نمبر 92 داِغ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسار ہنوز خلوِت سنگ میں ہے نالہ طلبگار ہنوز ُ خانہ ہے سیل سے خوکردۂ دیدار ہنوز 130 130۔ قلمی نسخے میں اس مصرع کا بصورِت متداولہ پایا جانا قریِن قیاس معلوم نہیں ہوتا۔ خود نسخۂ شیرانی میں یہ مصرع یوں درج ہے :ریزِش سجدہ ہاۓ اہِل نیاز 131 131۔ حاشیے پر مقطع کا مصرع اول)موٹے قلم سے ،شکستہ خط میں( بصورت ذیل لکھا ہے: "نگِہ التفات سوۓ اسد" 132 132۔ لفظ "موجد" کو کاٹ کر )موٹا قلم ،شکستہ خط( "مایہ" بنایا ہے۔ دونوں مصرعوں میں کچھ اور بھی اصلح دینی چاہی ہے مگر پھر ان الفاظ کو کاٹ دیا ہے۔ گویا یہ شعر بہ تغیِر لفِظ "موجِد" بجنسِہ رہنے دیا ہے۔
دوربیں درزدہ ہے رخنۂ دیوار ہنوز وسعِت سعئِی کرم دیکھ کہ سر تا سِر خاک گزرے ہے آبلہ پا ابِر گہر بار ہنوز یک قلم کاغِذ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت ش پا میں ہے تِپ گرمئِی رفتار ہنوز نق ِ آئی یک عمر سے معذوِر تماشا نرگس چشِم شبنم میں نہ ٹوٹا مژۂ خار ہنوز کیوں ہؤا تھا طرِف آبلۂ پا یا رب! ش طومار ہنوز جادہ ہے واشدِن پیچ ِ ہوں خموشی چمِن حسرِت دیدار اسد ش طرۂ گفتار ہنوز مژہ ہے شانہ ک ِ
غزل نمبر 93 ش دِل مور ہنوز نہ بندھا تھا بہ عدم نق ِ تب سے ہے یاں دہِن یار کا مذکور ہنوز سبزہ ہے نوِک زباِن دہِن گور ہنوز ض تمنا میں ہوں رنجور ہنوز حسرِت عر ِ صد تجلی کدہ ہے صرِف جبیِن غربت پیرہن میں ہے غباِر شرِر طور ہنوز زخِم دل میں ہے نہاں غنچۂ پیکاِن نگار جلوۂ باغ ہے درپردۂ ناسور ہنوز ُ پا پر از آبلہ راِہ طلِب مے میں ہؤا ہاتھ آیا نہیں یک دانۂ انگور ہنوز گل کھلے ،غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی اے اسد تیرگئِی بخِت سیہ ظاہر ہے نظر آتی نہیں صبح شِب دیجور ہنوز ِ
ردیف س غزل نمبر 94 )(133حاصِل 133دل بستگی ہے عمِر کوتاہ اور بس ّ ض عقدہ ہاۓ متصل تاِر نفس وقِف عر ِ کیوں نہ طوطئِی طبیعت نغمہ پیرائی کرے گ گل آئینہ بر )134(134چاِک قفس باندھتا ہے رن ِ اے دافہاں!) 135(135صدا ہے تنگئِی فرصت سے خوں ہے بصحراۓ تحیر چشِم قربانی جرس تیز تر ہوتا ہے خشِم تند خویاں عجز سے گ فساِن تیغ شعلہ خار و خس ہے رِگ سن ِ ِ سختئِی راِہ محبت منع دخِل غیر ہے ِ پیچ و تاِب جادہ ہے یاں جوہِر تیغ عسس ِ اے اسد خود ہم اسیِر رنگ و بوۓ باغ ہیں ظاہرا صیاِد ناداں ہے گرفتاِر ہوس
133
133۔ اس صفحے کے حاشیے پر آٹھ شعر کی یہ غزل درج ہے )موٹا قلم ،شکستہ خط(:
کب فقیروں کو رسائی بِت میخوار کے پاس تو نبے بو دیجیے میخانے کی دیوار کے پاس مژدہ اے ذوِق اسیری کہ نظر آتا ہے س مرِغ گرفتار کے پاس داِم خالی قف ِ جگِر تشنۂ آزار تسلی نہ ہوا ُ جوۓ خوں ہم نے بہائی بِن ہر خار کے پاس مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ،ہے ہے خوب وقت آئے تم اس عاشِق بیمار کے پاس میں بھی رک رک کے نہ مرتا جو زباں کے بدلے دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غم خوار کے پاس دہِن شیر میں جا بیٹھیے ،لیکن اے دل نہ کھڑے ہوجیے خوباِن دل آزار کے پاس دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس مرگیا پھوڑ کے سر غالِب وحشی ہے ہے بیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس 134
134۔ عرشی" :تا" )بجاۓ "بر"(۔
135
135۔ کتاب میں یہ لفظ صحیح پڑھا نہ جا سکا۔ جویریہ مسعود
غزل نمبر 95 دشِت الفت میں ہے خاِک کشتگاں محبوس و بس پیچ و تاِب جادہ ہے خِط کِف افسوس و بس نیم رنگی ہاۓ شمع محفِل خوباں سے ہے ک مہ صرِف چاِک پردۂ فانوس و بس پیچ ِ ہے تصور میں نہاں سرمایۂ صد گلستاں کاسۂ زانو ہے مجھ کو بیضۂ طاؤس و بس کفر ہے غیر از گداِز) 136(136شوق رہبر خواستن راِہ صحراۓ حرم میں ہے جرس ناقوس و بس )(137اے 137اسد گل تختۂ مشق شگفتن ہوگئے غنچۂ خاطر رہا افسردگی مانوس و بس
غزل نمبر 96 کرتا ہے بہ یاِد بِت رنگیں دِل مایوس گ ز نظر رفتہ حناۓ کِف افسوس رن ِ تھا خواب میں کیا جلوہ نظر جوِش 138زلیخا ش دل سوختگاں میں پِر طاؤس ہے بال ِ حیرت سے رِخ دوست کی از بسکہ ہیں بیکار خور قطرۂ شبنم میں ہے جوں شمع بہ فانوس دریافتِن صحبِت اغیار ،غرض ہے اے نامہ رساں نامہ رساں چاہیے جاسوس ہے مشق اسد دستگِہ وصل کی منظور ہوں خاک نشیں از پۓ ادراِک قدم بوس
136
136۔ "گداز" کو موٹے قلم سے شکستہ خط میں "وفور" بنایا ہے۔
137
137۔ اس مصرع کا کچھ حصہ کاٹ دیا ہے اور اسے موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ صورت دی ہے۔
یک جہاں گل تختۂ مشق شگفتن ہے اسد 138
138۔ "نظر جوش" کے نیچے شکستہ خط میں موٹے قلم سے "پرستار" لکھا ہے۔
ردیف ش غزل نمبر 97 (139) 139ز جوِش اعتداِل فصل و تمکیِن بہار آتش پہ انداِز حنا ہے رونِق دسِت چنار آتش س جوہر طراوت سبزۂ خط سے نہ لیوے گر خ ِ لگاوے خانۂ آئینہ میں روۓ نگار آتش فروِغ حسن سے ہوتی ہے حِل مشکِل عاشق )(140نکالے 140ہے ز پاۓ شمع بر جا ماندہ خار آتش ِ خیاِل دود تھا سر جوِش سوداۓ غلط فہمی اگر رکھتی نہ خاکستر نشینی کا غبار آتش ہواۓ پرفشانی برِق خرمن ہاۓ خاطر ہے بہ باِل شعلۂ بیتاب ہے پروانہ زار آتش نہیں برق و شرر جز و حشت و ضبِط تپیدن ہا بل گرداِن بے پروا خرامی ہاۓ یار آتش دھوئیں سے آگ کے اک ابِر دریا بار ہو پیدا اسد حیدر پرستوں سے اگر ہووے دو چار آتش
غزل نمبر 98 بہ اقلیِم سخن ہے جلوۂ گرِد سواد آتش کہ ہے دوِد چراغاں سے ہیولۓ مداد آتش )(141اگر 141مضموِن خاکستر شدن دیباچہ پیرا ہو نہ باندھے شعلۂ جوالہ غیر از گرد باد آتش کرے ہے لطِف انداِز برہنہ گوئِی خوباں ) (142ز 142وا بالیدن مضموِن سطِر شعلہ یاد آتش دیا داِغ جگر کو آہ نے رنگ اور شگفتن کا ش داماِن باد آتش نہ ہو بالیدہ غیر از جنب ِ 139 139۔ اس مصرع کا ابتدائی حصہ )"تمکین بہار آتش" سے پہلے( موٹے قلم سے شکستہ خط میں بدل دیا ہے اور مصرع کی صورت یوں ہو گئ ہے: ہوئی ہے بسکہ صرِف مشِق تمکیِن بہار آتش 140 140۔ حاشیے پر یہ مصرع اس طرح لکھا ہے )موٹا قلم ،شکستہ خط(: نہ نکلے شمع کے پاسے نکلے گر نہ خار آتش 141 141۔ اس مصرع کو موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ اصلح دی ہے: اگر مضمون خاکستر کرے دیباچہ آرائی 142 142۔ یہ مصرع بدخط شکستہ میں حاشیے پر یوں بدل ہے: بہ تقریِب نگارش ہاۓ سطر شعلہ باد آتش
) (143اسد 143قدرت سے حیدر کی ہوئی ہر گبر و ترساکے گ بت ہی در بناۓ اعتقاد آتش شراِر سن ِ
ردیف ع غزل نمبر 99 جادۂ رہ خور کو وقِت شام ہے تاِر شعاع چرخ وا کرتا ہے ماِہ نو سے آغوِش وداع شمع سے ہے بزم انگشِت تحیر در دہن شعلۂ آواِز خوباں پر بہ ہنگاِم سماع جوں پِر طاؤس جوہر تختہ مشِق رنگ ہے بسکہ ہے وہ قبلۂ آئینہ محِو اختراع ش حیرت سرشتاں سینہ صافی پیشکش رنج ِ جوہِر آئینہ ہے یاں گرِد میداِن نزاع چار سوۓ دہر میں بازاِر غفلت گرم ہے )(144ورنہ 144نقصاِن تصور ہے خیاِل انتفاع آشنا غالب نہیں ہیں درِد دل کے آشنا ورنہ کس کو میرے افسانے کی تاِب استماع
غزل نمبر 100 رِخ نگار سے ہے سوِز جاودانئِی شمع ش گل آِب زندگانئِی شمع ہوئی ہے آت ِ زباِن اہِل زباں میں ہے مرگ خاموشی یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانئِی شمع کرے ہے صرف بہ ایماۓ شعلہ قصہ تمام بہ طرِز اہِل فنا ہے فسانہ خوانئِی شمع غم ِاس کو حسرِت پرواز کا ہے اے شعلہ ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتوانئِی شمع ترے خیال سے روح اہتزاز کرتی ہے بہ جلوہ ریزئِی باد و بہ پرفشانئِی شمع نشاِط داِغ غِم عشق کی بہار نہ پوچھ شگفتگی ہے شہیِد گِل خزانئِی شمع 143 143۔ قلمی دیوان میں یوں ہی ہے۔ واضح رہے کہ مفتی انوار الحق نے مصرع اول کا آخری لفظ "کو" بنا دیا ہے اور مصرع ثانی میں "در بناۓ اعتقاد" کو "بربناۓ اعتقاد" لکھا ہے ۔
144 144۔ یہ مصرع حاشیے پر بصورت ذیل بدل ہے )موٹے ،قلم سے ،شکستہ خط میں(: ُ عقل کے نقصان سے اٹھتا ہے خیال انتفاع
جلے ہے دیکھ کے بالیِن یار پر مجھ کو اسد ہے دل پہ مرے داِغ بدگمانئِی شمع
ردیف غ غزل نمبر 101 ک چشم سے دھوویں ہزار داغ عشاق اش ِ دیتا ہے اور جوں گل و شبنم بہار داغ جوں چشِم باز ماندہ ہے ہر یک بسوۓ دل رکھتا ہے داِغ تازہ کا یاں انتظار داغ بے للہ عارضاں مجھے گلگشِت باغ میں دیتی ہے گرمئِی گل و بلبل ہزار داغ جوں اعتماد نامہ و خط کا ہو مہر سے یوں عاشقوں میں ہے سبِب اعتبار داغ ہوتے ہیں نیست جلوۂ خور سے ستارگاں ُ دیکھ اس کو دل سے مٹ گئے بے اختیار داغ )(145در 145عالم تصور روۓ بتاں اسد دکھلۓ ہے مجھے دو جہاں للہ زار داغ
غزل نمبر 102 )(146بلبلوں 146کو دور سے کرتا ہے منع باِر باغ ِ ہے زباِن پاسباں خاِر سِر دیواِر باغ کون آیا جو چمن بیتاِب استقبال ہے ش موِج صبا ہے شوخئِی رفتاِر باغ جنب ِ میں ہمہ حیرت جنوں بیتاِب دوراِن خمار مردِم چشِم تماشا نقطۂپرکاِر باغ گ رِخ ہر گل کو بخشے ہے فروغ ش رن ِ آت ِ ہے دِم سرِد صبا سے گرمئِی بازاِر باغ کون گل سے ضعف و خاموشئِی بلبل کہہ سکے نے زباِن غنچہ گویا نے زباِن خاِر باغ جوِش گل کرتا ہے استقباِل تحریِر اسد زیِر مشِق شعر ہے نقش از پۓ احضاِر باغ 145 145۔ حاشیے پر یہ مصرع یوں بدل ہے )موٹا قلم ،شکستہ(: وقِت خیاِل جلوۂ حسِن بتاں اسد 146 146۔ اس غزل کے مطلع کے دونوں مصرعوں کے درمیان لکھا ہے" :پسند خاطر عبدالعلے" اور ساتھ نشان ص لگایا ہے۔ ً دوسرے ،چوتھے اور پانچوں شعر کو اسی نشان ص سے ممتاز کیا ہے۔ غالبا یہ تین شعر عبدالعلی کو پسند آۓ ہیں۔
ردیف ف غزل نمبر 103 )(147نامہ 147بھی لکھتے ہو تو بہ خِط غبار حیف رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت ہزار حیف بیِم رقیب سے نہیں کرتے وداِع ہوش مجبور یاں تلک ہوۓ اے اختیار حیف تھی میرے ہی جلنے کو اے آہ شعلہ ریز گھر پر پڑا نہ غیر کے کوئی شرار حیف بیش از نفس بتاں کے کرم نے وفا نہ کی تھا محمِل نگاہ بہ دوِش شرار حیف ُ ہیں میری مشِت خاک سے اس کو کدورتیں پائی جگہ بھی دل میں تو ہو کر غبار حیف بنتا اسد میں سرمۂ چشِم رکاِب یار آیا نہ میری خاک پہ وہ شہسوار حیف
غزل نمبر 104 )(148عیسئِی 148مہرباں ہے شفا ریز یک طرف درد آفریں ہے طبع الم خیز یک طرف ِ سنجیدنی ہے ایک طرف رنج کوہ کن ِ خواِب گراِن خسرِو پرویز یک طرف خرمن بباد دادۂ دعوے ہیں ،ہو سو ہو ہم اک)149 (149طرف ہیں برِق شرربیز یک طرف ہر موبدن پہ شہپر پرواز ہے مجھے 147 147۔ چھ اشعار کی اس غزل سے متعلق دو باتیں قابل ذکر ہیں :مفتی انوار الحق کے نسخے میں تیسرا اور چوتھا شعر باہم بدل گئے ہیں ،مگر قلمی دیوان میں ترتیِب اشعار وہی ہے جو یہاں دی گئی ہے۔ اسی غزل کے حاشیے پر ذیل کے دو شعر موٹے قلم سے شکستہ خط میں بڑھاۓ گئے ہیں: گل چہرہ ہے کسی خفقانی مزاج کا گھبرا رہی ہے بیِم خزاں سے بہار حیف جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے س شعلہ بار حیف اے ناتمامئِی نف ِ 148 148۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں ذیل کا شعر درج ہے: مفِت دل و جگر خاِش غمزہ ہاۓ ناز کاوش فروشئ مژۂ تیز یک طرف خاص بات اس اندراج کے متعلق یہ ہے کہ یہ غالب کی تحریر سے نمایاں طور پر مشابہ ہے۔ 149
149۔ عرشی" :یک"۔
بے تابئِی دِل تپش انگیز یک طرف یک جانب اے اسد شِب فرقت کا بیم ہے داِم ہوس ہے زلِف دلویز یک طرف
ردیف ک غزل نمبر 105 ) (150زخم 150پر باندھے ہیں کب طفلِن بے پروا نمک کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک گرِد راِہ یار ہے ساماِن ناِز زخِم دل ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک یاد ہیں اے ہمنشیں وہ دن کہ وجِد ذوق میں زخم سے گرتا تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک شوِر جولں تھا کناِر بحر پر کس کا؟ کہ آج گرِد ساحل ہے بزخِم موجۂ دریا نمک مجھ کو ارزانی رہے ،تجھ کو مبارک ہو جیو نالۂ بلبل کا درد اور خندۂ گل کا نمک داد دیتا ہے مرے زخِم جگر کی ،واہ وا یاد کرتا ہے مجھے ،دیکھے ہے وہ جس جا نمک چھوڑ کر جانا تِن مجروِح عاشق حیف ہے دل طلب کرتاہے زخم اور مانگیں ہیں اعضا نمک اس عمل میں عیش کی لذت نہیں ملتی اسد زور نسبت مے سے رکھتا ہے نصارا 151کا نمک
غزل نمبر 106 ) (152آہ 152کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک داِم ہر موج میں ہے حلقِۂ صد کاِم نہنگ 150 150۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر درج ہے )موٹا قلم ،شکستہ(: غیر کی منت نہ چھوڑوں گا پۓ توفیِر درد زخِم دل جوں خندۂ خوباں ہیں سر تا پا نمک 151 151۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں یہ لفظ "اضارا" )بجاۓ "نصارا"( چھپ گیا ہے۔ نسخۂ شیرانی اور نسخۂ عرشی دونوں میں "نصارا" ہے۔ 152 152۔ متداول دیوان میں اس غزل کی ردیف "ہونے تک" معروِف عام ہے مگر قلمی دیوان میں مطلع سے لے کر مقطع تک آٹھوں اشعار میں ردیف باللتزام "ہونے تک" ہے۔
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک عاشقی صبر طلب ،اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خوِن جگر ہوتے تک تاقیامت شِب فرقت میں گزر جاۓ گی عمر سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے ،لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک پرتِو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک یک نظر بیش نہیں فرصِت ہستی غافل ص شرر ہوتے تک گرمئِی بزم ہے اک رق ِ غِم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک
غزل نمبر 107 ) (153آۓ 153ہیں پارہ ہاۓ جگر درمیاِن اشک لیا ہے لعِل بیش بہا کارواِن اشک ش مژگاں سے مدعا ظاہر کرے ہے جنب ِ طفلنہ ہاتھ کا ہے اشارہ زباِن اشک میں وادئِی طلب میں ہوا جملہ تن عرق از بسکہ صرِف قطرہ زنی تھا بساِن اشک دِل خستگاں کو ہے طرِب صد چمن بہار باِغ بخوں تپیدن و آِب رواِن اشک ) (154در 154حاِل انتظاِر قدوِم بتاں اسد ہے برسِر مژہ ،نگراں ،دیدباِن اشک
153
153۔ پانچ ابیات کی اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں یہ دو شعر لکھے ہیں:
رونے نے طاقت اتنی نہ چھوڑی کہ ایک بار مژگاں کو دوں فشار پئے امتحاِن اشک سیِل بناۓ ہستئِی شبنم ہے آفتاب ش دل نشاِن اشک چھوڑے نہ چشم میں تپ ِ 154
154۔ "در حال" کو کاٹ کر اس کے اوپر لفظ "ہنگام" لکھا ہے )موٹا قلم ،بد خط(۔
ردیف گ غزل نمبر 108 گر تجھ کو ہے یقیِن اجابت ،دعا نہ مانگ یعنی ،بغیِر یک دِل بے مدعا نہ مانگ ) (155اے 155آرزو شہیِد وفا خوں بہا نہ مانگ جز بہِر دست و بازوۓ قاتل دعا نہ مانگ گستاخئِی وصال ہے مشاطۂ نیاز یعنی دعا بجز خِم زلِف دوتا نہ مانگ ش نشاط برہم ہے بِزم غنچہ بہ یک جنب ِ کاشانہ بسکہ تنگ ہے ،غافل ہوا نہ مانگ ٰ عیسی! طلسِم حسن تغافل ہے زینہار ض دوانہ مانگ جز پشِت چشم نسخۂ عر ِ ض رسوِم نیاز ہوں میں دور گرِد عر ِ دشمن سمجھ ولے نگِہ آشنا نہ مانگ نظارہ دیگر و دِل خونیں نفس دگر آئینہ دیکھ جوہِر برگ حنا نہ مانگ آتا ہے داِغ حسرِت دل کا شمار یاد مجھ سے حساِب بے گنہی اے خدانہ مانگ 157 یک بخِت) 156(156اوج نذِر سبک سارئِی اسد)(157 سر پر وباِل سایۂ باِل ہما نہ مانگ
155
155۔ اس دوسرے مطلع کے سامنے حاشیے پر نشان ص بنا کر کسی شخص نے اپنا نام لکھا ہے" :آغا علے"۔
156 156۔ کتاب میں یہ لفظ ٹھیک طرح سے پڑھا نہ جاسکا مگر سیاق و سباق سے " بخت" لفظ ہی درست معلوم ہوتا ہے۔ جویریہ مسعود 157
157۔ عرشی" :نذر سبکبارئِی اسِد"
ردیف ل غزل نمبر 109 ) (158بدر 158ہے آئینۂ طاِق ہلل غافلں! نقصان سے پیدا ہے کمال ہے بہ یاِد زلِف مشکیں سال و ماہ روِز روشن شاِم آنسوۓ خیال بسکہ ہے اصِل دمیدن ہا غبار ہے نہاِل شکوۂ ریحاں سفال صافئِی رخسار سے ہنگاِم شب س داِغ شب ہوا عارض پہ خال عک ِ ) (159نوِر 159حیدر سے ہے اس کی روشنی ورنہ ہے خورشید یک دسِت سوال ُ شوِر حشر اس فتنہ قامت کے حضور 158
158۔ حاشیے پر گیارہ ابیات کی یہ غزل موٹے قلم سے شکستہ خط میں لکھی ہے:
ہے کس قدر ہلِک فریِب وفاۓ گل بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہاۓ گل آزادئِی نسیم مبارک کہ ہر طرف ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ داِم ہواۓ گل جو تھا سو موِج رنگ کے دھوکے میں مرگیا اے واۓ نالۂ لِب خونیں نو اۓ گل دیوانگاں کا چارہ فروِغ بہار ہے ہے شاِخ گل میں پنجۂ خوباں بجاۓ گل خوش حال اس حریِف سیہ مست کا کہ جو رکھتا ہو مثِل سایۂ گل سر بپاۓ گل ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار س عطر ساۓ گل میرا رقیب ہے نف ِ مژگاں تلک رسائی لخِت جگر کہاں اے واۓ گر نگاہ نہ ہو آشناۓ گل شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باِد بہارسے میناۓ بے شراب و دل بے ہواۓ گل سطوت سے تیرے جلوۂ حسِن غیور کی گ اداۓ گل خوں ہے مری نگاہ میں رن ِ تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک بے اختیار دوڑے ہے گل در قفاۓ گل غالب مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو جس کا خیال ہے گِل جیِب قباۓ گل 159
)(159۔ یہ مصرع یوں بدل ہے:
نور سے تیرے ہے اس کی روشنی اس اصلح کا عالم یہ ہے کہ بجنسِہ غالب کی تحریر معلوم ہوتی ہے۔
سایہ آسا ہو گیا ہے پائمال ہو جو بلبل پیرِو فکِر اسد ُ ) (160غنچۂ 160منقاِر گل ہو زیِر بال
غزل نمبر 110 ہر عضو غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل جوں زلِف یار ہوں میں سراپا شکستہ دل ہے سر نوشت میں رقِم وا شکستگی ہوں جوں خِط شکستہ بہر جا شکستہ دل امواج کی جو یہ شکنیں آشکار ہیں ہے چشِم اشک ریز سے دریا شکستہ دل ناسازئِی نصیب و درشتئِی غم سے ہے امید ناامید و تمنا شکستہ دل گ ظلِم چرخ سے میخانے میں اسد ہے سن ِ صہبا فتادہ خاطر و مینا شکستہ دل
غزل نمبر 111 ہوں بہ وحشت انتظار آوارۂ دشِت خیال اک سفیدی مارتی ہے دور سے چشِم غزال ہے نفس پروردہ گلشن ،کس ہواۓ بام کا طوِق قمری میں ہے سرِو باغ ریحاِن سفال ہم غلط سمجھے تھے لیکن زخِم دل پر رحم کر آخر اس پردے میں تو ہنستی تھی اے صبح وصال ِ بیکسی افسردہ ہوں ،اے ناتوانی کیا کروں؟ جلوۂ خورشید سے ہے گرم پہلوۓ ہلل شکوہ درد و درد داغ ،اے بے وفا معذور رکھ ُ خوں بہاۓ یک جہاں امید ہے تیرا خیال ض درِد بے وفائی وحشِت اندیشہ ہے عر ِ خوں ہوا دل تا جگر ،یا رب زباِن شکوہ لل ُ اس جفا مشرب پہ عاشق ہوں کہ سمجھے ہے اسد ُ ّ ماِل سنی کو مباح اور خوِن صوفی کو حلل
غزل نمبر 112 ض حاِل شبنم ،ہے رقم ایجاد گل بہِر عر ِ ظاہرا ہے اس چمن میں لِل مادر زاد ،گل 160
160۔ کتاب کے متن میں "عنچۂ" ہے مگر غنچہ ہی صحیح ہے۔ جویریہ مسعود
گر کرے انجام کو آغاز ہی میں یاد گل غنچے سے منقاِر بلبل وار ہو فریاد گل ش روۓ یار کو گر بہ بزِم باغ کھینچے ّ نق ِ شمع ساں ہو جاۓ ق ِط خامۂ بہزاد ،گل ُ دست رنگیں سے جو رخ پروا کرے زلِف رسا شاِخ گل میں ہو نہاں جوں شانہ در شمشاد گل سعئِی عاشق ہے فروغ افزاۓ آِب روۓ کار ہے شراِر تیشہ بہِر تربِت فرہاد ،گل ہے تصور صافئِی قطع نظر از غیِر یار ِ لخِت دل سے لوے ہے شمع خیال آباد گل ِ گلشن آباِد دِل مجروح میں ہو جاۓ ہے غنچۂ پیکاِن شاِخ ناوِک صیاد گل برِق ساماِن نظر ہے جلوۂ بیباِک حسن شمع خلوت خانہ کیجے ،ہر چہ بادا باد گل ِ ض بہاِر صد نگارستاں اسد عر ہے خاک ِ 161 ) (161آرزوئیں کرتی ہیں از خاِطِر آزاد گل
غزل نمبر 113 گر چہ ہے یک بیضۂ طاؤس آسا تنگ دل ہے چمن سرمایۂ بالیدِن صد رنگ دل ش آب از سراب بے دلوں سے ہے تپش جوں خواہ ِ ہے شرر معلوم) 162(162اگر رکھتا ہووے سنگ دل رشتۂ فہمیِد ممسک ہے بہ بنِد کوتہی عقدہ ساں ہے کیسۂ زر پر خیاِل تنگ دل ہوں زپا افتادۂ انداِز یاِد حسِن سبز کس قدر ہے نشہ فرساۓ خماِر بنگ دل شوِق بے پروا کے ہاتھوں مثِل ساِز نادرست کھینچتا ہے آج نالے خارِج آہنگ دل ُ اے اسد خامش ہے طوطئِی شکر گفتاِر طبع ظاہرا رکھتا ہے آئینہ اسیِر زنگ دل
161
161۔ اس مصرع کی یوں اصلح کی ہے )موٹا قلم ،شکستہ ،بدخط(:
حسرتیں کرتی ہیں میری خاطِر آزاد گل 162
162۔ حاشیے پر اس لفظ کو "موہوم" لکھا ہے )موٹا قلم ،شکستہ بد خط(۔
ردیف م غزل نمبر 114 اثر کمندئِی فریاِد نارسا معلوم غباِر نالہ کمیں گاِہ مدعا معلوم بقدِر حوصلۂ عشق جلوہ ریزی ہے وگرنہ خانۂ آئینہ کی فضا معلوم بہ نالہ حاصِل دل بستگی فراہم کر متاِع خانۂ زنجیر جز صدا معلوم بہار در گرِو غنچہ شہر جولں ہے طلسِم ناز بجز تنگئِی قبا معلوم طلسِم خاک کمیں گاِہ یک جہاں سودا ش فنا معلوم بہ مرگ تکیۂ آسائ ِ تکلف آئنۂ دوجہاں مدارا ہے ُ سراِغ یک نگِہ قہر آشنا معلوم اسد فریفتۂ انتخاِب طرِز جفا وگرنہ دلبرئِی وعدۂ وفا معلوم
غزل نمبر 115 ش یار ہیں ہم ازانجا کہ حسرت ک ِ رقیِب تمناۓ دیدار ہیں ہم رسیدن گِل باِغ واماندگی ہے عبث محفل آراۓ رفتار ہیں ہم نفس ہو نہ معزوِل شعلہ درودن کہ ضبِط تپش سے شرر کار ہیں ہم تغافل کمیں گاِہ وحشت شناسی ّ تماشاۓ گلشن ،تمناۓ چیدن بہار آفرینا! گنہگار ہیں ہم نہ ذوِق گریباں ،نہ پرواۓ داماں نگہ آشناۓ گل و خار ہیں ہم اسد! شکوہ کفر و دعا ناسپاسی ہجوِم تمنا سے لچار ہیں ہم
غزل نمبر 116 بسکہ ہیں بدمسِت بشکن بشکِن میخانہ ہم موۓ شیشہ کو سمجھتے ہیں خِط پیمانہ ہم غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم ِ بسکہ ہریک موۓ زلف افشاں سے ہے تاِر شعاع پنجۂ خورشید کو سمجھے ہیں دسِت شانہ ہم نقش )163 (163بنِد خاک ہے موج از فروغ ماہتاب سیل سے فرِش کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم مشِق از خود رفتگی سے ہیں بہ گلزاِر خیال آشنا تعیبِر خواِب سبزۂ بیگانہ ہم فرِط بیخوابی سے ہیں شبہاۓ ہجِر یار میں جوں زباِن شمع داِغ گرمئِی افسانہ ہم ش سوداۓ زلِف یار میں جانتے ہیں جوش ِ سنبِل بالیدہ کو موۓ سِر دیوانہ ہم بسکہ وہ چشم و چراِغ محفِل اغیار ہے چپکے چپکے جلتے ہیں جوں شمع ماتم خانہ ہم ِ ) (164شاِم 164غم میں سوِز عشِق شمع رویاں سے اسد جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
غزل نمبر 117 جس دم کہ جادہ وار ہو تاِر نفس تمام ش زمیِن رِہ عمر بس تمام پیمائ ِ کیا دے صدا کہ الفِت گمگشتگاں سے آہ ہے سرمہ گرِد رہ بہ گلوۓ جرس تمام ڈرتاہوں کوچہ گردئِی بازاِر عشق سے ہیں خاِر راہ جوہِر تیغ عسس تمام ِ اے باِل اضطراب کہاں تک فسردگی یک پرزدن تپش میں ہے کاِر قفس تمام گذرا جو آشیاں کا تصور بہ وقِت بند مژگاِن چشِم دام ہوۓ خار و خس تمام کرنے نہ پاۓ ضعف سے شوِر جنوں اسد 163 163۔ اس مصرع پر "ل ل" لکھا ہے اور حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں اس کے بجاۓ مصرع ذیل تحریر کیا ہے: ہے فروِغ ماہ سے ہر موج یک تصوِر خاک 164
ش رخسار سے"بنایا گیا ہے۔ حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ مقطع لکھا 164۔ اس مصرع کا آخری حصہ بعد میں "سوِز عشِق آت ِ
ہے: دائم الجس اس میں ہیں لکھوں تمنائیں اسد جانتے ہیں سینۂ پرخوں کو زنداں خانہ ہم
اب کی بہار کا یونہی گزرا برس تمام
غزل نمبر 118 رہتے ہیں افسردگی سے سخت بیدردانہ ہم شعلہ ہا نذِر سمندر بلکہ آتش خانہ ہم ض تمنا یاں سے سمجھا چاہیے حسرِت عر ِ دو جہاں شِر زباِن خشک ہیں جوں شانہ ہم کشتئِی عالم بہ طوفاِن تغافل دے کہ ہیں عالِم آِب گداِز جوہِر افسانہ ہم وحشِت بے ربطی پیچ و خِم ہستی نہ پوچھ گ بالیدن ہیں جوں موۓ سِر دیوانہ ہم نن ِ باوجوِد یک جہاں ہنگامہ پر موہوم ہیں ہیں چراغاِن شبستاِن دِل پروانہ ہم
ردیف ن غزل نمبر 119 165 ض جنوِن فنا کروں )(165خوش وحشتے کہ عر ِ جوں گرِد راہ ،جامۂ ہستی قبا کروں گر بعِد مرگ و حشِت دل کا گلہ کروں موِج غبار سے پِر یک دشت وا کروں آ آے بہاِر ناز! کہ تیرے خرام سے ش پا کروں دستار گرِد شاِخ گِل نق ِ خوش اوفتادگی کہ بہ صحراۓ انتظار جوں جادہ گرِد رہ سے نگہ سرمہ سا کروں صبر اور یہ ادا کہ دل آوے اسیِر چاک درد اور یہ کمیں کہ رِہ نالہ وا کروں وہ بے دماِغ منِت اقبال ہوں کہ میں وحشت بہ داِغ سایۂ باِل ہما کروں س لذِت بیداد ہوں کہ میں وہ التما ِ تیغ ستم کو پشِت خِم التجا کروں ِ وہ راِز نالہ ہوں کہ بشرِح نگاِہ عجز افشاں غباِر سرمہ سے فرِد صدا کروں لوں وام بخِت خفتہ سے یک خواِب خوش اسد لیکن یہ بیم ہے کہ کہاں سے ادا کروں
165
165۔ اس غزل کے حاشیے پر نو اشعار کی یہ غزل درج ہے )موٹا قلم ،شکستہ خط(: وہ فراق اور وہ وصال کہاں فرصِت کاروباِر شوق کسے دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا تھی وہ خوباں ہی کے تصور سے ہم سے چھوٹا قمارخانۂ عشق ک سفلہ بے محابا ہے فل ِ بوسے میں وہ مضائقہ نہ کرے فکر دنیا میں سر کھپاتا ہے ٰ مضمحل ہو گئے قوی غالب
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں ذوِق نظارۂ جمال کہاں شوِر سوداۓ خط و خال کہاں اب وہ رعنائئِی خیال کہاں واں جو جائیں گرہ میں مال کہاں اس ستمگر کو انفعال کہاں پر مجھے طاقِت سوال کہاں میں کہاں اور یہ وبال کہاں وہ عناصر میں اعتدال کہاں
ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ قلمی دیوان کے کاتب نے ساتویں شعر میں لفظ "مضائقہ" کو "مضاعقہ" لکھا ہے۔
غزل نمبر 120 )(166غنچۂ 166ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں بوسے کو پو چھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں ش طرِز دلبری کیجیے کیا کہ ِبن کہے ُ پرس ِ اس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں رات کے وقت مے پیے ،ساتھ رقیب کو لیے آۓ وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں ُ بزم میں اس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے ُ اس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدعا کہ یوں میں نے کہا کہ بزِم ناز چاہیے غیر سے تہی ُ سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں ک فارسی جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکہ ُہو رش ِ شعر اسد کے ایک دو پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
غزل نمبر 121 ) (167آنسو 167کہوں کہ آہ سواِر ہوا کہوں ایسا عناں گسیختہ آیا کہ کیا کہوں اقباِل کلفِت دِل بے مدعا رسا اختر کو داِغ سایۂ باِل ہما کہوں 166 166۔ اس غزل کے حاشیے پر اشعار ذیل درج ہیں )موٹا قلم ،شکستہ خط(۔ لطف یہ ہے کہ دوسرے شعر کا مصرع اول یوں شروع کیا ہے" :رات سے غیر کیا بنی۔۔۔" یہاں یہ امر ملحوِظ خاطر رہے کہ مفتی انوار الحق کے نسخے میں یہ چار شعر بہ ترتیب ذیل طبع ہوۓ ہیں:1 ،4 ،3 ،2 : گرترے دل میں ہوں خیال وصل میں شوق کا زوال موج محیِط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں غیر سے رات کیا بنی ،یہ جو کہاں تو دیکھیے سامنے آن بیٹھنا ،اور یہ دیکھنا کہ یوں مجھ سے کہاں جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں کب مجھے کوۓ یار میں رہنے کی وضع یاد تھی ش پا کہ یوں آئنہ دار بن گئی حیرِت نق ِ
167
167۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ تین شعر درج ہیں۔ موٹے قلم سے شکستہ مگر خوش خط لکھے ہوۓ ۔یہ شعر غالب کی تحریر معلوم ہوتے ہیں۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں ترتیب اشعار قلمی دیوان کے اندراج کے مطابق نہیں ہے۔ اشعار ذیل میں قلمی دیوان کے حاشیے کے اندراج کی ترتیب ملحوظ رہی ہے: عہدے سے مدِح ناز کے باہر نہ آسکا گر اک ادا ہو تو اسے اپنی قضا کہوں ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بے وفا کہوں میں اور صد ہزار نواۓ جگر خراش تو اور ایک وہ نشنیدن کہ کیا کہوں
مضموِن وصل ہاتھ نہ آیا مگر اسے گ حنا کہوں اب طائِر پریدۂ رن ِ حلقے ہیں چشم ہاۓ کشادہ بسوۓ دل ہر تاِر زلف کو نگِہ سرمہ سا کہوں دزدیدِن دِل ستم آمادہ ہے محال مژگاں کہوں کہ جوہِر تیغ قضا کہوں ِ طرز آفریِن نکتہ سرائِی طبع ہے آئنۂ خیال کو طوطی نما کہوں غالب ہے رتبہ فہِم تصور سے کچھ پرے ہے عجِز بندگی جو علی کو خدا کہوں
غزل نمبر 122 ُ ہم سے کھل جاؤ بوقِت مے پرستی ایک دن ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذِر مستی ایک دن قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لۓ گی ہماری فاقہ مستی ایک دن غرۂ رفعت بناۓ عالِم امکاں نہ ہو اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن نغمہ ہاۓ غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے بے صدا ہو جاۓ گا یہ ساِز ہستی ایک دن ّ دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
غزل نمبر 123 طاؤس نمط داغ کے گر رنگ نکالوں یک فرِد نسب نامۂ نیرنگ نکالوں ُ کو تیزئِی رفتار کہ صحرا سے زمیں کو جوں قمرئِی بسمل تپش آہنگ نکالوں 168 داماِن شفق طرِف نقاِب مِہ نو سے)(168 ناخن کو جگر کاوی میں بیرنگ نکالوں کیفیِت دیگر ہے فشاِر دِل خونیں ُ یک غنچہ سے صد خم مۓ گلرنگ نکالوں پیمانۂ وسعت کدۂ شوق ہوں اے رشک محفل سے مگر شمع کو دل تنگ نکالوں گر ہو بلِد شوق مری خاک کو وحشت 168
168۔ شیرانی و عرشی" :ہے" )"سے" کے بجاۓ(۔
صحرا کو بھی گھر سے کئی فرسنگ نکالوں فریاد اسد غفلِت رسوائِی دل سے کس پردے میں فریاد کی آہنگ نکالوں
غزل نمبر 124 سوداۓ عشق سے دِم سرِد کشیدہ ہوں شاِم خیاِل زلف سے صبح دمیدہ ہوں ِ دوراِن سر سے گردِش ساغر ہے متصل خمخانۂ جوں میں دماِغ رسیدہ ہوں کی متصل ستارہ شماری میں عمر صرف تسبیح اشک ہاۓ ز مژگاں چکیدہ ہوں ِ دیتا ہوں کشتگاں کو سخن سے سِر تپش مضراِب تار ہاۓ گلوۓ بریدہ ہوں ش زباں بہ دہن سخت ناگوار ہے جنب ِ خوں نابۂ ہلہِل حسرت چشیدہ ہوں جوں بوۓ گل ہوں گر چہ گرانباِر مشِت زر لیکن اسد بہ وقِت گزشتن جریدہ ہوں
غزل نمبر 125 کیا ضعف میں امید کو دل تنگ نکالوں میں خار ہوں آتش میں چبھوں رنگ نکالوں نے کوچۂ رسوائی و زنجیر پریشاں اے نالہ میں کس پردے میں آہنگ نکالوں یک نشو و نما جا نہیں جولِن ہوس کو ہر چند بمقداِر دِل تنگ نکالوں یک جلوۂ خورشید خریداِر وفا ہو 169 جوں ذرۂ صد آئنہ بیرنگ نکالوں)(169 افسردۂ تمکیں ہے نفس گرمئِی احباب پھر شیشے سے عطِر شرِر سنگ نکالوں ضعف آئنہ پردازئِی دسِت دگراں ہے تصویر کے پردے میں مگر رنگ نکالوں ُ ہے غیرِت الفت کہ اسد اس کی ادا پر گر دیدہ و دل صلح کریں جنگ نکالوں 169 169۔ عرشی" :جوں ذرہ صد آئینۂ بیرنگ نکالوں"۔ شیرانی :جوں ذرہ صد آئینۂ بے زنگ نکالوں ً غالبا یہی دوسری صورت صحیح ہے۔ مفتی صاحب کے نسخے میں " ذرۂ صد آئنہ" کی ترکیب محض کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔
غزل نمبر 126 )(170خوں 170در جگر نہفتہ بہ زردی رسیدہ ہوں گ پریدہ ہوں خود آشیاِن طائِر رن ِ ہے دسِت رد بسیِر جہاں بستِن نظر پاۓ ہوس بہ دامِن مژگاں کشیدہ ہوں میں چشم واکشادہ و گلشن نظر فریب لیکن عبث کہ شبنِم خورشید دیدہ ہوں تسلیم سے یہ نالۂ موزوں ہوا حصول گ خمیدہ ہوں اے بے خبر میں نغمۂ چن ِ پیدا نہیں ہے اصِل تگ و تاِز جستجو ماننِد موِج آب زباِن بریدہ ہوں میں بے ہنر کہ جوہِر آئینہ تھا عبث پاۓ نگاِہ خلق میں خاِر خلیدہ ہوں میرا نیاز و عجز ہے مفِت بتاں اسد یعنی کہ بندۂ بہ درم ناخریدہ ہوں
غزل نمبر 127 ش قدم دیکھتے ہیں جہاں تیرا نق ِ خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں کسو کو زخود رستہ کم دیکھتے ہیں کہ آہو کو پابنِد رم دیکھتے ہیں خِط لخِت دل یک قلم دیکھتے ہیں مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں دل آشفتگاں خاِل کنج دہن کے ِ سویدا میں سیِر عدم دیکھتے ہیں ّ ترے سرِو قامت سے اک ق۔ ِد آدم قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں تماشا کر اے محِو آئینہ داری تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں سراِغ تِف نالہ لے داِغ دل سے ش قدم دیکھتے ہیں کہ شب رو کا نق ِ بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشاۓ اہِل کرم دیکھتے ہیں
غزل نمبر 128 170 170۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ دو شعر موٹے قلم سے شکستہ خط میں درج ہیں: یا رب میں کس غریب کا بخِت رسیدہ ہوں سر پر مرے وباِل ہزار آرزو رہا میں عندلیِب گلشِن نا آفریدہ ہوں ہوں گرِم نشاط تصور سے نغمہ سنج عرشی صاحب نے دوسرے شعر کو "سوداۓ عشق سے دم سرد کشیدہ ہوں" والی غزل کے حاشیے کا اندراج بتایا ہے جو درست نہیں۔
ک چشم سے ہوں جمع نگاہیں جوں مردم ِ خوابیدہ بہ حیرت کدۂ داغ ہیں آہیں پھر حلقۂ کاکل میں پڑیں دید کی راہیں جوں دود فراہم ہوئیں روزن میں نگاہیں ّ پایا سِر ہر ذرہ جگر گوشۂ وحشت ہیں داغ سے معمور شقایق کی کلہیں کس دل پہ ہے عزِم صِف مژگاِن خود آرا آئینے کی پایاب سے اتری ہیں سپاہیں دیر و حرم آئینۂ تکراِر تمنا واماندگئِی شوق تراشے ہے پناہیں یہ مطلع اسد جوہِر افسوِن سخن ہو ض تپاِک جگِر سوختہ چاہیں گر عر ِ مطلع ش یک جلوۂ معنی ہیں نگاہیں حیرت ک ِ کھینچوں ہوں سویداۓ دِل چشم سے آہیں
غزل نمبر 129 )(171بقدِر 171لفظ و معنی فکرت احراِم گریباں ہیں وگرنہ کیجیے جو ذرہ عریاں ہم نمایاں ہیں عروِج نشۂ واماندگی پیمانہ محمل تر گ ریشۂ تاک آبلے جادے میں پنہاں ہیں برن ِ بہ وحشت گاِہ امکاں اتفاِق چشم مشکل ہے مہ و خورشید باہم ساِز یک خواِب پریشاں ہیں نہ انشا معنئِی مضموں نہ امل صورِت موزوں عنایت نامہاۓ اہِل دنیا ہزہ عنواں ہیں طلسِم آفرینش حلقۂ یک بزِم ماتم ہے 172 زمانے کی شِب یلدا سے موۓ سر پریشاں ہیں) (172 یہ کس خورشید)173 (173کی تمثال کا ہے جلوہ سیمابی کہ مثِل ذرہ ہاۓ خاک آئینے پر افشاں ہیں 171 171۔ )الف( اس غزل کے حاشیے پر )موٹا قلم ،شکستہ خط( یہ شعر درج ہے: مگر آتش ہمارا کوکِب اقبال چمکا دے وگر نہ مثِل خار خشک مردوِد گلستاں ہیں )ب( :اسی غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں حسب ذیل غزل درج ہے۔ یہ غزل مفتی انوار الحق کے نسخے میں صفحہ 113پر متن میں طبع ہوئی ہے: مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر ہیں شوق اس دشت میں دوڑاۓ ہے مجھ کو کہ جہاں جادہ غیر از نگِہ دیدۂ تصویر نہیں حسرت لذِت آزار رہی جاتی ہے جادۂ راِہ وفا جز دم شمشیر نہیں رنج نومیدئِی جاوید گوارا رہیو ِ ش تاثیر نہیں ک زبونی نالہ گر ہوں خوش ِ سر کھجاتا ہے جہاں زخِم سر اچھا ہو جاۓ لذِت سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں آئنہ دام کو پردے میں چھپاتا ہے عبث کہ پری زاِد نظر قابِل تسخیر نہیں مثِل گل زخم ہے میرا بھی سناں سے توام تیرا ترکش ہی کچھ آہستئِی تیر نہیں جب کرم رخصِت بے باکی و گستاخی دے کوئی تقصیر بجز خجلِت تقصیر نہیں میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب جس کا دیوان کم از گلشِن کشمیر نہیں ریختے کا وہ ظہوری ہے ،بقوِل ناسخ "آپ بے بہرہ ہے جو معتقِد میر نہیں" 172
172۔ عرشی :زمانے کے ،شِب یلدا سے ،موۓ سر پریشان ہیں"
173 173۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں بجاۓ "خورشید" کے لفظ "ناہید" طبع ہوا ہے۔ عرشی صاحب بھی فرماتے ہیں کہ قلمی نسخے میں "ناہید" ہے۔ یہ درست نہیں۔
اسد بزِم تماشا میں تغافل پردہ داری ہے اگر ڈھانپے تو آنکھیں ڈھانپ ہم تصویِر عریاں ہیں
غزل نمبر 130 جاۓ کہ پاۓ سیِل بل درمیاں نہیں س خانماں نہیں دیوانگاں کو واں ہو ِ کس جرم سے ہے چشم تجھے حسرِت قبول برِگ حنا مگر مژۂ خوں فشاں نہیں ہر رنگ گردش آئنہ ایجاِد درد ہے ک سحاب جز بوداِع خزاں نہیں اش ِ جز عجز کیا کروں بہ تمناۓ بے خودی طاقت حریِف سختئِی خواِب گراں نہیں عبرت سے پوچھ درِد پریشانئِی نگاہ یہ گرِد وہم جز بہ سِر امتحاں نہیں گل غنچگی میں غرقۂ دریاۓ رنگ ہے اے آگہی فریِب تماشا کہاں نہیں برِق بجاِن حوصلہ آتش فگن اسد اے دل فسردہ طاقِت ضبِط فغاں نہیں
غزل نمبر 131 مرِگ شیریں ہوگئ تھی کوہکن کی فکر میں تھا حریِر سنگ سے قطع کفن کی فکر میں ِ فرصِت یک چشِم حیرت شش جہت آغوش ہے ہوں پسند آسا وداِع انجمن کی فکر میں وہ غریِب وحشت آباِد تسلی ہوں جسے کوچہ دے ہے زخِم دل صبح وطن کی فکر میں ِ سایۂ گل داغ و جوِش نکہِت گل موِج درد رنگ کی گرمی ہے تاراِج چمن کی فکر میں فاِل ہستی خار خاِر وحشِت اندیشہ ہے شوخئِی سوزن ہے ساماں پیرہن کی فکر میں غفلِت دیوانہ)174 (174جز تمہیِد آگاہی نہیں مغِز سر خواِب پریشاں ہے سخن کی فکر میں ٰ مجھ میں اور مجنوں میں وحشت ساِز دعوی ہے اسد برگ برِگ بید ہے ناخن زدن کی فکر میں
174
174۔ عرشی و عرشی" :دود" )بجاۓ "درد"(
غزل نمبر 132 175 ش بیداد یاں )(175ہے ترحم آفریں آرائ ِ ک چشِم دام ہے پروانۂ صیاد یاں اش ِ ہے گداِز موم انداِز چکیدن ہاۓ خوں ّ ش زنبوِر عسل ہے نشتِر قصاد یاں نی ِ ناگوارا ہے ہمیں احساِن صاحب دولتاں ہے زِر گل 176سے نظر میں جوہِر فولد یاں ش دل سے ہوۓ ہیں عقدہ ہاۓ کار وا جنب ِ کمتریں مزدوِر سنگیں دست ہے فرہاد یاں قطرہ ہاۓ خوِن بسمل زیِب داماں ہیں اسد ہے تماشا کردنی گلچینئِی جلد یاں
غزل نمبر 133 اے نوا ساِز تماشا سر بکف جلتا ہوں میں اک طرف جلتا ہے دل اور اک طرف جلتا ہوں میں شمع ہوں لیکن بہ پا در رفتہ خاِر جستجو مدعا گم کردہ ہر سو ہر طرف جلتا ہوں میں س دسِت افسوس آتش انگیِز تپش ہے مسا ِ بے تکلف آپ پیدا کر کے تف جلتا ہوں میں ہے تماشا گاِہ سوِز تازہ ہر یک عضِو تن جوں چراغاِن دوالی صف بہ صف جلتا ہوں میں شمع ہوں تو بزم میں جا پاؤں غالب کی طرح بے محل اے مجلس آراۓ نجف جلتا ہوں میں
175
175۔ اس غزل کے حاشیے پریہ دو شعر تحریر کیے ہیں )موٹا قلم ،شکستہ خط(:
دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا بارے اپنے درِد دل کی ہم نے پائی داد یاں ہے مری وحشت عدوۓ اعتباراِت جہاں مہِر گردوں ہے چراِغ رہگزاِر باد یاں 176 176۔ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے نیز نسخۂ عرشی میں یہاں "سے" کے بجاۓ "بھی" مگر قلمی نسخے میں یہ مصرع بصورت بال ہی درج ہے۔
غزل نمبر 134 فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں گ جادہ سِر کوۓ یار رکھتے ہیں برن ِ برہنہ مستئِی صبح بہار رکھتے ہیں ِ جنوِن حسرِت یک جامہ وار رکھتے ہیں طلسِم مستئِی دل آں سوۓ ہجوِم سرشک ہم ایک میکدہ دریا کے پار رکھتے ہیں ہمیں حریِر شرر باِف سنگ خلعت ہے یہ ایک پیرہِن زرنگار رکھتے ہیں ش قدم ہے جادۂ راہ نگاِہ دیدۂ نق ِ گزشتگاں اثِر انتظار رکھتے ہیں ہوا ہے گریۂ بے باک ضبط سے تسبیح ہزار دل پہ ہم اک اختیار رکھتے ہیں گ رواں گ ری ِ بساِط ہیچ کسی میں برن ِ ہزار دل بہ وداِع قرار رکھتے ہیں جنوِن فرقِت یاراِن رفتہ ہے غالب ُ بساِن دشت دِل پر غبار رکھتے ہیں
غزل نمبر 135 )(177تِن 177بہ بنِد ہوس در نہ دادہ رکھتے ہیں )(178دِل 178زکاِر جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں تمیِز زشتی ونیکی میں لکھ باتیں ہیں س آئنہ یک فرِد سادہ رکھتے ہیں بہ عک ِ گ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم برن ِ کہ داِغ دل بہ جبیِن کشادہ رکھتے ہیں بہ زاہداں رِگ گردں ہے رشتۂ زنار سرے بہ پاۓ بتے نا نہادہ رکھتے ہیں ُ معاِف بیہدہ گوئی ہیں ناصحاِن عزیز دلے بہ دسِت نگارے نہ دادہ رکھتے ہیں گ سبزہ عزیزاِن بدزباں یک دست برن ِ ہزار تیغ بہ زہراب دادہ رکھتے ہیں 177 177۔ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے میں )نیز نسخۂ عرشی میں( ان لفظوں کا امل اسی طرح ملتا ہے ،مگر چوتھے اور پانچویں شعر کے مصرِع ثانی میں "سرے بہ پاۓ بتے" اور "دلے بہ دسِت نگارے " آیا ہے۔ اس کے برعکس نسخۂ شیرانی میں چاروں مصرعے بصورِت اول لکھے گۓ ہیں )سرے ،بپاۓ ،بتے وغیرہ( 178
ً 178۔ ایضا
زمانہ سخت کم آزار ہے بجاِن اسد وگر نہ ہم تو توفع زیادہ رکھتے ہیں
غزل نمبر 136 َ بہ غفلت عطِر گل ہم آگہی مخمور ملتے ہیں َ چراغاِن تماشا چشِم صد ناسور ملتے ہیں رہا کس جرم سے میں بے قراِر داِغ ہم طرحی َ سمندر کو پِر پروانہ سے کافور ملتے ہیں چمن نا محرِم آگاہئِی دیداِر خوباں ہے َ سحر گلہاۓ نرگس چند چشِم کور ملتے ہیں س خط بتاں وقِت خود آرائی کجا جوہر چہ عک ِ َ دِل آئینہ زیِر پاۓ خیِل مور ملتے ہیں تماشاۓ بہار آئینۂ پرداِز تسکیں ہے َ کِف گلبرگ سے پاۓ دِل رنجور ملتے ہیں گراں جانی سبک سار و تماشا بے دماغ آیا َ گ کوِہ طور ملتے ہیں س فرصت سن ِ کِف افسو ِ ش یک داِغ مشک اندودہ ہے یا رب اسد حیرت ک ِ َ س شمع پر عطِر شِب دیجور ملتے ہیں لبا ِ
غزل نمبر 137 (179)179سرشک آشفتہ سر تھا قطرہ زن مژگاں سے جانے میں رہے یاں شوخئِی رفتار سے پا آستانے میں ہجوِم مژدۂ دیدار و پرداِز تماشا ہا گِل اقباِل خس ہے چشِم بلبل آشیانے میں ہوئی یہ بے خودی چشم و زباں کو تیرے جلوے سے کہ طوطی قفِل زنگ آلودہ ہے آئینہ خانے میں ترے کوچے میں ہے مشاطۂ واماندگی قاصد پِر پرواز زلِف باز) 180(180ہے ہد ہد کے شانے میں ُ کجا معزولئِی آئینہ کو ترِک خود آرائی ُ نمد در آب ہے اے سادہ پرکار اس بہانے میں بحکِم عجز ابروۓ مِہ نو حیرت ایما ہے کہ یاں گم کر جبیِن سجدہ فرسا آستا نے میں ُ دِل نازک پہ اس کے رحم آتاہے مجھے غالب 179 179۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر لکھا ہے )موٹا قلم ،شکستہ(: ٰ قیامت ہے کہ سن لیلی کا دشت قیس میں آنا تعجب سے وہ بول ،یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں 180 180۔ شیرانی" :پِر پرواز زلِف ناز"
نہ کر بے باک اس کافر کو الفت آزمانے میں
غزل نمبر 138 ص قاتل ذوِق کشتن میں فزوں کی دوستوں نے حر ِ ہوۓ ہیں بخیہ ہاۓ زخم ،جوہر تیغ دشمن میں ِ تماشا کردنی ہے لطِف زخِم انتظار اے دل! )(181سویدا 181داِغ مرہم مردمک ہے چشِم سوزن میں دل و دین و خرد تاراِج ناِز جلوہ پیرائی ہوا ہے جوہِر آئینہ خیِل مور خرمن میں ہوئی تقریِب منع شوِق دیدن خانہ ویرانی ِ گ پنبہ روزن میں کِف سیلب باقی ہے برن ِ نکوہش مانع دیوانگی ہاۓ جنوں آئی ِ لگایا خندۂ ناصح نے بخیہ جیب و دامن میں اسد زندانئِی تاثیِر الفت ہاۓ خوباں ہوں خِم دسِت نوازش ہوگیا ہے طوق گردن میں
غزل نمبر 139 پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں میرے ہاتھوں کو جدا باندھتے ہیں آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے؟ ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں حسِن افسردہ دلی ہا رنگیں شوق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں تیرے بیمار پہ ہیں فریادی وہ جو کاغذ میں دوا باندھتے ہیں قید میں بھی ہے اسیری آزاد چشِم زنجیر کو وا باندھتے ہیں شیخ جی کعبے کا جانا معلوم آپ مسجد میں گدھا باندھتے ہیں کس کا دل زلف سے بھاگا کہ اسد دسِت شانہ بہ قفا باندھتے ہیں
181
180۔ شیرانی و عرشی :سواِد داِغ مرہم
غزل نمبر 140 ش بے جا سے تدبیریں ہوئی ہیں آب شرِم کوش ِ عرق ریِز تپش ہیں موج کی مانند زنجیریں ش حیرت ہے خیاِل سادگی ہاۓ تصور نق ِ گ رفتہ سے کھینچی ہیں تصویریں پِر عنقا پہ رن ِ زبس ہر شمع یاں آئینۂ حیرت پرستی ہے کرے ہیں غنچۂ منقاِر طوطی نقش گلگیریں سپند آہنگئِی ہستی و سعئِی نالہ فرسائی غبار آلودہ میں جوں دوِد شمع کشتہ تقریریں ِ ّ ّ درشتئِی تامل پنبۂ گوِش حریفاں ہے وگرنہ خواب کی مضمر ہیں افسانے میں تعبیریں بتاِن شوخ کی تمکیِن بعد از قتل کی حیرت ض دیدۂ نخچیر پر کھینچے ہے تصویریں بیا ِ اسد طرِز عروِج اضطراِب دل کو کیا کہیے سمجھتا ہوں تپش کو الفِت قاتل کی تاثیریں
غزل نمبر 141 تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں تیری فرصت کے مقابل اے عمر برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں قیِد ہستی سے رہائی معلوم اشک کو بے سرو پا باندھتے ہیں نشۂ رنگ سے ہے واشِد گل مست کب بنِد قبا باندھتے ہیں غلطی ہاۓ مضامیں مت پوچھ لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں اہِل تدبیر کی واماندگیاں آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں ُ 182 سادہ پر کار ہیں خوباں کہ اسد) (182 ہم سے پیماِن وفا باندھتے ہیں
182
182۔ متداول دیوان میں اس مصرعے کو اس مصرعے سے بدل دیا ہے :سادہ پر کار ہیں خوباں غالب۔ جویریہ مسعود
غزل نمبر 142 بے دماغی حیلہ جوۓ ترِک تنہائی نہیں ورنہ کیا موِج نفس زنجیِر رسوائی نہیں وحشئِی خو کردۂ نظارہ ہے حیرت جسے حلقۂ زنجیر جز چشِم تماشائی نہیں قطرے کو جوِش عرق کرتا ہے دریا دستگاہ جز حیا پر کاِر سعئِی بے سروپائی نہیں چشِم نرگس میں نمک بھرتی ہے شبنم سے بہار فرصِت نشو و نما ساِز شکیبائی نہیں کس کو دوں یا رب حساِب سوزناکی ہاۓ دل آمد و رفِت نفس جز شعلہ پیمائی نہیں )(183مت 183رکھ اے انجام غافل ساِز ہستی پر غرور مور کے پر ہیں سر و برِگ خودآرائی نہیں سایۂ افتادگی بالین و بستر ہوں اسد جوں صنوبر دل سراپا قامت آرائی نہیں
غزل نمبر 143 )(184ظاہرا 184سر پنجۂ افتادگاں گیرا نہیں 185 ش پا نہیں ) (185ورنہ کیا دامان کے حسرت پہ نق ِ آنکھیں پتھرائی نہیں ،نا محسوس ہے تاِر نگاہ ہے زمیں از بسکہ سنگیں جادہ بھی پیدا نہیں ہو چکے ہم جادہ ساں صد بار قطع و تا ہنوز زینِت یک پیرہن جوں دامِن صحرا نہیں ہوسکے ہے پردۂ جوشیدِن خوِن جگر اشک بعِد ضبط غیر از پنبۂ مینا نہیں ہوسکے کب کلفِت دل مانع طوفاِن اشک ِ ش دریا نہیں گرِد ساحل سن ِ گ راِہ جوش ِ ہے طلسِم) 186(186دیر میں صد حشِر پاداِش عمل 183 183۔ اس شعر کے حاشیے پر ایک اصلح )شکستہ ،بد خط( درج ہے جو افسوس ہے کہ مجھ سے ٹھیک طرح پڑھی نہیں گئی۔ شاید "مور کے پر" کے بجاۓ "چیونٹی کے پر" بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب اپنے لکھے ہوۓ اشارے کی بنا پر میرے لیے کوئی قطعی راۓ قائم کرنا دشوار ہے۔ 184 184۔ اس غزل کا مقطع جو مفتی انوار الحق کے نسخے کے متن میں طبع ہوا ہے ،قلمی دیوان کے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں درج ہے: بسمل اس تیغ دو دستی کا نہیں بچنا اسد ِ عافیت بیزار شغل کعبتین اچھا نہیں 185
186
ش پا نہیں ش دامن یہ نق ِ 185۔ شیرانی :ورنہ کیا حسرت ک ِ
آگہی غافل کہ یک امروز بے فردا نہیں
غزل نمبر 144 ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں دامِن تمثال آِب آئنہ سے تر نہیں 187 ہوتے ہیں بے قدر درکنج وطن صاحب دلں)(187 ِ عزلت آباِد صدف میں قیمِت گوہر نہیں باعِث ایذا ہے برہم خوردِن بزِم سرور لخت لخِت شیشۂ بشکستہ جز نشتر نہیں واں سیاہی مردمک ہے اور یاں داِغ شراب مہ حریِف نازِش ہم چشمئِی ساغر نہیں ض خم گردیدنی ہے فلک بال نشیِن فی ِ عاجزی سے ظاہرا رتبہ کوئی برتر نہیں دل کو اظہاِر سخن انداِز فتح الباب ہے یاں صریِر خامہ غیر از اصطکاِک در نہیں کب تلک پھیرے اسد لب ہاۓ تفتہ پر زباں طاقِت لب تشنگی اے ساقئِی کوثر نہیں
غزل نمبر 145 دیکھیے مت چشِم کم سے سوۓ ضبط افسردگاں ُ ُ جوں صدف پر در ہیں دنداں در جگر افشردگاں گرِم تکلیِف دِل رنجیدہ ہے از بسکہ چرخ ص کافوری ہے بہِر جاِن سرما خوردگاں قر ِ ش دل یک جہاں ویراں کرے گی اے فلک رنج ِ دشت ساماں ہے غباِر خاطِر افسردگاں س تاسف ہی سہی ہاتھ پر ہو ہاتھ تو در ِ ُ شوق مفِت زندگی ہے اے بہ غفلت مردگاں خار سے گل سینہ افگاِر جفا ہے اے اسد! برگ ریزی ہے پر افشانئِی ناوک خوردگاں
186۔ یہاں قلمی دیوان کے متن میں "طلسم" کے بجاۓ کچھ اور لفظ ہے۔ یوں" :ہاۓ۔۔۔ دیر میں" الخ۔ یہ لفظ ،بعد میں اس بری طرح کاٹ دیا ہے کہ پڑھا نہیں جاتا مگر شروع کا "ہاۓ" بدستور قائم رہا ہے۔ 187 187۔ یہ مصرع متن میں پہلے یوں تھا: "ہوتے ہیں بے قدر درگنج وطن صاحب دلں" )مفتی انوار الحق کا نوٹ(
غزل نمبر 146 188 س گل سے گلزاِر چمن )(188صاف ہے از بسکہ عک ِ جانشیِن جوہِر آئینہ ہے خاِر چمن ہے نزاکت بسکہ فصِل گل میں معماِر چمن قالِب گل میں ڈھلی ہے خشِت دیواِر چمن تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار ش احضاِر چمن جوہِر آئینہ ہے یاں نق ِ بسکہ پائی یارکی رنگیں ادائی سے شکست ہے کلِہ ناِز گل بر طاِق دیواِر چمن الفِت گل سے غلط ہے دعوئِی وارستگی سرو ہے با وصِف آزادی گرفتاِر چمن وقت ہے گر بلبِل مسکیں زلیخائی کرے یوسِف گل جلوہ فرما ہے بہ بازاِر چمن وحشت افزا گریہ ہا موقوِف فصِل گل اسد چشِم دریاریز ہے میزاِب سرکاِر چمن
188
188۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر درج ہے )موٹا قلم ،شکستہ(
ّ برشگاِل گریۂ عشاق دیکھا چاہیے کھل گئی ماننِد گل سو جا سے دیواِر چمن
ردیف و غزل نمبر 147 اگر وہ آفِت نظارہ جلوہ گستر ہو ک دیدہ ہاۓ اختر ہو ہلل ناخن ِ ش غم بہ یاِد قامت اگر ہو بلند آت ِ ہر ایک داِغ جگر آفتاِب محشر ہو ستم کشی کا کیا دل نے حوصلہ پیدا ُ اب اس سے ربط کروں جو بہت ستمگر ہو عجب نہیں پئے تحریِر حاِل گریۂ چشم ش مسطر ہو بروۓ آب جوہر موج نق ِ امیدوار ہوں تاثیِر تلخ کامی سے کہ قنِد بوسۂ شیریں لباں مکرر ہو ّ ش قدم میں کیفیت صدف کی ہے ترے نق ِ ک چشِم اسد کیوں نہ اس میں گوہر ہو سرش ِ
غزل نمبر 148 بے درد سر بہ سجدۂ الفت فرو نہ ہو جوں شمع غوطہ داغ میں کھا گر وضو نہ ہو دل دے کِف تغافِل ابروۓ یار میں آئینہ ایسے طاق پہ گم کر کہ تو نہ ہو زلِف خیال نازک و اظہار بے قرار ش گفتگو نہ ہو یار رب بیاں شانہ ک ِ گ اعتبار تمثاِل ناز جلوۂ نیرن ِ ہستی عدم ہے آئنہ گر روبرو نہ ہو مژگاں خلیدۂ رِگ ابِر بہار ہے نشتر بہ مغِز پنبۂ مینا فرو نہ ہو ض نشاِط دید ہے مژگاِن انتظار عر ِ یارب کہ خاِر پیرہِن آرزو نہ ہو واں پرفشاِن داِم نظر ہوں جہاں اسد س رنگ و بو نہ ہو صبِح بہار بھی قف ِ
غزل نمبر 149 190
حسد) 189(189پیمانہ سے دل عالِم آِب تماشا ہو)(190 کہ چشِم تنگ شاید کثرِت نظارہ سے وا ہو بہم بالیدِن سنگ و گِل صحرا یہ چاہے ہے کہ تاِر جادہ بھی کہسار کو زناِر مینا ہو حریِف وحشِت ناِز نسیِم عشق جب آؤں کہ مثِل غنچہ ساِز یک گلستاں دل مہیا ہو بجاۓ دانہ خرمن یک بیابان بیضۂ قمری مرا حاصل وہ نسخہ ہے کہ جس سے خاک پیدا ہو کرے کیا ساِز بینش وہ تماشارنج) 191(191آگاہی ِ جسے موۓ دماِغ بے خودی خواِب زلیخا ہو ش) 192(192معاصی بھی بہ قدِر حسرِت دل چاہیے عی ِ بھروں یک گوشۂ دامن گر آِب ہفت دریا ہو دِل چوں شمع بہِر دعوِت نظارہ ل ،یعنی 189
189۔ )ا( اس غزل کے حاشیے پر حسب ذیل غزل موٹے قلم سے شکستہ خط میں لکھی ہے:
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو کیجے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلط کا ش محبت ہی کیوں نہ ہو ہے دل پہ بار ،نق ِ ہے مجھ کو تجھ سے تذگرۂ غیر کا گلہ ہر چند بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا یوں ہو تو چارۂ غِم الفت ہی کیوں نہ ہو ڈال نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھینچتا ہوں ،خجالت ہی کیوں نہ ہو ہے آدمی بجاۓ خود اک محشِر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں ،خلوت ہی کیوں نہ ہو ہنگامۂ زبونئِی ہمت ہے انفعال حاصل نہ کیجے دہر سے ،عبرت ہی کیوں نہ ہو وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں اپنے سے کر ،نہ غیرسے ،وحشت ہی کیوں نہ ہو مٹتا ہے فوِت فرصِت ہستی کا غم کوئی عمِر عزیز صرِف عبادت ہی کیوں نہ ہو ُ ُ اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسد اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو )ب( عرشی صاحب لکھتے ہیں کہ قلمی نسخے میں اس غزل کے مطلع کے مصرِع اول "حسد پیمانہ سے" کے بجاۓ "حسد پیمانہ ہے۔۔۔" لکھا ہے۔ 190 191
190۔ متداول دیوان میں یہ مصرعہ یوں ہے" :حسد سے دل اگر افسردہ ہے ،گرِم تماشا ہو"۔ جویریہ مسعود 191۔ متن میں "تماشا رنج" کاٹ کر "شہید درد" بنایا ہے۔
192 192۔ "عیش" کو کاٹ کر "ذوق" لکھا ہے۔
نگہ لبریِز اشک و سینہ معموِر تمنا ہو ش خراِم اہتزاز آوے اگر وہ سر و جاں بخ ِ کِف ہر خاِک گلشن شکِل قمری نالہ فرسا ہو نہ دیکھیں روۓ یک دل سر د غیر از شمع کافوری ِ خدایا اس قدر بزِم اسد گرِم تماشا ہو
غزل نمبر 150 مبادا بے تکلف فصل کا برگ و نوا گم ہو ش موِج صبا گم ہو مگر طوفاِن مے میں پیچ ِ گ ہمت ہے خداوندا سبب وارستگاں کو نن ِ اثر سر مے سے اور لب ہاۓ عاشق سے صدا گم ہو نہیں جز درد تسکیِن نکوہش ہاۓ بے درداں کہ موِج گریہ میں صد خندۂ دنداں نما گم ہو ہوئی ہے ناتوانی بے دماِغ شوخئِی مطلب س سجدہ اے دست دعا گم ہو جبیں میں در لبا ِ تجھے ہم مفت دیویں یک جہاں چیِن جبیں لیکن ّ ش مدعا گم ہو مباد اے پیچ تاِب طبع نق ِ بل گرداِن تمکیِن بتاں صد موجۂ گوہر عرق بھی جن کے عارض پر بہ تکلیِف حیا گم ہو ُ اٹھا وے کب وہ جاِن شرم ہمت قتِل عاشق کی گ حنا گم ہو کہ جس کے ہاتھ میں ماننِد خوں رن ِ کریں خوباں جو سیِر حسن اسد یک پردہ ناز ک تر دِم صبح قیامت در گریباِن قبا گم ہو ِ
غزل نمبر 151 خشکئِی مے نے تلف کی مے کدے کی آبرو کاسۂ دریوزہ ہے پیمانۂ دسِت سبو بہِر جاں پرور دِن یعقوب باِل خاک سے وام لیتے ہیں پِر پرواز پیراہن کی بو گرِد ساحل ہے نِم شرِم جبیِن آشنا گر نہ باندھے قلزِم الفت میں سر جاۓ کدو گرمئِی شوِق طلب ہے عین تاپاِک وصال ش پاۓ جستجو غافلں آئینہ داں ہے نق ِ ش بزِم وصال رہن خاموشی میں ہے آرائ ِ گ رفتۂ خوں گفتگو ہے پِر پرواِز رن ِ ہے تماشا حیرت آباِد تغافل ہاۓ شوق یک رِگ خواب و سراسر جوِش خوِن آرزو خوۓ شرِم سرد بازاری ہے سیِل خانماں
ہے اسد نقصاں میں مفت اور صاحِب سرمایہ تو
غزل نمبر 152 گ طرب ہے صورِت عہِد وفا گرو رن ِ تھا کس قدر شکستہ کہ ہے جابجا گرو پرواِز نقد داِم تمناۓ جلوہ تھا طاؤس نے اک آئنہ خانہ رکھا گرو ض بساِط انجمِن رنگ مفت ہے عر ِ موِج بہار رکھتی ہے اک بوریا گرو ّ ض تمنا ۓ رفتگاں عر خاک رہ ہر ذ ِ آئینہ ہا شکستہ و تمثال ہا گرو س صد قدح شراب ہے تاک میں سلم ہو ِ تسبیح زاہداں بہ کِف مدعا گرو ِ گ دمیدہ ہوں رن ت فرص ر آبیا ِ ِ برق ِ جوں نخِل شمع ریشے میں نشو و نما گرو طاقت بساِط دستگِہ یک قدم نہیں جوں اشک جب تلک نہ رکھوں دست و پا گرو ہے وحشِت جنوِن بہار اس قدر کہ ہے باِل پری بہ شوخئِی موِج صبا گرو بے تاِب سیِر دل ہے سِر ناخِن نگار گ حنا گرو ش رن ِ یاں نعل ہے بہ آت ِ ہوں سخت جاِن کاوِش فکِر سخن اسد تیشے کی کوہسار میں ہے یک صدا گرو
ردیف ہ غزل نمبر 153 رفتار سے شیرازۂ اجزاۓ قدم باندھ اے آبلہ! محمل پئے صحراۓ عدم باندھ بے کارئِی تسلیم بہر رنگ چمن ہے ش قدم باندھ گر خاک ہو گلدستۂ صد نق ِ اے جادہ بہ سر رشتۂ یک ریشہ دویدن شیرازۂ صد آبلہ جوں سبحہ بہم باندھ حیرت حِد اقلیِم تمناۓ پری ہے آئینہ بہ آئیِن گلستاِن ارم باندھ پامرِد یک انداز نہیں قامِت ہستی طاقت اگر اعجاز کرے تہمِت خم باندھ دیباچۂ وحشت ہے اسد شکوۂ خوباں خوں کر دِل اندیشہ و مضموِن ستم باندھ
غزل نمبر 154 خلق ہے صفحۂ عبرت سے سبق ناخواندہ ورنہ ہے چرخ و زمیں یک ورِق گرداندہ میکدے) 193(193میں ز دل افسردگئِی بادہ کشاں موِج مے مثِل خِط جام ہے برجا ماندہ ش دل ہے زباں کو سبِب گفت و بیاں خواہ ِ ہے سخن گرد ز داماِن ضمیر افشاندہ کوئی آگاہ نہیں باطِن ہم دیگر سے ہے ہر اک فرد جہاں میں ورِق ناخواندہ حیف بے حاصلئِی اہِل ریا پر غالب یعنی ہیں ماندہ ز آں سو و ازیں سو راندہ
193 193۔ حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ مصرع یوں بدل ہے: "دیکھ کر بادہ پرستوں کی دل افسردہ کیا"ظاہر ہے کہ اس اصلح سے حسِب ذیل تبدیلی مقصود ہے: "دیکھ کر بادہ پرستوں کی دل افسردگیاں" جہاں املکی اس قسم کی غلطیاں ملتی ہیں ،وہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا موٹے قلم کی اس شکستہ تحریر کو غالب کے ہاتھ سے منسوب کرنا ممکن ہے؟
غزل نمبر 155 بسکہ مے پیتے ہیں ارباِب فنا پوشیدہ س دزدیدہ خِط پیمانۂ مے ہے نف ِ بہ غروِر طرِح قامت و رعنائئِی سرو طوق ہے گردِن قمری میں رِگ بالیدہ کی ہے وا اہِل جہاں نے بہ گلستاِن جہاں چشِم غفلت نظِر شبنِم خور نادیدہ یاس آئینۂ پیدائئِی استغنا ہے نا امیدی ہے پرستاِر دِل رنجیدہ 1 واسطے فکِر مضامیِن متیں کے غالب چاہیے خاطِر جمع و دِل آرامیدہ
غزل نمبر 156 جز)194 (194دل سراِغ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ آئینہ عرض کر خط و خاِل بیاں نہ پوچھ پرواز)195 (195یک تِپ غِم تسخیِر نالہ ہے س آشیاں نہ پوچھ ض خار و خ ِ گرمئِی نب ِ ہندوستان سایۂ گل پاۓ تخت تھا ساماِن بادشاہئِی وصِل بتاں نہ پوچھ تو مشِق ناز کر دِل پروانہ ہے بہار بے تابئِی تجلئِی آتش بجاں نہ پوچھ 196 غفلت متاع ک۔فۂ میزاِن عدل ہیں)(196 یا رب! حساِب سختئِی خواِب گراں نہ پوچھ ہر داِغ تازہ یک دِل داغ انتظار ہے ض فضاۓ سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ عر ِ کہتا تھا کل وہ نامہ رساں سے بہ سوِز دل درِد جدائئِی اسدال خاں نہ پوچھ
194 194۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر درج ہے )موٹا قلم ،شکستہ خط(: ہے سبزہ زار ہر در و دیواِر غم کدہ جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ 195 195۔ یہ غزل کا دوسرا شعر ہے۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں یہ کسی غلطی سے تیسرا شعر بن گیا ہے۔ 196196۔ "ہیں" کو موٹے قلم سے کاٹ کر )متن میں( "ہوں" بنایا ہے۔
غزل نمبر 157 جوِش دل ہے نشہ ہاۓ فطرِت بیدل نہ پوچھ قطرہ ہی میخانہ ہے دریاۓ بے ساحل نہ پوچھ پہن گشتن ہاۓ دل بزِم نشاِط گردباد ض کشاِد عقدۂ مشکل نہ پوچھ لذِت عر ِ آبلہ پیمانۂ اندازۂ تشویش تھا اے دماِغ نارسا خمخانۂ منزل نہ پوچھ نے صبا باِل پری ،نے شعلہ سوداۓ جنوں ض افسوِن گداِز دل نہ پوچھ شمع سے جز عر ِ یک مژہ برہم زدن حشِر دو عالم فتنہ ہے یاں سراِغ عافیت جز دیدۂ بسمل نہ پوچھ بزم ہے یک پنبۂ مینا گداِز ربط سے عیش کر غافل حجاِب نشۂ محفل نہ پوچھ تا تخلص جامۂ شنگرفی ارزانی اسد شاعری جز ساِز درویشی نہیں حاصل نہ پوچھ
غزل نمبر 158 شکوہ و شکر کو ثمر بیم و امید کا سمجھ خانۂ آگہی خراب ،دل نہ سمجھ بل سمجھ ّ 197 س تسلئِی شعاع ری ِ گ روان و مرتپش) (197در ِ آئنہ طور) 198(198اے خیال جلوے کو خوں بہا سمجھ وحشِت درِد بیکسی بے اثر اس قدر نہیں رشتۂ عمِر خضر کو نالۂ نا رسا سمجھ س جنوں ہوس کرے شوِق عناں گسل اگر در ِ جادۂ سیِر دوجہاں یک مژہ خواِب پا سمجھ گاہ بہ خلد امیدوار ،گہ بہ جحیم بیم ناک گر چہ خدا کی یاد ہے کلفِت ماسوا سمجھ اے بہ سراِب حسِن خلق تشنۂ سعئِی امتحاں شوق کو منفعل نہ کر ،ناز کو التجا سمجھ شوخئِی حسن و عشق ہے آئنہ داِر ہمد گر خار کو بے نیام جان ،ہم کو برہنہ پا سمجھ نغمۂ بیدلی اسد ساِز فسانگی نہیں بسمِل درِد خفتہ ہو گریۂ ماجرا سمجھ
غزل نمبر 159 197 197۔ نسخۂ شیرانی و عرشی" :ہرتپش" )بجاۓ "مرتپش"(۔ 198 198۔ عرشی" :توڑ" )بجاۓ "طور"(۔
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئنہ حیرت ہجوم لذِت غلطانئِی تپش سیماب بالش و کمِر دل ہے آئنہ غفلت بہ باِل جوہِر شمشیر پرفشاں یاں پشت چشِم شوخئِی قاتل ہے آئنہ حیرت نگاہ برق تماشا بہار شوخ در پردۂ ہوا پِر بسمل ہے آئنہ یاں رہ گۓ ہیں ناخِن تدبیر ٹوٹ کر جوہر طلسِم عقدۂ مشکل ہے آئنہ ہم زانوۓ تامل و ہم جلوہ گاِہ گل آئینہ بنِد خلوت و محفل ہے آئنہ دل کارگاِہ فکر و اسد بے نواۓ دل گ آستانۂ بیدل ہے آئنہ یاں سن ِ
غزل نمبر 160 کلفِت ربِط این و آں غفلِت مدعا سمجھ شوق کرے جو سرگراں محمِل خواِب پا سمجھ جلوہ نہیں ہے درِد سر ،آئنہ صندلی نہ کر ّ ُ عکس کجا و کو نظر ،نقش کو مدعا سمجھ حیرت اگر خرام ہے ،کاِر نگہ تمام ہے گر کِف دست بام ہے آئنے کو ہوا سمجھ ُ س آرزو در ل او تو، ہے خِط عجِز ما و ِ ِ 199 کہتے ہیں اہِل گفتگو کچھ نہ سمجھ فنا سمجھ)(199 شیشہ شکست اعتبار ،رنگ بہ گردش استوار گر نہ مٹیں یہ کوہسار ،آپ کو تو صدا سمجھ نغمہ ہے محِو ساز رہ نشہ ہے بے نیاِز رہ رنِد تمام ناز رہ خلق کو پارسا سمجھ چربئِی پہلوۓ خیال رزِق دو عالم احتمال کل ہے جو وعدۂ وصال آج بھی اے خدا سمجھ نے سرو برِگ آرزو ،نے رہ و رسِم گفتگو اے دل و جاِن خلق تو ہم کو بھی آشنا سمجھ لغزِش پا کو ہے بلد ،نغمۂ یا علی مدد ٹوٹے گر آئنہ اسد سبحے کو خوں بہا سمجھ
199 199۔ اس مصرع کے پہلے تین لفظوں کے نیچے متن میں موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ اصلح درج ہے" :ہے یہ سیاق"۔
ردیف ی غزل نمبر 161 ُ دل ہی نہیں کہ منِت درباں اٹھائیے ُ کس کو وفا کا سلسلہ جنباں اٹھائیے ُ تا چند داغ بیٹھیے ،نقصاں اٹھائیے ُ اب چار سوۓ عشق سے دوکاں اٹھائیے ُ صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے ُ طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے ہستی فریب نامۂ موِج سراب ہے ُ یک عمر ناِز شوخئِی عنواں اٹھائیے ہے سنگ پر براِت معاِش جنوِن عشق ُ یعنی ہنوز منِت طفلں اٹھائیے ضبِط جنوں سے ہر سِر مو ہے ترانہ خیز ُ یک نالہ بیٹھیے تو نیستاں اٹھائیے ک نمک اثر طرِز خراِش نالہ سرش ِ ُ لطِف کم بدولِت مہماں اٹھائیے دیوار باِر منِت مزدور سے ہے خم ُ اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے یا میرے زخِم رشک کو رسوا نہ کیجیے ُ یا پردۂ تبسِم پنہاں اٹھائیے انگور سعئِی بے سرو پائی سے سبز ہے ُ ُ غالب بدوِش دل خِم مستاں اٹھائیے
غزل نمبر 162 ہے) 200(200بزِم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے ہے دوِر قدح وجِہ پریشانئِی صہبا ُ یک بارلگادو خِم مے میرے لبوں سے کیا پوچھے ہے بر خود غلطی ہاۓ) 201(201عزیزاں خواری کو بھی اک عار ہے عالی نسبوں سے رنداِن دِر میکدہ گستاخ ہیں زاہد زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے گو تم کو رضا جوئِی اغیار ہے لیکن جاتی ہے ملقات کب ایسے سببوں سے بیداِد وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے مت پوچھ اسد غصۂ) 202(202کم فرصتئِی زیست دو دن بھی جو کاٹے تو قیامت تعبوں سے 200 200۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں حسب ذیل سات ابیات نقل ہوۓ ہیں: مسجد کے زیِر سایہ خرابات چاہیے َ بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے صاحب کے ہم نشیں کو کرامات چاہیے عاشق ہوۓ ہیں آپ بھی اک اور شخص پر آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے دے داد اے فلک دِل حسرت پرست کی ہاں کچھ نہ کچھ تلفئِی ما فات چاہیے سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری تقریب کچھ تو بہِر ملقات چاہیے مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے نشو و نما ہے اصل سے غالب فروع کو خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے اس کے بعد اگلے صفحے کے حاشیے پر اسی خط میں ذیل کے تین شعر درج ہیں: گ للہ و گل و نسریں جدا جدا ہے رن ِ ہر نگ میں بہار کا اثبات چاہیے ُ سرپاۓ خم پہ چاہیے ہنگاِم بیخودی رو سوۓ قبلہ وقِت مناجات چاہیے یعنی بحسِب گردِش پیمانۂ صفات عارف ہمیشہ مسِت مۓ ذات چاہیے ُ تیس برس پہلے کے جو اشارات مجھے اس وقت میسر ہیں ،ان میں یہ آخر الذکر تین شعر ترتیِب بال سے درج ہیں لیکن اول الذکر سات شعروں کے متعلق افسوس ہے کہ میں نے یہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھی۔ صرف شعر 2کے متعلق یقین ہے کہ وہ اپنے صحیح مقام ُ پر درج ہوا ہے۔ چنانچہ اس دوسرے شعر نیز مطلع اور مقطع سے قطع نظر باقی چار شعروں کی ترتیب اس وقت تک مشتبہ رہے گی جب تک ہندوستان کے احباب میں سے کوئی صاحب قلمی نسخے سے رجوع فرما کے اس مسئلے کو حل نہیں کر دیں گے۔ 201 201۔ کتاب کے اصل متن میں "برخودغلطیہائے" درج ہے ۔ اسے جدید کے مطابق " بر خود غلطی ہاۓ" لکھا۔ جویریہ مسعود 202 202۔ قلمی نسخے میں یوں ہی ہے ،اگر چہ مفتی انوار الحق کے نسخےمیں کسی کارکن کی سہل انگاری کی وجہ سے "غصہ" کے بجاۓ "وعدہ" چھپ گیا ہے۔ نسخۂ عرشی میں بھی "وعدہ" درج ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عرشی صاحب نے یہاں مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے پر انحصار کیا ہے۔
غزل نمبر 163 ُ غِم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یارب ُ قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلنے کی لکدکوِبحوادث سے نہ سر بر ہو سکی آخر ُ مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوِز غم چھپانے کی ُ انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا ُ اٹھے تھے سیِر گل کو ،دیکھنا شوخی بہانے کی ہماری سادگی تھی ،التفاِت ناز پر مرنا ترا آنا نہ تھا ظالم ،مگر تمہید جانے کی کہوں کیا خوبئِی اوضاِع ابناۓ زماں غالب ُ بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
غزل نمبر 164 بساِط) 203(203عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی سو رہتا ہے بہ انداِز چکیدن سر نگوں وہ بھی ُ رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے تکلف بر طرف ،تھا ایک انداِز جنوں وہ بھی مۓ عشرت کی خواہش ساقئِی گردوں سے کیا کیجے لیے بیٹھا ہے اک دو چار جاِم واژگوں وہ بھی مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے کہیں ہو جاۓ جلد اے گردِش گردوِن دوں وہ بھی ّ نہ اتنا ب۔رِش تیغ جفا پر ناز فرماؤ مرے دریاۓ بیتابی میں ہے یک) 204(204موِج خوں وہ بھی اسد ہے دل میں درِد اشتیاق و شکوۂ ہجراں ُ خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی 203 203۔ چھ ابیات کی اس غزل کے حاشیے پر یہ تین شعر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں درج ہیں: خیاِل مرگ کب تسکیں دِل آزردہ کو بخشے مرے داِم تمنا میں ہے اک صیِد زبوں وہ بھی نہ کرتا کاش نالہ ،مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم ش درِد دروں وہ بھی کہ ہوگا باعِث افزای ِ نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کے آنے کا کہ میری خواب بندی کے لیے ہوگا فسوں وہ بھی 204
204۔ قلمی نسخے کے متن میں "یکموج" لکھا ہے۔ )متداول نسخوں میں "اک موج" معروِف عام ہے(۔
غزل نمبر 165 پھونکتا ہے نالہ ہر شب صور اسرافیل کی ہم کو جلدی ہے مگر تو نے قیامت ڈھیل کی کی ہیں کس پانی سے یاں یعقوب نے آنکھیں سفید ہے جو آبی پیرہن ہر موج روِد نیل کی عرش پر تیرے قدم سے ہے دماِغ گرِد راہ ُ ْ آج تنخواِہ شکستن ہے کلہ جبریل کی مدعا درپردہ یعنی جو کہوں باطل سمجھ وہ فرنگی زادہ کھاتا ہے قسم انجیل کی خیر خواِہ دید ہوں از بہِر دفع چشم زخم ِ کھینچتا ہوں اپنی آنکھوں میں سلئی نیل کی نالہ کھینچا ہے سراپا داِغ جرأت ہوں اسد کیا سزا ہے میرے جرِم آرزو تاویل کی
غزل نمبر 166 کیا ہے ترِک دنیا کاہلی سے ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے خراِج دی۔ہ۔ِہ ویراں یک کِف خاک بیاباں خوش ہوں تیری عاملی سے پرافشاں ہو گئے شعلے ہزاروں رہے ہم داغ ،اپنی کاہلی سے خدا یعنی پدر سے مہرباں تر پھرے ہم در بدر ناقابلی سے اسد قرباِن لطِف جوِر بیدل خبر لیتے ہیں ،لیکن بیدلی سے
غزل نمبر 166 حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی دل جوِش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی کرتے ہو شکوہ کس کا ،تم اور بے وفائی سر پیٹتے ہیں اپنا ،ہم اور نیک نامی صد رنگ گل کترنا ،درپردہ قتل کرنا تیغ ادا نہیں ہے پابنِد بے نیامی ِ طرِف سخن نہیں ہے مجھ سے خدا نکردہ ُ ہے نامہ بر کو اس سے دعواۓ ہم کلمی
طاقت فسانۂ باد ،اندیشہ شعلہ ایجاد اے غم ہنوز آتش ،اے دل ہنوز خامی ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن ہے شرِح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامی ہے یاس میں اسد کو ساقی سے بھی فراغت دریا سے خشک گزری مستوں کی تشنہ کامی
غزل نمبر 167 ُ نگہ اس چشم کی افزوں کرے ہے ناتوانائی پِر بالش ہے وقِت دید مژگاِن تماشائی شکسِت قیمِت دل آں سوۓ عذِر شناسائی ُ طلسِم ناامیدی ہے خجالت گاِہ پیدائی ّ تحیر ہے گریباں گیِر ذوِق جلوہ پیرائی ملی ہے جوہِر آئینہ کو جوں بخیہ گیرائی گ داِغ حیرت انشائی پِر طاوس ہے نیرن ِ دو عالم دیدۂ بسمل چراغاں جلوہ پیمائی شراِر سنگ سے پا در حنا گلگوِن شیریں ہے ض آتشیں پائی ہنوز اے تیشۂ فرہاد عر ِ ُ ُ غروِر دسِت رد نے شانہ توڑا فرِق ہدہد پر گ بے دماغاِن خود آرائی سلیمانی ہے نن ِ جنوں افسردہ و جاں ناتوں اے جلوہ شوخی کر گئی یک عمِر خود داری بہ استقباِل رعنائی نگاِہ عبرت افسوں ،گاہ برق و گاہ مشعل ہے ہوا ہر خلوت و جلوت سے حاصل ذوِق تنہائی گ امتیاز اور نالہ موزوں ہو خدایا! خوں ہو رن ِ جنوں کو سخت بیتابی ہے تکلیف شکیبائی ش داِغ پلنگ آیا جنوِن بیکسی ساغر ک ِ ض ناِز مینائی شرر کیفیِت مے ،سنگ عر ِ خراباِت جنوں میں ہے اسد وقِت قدح نوشی بعشِق ساقئِی کوثر بہاِر بادہ پیمائی
غزل نمبر 168 کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے ُ جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے
ُ کی اس نے گرم سینۂ اہِل ہوس میں جا آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے ہے بارے اعتماِد وفاداری اس قدر ہم بھی اسی میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیواِر یار میں فرماں رواۓ کشوِر ہندوستان ہے کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا بس چپ رہو ،ہمارے بھی منہ میں زبان ہے دہلی کے رہنے والو اسد کو ستاؤ مت بے چارہ چند روز کا یاں میہان ہے
غزل نمبر 169 درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہاۓ ہاۓ کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہاۓ ہاۓ تیرے دل میں گر نہ تھا آشوِب غم کا حوصلہ ُ تو نے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہاۓ ہاۓ کیوں مری غمخوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال دشمنی اپنی تھی میری دوستداری ہاۓ ہاۓ عمر بھر کا تو نے پیماِن وفا باندھا تو کیا عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہاۓ ہاۓ شرِم رسوائی سے جا چھپنا نقاِب خاک میں ُ ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہاۓ ہاۓ گلفشانی ہاۓ ناِز جلوہ کو کیا ہوگیا خاک پر ہوتی ہے تیری للہ کاری ہاۓ ہاۓ زہر لگتی ہے مجھے آب و ہواۓ زندگی یعنی تجھ سے تھی اسے ناسازگاری ہاۓ ہاۓ ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا دل پہ اک لگنے نہ پایا زخِم کاری ہاۓ ہاۓ س پیماِن محبت مل گئی ُ خاک میں نامو ِ اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسِم یاری ہاۓ ہاۓ کس طرح کاٹے کوئی شب ہاۓ تاِر برشکال ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہاۓ ہاۓ گوش مہجوِر پیام و چشم محروِم جمال ایک دل ِتس پر یہ نا امیدواری ہاۓ ہاۓ ُ گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتے اسد میری دہلی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہاۓ ہاۓ
غزل نمبر 170 سرگشتگی میں عالِم ہستی سے یاس ہے تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے لیتا نہیں مرے دِل آوارہ کی خبر اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے کیجے بیاں سروِر تِپ غم کہاں تلک ہر مو مرے بدن پہ زباِن سپاس ہے پی جس قدر ملے شِب مہتاب میں شراب اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے ُ ہے وہ غروِر حسن سے بیگانۂ وفا ُ ہر چند اس کے پاس دِل حق شناس ہے ُ کیا غم ہے اس کو جس کا علی سا امام ہو اتنا بھی اے فلک زدہ کیوں بے حواس ہے ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد ُ مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اداس ہے
غزل نمبر 171 گر خامشی سے فائدہ اخفاۓ حال ہے خوش ہوں کہ میری بات سمجھنا محال ہے کس کو سناؤں حسرِت اظہار کا گلہ دل فرِد جمع و خرِچ زباں ہاۓ لل ہے کس پردے میں ہے آئنہ پرداز اے خدا رحمت کہ عذر خواِہ لِب بے سوال ہے ہے ہے خدا نخواستہ وہ اور دشمنی اے ذوق ،منفعل ،یہ تجھے کیا خیال ہے عالم بساِط دعوِت دیوانگی نہیں دریا زمین کو عرِق انفعال ہے س کعبہ علی کے قدم سے جان مشکیں لبا ِ ناِف زمین ہے نہ کہ ناِف غزال ہے )(205پہلو 205تہی نہ کر غم و اندوہ سے اسد دل وقِف درد کر کہ فقیروں کا مال ہے
205 205۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ دوسرا مقطع لکھا ہے )موٹا قلم ،بد خط ،شکستہ(: ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد عالم تمام حلقۂ داِم خیال ہے
غزل نمبر 172 ص گدایاں کماِل بے ادبی ہے نظر بہ نق ِ کہ خاِر خشک کو بھی دعوئ چمن نسبی ہے ہوا وصال سے شوِق دِل حریص زیادہ لِب قدح پہ کِف بادہ جوِش تشنہ لبی ہے خوشا وہ دل کہ سراپا طلسِم بے خبری ہو جنون ویاس و الم رزِق مدعا طلبی ہے تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے چمن میں کس کے یہ برہم ہوئی ہے بزِم تماشا کہ برگ برِگ سمن شیشہ ریزۂ حلبی ہے اماِم ظاہر و باطن ،امیِر صورت و معنی علی ولی اسدال جانشیِن نبی ہے ُ ََْْ اسد یہ درد والم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر نہ گریۂ سحری ہے ،نہ آِہ نیم شبی ہے
غزل نمبر 173 بسکہ زیِر خاک با آِب طراوت راہ ہے َْ ریشے سے ہر تخم کا دلو اندروِن چاہ ہے س گل ہاۓ سمن سے چشمہ ہاۓ باغ میں عک ِ س ماہی آئنہ پرداِز داِغ ماہ ہے فل ِ ض بی دماغی ہاۓ دل واں سے ہے تکلیِف عر ِ یاں صریِر خامہ مجھ کو نالۂ جانکاہ ہے حسن و رعنائی میں وہِم صد سر و گردن ہے فرق سرو کے قامت پہ گل یک دامِن کوتاہ ہے ش ارباِب غفلت پر اسد رشک ہے آسای ِ پیچ و تاِب دل نصیِب خاطِر آگاہ ہے
غزل نمبر 174 )(206بسکہ 206چشم از انتظاِر خوش خطاں بے نور ہے یک قلم شاِخ گِل نرگس عصاۓ کور ہے ہوں تصور ہاۓ ہمدوشی سے بدمسِت شراب حیرِت آغوِش خوباں ساغِر بلور ہے ُ ہے عجب مردوں کو غفلت ہاۓ اہل دہر سے سبزہ جوں انگشِت حیرت در دہاِن گور ہے حسرت آباِد جہاں میں ہے الم غم آفریں نوحہ گویا خانہ زاِد نالۂ رنجور ہے کیا کروں غم ہاۓ پنہاں لے گئے صبر و قرار دزد گر ہو خانگی تو پاسباں مجبور) 207(207ہے ٰ )(208ہو 208جہاں اورنگ آرا جانشیِن مصطفی ش پاۓ مور ہے واں اسد تخِت سلیماں نق ِ 206206۔ )ا( اس مطلع کے بجاۓ حاشیے پر )موٹا قلم ،بد خط شکستہ( یہ دوسرا مطلع درج ہے اور متن میں درج شدہ مطلع کے دونوں مصرعوں پر اسی خط میں "لل" لکھا ہے: ُ بزِم خوباں بسکہ جوِش جلوہ سے پر نور ہے ُ پشِت دسِت عجزیاں ہر برِگ نخِل طور ہے )ب( اس غزل کے حاشیے پر یہ تین شعر درج ہیں )موٹا قلم ،بد خط شکستہ(: ہے ز پا افتادگی نشہ پیمائی مجھے بے سخن تبخالۂ لب دانۂ انگور ہے ُ آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا ہر کوئی درماندگی میں نالے سے مجبور ہے ض بے دماغی اور اسد واں ہے تکلیِف عر ِ یاں صریِر خامہ مجھ کو نالۂ رنجور ہے ً شعر نمبر 1اور شعر نمبر 3کے پہلے مصرعے بداہتہ ساقط الوزن ہیں۔ اس قسم کی کوتاہیوں کے باعث موٹے قلم کے بد خط محرر کی کور ذوقی ثابت ہوتی ہے اور یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ غالب کی نہیں ،کسی اور شخص کی تحریر ہے۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں پہلے شعر کے مصرِع اول کو یوں اصلح دی گئ ہے: ہے ز پاافتادگی ہی نشہ پیمائی مجھے اور تیسرے شعر کے مصرع اول کو بطریق ذیل: ض بے دماغی اور اسد ہے وہاں تکلیِف عر ِ صورِت اول میں مفتی صاحب کی اصلح قبول کی جاسکتی ہے ،لیکن دوسری صورت میں "ہے تکلیف" کے دونوں لفظ بد خط کاتب نے اس طرح ساتھ ساتھ لکھے ہیں کہ ان کے درمیان "وہاں" کا دخل بہ تکلف ہی ممکن ہے۔ 207
207۔ عرشی" :معذور" )بجاۓ"مجبور"(۔
ُ 208 208۔ اس مقطع کے دونوں مصرعوں میں حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں "جس جگہ ہو مسند آرا" اور "اس جگہ" بنایا گیا ہے۔ مفتی انوار الحق نے اس اصلح کو اپنے مطبوعہ نسخے کے متن میں جگہ دی ہے۔
غزل نمبر 175 )(209رفتاِر 209عمر قطع رِہ اضطراب ہے ِ ِاس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے ظاہر ہے طرِز قید سے صیاد کی غرض ک کباب ہے جو دانہ دام میں ہے سو اش ِ 210 میناۓ مے ہے سرِو نشاِط بہار سے)(210 باِل تدرو جلوۂ موِج شراب ہے س سیِر للہ زار بے چشِم دل نہ کر ہو ِ یعنی یہ ہر ورق ورِق انتخاب ہے ُ نظارہ کیا حریف ہو اس برِق حسن کا جوِش بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے میں نامراد دل کی تسلی کو کیا کروں مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے گزرا اسد مسرِت پیغاِم یار سے ک سوال و جواب ہے قاصد پہ مجھ کو رش ِ
غزل نمبر 176 ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے صبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے ِ ہے پیچتاِب رشتۂ شمع سحر گہی ِ س نارسا مجھے خجلت گدازئِی نف ِ واں رنگہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز 209
209۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے یہ دو شعر)بد خط ،شکستہ( لکھے ہیں:
زخمی ہوا ہے پاشنہ پاۓ ثبات کا نے بھاگنے کی گوں ،نہ اقامت کی تاب ہے جاداِد بادہ نوشئِی رنداں ہے شش جہت غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے دوسرے شعر کے پہلے مصرع کا امل بد خط شکستہ لکھنے والے نے یوں کیا ہے: جانداد بادہ نوشئ زنداں ہے ششجہت "جانداد" سے قطع نظر "زنداں" کا "زند" حاشیے میں بہت نمایاں ہے۔ اندریں حالت موٹے قلم کے شکستہ اندراجات کو غالب کی تحریر ماننا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ 210 210۔ 1938ع کے لیے ہوۓ اشارات مجھے یہ نہیں بتاتے کہ قلمی نسخے میں اس مصرع کی کیا صورت ہے۔ مطبوعہ نسخے ُ ً میں جو صورت ملتی ہے اس نے مصرع کو بداہتہ مہمل بنا دیا ہے۔ میری راۓ میں یہ مصرع دراصل یوں ہے:میناۓ مے ہے سرِو نشاط بہاِر مےعرشی صاحب نے صورِت ذیل کو ترجیح دی ہے: میناۓ مے ہے ،سرو ،نشاِط بہار سے نیز نسخۂ شیرانی میں بھی یہی صورت ہے۔
یاں شعلۂ چراغ ہے برِگ حنا مجھے کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں آنے لگی ہے نکہِت گل سے حیا مجھے پرواز ہا نیاِز تماشاۓ حسِن دوست باِل کشادہ ہے نگِہ آشنا مجھے از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے موِج غباِر سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے تا چند پست فطرتئِی طبع آرزو ِ یا رب ملے بلندئِی دسِت دعا مجھے یاں آب و دانہ موسِم گل میں حرام ہے زناِر واگسستہ ہے موِج صبا مجھے یکبار امتحاِن ہوس بھی ضرور ہے اے جوِش عشق بادۂ مرد آزما مجھے س رنگ میں نے جنوں سے کی جو اسد التما ِ خوِن جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے
غزل نمبر 177 اے خیاِل وصل نادر ہے مے آشامی تری پختگی ہاۓ کباِب دل ہوئی خامی تری رچ گیا جوِش صفاۓ زلف کا اعضا میں عکس ہے نزاکت جلوہ اے ظالم سیہ فامی تری برگریزی ہاۓ گل ہے وضع زر افشاندنی ِ باج لیتی ہے گلستاں سے گل اندامی تری بسکہ ہے عبرت ادیِب یاوگی ہاۓ ہوس میرے کام آئی دِل مایوس ناکامی تری ہم نشینئِی رقیباں گرچہ ہے ساماِن رشک لیکن اس سے ناگوارا تر ہے بدنامی تری سر بزانوۓ کرم رکھتی ہے شرِم ناکسی اے اسد بے جا نہیں ہے غفلت آرامی تری
غزل نمبر 178
ُ ربِط تمیِز اعیاں درِد مۓ صدا ہے ٰ اعمی کو سرمۂ چشم آواِز آشنا ہے موۓ دماِغ وحشت سر رشتۂ فنا ہے شیرازۂ دو عالم یک آِہ نارسا ہے س خرام دینا دیوانگی ہے تجھ کو در ِ ش پا ہے موِج بہار یکسر زنجیِر نق ِ پروانے سے ہو شاید تسکیِن شعلۂ شمع ش وفاہا بیتابئِی جفا ہے آسای ِ اے اضطراِب سرکش یک سجدہ وار تمکیں میں بھی ہوں شمع کشتہ گر داغ خوں بہا ہے ِ نے حسرِت تسلی ،نے ذوِق بے قراری یک درد و صد دوا ہے یک دست و صد دعا ہے دریاۓ مے ہے ساقی لیکن خمار باقی تا کوچہ دادِن موج خمیازہ آشنا ہے وحشت نہ کھینچ قاتل حیرت نفس ہے بسمل جب نالہ خوں ہو ،غافل! تاثیر کیا بل ہے بت خانے میں اسد بھی بندہ تھا گاہ گاہے حضرت چلے حرم کو اب آپ کا خدا ہے
غزل نمبر 179 )(211ضبط 211سے جوں مردمک اسپند اقامت گیر ہے مجمِر بزِم فسردن دیدۂ نخچیر ہے آشیاں بنِد بہاِر عیش ہوں ہنگاِم قتل گ رفتہ باِل تیر ہے یاں پِر پرواِز رن ِ ش روۓ یار ہے جہاں فکِر کشیدن ہاۓ نق ِ ماہتاِب ہالہ پیرا گردۂ تصویر ہے وقِت حسن افروزئِی زینت طرازاں جاۓ گل از نہاِل شمع پیدا غنچۂ گلگیر ہے گریے سے بنِد محبت میں ہوئی نام آوری لخت لخِت دل مکین خانۂ زنجیر ہے ریزِش خوں ہے) 212 (212سراسر جرعہ نوشی ہاۓ یار یاں گلوۓ شیشۂ مے قبضۂ شمشیر ہے 211 211۔ اس غزل کے شروع میں حاشیے پر "فوجدار محمد خاں بہادر" کی 1248ھ کی مہر لگی ہے۔ 212
212۔ "سراسر" پر "ل" لکھ کر "ہے" سے پہلے لفظ "وفا" کا اضافہ کیا ہے۔ اس طرح مصرع کی صورت بعد از ترمیم یوں ہوگئی
ہے: ریزِش خوِن وفا ہے جرعہ نوشی ہاۓ یار
جو بہ شاِم غم چراِغ خلوِت دل تھا اسد س تقریر ہے وصل میں وہ سوِز شمِع مجل ِ
غزل نمبر 180 گر یاس سر نہ کھینچے تنگی عجب فضا ہے وسعت گِہ تمنا یک بام)213 (213و صد ہوا ہے برہمزِن دو عالم تکلیِف یک صدا ہے مینا شکستگاں کو کہسار خوں بہا ہے فکِر سخن یک انشا زندانئِی خموشی دوِد چراغ گویا زنجیِر بے صدا ہے موزونئِی دو عالم قرباِن ساِز یک درد َ مصراِع نالۂ نے سکتہ ہزار جا ہے َ س خرام تا کے خمیازۂ روانی در ِ ش پاہے ِاس موِج مے کو غافل پیمانہ نق ِ گردش میں ل تجلی ،صد ساغِر تسلی ّ چشِم تحیر آغوِش مخموِر ہر ادا ہے یک برِگ بے نوائی صد دعوِت نیستاں طوفاِن نالۂ دل تا موِج بوریا ہے اے غنچۂ تمنا یعنی کِف نگاریں دل دے تو ہم بتا دیں مٹھی میں تیری کیا ہے ہر نالۂ اسد ہے مضموِن داد خواہی یعنی سخن کو کاغذ احراِم مدعا ہے
غزل نمبر 181 ذوِق بے پرواہ خراِب وحشِت تسخیر ہے آئنہ خانہ مری تمثال کو زنجیر ہے ض سواد ذرہ دے مجنوں کس کس داغ کو عر ِ ہر بیاباں یک بیاباں حسرِت تعمیر ہے ش مضموں کو حسِن ربِط خط کیا چاہیے میک ِ لغزِش رفتاِر خامہ مستئِی تحریر ہے خانماِن جبریاِن غفلِت معنی خراب جب ہوۓ ہم بے گنہ رحمت کی کیا تقصیر ہے چاہے گر جنت جز آدم وارِث آدم نہیں شوخئِی ایماِن زاہد سستئِی تدبیر ہے ش دل تیز یعنی مثِل شمع شب دراز و آت ِ مہ ز سر تا ناخِن پا رزِق یک شبگیر ہے گ ہمِت باطل سے مرد آب ہو جاتے ہیں نن ِ 213
213۔ مطبوعہ نسخے میں کاتب نے شاید غلطی سے "نام" درج کیا ہے۔
اشک پیدا کر اسد گر آہ بے تاثیر ہے
غزل نمبر 182 )(214یہ 214سر نوشت میں میری ہے اشک افشانی کہ موِج آب ہے ہر ایک چیِن پیشانی جنوِن وحشِت ہستی یہ عام ہے کہ بہار رکھے ہے کسوِت طاؤس میں پر افشانی لِب نگار میں آئینہ دیکھ آِب حیات بہ گمرہئِی سکندر ہے محِو حیرانی نظر بہ غفلِت اہِل جہاں ،ہوا ظاہر 215 کہ عیِد خلق پہ حیراں ہے چشِم قربانی) (215 کہوں وہ مصرِع برجستہ وصِف قامت میں ُ کہ سرو ہو نہ سکے اس کا مصرِع ثانی اسد نے کثرِت دل ہاۓ خلق سے جانا کہ زلِف یار ہے مجموعۂ پریشانی
214 214۔ اس غزل کے اوپر لفظ "غلط" لکھا ہے۔ )موٹا قلم ،شکستہ ،بد خط(۔ 215 215۔ "قلمی نسخے میں اس مصرع کا کوئی لفظ بہ سہِو کاتب رہ گیا ہے کیونکہ متن میں یہ مصرع یوں درج ہے: "کہ عید خلق یہ حیراں ہے قربانی" جو کسی طرح موزوں نہیں ہوسکتا۔ میں نے جسارت کرکے ایک لفظ "چشم" بڑھا دیا ہے۔ ارباِب نظر اس جرأت کو معاف فرما کر خود تصحیح فرمالیں۔" )مفتی انوار الحق کا نوٹ(۔
غزل نمبر 183 بے خود زبسکہ خاطِر بے تاب ہوگئی مژگاِن باز ماندہ رِگ خواب ہوگئی موِج تبسِم) 216(216لِب آلودۂ مسی میرے لیے تو تیغ سیہ تاب ہوگئی ِ رخساِر یار کی جو ہوئی جلوہ گستری زلِف سیاہ بھی شِب مہتاب ہوگئی بیداِد انتظار کی طاقت نہ ل سکی اے جاِن برلب آمدہ بیتاب ہوگئی غالب ز بسکہ سو کھ گئے چشم میں سرشک آنسو کی بوند گوہِر نایاب ہوگئی
غزل نمبر 184 گ سوز پردۂ یک ساز ہے مجھے ہر رن ِ بال سمندر آئنۂ ناز ہے مجھے س خاک حسِن نظر باز ہے مجھے طاؤ ِ ک نگِہ ناز ہے مجھے ہر ذرہ چشم ِ ّ ّ آغوِش گل ہے آئنۂ ذرہ ذرہ خاک 216
216۔ اس غزل کے حاشیے پر دس ابیات کی یہ غزل تحریر ہے )موٹا قلم ،شکستہ بد خط(:
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی میری وحشت تری شہرت ہی سہی قطع کیجے نہ تعلق ہم سے کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو آگہی گر نہیں ،غفلت ہی سہی عمر ہر چند کہ ہے برق خرام دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی ہم کوئی ترِک وفا کرتے ہیں نہ سہی عشق ،مصیبت ہی سہی ک ناانصاف کچھ تو دے اے فل ِ آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی ُ ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی یار سے چھیڑ چلی جاۓ اسد گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
ض بہار جوہِر پرداز ہے مجھے عر ِ ہے بوۓ گل غریِب تسلی گِہ وطن ہر جزِو آشیاں پِر پرواز ہے مجھے ہے جلوۂ خیال سویداۓ مردمک جوں داغ شعلہ سر خِط آغاز ہے مجھے ّ وحشت بہاِر نشہ وگل ساغِر شراب چشِم پری شفق کدۂ راز ہے مجھے فکِر سخن بہانۂ پرداِز خامشی دوِد چراغ سرمۂ آواز ہے مجھے ض بیعِت بیدل بہ کف اسد ہے خامہ فی ِ یک نیستاں قلمرِو اعجاز ہے مجھے
غزل نمبر 185 کہوں کیا گرمجوشی میکشی میں شعلہ رویاں کی 217 ش مے سے فروزاں کی )(217کہ شمِع خانۂ دل آت ِ ہمیشہ مجھ کو طفلی میں بھی مشِق تیرہ روزی تھی سیاہی ہے مرے ایام میں لوِح دبستاں کی دریغ آِہ سحر گہ کاِر باِد صبح کرتی ہے کہ ہوتی ہے زیادہ سرد مہری شمع رویاں کی ِ مجھے اپنے جنوں کی بے تکلف پردہ داری تھی ولیکن کیا کروں آوے جو رسوائی گریباں کی ہنر پیدا کیا ہے میں نے حیرت آزمائی میں کہ جوہر آئنے کا ہر پلک ہے چشِم حیراں کی خدایا کس قدر اہِل نظر نے خاک چھانی ہے کہ ہیں صد رخنہ جوں غربال دیواریں گلستاں کی ہوا شرِم تہی دستی) 218(218سے وہ بھی سرنگوں آخر بس اے زخِم جگر اب دیکھ لی شورش نمک داں کی گ شعلہ دہکے ہے بیاِد گرمئِی صحبت برن ِ چھپاؤں کیونکہ غالب سوزشیں داِغ نمایاں کی
217 217۔ اس شعر کے مقابل حاشیے پر یہ شعر لکھا ہے )موٹا قلم ،بد خط ،شکستہ(: سیاہی جیسے گر جاوے دِم تحریر کاغذ پر مری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہاۓ ہجراں کی 218
218۔ "تہیدستی" کو جدید امل کے مطابق " تہی دستی" لکھا ہے۔ جویریہ مسعود
غزل نمبر 186 ش تسکیں نہ ہو ،گو) 219(219شادمانی کی جنوں تہمت ک ِ نمک پاِش خراِش دل ہے لذت زندگانی کی کشاکش ہاۓ ہستی سے کرے کیا سعئِی آزادی ہوئی زنجیر موِج آب کو فرصت روانی کی نہ کیھنچ اے سعئِی دسِت نارسا زلِف تمنا کو پریشاں تر ہے موۓ خامہ سے تدبیر مانی کی کہاں ہم بھی رگ وپے رکھتے ہیں انصاف بہتر ہے نہ کھینچے طاقِت خمیازہ تہمت ناتوانی کی تکلف بر طرف فرہاد اور اتنی سبک دستی خیال آساں تھا لیکن خواِب خسرو نے گرانی کی ُ پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاِہ طفلں ہے شراِر سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی اسد کو بوریے میں دھر کے پھونکا موِج ہستی نے فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی
غزل نمبر 187 ((220نکوہش 220ہے سزا فریادئِی بیداِد دلبر کی مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی ٰ رِگ لیلی کو خاِک دشِت مجنوں ریشگی بخشے اگر بو دے بجاۓ دانہ دہقاں نوک نشتر کی بجز دیوانگی ہوتا نہ انجاِم خود آرائی اگر پیدا نہ کرتا آئنہ زنجیر جوہر کی پِر پروانہ شاید بادباِن کشتئِی مے تھا ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دوِر ساغر کی غروِر لطِف ساقی نشۂ بے باکئِی مستاں نِم داماِن عصیاں ہے طراوت موِج کوثر کی اسد جز آب بخشیدن ز دریا خضر کو کیا تھا 219 219۔ قلمی نسخے میں یہ لفظ"گو" ہی ہے ،اگر چہ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے میں متداول صورت"گر" اختیار کی گئ ہے۔ 220 220۔ چھ ابیات کی اس غزل کے حاشیے پر حسِب ذیل تین شعر لکھے ہیں )موٹا قلم ،بد خط ،شکستہ(: مرا دل مانگتے ہیں عاریت اہِل ہوس شاید یہ جانا چاہتے ہیں آج دعوت میں سمندر کی کروں بیداِد ذوِق پر فشانی عرض کیا قدرت ُ ُ کہ طاقت اڑ گئی اڑنے سے پہلے میرے شہپر کی کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی
ڈبوتا چشمۂ حیواں میں گر کشتی سکندر کی
غزل نمبر 188 ض تکلیِف شرارت کی نگاِہ یار نے جب ُعر ِ دیا ابرو کو چھیڑ اور اس نے فتنے کو اشارت کی روانی موِج مے کی گر خِط جام آشنا ہووے لکھے کیفیت اس سطِر تبسم کی عبارت کی شِہ گل نے کیا جب بندوبسِت گلشن آرائی عصاۓ سبز دے نرگس کو دی خدمت نظارت کی نہیں ریزش عرق کی اب اسے ذوباِن اعضا ہے 221 ض رِگ گل میں حرارت کی تِب خجلت نے کیا) (221نب ِ ز بس نکل غیاِر دل بہ وقِت گریہ آنکھوں سے اسد کھاۓ ہوۓ سر مے نے آنکھوں میں بصارت کی
غزل نمبر 189 آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے طاقِت بیداِد انتظار نہیں ہے دیتے ہیں جنت حیاِت دہر کے بدلے ّ نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے گریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو ہاۓ کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے ش خاطر ہم سے عبث ّہے گماِن رنج ِ خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے ُ دل سے اٹھا لطِف جلوہ ہاۓ معانی غیِر گل آئینۂ بہار نہیں ہے قتل)222 (222کا میرے کیا ہے عہد تو بارے ُ واۓ اگر عہد استوار نہیں ہے تو نے قسم میکشی کی کھائی ہے غالب تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے
غزل نمبر 190 221221۔ .متن میں "کیا" کے نیچے "یہ" لکھا ہے )موٹا قلم ،بد خط شکستہ( یہاں کسی لغزِش قلم سے میرے اشارات "یہ" کو حاشیے کا اندراج بتا تے ہیں حالنکہ ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ "یہ" کا لفظ "کیا" کے "بالکل نیچے" ہے۔ 222 222۔ اس چھوٹی سی غزل کے حاشیے پر ایک پانچواں شعر درج ہے )موٹا قلم ،بد خط شکستہ(: یقیں ہے آدمی کو دست گاِہ فقر حاصل ہو دِم تیغ توکل سے اگر پاۓ سبب کاٹے ِ
خدایا! دل کہاں تک دن بصد رنج و تعب کاٹے خِم گیسو ہو شمشیِر سیہ تاب اور شب کاٹے ک دیدۂ عاشق خود آرایاں کریں گر قدِر اش ِ صدف دنداِن گوہر سے بہ حسرت اپنے نب کاٹے ض غم کہ فرِط ناتوانی سے دریغا وہ مری ِ بہ قدِر یک نفس جادہ بصد رنج و تعب کاٹے ُ اسد مجھ میں ہے اس کے بوسۂ پاکی کہاں جرأت کہ میں نے دست و پا باہم بہ شمشیِر ادب کاٹے
غزل نمبر 191 ہوا جب حسن کم خط بر عذاِر سادہ آتا ہے ُ کہ بعد از صاِف مے ساغر میں درِد بادہ آتا ہے نہیں ہے مزرِع الفت میں حاصل غیِر پامالی ک بر زمیں افتادہ آتا ہے نظر دانہ سرش ِ محیِط دہر میں بالیدن از ہستی گزشتن ہے کہ یاں ہراک حباب آسا شکست آمادہ آتا ہے دیاِر عشق میں جاتا ہے جو سوداگری ساماں متاِع زندگانی ہا بہ غارت دادہ آتا ہے اسد وارستگاں با وصِف ساماں بے تعلق ہیں صنوبر گلستاں میں با دِل آزادہ آتا ہے
غزل نمبر 192 بہ فکِر حیرِت رم آئنہ پرداز زانو ہے ک نافہ تمثاِل سواِد چشِم آہو ہے ّ کہ مش ِ ترحم میں ستم کوشاں کے ہے ساماِن خونریزی ک چشِم یار آِب دِم شمشیِر ابرو ہے سرش ِ کرے ہے دست فرسوِد ہوس وہِم توانائی پِر افشاندہ در کنج قفس تعویِذ بازو ہے ِ ہوا چرِخ خیمدہ ناتواں باِر علئق سے کہ ظاہر پنجۂ خورشید دسِت زیِر پہلو ہے اسد تا کے طبیعت طاقِت ضبِط الم لوے فغاِن دل بہ پہلو نالۂ بیماِر بدخو ہے
غزل نمبر 193 خبر) 223(223نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ توجانے نفس بہ نالہ رقیب و نگہ پہ اشک عدو ُ زیادہ اس سے گرفتار ہوں کہ تو جانے تپش )224(223سے شرم بقدِر چکیدِن عرقے مباد حوصلہ معذوِر جستجو جانے جنوں فسردۂ تمکیں ہے کاش عہِد وفا س آبرو جانے گداِز حوصلہ کو پا ِ ض تمناۓ خامشی معلوم زباں سے عر ِ مگر وہ خانہ برانداز گفتگو جانے ُ مسیح کشتۂ الفت ببر علی خاں ہے ِ ض آرزو جانے نب ش تپ اسد جو کہ ِ ِ
غزل نمبر 194 دیکھ تری خوۓ گرم دل بہ تپش رام ہے طائِر سیہاب کو شعلہ رِگ دام ہے شوخئِی چشِم حبیب فتنۂ ایام ہے قسمِت بخِت رقیب گردِش صد جام ہے جلوۂ بینش پناہ بحشے ہے ذوِق نگاہ کعبۂ پوشش سیاہ مردمک احرام ہے ُ کو نفس و چہ غبار؟ جرأِت عجز آشکار در تپش آباِد شوق سرمہ صدا نام ہے غفلِت افسردگی تہمِت تمکیں نہ ہو اے ہمہ خواِب گراں حوصلہ بدنام ہے بزِم وداِع نظر یاس طرب نامہ بر ص شرر بوسہ بہ پیغام ہے فرصِت رق ِ گریۂ طوفاں رکاب ،نالۂ محشر عناں بے سر و ساماں اسد فتنہ سر انجام ہے 223 223۔ اس غزل کے حاشیے پر یہ ساتواں شعر لکھا ہوا ملتا ہے )موٹا قلم ،بد خط شکستہ(: ُ نہ ہووے کیونکہ اسے فرض قتِل اہِل وفا لہو میں ہاتھ کے بھرنے کو جو وضو جانے مفتی انوار الحق نے اس شعر کو متن میں جگہ دی ہے مگر اس کا اظہار نہیں کیا کہ یہ شعر حاشیے سے متن میں منتقل ہوا۔ 224 224۔ اس مصرع پرنشان ؔ"" بنا ہے اور پھر حاشیے پر یہی نشان بنا کر موٹے قلم سے شکستہ خط میں مصرِع ذیل تحریر کیا ہے: "بہ کسوِت عرِق شرم قطرہ زن ہے خیال"
غزل نمبر 195 ہجوِم)225 (225غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے کہ تاِر دامن و تاِر نظر میں فرق مشکل ہے ہوا ہے مانع عاشق نوازی ناِز خود بینی ِ تکلف بر طرف ،آئینۂ تمئیز حائل ہے بہ سیِل اشک لخِت دل ہے دامن گیر مژگاں کا غریِق بحر جویاۓ خس و خاشاِک ساحل ہے بہا ہے یاں تک اشکوں میں غباِر کلفِت خاطر کہ چشِم تر میہر اک پارۂ دل پاۓ در گل ہے نکلتی ہے تپش میں بسملوں کی ،برق کی شوخی غرض اب تک خیاِل گرمئِی رفتاِر قاتل ہے ُ وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالب ُ چٹکنا غنچۂ گل )226(226کا صداۓ خندۂ دل ہے
غزل نمبر 196
ُ ہم) 227(227زباں آیا نظر فکِر سخن میں تو مجھے مردمک ہے طوطئ آئینۂ زانو مجھے یاِد) 228(228مژگاں میں بہ نشتر راِز صحراۓ خیال چاہے بہِر تپش یک دست صد پہلو مجھے خاِک فرصت بر سِر ذوِق فنا اے انتظار ہے غباِر شیشۂ ساعت رِم آہو مجھے اضطراِب عمر بے مطلب نہیں آخر کہ ہے جستجوۓ فرصِت ربِط سِر زانو مجھے ش دل بھی تیغ یار سے چاہیے درماِن ری ِ ِ مرہِم زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے کثرِت جور وستم سے ہو گیا ہو ں بے دماغ 226 225۔ چھ ابیات کی اس غزل کے حاشیے پر یہ شعر لکھا ہے )موٹا قلم ،بد خط شکستہ(: رفوۓ زخم سے مطلب ہے لذت زخِم سوزن کی س درد سے دیوانہ غافل ہے سمجھیو مت کہ پا ِ ً 226 226۔ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے میں "غنچہ دل" ہے ،جو بداہتہ سہِو کاتب ہے۔ 227 227۔ قلمی نسخے میں اس غزل اور اس سے اگلی غزل )تشنۂ خون تماشا جو وہ پانی مانگے( کے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں چھ ابیات کی وہ غزل درج ہے جس کا مطلع ہے: باعِث واماندگی ہے عمِر فرصت جو مجھے کر دیا ہے پا بہ زنجیِر رم آہو مجھے لیکن چونکہ یہی غزل آگے چل کر متن میں موجود ہے ،اس لیے باقی شعر یہاں حاشیے میں نہیں دیے جار ہے ہیں: 228 228۔ یہ شعر قلمی نسخے کے متن میں یوں بدل گیا ہے: یاِد مژگاں میں بہ نشتر زار سوداۓ خیال چاہیے وقِت تپش یک دست صد پہلو مجھے )یہ حاشیہ مفتی انوار الحق کے نسخے کے نوٹ مندرجہ صفحہ 174پر مبنی ہے(۔
خوب) 229(229رویوں نے بنایا ہے اسد بدخو مجھے
غزل نمبر 197 تشنۂ خوِن تماشا جو وہ پانی مانگے آئنہ رخصِت انداِز روانی مانگے ُ ض پریشانئِی بزم عر م د سے گل رنگ نے ِ ِ ُ برِگ گل ریزۂ مینا کی نشانی مانگے زلف تحریِر پریشاِن تقاضا ہے مگر ُ شانہ ساں مو بہ زباں خامۂ مانی مانگے آمِد خط سے نہ کر خندۂ شیریں کہ مباد چشِم مور آئنۂ دل نگرانی مانگے ہوں گرفتاِر کمیں گاِہ تغافل کہ جہاں خواِب صیاد سے پرواز گرانی مانگے چشِم پرواز و نفس خفتہ مگر ضعِف امید شہپِر کاہ پئے مژدہ رسانی مانگے تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے دل وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے وحشِت شوِر تماشا ہے کہ جوں نکہِت گل ک زخِم جگر بال فشانی مانگے نم ِ ش ناِز بِت طناز بہ آغوِش رقیب نق ِ پاۓ طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے وہ تِپ عشِق تمنا ہے کہ جوں رشتۂ شمع ض جگر ریشہ دوانی مانگے شعلہ تا نب ِ گر ملے حضرِت بیدل کا خِط لوِح مزار اسد آئینۂ پرداِز معانی مانگے
229 229۔ اس مصرع میں "ہے اسد" کے لفظ کاٹ کر "غالب" لکھا گیا ہے اور مصرع کی صورت یوں ہو گئ ہے: "خوبرویوں نے بنایا غالب بدخو مجھے" ملحظہ ہو مفتی انوار الحق کے نسخے میں صفحہ 174کے حاشیے کا نوٹ۔
غزل نمبر 198 ُ باعِث) 230(230واماندگی ہے عمِر فرصت جو مجھے کر دیا ہے پا بہ زنجیِر رِم آہو مجھے پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد خاِر پا ہیں جوہِر آئینۂ زانو مجھے فرصِت آرام غش ،ہستی ہے بحراِن عدم گ امکاں گردِش پہلو مجھے ہے شکسِت رن ِ دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت ہے نگاِہ آشنا تیرا سِر ہر مو مجھے گ شکایت کچھ نہ پوچھ ہوں سراپا ساِز آہن ِ ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے ساِز ایماۓ فنا ہے عالِم پیری اسد قامِت خم سے ہے حاصل شوخئِی ابرو مجھے
غزل نمبر 199 نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی خار خاِر الِم حسرِت دیدار تو ہے شوق گلچیِن گلستاِن تسلی نہ سہی ُ مے پرستاں خِم مے منہ سے لگاۓ ہی بنے ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی س قیس کہ ہے چشم و چراِغ صحرا نف ِ گر نہیں شمع سیہ خانۂ لیلی نہ سہی ِ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحۂ غم ہی سہی ،نغمۂ شادی نہ سہی 238 230۔ اس سے پہلے )ایک صفحہ چھوڑ کر( یہی غزل موٹے قلم سے شکستہ خط میں حاشیے پر درج ملتی ہے۔ اسی شکستہ خط میں اب یہاں متن میں اس غزل پر "غلط ،مکرر نوشتہ شد" لکھا ہے۔ ُ اس سلسلے میں مفتی انوار الحق کے اس نوٹ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے اس سے ما قبل اسی زمین کی غزل )ہم زباں آیا نظر فکِر سخن میں تو مجھے( کے حاشیے پر دیا ہے" :قلمی دیوان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزل پہلے کہی گئی تھی ،پھر اس کے کچھ عرصے بعد اس طرح کی دوسری غزل کہی گئی جو آگے آتی ہے۔ چنانچہ اس نسخے پر نظر ثانی کرتے وقت اس غزل کے حاشیے ً پر اسے غالبا غالب نے خود بڑھا دیا۔ مگر چند صفحے بعد دیکھا تو وہ غزل پہلے ہی لکھی ہوئی موجود تھی اس لیے وہاں حاشیے پر یہ لکھ دیا کہ "غلط ،مکرر نوشتہ شد"۔ مفتی صاحب کا یہ بیان کہ چند صفحے بعد دیکھا تو وہ غزل پہلے ہی موجود تھی ،محل نظر ہے۔ قلمی نسخے میں دونوں غزلوں کے درمیان صرف ایک غزل کا فاصلہ ہے۔ اسی طرح میرے قلم بند کیے ہوۓ اشارات بتاتے ہیں کہ اس دوسری غزل پر متن میں )نہ کہ حاشیے پر( "غلط ،مکرر نوشتہ شد" لکھا ہے۔
نہ ستایش کی تمنا ،نہ صلے کی پروا 231 نہ ہوۓ گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی)(231 عشرِت صحبِت خوباں ہی غنیمت سمجھو نہ ہوئی غالب اگر عمِر طبیعی نہ سہی
غزل نمبر 200 دِل بیماِر ازخود رفتہ تصویِر نہالی ہے کہ مژگاں ریشہ داِر نیستاِن شیِر قالی ہے سروِر نشۂ گردش اگر کیفیت افزا ہو نہاں ہر گردباِد دشت میں جاِم سفالی ہے عروِج نشہ ہے سر تا قدم قِد چمن رویاں بجاۓ خود وگرنہ سرو بھی میناۓ خالی ہے س روۓ گلگوں سے ہوا آئینہ جاِم بادہ عک ِ نشاِن خاِل رخ داِغ شراِب پرتگالی ہے بہ پاۓ خامۂ مو طے رِہ وصِف کمر کیجے کہ تاِر جادۂ سر منزِل نازک خیالی ہے ُ اسد اٹھنا قیامت قامتوں کاوقِت آرایش س نظم میں بالیدِن مضموِن عالی ہے لبا ِ
غزل نمبر 201 نشۂ مے بے چمن دوِد چراِغ کشتہ ہے جام ،داِغ شعلہ اندوِد چراِغ کشتہ ہے رحم کر ظالم کہ کیا بوِد چراِغ کشتہ ہے ض بیماِر وفا دوِد چراِغ کشتہ ہے نب ِ ُ داِغ ہمدیگر ہیں اہِل باغ گر گل ہو شہید للہ چشِم حسرت آلوِد چراِغ کشتہ ہے ض جراحت خانہ کا شور ہے کس بزم کی عر ِ صبح یک زخِم نمک سوِد چراِغ کشتہ ہے ُ نامراِد جلوہ ہر عالم میں حسرت گل کرے للہ داِغ شعلہ فرسوِد چراِغ کشتہ ہے ہو جہاں تیرا دماِغ ناز مسِت بے خودی ُ 231 231۔ مصرع کی یہ صورت مفتی انوار الحق کے نسخے کے اندراج کے مطابق نہیں ہے۔ مفتی صاحب نے مصرع اسی طرح لکھا ہے جس طرح دیوان کے اکثر متداول نسخوں میں ملتا ہے۔ تاہم مفتی صاحب نے اپنے مطبوعہ نسخے کے صفحہ 174پر جو نوٹ ُ لکھا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قلمی نسخے کے متن میں یہ مصرع اسی صورت میں درج ہے جو میں نے اوپر اختیار کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مفتی صاحب کا بیان ہے کہ قلمی نسخے کے حاشیے پر یہ اصلح موجود ہے: "گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی" میرے اپنے اشارات میں اس قسم کی کوئی یاد داشت نہیں ملتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں نے مطبوعہ نسخے کے مذکورۂ بال نوٹ کی تصریحات پر اکتفا کیا۔
خواِب ناِز گل رخاں دوِد چراِغ کشتہ ہے ہے دِل افسردہ داِغ شوخئِی مطلب اسد شعلہ آخر فاِل مقصوِد چراِغ کشتہ ہے
غزل نمبر 202 تغافل دوست ہوں میرا دماِغ عجز عالی ہے اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے بتاِن شوخ کا دل سخت ہوگا کس قدر یار ب مری فریاد کو کہسار ساِز عجز مالی ہے نشاِن بے قراِر شوق جز مژگاں نہیں باقی کئی کانٹے ہیں اور پیراہِن شکِل نہالی ہے س شغِل تنہائی جنوں کر اے چمن تحریِر در ِ نگاِہ شوق کو صحرا بھی دیواِن غزالی ہے سیہ مستی ہے اہِل خاک کو ابِر بہاری سے 232 زمیں کیفیِت یک جاِم لبریِز سفالی ہے) (232 رہا آباد عالم اہِل ہمت کے نہ ہونے سے بھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہے اسد مت رکھ تعجب خر دماغی ہاۓ منعم کا کہ یہ نامرد بھی شیرافگِن میداِن قالی ہے
غزل نمبر 203 کاوِش دزِد حنا پوشیدہ افسوں ہے مجھے ناخِن انگشِت خوباں لعِل واژوں ہے مجھے ریشۂ شہرت دوانیدن ہے رفتن زیِر خاک خنجِر جلد برِگ بیِد مجنوں ہے مجھے ساقیا دے ایک ہی ساغر میں سب کو مے کہ آج آرزوۓ بوسۂ لب ہاۓ میگوں ہے مجھے ہو گۓ باہم دگر جوِش پریشانی سے جمع گردِش جاِم تمنا دوِر گردوں ہے مجھے ّ دیکھ لی جوِش جوانی کی ترقی بھی کہ اب بدر کی مانند کاہش روز افزوں ہے مجھے غنچگی ہے برنفس پیچدِن فکر اے اسد در شگفتن ہاۓ دل در رہِن مضموں ہے مجھے
غزل نمبر 204 232 232۔ یہ مصرع موٹے قلم سے شکستہ خط میں یوں بدل ہے: "زمیں جوِش طرب سے جاِم لبریز سفالی ہے"
گشلن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے واں کنگِر استغنا ہردم ہے بلندی پر یاں نالے کو اور الٹا دعواۓ رسائی ہے آئینہ نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش عاشق کو غباِر دل اک وجِہ صفائی ہے از بسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے داغوں کا نظر آنا خود چشم نمائی ہے ہنگاِم تصور ہوں درویزہ گِربوسہ یہ کاسۂ زانو بھی اک جاِم گدائی ہے وہ دیکھ کے حسن اپنا مغرور ہوا غالب صد جلوۂ آئینہ یک صبح جدائی ہے ِ
غزل نمبر 205 دل! ) 233(233عبث ہے تمناۓ خاطر افروزی کہ بوسۂ لِب شریں ہے اور گلو سوزی طلسِم آئنہ زانوۓ فکر ہے غافل ہنوز حسن کو ہے سعئِی جلوہ اندوزی ہوئی ہے سوزِش دل بسکہ داِغ بے اثری ُ اگی ہے دوِد جگر سے شِب سیہ روزی بہ پرفشانئِی پروانۂ چراِغ مزار کہ بعِد مرگ بھی ہے لذِت جگر سوزی تپش تو کیا ،نہ ہوئی مشِق پرفشانی بھی رہا میں ضعف سے شرمندۂ نو آموزی ش پائے سیم تناں اسد ہمیشہ پئے ک۔ف ِ شعاِع مہر سے کرتا ہے چرخ زر دوزی
غزل نمبر 206 محِو) 234(234آرامیدگی ساماِن بے تابی کرے چشم میں توڑے نمک داں تا شکر خوابی کرے آرزوۓ خانہ آبادی نے ویراں تر کیا کیا کروں گر سایۂ دیوار سیلبی کرے نغمہ ہا وابستۂ یک عقدۂ تاِر نفس ناخِن تیغ بتاں شاید کہ مضرابی کرے ِ صبحدم وہ جلوہ ریِز بے نقابی ہو اگر 233 233۔ متن میں اس غزل کے اوپر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں "غلط" لکھا ہے۔ ُ 234 234۔ اس غزل پر بھی بعینِہ اسی طرح "غلط" لکھا ہے جس طرح غزِل ما سبق پر۔
گ رخساِر گِل خورشید مہتابی کرے رن ِ زخم ہاۓ کہنۂ دل رکھتے ہیں جوں مردگی اے خوشا گر آِب تیغ ناز تیزابی کرے ِ بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو غالب تو پھر کیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوابی کرے
غزل نمبر 207 یوں بعِد ضبِط اشک پھروں گرد یار کے پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وارکے سیماب پشت گرمئِی آئینہ دے ہے ،ہم حیراں کیے ہوۓ ہیں دِل بے قرار کے بعد از وداِع یار بخوں در طپیدہ ہیں ش قدم ہیں ہم کِف پاۓ نگار کے نق ِ ظاہر ہے ہم سے کلفِت بخِت سیاہ روز ّ گویا کہ تختۂ مشق ہیں خ ِط غبار کے ُ گ گل حسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و رن ِ ماننِد شبنم اشک ہیں مژگاِن خار کے آغوِش گل کشودہ براۓ وداع ہے اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے ہم مشِق فکِر وصل و غِم ہجر سے اسد لئق نہیں رہے ہیں غِم روزگار کے
غزل نمبر 208 235 گ کماِل طبع پنہاں ہے ص ظاہری رن ِ بہ) (235نق ِ کہ بہِر مدعاۓ دل زباِن لل زنداں ہے خموشی خانہ زاِد چشِم بے پروانگاہاں ہے ُ غباِر سرمہ یاں گرِد سواِد سنبلستاں ہے صفاۓ اشک میں داِغ جگر جلوہ دکھاتے ہیں پِر طاؤس گویا برِق ابِر چشِم گریاں ہے
235 235۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں یہ پانچ شعر لکھے ہیں:غباِر دشِت وحشت سرمہ ساِز انتظار آیا کہ چشِم آبلہ میں طوِل میِل راِہ مژگاں ہے ز بس دوِش رِم آہو پہ ہے محمل تمنا کا ٰ جنون قیس سے بھی شوخئِی لیلی نمایاں ہے ہوئی یہ کثرِت غم سے تلف کیفیِت شادی کہ صبح عید مجھ کو بد تر از چاِک گریباں ہے ِ رہا بے قدر دل در پردۂ جوِش ظہور آخر گل و نرگس بہم آئینہ واقلیم کوراں ہے اسد بدِن قباۓ یار ہے فردوس کا غنچہ اگر وا ہو تو دکھلدوں کہ یک عالم گلستاں ہے
بہ بوۓ زلِف مشکیں یہ دماغ آشفتۂ رم ہیں کہ شاِخ آہواں دوِد چراغ آسا پریشاں ہے تکلف بر طرف ہے جانستاں تر لطِف بدخویاں نگاِہ بے حجاِب یار تیغ تیز عریاں ہے ِ اسد یہ) 236(236فرِط غم نے کی تلف کیفیِت شادی کہ صبح عید مجھ کو بدتر از چاِک گریباں ہے ِ
غزل نمبر 209 عاشق نقاِب جلوۂ جانانہ چاہیے س شمع کو پِر پروانہ چاہیے فانو ِ ہے وصل ہجر عالِم تمکین و ضبط میں معشوِق شوخ و عاشِق دیوانہ چاہیے پیدا کریں دماِغ تماشاۓ سرو و گل حسرت کشوں کو ساغر و مینا نہ چاہیے دیوانگاں ہیں حامِل راِز نہاِن عشق اے بے تمیز گنج کو ویرانہ چاہیے ُ اس لب سے مل ہی جاۓ گا بوسہ کبھی تو ہاں شوِق فضول و جراِت رندانہ چاہیے ساقی بہاِر موسِم گل ہے سرور بخش پیماں سے ہم گزر گئے ،پیمانہ چاہیے جادہ) 237(237ہے طرِز گفتگوۓ یار ،اے اسد یاں جز فسوں نہیں ،اگر افسانہ چاہیے
غزل نمبر 210 (238)238جہاں زنداِن موجستاِن دل ہاۓ پریشاں ہے طلسِم شش جہت یک حلقۂ گرداِب طوفاں ہے ّ ُ نہیں ہے مردِن صاحبدلن جز کسِب جمعیت سویدا میں نفس ماننِد خط در نقطہ پنہاں ہے غباِر دشِت وحشت سرمہ ساِز انتظار آیا کہ چشِم آبلہ میں طویِل میِل راِہ مژگاں ہے ز بس دوِش رِم آہو پہ ہے محمل تمنا کا ٰ جنوِن قیس سے بھی شوخئِی لیلی نمایاں ہے نقاِب یار ہے غفلت نگاہی اہِل بینش کی 236
236۔ "یہ" بمعنئ " اس قدر" جویریہ مسعود
ً 237 237۔ عرشی :جادو )بجاۓ جادہ(۔ مطبوعہ نسخے میں "جادہ" بداہتہ سہِو کاتب ہے۔ 238238۔ اس غزل کے اوپر موٹے قلم سے شکستہ خط میں " مکرر نوشتہ شد" لکھا ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ابیات 6 ،4 ،3ایک صفحہ پہلے )قلمی نسخے کے( حاشیے پر درج ہوچکے ہیں۔
مژہ پوشیدنی ہا پردۂ تصویِر عریاں ہے اسد بنِد قباۓ یار ہے فردوس کا غنچہ اگر وا ہو تو دکھلدوں کہ یک عالم گلستاں ہے
غزل نمبر 211 صبح سے معلوم آثاِر ظہوِر شام ہے غافلں آغاِز کار آئینۂ انجام ہے بسکہ ہیں صیاد راِہ عشق میں صرِف کمیں جادۂ رہ سر بسر مژگاِن چشِم دام ہے بسکہ تیرے جلوۂ دیدار کا ہے اشتیاق ہر بِت خورشید طلعت آفتاِب بام ہے مستعِد قتِل یک عالم ہے جلِد فلک کہکشاں موِج شفق میں تیغ خوں آشام ہے ِ کیا کماِل عشق نقص آباِد گیتی میں ملے پختگی ہاۓ تصور یاں خیاِل خام ہے ُ ہو جہاں وہ ساقئِی خورشید رو مجلس فروز ّ واں اسد تاِر شعاِع مہر خ ِط جام ہے
غزل نمبر 212 239 ض یک افغاں ہے ہجوِم) (239نالہ حیرت عاجِز عر ِ خموشی ریشۂ صدنیستاں سے خس بہ دنداں ہے ّ ُ کجامے ،کو عرق ،سعئِی عروِج نشہ رنگیں تر خِط رخساِر ساقی تا خِط ساغر چراغاں ہے رہا بے قدر دل در پردۂ جوِش ظہور آخر گل و نرگس بہم آئینہ و اقلیِم کوراں ہے تکلف ساِز رسوائی ہے غافل شرِم رعنائی دِل خوں گشتہ در دسِت حنا آلودہ عریاں ہے تماشا سرخوِش غفلت ہے باوصِف حضوِر دل ہنوز آئینہ خلوت گاِہ ناِز ربِط مژگاں ہے تکلف برطرف ذوِق زلیخا جمع کر ورنہ پریشاں خواب آغوِش و داِع یوسفستاں ہے ّ اسد جمعیِت دل در کناِر بے خودی خوشتر دو عالم آگہی ساماِن یک خواِب پریشاں ہے
غزل نمبر 213 239 239۔ اس غزل کے اوپر بھی موٹے قلم سے شکستہ خط میں "مکرر نوشتہ شد" لکھا ہے ،حالنکہ اس کا صرف ایک شعر ) (3اسی زمین کی ایک سابق غزل کے حاشیے پر درج شدہ اشعار میں آیا ہے۔ )ملحظہ ہو حاشیہ نمبر 231ہو(
اے)240 (240خوشا وقتے کہ ساقی یک خمستاں واکرے تار و پوِد فرِش محفل پنبۂ مینا کرے گر تِب آسودۂ مژگاں تصرف وا کرے رشتۂ پا شوخئِی باِل نفس پیدا کرے گ رفتہ کو گر دکھاؤں صفحۂ بے نقش رن ِ دسِت رد سطِر تبسم یک قلم انشا کرے جو عزاداِر شہیداِن نفس دزدیدہ ہو نوحۂ ماتم بہ آواِز پِر عنقا کرے صفحۂ گرداِب جوہر کو بنا ڈالے تنور عکس گر طوفانئِی آئینۂ دریا کرے یک دِر بر روۓ رحمت بستہ دوِر شش جہت نا امیدی ہے خیاِل خانہ ویراں کیا کرے ناتوانی سے نہیں سر درگریبانی اسد ہوں سراپا یک قلم تسلیم جو مول کرے
غزل نمبر 214 چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے صبح کی مانند زخِم دل گریبانی کرے مے کدہ گر چشِم مسِت یار سے پاوے شکست موۓ شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے ّ ُ خ ِط عارض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد یک قلم منظور ہے جو کچھ پریشانی کرے ہاتھ پر گر ہاتھ مارے یار وقِت قہقہہ ک شب تاب آسا مہ پرافشانی کرے کرم ِ ُ وقت اس افتادہ کا خوش جو قناعت سے اسد ش پاۓ مور کو تخِت سلیمانی کرے نق ِ
غزل نمبر 215 241
چشِم خوباں مے فروِش نشہ زاِر ناز ہے) (241 ُ سرمہ گویا موِج دوِد شعلۂ آواز ہے ہے صریِر خامہ ریز ش ہاۓ استقباِل ناز نامہ خود پیغام کو باِل پِر پرواز) 242(242ہے 240240۔ اس غزل کے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں حسب ذیل شعر لکھا ہے:
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا آسماں سے بادۂ گلفام گو برسا کرے 241 241۔ متن میں پہلے اس مصرع کے حصۂ آخر کے اوپر"خامشی میں بھی نوا پرداز ہے" لکھا ہے اور پھر کاٹ دیا ہے۔ 242 242۔ عرشی" :بال و پِر پرواز"۔
سرنوشِت اضطراب انجامئِی الفت نہ پوچھ ناِل خامہ خار در پیراہِن آغاز ہے نالۂ دل نغمہ ریزاں ہے بہ مضراِب خیال رشتۂ پا یاں نواساماِن بنِد ساز ہے شرم ہے طرِز تلِش انتخاِب یک نگاہ ّ اضطراِب چشِم برپادوختہ غماز ہے شوخئِی اظہار کو جز وحشِت مجنوں اسد بسکہ لیلۓ سخن محمل نشیِن راز ہے
غزل نمبر 216 ّ خواِب جمعیِت مخمل ہے پریشان مجھ سے رِگ بستر کو ملی شوخئِی مژگاں مجھ سے غِم عشاق نہ ہو سادگی آموِز بتاں آرزو خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے کنج تاریک و کمیں گیرئِی اختر شمری ِ ک چشم بنا روزِن زنداں مجھ سے عین ِ س وعدہ فریب افسوں ہے اے تسلی ہو ِ ورنہ کیا ہو نہ سکے نالہ بہ ساماں مجھ سے بستِن عہِد محبت ہمہ نادانی تھا چشِم نکشودہ رہا عقدۂ پیماں مجھ سے آتش افروزئِی یک شعلۂ ایما تجھ سے چشمک آرائِی صد شہِر چراغاں مجھ سے س وصل تمنا معلوم اے اسد دستر ِ کاش ہو قدرِت برچیدِن داماں مجھ سے
غزل نمبر 216 بہاِر تعزیت آباِد عشق ماتم ہے کہ تیغ یار ہلِل مِہ محرم ہے ِ بہ رہِن ضبط ہے آئینہ بندئِی گوہر ُ وگرنہ بحر میں ہر قطرہ چشِم پرنم ہے چمن میں کون ہے طرز آفریِن شیوۂ عشق کہ گل ہے بلبِل رنگین و بیضہ شبنم ہے اگر نہ ہو وے رِگ خواب صرِف شیرازہ تمام دفتِر ربِط مزاج برہم ہے اسد بہ نازکئِی طبع آرزو انصاف ِ کہ ایک وہِم ضعیف و غِم دو عالم ہے
غزل نمبر 218 ہر قدم دورئِی منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے س عنواِن تماشا بہ تغافل خوشتر در ِ ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے ش دل سے شِب تنہائی میں ُوحشِت آت ِ دود کی طرح رہا سایہ گریزاں مجھ سے اثِر آبلہ کرتا ہے بیاباں روشن جادہ جوں رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے بیکسی ہاۓ شِب ہجر کی وحشت مت پوچھ سایہ خورشیِد قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے بے خودی بستِر تمہیِد فراغت ہو جو ُ پر ہے ساۓ کی طرح میرا شبستاں مجھ سے شوِق دیدار میں گر تو مجھے گردن مارے ّ جوں گِل شمع ہو نظارہ پریشاں مجھ سے گردِش ساغِر صد جلوۂ رنگیں تجھ سے آئنہ دارئِی یک دیدۂ حیراں مجھ سے نگِہ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے اسد ہے چراغاں خس و خاشاِک گلستاں مجھ سے
غزل نمبر 219 عذاِر یار نظر بنِد چشِم گریاں ہے عجب کہ پرتِو خور شمع شبنستاں ہے ِ زباں بہ کاِم خموشاں ز فرِط تلخئِی ضبط گ پستہ بہ زہراب دادہ پیکاں ہے بہ رن ِ س عریانی قباۓ جلوہ فزاۓ لبا ِ بہ طرِز گل رِگ جاں مجھ کو تاِر داماں ہے لِب گزیدۂ معشوق ہے دِل افگار ُّ نشاِن برِش شمشیر زخِم دنداں ہے کشوِد غنچۂ دل ہاعجب نہ رکھ غافل صبا خرامئِی خوباں بہار ساماں ہے فغاں کہ بہِر شفاۓ حصوِل ناشدنی ّ ش منِت طبیباں ہے دماغ نازک ِ اسد! جہاں کہ علی بر سر نوازش ہو کشاِد عقدۂ دشوار کاِر آساں ہے
غزل نمبر 220
بسکہ) 243(243حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے ناخِن انگشت تبخاِل لِب بیمار ہے زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ ورنہ صد محشر بہ رہِن صافئِی رخسار ہے در خیال آباِد سوداۓ سِر مژگاِن دوست صد رِگ جاں جادہ آسا وقِف نشتر زار ہے بسکہ ویرانی سے کفر و دیں ہوۓ زیر و زبر گرِد صحراۓ حرم تا کوچۂ زنار ہے س آبرو اے سِر شوریدہ ناِز ُعشق و پا ِ یک طرف سودا و یک سو منِت دستار ہے وصل میں دل انتظاِر طرفہ رکھتا ہے مگر فتنہ تاراِج تمنا کے لیے درکار ہے ایک جا حرِف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے ٰ خانمانہا پائماِل شوخئِی دعوی اسد سایۂ دیوار سیلِب در و دیوار ہے
243 243۔ اس غزل کے حاشیے پر ذیل کے تین شعر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوۓ ہیں: جی جلے ذوِق فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں ہم نہیں جلتے ،نفس ہر چند آتشبار ہے ہے وہی بد مستئِی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے
غزل نمبر 221 تغافل)244 (244مشربی سے نا تمامی بسکہ پیدا ہے نگاِہ ناز چشِم یار میں زناِر مینا ہے تصرف وحشیوں میں ہے تصور ہاۓ مجنوں کا ٰ س خاِل روۓ لیلی ہے سواِد چشِم آہو عک ِ محبت طرِز پیونِد نہاِل دوستی جانے دویدن ریشہ ساں مفِت رِگ خواِب زلیخا ہے ش حسرت کیا یکسر گداِز دل بہ ناِز جوش ِ سویدا نسخۂ تہہ بندئِی داِغ تمنا ہے ُ ہجوِم ریزِش خوں کے سبب رنگ اڑ نہیں سکتا حناۓ پنچۂ صیاد مرِغ رشتہ بر پا ہے اسد) 245(245گر ناِم والۓ علی تعویِذ بازو ہے غریِق بحِر خوں تمثال در آئینہ رہتا ہے
244 244۔ اس غزل کے حاشیے پر سات اشعار کی حسِب ذیل غزل لکھی ہے )موٹا قلم ،بد خط شکستہ(۔ عجیب بات ہے کہ حاشیے ً کی غزل کے تیسرے شعر کے تقریبا سامنے متن کی مندرجہ غزل کا دوسرا شعر آتا ہے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ ایک ہی شعر حاشیے اور متن میں دوبارہ آمنے سامنے لکھا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ عجیب یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حاشیے کے ان اندراجات کے عین بالمقابل وہ صفحہ ہے جس کے متن میں اگلی سے اگلی غزل )اثر سوز محبت کا ۔۔۔الخ( درج ہے: اثر سوِز محبت کا قامت بے محابا ہے کہ رگ سے سنگ میں تخِم شرر کا ریشہ پیدا ہے س خانہ ویرانی بہ سعئِی غیر ہے قطِع لبا ِ کہ تاِر جادۂ رہ رشتۂ داماِن صحرا ہے تصرف وحشیوں میں ہے تصور ہاۓ مجنوں کا ٰ س خاِل روۓ لیلی ہے سواِد چشِم آہو عک ِ خزاں کیا ،فصِل گل کہتے ہیں کس کو ،کوئی موسم ہو وہی ہم ہیں ،قفس ہے ،اور ماتم بال و پر کا ہے تصور بہِر تسکیِن طپیدن ہاۓ طفِل دل بہ باِغ رنگ ہاۓ رفتہ گلچیِن تماشا ہے ک فراِق شعلہ رویاں میں مجھے شب ہاۓ تاری ِ چراِغ خانۂ دل سوزِش داِغ تمنا ہے ترے نوکر ترے در پر اسد کو ذبح کرتے ہیں ستمگر! ناخدا ترس! آشنا کش! ماجرا کیا ہے؟ 246 245۔ اس مقطع کے مصرع اول کا آخری لفظ متن میں"ہے" نہ کہ "ہو" حسِب نسخۂ مفتی انوار الحق درج ہوا ہے۔ اسے متن ہی میں بدل کر خوش خط "ہو" بنا دیا ہے۔ اسے اس سے زیادہ دل چسپ بات یہ ہے کہ بعد میں اس مقطع پر "ل۔ل۔ل" لکھ دیا ہے اور اس کے بجاۓ اس غزل کے حاشیے پر لکھی ہوئی غزل کے مقطع کو یہاں منتقل کرنا چاہا ہے۔
غزل نمبر 222 شفق) 246(246بہ دعوئ عاشق گواِہ رنگیں ہے کہ ماہ دزِد حناۓ کِف نگاریں ہے گ فروغ کرے ہے بادہ ترے لب سے کسِب رن ِ خِط پیالہ سراسر نگاِہ گلچیں ہے عیاں ہے پاۓ حنائی سے پرتِو خورشید رکاب روزِن دیواِر خانۂ زیں ہے جبیِن صبح امیِد فسانہ گویاں پر ِ درازئِی رِگ خواِب بتاں خِط چیں ہے ہوا نشاِن سواِد دیاِر حسن عیاں کہ خط غباِر زمیں خیِز زلِف مشکیں ہے بجا ہے گر نہ سنے نالہ ہاۓ بلبِل زار کہ گوِش گل نِم شبنم سے پنبہ آگیں ہے
246 246۔ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے میں یہ غزل چھٹے شعر پر ختم ہو جاتی ہے۔ مگر نسخۂ عرشی ظاہر کرتا ہے کہ قلمی دیوان میں حسب ذیل مشہور مقطع موجود ہے: اسد ہے نزع میں چل بے وفا براۓ خدا مقام ترِک حجاب و وداِع تمکیں ہے
غزل نمبر 223 اثر )247(247سوِز محبت کا قیامت بے محابا ہے کہ رگ سے سنگ میں تخِم شرر کا ریشہ پیدا ہے نہاں ہے گوہِر مقصود جیِب خود شناسی میں ّ کہ یاں غواص ہے تمثال اور آئینہ دریا ہے 248 عزیزاں گر چہ بہلتے ہیں ذکِر وصل سے لیکن) (248 مجھے افسوِن خواب افسانۂ خواِب زلیخا ہے تصوِر بہر تسکیِن طپیدن ہاۓ طفِل دل بہ باِغ رنگ ہاۓ رفتہ گلچیِن تماشا ہے س خانہ ویرانی بہ سعئِی غیر ہے قطِع لبا ِ کہ تاِر جادۂ رہ رشتۂ داماِن صحرا ہے ک فراِق شعلہ رویاں میں مجھے شب ہاۓ تاری ِ چراِغ خانۂ دل سوزِش داِغ تمنا ہے ترے نوکر ترے در پر اسد کو ذبح کرتے ہیں ُ ستمگر! نا خدا ترس! آشنا کش! ماجرا کیا ہے
247 247۔ اس غزل کے حاشیے پر حسِب ذیل سات اشعار درج ہیں۔ ان میں سے پانچ شعر یعنی پہل ،تیسرا ،چوتھا ،پانچواں اور ساتواں، چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچ کر کاٹ دیے گئے ہیں۔ مگر ان کے پڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ ان شعروں کے امل کی بعض خصوصیتں قابل ذکر ہیں۔ دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں "مری" کو "مبری" نیز "فضا" کو "فزا"۔ اور دوسرے مصرع میں "ِاسی" کو بالوضاحت "اوسی" لکھا ہے۔ چوتھے شعر میں "نشاِط دیدۂ بینا" کے بعد لفظ "ہے" غائب ہے۔ پانچویں شعر کے مصرع ثانی میں قافیہ "وا" لکھا ہے مگر متن کی اگلی سے اگلی غزل کا پانچواں شعر دیکھیے تو یہ قافیہ "پا" درج ہوا ہے جو درست معلوم ہوتا ہے۔ ان تصریحات کے بعد سات ابیات کی اس غزل کی نقل مطابِق اصل پیش کی جاتی ہے: بہ بزم مے پرستی حسرت تکلیف بے جا ہے کہ جام بادہ کف بر لب بہ تکلیف تقاضا ہے میری ہستی فزاۓ حیرت آباد تمنا ہے جسے کہتے ہیں نالہ وہ اوسی عالم کا عنقا ہے نہ لئی شوخی اندیشہ تاب درد نومیدی کف افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہے نشاط دیدۂ بینا کو خواب و چہ بیداری بہم آوردہ مژگاں روۓ بر روۓ تماشا ہے نسودے آبلوں میں گر سرشک دیدۂ نم سے بجولں گاہ نومیدی نگاہ عاجزاں وا ہے وفائے دلبراں ہے اتفاقی ورنہ اے ہمدم اثر فریاد دل ہاۓ حزیں کا کس نے دیکھا ہے اسد یاس تمنا سے نہ رکھ امید آزادی گداز ہر تمنا آبیار ہر تمنا ہے 248 248۔ اس شعر کے مصرع اول پر اصلِح ذیل موٹے قلم سے خوش خط شکستہ میں درج ہے: عزیزو ذکِر وصِل غیر سے مجھ کو نہ بہلؤ
غزل نمبر 224 جوہِر آئینہ ساں مژگاں بہ دل آسودہ ہے قطرہ جو آنکھوں سے ٹپکا سو نگہ آلودہ ہے دامگاِہ عجز میں ساماِن آسایش کہاں پرفشانی بھی فریِب خاطِر آسودہ ہے ض بساِط ناِز مشتاقی نہ مانگ اے ہوس عر ِ جوں پِر طاؤس چندیں داِغ مشک اندودہ ہے ہے ریا کا رتبہ بال تر تصور کردنی تیرگی سے داغ کی مہ سیِم مس اندودہ ہے کیا کہوں پرواز کی آوارگی کی کشمکش عافیت سرمایۂ بال و پِر نکشودہ ہے ہے سواِد خط پریشاں موئِی اہِل عزا خامہ میراشمع قبِر کشتگاں کا دودہ ہے ِ ُ جس طرف سے آئے ہیں ،آخر ادھر ہی جائیں گے مرگ سے وحشت نہ کر راِہ عدم پیمودہ ہے پنبۂ مینائی ہی رکھ لو تم اپنے کان میں مے پرستاں ناصح بے صرفہ گو بیہودہ ہے ِ ّ کثرِت انشاۓ مضموِن تحیر سے اسد ہر سِر انگشت نوِک خامۂ فرسودہ ہے
غزل نمبر 225 بہ) 249(249بزِم مے پرستی حسرِت تکلیف بے جا ہے کہ جاِم بادہ کف برلب بہ تکلیِف تقاضا ہے ُ نشاِط دیدۂ بینا ہے کو خواب و چہ بیداری بہم آوردہ مژگاں بوسۂ روۓ تماشا ہے نہ لئی شوخئِی اندیشہ تاِب درِد نومیدی کِف افسوس سودن عہِد تجدیِد تمنا ہے نگہ معماِر حسرت ہا ،چہ آبادی ،چہ ویرانی ُ 249 249۔ متن کی گزشتہ سے پیوستہ غزل کے حاشیے پر جو سات شعر درج ہیں ،ان میں سے پانچ اشعار )نمبر ،1نمبر ،3نمبر ،4نمبر ،5نمبر (7اس غزل کے پانچ اشعار سے مل کر پڑھنے چاہئیں ) (1اس غزل کا مطلع بجنسہ مذکورۂ بال شعر نمبر 1ہے۔ ) (2غزل کا دوسرا شعر مذکورۂ بال پانچ اشعار میں نمبر 4ہے ،جہاں "بوسۂ روۓ تماشا" کے بجاۓ "روۓ بر روۓ تماشا" درج ہوا ہے۔ ) (3تیسرا شعر مذکورۂ بال شعر نمبر 3سے اس حد تک مختلف ہے کہ یہاں اگر چہ "کِف افسوس ملنا" درج ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ حاشیے کا یہ اندراج بعد کی اصلح کی نقل ہے۔ ) (5پانچواں شعر بجنسِہ مذکورہ بال شعر نمبر 5ہے ،بجز اس فرق کے کہ یہاں متن میں قافیہ "پا" ہے اور وہاں حاشیے میں قافیہ "وا" ہے ،جو ممکن ہے سہو کاتب ہو۔ ) (5مقطع کا مصرع اول دونوں جگہ مشترک ہے مگر حاشیے کا اندراج "گداز ہر تمنا۔۔۔۔" الخ۔ بعد کی اصلح کی نقل معلوم ہوتا ہے۔
کہ مژگاں جس طرف وا ہو ،کِف داماِن صحرا ہے ک دیدۂ نم سے نسودے آبلوں میں گر سرش ِ بہ جولں گاِہ نومیدی نگاِہ عاجزاں پا ہے بہ سختی ہاۓ قیِد زندگی معلوم آزادی شرر در بنِد داِم رشتۂ رگ ہاۓ خارا ہے س تمنا سے نہ رکھ امیِد آزادی اسد یا ِ گداِز آرزو ہا آبیاِر آرزو ہا ہے
غزل نمبر 226 بہِر پروردن سراسر لطف گستر سایہ ہے پنجۂ مژگاں بہ طفِل اشک دسِت دایہ ہے فصِل گل میں دیدۂ خونیں نگاہاِن جنوں ّ دولِت نظارۂ گل سے شفق سرمایہ ہے شررِش باطن سے یاں تک مجھ کو غفلت ہے کہ آہ شیوِن دل یک سروِد خانۂ ہمسایہ ہے کیوں نہ تیغ یار کو مشاطۂ الفت کہوں ِ زخم مثِل گل سراپا کے مرے پیرایہ ہے اے اسد آباد ہے مجھ سے جہاِن شاعری خامہ میرا تخِت سلطاِن سخن کا پایہ ہے
غزل نمبر 227 چشِم گریاں بسمِل شوِق بہاِر دید ہے ض بال افشانئِی امید ہے اشک ریزی عر ِ دامِن گردوں میں رہ جاتا ہے ہنگاِم وداع ک دیدۂ خورشید ہے گوہِر شب تاب اش ِ رتبۂ تسلیِم خلت مشرباں عالی سمجھ چشِم قربانی گِل شاِخ ہلِل عید ہے کچھ نہیں حاصل تعلق میں بغیر از کشمکش اے خوشا رندی)250 (250کہ مرِغ گلشِن تجرید ہے کثرِت اندوہ سے حیران و مضطر ہے اسد یا علی وقِت عنایات و دِم تائید ہے
260 250۔ عرشی" :رندے"۔
غزل نمبر 228 گ خود آرائی ہے فرصت آئینۂ صد رن ِ س تماشائی ہے روز و شب یک کِف افسو ِ وحشِت زخِم وفا دیکھ کہ سرتا سِر دل بخیہ جوں جوہِر تیغ آفِت گیرائی ہے ُ شمع آسا چہ سِر دعوی و کو پاۓ ثبات گِل صد شعلہ بہ یک جیِب شکیبائی ہے نالہ خونیں ورق و دل گِل مضموِن شفق چمن آراۓ نفس و حشِت تنہائی ہے بوۓ گل فتنۂ بیدار و چمن جامۂ خواب گ تپش کسوِت رسوائی ہے وصل بر رن ِ گ طرب گاِہ بہار شرم طوفاِن خزاں رن ِ گِل مہتاب بہ کف چشِم تماشائی ہے باِغ خاموشئِی دل سے سخِن عشق اسد س سوختہ رمِز چمن ایمائی ہے نف ِ
غزل نمبر 229 عیادت بسکہ تجھ سے گرمئِی بازاِر بستر ہے فروِغ شمع بالیں طالع بیداِر بستر ہے ِ ِ بہ ذوِق شوخئِی اعضا تکلف باِر بستر ہے معاِف پیچ و تاِب کشمکش ہر تاِر بستر ہے ُ معماۓ تکلف سر بہ مہِر چشم پوشیدن ش طوماِر بستر ہے گداِز شمِع محفل پیچ ِ مژہ فرِش رہ و دل ناتوان و آرزو مضطر ُ بہ پاۓ خفتہ سیِر وادئِی پر خاِر بستر ہے ک سر بہ صحرا دادہ نورالعیِن داماں ہا سرش ِ دِل بے دست و پا افتادہ برخورداِر بستر ہے بہ طوفاں گاِہ جوِش اضطراِب وحشت شب ہا شعاِع آفتاِب صبح محشر تاِر بستر ہے ِ اسد جوِش بہاِر دیدۂ بیدار کے صدقے ہماری دید کو خواِب زلیخا عاِر بستر ہے
غزل نمبر 230 خطر )251(251ہے رشتۂ الفت رِگ گردن نہ ہوجاۓ ُ غروِر دوستی آفت ہے تو دشمن نہ ہو جاۓ س شوخئِی مژگاں سِر ہر خار سوزن ہے بہ پا ِ تبسم برِگ گل کو بخیۂ دامن نہ ہو جاۓ جراحت دوزئِی عاشق ہے جاۓ رحم ڈرتا ہوں ک دیدۂ سوزن نہ ہوجاۓ کہ رشتہ تاِر اش ِ غضب شرم آفریں ہے رنگ ریزی ہاۓ خودبینی سفیدی آئنے کی پنبۂ روزن نہ ہو جاۓ سمجھ اس فصل میں کوتاہئِی نشو و نما غالب ْ اگر گل سرو کے قامت پہ پیراہن نہ ہو جاۓ
غزل نمبر 231 نواۓ خفتۂ الفت اگر بے تاب ہو جاوے پِر پروانہ تاِر شمع پر مضراب ہو جاوے اگر وحشت عرق افشاِن بے پروا خرامی ہو ض دیدۂ آہو کِف سیلب ہو جاوے بیا ِ ز بس طوفاِن آب و ِگل ہے غافل کیا تعجب ہے کہ ہر یک گردباِد گلستاں گرداب ہو جاوے اثر میں یاں تک اے دسِت دعا اعجاز پیدا کر کہ سجدہ قبضۂ تیغ خِم محراب ہو جاوے ِ گ گل اگر شیرازہ بنِد بے خودی رہیے بہ رن ِ ہزار آشفتگی مجموعۂ یک خواب ہو جاوے اسد باوصِف عجِز بے تکلف خاک گردیدن غضب ہے گر غباِر خاطِر احباب ہو جاوے
غزل نمبر 232 تا چند ناِز مسجد و بت خانہ کھینچیے جوں شمع دل بہ خلوِت جانانہ کھینچیے ش یک دِل صد چاک عرض کر بہزاد نق ِ گر زلِف یار کھینچ نہ سکے شانہ کھینچیے راحت کمیِن شوخئِی تقریِب نالہ ہے پاۓ نظر بہ دامِن افسانہ کھینچیے زلِف پری بہ سلسلۂ آرزو رسا 261 251۔ مطبوعہ نسخہ ان پانچوں اشعار کی ردیف میں "جاۓ" درج کرتا ہے۔ مگر نسخۂ عرشی میں "جاوے" ہے جو درست معلوم ہوتا ہے۔
یک عمر دامِن دِل دیوان کھینچیے یعنی دماِغ غفلِت ساقی رسیدہ تر خمیازۂ خمار سے پیمانہ کھینچیے پرواز آشیانۂ عنقاۓ ناز ہے باِل پری بہ وحشِت بے جا نہ کھینچیے عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر ُ دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے ہے ذوِق گریہ عزِم سفر کیجیے اسد رخِت جنوِن سیل بہ ویرانہ کھینچیے
غزل نمبر 233 وہ مژہ بر آہ روبانیدن) 252(252از دل تیز ہے یہ زمیں مثِل نیستاں سخت ناوک خیز ہے ہوسکے کیا خاک دست و بازوۓ فرہاد سے بیستوں خواِب گردِن خسرِو پرویز ہے ان ستم کیشوں کے کھاۓ ہیں زبس تیِر نگاہ پردۂ بادام یک غرباِل حسرت بیز ہے خوں چکاں ہے جادہ ماننِد رِگ سودائیاں ُ سبزۂ صحراۓ الفت نشتِر خوں ریز ہے جلوۂ گل دیکھ روۓ یار یاد آیا اسد ش فصِل بہاری اشتیاق انگیز ہے جوش ِ
غزل نمبر 234 داماِن دل بہ وہِم تماشا نہ کھینچیے اے مدعی خجالِت بے جا نہ کھینچیے گل سر بہ سر اشارۂ جیِب دریدہ ہے ناِز بہار جز بہ تقاضا نہ کھینچیے حیرت حجاِب جلوہ و وحشت غباِر راہ پاۓ نظر بہ دامِن صحرا نہ کھینچیے واماندگی بہانہ و دل بستگی فریب درِد طلب بہ آبلۂ پا نہ کھینچیے گر صفحے کو نہ دیجیے پرداِز سادگی ش تمنا نہ کھینچیے جز خِط عجز نق ِ ُ خود نامہ بن کے جائیے اس اشنا کے پاس کیا فائدہ کہ منِت بیگانہ کھینچیے 252 252۔ عرشی" :رویانیدن"۔
دیداِر دوستاِن لباسی ہے ناگوار صورت بہ کارخانۂ دیبا نہ کھینچیے ّ ہے بے خمار نش۔ۂ خوِن جگر اسد دسِت ہوس بہ گردِن مینا نہ کھینچیے
غزل نمبر 235 زلِف سیہ افعی نظِر بد قلمی ہے ہر چند خِط سبز و زمرد رقمی ہے ہے مشِق وفا جانتے ہیں لغزِش پا تک اے شمع تجھے دعوئ ثابت قدمی ہے ض شکست آئنۂ جرأِت عاشق ہے عر ِ ََ جز آہ کہ سر لشکِر وحشت علمی ہے واماندۂ ذوِق طرِب وصل نہیں ہوں اے حسرِت بسیار تمنا کی کمی ہے وہ پردہ نشیں اور اسد آئینۂ اظہار شہرت چمِن فتنہ و عنقا ارمی ہے
غزل نمبر 236 تر) 253(253جبیں رکھتی ہے شرِم قطرہ سامانی مجھے موِج گرداِب حیا ہے چیِن پیشانی مجھے ُ شبنم آسا کو مجاِل سبحہ گردانی مجھے ہے شعاِع مہر زناِر سلیمانی ہے بلبِل تصویر ہوں بیتاِب اظہاِر تپش ش ناِل قلم جوِش پریشانی مجھے جنب ِ ضبِط سوِز دل ہے وجِہ حیرِت اظہاِر حال ُ داغ ہے مہِر دہن جوں چشِم قربانی مجھے شوخ ہے مثِل حباب از خویش بیروں آمدن ہے گریباں گیِر فرصت ذوِق عریانی مجھے واکیا ہرگز نہ میرا عقدۂ تاِر نفس ناخِن بریدہ ہے تیغ صفاہانی مجھے ِ ہوں ہیو لۓ دو عالم صورِت تقریر اسد فکر نے سونپی خموشی کی گریبانی مجھے
253 253۔ اس غزل کے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ دو شعر درج ہیں: کیوں نہ ہو بے التفاتی اس کی خاطر جمع ہے جانتا ہے محِو پرسش ہاۓ پنہانی مجھے میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی لکھ دیا منجملۂ اسباِب ویرانی مجھے
غزل نمبر 237 یاد ہے شادی میں عقِد نالۂ یارب مجھے سبحۂ زاہد ہوا ہے خندہ زیِر لب مجھے ہے کشاِد خاطِر وابستہ در رہِن سخن تھا طلسِم قفِل ابجد خانۂ مکتب مجھے یا رب اس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے رشک آسایش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے صبح ناپیدا ہے کلفت خانۂ ادیار میں گ یک نفس ہر شب مجھے توڑنا ہوتا ہے رن ِ شومئِی طالع سے ہوں ذوِق معاصی میں اسیر نامۂ اعمال ہے تاریکئِی کوکب مجھے درد نا پیدا و بے جا تہمِت وارستگی پردہ داِر یاوگی ہے وسعِت مشرب مجھے طبع ہے مشتاِق لذت ہاۓ حسرت کیا کروں آرزو سے ہے شکسِت آرزو مطلب مجھے دل لگا کر آپ بھی غالب مجھی سے ہوگئے عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے
غزل نمبر 238 بسکہ سوداۓ خیاِل زلف وحشت ناک ہے تا دِل شب آبنوسی شانہ آسا چاک ہے یاں فلخن باز کس کا نالۂ بے باک ہے جادہ تا کہسار موۓ چینئِی افلک ہے ُ ہے دو عالم ناز یک صیِد شِہ دلدل سوار یاں خِط پرکاِر ہستی حلقۂ فتراک ہے خلوِت بال و پِر قمری میں وا کر راِہ شوق گ ریشہ زیِر خاک ہے جادۂ گلشن بہ رن ِ عیش گرِم اضطراب و اہِل غفلت سرد مہر دوِر ساغر یک گلستاں برگریِز تاک ہے ض وحشت پر ہے ناِز ناتوانی ہاۓ دل عر ِ شعلۂ بے پردہ چیِن دامِن خاشاک ہے ہے کمنِد موِج گل آشفتہ فتراکی اسد ُ رنگ یاں بو سے سواِر توسِن چالک ہے
غزل نمبر 239 ز بسکہ مشِق تماشا جنوں علمت ہے کشاد و بسِت مژہ سیلئِی ندامت ہے ک عافیت مت توڑ بہ پیچ و تاِب ہوس سل ِ نگاِہ خفتہ سِر رشتۂ سلمت ہے وفا مقابل و دعواۓ عشق بے بنیاد جنوِن ساختہ و فصِل گل قیامت ہے نہ جانوں کیونکہ مٹے داِغ طعِن بد عہدی تجھے کہ آئنہ بھی ورطۂ ملمت ہے اسد! بہاِر تماشاۓ گلستاِن حیات وصاِل للہ عذاراِن سرو قامت ہے
غزل نمبر 240 مژہ پہلوۓ چشم اے جلوۂ ادراک باقی ہے ہوا وہ شعلہ داغ اور شوخئِی خاشاک باقی ہے چمن میں کچھ نہ چھوڑا تو نے غیر از بیضۂ قمری عدم میں بہِر فرِق سرو مشِت خاک باقی ہے ش خود کامی گداِز سعئِی بینش شست و شو سے نق ِ سراپا شبنم آئیں یک نگاِہ پاک باقی ہے س زعفرانی دل کشا لیکن ہوا ترِک لبا ِ ہنوز آفت نسب یک عقدہ یعنی چاک باقی ہے چمن زاِر تمنا ہوگئی )254(254صرِف خزاں لیکن گ آِہ حسرت ناک باقی ہے بہاِر نیم رن ِ نہ حیرت چشِم ساقی کی نہ صحبت دوِر ساغر کی مری محفل میں غالب گردِش افلک باقی ہے
غزل نمبر 241 شکِل طاؤس گرفتار بنایا ہے مجھے ہوں وہ گلدام کہ سبزے میں چھپایا ہے مجھے پِر طاؤس تماشا نظر آیا ہے مجھے ایک دل تھا کہ بہ صد چشم دکھایا ہے مجھے س خط تا سخِن ناصح دانا سر سبز عک ِ ِ آئنہ بیضۂ طوطی نظر آیا ہے مجھے 254 254۔ عرشی" :گیا" )بجاۓ " گئی"(
ُ سنبلستاِن جنوں ہوں ستِم نسبِت زلف ُ موکشاں خانۂ زنجیر میں لیا ہے مجھے گردباد آئنۂ محشِر خاِک مجنوں ُ یک بیاباں دِل بیتاب اٹھایا ہے مجھے حیرِت کاغِذ آتش زدہ ہے جلوۂ عمر تِہ خاکستِر صد آئنہ پایا ہے مجھے للہ و گل بہم آئینۂ اخلِق بہار ہوں میں وہ داغ کہ پھولوں میں بسایا ہے مجھے درِد اظہاِر تپش کسوتئِی گل معلوم ہوں میں وہ چاک کہ کانٹوں میں سلیا ہے مجھے ض دو عالم فریاد بے دماِغ تپش و عر ِ ُ ہوں میں وہ خاک کہ ماتم میں اڑایا ہے مجھے جاِم ہر ذرہ ہے سرشاِر تمنا مجھ سے کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے جوِش فریاد سے لوں گا دیِت خواب اسد شوخئِی نغمۂ بیدل نے جگایا ہے مجھے
غزل نمبر 242 شوخئِی مضراِب جولں آبیاِر نغمہ ہے بر گریِز ناخِن مطرب بہاِر نغمہ ہے کس سے اے غفلت تجھے تعبیِر آگاہی ملے گوش ہا سیابی و دل بے قراِر نغمہ ہے ش بے دلی ہے خانہ ویرانی مجھے ساِز عی ِ سیل یاں کوِک صداۓ آبشاِر نغمہ ہے سنبلی خواں ہے بہ ذوِق تاِر گیسوۓ دراز نالۂ زنجیِر مجنوں رشتہ داِر نغمہ ہے شوخئِی فریاد سے ہے پردۂ زنبور گل کسوِت ایجاِد بلبل خار خاِر نغمہ ہے نشہ ہا شاداِب رنگ و ساز ہا مسِت طرب شیشۂ مے سرِو سبِز جویباِر نغمہ ہے ش یار ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کر نہ بزِم عی ِ واں تو میرے نالے کو بھی اعتباِر نغمہ ہے غفلت استعداد ذوق و مدعا غافل اسد پنبۂ گوِش حریفاں پود و تاِر نغمہ ہے
غزل نمبر 243 خود فروشی ہاۓ) 255(255ہستی بسکہ جاۓ خندہ ہے تا شکسِت قیمِت دل ہا صداۓ خندہ ہے شوخئِی اظہار دندان ہا براۓ خندہ ہے ّ دعوئ جمعیِت احباب جاۓ خندہ ہے ش انجاِم گل ہیں عدم میں غنچہ ہا عبرت ک ِ ّ یک جہاں زانو تامل درقفاۓ خندہ ہے ش بے تابی حراِم کلفِت افسردگی عی ِ ض دنداں در دل افشردن بناۓ خندہ ہے عر ِ ش عبرت در نظر ہا نقِد عشرت در بساط نق ِ دو جہاں وسعت بہ قدِر یک فضاۓ خندہ ہے جاۓ استہزا ہے عشرت کوشئِی ہستی اسد صبح و شبنم فرصِت نشو و نماۓ خندہ ہے
غزل نمبر 244 حسِن بے پروا خریداِر متاِع جلوہ ہے آئنہ زانوۓ فکِر اختراِع جلوہ ہے عجِز دیدن ہا بہ ناز و ناِز رفتن ہا بہ چشم جادۂ صحراۓ آگاہی شعاِع جلوہ ہے اختلِف رنگ و بو طرِح بہاِر بے خودی صلح کل گرِد ادب گاِہ نزاِع جلوہ ہے ِ گ تماشا باختن رن آگہی اے کجا تا ِ چشِم وا گردیدہ آغوِش وداِع جلوہ ہے حسِن خوباں بسکہ بے قدِر تماشا ہے اسد ّ آئنہ یک دسِت ر ِد امتناِع جلوہ ہے
غزل نمبر 245 جب تک دہاِن زخم نہ پیدا کرے کوئی مشکل کہ تجھ سے راِہ سخن وا کرے کوئی سر بر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عمر فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی عالم غباِر وحشِت مجنوں ہے سربسر کب تک خیاِل طرۂ لیل کرے کوئی افسردگی نہیں طرب انشاۓ التفات جوں درد میرے دل میں مگر جا کرے کوئی 255 255۔ "خود فروشیہاۓ" کو جدید امل کے مطابق "خود فروشی ہاۓ" لکھا۔ جویریہ مسعود
رونے سےاے ندیم ملمت نہ کر مجھے آخر کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی تمثاِل جلوہ عرض کراے حسن کب تلک آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی چاِک جگر سے جب رِہ پرسش نہ وا ہوئی کیا فائدہ کہ جیب کو رسوا کرے کوئی بے کارئِی جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی حسِن فروِغ شمع سخن دور ہے اسد ِ پہلے دِل گداختہ پیدا کرے کوئی
غزل نمبر 246 جنوں رسوائِی وارستگی زنجیر بہتر ہے بقدِر مصلحت دل تنگئِی تدبیر بہتر ہے خوشا خود بینی و تدبیر و غفلت نقِد اندیشہ بہ دیِن عجز اگر بدنامئِی تقدیر بہتر ہے دِل آگاہ تسکیں خیِز بے دردی نہ ہو یا رب نفس آئینہ داِر آِہ بے تاثیر بہتر ہے خدایا! چشم تا دل درد ہے افسوِن آگاہی نگہ حیرت سواِد خواِب بے تعبیر بہتر ہے دروِن جوہِر آئینہ جوں برِگ حنا خوں ہے ش خود آرائی حیا تحریر بہتر ہے بتاں نق ِ تمناۓ اسد قتِل رقیب اور شکر کا سجدہ دعاۓ دل بہ محراِب خِم شمیر بہتر ہے
غزل نمبر 246 وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی ہستی کو لفِظ معنئِی عنقا کرے کوئی ہے لخِت دل سے جوں مژہ ہر خار شاِخ گل تا چند باغبانئِی صحرا کرے کوئی جو کچھ ہے محِو شوخئِی ابروۓ یار ہے آنکھوں کو رکھ کے طاق پہ دیکھا کرے کوئی ہے وحشِت طبیعت ایجاد نالہ خیز یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی ناکامئِی نگاہ ہے برِق نظارہ سوز تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
ض سرشک پر ہے فضاۓ زمانہ تنگ عر ِ صحرا کہاں کہ دعوِت دریا کرے کوئی وہ شوخ اپنے حسن پہ مغرور ہے اسد دکھل کے اس کو آئنہ توڑا کرے کوئی
غزل نمبر 248 دریوزۂ ساماں ہا اے بے سر و سامانی ایجاِد گریباں ہا در پردۂ عریانی تمثاِل تماشا ہا اقباِل تمنا ہا عجِز عرِق شرمےاے آئنہ حیرانی دعواۓ جنوں باطل تسلیم عبث حاصل پرواِز فنا مشکل میں عجِز تن آسانی بیگانگئِی خوہا موِج رِم آہوہا ُ داِم گلۂ الفت زنجیِر پشیمانی پرواز تپش رنگی گلزار ہمہ تنگی س دل میںاے ذوِق پر افشانی خوں ہو قف ِ سنگ آمد و سخت آمد درِد سِر خود داری معذوِر سبکساری مجبوِر گراں جانی گلزاِر تمنا ہوں گلچیِن تماشا ہوں صد نالہ اسد بلبل در بنِد زباں دانی
غزل نمبر 249 باغ تجھ بن گِل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے چاہوں گر سیِر چمن آنکھ دکھاتا ہے مجھے نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کِف خاک آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے جوہِر تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم ُ ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب اگاتا ہے مجھے مدعا محِو تماشاۓ شکسِت دل ہے آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے ک چمن کا یارب شوِر تمثال ہے کس رش ِ آئنہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے حیرِت آئنہ انجاِم جنوں ہوں جوں شمع ُ کس قدر داِغ جگر شعلہ اٹھاتا ہے مجھے میں ہوں اور حیرِت جاوید مگر ذوِق خیال بہ فسوِن نگِہ ناز ستاتا ہے مجھے حیرِت فکِر سخن ساز سلمت ہے اسد
س زانوۓ آئینہ بٹھاتاہے مجھے دل پ ِ
غزل نمبر 250 کوہ کے ہوں باِر خاطر گر صدا ہو جائیے بے تکلفاے شراِر جستہ کیا ہو جائیے یاد رکھیے ناز ہاۓ التفاِت اولیں گ رسا ہو جائیے آشیاِن طائِر رن ِ گ بال و پر ہے یہ کنج قفس بیضہ آسا نن ِ ِ از سِر نو زندگی ہو گر رہا ہو جائیے لطِف عشِق ہر یک انداِز دگر دکھلۓ گا بے تکلف یک نگاِہ آشنا ہو جائیے داد از دسِت جفاۓ صدمۂ ضرب المثل ُ ش پا ہو جائیے نق جوں افتادگی گر ہمہ ِ وسعِت مشرب نیاِز کلفِت وحشت اسد ُ یک بیاباں سایۂ باِل ہما ہو جائیے
غزل نمبر 251 داغ پشِت دسِت عجز شعلہ خس بہ دنداں ہے اے ہوس مبارک ہو کاِر عشق آساں ہے کارگاِہ ہستی میں للہ داغ ساماں ہے برِق خرمِن راحت خوِن گرِم دہقاں ہے حیرِت تپیدن ہا خوں بہاۓ دیدن ہا گ گل کے پردے میں آئنہ پرافشاں ہے رن ِ عشق کے تغافل سے ہرزہ گردئِی عالم روئے شش جہت آفاق پشِت چشِم زنداں ہے غنچہ تا شگفتن ہا برِگ عافیت معلوم باوجوِد دل جمعی خواِب گل پریشاں ہے گل بہ کوہ از للہ بزم ساِز بے تابی مثِل دوِد مجمر ہا داغ بال افشاں ہے اے کرم نہ ہو غافل ورنہ ہے اسد بیدل ُ از گہر صدف خالی پشِت چشِم نیساں ہے
غزل نمبر 252 گریہ سرشارئِی شوقے بہ بیاباں زدہ ہے ک طوفاں زدہ ہے قطرۂ خو ِ ّن جگر چشم ِ گریہ بے لذِت کاوش نہ کرے جرأِت شوق قطرۂ اشک دلے برصِف مژگاں زدہ ہے
ّ بے تماشا نہیں جمعیِت چشِم بسمل مژہ فاِل دو جہاں خواِب پریشاں زدہ ہے فرصت آئینہ و پرواِز عدم تا ہستی یک شرر باِل دل و دیدہ چراغاں زدہ ہے س نیرنگ ہے کس موِج نگہ کا یا رب در ِ غنچہ صد آئنہ زانوۓ گلستاں زدہ ہے ساِز وحشت رقمی ہا کہ بہ اظہاِر اسد دشت و ریگ آئنۂ صفحۂ افشاں زدہ ہے
غزل نمبر 253 خواِب غفلت بہ کمیں گاِہ نظر پنہاں ہے شام ساۓ میں بہ تاراِج سحر پنہاں ہے دو جہاں گردِش یک سبحۂ اسراِر نیاز نقِد صد دل بہ گریباِن سحر پنہاں ہے خلوِت دل میں نہ کر دخل بجز سجدۂ شوق آستاں میں صفِت آئنہ در پنہاں ہے فکِر پرواِز جنوں ہے سبِب ضبط نہ پوچھ اشک جوں بیضۂ مژگاں تِہ پر پنہاں ہے ہوشاے ہرزہ درا تہمِت بے دردی چند نالہ در گرِد تمناۓ اثر پنہاں ہے وہِم غفلت مگر احراِم فسردن باندھے ورنہ ہر سنگ کے باطن میں شرر پنہاں ہے گ نشاط وحشِت دل ہے اسد عالِم نیرن ِ خندۂ گل بہ لِب زخِم جگر پنہاں ہے
غزل نمبر 254 مستی بہ ذوِق غفلِت ساقی ہلک ہے موِج شراب یک مژۂ خواب نا ک ہے ّ کلفت طلسِم جلوۂ کیفیِت دگر زنگار خوردہ آئنہ یک برِگ تاک ہے ض جوہِر خط و خاِل ہزار عکس ہے عر ِ لیکن ہنوز دامِن آئینہ پاک ہے ہوں خلوِت فسردگئِی انتظار میں وہ بے دماغ جس کو ہوس بھی تپاک ہے جز زخِم تیغ ناز نہیں دل میں آرزو ِ جیِب خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے جوِش جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں اسد صحرا ہماری آنکھ میں اک مشِت خاک ہے
غزل نمبر 255 س دِل تسلیم آئیں ہے غم و عشرت قدم بو ِ ّ دعاۓ مدعا گم کردگاِن عشق آمیں ہے س وفا رسواۓ آئیں ہے تماشا ہے کہ نامو ِ نفس تیری گلی میں خوں ہو اور بازار رنگیں ہے ٰ لِب عیسی کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی قیامت کشتۂ لعِل بتاں کا خواِب سنگیں ہے ہمارا دیکھنا گر ننگ ہے سیِر گلستاں کر شراِر آہ سے موِج صبا داماِن گلچیں ہے پیاِم تعزیت پیدا ہے انداِز عیادت سے شِب ماتم تِہ داماِن دوِد شمع بالیں ہے ِ زبس جز حسن منت ناگوارا ہے طبیعت پر کشاِد عقدہ محِو ناخِن دسِت نگاریں ہے نہیں ہے سر نوشِت عشق غیر از بے دماغی ہا ّ جبیں پر میری م ِد خامۂ قدرت خِط چیں ہے بہاِر باغ پاماِل خراِم جلوہ فرمایاں حنا سے دست و خوِن کشتگاں سے تیغ رنگیں ہے بیاباِن فنا ہے بعِد صحراۓ طلب غالب پسینہ توسِن ہمت کا سیِل خانۂ زیں ہے
غزل نمبر 256 دیکھتا ہوں وحشِت شوِق خروش آمادہ سے ک سر بہ صحرا دادہ ہے فاِل رسوائی ارش ِ دام گر سبزے میں پنہاں کیجیے طاؤس ہو ض صحرا دادہ سے جوِش نیرن ِ گ بہاِر عر ِ پا تراِب سیِل طوفاِن صداۓ آب ہے ش پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے نق ِ بزِم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشِم مست کا ض پری پنہاں ہے موِج بادہ سے شیشے میں نب ٰ ِ خیمۂ لیلی سیاہ و خانۂ مجنوں خراب جوِش ویرانی ہے عشِق داغ بیروں دادہ سے بزِم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم اسد دیکھتے ہیں چشِم از خواِب عدم نکشادہ سے
غزل نمبر 257
نظر پرستی و بے کاری و خود آرائی رقیِب آئنہ ہے حیرِت تماشائی ز خود گزشتِن دل کارواِن حیرت ہے نگہ غباِر ادب گاِہ جلوہ فرمائی بہ چشم درشدہ مژگاں ہے جوہِر رِگ خواب نہ پوچھ نازکئِی وحشِت شکیبائی خراِب نالۂ بلبل شہیِد خندۂ گل ہنوز دعوئ تمکین و بیِم رسوائی شکسِت ساِز خیال آں سوۓ کریوۂ غم ہنوز نالہ پر افشاِن ذوِق رعنائی ہزار قافلۂ آرزو بیاباں مرگ ہنوز محمِل حسرت بہ دوِش خود رائی وداِع حوصلہ توفیِق شکوہ عجِز وفا اسد ہنوز گماِن غروِر دانائی
غزل نمبر 258 کوشش ہمہ بے تاِب تردد شکنی ہے ش دل یک مژہ برہم زدنی ہے صد جنب ِ گو حوصلہ پامزِد تغافل نہیں لیکن خاموشئِی عاشق گلۂ کم سخنی ہے دی لطِف ہوا نے بہ جنوں طرفہ نزاکت تا آبلہ دعواۓ تنک پیرہنی ہے رامشگِر ارباِب فنا نالۂ زنجیر ش ابد از خویش بروں تا ختنی ہے عی ِ از بسکہ ہے محِو بہ چمن تکیہ زدنہا ش سرِو چمنی ہے گلبرگ پِر بال ِ آئینہ و شانہ ہمہ دست و ہمہ زانو اے حسن مگر حسرِت پیماں شکنی ہے 256 فریاد اسد بے نگہی ہاۓ بتاں سے) (256 سچ کہتے ہیں وال کہ ال غنی ہے
غزل نمبر 259 256 256۔ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے میں یہ مصرع یوں ہے: فریاد اسد ہے نگہی ہاۓ بتاں سے اس صورت میں مصرع مہمل معلوم ہوتا ہے ،اس لیے یہاں متن میں مطبوعہ نسخے کی ہو بہو نقل کے بجاۓ یہ مصرع نسخۂ عرشی سے لیا گیا ہے۔
کاشانۂ ہستی کہ برانداختنی ہے یاں سوختنی چارہ گِر ساختنی ہے ہے شعلۂ شمشیِر فنا حوصلہ افگار اے داِغ تمنا سپر انداختنی ہے جز خاک بسر کردِن بے فائدہ حاصل ہر چند بہ میداِن ہوس تاختنی ہے اے بے ثمراں حاصِل تکلیِف دمیدن گردن بہ تماشاۓ گل افراختنی ہے ہے سادگئِی ذہن تمناۓ تماشا گ چمن باختنی ہے جاۓ کہ اسد رن ِ
غزل نمبر 260 ش پا افتادہ مضموں ہے گلستاں بے تکلف پی ِ جو تو باندھے کِف پا پر حنا آئینہ موزوں ہے بہاِر گل دماِغ نشۂ ایجاِد) 257(257مجنوں ہے ہجوِم برق سے چرخ و زمیں یک قطرۂ خوں ہے رجوِع گریہ سوۓ دل خوشا سرمایۂ طوفاں برانگشِت حساِب اشک ناخن نعِل واژوں ہے عدم وحشت سراغ و ہستی آئیں بنِد رنگینی دماِغ دو جہاں پر سنبل و گل یک شبیخوں ہے تماشا ہے علِج بے دماغی ہاۓ دل غافل ّ سویدا مردِم چشِم پری نظارہ افسوں ہے فنا کرتی ہے زائل سر نوشِت کلفِت ہستی سحر از بہِر شست و شوۓ داِغ ماہ صابوں ہے اسد ہے آج مژگاِن تماشا کی حنا بندی ک جگر گوں ہے چراغاِن نگاہ و شوخئِی اش ِ
257 257۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں یہ لفظ "ایجاء" چھپا ہے اور افسوس ہے کہ میرے اپنے لکھے ہوۓ اشارت میں اس لفظ ً کی تصحیح محفوظ نہیں ہے۔ "ایجاء" چونکہ صراحتہ غلط ہے اس لیے یہاں یا تو "ایجاز" لکھ دینا ممکن تھا اور یا "ایجاد"۔ پنجاب یونیورسٹی لئبریری میں پروفیسر شیرانی کا جو مخطوطہ محفوظ ہے ،اس میں یہ لفظ "ایجاد" لکھا ہے۔ میں نے اسی سند پر اس لفظ کو "ایجاد" بنا دیا ہے۔
غزل نمبر 261 منت کشی میں حوصلہ بے اختیار ہے گ مزار ہے داماِن صد کفن تِہ سن ِ عبرت طلب ہے حِل معماۓ آگہی شبنم گداِز آئنۂ اعتبار ہے ہے ذرہ ذرہ تنگئِی جا سے غباِر شوق گر دام یہ ہے وسعِت صحرا شکار ہے ش وفا کو شکایت نہ چاہیے خجلت ک ِ اے مدعی طلسِم عرق بے غبار ہے کس کا سراِغ جلوہ ہے حیرت کواے خدا آئینہ فرِش شش جہِت انتظار ہے چھڑ کے ہے شبنم آئنۂ برِگ گل پر آب اے عندلیب وقِت وداِع بہار ہے کیفیِت ہجوِم تمنا رسا اسد خمیازہ ساغِر مئے رنج خمار ہے ِ
غزل نمبر 262 گداۓ طاقِت تقریر ہے زباں تجھ سے کہ خامشی کو ہے پیرایۂ بیاں تجھ سے فسردگی میں ہے فریاِد بیدلں تجھ سے چراِغ صبح و گِل موسِم خزاں تجھ سے 258 بہاِر حیرِت نظارہ سخت جانی سے )(258 حناۓ پاۓ اجل خوِن کشتگاں تجھ سے س رخ اندر آئینہ پری بہ شیشہ و عک ِ نگاِہ حیرِت مشاطہ خوں فشاں تجھ سے ُ طراوِت سحر ایجادئِی اثر یک سو بہاِر نالہ و رنگینئِی فغاں تجھ سے چمن چمن گِل آئینہ در کناِر ہوس امید محِو تماشاۓ گلستاں تجھ سے نیز پردۂ اظہاِر خود پرستی ہے جبیِن سجدہ فشاں تجھ سے آستاں تجھ سے بہانہ جوئِی رحمت کمیں گِر تقریب وفاۓ حوصلہ و رنج امتحاں تجھ سے ِ اسد بہ موسِم گل در طلسِم کنج قفس ِ خرام تجھ سے صبا تجھ سے گلستاں تجھ سے
غزل نمبر 263 258 258۔ شیرانی" :ہے"۔
ش زلِف یار ہے جس جانسیم شانہ ک ِ نافہ دماِغ آہوۓ دشِت تتار ہے دل مت گنوا خبر نہ سہی سیر ہی سہی اے بے دماغ آئنہ تمثال دار ہے زنجیر یاد پڑتی ہے جادے کو دیکھ کر ُ اس چشم سے ہنوز نگہ یادگار ہے بے پردہ سوۓ وادئِی مجنوں گزر نہ کر ہر ذرے کے نقاب میں دل بے قرار ہے سودائِی خیال ہے طوفاِن رنگ و بو یاں ہے کہ داِغ للہ دماِغ بہار ہے بھونچال میں گرا تھا یہ آئینہ طاق سے ش ابروۓ یار ہے حیرت شیہِد جنب ِ حیراں ہوں شوخئِی رِگ یاقوت دیکھ کر یاں ہے کہ صحبِت خس و آتش برار ہے اے عندلیب یک کِف خس بہِر آشیاں طوفاِن آمد آمِد فصِل بہار ہے 259 غفلت کفیِل عمر و اسد ضامِن وفا)(259 اے مرِگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے
غزل نمبر 264 حکِم بیتابی نہیں اور آرمیدن منع ہے باوجوِد مشِق و حشت ہا رمیدن منع ہے شرم آئینہ تراِش جبہۂ طوفان ہے آب گردیدن روا لیکن چکیدن منع ہے بیخودی فرمانر واۓ حیرت آباِد جنوں زخم دوزی جرم و پیراہن دریدن منع ہے ُ مژدۂ دیدار سے رسوائِی اظہار دور آج کی شب چشِم کوکب تک پریدن منع ہے بیِم طبع نازِک خوباں سے وقِت سیِر باغ ِ ریشۂ زیِر زمیں کو بھی دویدن منع ہے یار معذوِر تغافل ہے عزیزاں شفقتے نالۂ بلبل بہ گوِش گل شنیدن منع ہے مانع بادہ کشی ناداں ہے لیکناے اسد ِ بے ولۓ ساقئِی کوثر کشیدن منع ہے
غزل نمبر 265
259 259۔ متداول دیوان میں غالب نےلفظ " وفا" کو " نشاط" کردیا ہے اور کیا خوب کیا ہے کہ اس ایک تبدیلی سے معنی آفرینی کی حد کردی ہے۔ جویریہ مسعود
ش تدبیر آوے قتِل عشاق نہ غفلت ک ِ یارب آئینہ بہ طاِق خِم شمشیر آوے باِل طاؤس ہے رعنائِی ضعِف پرواز کون ہے داغ کہ شعلے کا عناں گیر آوے ض حیرانئِی بیماِر محبت معلوم عر ِٰ عیسی آخر بہ کِف آئنہ تصویر آوے ذوِق راحت اگر احراِم تپش ہو جوں شمع پاۓ خوابیدہ بہ دلجوئِی شبگیر آوے ُ اس بیاباں میں گرفتاِر جنوں ہوں کہ جہاں موجۂ ریگ سے دل پاۓ بہ زنجیر آوے ّ وہ گرفتاِر خرابی ہوں کہ فوارہ نمط سیل صیاِد کمیں خانۂ تعمیر آوے سِر معنی بہ گریباِن شِق خامہ اسد ّ ش طرۂ تحریر آوے چاِک دل شانہ ک ِ
غزل نمبر 266 تا چند نفس غفلِت ہستی سے بر آوے 260 ش نالہ ہے یا رب خبر آوے)(260 قاصد تپ ِ ہے طاِق فراموشئِی سوداۓ دو عالم وہ سنگ کہ گلدستۂ جوِش شرر آوے درد آئنہ کیفیِت صد رنگ ہے یا رب خمیازہ طرب ساغِر زخِم جگر آوے ّ جمعیِت آوارگئِی دید نہ پوچھو دل تا مژہ آغوِش وداِع نظر آوے ّ اے ہر زہ دوی منِت تمکیِن جنوں کھینچ ُ ش موِج گہر آوے تا آبلہ محمل ک ِ زاہد کو جنوں سبحۂ تحقیق ہے یا رب زنجیرئِی صد حلقۂ بیروِن در آوے وہ تشنۂ سرشاِر تمنا ہوں کہ جس کو ہر ذرہ بہ کیفیِت ساغر نظر آوے تمثاِل بتاں گر نہ رکھے پنبۂ مرہم آئینہ بہ عریانئِی داِغ جگر آوے ہر غنچہ اسد بارگِہ شوکِت گل ہے دل فرِش رِہ ناز ہے بیدل اگر آوے
غزل نمبر 267 260 260۔ مفتی انوار الحق کے مطبوعہ نسخے میں اس مصرع کی صورت یہ ہے: ش نالہ سے یا رب خبر آوے قاصد تپ ِ مولنا عرشی نے "سے" کو سہو کاتب بتایا ہے اور مصرع کو وہ صورت دی ہے جو یہاں متن میں اختیار کی گئ ہے۔
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے نگاہ دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے بہ حلقۂ خِم گیسوۓ راستی آموز دہاِن مار سے گویا صبا نکلتی ہے گ شیشہ ہوں یک گوشۂ دِل خالی برن ِ کبھی پری مری خلوت میں آنکلتی ہے فشاِر تنگئِی صحبت سے آتی ہے شبنم صبا جو غنچے کی خلوت میں جا نکلتی ہے نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آِب تیغ نگاہ ِ کہ زخِم روزِن در سے ہوا نکلتی ہے ض نیاز تھی دِم قتل اسد کو حسرِت عر ِ ہنوز یک سخِن بے صدا نکلتی ہے
غزل نمبر 268 چار سوۓ عشق میں صاحب دکانی مفت ہے نقد ہے داِغ دل اور آتش زبانی مفت ہے زخِم دل پر باندھیے حلواۓ مغِز استخواں تندرستی فائدہ اور ناتوانی مفت ہے نقِد انجم ) 261(261تا بہ کے از کیسہ بیروں ریختن یعنیاے پیِر فلک شاِم جوانی مفت ہے گر نہیں پاتا دروِن خانہ ہر بیگانہ جا بر دِر نکشودۂ دل پاسبانی مفت ہے چونکہ بالۓ ہوس پر ہر قبا کوتاہ ہے بر ہوس ہاۓ جہاں دامن فشانی مفت ہے یک نفس ہر یک نفس جاتا ہے قسِط عمر میں ُ حیف ہے ان کو جو کہویں زندگانی مفت ہے مال و جاہ دست و پاۓ زر خریدہ ہیں اسد پس بہ دل ہاۓ دگر راحت رسانی مفت ہے
260 261۔ مفتی انوار الحق کے نسخے میں )نیز نسخۂ عرشی میں( "نقد رنجم" چھپ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے "نقِد انجم" پڑھنا چاہیے ۔
غزل نمبر 269 گ تسلی ہے بے تابئِی یاِد دوست ہم رن ِ ش لیلی ہے ش مجنوں محمل ک ِ موِج تپ ِ کفلت کشئِی ہستی بدناِم دو رنگی ہے یاں تیرگئِی اختر خاِل رِخ زنگی ہے دیدن ہمہ بالیدن گردن) 262(262ہمہ افسردن خوشتر ز گل و غنچہ چشم و دِل ساقی ہے وہم طرِب ہستی ایجاِد سیہ مستی تسکیں دِہ صد محفل یک ساغِر خالی ہے زنداِن تحمل میں مہماِن تغافل ہیں بے فائدہ یاروں کو فرِق غم و شادی ہے ہو وے نہ غباِر دل تسلیِم زمیں گیری مغرور نہ ہو ناداں سر تا سِر گیتی ہے رکھ فکِر سخن میں تو معذور مجھے غالب یاں زورِق خود داری طوفانئِی معنی ہے
غزل نمبر 270 آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے ایسا کہاں سے لؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ہے انتظار سے شرر آباِد رستخیز مژگاِن کوہکن رِگ خارا کہیں جسے حسرت نے ل رکھا تری بزِم خیال میں گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے کس فرصِت وصال پہ ہے گل کو عندلیب زخِم فراق خندۂ بے جا کہیں جسے ہے تار و پوِد فرِش تبسم بہ بزِم عیش صبح بہار پنبۂ مینا کہیں جسے ِ پھونکا ہے کس نے گوِش محبت میںاے خدا افسوِن انتظار تمنا کہیں جسے یارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو یہ محشِر خیال کہ دنیا کہیں جسے سر پر ہجوِم درِد غریبی سے ڈالیے وہ ایک مشِت خاک کہ صحرا کہیں جسے 262 262۔ عرشی" :کردن"۔
ہے چشِم تر میں حسرِت دیدار سے نہاں شوِق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
غزل نمبر 271 شبنم بہ گِل للہ نہ خالی ز ادا ہے داِغ دِل بے درد نظر گاِہ حیا ہے ش کثرِت اظہار دل خوں شدۂ کشمک ِ آئینہ بدسِت بِت بدمسِت حنا ہے تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق ُ آئینہ بہ انداِز گل آغوش کشا ہے س رنگ قمری کِف خاکستر و بلبل قف ِ اے نالہ نشاِن جگِر سوختہ کیا ہے ُ مجبورئِی دعواۓ گرفتارئِی الفت دامن تِہ سنگ آمدہ احراِم وفا ہے سر رشتۂ بے تابئِی دل در گرِہ عجز پرواز بہ خوں خفتہ و فریاد رسا ہے اے پرتِو خورشیِد جہاں تاِب ادھر بھی سایے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے معلوم ہوا حاِل شہیداِن گزشتہ تیغ ستم آئینۂ تصویر نما ہے ِ بیگانگئِی خلق سے بیدل نہ ہو غالب کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے
غزل نمبر 272 ُ ُ اگر گل حسن و الفت کی بہم جو شیدنی جانے پِر بلبل کے افسردن کو دامن چیدنی جانے ُ فسوِن حسن سے ہے شوخئِی گلگونہ آرائی بہار اس کی کِف مشاطہ میں بالیدنی جانے نواۓ بلبل و گل پاسباِن بے دماغی ہے بہ یک مژگاِن خوباں صد چمن خوابیدنی جانے زہے شب زندہ داِر انتظارستاں کہ وحشت سے ک مہ سوزن آسا چیدنی جانے مژہ در پیچ ِ خوشا شوقے کہ جوِش حیرِت انداِز قاتل سے نگہ شمشیر میں جوں جوہر آرامیدنی جانے
جفا شوخ و ہوس گستاِخ مطلب ہے مگر عاشق نفس در قالِب خشِت لحد دزدیدنی جانے نواۓ طائراِن آشیاں گم کردہ آتی ہے گ رفتہ بر گردیدنی جانے تماشاۓ کہ رن ِ اسد جاں نذِر الطافے کہ ہنگاِم ہم آغوشی ُ زباِن ہر سِر مو حاِل دل پرسیدنی جانے
غزل نمبر 273 ش داغ ہے سوختگاں کی خاک میں ریزِش نق ِ آئنۂ نشاِن حال مثِل گِل چراغ ہے لطِف خماِر مے کو ہے در دِل ہمدگر اثر پنبۂ شیشۂ شراب کف بہ لِب ایاغ ہے مفِت صفاۓ طبع ہے جلوۂ ناِز سوختن داِغ دِل سیہ دلں مردِم چشِم زاغ ہے ش یاِر مہرباں عیش و طرب کا ہے نشاں رنج ِ ُ دل سے اٹھے ہے جو غبار گرِد سواِد باغ ہے شعر کی فکر کو اسد چاہیے ہے دل و دماغ عذر کہ یہ فسردہ دل بے دل و بے دماغ ہے
رباعیات رباعی نمبر 1 بعد از اتماِم بزِم عیِد اطفال ش حال ایاِم جوانی رہے ساغر ک ِ آ پہنچے ہیں تا سواِد اقلیِم عدم اے عمِر گزشتہ یک قدم استقبال
رباعی نمبر 2 ہر چند کہ دوستی میں کامل ہونا ممکن نہیں یک زبان ویک دل ہونا ُ میں تجھ سے اور مجھ سے تو پوشیدہ ہے مفت نگاہ کا مقابل ہونا
رباعی نمبر 3 شب زلف و رِخ عرق فشاں کا غم تھا کیا شرح کروں کہ طرفہ تر عالم تھا رویا میں ہزار آنکھ سے صبح تلک ک چشم چشِم نم تھا ہر قطرۂ اش ِ
رباعی نمبر 4 دل تھا کہ جو جاِن درد تمہید سہی بیتابئِی رشک و حسرِت دید سہی ہم اور فسردناے تجلی افسوس تکرار روا نہیں تو تجدید سہی
رباعی نمبر 5 ساماِن ہزار جستجو یعنی دل ش خوِن آرزو یعنی دل ساغر ک ِ پشت و رِخ آئنہ ہے دین و دنیا ُ منظور ہے دو جہاں سے تو یعنی دل
رباعی نمبر 6
اے کاش بتاں کا خنجِر سینہ شگاف پہلوۓ حیات سے گزر جاتا صاف ایک ستمہ لگا رہا کہ تا روزے چند رہیے نہ مشقِت گدائی سے معاف
رباعی نمبر 7 اے کثرِت فہِم بے شمار اندیشہ ہے اصِل خرد سے شرمسار اندیشہ یک قطرۂ خون و دعوِت صد نشتر یک وہم و عبادِت ہزار ندیشہ
رباعی نمبر 8 دل سوِز جنوں سے جلوہ منظر ہے آج گ زمانہ فتنہ پرور ہے آج نیرن ِ یک تاِر نفس میں جوں طناِب صناع گ دیگر ہے آج ہر پارۂ دل برن ِ
رباعی نمبر 9 گر جوہِر امتیاز ہوتا ہم میں رسوا کرتے نہ آپ کو عالم میں ہیں نام و نگیں کمیں گِہ نقِب شعور یہ چور پڑا ہے خانۂ خاتم میں
رباعی نمبر 10 ہے خلِق حسد قماش لڑنے کے لیے وحشت کدۂ تلش لڑنے کے لیے مغروِر وفا نہ ہو کہ جوں کاغِذ باد ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لیے
رباعی نمبر 11 مشکل ہے ز بس کلم میرااے دل ُ ُ ُ سن سن کے اسے سخنوراِن کامل آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمایش گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل
ضمیمہ ُ خاتمۂ دیوان کے بعد جلد ساز نے جو سادہ اوراق لگاۓ ہیں ان میں پانچ صفحوں پر بدخط اور غلط نگار کاتب نے حسب ذیل غزلیں نقل کی ہیں۔ )یہ تمام غزلیات نسخۂ شیرانی کے متن میں موجود ہیں(۔ صفحۂ اول
غزل نمبر 274 دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجاۓ ہے میں اسے دیکھوں بھل کب مجھ سے دیکھا جاۓ ہے ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے آبگینہ تندئِی صہبا سے پگھل جاۓ ہے غیر) 263(263کو یارب وہ کیوں کر منع گستاخی کرے ُ گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جاۓ ہے شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جاۓ ہے دور چشِم بد تری بزم طرب سے واہ واہ نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جاۓ ہے گر چہ ہے طرِز تغافل پردہ داِر راِز عشق پر ہم ایسے کھوۓ جاتے ہیں کہ وہ پاجاۓ ہے ُ اس کی بزم ارآئیاں سن کر دِل رنجور یاں ش مدعاۓ غیر بیٹھا جاۓ ہے مثِل نق ِ ہو کے )264(264عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا رنگ کھلتا جاۓ ہے جتنا کہ اڑتا جاۓ ہے نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھینچتا جاۓ ہے سایہ میرا مجھ سے مثِل دود بھاگے ہے اسد پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جاۓ ہے
غزل نمبر 275 گرِم فریاد رکھا شکِل نہالی نے مجھے تب اماں ہجر میں دی برِد لیالی نے مجھے 263 263۔ یہ مصرع کاتِب غزل نے اس طرح نقل کیا ہے: غیر کو کیونکر وہ یارب۔۔۔ 264 264۔ کاتب نے یہ مصرع یوں لکھا ہے" :ہو کے عاشق وہ پری وش اور نازک بن گیا" مگر لفظ "وش" کے اوپر لفظ "رخ" بھی درج کیا ہے۔
نسیہ و نقد دو عالم کی حقیقت معلوم لے لیا مجھ سے مری ہمِت عالی نے مجھے کثرت آرائی وحدت ہے پرستارئِی وہم کردیا کافر ان اصناِم خیالی نے مجھے زندگی میں بھی رہا ذوق فنا کا مارا نشہ بخشا غضب اس ساغِر خالی نے مجھے س گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا ہو ِ عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے بسکہ تھی فصِل خزاِن چمنستاِن سخن گ شہرت نِہ دیا) 265(265تازہ خیالی نے مجھے رن ِ جلوۂ خور سے فنا ہوتی ہے شبنم غالب کھو دیا سطوِت اسماۓ جللی نے مجھے صفحۂ دوم
غزل نمبر 276 پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے سینہ جو یاۓ زخِم کاری ہے پھر جگر کھودنے لگا ناخن آمِد فصِل للہ کاری ہے قبلۂ مقصِد نگاِہ نیاز پھر وہی پردۂ عماری ہے س رسوائی چشم دلِل جن ِ دل خریداِر ذوِق خواری ہے وہ ہی صد رنگ نالہ فرسائی وہ ہی صد گونہ اشک باری ہے دل ہواۓ خراِم ناز سے پھر محشرستاِن بے قراری ہے ض ناز کرتا ہے جلوہ پھر عر ِ روز بازاِر جاں سپاری ہے ُ پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں پھر وہی زندگی ہماری ہے پھر کھل ہے دِر عدالِت ناز گرم بازاِر فوجداری ہے ہو رہا ہے جہان میں اندھیر زلف کی پھر سررشتہ داری ہے پھر دیا پارۂ جگر نے سوال ایک فریاد و آہ و زاری ہے 265265۔ کاتب نے یوں لکھا ہے" :رنگ شھرت ندیا نادیا تازہ خیالی نے مجھے"۔
پھر ہوۓ ہیں گواِہ عشق طلب اشک باری کا حکم جاری ہے دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا آج پھر اس کی روبکاری ہے بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
غزل نمبر 277 چاہیے خوباں کو جتنا چاہیے یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے صحبِت رنداں سے واجب ہے حذر جاۓ مے اپنے کو کھینچا چاہیے دل تو) 266(266ہو اچھا نہیں ہے گر دماغ کچھ تو اسباِب تمنا چاہیے چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے ّ چاک مت کر جیب بے ایاِم گل ُ کچھ ادھر کا بھی اشارا چاہیے دوستی کا پردہ ہے بیگانگی منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے اپنی رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے صفحۂ سوم
دشمنی نے میری کھویا غیر کو کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے ُ منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید ُ ُ نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے ق چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے چاہنے وال بھی اچھا چاہیے
266 266۔ کاتب " :دل کو"
غزل نمبر 278 وہ آکے خواب میں تسکیِن اضطراب تو دے ش دل مجاِل خواب تو دے ولے مجھے تپ ِ کرے )267(267ہے قتل لگاوٹ مین تیرا رو دینا تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے ِ 268 ش لب ہی تمام کر ہم کو دکھا) (268کے جنب ِ نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے یہ کون کہوے ہے آباد کر ہمیں لیکن کبھی زمانہ مراِد دِل خراب تو دے پل دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے پیالہ گر نہی دیتا نہ دے ،شراب تو دے اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
غزل نمبر 278 کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجاۓ ہے مجھ سے جفائیں کر کے اپنی یاد ،شرما جاۓ ہے مجھ سے ُ خدایا جذبۂ دل )269(269کی مگر تاثیر الٹی ہے کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جاۓ ہے مجھ سے وہ بدخو اور میری داستاِن عشق) 270(270طولنی عبارت مختصر ،قاصد بھی گھبرا جاۓ ہے مجھ سے ُ ادھر) 271(271وہ بدگمانی ہے ِادھر یہ ناتوانی ہے ُ نہ) 272(272پوچھا جاۓ ہے اس سے نہ بول جاۓ ہے مجھ سے ُ سنبھلنے دے مجھےاے نا امیدی)273 (273کیا قیامت ہے ُ کہ داماِن خیاِل یار چھوٹا جاۓ ہے مجھ سے ہوۓ ہیں پاؤں ہی پہلے نبرِد عشق میں زخمی نہ بھاگا جاۓ ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جاۓ ہے مجھ سے
267 267۔ کاتب" :کرے قتل لگاوٹ میں ۔۔۔" 268 268۔ کاتب" :دیکھا جنبش لب ہی۔۔۔" 269 269۔ پہلے "جذبہ" کے بعد"الفت" لکھا ہے ،پھر اسے کاٹ دیا ہے اور آگے مصرع موجودہ شکل میں لکھا ہے۔ 270 270۔ کاتب" :داستانی شوق طولنی" لطف یہ ہے کہ یہاں کے شعروں میں کہیں کہیں غالب کی تحریر کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔ 271 271۔ کاتب" :اودہر وہ بدگمانی ہے ایدہر یہ ناتاوانی ہے"۔ 272 272۔ کاتب" :نہ پوچھا جاۓ ہے مجھ ۔۔۔"۔ 273 273۔ "ناامیدی کو"ناامید" درج کیا ہے مگر پھر بھی یہ مصرع غالب کا لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
صفحۂ چہارم
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالب وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جاۓ ہے مجھ سے
غزل نمبر 280 مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوۓ جوِش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوۓ کرتا ہوں جمع پھر جگِر لخت لخت کو عرصہ ہوا ہے دعوِت مژگاں کیے ہوۓ پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوۓ ہیں چاک گریباں کیے ہوۓ 274 ش جراحِت دل کو چل ہے عشق ) (274پھر پرس ِ ساماِن صد ہزار نمک داں کیے ہوۓ پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بخوِن دل ساِز چمن طرازئِی داماں کیے ہوۓ باہمدگر ہوۓ ہیں دل و دیدہ پھر رقیب نظارہ و خیال کا سامان کیے ہوۓ دل پھر طواِف کوۓ ملمت کو جاۓ ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوۓ پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب ض متاِع عقل و دل و جاں کیے ہوۓ عر ِ 275 دوڑے ہے پھر ہر ایک گل وللہ پر خیال صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوۓ صفحۂ پنجم 276
پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا)(276 جاں نذِر دل فریبئِی عنواں کیے ہوۓ ڈھونڈے ہے پھر کسی کو لِب بام پر ہوس زلِف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوۓ مانگے ہے پھر کسی کو مقابل میں) 277(277آرزو سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوۓ اک نو بہاِر ناز کو چاہے ہے پھر نگاہ چہرہ فروِغ مے سے گلستاں کیے ہوۓ ً 274 274۔ اس سے ما قبل کا شعر اس نقل میں شامل نہیں ہے۔ کاتب سے شاید سہوا حذف ہو گیا ہے۔ 275 275۔ کاتب" :دوڑے ہے ایک گل و للہ پر خیال"۔ 276 276۔ کاتب" :پھر بتا )بجاۓ ،چاہتا" کے( ہوں نامۂ اعمال )اعمال ،کا لفظ کاٹ دیا ہے( دلدار کھولنا"۔ 277 277۔ کاتب نے "مقابل" کے بعد "میں" نہیں لکھا۔
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت ،کہ رات دن بیٹھے رہیں تصوِر جاناں کیے ہوۓ پھر دل میں ہے کہ در پہ کسو کے پڑے رہیں سر زیِر باِر منِت درباں کیے ہوۓ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوِش اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوۓ اختتام ای بک :دیواِن غالب ) نسخۂ حمیدیہ /نسخۂ بھوپال( تصحیح :جویریہ مسعود )سوات ،پاکستان( تاریخ شروِع تصحیح 1 :اپریل 2007عیسوی۔ بوقت 09-17رات ِ تاریخ اختتام 14 :اپریل 2007عیسوی۔ بوقت 11-30رات ِ